
عنوان | کلام شاہ عبداللطیف رح |
---|---|
شارح / محقق | شيخ اياز |
ڇپائيندڙ | سنڌيڪا اڪيڊمي |
ڇپجڻ جي تاريخ | 2005-01-01 |
ايڊيشن | 1 |
سر کلیان
پہلی داستان
1
تیری ہی ذات اول و آخر تو ہی قائم ہے اور تو ہی قدیم
تجھ سے وابستہ ہر تمنا ہے تیرا ہی آسرا ہے ربّ کریم
کم ہے جتنی کریں تیری توصیف تو ہی اعلیٰ ہے اور تو ہی علیم
والیِ شش جہات واحد ذات رازقِ کائنات، ربِ رحیم
2
اگر اللہ پر رکھتے ہو ایماں رسول اللہ سے بھی لو لگائو
سمائے جس میں ان دونوں کا سودا کسی در پر نہ اس سر کو جھکائو
3
جنہوں نے دل سے اس یکتا کو مانا محمد کو بصد اخلاص جانا
نہ ان کو کوئی گمراہی کا خطرہ نہ ان سے دور ہے ان کا ٹھکانا
4
کامل ایماں کے ساتھ جس نے بھی دل سے مانا زبان سے مانا
جس کی خاطر بنی ہے یہ دنیا اس محمد کا مرتبہ جانا
فوقیت اس کو دوسروں پہ ملی اپنی ہستی کو اس نے پہچانا
جس نے اس قادر حقیقی کو وحدہٗ لا شریک گردانا
5
ہیں ازل ہی سے بے نیازِ الم راز دارانِ جلوہٗ معبود
گمراہی دور ہی رہی ان سے مل گئی ان کو منزلِ مقصود
واقفِ وحدتِ احد ہو کر ہو گئے ایک شاہد و مشہود
6
پرتو حسنِ دوست ہے جن پر ان کے دل روشنی سے ہیں معمور
اپنی دنیا الگ بسائی ہے خوف و رنج و غم و الم سے دور
7
قتیل ذکرِ الااللہ ہیں وہ ہوئے جو واقفِ اسرار وحدت
حقیقت آشنا ہے روح ان کی بذات خود ہیں وہ خضر طریقت
سکوتِ معرفت اُن کے لبوں پر نگاہوں میں مسافت ہی مسافت
ہمیشہ بے نیازِ عیش و عشرت "لطیف" ان عاشقوں پرحق کی رحمت
8
مقامِ کشتگانِ تیغ وحدت کمالِ آدمیت اوجِ ایماں
"لطیف" اس راستے پر جو چلے ہیں وہی ہیں صاحبِ ایمان و عرفان
9
کشتۂ "وحدہٗ" ہوئے جو لوگ ان کو ’’اِلاّ" نے کردیا دو نیم
خوف سے جرأت آزما نہ ہوا پھر کسی اور کا سرِ تسلیم
10
جسم موجود ہے تو سر غائب سر اگر مل گیا تو جسم نہیں
کچھ بھی اس کے سوا نہیں معلوم منزلِ دوست میں ہیں اہل یقیں
11
وحدہٗ لا شریک کے عاشق سن سکا تو نہ اپنے دل کی پکار
جب ترے سامنے وہ آئیں گے ضبط ہو جائیگا تجھے دشوار
12
وحدہٗ لا شریک کا سودا فکرِ سود و زیاں سے برتر ہے
ہے یہی تیری منزلِ مقصود اور تو خود ہی اپنا رہبر ہے
کاش وہ تشنگی ملے تجھ کو جس کا انعام حوضِ کوثر ہے
13
وحدہٗ لا شریک شرطِ وفا رہِ ہموارِ منزلِ توحید
جس کسی نے دوئی کو اپنایا اپنی منزل سے ہو گیا وہ بعید
14
ہو گئے ایک مل کے ذات و صفات مٹ گیا فرق عاشق و معشوق
ہم ہی کوتاہ بیں رہے ورنہ وہی خالق ہے اور وہی مخلوق
15
کبھی وحدت کی تنہائی میں کثرت کبھی کثرت کے ہنگاموں میں وحدت
مگر ان سارے ہنگاموں کی تہ میں بس اک محبوب ہے اور اس کی صورت
16
غیر محدود ہے جلال اس کا دھر آئینۂ جمال اس کا
آپ رہبر ہے آپ ہی راہی ختم خود اس پہ ہے کمال اس کا
اس کا احساس ہر جگہ ہر وقت کہ ہمہ گیر ہے خیال اس کا
روح انساں میں جلوہ فرما ہے پر تو حسنِ بے مثال اس کا
17
خالقِ حسن کائنات ہے خود خود ہی اس کائنات کا محبوب
آپ ہی اپنا آئینہ ہے وہ خود ہی طالب ہے اور خود مطلوب
18
آپ ہی دوست آپ ہی دشمن آپ آغاز آپ ہی انجام
اصل میں اک حقیقت من و تو درمیاں لاکھ پردۂ اوہام
زندگی، موت، سانس، دل کی پھانس کون جانے ہیں تیرے کتنے نام
19
یہ صدا اور بازگشت صدا اصل دونوں کی ایک جیسی ہے
اپنی آواز کی دوئی پہ نہ جا کہ سماعت فریب دیتی ہے
20
قصر ہے ایک اور در لاکھوں ہر طرف بے شمار ہیں روزن
مجھ کو ہر سمت سے نظر آیا جلوہ گر ایک ہی رخِ روشن
21
مظہر حسنِ ذاتِ باقی ہے اے محبت ترا ہجومِ صفات
جلوہٗ حسن یار ہر شے میں جلوہٗ حسنِ یار کی کیا بات
وائي
ہر کوئی اپنے ساجن کی کرتا رہتا ہے پوجا
گن ہیں جس کے بول بول میں نینوں میں ہے نیہا
ساجن پہلے جان گئے جو میں نے چت میں سوچا
گن ہیں جس کے بول بول میں نینوں میں ہے نیہا
سنو ’’لطیف‘‘ کی لے کو اس میں بھید ہے اس کے من کا
گن ہیں جس کے بول بول میں نینوں میں ہے نیہا
دوسری داستان
1
وہ عیادت کو چل کے آئے ہیں آگئی راس مجھ کو بیماری
دیکھ کر مجھ کو ایسی حالت میں رنج و غم ان پہ ہو گیا طاری
برسرِ دار ہوکے دیکھی ہیں میں نے ان کی بھلائیاں ساری
2
نہیں ان چارہ سازوں میں بصیرت کہو ان سے نہ میرا جی جلائیں
اذیت ہے مسلسل چارہ سازی پلاتے ہیں دوائوں پر دوائیں
جو سولی ہی کو اپنی سیج سمجھیں وہ کیوں مرنے سے آخر جی چرائیں
3
دیکھیں چلتا ہے کون اے سکھیو ہم کو سولی نے پھر پکارا ہے
انہیں جانا پڑے گا آخر کار جنہیں ساجن کا نام پیارا ہے
4
کہہ رہی ہے پکار کر سولی دیکھنا اب قدم نہ پیچھے ہٹے
عاشقو! دعویٰ وفا ہے غلط گر رہِ دوستی میں سر نہ کٹے
5
سر سے پا تک خلوصِ عزم شعار جلوۂ بے نقاب سے دو چار
سولی ہے ایسے عاشقوں کا سنگھار سر بریدہ رہیں گے سارے یار
یہی روز ازل سے ہے اقرار سولی ہے ایسے عاشقوں کا سنگھار
تیز نیزوں کی دیکھ کر یلغار مانتے ہیں ’’لطیف‘‘ کب وہ ہار
سولی ہے ایسے عاشقوں کا سنگھار
6
دار و دیدار کی نوید سنی مرحبا کشتگان جلوہٗ یار
اوج کی انتہا پہ جا پہنچے مطمئن ہوگئے خلوص شعار
7
بر سر دار طالبِ دیدار اور کہتے ہیں کس کو اوج مقام
مڑ کے دیکھا نہیں کبھی پیچھے آگے بڑھتے رہیں گے گام بہ گام
8
تمنا دار کی دل سے نہ جائے کہ ہوگا دار سے دیدار حاصل
محبت ہرقدم پر رہنما ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہے تجھ کو مشکل
9
چھری پیوست ہو جانے دو پہلے ابھی پوچھو نہ انجام محبت
ہم آہنگ سرود زیست کر لو غم محبوب و آلام محبت
10
کسی کے ہاتھ میں ہے اس کا قبضہ نہیں خود موردِ الزام خنجر
رخِ محبوب کی نظارگی سے لرز جاتا ہے یہ لوہا بھی اکثر
11
اس کے خنجر کو کند رہنے دو دھار اس کی نہ تیز ہوپائے
جب چلانے لگے مرا محبوب ہاتھ کچھ دیر کو ٹھہر جائے
12
خنجر اس شاہدِ حقیقی کا گوشت کیا ہڈیوں کو چیر گیا
خنجرِ شاہدِ حقیقی سے تنِ عاشق کا بند بند جدا
13
رہِ محبوب ہے شمشیر کی دھار دمِ شمشیر سے ہر گز نہ ڈرنا
بہت کمیاب ہے یہ دولتِ عشق تم اپنے زخم کا چرچا نہ کرنا
14
تمہیں بھی جان دینا ہے تو آئو کہ مشتاقِ شہادت صف بہ صف ہیں
یہاں سے کون گذرا ہے سلامت کہ سب اس دیس میں خنجر بکف ہیں
15
محبت ہے مجھے ان قاتلوں سے جو رکھتے ہیں کفِ نازک میں خنجر
رواں ہوں سوئے میدانِ شہادت کہ اک مدت سے بارِ دوش ہے سر
16
جو آگے بڑھ گئے جاں دے چکے ہیں کئی سر آچکے ہیں زیرِ خنجر
جو پیچھے رہ گئے ہیں بڑھ رہے ہیں کہ ان کو بھی شہادت ہو میسر
نہ اس منزل کو تم آساں سمجھنا بڑھے آگے تو سر ہو گا زمیں پر
یہ ہے وہ میکدہ بہتا ہے جس میں لہو بھی بادۂ گلرنگ بن کر
17
اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا تو اس پیر مغاں کے در پہ جائو
قریبِ ہر خمِ مے عاجزی سے تم اپنے کاسۂ سر کو جھکائو
اگر ہو سر فروشِ مے پرستی تو بہر جرعہ یہ بازی لگائو
یہ مستی سر کے بدلے میں ہے سستی اٹھو آگے بڑھو ساغر اٹھائو
18
اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا تو اس پیر مغاں کے در پہ جائو
جو کہتا ہے "لطیف" اس کو سنو تم سر اپنا کاٹ کر خم سے ملائو
خریدو اسکے بدلے تم یہ سودا نہ خالی ہاتھ جام مے اٹھائو
19
جہاں بکتی ہے، اس کوچے میں جائو اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا
رموز مے فروشی ہیں نرالے کوئی سمجھا انہیں کوئی نہ سمجھا
خمار چشم جاناں کی، قسم ہے یہ سودا، سر کے بدلے بھی ہے سستا
20
جہاں بکتی ہے، اس کوچے میں جائو اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا
ملامت، تہمت ہستی، شہادت عجب دستور ہے اس مے کدے کا
اگر اک کوزۂ مے تم کو مل جائے تو ہر قیمت پہ یہ سودا ہے سستا
21
وہاں دولت نہ کام آئے گی "سید" جہاں کونین ہے جرعے کی قیمت
قریبِ خم پہنچ کر جان دیدو یہی اک کامرانی کی ہے صورت
22
غذائے عاشقاں ہے، زہر قاتل اسے وہ دیکھ کر، ہوتے ہیں شاداں
فدائے ہر ادائے قاتلانہ نثارِ جنبشِ زنجیرِ زنداں
چھپائے ہیں دلوں میں زخم کاری تبسم ریز ہیں لب ہائے خنداں
23
جو تیرا دل مصائب سے، ہے خائف نہ کر بادہ پرستی کی تمنا
رگوں سے کھینچ لے جو، روح ساری مبارک ہے مزہ اس جام مے کا
جو سر کو کاٹ کر بھٹی پہ رکھ دیں انہیں کو راس آتا ہے یہ سودا
24
نہیں ہے جرأت رندانہ جن میں انہیں زیبا نہیں مے کی تمنا
وہ ساقی آئے گا خنجر بکف جب تو فوراً رنگ اڑ جائیگا ان کا
انہیں زیبا ہے شغلِ جرعہ نوشی جنہیں منظور اپنے سر کا سودا
25
ہوا ہے پارہ پارہ جسم ان کا الگ ہے دیگ میں ایک ایک ٹکڑا
ہتھیلی پر جو سر کو لے کے اٹھے انہی کو زیب دیتی ہے تمنا
26
ابلتے ہیں یہاں دیگوں میں ٹکڑے کھڑکتی ہے یہاں ہر دم کڑھائی
جہاں یہ حال ہو اہل طلب کا وہاں کیا چارہ سازوں کی رسائی
27
طلب گار سر رنداں ہے ساقی
نہ جانے مغبچے کیا مانگتے ہیں
28
بہر عنواں تمنائے محبت بہر صورت جنونِ سرفروشی
’’لطیف" ان عاشقوں کی جاں نثاری لطیف اِن عاشقوں کی گرم جوشی
29
نہیں ان عاشقوں کو سر کی پروا خلوص دل ہے بارِ سر سے بہتر
کہیں اچھی ہے جلدو استخواں سے محبت کی شمیمِ روح پرور
30
فقط سر دے کے کب ہوتا ہے سودا نہ سمجھو اتنا ارزاں عاشقی کو
یہ نعمت اے ہجوم سر فروشاں مقدر ہی سے ملتی ہے کسی کو
31
گراں ہے عاشقوں کا قطرہٗ خوں ٹپکنے میں ہے اس کی قدر و قیمت
نگاہ ناز جاناں جلوہٗ دوست محبت کرنے والوں کی عبادت
وائي
مدھہ پی کے میں نے اپنے پیارے ساجن کو پہچان لیا
یہ پریت کا ناتا کرکے میں نے جانے کیا کیا جان لیا
ساجن کو پہچان لیا
اس پار کی اگنی ہے من میں، جس پار سے میں نے گیان لیا
ساجن کو پہچان لیا
یہ جگ ہے دو دن کی مایا، ساجن ہم نے یہ مان لیا
ساجن کو پہچان لیا
کہے ’’لطیف‘‘ کہ تو ہی تو ہے، یہ سارا جگ چھان لیا
ساجن کو پہچان لیا
تیسری داستان
1
آگ دل میں لگا کے چھوڑ گئے تابِ غم آزما کے چھوڑ گئے
چارہ سازوں سے اب کسے امید تم ہی اپنا بنا کے چھوڑ گئے
2
ایک تیرے سوا مرے قاتل
کون ہے جس کو چارہ ساز کہیں
3
میرا ہادی مرا حبیب ہوا مل گیا ایک مہرباں مجھ کو
لے گیا اپنے ساتھ درد مرا دے کے آرامِ جسم و جاں مجھ کو
4
درد اس کا شدید تر ہو جائے جس کا محبوب چارہ گر ہو جائے
اور کوئی ہو چارہ ساز اگر چارۂ درد بے اثر ہو جائے
اس کو حاجت نہیں مسیحا کی جس پہ محبوب کی نظر ہو جائے
5
جب سے محبوب چارہ ساز ہوا ہو گیا دور دل کا ہر آزار
وہی غمخوار بن کے آیا ہے ہم سمجھتے رہے جسے قہار
ایک انعام ہے دلِ پر خوں ایک نعمت ہے زخم خنجر یار
ہاتھ اس کا رگوں پہ رہتا ہے آشنائے نفس ہے وہ ہشیار
6
کیا تڑپنا کراہنا کیسا نغمہ زن ہیں رگیں مثالِ رباب
وہی مرہم عطا کرے گا مجھے جس نے دل کو کیا جلا کے کباب
اس کا شکوہ کریں کہ شکر کریں خود ہی راحت ہے اور خود ہی عذاب
7
رہ عزت ہو یا رہِ ذلت میں ہوں اور شوقِ جادہ پیمائی
کرے گمراہ یا بنے رہبر سر فرازی ملے کہ رسوائی
8
راز دارانہ طور پر اس نے عاشقی کے رموز سمجھائے
دولت صبر دی کہ درد مرا چارۂ درد خود ہی بن جائے
لے کے بیٹھا ہوں جنس عجزو نیاز آج تک خود نہ سامنے آئے
9
اس کے در پر جھکی ہے جس کی جبیں اور در ہوگئے سب اس پر حرام
تو بھی اس کے حضور سر کو جھکا دل میں کب تک یہ آرزوئے سلام
10
اس قدر بھی وہ بے نیاز نہیں ہر نظر میں پیام ہوتا ہے
لب جاناں خموش رہ کر بھی کتنا شیریں کلام ہوتا ہے
11
تو کرم کو سمجھ رہا ہے ستم یہ ہے تیرا قصورِ کم بینی
تو نے تلخی کہا اسے ورنہ اس کی ہر بات عین شیرینی
12
جو دانستہ تجھے اپنا بنائے
کہاں وہ شکوۂ غم لے کے جائے
13
تجھ کو جس کی بڑی تمنا ہے آپ ہے وہ ترا تمنائی
ذکر جس کا تری زباں پر ہے خود ترے ذکر کاہے شیدائی
دشنہ در دست اور قند بلب ہائے اے دوست تیری خود رائی
14
مسکرا کر کبھی پکارا تھا میرے محبوب نے مجھے اک بار
پھر مرے دل میں عمر بھر کے لئے رہ گیا اس کا درد بے آزار
15
میں نے صبحِ الست دیکھی تھی تابش جلوہٗ رخِ جاناں
چٹکیاں لے رہا ہے رگ رگ میں آج تک اس کا دردِ بے درماں
16
جنہیں تیری محبت کی لگن ہے انہیں شکوہ نہیں رنج و بلا کا
وہ سب سے پوچھتے ہیں مسکرا کر کہاں ہے ہاتھ اپنے دلربا کا
دلیلِ قرب ہے ان کی شہادت یہی جینا ہے بس اہلِ وفا کا
17
نویدِ قتل شیوہ دلربا کا ترا مسلک تہِ شمشیر رہنا
اجل کا سامنا کر، یہ کہاں تک خودی سے پائے در زنجیر رہنا
18
خوف کیسا عتابِ جاناں سے اس کی نفرت میں بھی محبت ہے
مہرباں ہو کہ بدگماں ہوجائے جو تعلق ہے وہ غنیمت ہے
19
قتل کے بعد قتل سے پہلے اپنے مقتول کی نگہداری
کیوں نہ ہو اس کے زخم خوردہ کو راحتِ روح ایسی دلداری
20
خود نگہدار اور خود قاتل کیوں مرے چارہ ساز، یہ کیا ہے؟
پیار کرنا عتاب بھی کرنا ناز ہے یا نیاز، یہ کیا ہے؟
21
کیسی دوری کہاں کی نزدیکی رمزِ محبوب دیکھتے جائو
رفعتِ دار یا فراقِ یار جو بھی حصے میں آئے اپنائو
وائي
وہی بپتا میں کام آئے میرا روگ مٹائے
وہی دیالو اپنی دیا سے میری دھیر بندھائے
نیارے روپ دکھائے میرا روگ مٹائے
وہی نردھن کا رکھوالا دیکھ ریکھ کو آئے
دکھیا من بہلائے میرا روگ مٹائے
وہی آئے دکھ لے جائے تو جیون سکھ پائے
پھر جی مرا گھبرائے میرا روگ مٹائے
کہے "لطیف" کہ مجھ کو سکھیو چنچل پریتم بھائے
نینوں سے برمائے میرا روگ مٹائے
سر یمن
پہلی داستان
1
تو میرا دردِ، میری دوا، میرا چارہ ساز
تجھ سے چھپا نہیں مری درماندگی کا راز
2
میں جانتا ہوں مرے چارہ گر کہ تیرے سوا
نہ راس آئے گی دل کو کسی کی چارہ گری
مرے حبیب، مرے چارہ گر، مرے مالک
علاج ہے مرے غم کا تیری ہی چارہ گری
5
دیکھتے کیا ہو خنجر مارو اپنا ہاتھ اٹھائو
گھائل کردو، جان بھی لے لو، میری آن بڑھائو
6
ہاتھ اٹھائو خنجر مارو، مجھ کو موت گوارا ہے
کہہ نہ سکوں گی میں یہ کسی سے تم نے مجھ کو مارا ہے
7
کھینچو تیر کماں سے فوراً مارو ہاتھ اٹھا کر
صرف تمہاری ہو جائوں گی میں فتراک میں آکر
8
ناوک افگن جہاں وہ ہوتا ہے
ہوش ہر چارہ ساز کھوتا ہے
9
ہو بڑا ہی کرم مرے محبوب تو اگر خود کرے مجھے گھائل
عمر بھر زخم کھائے اور نہ ہو دل کسی چارہ ساز پر مائل
11
آہنی تیر جسم میں اُترے اور عشاق ہوگئے گھائل
چار سو زخم خوردہ جسم ہی جسم خون آلودہ ہر طرف بسمل
اپنے زخموں کے آپ ہی مرہم چارہ سازوں سے بے نیاز ہے دل
کاش ان سربریدہ لوگوں سے اک شبِ قرب ہو مجھے حاصل
12
قرب ان زخمیوں کا ہو اک رات درد بھی جن کا جاں نواز ہوا
خلوتِ روح میں بسا اوقات عشق خود ان کا چارہ ساز ہوا
13
زخمیوں کا یہ کلبۂ خاموش اور مسلسل کراہنے کی صدا
شام ہی سے ہر ایک بسمل کو مرہمِ زخم ِ دل کا فکر رہا
14
آج پھر زخمیوں کے مسکن سے آئی اندوہ ناک ایک صدا
چارہ سازوں نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور ہر زخم کھول کر دیکھا
15
ہائے یہ زخم خوردگانِ وفا شکر فرما بصد شکیبائی
قرب منزل نہیں انہیں درکار ان کا مسلک ہے جادہ پیمائی
16
تذکرے کشتگانِ شوق میں ہیں درد کی دلنواز لذت کے
لبِ خاموش اس کے شاہد ہیں ہیں وہ راز آشنا محبت کے
17
جس کی فطرت میں ہو تن آسانی جس کی آرام سے گذرتی ہے
کیا خبر اس کو خستہ حالی پر بے بسی کتنے وار کرتی ہے
ایک کروٹ بھی لے نہیں سکتا ٹیس زخموں کی جب ابھرتی ہے
رات اس با وفا کی رو رو کر یادِ محبوب میں گذرتی ہے
18
زخمِ دل سے جنہیں فراغت ہے درد رہتا ہے ان کے دل سے دور
کیا خبر ان کو کس اذیت سے لوٹتے ہیں زمیں پر رنجور
دائمی کرب، مستقل آزار جسم زخموں کی یورشوں سے چور
پھر بھی ثابت قدم محبت میں رات بھر اشکباریاں دستور
19
مری ماں! یہ آرائشِ اشکباری یہ بہرِ نمائش غم و بے قراری
نہیں نام اس کا محبت شعاری کجا یادِ جاناں کجا آہ و زاری
وائي
کیا اس کو کوئی مٹائے یہ روگ ہے میرے من کا
مرے دل میں درد سجن کا
اے چارہ سازو! جائو لیجائو دوائیں اپنی یہ گھائو ہے مجھ برھن کا
مرے دل میں درد سجن کا
وہ جی کا جیارا آئے جیون کا روگ مٹائے دن آئے پریت ملن کا
میرے دل میں درد سجن کا
دوسری داستان
1
اے چارہ گر تجھے مرے غم کی خبر کہاں
جو چارۂ فراق ہے وہ چارہ گر کہاں
میرے ہر ایک درد کا درماں ہے وہ حبیب
اس کے بغیر چارہ گری میں اثر کہاں
2
ہم درد مند چارہ گروں سے الجھ پڑے
جتنے بھی تھے علاج کے در بند ہو گئے
آخر کہیں سے ڈھونڈ کے لائے اُسے یہاں
وہ آئے، اہل درد تنومند ہو گئے
3
بے اعتدالیوں سے نحیف و نزار ہیں
خود سر ہیں اور چارہ گری کے شکار ہیں
4
بے اعتدالیاں ہوں تو کیا چارہ گر کرے
پرہیز ہی نہ ہو تو دوا کیا اثر کرے
5
کیا ان اپاہجوں کو کسی چارہ گر سے کام
ان کو دوا سے اور نہ دوا کو اثر سے کام
6
وہ آئے درد و رنج و الم خواب ہو گئے
ناقابل شفا تھے شفایاب ہو گئے
تیسری داستان
چوتھی داستان
13
جان لیوا تھا اذنِ عام ان کا کیا خطا اس میں بادہ نوشوں کی
بادہ نوشوں پہ آگیا الزام رہ گئی بات مے فروشوں کی
وائي
مرا انگ انگ مسکائے، مرے دوارے ساجن گائے
دن پریت ملن کے آئے
دن ڈھلتے ہی مرے ساجن، کتنی سندرتا لائے
دن پریت ملن کے آئے
پھر بھاگ نے کایا پلٹی، برھا کے روگ مٹائے
دن پریت ملن کے آئے
وہ پاس ہے میرے من کے، جگ جس کو دور بتائے
دن پریت ملن کے آئے
کہتا ہے "لطیف" کوی، یہ دیالو کی دیا سہائے
دن پریت ملن کے آئے
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
1
ٹھیس اپنے وقار کو نہ لگا ان کے کوچے میں بار بار نہ جا
رہگزاروں میں تو دیے نہ جلا راہ گیروں کو داغِ دل نہ دکھا
لب خاموش و حیرت ابدی راز کیف و مسرّت ابدی
وائي
ساجن پہ جائوں واری، میں ہوں برھا کی ماری
پریتم کے دوارے ہوں گے، کتنے ہی پریم پجاری
میں ہوں برھا کی ماری، تم سندر ہو ساجن
کہتی ہے دنیا ساری، میں ہوں برھا کی ماری
میں نینوں سے لگائوں، چرنوں کی دھول تمہاری
میں ہوں برھا کی ماری، کہتا ہے “لطیف” کوی یہ
پریتم کی شوبھا نیاری، میں ہوں برھا کی ماری
سر کھمبات
پہلی داستان
18
کچھ اس انداز سے ہر سمت دیکھا خمار آلودہ آنکھ اس نے اٹھا کر
مہ و خورشید و انجم تھر تھرائے ہوئی حیرت سی طاری کہکشاں پر
رخِ جاناں کے جلوئوں کے مقابل مری نظروں میں ہے ہر جلوہ کمتر
دوسری داستان
سر سورٹھ
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
سر آسا
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
سر پربھاتی
پہلی داستان
سر رامکلی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
سی حرفی
سر کھاہوڑی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
سر پورب
پہلی داستان
دوسری داستان
سر بلاول
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
سر سارنگ
پہلی داستان
دوسری داستان
1
یہ دہقان کیوں ہیں اپنے جھونپڑوں میں کہوں ان سے کہ میدانوں میں آئیں
سیہ بادل برستے جا رہے ہیں چراگاہوں میں چوپائو کو لائیں
"لطیف" اللہ کی رحمت ہو ان پر مرادیں اپنے اپنے دل کی پائیں
تیسری داستان
چوتھی داستان
6
رخ کسی کا ہے سوے ’استنبول‘ کوئی جاتی ہے ’کابل‘ و ’قندھار‘
اک ’سمرقند‘ کی طرف مائل اک گریزاںہے جانب ’گرنار‘
عازم ’روم‘ ہے کوئی بدلی اور کسی کو عزیز ہے ’ولھار‘
کوئی بدلی ہوئی ’دکن‘ کو رواں کوئی ’دلی‘ کی سمت ہے تیار
الغرض بدلیوں نے کردی ہے برق و باراں کی ہر طرف یلغار
’سندھ‘ پر بھی ترا کرم ہوجائے اے دھنی تو ہے سب کا پالن ہار
سر سریراگ
پہلی داستان
1
یاد محبوب سے گریز نہ کر کیا عجب وہ بھی تجھ کو یاد کرے
ہو کے خوش تیری وضع داری سے اپنے لطف و کرم سے شاد کرے
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
سر سامونڈی
پہلی داستان
2
جب ان کے ناخدا لنگر اٹھائیں تجھے بھی ہم سفر اپنا بنائیں
ہوئے تیار کشتیبان سارے بھری ہیں بادبانوں میں ہوائیں
بغیر ان کے نہ ہوگی کوئی رونق رہیں گی سربسر ویراں فضائیں
نہ کر اب دیر آنا ہے تو آجا یہ سوداگر روانہ ہو نہ جائیں
دوسری داستان
تیسری داستان
13
دیوالی آئی اور بیوپاریوں نے ، سکھی پھر گھاٹ سے لنگر اٹھائے
پکڑ کر ان کے چپو پیاریوں نے، نہ جانے کس قدر آنسو بہائے
اٹھائے ہیں وہ دکھ دکھیاریوں نے، جنہیں سن کر زمانہ کانپ جائے
سر کاموڈ
پہلی داستان
دوسری داستان
سر سسئی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
دسویں داستان
گیارھویں داستان
ابیات متفرقہ
سر معذوری
پہلی داستان
1
کاھشِ جاں خلوصِ قلب کے ساتھ ’ہوت‘! تیری طرف رواں ہوں میں
منتظر ہیں سگان کوچۂ یار ان کی خادم بہ جسم و جاں ہوں میں
سنگریزے ہی سنگریزے ہیں اور دیبا و پرنیاں ہوں میں
دم بخود ہوں تری تمنا میں والہانہ رواں دواں ہوں میں
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
سر دیسی
پہلی داستان
1
قیامت ہے ترا مل کر بچھڑنا خدارا روک لے ناقے کو پیارے
نہ جا ویران کر کے دل کی دنیا کہیں میں مر نہ جائوں غم کے مارے
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
سر کوہیاری
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
سر حسینی
پہلی داستان
1
یہ وقت شام یہ خاموش سائے سسئی اب دن کا اندازہ لگائے
قدم کچھ اور تیز آگے بڑھائے کہ رستے میں نہ سورج ڈوب جائے
یہ مانا بوجھ برھا کا ہے بھاری مگر جیسے بھی ہو گرنے نہ پائے
سسئی کے پیرہن کا طولِ دامن رہ پرخار میں آڑے نہ آئے
غروب آفتاب عالم افروز پیام منزل مقصود لائے
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
دسویں داستان
گیارھویں داستان
بارھویں داستان
سر لیلا چنیسر
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
سر مومل رانو
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
1
میں جلاتی رہی چراغ سحر پو پھٹی ہو گیا اجالا سا
پوچھتی ہی رہی پرندوں سے ہائے لیکن ترا نشاں نہ ملا
مررہی ہوں تری تمنا میں آ بھی جا میرے دوست آ بھی جا
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
سر بروو سندھی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
سر ڈھر
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
سر گھاتو
پہلی داستان
سر کاپائتی
پہلی داستان
سر رپ
پہلی داستان
دوسری داستان
سر کارایل
پہلی داستان
1
وحدہ کی صدا لگاتا ہے سوے افلاک اڑتا جاتا ہے
کون جانے کہاں ہے اس کی جھیل وہ جہاں چین سے نہاتا ہے