
عنوان | کلام شاہ عبداللطیف رح |
---|---|
شارح / محقق | شيخ اياز |
ڇپائيندڙ | سنڌيڪا اڪيڊمي |
ڇپجڻ جي تاريخ | 2005-01-01 |
ايڊيشن | 1 |
سر کلیان
پہلی داستان
1
تیری ہی ذات اول و آخر تو ہی قائم ہے اور تو ہی قدیم
تجھ سے وابستہ ہر تمنا ہے تیرا ہی آسرا ہے ربّ کریم
کم ہے جتنی کریں تیری توصیف تو ہی اعلیٰ ہے اور تو ہی علیم
والیِ شش جہات واحد ذات رازقِ کائنات، ربِ رحیم
2
اگر اللہ پر رکھتے ہو ایماں رسول اللہ سے بھی لو لگائو
سمائے جس میں ان دونوں کا سودا کسی در پر نہ اس سر کو جھکائو
3
جنہوں نے دل سے اس یکتا کو مانا محمد کو بصد اخلاص جانا
نہ ان کو کوئی گمراہی کا خطرہ نہ ان سے دور ہے ان کا ٹھکانا
4
کامل ایماں کے ساتھ جس نے بھی دل سے مانا زبان سے مانا
جس کی خاطر بنی ہے یہ دنیا اس محمد کا مرتبہ جانا
فوقیت اس کو دوسروں پہ ملی اپنی ہستی کو اس نے پہچانا
جس نے اس قادر حقیقی کو وحدہٗ لا شریک گردانا
5
ہیں ازل ہی سے بے نیازِ الم راز دارانِ جلوہٗ معبود
گمراہی دور ہی رہی ان سے مل گئی ان کو منزلِ مقصود
واقفِ وحدتِ احد ہو کر ہو گئے ایک شاہد و مشہود
6
پرتو حسنِ دوست ہے جن پر ان کے دل روشنی سے ہیں معمور
اپنی دنیا الگ بسائی ہے خوف و رنج و غم و الم سے دور
7
قتیل ذکرِ الااللہ ہیں وہ ہوئے جو واقفِ اسرار وحدت
حقیقت آشنا ہے روح ان کی بذات خود ہیں وہ خضر طریقت
سکوتِ معرفت اُن کے لبوں پر نگاہوں میں مسافت ہی مسافت
ہمیشہ بے نیازِ عیش و عشرت "لطیف" ان عاشقوں پرحق کی رحمت
8
مقامِ کشتگانِ تیغ وحدت کمالِ آدمیت اوجِ ایماں
"لطیف" اس راستے پر جو چلے ہیں وہی ہیں صاحبِ ایمان و عرفان
9
کشتۂ "وحدہٗ" ہوئے جو لوگ ان کو ’’اِلاّ" نے کردیا دو نیم
خوف سے جرأت آزما نہ ہوا پھر کسی اور کا سرِ تسلیم
10
جسم موجود ہے تو سر غائب سر اگر مل گیا تو جسم نہیں
کچھ بھی اس کے سوا نہیں معلوم منزلِ دوست میں ہیں اہل یقیں
11
وحدہٗ لا شریک کے عاشق سن سکا تو نہ اپنے دل کی پکار
جب ترے سامنے وہ آئیں گے ضبط ہو جائیگا تجھے دشوار
12
وحدہٗ لا شریک کا سودا فکرِ سود و زیاں سے برتر ہے
ہے یہی تیری منزلِ مقصود اور تو خود ہی اپنا رہبر ہے
کاش وہ تشنگی ملے تجھ کو جس کا انعام حوضِ کوثر ہے
13
وحدہٗ لا شریک شرطِ وفا رہِ ہموارِ منزلِ توحید
جس کسی نے دوئی کو اپنایا اپنی منزل سے ہو گیا وہ بعید
14
ہو گئے ایک مل کے ذات و صفات مٹ گیا فرق عاشق و معشوق
ہم ہی کوتاہ بیں رہے ورنہ وہی خالق ہے اور وہی مخلوق
15
کبھی وحدت کی تنہائی میں کثرت کبھی کثرت کے ہنگاموں میں وحدت
مگر ان سارے ہنگاموں کی تہ میں بس اک محبوب ہے اور اس کی صورت
16
غیر محدود ہے جلال اس کا دھر آئینۂ جمال اس کا
آپ رہبر ہے آپ ہی راہی ختم خود اس پہ ہے کمال اس کا
اس کا احساس ہر جگہ ہر وقت کہ ہمہ گیر ہے خیال اس کا
روح انساں میں جلوہ فرما ہے پر تو حسنِ بے مثال اس کا
17
خالقِ حسن کائنات ہے خود خود ہی اس کائنات کا محبوب
آپ ہی اپنا آئینہ ہے وہ خود ہی طالب ہے اور خود مطلوب
18
آپ ہی دوست آپ ہی دشمن آپ آغاز آپ ہی انجام
اصل میں اک حقیقت من و تو درمیاں لاکھ پردۂ اوہام
زندگی، موت، سانس، دل کی پھانس کون جانے ہیں تیرے کتنے نام
19
یہ صدا اور بازگشت صدا اصل دونوں کی ایک جیسی ہے
اپنی آواز کی دوئی پہ نہ جا کہ سماعت فریب دیتی ہے
20
قصر ہے ایک اور در لاکھوں ہر طرف بے شمار ہیں روزن
مجھ کو ہر سمت سے نظر آیا جلوہ گر ایک ہی رخِ روشن
21
مظہر حسنِ ذاتِ باقی ہے اے محبت ترا ہجومِ صفات
جلوہٗ حسن یار ہر شے میں جلوہٗ حسنِ یار کی کیا بات
وائي
ہر کوئی اپنے ساجن کی کرتا رہتا ہے پوجا
گن ہیں جس کے بول بول میں نینوں میں ہے نیہا
ساجن پہلے جان گئے جو میں نے چت میں سوچا
گن ہیں جس کے بول بول میں نینوں میں ہے نیہا
سنو ’’لطیف‘‘ کی لے کو اس میں بھید ہے اس کے من کا
گن ہیں جس کے بول بول میں نینوں میں ہے نیہا
دوسری داستان
1
وہ عیادت کو چل کے آئے ہیں آگئی راس مجھ کو بیماری
دیکھ کر مجھ کو ایسی حالت میں رنج و غم ان پہ ہو گیا طاری
برسرِ دار ہوکے دیکھی ہیں میں نے ان کی بھلائیاں ساری
2
نہیں ان چارہ سازوں میں بصیرت کہو ان سے نہ میرا جی جلائیں
اذیت ہے مسلسل چارہ سازی پلاتے ہیں دوائوں پر دوائیں
جو سولی ہی کو اپنی سیج سمجھیں وہ کیوں مرنے سے آخر جی چرائیں
3
دیکھیں چلتا ہے کون اے سکھیو ہم کو سولی نے پھر پکارا ہے
انہیں جانا پڑے گا آخر کار جنہیں ساجن کا نام پیارا ہے
4
کہہ رہی ہے پکار کر سولی دیکھنا اب قدم نہ پیچھے ہٹے
عاشقو! دعویٰ وفا ہے غلط گر رہِ دوستی میں سر نہ کٹے
5
سر سے پا تک خلوصِ عزم شعار جلوۂ بے نقاب سے دو چار
سولی ہے ایسے عاشقوں کا سنگھار سر بریدہ رہیں گے سارے یار
یہی روز ازل سے ہے اقرار سولی ہے ایسے عاشقوں کا سنگھار
تیز نیزوں کی دیکھ کر یلغار مانتے ہیں ’’لطیف‘‘ کب وہ ہار
سولی ہے ایسے عاشقوں کا سنگھار
6
دار و دیدار کی نوید سنی مرحبا کشتگان جلوہٗ یار
اوج کی انتہا پہ جا پہنچے مطمئن ہوگئے خلوص شعار
7
بر سر دار طالبِ دیدار اور کہتے ہیں کس کو اوج مقام
مڑ کے دیکھا نہیں کبھی پیچھے آگے بڑھتے رہیں گے گام بہ گام
8
تمنا دار کی دل سے نہ جائے کہ ہوگا دار سے دیدار حاصل
محبت ہرقدم پر رہنما ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہے تجھ کو مشکل
9
چھری پیوست ہو جانے دو پہلے ابھی پوچھو نہ انجام محبت
ہم آہنگ سرود زیست کر لو غم محبوب و آلام محبت
10
کسی کے ہاتھ میں ہے اس کا قبضہ نہیں خود موردِ الزام خنجر
رخِ محبوب کی نظارگی سے لرز جاتا ہے یہ لوہا بھی اکثر
11
اس کے خنجر کو کند رہنے دو دھار اس کی نہ تیز ہوپائے
جب چلانے لگے مرا محبوب ہاتھ کچھ دیر کو ٹھہر جائے
12
خنجر اس شاہدِ حقیقی کا گوشت کیا ہڈیوں کو چیر گیا
خنجرِ شاہدِ حقیقی سے تنِ عاشق کا بند بند جدا
13
رہِ محبوب ہے شمشیر کی دھار دمِ شمشیر سے ہر گز نہ ڈرنا
بہت کمیاب ہے یہ دولتِ عشق تم اپنے زخم کا چرچا نہ کرنا
14
تمہیں بھی جان دینا ہے تو آئو کہ مشتاقِ شہادت صف بہ صف ہیں
یہاں سے کون گذرا ہے سلامت کہ سب اس دیس میں خنجر بکف ہیں
15
محبت ہے مجھے ان قاتلوں سے جو رکھتے ہیں کفِ نازک میں خنجر
رواں ہوں سوئے میدانِ شہادت کہ اک مدت سے بارِ دوش ہے سر
16
جو آگے بڑھ گئے جاں دے چکے ہیں کئی سر آچکے ہیں زیرِ خنجر
جو پیچھے رہ گئے ہیں بڑھ رہے ہیں کہ ان کو بھی شہادت ہو میسر
نہ اس منزل کو تم آساں سمجھنا بڑھے آگے تو سر ہو گا زمیں پر
یہ ہے وہ میکدہ بہتا ہے جس میں لہو بھی بادۂ گلرنگ بن کر
17
اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا تو اس پیر مغاں کے در پہ جائو
قریبِ ہر خمِ مے عاجزی سے تم اپنے کاسۂ سر کو جھکائو
اگر ہو سر فروشِ مے پرستی تو بہر جرعہ یہ بازی لگائو
یہ مستی سر کے بدلے میں ہے سستی اٹھو آگے بڑھو ساغر اٹھائو
18
اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا تو اس پیر مغاں کے در پہ جائو
جو کہتا ہے "لطیف" اس کو سنو تم سر اپنا کاٹ کر خم سے ملائو
خریدو اسکے بدلے تم یہ سودا نہ خالی ہاتھ جام مے اٹھائو
19
جہاں بکتی ہے، اس کوچے میں جائو اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا
رموز مے فروشی ہیں نرالے کوئی سمجھا انہیں کوئی نہ سمجھا
خمار چشم جاناں کی، قسم ہے یہ سودا، سر کے بدلے بھی ہے سستا
20
جہاں بکتی ہے، اس کوچے میں جائو اگر ہے جرعۂ مے کی تمنا
ملامت، تہمت ہستی، شہادت عجب دستور ہے اس مے کدے کا
اگر اک کوزۂ مے تم کو مل جائے تو ہر قیمت پہ یہ سودا ہے سستا
21
وہاں دولت نہ کام آئے گی "سید" جہاں کونین ہے جرعے کی قیمت
قریبِ خم پہنچ کر جان دیدو یہی اک کامرانی کی ہے صورت
22
غذائے عاشقاں ہے، زہر قاتل اسے وہ دیکھ کر، ہوتے ہیں شاداں
فدائے ہر ادائے قاتلانہ نثارِ جنبشِ زنجیرِ زنداں
چھپائے ہیں دلوں میں زخم کاری تبسم ریز ہیں لب ہائے خنداں
23
جو تیرا دل مصائب سے، ہے خائف نہ کر بادہ پرستی کی تمنا
رگوں سے کھینچ لے جو، روح ساری مبارک ہے مزہ اس جام مے کا
جو سر کو کاٹ کر بھٹی پہ رکھ دیں انہیں کو راس آتا ہے یہ سودا
24
نہیں ہے جرأت رندانہ جن میں انہیں زیبا نہیں مے کی تمنا
وہ ساقی آئے گا خنجر بکف جب تو فوراً رنگ اڑ جائیگا ان کا
انہیں زیبا ہے شغلِ جرعہ نوشی جنہیں منظور اپنے سر کا سودا
25
ہوا ہے پارہ پارہ جسم ان کا الگ ہے دیگ میں ایک ایک ٹکڑا
ہتھیلی پر جو سر کو لے کے اٹھے انہی کو زیب دیتی ہے تمنا
26
ابلتے ہیں یہاں دیگوں میں ٹکڑے کھڑکتی ہے یہاں ہر دم کڑھائی
جہاں یہ حال ہو اہل طلب کا وہاں کیا چارہ سازوں کی رسائی
27
طلب گار سر رنداں ہے ساقی
نہ جانے مغبچے کیا مانگتے ہیں
28
بہر عنواں تمنائے محبت بہر صورت جنونِ سرفروشی
’’لطیف" ان عاشقوں کی جاں نثاری لطیف اِن عاشقوں کی گرم جوشی
29
نہیں ان عاشقوں کو سر کی پروا خلوص دل ہے بارِ سر سے بہتر
کہیں اچھی ہے جلدو استخواں سے محبت کی شمیمِ روح پرور
30
فقط سر دے کے کب ہوتا ہے سودا نہ سمجھو اتنا ارزاں عاشقی کو
یہ نعمت اے ہجوم سر فروشاں مقدر ہی سے ملتی ہے کسی کو
31
گراں ہے عاشقوں کا قطرہٗ خوں ٹپکنے میں ہے اس کی قدر و قیمت
نگاہ ناز جاناں جلوہٗ دوست محبت کرنے والوں کی عبادت
وائي
مدھہ پی کے میں نے اپنے پیارے ساجن کو پہچان لیا
یہ پریت کا ناتا کرکے میں نے جانے کیا کیا جان لیا
ساجن کو پہچان لیا
اس پار کی اگنی ہے من میں، جس پار سے میں نے گیان لیا
ساجن کو پہچان لیا
یہ جگ ہے دو دن کی مایا، ساجن ہم نے یہ مان لیا
ساجن کو پہچان لیا
کہے ’’لطیف‘‘ کہ تو ہی تو ہے، یہ سارا جگ چھان لیا
ساجن کو پہچان لیا
تیسری داستان
1
آگ دل میں لگا کے چھوڑ گئے تابِ غم آزما کے چھوڑ گئے
چارہ سازوں سے اب کسے امید تم ہی اپنا بنا کے چھوڑ گئے
2
ایک تیرے سوا مرے قاتل
کون ہے جس کو چارہ ساز کہیں
3
میرا ہادی مرا حبیب ہوا مل گیا ایک مہرباں مجھ کو
لے گیا اپنے ساتھ درد مرا دے کے آرامِ جسم و جاں مجھ کو
4
درد اس کا شدید تر ہو جائے جس کا محبوب چارہ گر ہو جائے
اور کوئی ہو چارہ ساز اگر چارۂ درد بے اثر ہو جائے
اس کو حاجت نہیں مسیحا کی جس پہ محبوب کی نظر ہو جائے
5
جب سے محبوب چارہ ساز ہوا ہو گیا دور دل کا ہر آزار
وہی غمخوار بن کے آیا ہے ہم سمجھتے رہے جسے قہار
ایک انعام ہے دلِ پر خوں ایک نعمت ہے زخم خنجر یار
ہاتھ اس کا رگوں پہ رہتا ہے آشنائے نفس ہے وہ ہشیار
6
کیا تڑپنا کراہنا کیسا نغمہ زن ہیں رگیں مثالِ رباب
وہی مرہم عطا کرے گا مجھے جس نے دل کو کیا جلا کے کباب
اس کا شکوہ کریں کہ شکر کریں خود ہی راحت ہے اور خود ہی عذاب
7
رہ عزت ہو یا رہِ ذلت میں ہوں اور شوقِ جادہ پیمائی
کرے گمراہ یا بنے رہبر سر فرازی ملے کہ رسوائی
8
راز دارانہ طور پر اس نے عاشقی کے رموز سمجھائے
دولت صبر دی کہ درد مرا چارۂ درد خود ہی بن جائے
لے کے بیٹھا ہوں جنس عجزو نیاز آج تک خود نہ سامنے آئے
9
اس کے در پر جھکی ہے جس کی جبیں اور در ہوگئے سب اس پر حرام
تو بھی اس کے حضور سر کو جھکا دل میں کب تک یہ آرزوئے سلام
10
اس قدر بھی وہ بے نیاز نہیں ہر نظر میں پیام ہوتا ہے
لب جاناں خموش رہ کر بھی کتنا شیریں کلام ہوتا ہے
11
تو کرم کو سمجھ رہا ہے ستم یہ ہے تیرا قصورِ کم بینی
تو نے تلخی کہا اسے ورنہ اس کی ہر بات عین شیرینی
12
جو دانستہ تجھے اپنا بنائے
کہاں وہ شکوۂ غم لے کے جائے
13
تجھ کو جس کی بڑی تمنا ہے آپ ہے وہ ترا تمنائی
ذکر جس کا تری زباں پر ہے خود ترے ذکر کاہے شیدائی
دشنہ در دست اور قند بلب ہائے اے دوست تیری خود رائی
14
مسکرا کر کبھی پکارا تھا میرے محبوب نے مجھے اک بار
پھر مرے دل میں عمر بھر کے لئے رہ گیا اس کا درد بے آزار
15
میں نے صبحِ الست دیکھی تھی تابش جلوہٗ رخِ جاناں
چٹکیاں لے رہا ہے رگ رگ میں آج تک اس کا دردِ بے درماں
16
جنہیں تیری محبت کی لگن ہے انہیں شکوہ نہیں رنج و بلا کا
وہ سب سے پوچھتے ہیں مسکرا کر کہاں ہے ہاتھ اپنے دلربا کا
دلیلِ قرب ہے ان کی شہادت یہی جینا ہے بس اہلِ وفا کا
17
نویدِ قتل شیوہ دلربا کا ترا مسلک تہِ شمشیر رہنا
اجل کا سامنا کر، یہ کہاں تک خودی سے پائے در زنجیر رہنا
18
خوف کیسا عتابِ جاناں سے اس کی نفرت میں بھی محبت ہے
مہرباں ہو کہ بدگماں ہوجائے جو تعلق ہے وہ غنیمت ہے
19
قتل کے بعد قتل سے پہلے اپنے مقتول کی نگہداری
کیوں نہ ہو اس کے زخم خوردہ کو راحتِ روح ایسی دلداری
20
خود نگہدار اور خود قاتل کیوں مرے چارہ ساز، یہ کیا ہے؟
پیار کرنا عتاب بھی کرنا ناز ہے یا نیاز، یہ کیا ہے؟
21
کیسی دوری کہاں کی نزدیکی رمزِ محبوب دیکھتے جائو
رفعتِ دار یا فراقِ یار جو بھی حصے میں آئے اپنائو
وائي
وہی بپتا میں کام آئے میرا روگ مٹائے
وہی دیالو اپنی دیا سے میری دھیر بندھائے
نیارے روپ دکھائے میرا روگ مٹائے
وہی نردھن کا رکھوالا دیکھ ریکھ کو آئے
دکھیا من بہلائے میرا روگ مٹائے
وہی آئے دکھ لے جائے تو جیون سکھ پائے
پھر جی مرا گھبرائے میرا روگ مٹائے
کہے "لطیف" کہ مجھ کو سکھیو چنچل پریتم بھائے
نینوں سے برمائے میرا روگ مٹائے
سر یمن
پہلی داستان
1
تو میرا دردِ، میری دوا، میرا چارہ ساز
تجھ سے چھپا نہیں مری درماندگی کا راز
2
میں جانتا ہوں مرے چارہ گر کہ تیرے سوا
نہ راس آئے گی دل کو کسی کی چارہ گری
مرے حبیب، مرے چارہ گر، مرے مالک
علاج ہے مرے غم کا تیری ہی چارہ گری
5
دیکھتے کیا ہو خنجر مارو اپنا ہاتھ اٹھائو
گھائل کردو، جان بھی لے لو، میری آن بڑھائو
6
ہاتھ اٹھائو خنجر مارو، مجھ کو موت گوارا ہے
کہہ نہ سکوں گی میں یہ کسی سے تم نے مجھ کو مارا ہے
7
کھینچو تیر کماں سے فوراً مارو ہاتھ اٹھا کر
صرف تمہاری ہو جائوں گی میں فتراک میں آکر
8
ناوک افگن جہاں وہ ہوتا ہے
ہوش ہر چارہ ساز کھوتا ہے
9
ہو بڑا ہی کرم مرے محبوب تو اگر خود کرے مجھے گھائل
عمر بھر زخم کھائے اور نہ ہو دل کسی چارہ ساز پر مائل
11
آہنی تیر جسم میں اُترے اور عشاق ہوگئے گھائل
چار سو زخم خوردہ جسم ہی جسم خون آلودہ ہر طرف بسمل
اپنے زخموں کے آپ ہی مرہم چارہ سازوں سے بے نیاز ہے دل
کاش ان سربریدہ لوگوں سے اک شبِ قرب ہو مجھے حاصل
12
قرب ان زخمیوں کا ہو اک رات درد بھی جن کا جاں نواز ہوا
خلوتِ روح میں بسا اوقات عشق خود ان کا چارہ ساز ہوا
13
زخمیوں کا یہ کلبۂ خاموش اور مسلسل کراہنے کی صدا
شام ہی سے ہر ایک بسمل کو مرہمِ زخم ِ دل کا فکر رہا
14
آج پھر زخمیوں کے مسکن سے آئی اندوہ ناک ایک صدا
چارہ سازوں نے اپنے ہاتھ بڑھائے اور ہر زخم کھول کر دیکھا
15
ہائے یہ زخم خوردگانِ وفا شکر فرما بصد شکیبائی
قرب منزل نہیں انہیں درکار ان کا مسلک ہے جادہ پیمائی
16
تذکرے کشتگانِ شوق میں ہیں درد کی دلنواز لذت کے
لبِ خاموش اس کے شاہد ہیں ہیں وہ راز آشنا محبت کے
17
جس کی فطرت میں ہو تن آسانی جس کی آرام سے گذرتی ہے
کیا خبر اس کو خستہ حالی پر بے بسی کتنے وار کرتی ہے
ایک کروٹ بھی لے نہیں سکتا ٹیس زخموں کی جب ابھرتی ہے
رات اس با وفا کی رو رو کر یادِ محبوب میں گذرتی ہے
18
زخمِ دل سے جنہیں فراغت ہے درد رہتا ہے ان کے دل سے دور
کیا خبر ان کو کس اذیت سے لوٹتے ہیں زمیں پر رنجور
دائمی کرب، مستقل آزار جسم زخموں کی یورشوں سے چور
پھر بھی ثابت قدم محبت میں رات بھر اشکباریاں دستور
19
مری ماں! یہ آرائشِ اشکباری یہ بہرِ نمائش غم و بے قراری
نہیں نام اس کا محبت شعاری کجا یادِ جاناں کجا آہ و زاری
وائي
کیا اس کو کوئی مٹائے یہ روگ ہے میرے من کا
مرے دل میں درد سجن کا
اے چارہ سازو! جائو لیجائو دوائیں اپنی یہ گھائو ہے مجھ برھن کا
مرے دل میں درد سجن کا
وہ جی کا جیارا آئے جیون کا روگ مٹائے دن آئے پریت ملن کا
میرے دل میں درد سجن کا
دوسری داستان
1
اے چارہ گر تجھے مرے غم کی خبر کہاں
جو چارۂ فراق ہے وہ چارہ گر کہاں
میرے ہر ایک درد کا درماں ہے وہ حبیب
اس کے بغیر چارہ گری میں اثر کہاں
2
ہم درد مند چارہ گروں سے الجھ پڑے
جتنے بھی تھے علاج کے در بند ہو گئے
آخر کہیں سے ڈھونڈ کے لائے اُسے یہاں
وہ آئے، اہل درد تنومند ہو گئے
3
بے اعتدالیوں سے نحیف و نزار ہیں
خود سر ہیں اور چارہ گری کے شکار ہیں
4
بے اعتدالیاں ہوں تو کیا چارہ گر کرے
پرہیز ہی نہ ہو تو دوا کیا اثر کرے
5
کیا ان اپاہجوں کو کسی چارہ گر سے کام
ان کو دوا سے اور نہ دوا کو اثر سے کام
6
وہ آئے درد و رنج و الم خواب ہو گئے
ناقابل شفا تھے شفایاب ہو گئے
7
افسوس! چارہ گر مرا درماں نہ کر سکے
یعنی علاج دیدۂ حیراں نہ کر سکے
8
ہر بو الہوس فریبِ ہوس میں جو آگیا
وہ ترکِ اعتدال سے نقصان اُٹھا گیا
فطرت سے جس کو روحِ توانا عطا ہوئی
وہ خوش نصیب ہر غمِ ہستی پہ چھا گیا
9
اپنے محبوب سے اگر ہے پیار سیکھ لے پہلے چور کے اطوار
رات بھر جاگنا ہو کام ترا نیند کا سکھ نہ ہو تجھے درکار
تھک بھی جائے جو دوڑ دھوپ سے تو دل نہ ہو دوڑ دھوپ سے بیزار
اک ترے دل میں اک زباں پر ہو خوفِ تعزیر، جرم سے انکار
ٹکڑے ٹکڑے ترے اگر اُڑ جائیں نہ کرے ان کے راز کا اظہار
10
اپنے گھر سے نکال کر مجھ کو چارہ سازوں نے جب کیا مطعون
جس نے بھی دیکھا مجھ کو ٹال دیا اس قدر بہہ چکا تھا زخم سے خون
اس نے آکر مجھے بحال کیا اس کے لطف و کرم کا ہوں ممنون
11
چارہ گر آکے بیٹھے ہی تھے ا بھی کہ وہ صورت بھی سامنے آئی
بازوئوں میں سکت ہوئی محسوس اور دل میں نئی توانائی
میرا دکھ درد ہوگیا سب دور میں نے دیدار سے شفا پائی
12
آپ زخمی کیا مرے دل کو آپ زخموں کا اِند مال کیا
غمزدہ روح، ناتواں دل کو دولتِ قرب سے بحال کیا
13
بن گئی میری جان پر آخر یہ نہ سمجھے مری پریشانی
جا کے محبوب کو بتائوں گا اپنے چارہ گروں کی نادانی
14
چارہ گر رایگاں ہے چارہ گری جا، بگڑنے دے میری حالت کو
درد جس نے عطا کیا ہے مجھے شاید آجائے وہ عیادت کو
15
چارہ سازوں میں بیٹھنا سیکھو پھر نہ ہوگا کبھی کوئی آزار
راس آئے گا ان کا قرب تمہیں جو بدلتے ہیں فطرتِ بیمار
16
چارہ سازوں میں رات دن رہنا ہائے یہ بے بسی یہ بوالعجبی
ذلتِ اہل درد چارۂ غم ننگِ اہلِ وفا دوا طلبی
17
داغ کر جسم اور تڑپایا کن نگہبانیوں سے مارا ہے
مجھ کو نادان چارہ سازوں نے اپنی نادانیوں سے مارا ہے
18
ہو گئیں چارہ سازیاں ناکام وہی محبوب دکھ مٹائے گا
ہاتھ رکھے گا جب مرے دل پر دل کو آرام آہی جائے گا
اس نے جس کی مزاج پرسی کی دکھ نہ پھر اسکے پاس آئے گی
19
کر چکے اہل درد جب فریاد مہرباں چارہ گر نظر آیا
پڑ گئی جان ناتوانوں میں وہ جہاں جلوہ گر نظر آیا
وائي
کرنا میری رکھوالی اے پیارے ساجن میرے
مرتی ہوں درد سے تیرے
نردوش ہے جیون میرا بپتا ہے مجھ کو گھیرے
مرتی ہوں درد سے تیرے
بیٹھی ہوں آس لگائے مرے دن اب تو ہی پھیرے
مرتی ہوں درد سے تیرے
تیسری داستان
1
مسلسل بے کلی فریاد پیہم بڑی سفاک ہے یہ یادِ خوباں
جلا کر راکھ کردیتی ہے دل کو یہ چنگاری ہے کتنی شعلہ ساماں
مری اس بات کے شاہد ہیں دونوں یہ جوے اشکِ گرم و آہِ سوزاں
2
لبوں پرنالہ ہائے جانستان ہیں تو دل میں شعلۂ سوزِ محبت تمہیں اس کا یقین آئے نہ آئے تم آکر دیکھ لو خود میری صورت
[اصل بیت پڑھیں]3
نہ پوچھو التہابِ سوزِ ہجراں کبابِ سیخ، دل ہو یا جگر ہو
اسے امید کیا چارہ گروں سے تمہارے لطف پر جس کی نظر ہو
4
لیا جس وقت کہنی کا سہارا مرے محبوب نے اک تیر چھوڑا
کمر میں ہو گیا پیوست پھر وہ پروں کے ساتھ میرے تن میں اُترا
گذر کر قلب سے پہنچا جگر تک مرے قلب و جگر کو اس نے چیرا
نہیں امید کچھ چارہ گروں سے سہارا رہ گیا ہے اب اسی کا
5
وہ اس کا سنسناتا تیر توبہ وجود اپنا دگرگوں میں نے پایا
یہ پوچھے جا کے اس دلبر سے کوئی کہ اب ہاتھوں کو کچھ آرام آیا
6
دوبارہ سنسناتا زنزناتا جگر کے پار اسی کا تیر پہنچا
بالآخر یوں ہوا پیوست دل میں کہ پھر کھینچے سے بھی باہر نہ آیا
7
کچھ ایسا کس کے تو نے تیر مارا کہ لگتے ہی جگر کے پار پہنچا
تجھے میں نے مرے بھولے شکاری بڑا مشّاق تیر انداز پایا
8
کبابِ سیخ اک مدت سے ہوں میں رگ و پے میں ہے اب تک سنسنی سی
مرے محبوب تو نے پھونک دی ہے کلیجے میں میرے ایک دھونکنی سی
9
پسند ان کو ہے کیوں سوزِ محبت یہ رازِ عشق پروانوں سے پوچھو
مزا آتا ہے کیا جلنے میں آخر ذرا انِ سوختہ جانوں سے پوچھو
10
اگر تم بھی ہو پروانوں میں شامل تو آئو اور یہ شعلہ بجھائو
ہزاروں، آنچ پر اس کی جلے ہیں مزا جب ہے کہ تم اس کو جلائو
کہیں ظاہر نہ ہوجائیں کسی پر رموزِ عاشقی دل میں چھپائو
11
اگر تم بھی ہو پروانوں میں شامل تو اِن شعلوں میں آکر کود جائو
جلو اس آگ میں جب تک ہے جینا لگی اپنی نہ غیروں کو دکھائو
12
اگر تم بھی ہو پروانوں میں شامل تو شعلے دیکھ کر واپس نہ آئو
یہ جلتی آگ اس محبوب کی ہے ججھکتے کیوں ہو فوراً کود جائو
یہ بے نوری یہ بے سوزی کہاں تک بڑھو سب خامیاں اپنی مٹائو
13
ابھی کچھ جمع پروانے ہوئے تھے وصالِ شمع کی ٹھانے ہوئے تھے
کوئی ان سوختہ جانوں سے پوچھے رخِ تاباں پہ دیوانے ہوئے تھے
14
شباہت زرد پھولوں کی طرح ہے دہکتی آگ پر منڈلا رہے ہیں
صلائے عام ہے یہ شمع کی لو پتنگے راستہ دکھلا رہے ہیں
15
بجھائو آنسوئوں سے آتشِ تن نہیں ان کے سوا غمخوار کوئی
میسر ہو اگر عزلت نشینی تو پھر منزل نہیں دشوار کوئی
یہاں اہلِ جہاں سے دل لگا کر نہ پائے گا سراغِ یار کوئی
16
بشر کو تو نے اے تنوّر عرفاں سراپا سوختہ ساماں بنایا
کسی کو بھی ترے ایندھن سے میں نے کبھی مل کر جدا ہوتے نہ پایا
بہر عنوان اے محبوب تو نے محبت کرنے والوں کو جلایا
17
رہِ عرفان میں جو سالک دلِ فولاد رکھتے ہیں
انہیں اے دوست! آہنگر ہمیشہ یاد رکھتے ہیں
18
کان میں پھر ہے دھونکنی کی صدا برسرِ کار ہے وہ آہن گر
اُٹھ رہے ہیں مجاز کے شعلے ڈالتا جا رہا ہے وہ اخگر
مجھ سے اے میرے دھونکنی والے اب نہ جانا کہیں جدا ہو کر
پارہ پارہ نہ ہو کے رہ جائے خام لوھا دہکتے شعلوں پر
19
ڈر گئے شعلۂ محبت سے آگ سے دور ہی رہے اکثر
حیف صد حیف دھونکنی والو کون کہتا ہے تم کو آہن گر
20
کچھ تعجب نہیں بنا دے وہ تمہیں فولاد سے بھی محکم ترپہلے سر کو بنائو تم سنداں پھر بتائیں نشانِ آہن گر
[اصل بیت پڑھیں]21
جذبۂ جاں کنی بڑھائے جا
تو کہ سنداں ہے چوٹ کھائے جا
22
ادھر دھونکنی ہے وہ چنگاریاں ہیں
محبت کی سب شعبدہ کاریاں ہیں
23
دیکھ یہ شعلۂ محبت ہے جل کے بجھتا ہے، بجھ کے جلتا ہے
کیسے ہر آرزوے ہستی کو مسکراتے ہوئے نگلتا ہے
24
آج پھر آگئے وہ صیقل گر
آب آنے لگی ہے تیغوں پر
25
صیقل گرِ عشق آگئے جب
فولاد سے زنگ اُڑ گیا سب
26
زنگ اترتا ہے جل کے لوہے سے دھونکنی اپنی چال چلتی ہے
دیکھ کر صورتیں ہتھوڑوں کی جیسے سنداں کو چوٹ کھلتی ہے
بھیڑ آہن گروں کی ایندھن پر دیکھئے کتنے رخ بدلتی ہے
27
نہ ہونگی ان کی تیغیں زنگ خوردہ
یہ صیقل گر ہیں اپنے فن میں پختہ
وائي
مٹ جائے نراشا میری آجائے پریتم پیارا
وہ میرے جی کا جیارا
دیجائے دکھیا من کو جیون کا سکھ دوبارا
وہ میرے جی کا جیارا
آتا ہے یاد وہ ساجن روتا ہے من بے چارا
وہ میرے جی کا جیارا
مرے پیاسے من کو اس کی آشا ہے امرت دھارا
وہ میرے جی کا جیارا
روگی کا روگ مٹائے ساجن کا ایک اشارہ
وہ میرے جی کا جیارا
چمکیلی چھب دکھلا کر چمکاتا ہے جگ سارا
وہ میرے جی کا جیارا
سب دور ہوئیں بپتائیں جب اس نے مجھے پکارا
وہ میرے جی کا جیارا
چوتھی داستان
1
بیک جام دو طالبِ کیف و مستی
نہیں ہے یہ دستورِ بادہ پرستی
وہی ہے سزاوار قرب الستی
رہا جس کے دل میں نہ احساسِ ہستی
2
بیک جام دو تشنہ کا مانِ الفت
یہ دستور ہے مانعِ وصلِ جاناں
بجز جانگدازی بجز جاں نثاری
میسر نہیں اتصال محبّاں
3
بیک جام دو تشنہ کا مانِ مستی طریقہ نہیں ہے یہ اہلِ وفا کا
شریکِ صراحی مغنی و شاعر مگر فرق کتنا ہے صوت و غنا کا
محبت میں تفریقِ ہستی نہیں ہے محبت میں تقسیم مستی نہیں ہے
4
بڑے فتنہ گر ہیں حریفانِ کثرت
انہیں دیکھ کر مجھ کو ہوتی ہے حیرت
مرے ہمنشیں ہیں وہ سرشار فطرت
جنہیں زندگی ہے تمنائے وحدت
5
مرا دل وہاں ہے جہاں جلوہ گر ہیں
حدیں جزو وکل کی مٹا دینے والے
ذرا سی نگاہِ محبت کی خاطر
سروں کو خوشی سے کٹا دینے والے
6
یقینا ہیں وہ ہستیاں برگزیدہ
جنہیں زہر کا گھونٹ بھی انگبیں ہے
بڑے شوق سے پی، ملے تجھ کو جو کچھ
کہ ہر جام ان کا خمار آفریں ہے
7
بفیضِ طریقت بحسنِ عقیدت
بڑھے ساقیا تیرے کوچے کی عزت
پلانا ذرا تشنہ لب راہیوں کو
چھپا کر نہ رکھنا شرابِ محبت
8
پلا تشنہ لب راہ گیروں کو ساقی
چھپا کر نہ رکھ یہ شرابِ محبت
وہ جرعے جو تو ان غریبوں کو دے گا
غمِ زندگی بھی نہیں ان کی قیمت
9
تشنج سا ہے ان کے کام و دہن میں
مگر زہر پینے سے ہے کتنی رغبت
وہ ان چند جُرعوں سے کب سیر ہوں گے
خموں سے نہ بھرتی ہو جنکی طبیعت
سرور ان کو آتا نہیں دختِ زر سے
یہ ہیں ساقیا تشنہ کامانِ الفت
10
خموں میں بھری ہے شرابِ بہاراں
فضا کیف پرور ہوئی جارہی ہے
بلا نوش ہیں سربکف آج ساقی
بلانے کو بادِ شمال آرہی ہے
11
صبوحی کو آتا رہے جوش ساقی
بہکتے رہیں صاحبِ ہوش ساقی
برستی رہے بادہ آلود شبنم
سحر خیز ہیں تیرے مے نوش ساقی
12
بلا نوش رندوں سے پالا پڑا ہے
ہوس جاوداں میرے ساقی رہے گی
یہ پی جائیں گے جس قدر پی سکیں گے
مگر تشنگی پھر بھی باقی رہے گی
13
جان لیوا تھا اذنِ عام ان کا کیا خطا اس میں بادہ نوشوں کی
بادہ نوشوں پہ آگیا الزام رہ گئی بات مے فروشوں کی
14
یہ بلا نوش مر بھی جائیں اگر بات آئے نہ کوئی اس کے سر
کون جانے بغیر ساقی کے کیسی گذرے غریب رندوں پر
15
وہ بلا نوش مر گئے آخر آزمائے گی اب شراب کسے
وہ وفا کیش دوست ہی نہ رہے اب تری خود سری کی تاب کسے
16
ان بلانوش مے پرستوں کو یہ نہ سمجھو شراب نے مارا
ہائے اس کا کلام زہرہ گداز ان کو جس کے خطاب نے مارا
17
اپنے ساقی کا اے بلا نوشو! راس آئے گا آسرا تم کو
خم ہے مینا ہے جام و ساغر ہیں اب ہے درکار اور کیا تم کو
18
زیر خنجر بھی نائو و نوش میں گم جاں نثارانِ مے پرستی ہیں
کیا کمی ان کو کیف و مستی کی واقفِ رازِ کیف و مستی ہیں
19
زہر نوشی سے جو نہ گھبرائے خوش رہے ان سے اہلِ میخانہ
سید ان کا ہجومِ طوفان خیز اور ساقی کا ایک پیمانہ
موت کے بعد بھی بسا اوقات تشنہ رہتی ہے روحِ رندانہ
20
سرفروشی ہے شیوۂ رنداں اتنے مانوس ہیں شہادت سے
ان کے نزدیک قیمت ساغر کہیں افزوں ہے سر کی قیمت سے
21
شراب ہر اک خم میں منفرد ہے جدا ہر ساغرِ مے کی ہے رنگت
تری چشمِ کرم کو جانتے ہیں بخوبی مے کشانِ حسنِ فطرت
"لطیف" اس خم کدے میں کا سۂ سر فقط اک جرعۂ مے کی ہے قیمت
22
ملو ان برگزیدہ ہستیوں سے سبق آموز مے خواروں کو دیکھو
سراپا شعلۂ جان سوز ہیں یہ محبت کے خریداروں کو دیکھو
23
بجائے ساغرِ مے چشم پُرنم عطا کرتے ہیں شب بیدار ساقی
مگر اس فیض سے محروم ہوں میں مری تشنہ لبی اب تک ہے باقی
وائي
مرا انگ انگ مسکائے، مرے دوارے ساجن گائے
دن پریت ملن کے آئے
دن ڈھلتے ہی مرے ساجن، کتنی سندرتا لائے
دن پریت ملن کے آئے
پھر بھاگ نے کایا پلٹی، برھا کے روگ مٹائے
دن پریت ملن کے آئے
وہ پاس ہے میرے من کے، جگ جس کو دور بتائے
دن پریت ملن کے آئے
کہتا ہے "لطیف" کوی، یہ دیالو کی دیا سہائے
دن پریت ملن کے آئے
پانچویں داستان
1
بے نیازِ ہجوم راہگذار رازدارانِ منزلِ مقصود
رہ روان طریقِ عشق و وفا جاوداں ان کا سایۂ مسعود
اے خوشا پاکبازی و رندی ہوگئے ایک شاہد و مشہود
2
ذکرِ حق سے جو بھید ان پہ کھلے کب کسی اور کو بتاتے ہیں
سانس جیسے رگوں میں پھرتی ہے جزو وکل میں وہ یوں سماتے ہیں
3
پاگئے کچھ تو ہوگئے غمگیں کچھ نہ پایا تو شاد کام رہے
بس وہی اہلِ معرفت کہلائے خود سے بیگانہ جو مدام رہے
4
کیا کہوں رمزِ صاحبِ عرفاں کوئی اس کے رموز کیا جانے
اپنی ہستی سے جنگ ہو جس کی دشمنوں کو جو دوست گردانے
5
مرد عارف وجود خاکی کو کسوتِ آئینہ بناتا ہے
پھر اس آئینے میں رخِ محبوب اپنا جلوہ انہیں دکھاتا ہے
6
نذرِ آتش کریں کلاہ خودی ورنہ اہلِ صفا نہ کہلائیں
اہلِ دل کے لئے نہیں ہوتیں حسرتیں، خواہشیں، تمنائیں
7
سر پہ رکھتے ہو تم کلاہ اگر آئو اپنائو عارفوں کی آن
ڈھونڈ لائو وہ ساغرِ زہر اب جس کے پینے سے کچھ ملے وجدان
8
اسم اعظم ہو یا ہو ذکرِ جلی ہے بہر طور ایک ہی مفہوم
جیسے ہوتا ہے سیپ میں موتی ہے یونہی دل میں ذاتِ نامعلوم
غیر کے در سے کچھ نہ پائے گا اس کے در سے جو ہوگیا محروم
9
رقص میں، محورِ خودی پر ہے فہم و ادراکِ ابنِ آدم کیا؟
اک تری شعبدہ گری کے سوا میرے مولا! بساطِ عالم کیا
10
موجزن چشمۂ حقیقت ہے محو طالب شعورِ کثرت میں
مجھے اقوالِ پیر رومی اور ڈالتے جا رہے ہیں حیرت میں
کیوں یہاں رونما ہوا انسان اک معما کہ خواب ہے یہ جہاں
11
موجزن چشمۂ حقیقت ہے اور طالب شکار کثرت ہیں
پیر رومی کے جاودان اقوال رہنمائے رہِ حقیقت ہیں
دیکھ کر اپنی منزل مقصود کتنے خاموش اہلِ حیرت ہیں
12
محو طالب شعورِ کثرت میں موجزن چشمۂ حقیقت ہے
بے حجاب آئیں سامنے تو کہوں کیا ہیں وہ اور کیسی صورت ہے
13
دوستو! خوب دلنشیں کرلو قولِ رومی کہ بیش قیمت ہے
محو طالب فریبِ کثرت میں موجزن چشمۂ حقیقت ہے
ختم اپنے وجود کو کر دے گر طلب گارِ حسنِ وحدت ہے
14
دوستو! خوب دل نشیں کرلو قول رومی پیامِ راحت ہے
محو طالب فریبِ کثرت میں موجزن چشمۂ حقیقت ہے
جس نے دیکھی وہ ہستیٔ مطلق وہ مجسم سکوتِ حیرت ہے
15
ذکر اس کا ہے بزمِ رومی میں ذات جس کی دلیل وحدت ہے
محو طالب فریبِ کثرت میں موجزن چشمۂ حقیقت ہے
توڑ دے ہجر کے در و دیوار گر تجھے آرزوئے خلوت ہے
16
جو بظاہر ہیں ننگ اہلِ جہاں ان کا باطن ہے چشمۂ عرفاں
ان کے لب پر ہے وردِ حقانی اور سینے میں عشق کا پیکاں
17
لب سراسر سکوتِ بے پایاں دل ہی دل میں کسی کا ذکر بھی ہے
صرف دکھ درد کی کتاب نہیں ان کے حصے میں لوحِ فکر بھی ہے
18
وادیٔ بے نہایت عرفاں تنگنائے حیات کی منزل
عرفانِ خدا کو دنیا میں جز الف کچھ نہ ہو سکا حاصل
19
درمیاں پردۂ دوئی نہ رہا مل گئی جس کو قربتِ رحماں
رہروِ تنگنائے ہستی پر راہِ دشوار ہو گئی آساں
20
کیوں ہو تم رات دن ورق گرداں وہ سبق یاد کیوں نہیں کرتے
حرفِ آغاز ہے الف جس کا ورد سے جس کے جی نہیں بھرتے
21
بد نصیبی کی انتہا ہے یہ علم کچھ نہ ہوسکا حاصل
راہِ الفت نہ مل سکی تجھ کو اور خود گم ہے عقل کی منزل
جز عزازیل کوئی کیا جانے لذتِ سوز و عشرتِ غمِ دل
22
وہ عزازیل عاشقِ صادق سرخرو کر گیا جسے انکار
آپ اپنی ہی آگ میں سوزاں آپ اپنی شراب سے سرشار
23
وہ سبق جو پڑھا تھا روز اوّل ایک بھی سطر اس کی یاد نہیں
یہ اسی بھول کا ہے خمیازہ کوئی مجھ سا بھی بے سواد نہیں
24
حاصلِ فکر و غور کچھ بھی نہیں
تو ہی تو ہے بس اور کچھ بھی نہیں
25
نہ رہا کوئی پردۂ حائل صلۂ جستجوئے حق پایا
راز دارِ ازل سے ہوں دو چار یاد بھولا ہوا سبق آیا
26
بات وہ جس سے قلبِ انساں کو گمرہی سے نجات ہوتی ہے
ہیچ ہر بات سامنے اس کے بس وہی بات بات ہوتی ہے
27
دل میں سوزِ نہاں نہیں رکھتے زہر ہستی پیئے ہی جاتے ہیں
ہائے یہ خود فریب اہلِ خرد ظلم دل پر کئے ہی جاتے ہیں
28
لازمی امتیازِ میم و الف گمرہی کی دلیل اس سے گریز
خلوتِ فکر میں رہے لب پر بس یہی ایک لے ترنم ریز
29
وہی لوگ کہلائے روشن سواد
الف کے سوا کچھ نہیں جن کو یاد
30
خود فریبی ہے لذت گفتار جذبِ کامل ہے رفعتِ کردار
گمرہی کے قریب جو لے جائے دور اس سے وہ علم ہے بیکار
31
اس میں ہو کر میں غرق مٹ ہی گیا
لا و اِلاّ کا فرق مٹ ہی گیا
32
روشنائی کا مصرفِ بیجا کاغذوں پر یہ نقش فرمائی
منزلِ شاہدِ حقیقت دور راہزن یہ عبارت آرائی
33
کیوں لگایا ہے سامنے ناداں تہ بہ تہ کاغذوں کا یہ انبار
فائدہ کیا ورق الٹنے سے ایک ہی لفظ ہے تجھے درکار
صرف چلہ کشی سے کب ہو گا حسنِ محبوب کا تجھے دیدار
وائي
جیون آشا من کو کھینچے، ساجن آئو راہ دکھانے
روک ٹوک سے جیا نہ مانے، میں ساجن کی بنوں دُلاری
ہم دونوں کے بیچ میں کوئی، بادھا پائے نہ آنے
روک ٹوک سے جیا نہ مانے، تکوں سہارا کیوں میں کسی کا
کیا لینا ہے اب اوروں سے، پریتم جب پہچانے
روک ٹوک سے جیا نہ مانے، کیا اچھا ہو پیا کی ہو کر
انگ انگ کو کروں نچھاور، آئے پیا منانے
روک ٹوک سے جیا نہ مانے، مرنے سے کب ڈرتی ہوں میں
پریت کی ریت پرمر تی ہوں میں، ملن کے روپ سہانے
روک ٹوک سے جیا نہ مانے،۔
وائي
میرا کہنا بھول نہ جا، جوبن دو دن کی مایا
بھور بھئے ہر پاپن کی، درگت ہوتے دیکھ دشا
جوبن دو دن کی مایا، نندیا کا جو میت ہوا
پریتم کو اس نے کھویا، جوبن دو دن کی مایا
سکھیو یہ جھوٹا بندھن، نیند کا نینوں سے ناتا
جوبن دو دن کی مایا، کوری آنکھوں کاٹے رین
میت وہی میرے تن کا، جوبن دو دن کی مایا
آدھی رات ہے دور ہٹا، نیند کی نینوں سے چھایا
جوبن دو دن کی مایا۔
چھٹی داستان
1
ہم غریبوں کی بے نوائی کو لحنِ دائود ہے نوا اس کی
زیرِ پائے سمندِ ناز ہیں ہم شہسواری ہے باد پا اس کی
2
لحن دائود ہے فضائوں میں دیدنی کیفیت ہماری ہے
زیرِ پاے سمند ناز ہیں ہم خود نگر اس کی شہ سواری ہے
3
میرے قابیل تیرا تیرِ نظر اپنے مستوں پہ ظلم ڈھاتا ہے
کرکے گھائل نہ جانے کتنوں کو جرأت شوق آزماتا ہے
4
میرے قابیل تیرا تیرِ نظر ہم فقیروں کو کر گیا گھائل
ہمیں اک تیر کی بھی تاب نہ تھی دوسرا مارنے سے کیا حاصل
5
تیر ہائے نظر ترے قابیل کر رہے ہیں “لطیف” کو گھائل
کیا خبر ان کو درد کیا شئے ہے جن کو تیری رضا نہیں حاصل
6
میں نے دیکھا ہے اے مرے قابیل تو نے تیکھی نظر سے تیر چلائے
دوسرے تیر کی ضرورت کیا وار پہلا ہی جب نہ خالی جائے
7
تیر جب وہ کمان میں کس لیں اپنا سینہ سپر بنائو تم
ناوک افگن ہے عشوۂ خوباں سامنے آ کے زخم کھائو تم
منزلِ دار حاصلِ دارین آئو کامل یقیں سے آئو تم
8
جب وہ اپنی کماں میں تیر کسیں اپنا سینہ سپر بنا لینا
ناوک افگن ہے جنبشِ مژگاں صبر سے زخم دل پہ کھا لینا
رہ کے ثابت قدم محبت میں مدعائے حیات پا لینا
9
وہ کسی نے کماں میں تیر کسا آگے آ جائو تان کر سینہ
جب درِ دوست پر پہنچ جائو دل میں رکھنا نہ تم کوئی کینہ
10
کہیں ایسا نہ ہو مرے محبوب مجھ پر تو وار کرکے پچھتائے
میری ہستی میں ہے تیرا پرتو تیر تیرا تجھے نہ لگ جائے
11
ہائے اس نازنیں کی تیر کشی جس میں ہمت نہ تھی وہ ہار گیا
آگئی راس جن کو مہر و وفا اُن کو پہلا ہی تیر مار گیا
12
تیر لرزا ہوا میں اور لگا میں بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا
کاش اک بار وہ جری محبوب پھر مرے دل پہ ہو کرم فرما
13
ہدف تیر بن گئے عاشق خیر ہو عرصۂ محبت کی
سامنے جو بھی آ گیا "سید" تیر نے دی صدا ہلاکت کی
بر درِ دوست خاموش بر لب کوئی حد چاہئے تھی حیرت کی
14
کار زارِ وفا میں کٹ جانا عاشقوں کا سنگار ہوتا ہے
کس تمنا سے سر بریدۂ عشق قاتلوں پر نثار ہوتا ہے
15
نعرہ زن عرصۂ محبت میں اس طرح ہو کہ باز گشت رہے
برسر دار بھی اگر جائے پھر بھی اپنی زباں سے کچھ نہ کہے
عشقِ افعی مزاج کے انداز وہی سمجھے گا جو گزند سہے
16
آئے وہ عرصۂ محبت میں جو نصیحت “لطیف” کی مانے
قاتلوں کی خوشی اسی میں ہے پیش کر دیں سروں کے نذرانے
عشق افعی مزاج کے انداز کوئی کیا جانے مبتلا جانے
17
دوستو! عرصۂ محبت ہے اپنے سر کی نہ تم کرو پروا
باطلِ کم نگاہ کیا جانے ہے سرِ دار راہِ دارِ بقا
سانپ ہے عشق یہ وہی جانے جو اسے جسم سونپ دے اپنا
18
بڑھو آگے بشانِ لاہوتی کود کر عرصۂ محبت میں
ختم کر دو فسانۂ ہستی کیا ہے اب زندگی کی الفت میں
عشق ہے سانپ یہ وہی جانے زہر اس کا ہو جس کی قسمت می
19
جسم اور روح کے تعلق کو لازمی ہے قریب تر ہونا
کھیل سمجھو نہ عشق کو یارو شرط ہے صاحبِ نظر ہونا
سر بہ نیزہ ہیں رہروانِ طلب طالبِ دوست سوچ کر ہونا
وائي
برھا کی ریت کٹھن ہے، میں پاپن ہوں میں پاپن
جو سیج پہ بھی نا سوئیں، نینوں سے نندیا کھوئیں
بے چین رہیں جو تجھ بن، میں پاپن ہوں میں پاپن
پریمی کو نیند نہ آئے، ساجن کی یاد ستائے
وہ جاگے تارے گن گن، میں پاپن ہوں میں پاپن
کیا بات سمجھ میں آئے، جب پریت کی ریت سہائے
دوبھر ہو جائے جیون، میں پاپن ہوں میں پاپن
ساتویں داستان
1
ہر تمنائے طالبِ وحدت ذکرِ اللہ سے مچلتی ہے
روح ان کی بس ایک آہ کے ساتھ جسدِ خاک سے نکلتی ہے
2
عمر بھر بے قرار رہتے ہیں عاشقوں کے لئے کہاں آرام
کبھی محبوب نے جو شکوہ کیا پھر نہ آسودگی کا لیں گے نام
3
تم تنومند اور توانا ہو عاشقوں کی ہے کیا یہی پہچان
وصل محبوب کے لئے بے تاب ان کا دل، ان کی روح، ان کی جان
اور اک شاہد ازل کے سوا ان کی نظروں میں ہر حسیں انجان
4
موجزن ہے اگر رگوں میں لہو دعوی عشق سر بسر بے کار
زرد چہرہ ہے طالبوں کا نشاں زیب و زینت انہیں نہیں درکار
سیم و زر راہِ عشق میں حائل سرفروشی ہے عشق کا معیار
5
درد سے آشنا جو لوگ نہیں
عاشقی ان کے بس کا روگ نہیں
6
دیکھنا چھپ کے جلوہٗ محبوب طالبوں کے لئے ہے نازیبا
ان کا شیوہ ہے یہ تن آسانی جن کو رہنی ہو جان کی پروا
7
آرزو مثل دار ہے گویا انتہا موت سے عبادت ہے
عمر بھر اس کا منتظر رہنا رہ رو شوق تیری فطرت ہے
8
خود تمنا کرے کوئی ورنہ ان کو دیکھے جو ہیں تمنائی
نا شناس غمِ وفا ہے تو حیف تجھ کو طلب نہ راس آئی
9
راہِ خوباں میں بیٹھ جا عاشق ہو نہ تو ان کے در سے روگرداں
ان سے وابستہ تیری ہر تقدیر اور وہی تیرے درد کا درماں
ان کے در کے بغیر ناممکن عرصۂ زندگی میں امن و اماں
10
راہ خوباں میں بیٹھ جا عاشق ہوں گے وہ تیرے حال کے پرساں
ان کا یمن قدم ہی رہبر ہے ان کی چشم کرم ہے فیض رساں
11
منزل عشق ہے درِ محبوب سجدہ ریزی کرو عقیدت سے
کیا عجب تم پہ مہرباں ہو جائے اور نوازے تمہیں محبت سے
کاش مل جائے خوب وزشت کاراز تمہیں اس رہبر حقیقت سے
12
جسم کو پارہ پارہ کر لینا جب نظر آئے صورتِ خوباں
سرخرو تو بھی ہو محبت میں تجھے حاصل ہو قربِ محبوباں
13
تجھے اس راہ میں ملیں گے بہت ساقیانِ حسین سبو بردوش
سر کی بازی لگا کے حاصل کر جام مے جو کرے تجھے مدہوش
14
تم سر راہِ انتظار کرو خود پلائیں گے وہ شراب تمہیں
شرط یہ ہے نہ ہو کسی عنوان ان حسینوں سے اجتناب تمہیں
وائي
یہ بات کبھی نہ بھولوں، سندر ہیں میرے ساجن
جب پیار کسی سے کرنا، بپتائوں سے مت ڈرنا
پریتم کے دوارے جا کر، سو بار چڑھوں سولی پر
سکھ پائے میرا جیون، سندر ہیں میرے ساجن
جو پریت کی ریت کو مانے، بھید اس کا کوئی نہ جانے
ٹکڑے ٹکڑے ہو جائوں، پھر بھی نا بھید بتائوں
میں ہاروں اپنا تن من، سندر ہیں میرے ساجن
آٹھویں داستان
1
ٹھیس اپنے وقار کو نہ لگا ان کے کوچے میں بار بار نہ جا
رہگزاروں میں تو دیے نہ جلا راہ گیروں کو داغِ دل نہ دکھا
لب خاموش و حیرت ابدی راز کیف و مسرّت ابدی
2
ذکر بے سود ہے دوائوں کا چارہ سازوں کی فکر ہے بے جا
چارہ سازوں کی فکر ہے اس کو جس کے دل کو کسی کا درد ملا
3
جس کے دل کو کسی کا درد ملا اس کی حالت ہوئی نحیف و نزار
شہد سے بڑھ کے ہے مگر اے دوست درد مندوں کو تلخیٔ آزار
4
بس و ہی چارہ سازِ قلب و نظر جس نے بخشی ہے درد کی اکسیر
تیری ہر بات اے مرے محبوب میرے حق میں نوشتۂ تقدیر
جب بھی کوئی امید بر آئی تیرے بیمار نے شفا پائی
5
مثلِ ناقہ بقدرِ تشنہ لبی تم بھی پی لو کہ خود پلاتا ہے
فیض اس کی سبیل سے ورنہ کون اپنی رضا سے پاتا ہے
6
جو رموز نفی نہیں سمجھا رازِ اثبات کیا وہ سمجھے گا
وہ تو اظہر ہے پر جو ناداں ہے غیب کی بات کیا وہ سمجھے گا
7
مہرباں ہو وہ جوہری جن پر
چمک اٹھیں وہ مثلِ لعل و گہر
8
اپنے کوزے کو کوزہ گر جیسے آزماتا ہے دل کو وہ دلبر
جو بھی اس نے عطا کیا مجھ کو میں نے سمجھا اسی کو شیر و شکر
9
ظاہرا بے رخی ہوئی تو کیا رشتۂ روح ٹوٹ سکتا ہے!
زیست مشقِ ستم سہی لیکن دامنِ صبر چھوٹ سکتا ہے!
10
گر وہ ترکِ تعلقات کرے پاس تم کو رہے محبت کا
جوڑ لو اس کو رشتۂ جاں سے ٹوٹ جائے جو تار الفت کا
وہ اذیت بھی دے اگر کوئی تم سمجھنا پیام راحت کا
11
صبر کیا ہے دلیلِ رحمت ہے قہر آلودگی قیامت ہے
بھر لے دامن میں عجز کی دولت عجز ہی جوہر شرافت ہے
12
اپنی نظریں جھکاکے دیکھ ذرا قہر آلودگی قیامت ہے
جادہ پیمائے معرفت کے لئے عجز ہی پاے استقامت ہے
بردباری ہے مشک کی مانند یہ ضمیرِ بشر کی نکہت ہے
13
ذائقہ شیوۂ تحمل کا خوگرِ آہ و نالہ چکھ نہ سکا
متکبر شکست سے دو چار منکسر فاتحِ ضمیر رہا
14
عجز کو جس نے اختیار کیا اس کی گذری سدا فراغت میں
شکوہ سنج غمِ جہاں کو مگر ہاتھ آیا نہ کچھ شکایت سے
15
گر کسی نے برا کہا بھی تمہیں تم رہو اپنی خاموشی میں مگن
فتنہ پرور فگندہ سر آخر کینہ پرور سدا تہی دامن
16
گر کسی نے برا کہا بھی تمہیں تم رہو اپنی خامشی میں مگن
قول “سید” کا جس کو یاد رہا بن گیا موم اس کا تن اور من
17
بات کہنے سے کچھ نہیں حاصل دل میں رکھنا ہی اس کا اچھا ہے
جس قدر بھی کمان کھینچو گے اتنا ہی ٹوٹنے کا خطرہ ہے
18
شکوے سن کر بھی تو رہے خاموش تیرے ہادی کی یہ ہدایت ہے
سرخروئی ہوئی اسے حاصل اپنے پر آپ جس کو قدرت ہے
19
لاکھ شکوے ہوں تم سے دنیا کو دل میں رکھو زباں سے کچھ نہ کہو
اہل دنیا سے کیا تمہیں امید کچھ بھی تم سے کہیں خموش رہو
20
کچھ کہے کوئی تم سے یا نہ کہے تم ادب کوش ادب نواز رہو
بس اسی میں ہے شان استغنا آپ ہی اپنا احترام کرو
دوسروں کی سند سے کیا حاصل خود نگہدار و خود شناس بنو
21
چشمہ زندگی نے یاد کیا ختم ہونے لگی ہے تیرہ شبی
جا کے ساحل پہ ڈال دے ڈیرا تاکہ باقی رہے نہ تشنہ لبی
22
جن کو صحبت ہے باعثِ آزار ان کی محفل میں تو نہ ہو شامل
ان سے حاصل نہیں کچھ اس کے سوا کہ تجھے کچھ نہ ہو سکے حاصل
23
عمر بھر میں انہیں کے پاس رہو جن کی صحبت میں عین راحت ہے
خیمہ زن ہو وہاں تنِ خاکی سایہ افگن جہاں محبت ہے
وائي
ساجن پہ جائوں واری، میں ہوں برھا کی ماری
پریتم کے دوارے ہوں گے، کتنے ہی پریم پجاری
میں ہوں برھا کی ماری، تم سندر ہو ساجن
کہتی ہے دنیا ساری، میں ہوں برھا کی ماری
میں نینوں سے لگائوں، چرنوں کی دھول تمہاری
میں ہوں برھا کی ماری، کہتا ہے “لطیف” کوی یہ
پریتم کی شوبھا نیاری، میں ہوں برھا کی ماری
سر کھمبات
پہلی داستان
1
مکمل اس کا فیضِ عام سب پر مگر ہوتی رہی مجھ سے برائی
وہ شرمندہ کرے آکر نہ مجھ کو ہمیشہ جس نے کی مجھ سے بھلائی
2
صبحِ روشن ہے تیری پیشانی اور دل چشمۂ محبت ہے
تیرے آنے کی منتظر ہوں میں تو جو آئے تو عین راحت ہے
ہیچ ہے تیرے سامنے خورشید مہ و انجم کی کیا حقیقت ہے
3
میرے محبوب کو ذرا اے چاند مجھ پہ بیتی ہے جو بتا دینا
جو ٹپکتا ہے دیدۂ تر سے جا کے پیغام وہ سنا دینا
کاش خلوت میں ایک بارِ آئے اور نہ پھر چھوڑ کر مجھے جائے
4
پیار سے مجھ کو دیکھنے والے ہر شکایت تیری گوارا ہے
میری خلوت میں آکے جا نہ کہیں تو مری روح کا سہارا ہے
5
اے مری ناقۂ صبا رفتار تجھ کو در پیش ہے طویل سفر
چاندنی رات اور بسیط فضا کتنی پرکیف ہے یہ راہگذر
مڑ کے پیچھے نہ دیکھنا ہر گز سوئے محبوب گامزن ہو کر
مجھ کو جانا ہے اس کے پاس ابھی حرف آئے نہ عہد و پیماں پر
6
چاندنی رات راستہ ہموار زورِ ہمت ہے اب فقط درکار
اے مری راز دار تیز قدم ہو کسی پر نہ راز کا اظہار
سوئے محبوب گامزن ہو جا اے مری ناقۂ صبا رفتار
7
کیف پرور ہے یہ شبِ مہتاب اور پھر تیری راہ بھی ہموار
کوئی تیرے سوا نہیں ہمدم اولیں عشق، دور منزلِ یار
دیدہ دل میں جس کے جلوے ہیں اس کی فرقت ہے باعثِ آزار
اس قدر تیز چل کہ لوٹ آئیں رونما جب ہوں صبح کے آثار
کوئی تیرے سوا نہیں ہمدم اے مری ناقۂ صبا رفتار
8
آج پھر چودھویں کا چاند ابھرا منتظر ہوں کسی کے آنے کی
دل مسرت سے لہلہاتا ہے کوئی پروا نہیں زمانے کی
9
آج پھر چودھویں کا چاند ابھرا شام سے انتظار تھا اس کا
صبحِ نو کی نوید دینے کو وہ حسیں دوست میرے گھر آیا
10
محرمیّت صلائے عام نہیں درمیاں ایک حدِّ فاصل ہے
لوگ جس کو ہلال کہتے ہیں درحقیقت وہ ماہِ کامل ہے
11
کہاں وہ اور کہاں تو! ماہِ کامل ترے حق میں قیامت اس کا جلوہ
کہ حسنِ جاودانی کے مقابل ٹھہر سکتا نہیں حسنِ دو روزہ
ترے اس عمر بھر کے ماحصل سے کہیں بڑھ کر ہے اس کا ایک لمحہ
12
ضیائیں لاکھ ہوں شمس و قمر کی
بغیر اس کے وہی تیرہ شبی ہے
13
نہیں اے چاند تو اس کے برابر کہاں تو اور کہاں محبوب میرا
دوامِ حسن اس کا روئے روشن رہینِ منتِ شب نور تیرا
14
یہ تیری روشنی اے چاند مجھ کو نہ ہونے دیگی حاصل قربِ دلبر
ہمیں تو راس آتی ہیں وہ راتیں ملیں ہم جن کی تاریکی میں چھپ کر
15
مرے دل کو تھی امیدِ ملاقات کیا تھا جسم کو اپنے معطّر
مگر یہ انتظارِ شوقِ پیہم کہ خوشبو اُڑ گئی کافور بن کر
16
برا ہو اے مہ شب تاب تیرا نہ دیکھوں شام ہی سے تیری صورت
ملوں محبوب سے تاریکیوں میں میسر ہو مجھے قربت ہی قربت
17
مرے محبوب کو دیکھا ہے تو نے کہاں وہ اور کہاں تو! ماہِ کامل
بہت دیکھے ہیں مدو جزر تیرے تغیر ہے تری فطرت میں داخل
تو اک شعلہ دہن اور شعلہ رو ہے مگر نظَّارہ اس کا سیر حاصل
18
کچھ اس انداز سے ہر سمت دیکھا خمار آلودہ آنکھ اس نے اٹھا کر
مہ و خورشید و انجم تھر تھرائے ہوئی حیرت سی طاری کہکشاں پر
رخِ جاناں کے جلوئوں کے مقابل مری نظروں میں ہے ہر جلوہ کمتر
19
جب آدھی رات کو اس نے دکھایا نقابِ رخ اٹھا کر اپنا چہرہ
قمر نے کہکشاں کو ساتھ لے کر لگایا نیلگوں دریا میں غوطہ
20
رخِ محبوب کی صباحت دیکھ جیسے روشن ہو صبح کا تارا
[اصل بیت پڑھیں]21
جدھر ہے نور افشاں وہ ستارہ
ادھر محبوب میرا جلوہ گر ہے
نہیں اس کی رواداری میں تلخی
وہ روحِ انگبیں و نیشکر ہے
ستاروں کی طرح ہیں خال اس کے
رخِ تابندہ مانندِ سحر ہے
بغیر اس کے مری شب زندہ داری
فقط بے کیفیِ۔ٔ قلب و نظر ہے
وائي
سکھی میں جائوں اس کے دوار
جی کو پیا بن چین نہ آئے
کب تک بیٹھی سوگ منائوں
تڑپے آٹھ پہر گھبرائے
جی کو پیا بن چین نہ آئے
بیکل ہیں اب تیرے میت
سینے میں گھٹ کر رہ جائے
جی کو پیا بن چین نہ آئے
کالے کوسوں اس کا دیس
کوئی کیسے پیدل جائے
جی کو پیا بن چین نہ آئے
ابلاکھا ہے من میں یہی
جا کر اس کا دیس بسائے
جی کو پیا بن چین نہ آئے
وائي
میں یاد جنہیں کرتی تھی
میرے آنگن میں آئے
پھولوں کی مہک سانسوں میں
خوشبو میں جسم بسائے
میرے آنگن میں آئے
میں ہوں اک پریم پجارن
چھب پریتم ہی کی بھائے
میرے آنگن میں آئے
کتنے سندر ہیں ساجن
یہ بات اب کون بتائے
میرے آنگن میں آئے
کہتا ہے “لطیف” کوی یہ
پریتم کی پریت سُہائے
میرے آنگن میں آئے
وائي
میں اپنے پیا کو منائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
اس اندھیاری میں جل کر
جیون کی جوت جگائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
دھونی پیارے پریتم کی
تن من میں آج رمائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
دکھ میرا کوئی نہ جانے
کیا دنیا کو سمجھائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
کوئی کھوٹ رہے نا مجھ میں
اس کی داسی بن جائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
کہتا ہے “لطیف” کوی یہ
جیتے جی پریت نبھائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
ہے مرگھ ترشنا جیون
میں پریت سے پیاس بجھائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
آشا کے سپن سہانے
بیاکل من کو بہلائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
اس پاپ کی نگری سے میں
اب پیا ملن کو جائوں
اے رات اگر تو ٹھہرے
دوسری داستان
1
فلک پر فروزاں ہو اے چاندجب تو
نظر ڈالنا پہلے اس مہ لقا پر
بتانا اسے حال ہم عاجزوں کا
یہ کہنا کہ جیتے ہیں تیری رضا پر
نہیں جسم و جاں میں وہ تاب و تواں اب
مگر پھر بھی قائم ہیں عہدِ وفا پر
تجھے بھیجتے ہیں سلامِ محبت
نگاہیں جمائیں ہیں حسن رجا پر
2
گذر میرے محبوب کے بام و در سے
جو محرم مرے شوقِ بے تاب کا ہے
سنا اس کو اے چاند پیغام میرا
کہ تو واقفِ حال اہلِ وفا ہے
نہیںکوئی دنیا میں میرا سہارا
جدائی کے ماروں کا تو آسرا ہے
3
ہکتی ہوئی زلفِ خواب شبستان
فضائیں خنک، بوئے کافور پرّاں
یہ خوشبو میں لپٹا شبابِ زمستاں
سماں کیا سہانا ہے اے ماہِ تاباں
یہاں درد رنجوری و رنج دوری
وہاں اضطراب اور پہلوے جاناں
4
کوئی ناقۂ تیز رفتار یا رب
کہ ہو اس کے در تک میسر رسائی
مجھے اس سے محروم رکھے گی کب تک
یہ دشواریٔ راہ و بے دست و پائی
5
مجھے لذتِ قرب سے آشنا کر
تری انجمن سے بہت دور ہوں میں
غمِ ہجر کا کوئی آخر مداوا
غمِ ہجر سے سخت رنجور ہوں میں
6
تڑپتے ہیں دل میں رموزِ معانی
کہاں ہے مرا رازدارِ محبت
مری خانہ ویرانیوں کی قسم ہے
کبھی آ بھی جا اے بہارِ محبت
7
ادھر اس کی ضد کا یہ عالم کہ توبہ
ادھر پے بہ پے شورشِ باد و باراں
اِدھر سینے میںدل ٹھہرتا نہیں ہے
ادھر ہے کجاوے سے ناقہ گریزاں
جدھر ہمسفر ہو چکے ہیں روانہ
ادھرتک رہی ہے بصد یاس و حرماں
8
کوئی ناقہ نہ راہوار کوئی
کیسے چل کر تمہارے پاس آئوں
کوئی صورت کہ میں ترے در تک
رات ہی رات میں پہنچ جائوں
9
اے مری ناقۂ صبا رفتار
مجھ کو پہنچا دے ان کے پاس ابھی
ورنہ تجھ کو بھی راکھ کر دے گی
لب پہ آتے ہی آہِ نیم شبی
10
دوسروں کے لئے خس و خاشاک
اور کھلاتا رہوں تجھے چندن
اے مری ناقۂ صبا رفتار
دور ہے میرے دوست کا مسکن
رات ہی رات میں وہاں پہنچ
ہے جہاں روے یار جلوہ فگن
11
اب تامل نہ ہو ذرا اس میں
دیکھ اے میری ناقۂ غمخوار
سامنے ہے رہِ دیارِ حبیب
رات پر کیف راستہ ہموار
12
تجھ کو جس خاندان سے نسبت ہے
فرض اس خاندان کی عزت ہے
فرق آئے نہ چال میں تیری
تو وفا کیش و نیک طینت ہے
13
میں نے اس کو درخت سے باندھا
تاکہ یہ اسکی کونپلیں کھائے
حیف یہ خوگر خس و خاشاک
خس و خاشاک ہی اسے بھائے
اس کی ضد کا کوئی ٹھکانا ہے
ایسے ضدی کو کون سمجھائے
14
حرف آئے نہ باد پائی پر
اے مری ناقۂ صبا رفتار
چل! کہ اس کارواں سے مل جائیں
میرا محبوب جس کا ہے سالار
15
اے مری ناقۂ صبا رفتار
بیش قیمت مہار لائوں گی
زر و لعل و گہر کے ہاروں سے
تیری گردن کو میں سجائوں گی
ڈالیاں نرم نرم، مہندی کی
اور چند تجھے کھلائوں گی
شرط یہ ہے کہ پاس ساجن کے
رات ہی رات میں پہنچ جائے
16
یہ مری رازدار رنج والم
میری خوددار و خودنگر ناقہ
جو نہ کھاتی ہے اور نہ پیتی ہے
اور جس کو پسند ہے فاقہ
17
جا رہی ہے وہ جانب محبوب
خوگر رنج و فقر و فاقہ ہے
سر کی پروا نہ تن کا ہوش اسے
میری ناقہ عجیب ناقہ ہے
18
ساتھیوں کا یہ مجمع خورسند
اور یہ شاخہائے خوشبودار
اپنے گلّے میں خرم و شاداں
اور دل میں وہی غم دلدار
ریت پر نقشِ پا نہ چھوڑے گی
یہ مری ناقۂ صبا رفتار
ماں! تجھے بد گمانیاں کیوں ہیں
خوف افشائے راز ہے بیکار
19
بور ہو یا درخت کی کونپل
اب کوئی چیز یہ نہ کھائے گا
میرے محبوب کے تحائف کو
اتنی جلدی یہ بھول جائے گا؟
رات کھاتا رہا جہاں چندن
وہ چمن اس کو یاد آئے گا
یہ مرا اشترِ وفا طینت
گن اسی باغبان کے گائے گا
20
کیا ہوا آج میری ناقہ کو
اپنی حالت یہ کیا بنائی ہے
شاید اس نے روا روی میں کہیں
کوئی زہریلی چیز کھائی ہے
21
کھیت کی لہلہاتی بیلوں میں
اس نے دانستہ اپنا منہ ڈالا
مشتعل ہو کے آگئے دہقان
اور وہ ڈرپورک بھاگ بھی نہ سکا
آخر کار اُشتر نادان
اپنی وارفتگی کو بھول گیا
22
شہد جس کو سمجھ رہا ہے تو
درحقیقت وہ بیل ہے مسموم
کہیں ایسا نہ ہو اسے کھا کر
تجھ کو رہنا پڑے سدا مغموم
23
ناقۂ دل کو ہے یہی درکار
کوئی مضبوط سی بنائو مہار
لہلہاتی ہیں ہر طرف بیلیں
کتنی خوش رنگ کیسی خوشبودار
لگ گئی اس کو ان کی چاٹ اگر
ہاتھ آئے گی پھر نہ یہ زنہار
24
ناقۂ بے مہار پر عائد
لاکھ پابندیاں ہوں سب بیکار
ایسی بیلوں کی اس کو عادت ہے
زہر جن کا ہے باعث آزار
25
اس سے پہلے کہ اے مری ناقہ!
میرے ہاتھوں میں تازیانہ ہو
گامزن ہو مرے اشارے پر
تو رہ راست پر روانہ ہو
26
یہی “کھمبات” کا جزیرہ ہے
ڈالو چاروں طرف نظر، دیکھو
ہر طرف دعوت تماشا ہے
حسنِ مطلق کو جلوہ گر دیکھو
27
دیکھ اے میری ناقۂ ناداں
مجھے تجھ سے بڑی شکایت ہے
ہر طرف ڈالیاں ہیں چندن کی
“آک” سے کیوں تجھے یہ رغبت ہے
جس نے اونٹوں کو کردیا مسموم
تجھ کو اس بیل سے محبت ہے!
28
میری ناقہ ہے تند و شوخ و شریر
دوستو کردو اس کو پا بہ رسن
اسے کھانے کو جب بھی دیتی ہوں
ہوتی ہے اس کو دیکھ کربدظن
لاد دو اس پہ کوئی بار گراں
ورنہ اس کا یہی رہے گا چلن
29
سینہ زنجیر سے جکڑ ڈالو
اور پیرں میں رسیاں باندھو
میرے قابو میں یہ نہیںاے ماں!
دوں کہاں سے میں تازہ پھل اس کو
بات کس کی بھلا وہ مانے گی
اپنے آقا کا جس کو پاس نہ ہو
30
لگ گئی کس کی بددعا تجھ کو
اے مری ناقۂ سبک ساماں
بند آنکھیں کئے ہوئے اپنی
کیوں ہے کولہو کے گرد تو گرداں
31
پابہ زنجیر کر دیا میں نے
پھر بھی مجھ سے گریز پاہی رہی
توڑ کر قید و بند کو ناقہ
سوئے محبوب تیز پاہی رہی
32
میں نے کیں لاکھ کوششیں لیکن
اس نے چھوڑی نہ اپنی خود رائی
ہوگئے میرے سب جتن بیکار
جانے کس دلربا کی یاد آئی
33
سخت نفرت ہے اس کو چندن سے
اور بیکار ہیں گلِ مشکیں
اس کو بھاتے ہیں جنگلی پودے
عود و عنبر سے کوئی انس نہیں
34
میں تو حیراں ہوں کہ یہ ناقہ
صاف پانی پئے نہ چند ن کھائے
جنگلی بوٹیاں اگر مل جائیں
عود و عنبرکے بھی قریب نہ جائے
35
دل نشیں خوشہ ہائے رنگا رنگ
اور وہ شاخہائے بیش بہا
ایک پتا بھی جس کا ہو انمول
کیا ہو اندازہ اس کی قیمت کا
جا کے اس باغ میں میری ناقہ!
کتنا نقصان ہائے تو نے کیا
36
دولت بے شمار کے بدلے
مدعا میں نے اپنا پایا ہے
اشترِ لاجواب و لاثانی
ہاتھ خوش قسمتی سے آیا ہے
37
یہ کجاوے کو جب اٹھائے گا
رشک بادِ صبا کو آئے گا
راز دارانہ مخلصانہ مجھے
اپنے محبوب سے ملائے گا
کوئی اس کی نہیں مثال کہیں
بھید کیا اس کا کوئی پائے گا
38
اس کو مرغوب الائچی ہے بہت
کتنا خوش ہو کے ان کو کھاتا ہے
اور پھر مجھ کو آن واحد میں
جا کے محبوب سے ملاتا ہے
وائي
ماں! بھید ہے یہ مرے من کا
رکھتی ہوں سجن سے آشائیں
تڑپائین جو مجھ برھن کو
راتیں نہ وہ لوٹ کے پھر آئیں
رکھتی ہوں سجن سے آشائیں
جو اپنے پیا کے ساتھ کٹیں
اے کاش مجھے پھر مل جائیں
رکھتی ہوں سجن سے آشائیں
جھانکوں میں جھروکوں سے من کے
چھب اپنی پریتم دکھلائیں
رکھتی ہوں سجن سے آشائیں
کس طرح “لطیف” کی رات کٹے
وہ یاد آکر جب تڑپائیں
رکھتی ہوں سجن سے آشائیں
وائي
کب آئے سندیسوں پر ساجن
کب آشائوں سے ملے پیا
راتوں کو لہو کے چھینٹوں سے
نینوں میں من کی جوت جگا
کب آشائوں سے ملے پیا
دکھلائی نہ جس نے پیٹھ کبھی
رن برھا کا اس نے جیتا
کب آشائوں سے ملے پیا
ساجن ہوں جس کے پردیس
وہ کیوں نہ سنائے نیر کتھا
کب آشائوں سے ملے پیا
وائي
دھتکارو یا للکارو
آئی ہوں سرن تمہاری
تم سیدھے منہ بھی نہ بولو
میں جائوں واری واری
آئی ہوں سرن تمہاری
جگ چھان لیا ہے میں نے
ہے تو ہی تو گردھاری
آئی ہوں سرن تمہاری
سر سورٹھ
پہلی داستان
1
چنگ آراستہ کئے “چارن‘
منتظر تھا کہ رائے “ڈیاچ‘ آئے
اور یہ اس کے موہ لینے کو
راگ عہدِ الست کا گائے
2
مانگتا کب ہے درہم و دینار
اس کا مطلوب ہے سر سردار
دور ہے دیس اس مغنّی کا
آ رہی ہے صدائے پراسرار
کاٹ لے نے نواز اگر چاہے
اب تو سر سے رہا نہیں سروکا
3
مجھ غریب الدیار سائل کو
تیرے نام و نشاں سے کیا نسبت
میں کہاں اور کہاں ترا رتبہ
خاک کو آسمان سے کیا نسبت
پھر بھی کچھ عرض حال کرنا ہے
تجھ سے سر کا سوال کرنا ہے
4
سن لے “سورٹھہ‘ کے خوبرو سرتاج
اک انوکھا سوال لایا ہوں
نرغۂ دشمناں میں ہوں لیکن
تیرا سر مانگنے کو آیا ہوں
جلد سائل کو سرخرو کردے
ورنہ محروم آرزو کردے
5
سردیاں قہر ہیں مرے نزدیک
گرمیاں بھی نہیں ہیں مجھ کو ٹھیک
سن لے میرے رباب کی فریاد
اور دے دے جو مانگتا ہوں بھیک
کچھ تو آجائے میری جھولی میں
ڈال دے منہ سے پان ہی کی پیک
6
اپنے دریوزہ گر مغنّی کو
جسم اور جان کی اماں دینا
والیِ جنّت عدن مجھ کو
نار دوزخ سے تو بچا لینا
دور سے تیرے پاس آیا ہوں
سرخروئی کی آس لایا ہوں
7
اضطراب آفریں صدائوں میں
آرزوئے قرار لایا ہوں
چھوڑ کر میں ہر ایک در پیارے
آج تیرے حضور آیا ہوں
8
بھاڑ میں جائیں اور دروازے
لو لگائے ہوں میں ترے در سے
میرے پیارے “کماچ‘ کا آہنگ
تیرے دیوار و در سے جب بر سے
کاش تو بھی ہو گوش بر آواز
ہو عیاں راز ساز مضطر سے
9
پیاری ’سورٹھ‘کے خوبرو سرتاج
میری جھولی کی بھی رہے کچھ لاج
چھوڑ کر میں ہر ایک دروازہ
سر جھکائے ہوں تیرے در پر آج
وائي
راج پاٹ کو بھینٹ چڑھایا
’ڈیاچ‘ نے سیس کٹایا
راجہ نے ہر رانی چھوڑی
سارا راج گنوایا
’ڈیاچ‘ نے سیس کٹایا
ہاتھ میں جب ’کماچ‘ لئے
پردیسی ’چارن‘ آیا
ایسا رنگ جمایا
’ڈیاچ‘ نے سیس کٹایا
دور دور تک پھیل گیا
دیالو راجہ کا نام
بن گیا اس پریمی کے ہاتھوں
’بیجل‘ کا بھی کام
سب کچھ دان میں پایا
’ڈیاچ‘ نے سیس کٹایا
دوسری داستان
1
دور سے ’جونا گڑھ‘ میں آیا ہے
اک عجیب و غریب موسیقار
مضطرب شہر ہوگیا سارا
سن کے اس کے رباب کی جھنکار
ہوگئی سب پہ بیخودی طاری
نغمے کی لے سے ہوگئے سرشار
کون جانے وہ ایک قاتل ہے
صرف راجا کے سر کا سائل ہے
2
گونج اٹھا ہے نشہ آور ساز
دیکھ ’بیجل‘ ہے زمزمہ پرداز
خود فراموش ہو گیا راجا
سن کے سائل کی سرمدی آواز
اور آخر طلب کیا اس کو
خلوتِ خاص میں بصد اعزاز
مٹ گیا فرق ما و تو یکسر
سوزِ نغمہ ہوا اثر انداز
بھید کیا تھا کسی کو کیا معلوم
کس طرح دونوں ہوگئے ہمراز
3
رنگ محلوں سے آگیا راجا
سن کے اس نے نواز کا نغمہ
خلوت خاص میں طلب کر کے
آخر کار اس نے حکم دیا
اسپ تازی و زینِ پرجوہر
میری جانب سے دو اسے تحفہ
کیا خبر تھی کہ ساز گار نہیں
کوئی سوغات اس کو سر کے سوا
4
ہو کے خوش نے نواز ’چارن‘ کو
بخشے راجہ نے قیمتی انعام
لیکن اس نے کہا کہ اے سلطان
مجھ کو ہے صرف تیرے سر سے کام
مال و زر کی کمی نہیں مجھ کو
ان سے کوئی خوشی نہیں مجھ کو
5
تھیلیوں کی نہیں مجھے حاجت
ہوں مبارک یہ تجھ کو اے سردار
اپنے اس مال و زر کو واپس
مجھ کو ہے صرف تیرا سر درکار
6
میں فقط تیرے سر کا طالب ہوں
ہاتھی گھوڑے مجھے نہیں درکار
مانگتے ہیں جو ہاتھ پھیلا کر
وہ کوئی اور ہوں گے موسیقار
7
فطرۃٔ تو ہے ایک موسیقار
تو نے پایا ہے فن وراثت میں
مائل ارتعاش کردے آج
کوئی نغمہ مری سماعت میں
8
گم ہوں اس سوچ میں کہ اے ’بیجل‘
کیا ہے یہ ساز اور یہ آواز
کس لئے اتنی دور سے آیا
کاش معلوم ہو مجھے یہ راز
9
دور سے تیرے پاس آیا ہوں
اب نہیں واپسی کے امکانات
مال و زر کی ہوس نہیں مجھ کو
اور ہی کچھ ہیں میرے احساسات
پیاری ’سورٹھ‘ کے خوبرو سرتاج
کاش سمجھے تو میرے دل کی بات
10
وہ نہیں ملک و مال کا سائل
اس کے دل میں ہے اور ہی کچھ بات
چاہتا ہے ’ڈیاچ‘ سے کرنا
خلوتِ خاص میں بسر اوقات
11
کیا امیر اور کیا غریب یہاں
وہ تو سب کا ہی جان لیوا ہے
اس کی زد سے بچے کوئی کب تک
صبح و شام اس کو سر کا سودا ہے
12
آگئے جب گرفت میں تیری
ہوگئے خاک اہلِ تخت و تاج
کاش پھر آئے تو نہ اے سائل
تیری آمد ہے یا اجل کا راج
وائي
اے البیلے چارن تو نے کیسا راگ سنایا
مجھ کو مست بنایا
جو تو میرا سیس نہ مانگے دے دوں لاکھوں دان
اے البیلے چارن تو نے میرا من برمایا
مجھ کو مست بنایا
کہتا ہے یہ ’لطیف‘ ہمیشہ دیکھو ںتیری اور
اے البیلا چارن تو نے اپنا رنگ جمایا
مجھ کو مست بنایا
تیسری داستان
1
صبحدم باکمال ’بیجل‘ نے
جانے کس دھن میں راگ اک گایا
جب سنا کاخ و کو میں راجہ نے
اس کو یہ راگ اس قدر بھایا
بے حجابانہ اس مغنی کو
شوق سے اپنے پاس بلوایا
بولا اے میرے اجنبی مہماں
ایک کیا تجھ پہ لاکھ سر قرباں
2
بیٹھ ڈولی میں اور اوپر چل
صبحدم یہ پیام آیا ہے
تجھ کو اونچے محل میں راجہ نے
دیکھ کس شوق سے بلایا ہے
عین ممکن ہے وہ کرم کردے
آپ ہی اپنا سر قلم کر دے
3
جا رہا ہے محل میں وہ سائل
چھیڑنے ہی کو ہے پھر اپنا ساز
ڈر ہے کردے نہ بام و در مسمار
اس کے نغموں کا فتنہ زا اعجاز
سر اٹھائے نہ شور و شر بن کر
دفعتاً سحر آفریں آواز
مٹ ہی جائے گا شہر جونا گڑھ
اس کو ہونے دو زمزمہ پرداز
چال ایسی چالے گا وہ ’بیجل‘
سر ہی لے کر ٹلے گا وہ ’بیجل
4
درمیاں سائل اور سخی کے ہے
اور کیا چیز ماورائے ساز
گونجتی ہے جو تار میں اکثر
ان کی روحوں میں ہے وہی آواز
کہہ رہا ہے کوئی سلام تجھے
تو کہ سائل ہے آج اس در کا
تجھ کو کیا ہو گیا بتا ’بیجل‘
کیوں تقاضا ’ڈیاچ‘ کے سر کا
اور اگر ہے یہی ترا ارماں
تیرے ارمان پر یہ سر قرباں
5
کیسے کیسے سخی ملے مجھ کو
زخم دل کا نہ بھر سکا کوئی
چھان مارا ہے میں نے ’گربیلہ‘
سر کا وعدہ نہ کر سکا کوئی
6
سر تو اپنے ہی بس میں تھا ورنہ
اور اگر کچھ طلب کیا ہوتا
ہو کے اپنے سوال سے محروم
ہم کو بدنام کر دیا ہوتا
7
سر کو تجھ پر نثار کرتا ہوں
لے یہ ناچیز استخواں لے جا
نہیں ایفائے عہد میں تاخیر
تو جہاں چاہے اب وہاں لے جا
یہ ترے کام آسکے شاید
جان حاضر ہے جانِ جاں لے جا
8
ہو سکے کیا برابری تیری
میں کہاں اور کہاں ترا اعجاز
سر ہے حاضر کہ ہیں کہیں بہتر
میری رگ رگ سے تار ہائے ساز
اور کیا دوں میں تجھ کو نذرانہ
سن کے یہ تیری سرمدی آواز
سر مجھے بارِ دوش ہے لے جا
ہے نہیں مجھ کو یار دوش پہ ناز
9
ایک سر کیا جو لاکھ سر ہوتے
وہ بھی قربان ساز پر ہوتے
لاکھ سر دے کے اے مغنی ہم
تیرے ممنون کس قدر ہوتے
10
سر کا نذرانہ اس کو کیا دشوار
جو فدائے کمال ہو جائے
کوئی ایسی عطا ہو سائل پر
جو عدیم المثال ہو جائے
11
لاکھ مشکل سہی مگر اے ’ڈیاچ‘
وہ عطا کر جو چاہتے ہیں تار
کر چکا ہوں سوال اب سر کا
لوٹ کر جائوں گا نہ میں زنہار
دیکھنا چاہتا ہوں اے فیاض
آج میں تیرے فیض کا معیار
12
سر بھی دینا قبول تھا اس کو
بڑھ کے ’خادم‘ سے تھی سخا اس کی
پوچھتا تھا ’ڈیاچ‘ ’بیجل‘ سے
درحقیقت جو تھی رضا اس کی
نیستی ہے کہ رازِ ہستی ہے
دل کی مستی عجیب مستی ہے
13
شہر میں جب ’ڈیاچ‘ کے آیا
وہ مغنی لئے ہوئے اک چنگ
دونوں عالم تھے گوش بر آواز
ہر طرف تھی صدائے خوش آہنگ
رائے سے سر طلب کیا اس نے
دے دیا اس نے بے دریغ و درنگ
مسکراتی ہے آج اس کی ماں
ناز کرتے ہیں اس پہ نام و ننگ
وائي
سیس تو تیرا ہو چکا اے ’چارن‘ مہمان
دینا ہے کچھ اور بھی بن مکھ مانگے دان
اے چارن مہمان
’بیجل‘ اب نہ چھپائیو مجھ سے من کی بات
جونا گڑھ میں لے چلوں تجھ کو اپنے سات
واروں لاکھوں سیس میں سن کر تیری تان
اے چارن مہمان
لاج نہ جائے پریم کی چاہے سر کٹ جائے
سب کچھ تجھ پہ واروں پھر بھی چین نہ آئے
کہتا ہے جو ’لطیف‘ ہمیشہ رکھیو اس کا دھیان
اے چارن مہمان
دینا ہے کچھ اور بھی بن مکھ مانگے دان
چوتھی داستان
1
کتنی پرنور ان کی آنکھیںہیں
بام و درجن سے جگمگاتے ہیں
کون جانے کہ مصلحت کیا ہے
جویہ سائل محل میں آتے ہیں
بادشاہانِ وقت کس کے لئے
سر جھکاتے ہیں سر کٹاتے ہیں
2
تو کہ ہے سائل خجستہ قدم
تیری آمد پیام رحمت ہے
بسکہ ہوں راز داں ترے فن کا
مجھ پہ ظاہر تری حقیقت ہے
جو بھی پڑ جائے تیری جھولی میں
جانتا ہوں بہت غنیمت ہے
3
تیرا مضراب تار ساز پہ تھا
رگِ گردن پہ چل رہی تھی چھری
چھین لی سحر آفریں ہو کر
تیرے نغموں نے زندگی میری
اے مغنی مگر تری فطرت
مطمئن ہی رہی، چہ بوالعجبی
4
نغمہ زن ہے یہ تار کی آواز
یا ہے در پردہ اور کوئی راز
خود مغنی ہے صاحب اعجاز
ورنہ کس کام کے یہ تار یہ ساز
5
میرے دل میں اتر گئی ہر تان
ایک سر کیا ہزار سر قربان
لیکن ایسی عطا سے کیا حاصل
اور کچھ مانگتا مرے مہمان
بے بضاعت ہے ٹوٹنے کے بعد
آب و گل کا مجسمہ، انسان
6
جسم کے ساتھ یا جدا کرکے
بول کس طرح اپنا سر دوں میں
مجھ کو تیرا خیال ہے سائل
یوں تو دینے کو بحروبر دوں میں
میں کہاں اور کہاں ترا اعجاز
کاش ہو جائوں تیرا مونسِ راز
7
کچھ سمجھ کر ہی برمحل اس نے
چھیڑ دی اک بڑی سریلی تان
جانے کیا چاہتا تھا وہ ’چارن‘
سر کا ملنا تو تھا بہت آسان
8
تجھ پہ سب کچھ نثار اے ’جاجک‘
تیرا نغمہ عدوے حرص و آز
کاٹ لے سر کو اور خوش ہو جا
پھر نہ آنا تو اپنا لے کر ساز
پھر رہی ہے اجل تعاقب میں
کھل گیا مجھ پہ تیرے فن کا راز
9
اب یہ گردن ہے اور یہ خنجر ہے
اور ترے روبرو مرا سر ہے
جس کی خاطر سفر کیا تو نے
کوئی ایثار اس سے بڑھ کر ہے
ملک مانگا نہ مال و زر مانگا
جانے کیوں تو نے صرف سر مانگا
10
دستِ ’بیجل‘ میں اک انوکھا ساز
اور اس ساز کی عجب آواز
ہوگیا رائے ’ڈیاچ‘ پر ظاہر
سائل خوش گلو کے فن کا راز
اس کو اپنا بنا کے چین آیا
سر کی بازی لگا کے چین آیا
11
چل بسا رات وہ مہاراجہ
سوگوار اس کی راجدھانی ہے
ایک سورٹھ پہ ہی نہیں موقوف
اشکبار آج ہر جوانی ہے
جوناگڑھ میں بلا کا ماتم ہے
نوحہ خوانی ہی نوحہ خوانی ہے
جانے کیا کر گیا وہ موسیقار
خاک میں مل گیا گلِ ’گرنار‘
12
ہاتھ ملتا ہے لے کے سر ’چارن‘
کچھ نہ لیتا تو سب سے بہتر تھا
اس سخی ’ڈیاچ‘ نے دیا جو کچھ
صرف پاسنگ کے برابر تھا
لے کے آیا ہے سر کو اب واپس
حوصلہ دیکھئے تو ’بیجل‘ کا
بڑھ گیا ’ڈیاچ‘ کی سخاوت سے
اور بھی اشتیاق سائل کا
13
کہہ رہے ہیں کہ مر گئی سورٹھ
اب نہ وہ انتظار ہے نہ عذاب
سب نشیب و فراز گونج اٹھے
ہو گئے نغمہ ریز چنگ و رباب
نغمہ و حسنِ جاوداں باقی
ورنہ سب کچھ خیال ہر شے خواب
14
راگ باقی رہا نہ رنگ کوئی
’ڈیاچ‘ کے بعد مرگئی سورٹھ
اس جہانِ فریب ساماں سے
دل گرفتہ گذر گئی سورٹھ
پائے گا آکے کیا ادھر ’بیجل‘
کس کو لوٹائے گا یہ سر ’بیجل‘
وائي
تو جدا ہوگیا ہائے ہائے
کیسے تجھ کو یہ سورٹھ بھلائے
آج خاموش ہیں ساز تیرے
تو ہی ساز حقیقت بجائے
جو محبت کے نغمے سنائے
کیسے تجھ کو یہ سورٹھ بھلائے
کر گیا کیسا جادو وہ ’بیجل‘
جو سپوتوں کے بھی ہوش اُڑائے
کون تھا جو ترا سر کٹائے
کیسے تجھ کو یہ سورٹھ بھلائے
چھاتیاں کوٹتی ہیں اب اپنی
کون سکھیوں کو قابو میں لائے
پیار سے انکے جی کو لبھائے
کیسے تجھ کو یہ سورٹھ بھلائے
سر آسا
پہلی داستان
1
ابتدا ہے نہ انتہا کوئی
کیا لگائے ترا پتا کوئی
بے شریک و عدیل و بے ہمتا
تجھ سا پایا نہ دوسرا کوئی
2
خواہش وصل جان ہستی ہے
نہ خودی ہے نہ خود پرستی ہے
روئے جاناں سے مثلِ پرتو گل
عالم رنگ و بو میں مستی ہے
صد صنم خانۂ خیال اب تک
سجدہ گاہ فریب ہستی ہے
پھر بھی حسن و جمال سے ہر سو
اس کی وحدانیت برستی ہے
نظر مشرکانہ کیا جانے
زندگی جلوۂ الستی ہے
3
خود کو سمجھا ہے شرک سے خالی
اور پھر بھی یہ خود پرستی ہے
کچھ خبر بھی ہے تجھ کو اے ناداں
اس کی ہستی سے تیری ہستی ہے
اہلِ عرفان کا ہر نفس غافل
محرم جلوۂ الستی ہے
4
عبد و معبود کے تعلق میں
ابتداء ہے نہ انتہا کوئی
وہ ہمیشہ کو گم ہوا آخر
کر سکا اس کی جو رضا جوئی
5
کرئی تکریم ہے نہ اب تعظیم
وہ کہاں اور کہاں جبیں سائی
عارفوں نے وہ جلوہ گاہِ جمال
ماورائے دل و نظر پائی
6
میں ترا عبد ہوں مرے معبود
شرک و الحاد سے مجھے کیا کام
خلش انگیز آرزو تیری
میرے قلب و نظر میں صبح وشام
7
تجھ میں جب تک ہے ذوق خود بینی
تیرا شوقِ نماز بے توقیر
بھول جا اپنے آپ کو پہلے
زیب دے گی زباں کو پھر تکبیر
8
وہ وظیفے نہ وہ نمازیں ہیں
خود فراموش سی طبیعت ہے
جب سے دل پر ہے عشق کی یورش
کتنی بے کیف ہر عبادت ہے
9
گر نہیں دل میں شوقِ وارفتہ
تیرے کس کام یہ جبیں سائی
کیا کسی نے کبھی شرر کے بغیر
صرف پھونکوں سے آگ بھڑکائی
10
بانی۔ٔ جلوہ زار ہست و بود
اس کو شاہد کہوں میں یا مشہود
چشم خود بیں حجاب ہے ورنہ
وہ ہے ہر ایک شکل میں موجود
اس کا عرفاں سہل ہو جائے
فہم و ادراک ہوں اگر مفقود
بے خودی کے بغیر ناممکن
بختِ بیدار و طالع مسعود
ماورائے خرد ازل سے ہے
نوع انسان کی منزلِ مقصود
وائي
موہے اکیلے چین نہ آئے
برھن رین نہ کاٹی جائے
برھا کے دکھ کیسے جھیلے
کوئی کب تک نیر بہائے
برھن رین نہ کاٹی جائے
کس پربت چت چور چڑھے ہیں
مجھ کو کوئی راہ سجھائے
برھن رین نہ کاٹی جائے
انجانے سے آس نہ ٹوٹے
جیون جب تک بھی بھٹکائے
برھن رین نہ کاٹی جائے
من میتوں کی یاد ہی من میں
پریت ملن کی آس جگائے
برھن رین نہ کاٹی جائے
دوسری داستان
1
یہی بہتر نکال دو آنکھیں
نذر زاغ و زغن کروں آنکھیں
تاکہ وقت سحر نہ دیکھ سکیں
جلوۂ یارِ پرفسوں آنکھیں
تابہ حد نظر اسے دیکھا
جب ہوئیں مائلِ دروں آنکھیں
2
صبح دم آب و دانہ سے پہلے
جس نے پائی نویدِ جلوۂ یار
اس کو ہر آرزو سے بہتر ہے
اس عدیم المثال کا دیدار
جسم و جاں جس کے روبرو ہوکر
بھول جاتے ہیں زیست کا پندار
3
ہائے آنکھوں کی حسرت دیدار
صبح سے پہلے ہوگئیں بیدار
منتظر ہیں بہ آرزوئے دوام
کب نظر آئے حسنِ جلوۂ یار
خوب تھا اس کا جلوۂ بے رنگ
کتنی رنگینیاں ہوئیں بے کار
4
مستی۔ٔ چشمِ جاوداں سی ہے
کوئی وارفتگی نہاں سی ہے
کششِ عشق اور کیا ہو گی
ہر تمنّا جواں جواں سی ہے
کس کو دیکھا کہ آج آنکھوں میں
اک چمک جیسے ارغواں سی ہے
کون جانے کہ ان کی بیتابی
اک پراسرار داستاں سی ہے
کیا بتائوں ’لطیف‘ اس کا راز
نگہ دوست مہرباں سی ہے
5
صرف دکھ درد کی رفاقت ہے
ان کی عادت عجیب عادت ہے
دوسروں کے لئے ان آنکھوں میں
جانے کیوں اتنی جاذبیت ہے
بے سنان و سپر انہیں درپیش
کار زار غمِ محبت ہے
6
سوچتا ہوں کہ دیدۂ حیراں
ایک آتشکدہ ہے یا حمام
لاکھ پرنم سہی مگر اس میں
سوز ہی سوز ہے بہر ہنگام
تجھے دیکھے بغیر اے محبوب
مل سکے گا نہ اب مجھے آرام
7
تیری آنکھیں ہیں تیغ کے مانند
جو کئی زخم ڈال دیتی ہیں
لیکن اکثر دلوں پہ پڑتے ہی
سارے دکھ درد ٹال دیتی ہیں
سرمگیں اور سرمے سے خالی
تیری آنکھوں کا ہے عجب دستور
اپنے مدہوش جاں نثاروں پر
ان کا ہر ایک وار ہے بھرپور
8
تیری آنکھوں کی مسکراہٹ میں
ہم نے چاندی کی سی چمک دیکھی
تو جو آیا ہماری آنکھوں ن
تیرے قدموں کی چاپ تک دیکھی
تو جو سویا تو خوب ہم جاگے
تیرے چہرے پہ کیا دمک دیکھی
9
تیری آنکھوں نے میری آنکھوں کو
عشوۂ و ناز بھی سکھایا ہے
عشق نے روٹھنے کا یہ انداز
میرے پیارے تجھی سے پایا ہے
10
لاکھ روکا مگر ان آنکھوں نے
میرے پیارے تجھی سے پیار کیا
اپنے راز و نیاز کی خاطر
ہائے بے موت مجھ کو مار دیا
11
یہ جھگڑنے کو ہیں سدا تیار
ان کے لڑنے کے ہیں عجب اطوار
ان پہ ساون کو رشک آتا ہے
جب لرزتے ہیں آنسوئوں کے تار
نت نئی آن بان سے دیکھا
میں نے آنکھوں کو برسرِ پیکار
12
بے ادب ہوگئی ہیں کیا آنکھیں
منتہاے نظر سے پیار نہیں
غیر سے جن کی آشنائی ہو
ایسی آنکھوں کا اعتبار نہیں
13
عید کیسی بغیر آنکھوں کے
عید آنکھوں سے ہی عبارت ہے
یہ نہ ہوتیں تو کون کہہ سکتا
زندگی کتنی پرمسرت ہے
14
جس میں رہتا ہے جان کا خطرہ
وہی انداز اختیار کیا
مجھ سے پوچھے بغیر آنکھوں نے
جانے کس کس کا اعتبار کیا
جہاں چلتی نہیں کسی کی بات
پھر اسی رہ گذر سے پیار کیا
ہائے کس راہ گیر کی خاطر
روح کو وقف انتظار کیا
15
وہ بلا نوش حسنِ ہستی ہیں
رات دن غرقِ کیف و مستی ہیں
کوئی دیکھے تو میری آنکھوں کو
جو گھٹا کی طرح برستی ہیں
جو کئی بار سیر ہو کر بھی
جلوۂ یار کو ترستی ہیں
16
تو ہی مجھ پر اگر ترس کھائے
آرزو میرے دل کی بر آئے
گوہرِ دل کی قدر جانے کون
کاش تیری نگاہ پڑ جائے
جس کے پرتو سے زندگی میری
تیری احسان مند کہلائے
ہائے کس منہ سے روبرو تیرے
مدعا اپنا کوئی دہرائے
عقل گم ہے کہ تیری رحمت کو
دلِ وارفتہ کیسے اپنائے
یہ بھی کیا کم ہے گر تصور میں
تجھ کو محو خرام سا پائے
17
تو نے چھوڑا انہیں جہاں پیارے
محوِ حیرت رہیں وہی آنکھیں
تجھے دیکھا تھا پہلی بار جہاں
ڈھونڈھتی ہیں تجھے وہیں آنکھیں
نذر زاغ و زغن انہیں کرتی
اور پڑتیں اگر کہیں آنکھیں
18
جس طرف دیکھتی ہے یہ دینا
تو ادھر چشم شوق وا نہ کرے
تیرے راز و نیاز ہیں کچھ اور
کیوں کرے تو بھی جو زمانہ کرے
19
میری آنکھوں میں تازگی آئے
ان کا دیدار ہی غنیمت ہے
اور اگر وہ ہوں مجھ سے رو گرداں
پھر بھی ان سے بڑی محبت ہے
دل کی آنکھوں سے کوئی دیکھے تو
ہر ادا ان کی خوبصورت ہے
کوئی ان کے سوا کسے دیکھے
کب کسی غیر میں وہ غیرت ہے
20
عشق کے مشورے سے آنکھوں نے
میرے دل کو وہاں پھنسایا ہے
جس جگہ عارفوں نے حیرت سے
نطق کو سربمہر پایا ہے
وائي
کہاں رہیں گے تجھ بن ساجن یہ دکھیارے نین
تو ہی پالن ہار ہے، ان کا تجھ سے ہے سکھ چین
پائوں بنا کر ان کو پریتم ڈھونڈوں گی دن رین
وائي
پیا ملن کو چلی ہوں سکھیو رکھیو میرا دھیان
کیسے ہانکوں اونٹ کو اپنے باگ ہے ان کے ہاتھ
مڑ جاتے ہیں پائوں ادھر کو چاہیں جدھر کو ناتھ
بھاگ میں ہے سو بھوگ رہی ہوںمیں برھن انجان
رکھیو میرا دھیان
ان کے دوار کی داسی ہوںمیں، ٹوٹ نہ جائے آس
کہے ’لطیف‘ وہ آجائیں گے، کبھی تو میرے پاس
ان پہ بھروسہ ان کا سہارا جب تک جان میں جان
رکھیو میرا دھیان
تیسری داستان
1
بند کرلے یہ ظاہری آنکھیں
سر خوشِ بادۂ مجاز نہ ہو
جس حقیقت کا نام ہے عرفاں
اس حقیقت سے بے نیاز نہ ہو
چشم و دل معتبر نہیں جب تک
ان کے پردے میں کوئی راز نہ ہو
2
اشکِ گلگوںسے پہلے دھو آنکھیں
اے طلبگار حسنِ جلوۂ یار
سدِ راہِ طلب ہے گرد مجاز
سیر حاصل ہو کس طرح دیدار
3
اپنی سانسوں کو مشکبار کروں
اپنے سینے کو جلوہ زار کروں
انتظار وصال یار کیا
اہتمام وصال یار کروں
4
وہ سپیدی ہو یا سیاہی ہو
مجھے دونوں ہی سے محبت ہے
میرے پیارے تیری حضوری میں
نہ کوئی رنگ ہے نہ صورت ہے
5
عشق آنکھوں میں جب ہوا پیدا
خواہشِ وصل ہوگئی مقبول
عاشقوں کے لئے نہیں ہوتے
اہتماماتِ علت و معلول
6
بھول کر شاہد حقیقی کو
آرزوئے مجاز کرتی ہے
آہ نیرنگیٔ مجاز تجھے
عشق سے بے نیاز کرتی ہے
دیکھ تو ان کی بے ثباتی کو
جن حسینوں پہ ناز کرتی ہے
7
کتنا بے حس بنا کے چھوڑ گیا
حسنِ عشوہ طراز تو دیکھو
روئی کی طرح دھن رہی ہے تجھے
آرزوے مجاز تو دیکھو
8
ایک ہی ضربِ لاالہ میں بس
جسم سے جان کو جدا پایا
میرے پیارے ترے بغیر یہاں
اور کوئی نہ آسرا پایا
جھانک کر جس نے روح میں دیکھا
صرف تجھ کو ہی اے خدا پایا
9
محوِ حیرت ہوں بام و در سارے
حشر برپا ہو مرغزاروں میں
اس حقیقت کا ہو اگر اظہار
آگ لگ جائے کوہساروں میں
10
دل وہیں ہے جہاں ہے وہ پیارا
اب نفی ہے، نہ ہے کوئی اثبات
چشم حیراں اسے کہاں پائے
دیدنی کب ہے اس خدا کی ذات
اس کے راز و نیاز کا عالم
سربسر ماورائے امکانات
میری سعی و طلب سے بالاتر
اس عدیم المثال کی ہر بات
بے خودی آرزو کا شیرازہ
اور خودی انتشارِ احساسات
11
دیکھئے اس کے حسن کا فیضان
جس نے آنکھوں کو کردیا حیران
ایسی حیرت یہاں نصیب کسے
جان و دل اس کی دین پر قربان
12
ہر تگ و دو ہے جن کی ناہموار
ایسے قلب و نظر سے کس کو پیار
وہ نہ سمجھے کسی اشارے کو
پھر رہے ہیں ادھر ادھر بیکار
خس و خاشاک سے جنہیں نسبت
کیا وہ دیکھیں گے حسن جلوۂ یار
13
بس اسی جان نثار عاشق کو
اپنی آنکھوں سے وہ لگائے گا
غم جاناں سے مضمحل ہو کر
جو سلائی سا تن بنائے گا
14
آکے آنکھوں میں بیٹھ جا پیارے
بس مجھے تو ہی تو نظر آئے
بند کر لوں میں اس طرح آنکھیں
اور کوئی نہ پھر تجھے پائے
15
اے مرے آشنائے راز وفا
مفسدوں کو بتا نہ کوئی بات
عین ممکن ہے بات بڑھ جائے
بیت جائے یہ مختصر سی رات
16
تیری باتوںکا اے دلِ مشتاق
مفسدوں کو کوئی پتا نہ لگے
تو ہو خود اپنے راز کا محرم
اس دبی آگ کو ہوا نہ لگے
17
آج پھر روبرو ہے جلوۂ یار
ہمنشیں جرم تو نہیں دیدار
مفسدوں کو پتا بھی چل جائے
فکر پھر بھی نہیں مجھے زنہار
سر بسر زخم خوردہ قلبِ حزیں
سخت بے تاب دیدۂ خونبار
18
شر پسندوں کو ایسی عبرت ہو
پھر کبھی سر نہ وہ اٹھا پائیں
دوسرے کے لئے جو کھودا ہے
آپ ہی اس گڑھے میں گرجائیں
دیکھ کر تجھ کو اے مرے پیارے
اپنی کوتاہیوں پہ شرمائیں
اور پھر گھٹ کے اس ندامت میں
آپ ہی اپنی موت مرجائیں
19
شرپسندوں سے ان کو خطرہ ہے
عشق جن کا بجھا بجھا سا ہے
جس کے دل میں لگی رہے یہ آگ
وہ تو خود ان کو مار دیتا ہے
20
اسے ڈس لے نکل کے کالا ناگ
ایسے مفسد پہ ہو خدا کی مار
سن رہا ہے ہماری باتوں کو
چپ کھڑا ہو کے جو پسِ دیوار
21
اے جفا پیشہ مفسدِ بدکار
تو ہمیشہ رہے ذلیل و خوار
ہو کے حائل مری محبت میں
تو نہ پھولے پھلے کبھی زنہار
تو نے رسوا کیا مجھے ناحق
روسیہ! تجھ پہ ہو خدا کی مار
22
میرے پیارے ترے قرینے کو
کب وہ خانہ خراب سمجھے ہیں
اپنی کوتاہی۔ٔ نگاہ سے جو
رحمتوں کو عتاب سمجھے ہیں
23
عقل و فہم و خرد سے بالاتر
یوں تو کتنے ہی حادثات ہوئے
جو کبھی سننے میں نہ آتے تھے
چند ایسے بھی واقعات ہوئے
24
برتر از طول و عرج و صورت ہے
اس کی قدرت عجیب قدرت ہے
ہر اشارے میں کیا محبت ہے
وہی سمجھے جو محوِ حیرت ہے
ہر فسانے میں اک حقیقت ہے
کون جانے جو اس کی ندرت ہے
جلوۂ حسنِ یار دیکھ سکیں
اہلِ ظاہر میں کب یہ ہمت ہے
وہی دیکھے گا اس کے جلوے کو
جو ذرا صاحبِ بصیرت ہے۔
25
اس کی پہچان ہے بڑی مشکل
دیدۂ دل کو کھول کر دیکھیں
کوئی ہاتھی نہیں جسے اندھے
ہر طرف سے ٹٹول کر دیکھیں
وائي
چہرہ تو خلیل سا ہے لیکن حالت ترے دل کی ابتر ہے
اصنام خیالی ہیں دل میں تو آزر ہے تو آزر ہے
کہتا ہے ’لطیف‘ کہ دنیا میں ہر سو وہی حسنِ وحدت ہے
مائل بہ دوئی ہے کیوں ناداں، کیا اس کو دوئی سے نسبت ہے
ہر جلوہ اسی کا جلوہ ہے ہر صورت اسی کی صورت ہے
شاید تجھے یہ معلوم نہیں، رب تیرا سب سے بڑھ کر ہے
تو آزر ہے۔ تو آزر ہے
وائي
خدایا جدا ہو نہ مجھ سے وہ پیارا
اسی سے امیدیں اسی سے سہارا
بہت دور ہیں اس کی وہ شاہراہیں
جنہیں دیکھ آئی ہیں میری نگاہیں
اگر مائلِ لطف اس کا قلم ہو
تو لوحِ دل و جاں پہ کیا کچھ رقم ہو
نہ ہو میری قسمت میں کوئی خسارا
اسی سے امیدیں اسی سے سہارا
وائي
موت کھڑی ہے تاک میں یارو
آئو کئے پر پچھتائو
ایک ہی لاٹھی سے یہ بیرن
ہانکے گی سب کے جگ جیون
زیادہ پائوں نہ پھیلائو
آئو کئے پر پچھتائو
سن لو غفلت کے متوالو
شیش محل میں رہنے والو
اتنا بھی مت اترائو
آئو کئے پر پچھتائو
جائے گا جب پیا ملن کو
پہنے گا ہر ایک کفن کو
کہے ’لطیف‘ کوی آئو
آئو کئے پر پچھتائو
وائي
وہ فوق البشر رہنما مل گیا ہے
وسیلے سے جس کے خدا مل گیا ہے
مسیحائے ہر دوسرا مل گیا ہے
مجھے اپنا درد آشنا مل گیا ہے
ہوا اس کا دیدار آنکھوں کو جب سے
سمجھتا ہوں ہر مدعا مل گیا ہے
مرا مقصدِ زیست جس کی طلب تھی
وہ سرتاجِ مہر و وفا مل گیا ہے
مرے دیدہ و دل میں ہے جس کا پرتو
وہ خورشید صدق و صفا مل گیا ہے
چوتھی داستان
1
دیکھ کر بھی اسے نہ پہچانے
ہائے یہ ناشناس فرزانے
فکر یوم الحساب کیا کہیے
سن رہا ہوں ہزار افسانے
محرمِ راز بھی ہیں سکتے میں
مصلحت کیا ہے کوئی کیا جانے
درسِ عبرت ہے ان کی محرومی
حکمِ رب سے رہے جو بیگانے
آدمی زادہ ہو کہ ہو حیواں
سب اسی کے ہیں تابع فرماں
2
آدمی کی بساط ہی کیا ہے
جیسے کوئی حباب پھوٹ گیا
یا کسی طائرِ پر افشاں سے
دفعتاً آشیانہ چھوٹ گیا
وائے محرومیِ۔ٔ دلِ ناکام
سانس کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا
3
بے نیازِ حیات ہو جانا
اک ثبوت ثبات ہو جانا
جس کو سن کر ہو بیخودی طاری
وہ انوکھی سی بات ہو جانا
دل کی گہرائیوں میں گم ہو کر
آپ اک کائنات ہو جانا
مدعائے طلب ہے دل سے محو
فرقِ ذات و صفات ہو جانا
4
گر ہے تحقیقِ حسن کا ارمان
دست و پا کا نہ سر پہ لے احسان
یہ ہے اک رہ گزارِ پرُاسرار
کام آتے نہیں یہاں اوسان
یہ ترے چشم و گوش کیا جانے
اس سراپا جمال کی پہچان
5
حسبِ معمول دن گزارے جا
ہو ہی جائے گا اس کا نظارا
غور سے دیکھ سامنے تیرے
ہو نہ ہو آگیا وہی پیارا
6
جس کے جلوئوں کے ہم ہیں شیدائی
خود ہمیں میں وہ جلوہ آرا ہے
کہہ دو وہم و گماں سے اب جائیں
میرے دل میں مکیں وہ پیارا ہے
جس نے اک حسن بے نیازی سے
اپنے شہکار کو سنوارا ہے
7
دیکھنا ہے جو حسن جلوۂ یار
اپنے ہی دل میں بے حجابانہ
پہلے جمعیتِ حواس ہو پھر
ترک ہو جائے اب اور دانہ
8
ان کے ہی حق میں امن و راحت ہے
جن میں کچھ باطنی بصیرت ہے
اک مجسم مشاہدہ ہیں وہ
دور رس جن کی محرمیت ہے
سرِ افعی بھی ان کے آگے خم
سہمی سہمی سی جن کی فطرت ہے
حق نگر ہیں سب اولیائے کرام
ان پہ بے شک خدا کی رحمت ہے
9
دل کی آنکھیں جو کھول کر دیکھے
روبرو اس کو جلوہ گر دیکھے
پھر نہ کہلائے تو کبھی مشرک
ہر طرف حسنِ معتبر دیکھے
10
جس کو گرداب راس آجائے
ہر کنارہ اسے کھٹکتا ہے
اپنے ہی دل میں دیکھ لے اس کو
کس لئے جا بجا بھٹکتا ہے
11
اس طرح تو نفی کو اپنائے
شرکِ اثبات دل سے مٹ جائے
اس کے نزدیک کچھ نہیں من و تو
راس جس کو یہ بیخودی آئے
خود پرستی کا عارضی پندار
آپ ہی آپ دور ہو جائے
12
سفر زیست میں بسا اوقات
پیش آتے ہیں نت نئے حالات
نور و ظلمت میں دائم آویزش
کفر و ایماں میں کشمکش دن رات
لیکن اک حق نگر موحد کو
درحقیقت ہے ایک ہی سی بات
شرک پروردہ قلب آزر میں
پائے جاتے ہیں ایسے احساسات
جن کی تہ میں دوئی نے رکھے ہیں
وصل جاناں کے چند امکانات
13
کلمہ پڑھنے ہی سے ارے نادان
پختہ ہوتا نہیں کبھی ایمان
تو ہے مانندِ آزرِ مشرک
حق پرستی کی تجھ کو کیا پہچان
پیشِ حق خم سر نیاز ترا
دل میں موجود ہے مگر شیطان
14
صرف ظاہر پرستیاں کب تک
اے منافق رضائے دل پہچان
تو کسی بات پر نہیں قائم
کفر تجھ میں نہ تجھ میں ہے ایمان
15
تیری صورت کلیم جیسی ہے
اور سیرت میں سربسر شیطان
ایک ہو جائیں صورت و سیرت
تابکے یہ حماقت اے ناداں
16
چہرہ آئینہ سے بھی روشن تر
اور دل میں بھری کدورت ہو
ایسے ظالم کے دل میں ناممکن
پرتو راز محرمیت ہو
17
جن کے دل آشنائے وحدت ہیں
وہ سمجھتے ہیں اس کا ہر انداز
ہر طرف وادیٔ محبت میں
سن رہے ہیں اسی کی وہ آواز
18
نت نیا حسن تیری قدرت کا
کس کو دعویٰ ہو محرمیّت کا
وہ بھی سمجھے نہ اس تغیر کو
فخر ہے جن کو تیری قربت کا
19
جو عزازیل کی طرح ’سید‘
خود پسندی ہی میں نہ کھو جائے
اس خوش اعمال کو نہیں کچھ فکر
اس پہ دوزخ حرام ہو جائے
20
دیدہ و دل سے تو گواہی دے
یہ مسلمان کی عبادت ہے
رخنہ اندازیٔ دوئی کب تک
تو پرستار حسنِ وحدت ہے
21
سرمہ ہوتا ہے عورتوں کے لئے
مرد ہو کر تو کیوں لگاتا ہے
اس کی آنکھوں میں ڈال دے آنکھیں
جو انہیں ارغواں بناتا ہے
ہر سپیدی میں ہے اسی کا نور
جو نظر میں تری سماتا ہے
22
پیٹ کی فکر جن کو لاحق ہے
کیسے ان کا خواص میں ہو شمار
فارسی سیکھ لی غلاموں سے
ہائے پھر بھی نہ بن سکے سردار
23
جانِ جاں کے قریب تر جانا
درد کی راہ سے گذر جانا
کیسا امروز اور کیا فردا
نام روشن جہاں میں کر جانا
24
جس نے لاکھوں کو کردیا اندھا
اس اندھیرے سے کچھ فراغ نہیں
جستجو کس طرح کرے گا تو
پاس جب تک کوئی چراغ نہیں
25
تو نے جس کو چراغ سمجھا ہے
وہ تو ہے صف جلوۂ خورشید
کیسے اندھوں کو اس اندھیرے میں
اس سراپائے راز کی ہو دید
26
کیوں لئے پھر رہا ہے تو اس کو
تیرے حق میں چراغ ہے بیکار
ڈھونڈہ اس کو نہ جا کے اور کہیں
خود ترے دل میں ہے جمال یار
27
روبرو ان کے روے جاناں ہے
کون جانے جو عہد و پیماں ہے
تک رہی ہیں اسی طرف آنکھیں
جس طرف وہ بہار ساماں ہے
28
یوں تو بھیگی ہوئی سی ہے ہر آنکھ
غور کیجئے تو شعلہ افشاں ہے
بیر آپس میں ہے پسِ پردہ
پھر بھی آنکھوں کا ایک ارماں ہے
29
شرم رکھ لی مری ندامت نے
ورنہ بے فیض تھے مرے اعمال
جن کو میں نے ثواب سمجھا تھا
بن گئے ہیں گناہ وہ افعال
مجھ سے روٹھا ہوا تھا وہ پیارا
زندگی بن گئی تھی اک جنجال
آگئی کام خود فراموشی
اس کا لطف و کرم ہے شاملِ حال
30
اپنے دل سے جسے چھپایا تھا
تو نے وہ راز آشکار کیا
میرے بس میں نہیں دلِ بیتاب
کیا ستم اے فراقِ یار کیا
31
دشمنِ جاں یہ زرد چہرہ تھا
اب تو آنکھیں بھی بن گئیں غماز
مفسدوں کو کہاں خبر ہوتی
گر ترے غم کا راز رہتا راز
32
وہم کثرت کو غرقِ وحدت کر
مان لے خود پرستیوں کی ہار
راز ہے تیری کامیابی کا
بیخودی ہی میں اے تلاشِ یار
33
جستجو وہ کریں گی اس کی خاک
کرسکے جو نہ اس کا نظارا
ڈھونڈھنا کیا ادھر ادھر اس کو
خود مرے دل ہی میں ہے وہ پیارا
جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے
مسکراتا ہے وہ جہاں آرا
34
ساری دنیا پہ ’میں‘ کا جادو ہے
’میں‘ کے عرفان سے مگر محروم
یہ خداناشناس کیا جانے
جو قضا و قدر کا ہے مفہوم
لا و ا۔لاّ کے درمیان کیا ہے
اس کو یہ راز ہی نہیں معلوم
حق ہے الحق ہمہ صفت موصوف
چند روزہ ہے یہ دوئی کی دھوم
35
جاننا ان کا سخت مشکل ہے
جز غمِ عشق کوئی کیا جانے
ماورائے عدم ہیں کیا کیا راز
ان کو جانے تو بس خدا جانے
36
جو بھی اپنی خودی مٹائے گا
دوست اس کے قریب آئے گا
تجھ سے وہ جان جاں جدا تو نہیں
اپنے ہی دل میں اس کو پائے گا
37
میری قسمت کہ اس کو کھو بیٹھی
میری ہر سانس میں تھا جو موجود
میں ناحق اِدھر اُدھر دیکھا
خود مرے دل میں ہے مرا مشہود
38
دل نہ پرسوز ہو تو کیسا عشق
دور کی بات ہے وصالِ یار
جیسے ہوتا ہے گوشت کا پکنا
صرف بھوسے کی آگ پر دشوار
39
سوچتا ہی رہے گا ہر عاشق
راز اپنا نہیں بتائے گا
کب تک اشکوں کو اور آہوں کو
اہل دنیا سے وہ چھپائے گا
40
دل میں رکتی نہیں سجن کی بات
خود بہ خود یہ زباں پہ آتی ہے
کچھ سہارا نہیں ہے یہ مشکیزہ
موج طغیانیوں کو لاتی ہے
41
رگ و پے میں ہیں موجزن یا رب
جانے کتنے ہی بحرِ تند و تیز
کاش ہو جائے نذر سوزِ دروں
اُن کی طغیانیوں کی جست و خیز
42
وصلِ جاناں کی راہ میں حائل
دیدہ و دل کی خود پرستی ہے
تجھ پہ طاری ہے نشۂ اثبات
تیری ہستی بھی کوئی ہستی ہے
43
مجھ میں جب تک شعور ہستی ہے
شاملِ حال خود پرستی ہے
سوچتا ہوں کہ پھر کہاں جائوں
جب بلندی کا نام پستی ہے
44
اس کی ہستی ہے سر خوشِ وحدت
ذاتِ حق کا جسے ہوا ادراک
شرط یہ ہے سرور جاں کے لئے
دل ہو آلائش خودی سے پاک
45
اپنی ہستی سے ہوگئے بیزار
آپ ہی بن گئے جمالِ یار
اے غم عشق یہ کرم ہے ترا
مٹ گئے ہیں خودی کے سب آثار
46
آئینہ ہے اسی کا ہر انسان
لیکن اس کو عوام کیا جانیں
جو ہیں خاصانِ حق فنا فی اللہ
وہ انا الحق کا مدعا جانیں
47
سر بسر ناقبول ہیں اعمال
گر نہ اس کی رضا ہو شاملِ حال
48
جو چراتا ہے کب بتاتا ہے
کس کو معلوم کیا چراتا ہے
راز ہے اس کی زندگی کا یہی
چور خود کو سدا چھپاتا ہے
49
کیا کرے کوئی ڈھونڈھنے والا
لاکھ ڈھونڈھے مگر نہ پائے گا
کہہ رہا ہے کھڑا ہوا اک چور
کون میرا پتا لگائے گا
50
خود پرستوں کا کفر یا اسلام
کچھ نہیں ہے بجز خیال خام
اس دل درد مند کے قرباں
جس نے سمجھا ہو درد کو آرام
51
قعرِ دریا میں چھوڑ کر مجھ کو
یہ کہے جا رہا ہے وہ پُر فن
کہیں ایسا نہ ہو کہ غفلت میں
بھیگ جائے تیرا سر دامن
52
قعر دریا میں پھنس گئی ہوں میں
میرے دامن کی لاج رکھ لینا
کوئی تیرے سوا نہیں جس کا
اس ابھاگن کی لاج رکھ لینا
53
جو شریعت کا راہبر بن جائے
اس طریقت کی شرط لازم ہے
جلوۂ شیخِ معرفت درکار
نورِ وحدت کی شرط لازم ہے
تو جو چاہے کہ تر نہ ہو دامن
استقامت کی شرط لازم ہے
54
جھوٹ کا پھل کسے ملا اب تک؟
کہ یہ سوکھی ہوئی سی ڈالی ہے
دیکھ سنیاسیوں نے اے غافل
غیرتِ آرزو بچالی ہے
جس سے گذرے ہیں بے نیازانہ
راہ ایسی بھی اک نکالی ہے
55
اہلِ دل کی جہاں رسائی ہے
اس جگہ عشق کی خدائی ہے
جانے کتنا عمیق ہے گرداب
جس کی تہ عرش کبریائی ہے
اب نہ حمد و ثنا نہ وہ تعظیم
ہر طرف بے خودی سی چھائی ہے
56
تو ہے محروم لذت آزار
تجھ کو حاصل ہو کیا وصال یار
جس میں اس کی رضا نہ ہو شامل
وہ تمنّا وہ آرزو بے کار
57
وصل کی آرزو نہیں زیبا
جن کا مسلک ہے طاعتِ رحماں
زیب و زینت انہیں مبارک ہو
جن کا اس کی رضا پہ ہے ایماں
58
زحمت انتظار سے چھوٹے
دور ہر ایک اضطراب ہوا
جن کی آنکھوں میں بس گیا پیارا
خواب ان کے لئے ثواب ہو
59
جسم تسبیح اور دل موتی
نیند ان کے لئے عبادت ہے
وحدہٗ لا شریک کی خاطر
جن کی رگ رگ میں سازِ وحدت ہے
60
وہ کہاں ہے رضا و رغبت میں
بدگمانی میں جو لطافت ہے
عشق کا بھید کھل نہ سکتا تھا
یہ کسی غیر کی شرارت ہے
اس پہ بھی مطمئن ہے دل میرا
روح پرور غمِ محبت ہے
وائي
وہ مقبول ہیں اس کے در پر، ہیچ ہیں جو انسانوں میں
کوئی تو ہوگی بات انوکھی، فرسودہ خس خانوں میں
وہ اس کے نزدیک ہیں، ان سے راضی انکا پیارا ہے
جن لوگوں کو دنیا والے، گنتے ہیں بے گانوں میں
فرسودہ خس خانوں میں
چھوڑ دے اے غافل من مانی خلقِ خدا کی خدمت کر
تو بھی ہو جائے گا شامل پھر اس کے پروانوںمیں
فرسودہ خس خانوں میں
اس کا راج ’لطیف‘ جہاں میں،جو کچھ ہے سو اس کا ہے
محلوں میں ایوانوں میں، صحرائوں میں ویرانوں میں
فرسودہ خس خانوں میں
سر پربھاتی
پہلی داستان
1
کہے گا کون پھر تجھ کو مغنی
نہ رکھے ساتھ گر تو ساز اپنے
نہیں ’بھانو‘ کا یہ طور و طریقہ
کہ ٹانگے کیل پر تو ساز اپنے
نہ جانے آج تجھ کو کیا ہوا ہے
سحر کے وقت چپ بیٹھا ہوا ہے
2
تجھے او نیند کے مارے ہوا کیا؟
نہ تو ہوگا نہ یہ اعجاز ہوگا
جو گانا ہو تو گالے آج کی رات
کہ کل ٹوٹا ہوا یہ ساز ہوگا
3
نہیں ہے ’جاجکوں‘ کا یہ طریقہ
ارے غافل یہ تجھ کو کیا ہوا ہے
سرہا نے رکھ کے اپنا ساز ناداں
سحر کے وقت بھی سویا ہوا ہے
تجھے بھی خوں رلائے گی یہ غفلت
کہ غفلت سے بھلا کس کا ہوا ہے
4
سکھاتے ’جاجکوں‘ کا جو سلیقہ
گئے منہ موڑ کر وہ یار سارے
خطا سے در گذر کر میرے راجہ
میں بھولوں گا نہ تیرا نام پیارے
5
اٹھا کر دوش پر بربط چلا ہے
سرابوں میں بھٹکتا پھر رہا ہے
ہمیشہ سے یہی ہے اس کا عالم
کبھی آرام ’چارن‘ کو ملا ہے
6
اٹھا کر ساز سورج ڈوبتے ہی
ہوئے جانے کدھر ’جاجک‘ روانہ
ترے سازوں کے زنگ آلودہ ہیں تار
لٹکتے رہ گئے چنگ و چغانہ
ترے ہم قوم شرماتے ہیں تجھ سے
کہ تیری زندگی ہے سائلانہ
7
کہیں گے کیا ترے ہم قوم تجھ کو
مغنی ہے مگر تو بے ہنر ہے
ندامت سے مری جاتی ہے ’لنگھی‘
جو دکھیا تیری منظور نظر ہے
8
مسافت دور کی ہے کیسے آئوں
شکستہ پا مغنی ہوں تمہارا
یہیں تم بھیج دو، دینا ہے جو کچھ
کہ تم ہو بے سہاروں کا سہارا
9
چھپا کر سب سے مجھ سے بے ہنر کو
دیئے ہیں تو نے اکثر جو سہارے
اگر اہل ہنر وہ جان لیتے
تو فوراً توڑ دیتے ساز سارے
10
جو ان کے در سے وابستہ رہے ہیں
نہیں ان سائلوں کی ایسی عادت
کہ راتیں پائوں پھیلا کر گزاریں
رہے ان پر مسلط خوابِ غفلت
11
وہ تیرے کاتنے کے دن کہاں ہیں
گئی بیکار سب تیری جوانی
کہا تھا میں نے چرخے سے لگا دل
مگر تو نے نہ میری بات مانی
12
نہ جانے کل تو اے سائل کہاں تھا
نظر آتا ہے آج اتنا پریشاں
یہاں اب گھومنے پھرنے سے حاصل
وہیں ہے تیرے دردِ دل کا درماں
سخی کی سامنے جا اے سوالی
اسی در سے ہے کچھ ملنے کا امکاں
13
اسے معلوم ہے سب حال تیرا
وہ تیرے دل کی باتیں جانتا ہے
وہ بن مانگے عطا کرتا ہے سب کو
تو اپنے منہ سے کیوں کچھ مانگتا ہے
14
بھریں دم بھر میں سارے خشک نالے
اگر اس کو کچھ ان کا دھیان آئے
سخی ہے وہ ’سپڑ‘ جنکی عطا سے
ہوئے ہیں شاد سب اپنے پرائے
’لطیف‘ اس کے خزانے میں کمی کیا
جو پانی کی طرح موتی لٹائے
15
تو اپنے ساز کو تیار کرکے
اسی سردار سے کچھ مانگنے جا
سہارا عجز کا لیکر مغنّی
خلوصِ دل سے اس کے سامنے جا
16
امیدیں بھی ہیں اس سے خوف بھی ہے
مغنّی کو مگر ہے یہ سہارا
میں کیسابھی ہوں لیکن اپنے در سے
نہ لوٹائیگا خالی ہاتھ پیارا
17
تو سائل ہے بھروسا کر سخی پر
اٹھا سر کو نہ اس کے آستاں سے
لگالے سینہ سے چنگ و چغانہ
کہ یہ بہتر ہیں ہر اک ارمغاں سے
18
جو دانستہ کہے انجان ہوں میں
در جاناں پہ ہے اس کی رسائی
وہی مقبول ہے اس کی نظر میں
جسے ہو اعترافِ بے نوائی
19
اٹھو آگے بڑھو اے بے نوائو!
بلاتا ہے وہ انجانوں کو، جائو
نہیں ہیں تار ان کے زنگ آلود
بجائو بربط و دف کو بجائو
بجائو گائو تم سے خوش ہے راجہ
طریق اس کا ہے جو مانگو سو پائو
20
اسے نام و نسب سے واسطہ کیا
کہ اس کی دین کا باعث ہنر ہے
سنا ہے میں نے انجانوں پہ اس کی
محبت ریز اور گہری نظر ہے
21
جو گہری نیند میں سوئے ہوئے تھے
انہیں اس پیارے مطرب نے جگایا
جو نغمہ حاصلِ مضرابِ جاں تھا
وہی نغمہ زمانے کو سنایا
22
مغنّی نے کہیں نزدیک آکر
اچانک نغمۂ صحرا سنایا
ہوا محظوظ جب بیلے کا راجہ
اسے لینے کو ڈولی لے کے آیا
سخی نے اس کے دل کی بات سن کر
کرشمہ جوشِ رحمت کا دکھایا
گذشتہ رات اس مطرب نے ’سید‘
خدا جانے وہاں کیا کیا نہ پایا
23
’سپڑ‘ سائل سے کتنا خوش ہوا ہے
سمجھ میں اس کی جب یہ بات آئی
کہ اس انجان کے قلب و نظر پر
مصیبت بن گئی ہے بے نوائی
’سپڑ‘ نے اس کی باتیں مان لیں سب
سحر آسودگی کا دور لائی
24
کمی کیا ہے اسے نغموں کی مطرب
ترا نغمہ وہ کیا خاطر میں لائے
وہ پارس اور ہم سب جیسے لوہا
جسے چاہے اسے سونا بنائے
25
صدا ایسی ہی نہ اے سائل لگانا
عیاں جس سے تری حرص و ہوا ہو
سخی بھر دے ترے دامن کو، لیکن
ہمیشہ کے لئے تجھ سے خفا ہو
26
اسے محبوب ہیں انجان سائل
کہ اپنے آپ کو پہچانتے ہیں
بہت خوش ان سے ہے بیلے کا مالک
نہ وہ کہتے نہ وہ کچھ جانتے ہیں
عطا اس نے کئے رہوار ان کو
تہِ دل سے جو اس کو مانتے ہیں
27
صبحدم آکے نے نوازوں نے
اس کے در پر وہاگ گایا ہے
اور پھر اس سخی کے ہاتھوں سے
زندگی کا سہاگ پایا ہے
کون ہم بے کسوں کا داتا ہے
تیرے پیاروں سے دل لگایا ہے
28
ہاتھ میں جن کے اس کی قسمت ہے
اس گدا کو انہیں سے ہے سروکار
کس قدر خوش نصیب ہے چارن
کہ وہ کہلا رہا ہے موسیقار
29
بے غم یار، بے نوا، بے کار
اور کہلا رہا ہے موسیقار
کس توقع پہ ساتھ دے تیرا
وہ وفا آشنا سخی سردار
ان کی قسمت میں اس کی ڈولی ہے
جن کو محبوب لذت آزار
30
میں فرومایہ اور تو پارس
میں گدا پیشہ تو سخی سردار
تیری خاطر یہ ساز اٹھا یا ہے
یہ سمجھ کر کہ تو ہے پالنہار
مجھ سے انجان کے لئے پیارے
اشتیاق آفریں ہے تیرا پیار
31
نیند میں بیتی جارہی ہے رات
اے مغنّی کھلی ہے راہِ نجات
ماہ و انجم لٹا رہا ہے کوئی
نہ رہا کوئی صاحبِ حاجات
وہ کھلا ہے خزینۂ فطرت
موتیوں سے بھرے ہیں سب کے حات
ساز اٹھا، ساز اٹھا، مغنّی! ساز
دے ہی دیگا سخی تجھے سوغات
32
ٹھیس کھا کر بذاتِ خود اس نے
سائلوں کو دیا ہے یہ پیغام
جب سبھی کچھ ہے میری قدرت میں
غیر کے در سے پھر تمہیں کیا کام
بے سلیقہ تری گدائی ہے
میرے جود و سخا پہ کیا الزام
33
کل اسے کیسے منہ دکھائیگا
آج اگر اس کے در سے پیار نہیں
مانگ اسی سے جو روز دیتا ہے
غیر کے در کا اعتبار نہیں
34
بھول جانا نہ اس کو اے مطرب
جانِ جاناں ہے وہ سخی سردار
عجز سے کورنش بجا لانا
اپنے بربط پہ کس کے سیمیں تار
35
نہ کسی نے یہ ان کو سمجھایا
نہ یہ ان کی سمجھ میں آیا ہے
گرد آلودہ سائلوں کو بھی
اس نے کس پیار سے بلایا ہے
36
تجھ سے بیچاری کو گلا کیا ہے!
اے مغنّی، تری خطا کیا ہے!
تیری ہر لے فریب سے معمور
تیرا ہر ساز روح فرسا ہے
کیا ہوئی تیری شانِ استغنا
اے مغنّی تجھے ہوا کیا ہے
37
جن سے راضی ہوا سخی سردار
وہ ہوئے راگ رنگ سے بیزار
کوئی آواز ہی نہیں آتی
زمزمے ہیں نہ اب وہ موسیقار
چل دیئے لے کے اپنے اپنے ساز
کون جانے کہاں ہیں منگنہار
38
پیٹ بھرنا بھی اس کو دوبھر تھا
وقت ایسا بھی اس پہ آیا ہے
جس کو معتوب جانتے تھے سب
آج اعزاز اس نے پایا ہے
کہ سخی نے اسے بہ لطف و کرم
اپنی ڈولی میں خود بلایا ہے
39
میں ہوں لوہا تری نظر پارس
تو غنی میں ہوں سائلِ نادار
سونا بن جائے پل میں لوہا بھی
تو اگر چاہے اے سخی سردار
40
میں فرومایہ ہی سہی لیکن
تیرے ہی ہاتھ میں ہے میری لاج
لطف تیرا شریکِ حال رہے
تو سخی اور ہم سبھی محتاج
41
اٹھ کے محبوب کو وھاگ سنا
ڈوب جائے نہ صبح کا تارا
ہر طرح سے پرکھتا رہتا ہے
مطربوں کے دلوں کو وہ پیارا
وائي
اگر آسرے پہ ہے جام کے، کسی اور در پہ نہ جا کبھی
تجھے مانگنا ہے جو مانگ لے،کہ گدا نواز ہے وہ سخی
یہی چارنوں کا سہاگ ہے، کبھی اس کی لے کو نہ توڑنا
کہ سخی ’سپڑ‘ کی انیسِ جاں ہے یہی وھاگ کی راگنی
جسے چاہے جان سے مار دے، جسے چاہے پار اتار دے
نہ کسی سے اس کو ہے دشمنی، نہ کسی سے اس کی ہے دوستی
ترا راز داں ہے وہ حق نگر، تجھے اس کے راز کی کیا خبر
بجز ایک حسنِ صفات کے نہیں کوئی بات بھی راز کی
یہ سنو تو بات لطیف کی، کہ اسی کے لطف و کرم سے ہے
ترے حال پر یہ نگاہ بھی، ترے ساز دل میں یہ نغمہ بھی
وائي
وہی ایک شایانِ جود و سخا ہے
ہر اک آدمی اس کے در کا گدا ہے
کوئی بے ہنر یا اپاہج ہو کوئی
بہرحال بندوں پہ اس کی عطا ہے
وہ چاہے تو عزت، وہ چاہے تو ذلت
جسے جو ملا ہے اسی سے ملا ہے
عدم سے کیا اس نے تخلیق سب کچھ
وہی خالق بزمِ ہر دوسرا ہے
وہ قادر ہے، ہر شے پہ قدرت ہے اس کو
اسی کے لئے ساری حمد و ثنا ہے
انہیں پر ہوا ہے عتاب اس کا نازل
جنہیں حرصِ دولت نے بہکا دیا ہے
لطیف ایسے آقا کی تعریف کیا ہو
مقدم بہرطور اس کی رضا ہے
وائي
اسی گدا کی سخی سے ہوئی شناسائی
کہ جس کی نغمہ سرائی اسے پسند آئی
نہیں کسی کو بھی بے قدریٔ جہاں کا گلہ
دکھا رہا ہے وہ سردار شان یکتائی
نہ رہ سکے گا کوئی اس کے فیض سے محروم
کہ سب نے اسکے کرم سے مرادِ دل پائی
سر رامکلی
پہلی داستان
1
تیرے یوگی، جہانِ تیرہ و تار
جلوہٗ نور ہیں کہ شعلۂ نار
بزم ہستی پہ ضوفگن ہیں وہ
ان سے دنیا ہوئی ہے پر انوار
وہ نہیں جب تو زندگی کیسی
زندگی سے میں ہوگئی بیزار
2
در بدر مانگنے سے بہتر تھا
ایک ہی در تلاش کر لیتے
یہ گدایانِ کوچہ گرد اے کاش
کوئی جوہر تلاش کرلیتے
3
چھوڑ کر جس نے عیش و عشرت کو
آزمایا غمِ محبت کو
میں نے دیکھا اسی گدا گر میں
جلوہ گر نورِ حسن فطرت کو
4
ان کے ناقوس میں ہے یہ آواز
سرنگوں جس کے سامنے ہر ساز
میں تو ان کے بغیر جی نہ سکوں
ان کا غم میری زندگی کا راز
یہ حقیقت شناس لاہوتی
باعث درد اور درماں ساز
5
سن کے کوئی صدائے پر اسرار
میں چلی پھاند کر در و دیوار
میرے ہوش و حواس پر طاری
اک خوش آیندہ لہجۂ گفتار
کون جانے کدھر گئے جوگی
جستجو میں ہیں طالبِ دیدار
گریۂ انتظار نے مجھ کو
زندگانی سے کردیا بیزار
6
ان کے نقشِ قدم کو پا لینا
عجز سے اپنا سر جھکا لینا
دور افتادہ ہیں وہ بیراگی
رفتہ رفتہ پتا لگا لینا
ان کے قدموں میں عالم لاہوت
ان کے دامن میں بے بہا یاقوت
7
ان کے ناقوس میں جو نغمہ ہے
سامنے ان کے سیم و زر کیا ہے
اب نظر میں کوئی نہیں جچتا
میں نے بیراگیوں کو دیکھا ہے
جانے کس وقت کوچ کر جائیں
پائوں مشرق کی سمت اٹھا ہے
8
تیرتھوں کو چلے گئے جوگی
ہاتھ مل مل کے رہ گئی میں ہائے
لے گئے اپنے ساتھ دل کا چین
اب مرے دل کو چین کیوں کر آئے
9
مست ہیں اپنے حال میں ہر وقت
اور ہر قیل و قال سے بالا
ان کے ناقوس کی صدائے بلند
طلب مال و جاہ سے بالا
جان و دل میں سما گئے وہ لوگ
سو رہی تھی ، جگا گئے وہ لوگ
10
ان کے ناقوس میں ہے سوز و گداز
جن سے آتی ہے سرمدی آواز
رسنِ شوق کھینچتی ہے مجھے
جس طرف ہیں وہ زمزمہ پرداز
جانتی ہوں کدگھر گئے وہ لوگ
مجھ پہ ظاہر ہیں جوگیوں کے راز
جی سکوں گی نہ اب میں ان کے بغیر
کاش آجائیں پھر وہی دمساز
11
اک صدائے رحیل و بانگ جرس
صبحدم تھی یہاں ترنم ریز
بھر نہ جانے کدھر گئے جوگی
دے کے مجھ کو پیامِ دل آویز
ڈھونڈھتی ہوں مگر نہیں ملتے
جانے ان کے قدم تھے کتنے تیز
یاد آتے ہیں اب وہ بیراگی
ان کی ہر بات ہے خیال انگیز
میں فراموش کر نہیں سکتی
وہ فضا وہ ہواے عنبر بیز
میری ہستی پہ چھا گئے ہیں وہ
کب ملیں گے وہ مجھ سے کم آمیز
12
وہ جہاں دھونیاں رماتے ہیں
نفس کی ہر خودی جلاتے ہیں
اپنے ناقوس جب بجاتے ہیں
جانے کتنے سرور پاتے ہیں
وہی جینے سے کرتے ہیں بیزار
وہی جینا مجھے سکھاتے ہیں
13
مشغلہ جن کا آہ و زاری ہے
میں نے ان جوگیوں سے پیار کیا
ان کی دلکش قیام گاموں نے
دیدہ و دل کو بے قرار کیا
ان کے ناقوس کی صدائوں نے
بارہا مجھ کو اشک بار کیا
مجھ کو بیراگیوں کی صحبت نے
مائل عجز و انتظار کیا
14
چل دیئے وہ قلات کی جانب
میں تڑپتی رہی جدائی میں
ہائے اب کیسے جی سکوں گی میں
اس جنوں خیز بے نوائی میں
15
ان کے ہمسایوں میں رہی لیکن
نہ میسر ہوا مجھے دیدار
پھر بھی طاری ہے دیدۂ و دل پر
ان کے حسن و جمال کا پندار
ہائے ان شوخ جوگیوں کے بغیر
میرا جینا ہے کس قدر دشوار
16
ہر خودی کو مٹاکے بیراگی
منہ کسی اور سمت موڑ گئے
عشق کی وسعتوں میںگم ہو کر
رشتۂ آب و گل کو توڑ گئے
اپنی پرکیف گوشہ گیری کا
سلسلہ میرے دل سے جوڑ گئے
کون جانے وہ میرے دل آرام
کیوں مجھے بے قرار چھوڑ گئے
اب مجھے زندگی سے کیا حاصل
آرزوے حیات لا حاصل
17
سوئے، نانی، چلے گئے سوامی
اب یہاں کون ہے مرا ہمراز
صبحدم آج کل نہیں ہوتے
ان کے ناقوس زمزمہ پرداز
جی سکوں گی نہ اب میں ان کے بغیر
تھے وہی میرے مونس و دمساز
18
چل دیئے ہنگلاج سے وہ لوگ
جن کو نانی کی سمت جانا ہے
یہ سنا ہے کہ دوارکا جا کے
انہیں دل کی مراد پانا ہے
19
چھوڑ کر مجھ کو چل دیئے جوگی
دیدنی میری بے قراری ہے
جی رہی ہوں اگرچہ ان کے بغیر
ایک لمحہ بھی مجھ پہ بھاری ہے
ان پہ قربان جسم و جاں میرے
ان کی ہر ایک بات پیاری ہے
20
سونی سونی ہر ایک بیٹھک ہے
اب وہ جوگی رہے نہ ان کا جوش
جی سکوں گی نہ اب میں ان کے بغیر
اب نہ دل میں سکوں، نہ صبر، نہ ہوش
21
پوچھتے کیا ہو مجھ سے ان کا نشاں
راز سربستہ ہیں وہ خوش اطوار
توڑ کر سب سے رشتہ و پیوند
ہوگئے محوِ جستجوے یار
بے خودی میں رواں دواں پیہم
انہیں رختِ سفر نہیں درکار
جی سکوں گی نہ اب میں ان کے بغیر
چشم پرنم ہے طالبِ دیدار
22
جسم پر خاک ہاتھ میں ناقوس
اور ہی کچھ ہیں جوگ کے آداب
سمتِ نانی چلے ہیں سنیاسی
کوئی دیکھے تو ان کی آب و تاب
میرے دل کا قرار ہیں وہ لوگ
رحمتِ کردگار ہیں وہ لوگ
23
تیرتھوں کی لگن لگی من میں
دل کہیں اور کیا لگائیں گے
مجھ سی معذور جوگنوں کو وہ
ساتھ لے کر کبھی نہ جائیں گے
24
کب روانہ ہوئے یہاں سے وہ
مجھ پر ظاہر نہ ہو سکی یہ بات
کر رہے تھے یہاں وہ بیراگی
راز دارانہ ہی بسر اوقات
سوچتی ہوں میں اب کہ ان کے بغیر
کیا رہے زندگی کے امکانات
25
اس سماعت میں بھی تھا کوئی راز
میرے جوگی تھے گوش بر آواز
ان کے چہرے تھے مضمحل لیکن
ان کی روحیں تھیں زمزمہ پرداز
جی سکوں گی نہ اب میں ان کے بغیر
نغمہ زن دل میں ہے انہیں کاساز
26
مٹ گئی جز و کل کی ہر تفریق
جوگیوں نے عدم کو اپنایا
اپنے ناقوس کی صدائوں کو
ماورائے غمِ جہاں پایا
دور ہر ایک رہگزر سے دور
جادۂ حق انہیں نظر آیا
ان سے آباد دل کی بستی ہے
ان سے وابستہ میری ہستی ہے
وائي
کتنی دلکش ہے تار کی آواز
سرنگوں جس کے سامنے ہر ساز
اس کے نغموں کی دلکشی مت پوچھ
منفرد ہے وہ زمزمہ پرداز
ماورائے صفات ہے شاید
اس مغنی کے سحر فن کا راز
’سوہنی‘ اور ’ڈیاچ‘ کیا معنی
ہر نفس کے لئے ہے وہ دمساز
جس کو چاہے جلائے یا مارے
اس کی بانگِ رحیل کا اعجاز
سننے والوں پہ بے خودی چھائی
نت نئی دھن ہے نت نیا انداز
اس کی ہر لے میںدل کی بیتابی
اس کی ہر تان رح کی غمّاز
زہر سمجھو کہ انگبین جانو
کبھی ایسی سنی کوئی آواز
سندھ اور ہند ہی پہ کیا موقوف
کون سے دیس میں ہے ایسا ساز
دوسری داستان
1
ان کے دکھ درد کوئی کیا جانے
وہ ہوا خواہِ کنجِ خلوت ہیں
جانتی ہوں میں جوگیوں کا حال
وہ سراپا گمِ محبت ہیں
2
سن لیا پاس بیٹھ کر میں نے
جوگیوں سے تمام دل کا حال
ہائے ان کا لباس گرد آلود
اور سر پہ وہ لمبے لمبے بال
جسم و جاں کی خبر نہیں ان کو
زندگی کو سمجھتے ہیں جنجال
اہل دنیا سے چھپ کے چلتے ہیں
کوئی دیکھے تو جوگیوں کی چال
3
کچھ خس و خار ساتھ لاتے ہیں
اور پھر دھونیاں رماتے ہیں
میں نے دیکھا ہے جا کے ان کے پاس
کیا بتائوں وہ کیا جلاتے ہیں
اپنے قلب و نظر کے شعلوں کو
دوسروں سے سدا چھپاتے ہیں
4
کون ہے جس کے درد نے مارا
کس نے گھائل کیا خدا جانے
ان کے جوش و خروش کا عالم
جز غم عشق کوئی کیا جانے
وہ شب و روز کیوں تڑپتے ہیں
جوگ کا درد لا دوا جانے
محو ہیں کس خیال میں جوگی
کس طرح کوئی دوسرا جانے
فکر و اندیشہ کیا اسے ’سید‘
جو محبت کو رہنما جانے
5
اپنے سوز و گداز کا عالم
جانے کیوں خلق سے چھپاتے ہیں
کوچۂ شوق کی گدائی میں
مدعاے حیات پاتے ہیں
یہ خدا دوست اپنے تن من کو
آتشِ عشق میں جلاتے ہیں
6
ہاتھ میں کاسۂ گدائی ہے
دل کی ہر آرزو چھپائی ہے
دور افتادہ منزلِ جاں ہے
رازدارانہ لو لگائی ہے
دمبدم اس کا نام جپتے ہیں
روح کو جس سے آشنائی ہے
شاد ہیں یہ نجات کے طالب
اپنے دل کی مراد پائی ہے
7
جابجا پھر رہے ہیں یہ جوگی
ان سے قائم ہے جوگ کا دستور
رام ہی رام ان کے لب پر ہے
دل میں اسی اک لگن سے ہے معمور
سب میں شامل بھی اور سب سے الگ
اتنے نزدیک اور اتنے دور
8
خلوتِ شب نے دیدہٗ و دل کو
حسنِ باطن کی دلکشی بخشی
ہائے وہ دل کا مرشدِ کامل
جس نے پرسوز زندگی بخشی
ان کی جلوتِ میں حسن خلوت ہے
والہانہ سی محرمیت ہے
9
دشمن رہگزار ہیں جوگی
کتنے خلوت شعار ہیں جوگی
مل گئی ان کو منزل مقصود
سرخوشِ وصلِ یار ہیں جوگی
یاترا سے سکون دل پایا
ان کی تقدیر یک بیک جاگی
دیکھ کر جلوۂ خدا اوصاف
دم بخود ہوگئے ہیں بیراگی
10
خواہشیں ان کی ہوگئیں پوری
آبِ گنگا سے شاد کام ہوئے
کوئی سمجھانہ ان کے دل کا راز
گرچہ لاکھوں سے ہم کلام ہوئے
11
صبح دم یہ غریب بیراگی
روح پرور صدا لگاتے ہیں
اٹھ کے اپنی قیامگاہوں سے
دور کی بستیوں میں جاتے ہیں
عہد و پیماں کا پاس ہے کتنا
دل کی وارفتگی چھپاتے ہیں
12
یہ لنگوٹے یہ خوشنما کشکول
بھید ان کا کسی کو کیا معلوم
سوے کابل چلے ہیں لاہوتی
کس کے طالب ہیں یہ خدا معلوم
13
اپنے کشکول کر لئے تیار
ہورہی ہے کدھر کی تیاری
دیکھتی ہوں کہ پھر مرے سوامی
کر رہے ہیں سفر کی تیاری
راز ان کا کسی کو کیا معلوم
جارہے ہیں کہاں خدا معلوم
14
دل ہے سوزو گداز سے معمور
نغمہ خوانی سے ان کو رغبت ہے
رات رو رو کے کاٹ دیتے ہیں
رنج بھی ان کو عین راحت ہے
ان فقیروں کا مقصد ہستی
رات دن دور کی مسافت ہے
15
وہ کہیں جھونپڑی بناتے ہیں
اور نہ اس کو بنا کے ڈھاتے ہیں
جانتے ہیں نوشتۂ تقدیر
حسب توفیق سر جھکاتے ہیں
ان کو عرفانِ محرمیت ہے
وہ محبت کے گیت گاتے ہیں
بھید ان جوگیوں کا جانے کون
اپنے دل کی لگی چھپاتے ہیں
16
اپنے دل کے حصار میں محصور
ان سے کیسے ہو باخبر کوئی
بھید زمّار کا نہ کھولیں گے
پوچھنا چاہے بھی اگر کوئی
منزل معرفت سے جب لوٹے
دور تک تھا نہ ہم سفر کوئی
17
جانے کیوں جوگیوں کو شوق سفر
سوے گنگا ہے جانبِ گرنار
اور لنکا انہیں خدا جانے
لے گیا کس کے عشق کا آزار
کس کو معلوم کیوں یہ لاہوتی
ہوتے جاتے ہیں اتنے پراسرار
18
چل دیے ہنگلاج کی جانب
جانے کس نے انہیں بلایا ہے
کون ناوک فگن ہے پردے میں
زخم کس کا جگر پہ کھایا ہے
سرخرو ہوگئے ہیں بیراگی
من کو کس آگ میں تپایا ہے
آپ اک راز بن گئے ورنہ
پردہ ہرراز سے اٹھایا ہے
19
چشم پرنم ہے اور دل پرسوز
ایسے آتے ہیں جیسے دل میں راز
ان کو جوگی بھی یاد رکھتے ہیں
جو اٹھاتے ہیں جوگیوں کے ناز
20
آج پھر ایک شور و غوغا ہے
کون جانے کہاں کا سودا ہے
دفعتا اشتیاقِ جاناں میں
ذکر پھر سے سفر کا چھیڑا ہے
21
کردیا ان کی یاد نے بے چین
آہ پھر میری آنکھ بھر آئی
پوربی جوگیوں کی فرقت میں
پھر مری روح تن میں گھبرائی
22
کھول دیتے ہیں سر کے بالوں کو
اور تن پر بھبوت ملتے ہیں
دور آبادیوں سے جنگل میں
جانے کیا ڈھونڈھنے نکلتے ہیں
جوگیوں کے وہ پرمحن ناقوس
غم ہستی کا راز اگلتے ہیں
23
راکھ ملتے ہیں جسم پر جوگی
اور شب و روز دکھ اٹھاتے ہیں
چند کشکول، گدڑیاں، ناقوس
یہی سامان لے کے آتے ہیں
کس قدر حق شناس ہیں یہ لوگ
جوگ کے راز کو چھپاتے ہیں
24
جوگیوں میں سفر کا ذکر چھڑا
اپنے سازوں کے کس رہے ہیں تار
ہر برائی سے دور رہتے ہیں
یہ خدا دوستانِ خوش اطوار
راز دارانِ حسنِ وحدت ہیں
ہر ادا ان کی عالم اسرار
25
یہ شہیداں حسن جلوۂ یار
طالبان تجلی۔ٔ دیدار
عزم ہیں ان حسینیوں کے بلند
واصل یار ہوں گے آخر کار
شادماں دشت دشت پھرتے ہیں
ان کی نظروں میں ہے جمال نگاہ
26
ابتدا جذب شوق، ذوق طلب
انتہا وصلِ شاہد و مشہود
ان پہ طاری ہے عالمِ لاہوت
مل گئی ان کو منزل مقصود
27
ان کی آنکھوں میں ایک مدت سے
نظر آتے ہیں خون کے آنسو
گیسوئوں پر ہے بارِ گرد و غبار
دوش پر بارِ جاوداں گیسو
درد ان جوگیوں کی فطرت ہے
اور سوز و گداز ان کی خو
اس جہاں سے انہیں تعلق کیا
ذاتِ واحد میں گم ہیں یہ حق جو
28
عمر اس طرح کیوں گزرتی ہے
غم فزا کیوں ہیں ان کے ماہ و سال
بے دلی کیوں ہے بیخودی کیسی
دوش پر کیوں ہیں الجھے الجھے بال
کوئی ان جوگیوں سے پوچھے تو
کون سے غم میں ہوگیا یہ حال
29
جانے ان جوگیوں نے کیوں آخر
عمردکھ درد میں گزاری ہے
میں کہ روتی ہوں یاد کرکے انہیں
مجھ سے بھی ان کی پردہ داری ہے
ماں انہیں جا کے اب کہاں ڈھونڈوں
ایک وحشت سی مجھ پہ طاری ہے
وائي
اپنے لئے کانٹے بوتاہے
جو غافل وقت کو کھوتا ہے
کیوں اس کو ملے ساجن پیارا
جو گہری نیند میں سوتا ہے
دل اس کو بھلا کر شاداں تھا
اب خون کے آنسو روتا ہے
اللہ کو جس نے یاد کیا
اللہ اسی کا ہوتا ہے
وائي
آئے ہیں پیارے بیراگی
میں ان کے ساتھ ہی جائوں گی
وہ مایا لوبھ کو چھوڑ چکے
جگ جیون سے منہ موڑ چکے
ہر سکھ سے ناتا توڑ چکے
بیراگ سے آس لگائوں گی
میں ان کے ساتھ ہی جائوں گی
گھر بار لٹا کے آئے ہیں
لاہوت سے دھیان لگائے ہیں
گدڑی میں لعل چھپائے ہیں
بن دیکھے چین نہ پائوں گی
میں ان کے ساتھ ہی جائوں گی
تیسری داستان
1
سوئے مشرق وہ روشنی کیا ہے
کس کے جلوے نظر میں رہتے ہیں
تیر کس درد آفریں کے نہاں
ان کے قلب و جگر میں رہتے ہیں
آئو ان جوگیوں کو دیکھ آئیں
جو ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں
ان کی باتوں سے کچھ پتہ نہ چلا
کس جہانِ دگر میں رہتے ہیں
منزلِ معرفت نظر میں ہے
اجنبی رہ گذر میں رہتے ہیں
2
تجھے اپنا نہ کوئی ہوش رہے
زندگی بے خودی بدوش رہے
محرمانہ شعور لاہوتی
ساز وحدت کا پردہ پوش رہے
کاپڑی ہو کہ ہو کوئی سوامی
خود فراموش و سرفروش رہے
3
کس کے حلقہ بگوش ہیں جوگی
آئو معلوم تو کریں یہ بات
بے خودی ہو کہ فاقہ مستی ہو
والہانہ ہیں ان کے احساسات
ان کی دھونی کے شعلوں سے یکسر
خاک خس خانۂ فریب صفات
نہ ہوا و ہوس نہ حرص و آز
اپنی دھن میں مگن ہیں وہ دن رات
نہ طلبگار نان و خواب و لباس
نہ ہراسان گردش حالات
انس ہے ہنگلاج سے ایسا
کہ بسر ہوتے ہیں وہیں اوقات
4
آو سکھیو! چلو انہیں دیکھیں
جو چھداے ہوئے ہیں اپنے کان
میں ہوں ان کے نیاز مندوں میں
مجھ پہ ان جوگیوں کا ہے احسان
5
کردیا ان کی یاد نے بے تاب
بند حجروں کو کر گئے جوگی
رام کی جستجو میں نکلے تھے
کون جانے کدھر گئے جوگی
6
دل ہے بیگانۂ گناہ و ثواب
آتشِ عشق میں جگر ہے کباب
رات رو رو کے کاٹ دیتے ہیں
روح کرتی ہے جب انہیں بے تاب
ان سے پوچھے تو کوئی کیا پوچھے
جن کے لب کو نہیں مجالِ جواب
7
سوئے کابل کبھی مسافت ہے
بتکدوں میں کبھی عبادت ہے
لے کے چلتے ہیں دوش پر ناقوس
رنج و غم سے انہیں محبت ہے
8
توشۂ رنج و غم ہے ان کے ساتھ
کون جانے کہاں کہاں ہیں وہ
عہد و پیماں کا پاس ہے ان کو
محرم حسنِ جاوداں ہیں وہ
اپنے ناقوس کی صدائوں پر
صبحدم پھر رواں دواں ہیں وہ
9
اب کھٹکتا ہے خار کی مانند
جس سے کل تک بڑی محبت تھی
کوچ کرنا ہی تھا جب اے سوامی
پھر یہ حجرے کی کیا ضرورت تھی
وائي
ہے جس کے من میں مالا
وہ جوگی ہے متوالا
وہ سوامی ہے وہ سوامی
ہے جس کے کان میں بالا
وہ جوگی ہے متوالا
میں ساتھ چلی مندر میں
پگ پگ ہوا اُجالا
وہ جوگی ہے متوالا
چوتھی داستان
1
جس کسی کو ہو جوگ کا سودا
ہر تعلق کو خیرباد کہے
ترکِ دنیا ہے رمزِ لاہوتی
بس الف اور میم یاد رہے
2
یہ صنم خانے اور یہ ناقوس
کاش ہٹ جائیں تیری راہوں سے
دیکھ ساجن تجھے بلاتا ہے
کن نفاست بھری نگاہوں سے
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اپنا دامن بچا گناہوں سے
3
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اے بشر فکر این و آں سے بھاگ
تجھے نور ازل بلاتا ہے
بھاگ ہر اک غمِ جہاں سے بھاگ
4
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
تجھے لازم ہے نفس کا ایثار
جسم مندر ہے اور دل حجرہ
جوگ میں ہیں یہی ترے گھر بار
در بدر ڈھونڈھتا ہے تو جس کو
جلوہ گر تیرے دل میں ہے وہ نگار
5
چھوڑ دے وہم کے صنم خانے
بھول جا آرزو کے افسانے
تیری راہ طلب میں حائل ہیں
بستیاں، شہر، دشت ویرانے
در بدر اس کی جستجو تجھ کو
اس سے روشن دلوں کے افسانے
6
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اپنی ہستی کو غرقِ وحدت کر
عشق کی دھونیاں رما دل میں
نفس کو بیخ و بن سے غارت کر
یاد رکھ مدعائے ذکر خفی
صرف اسی ایک سے محبت کر
7
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
محرم حسنِ جاوداں ہو جا
نہ رہے فرقِ آستان و جبیں
سر بسر خاکِ آستاں ہو جا
8
وہ ابلتے ہیں نور کے چشمے
سوئے مشرق رواں دواں ہو جا
بن کے راز آشنائے ذکر خفی
خلوتِ خاص میں نہاں ہو جا
تیری منزل ہے عالمِ لاہوت
بے نیازِ غمِ جہاں ہو جا
تیرا مسلک غمِ محبت ہے
اپنے مسلک کا پاسباں ہو جا
مستقل اپنے دل کی آگ میں جل
آپ ہی اپنا امتحاں ہو جا
9
اجنبی بستیوں سے تو منہ موڑ
آئے دن کا یہ رونا دھونا چھوڑ
جوگ لے اس کے گائوں میں جا کر
توڑ دنیا سے اپنے ناتے توڑ
10
جوگ لینا ہے تو زمانے سے
ہر تعلق کو توڑ لے پہلے
جسم کو چھوڑ، روح کا رشتہ
ذات واحد سے جوڑ لے پہلے
جس طرف منزلِ محبت ہے
رخ ادھر اپنا موڑ لے پہلے
11
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
تہِ دل سے ہو قائلِ توحید
تیرے صوم و صلوٰۃ ہیں بے کار
دل نہیں ہے جو مائلِ توحید
جوگ لینے کی آرزو ہے اگر
رب کو پہچان سائلِ توحید
12
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
تیرِ غم قلب میں اتر جائے
جسم ہو جائے نذر سوزِ دروں
آتشِ شوق کام کر جائے
کیوں نہ بن جائیں اس کے سارے کام
جس کی اللہ پر نظر جائے
13
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اور دل آشنائے وحدت ہو
چھوڑ دے کوچہ گردیٔ شب و روز
گوشہ گیر سکونِ خلوت ہو
کیا خبر تجھ کو تیری خاموشی
محرمِ راز محرمیت ہو
14
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
اپنے مالک سے لو لگائے جا
من کی مالا نہ ہاتھ سے چھوٹے
اور یہ سنکھ بھی بجائے جا
دھول تن پر نہ ڈال اے سوامی
صبر کی گڈریاں سلائے جا
15
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
جا بڑے پیار سے گرو کی اور
ڈھونڈے لے ہنگلاج میں جا کر
کہ وہیں ہیں کہیں ترے چت چور
16
کل وہ حلقہ بگوش بیراگی
کر گئے کوچ کیوں خدا جانے
کیوں گئے ہیں وہ جانبِ مشرق
کوئی ان کے رموز کیا جانے
کیسے آئے قرار اس دل کو
جو انہیں اپنا آسرا جانے
سرخ و معصوم و مشکبو چہرے
چھپ گئے ہیں کہاں خدا جانے
کتنی سنسان ان کی راہیں ہیں
کتنی ویراں قیامگاہیں ہیں
17
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
لوحِ لاہوت پر ہو تیرا نام
چھوڑ حرص و ہوا کی دنیا کو
اور بن اس کا بندۂ بے دام
پیر و مرشد کے پاس جا کر سن
محرمیت کا نت نیا پیغام
سفر ہنگلاج ہے درپیش
اس سفر میں ہیں سنگِ رہ اوہام
گھر تری پاشکستگی کی دلیل
زہرِ قاتل ترے لئے آرام
کوئی گل رنگ منتظر ہے ترا
سمتِ مشرق سے آرہے ہیں پیام
عیش و عشرت کی آرزو بے سود
جوگ کی شرط ہیں غم و آلام
18
راز دارِ رضائے حق ہو کر
اپنی ہستی کو تو مٹائے جا
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
عشق کی دھونیاں رمائے جا
19
تو ازل ہی سے طالبِ حق ہے
بھول کر بھی نہ لے خودی کا نام
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
بادۂ نیستی کا پی لے جام
20
گر یہ چاہے کہ تو بنے جوگی
کرلے اپنی ضرورتیں محدود
دل نہ جب تک ہو مائل ایثار
تیری حلقہ بگوشیاں بے سود
21
میری حالت ہے قابل افسوس
مجھ میں پیدا نہ ہوسکا ایثار
جوگ ان جوگیوں کو زیبا ہے
جن کا دستور بن گیا ایثار
22
دیکھ ان سوامیوں کی آنکھوں سے
اشکِ خوں گر رہے ہیں گام بہ گام
جوگ تیرے لئے نہیں موزوں
جوگ کا لے رہا ہے ناحق نام
جب سفر ہی کی ٹھان لی دل میں
سر زمینِ وطن سے پھر کیا کام
23
جن کا مسلک ہی بے نیازی ہو
ان کو اپنے وجود سے کیا کام
جوگ لیتے ہی مرگئے جوگی
لے نہ اب تو بھی زندگی کا نام
نغمۂ غم سے آشنا کر دے
تیرے کانوں کو بھی وہی پیغام
24
جس کو سمجھے ہیں زندگی جوگی
وہ سراسر غمِ محبت ہے
سن میری بات عازمِ مشرق
درد ہی تیرے دل کی راحت ہے
25
گڈریوں اور سنکھ سیلوں سے
ہوسکے گی نہ جوگ کی تعمیل
قصر باطن کو ریزہ ریزہ کر
تاکہ ہو جذب و شوق کی تکمیل
دل ہو مانند شعلۂ بے دود،
ورنہ ہر رسمِ ظاہری بے سود
26
تیری حلقہ بگوشیاں بے سود
کوششِ رائیگاں سے کیا حاصل
سخت مشکل ہے جوگ کی منزل
جوگ کے امتحان سے کیا حاصل
تو ہے سردی سے لرزہ بر اندام
جوگ کا لے رہا ہے ناحق نام
27
جانے کس جستجو میں رہتے ہیں
سوئے مشرق رواں دواں جوگی
اک سراپا جمال ہے دل میں
جسے کہتے ہیں جانِ جاں جوگی
سرخروے غمِ محبت ہیں
بے نیاز غمِ جہاں جوگی
28
میری غفلت سے گم ہوئے جوگی
کس طرف ان کو ڈھونڈنے جائوں
وہ مکٹ ان کے اور وہ چکرے
اب میں کس شے سے دل کو بہلائوں
کہیں ان کا نشاں اگر مل جائے
کرکے منت انہیں بلا لائوں
جھونپڑی چھوڑ کر کسی دھن میں
وہ گئے ہیں جہاں وہیں جائوں
پہلے اپنا وجود گم ہوجائے
پھر یہ ممکن ہے کچھ نہ کچھ پائوں
29
اب کہاں جائوں اب کسے پوجوں
کیا کروں اب یہ دھوپ اور دھانی
جا کے مندر میں دیکھتی کیا ہوں
تیرتھوں کو چلے گئے گیانی
30
شکم آسودہ جوگ کیا جانیں
جوگیوں میں وہ ہو گیا بد نام
راہ گم کردہ وہ تہی داماں
ایسے جوگی کو جوگ سے کیا کام
31
جوگ دل سے قبول کر جوگی
یوں دکھاوے کو اختیار نہ کر
ترک کردے دروغ گوئی بھی
راست بازی بھی اختیار نہ کر
فکرِ روزِ جزا رہے دل میں
اس کی رحمت کو شرمسار نہ کر
32
تو نے چھدوا لئے ہیں اپنے کان
اب نبھانا ہے جوگیوں کی آن
جان لیوا ہے یہ لگن پیارے
اور جو تجھ کو کہیں عزیز ہو جان
کیوں ہے گونگوں کی طرح اب چپ چاپ
بھید پیارے کا پوچھ لے انجان
عجز کو پیشوا بنا اپنا
عجز ہی سے ملے گا تجھ کو گیان
چھوڑ یہ احتیاط لاہوتی
عشق کا تیر دل پہ کھا نادان
33
جس سے بن جائے آگ بھی پانی
کاش مل جائے تجھ کو ایسا گیان
پریم کی دھونیاں رما دل میں
ڈال دے اس چتا میں اپنی جان
34
کاپڑی! کان کس لئے چھدوائے
تجھ کو زیبا نہیں زنانہ جوگ
فرق ہے جوگ جوگ میں جوگی
کم ہی پہچانتے ہیں اس کو لوگ
اس کو دھوکے میں ڈالتا ہے رام
جو نہ سمجھے کہ پیڑ ہے یا پھوگ
35
سن سکے یہ نہ گیان کی باتیں
کان تیرے ہیں یا گدھے کے کان
بیچ کر ان کو دوسرے لے آ
جن کو ہو بات بات کی پہچان
دل نہ جب تک ہو گوش بر آواز
کس طرح مل سکے گا تجھ کو گیان
36
سوئے نانی چلا ہے کیوں نانگا
تیری منزل یہیں کہیں ہوگی
جس حقیقت کو ڈھونڈتا ہے تو
تیرے ہی دل میں وہ مکیں ہوگی
ایک ہوجائیں تیرے دیدہ و دل
پھر کوئی جستجو نہیں ہوگی
وائي
ٹھیرے نا رات کو ساجن
آیا سنسان سویرا
سجنی اب کون ہے تیرا
وہ جوگی ہیں وہ جوگی
کیا ناتا آن سے تیرا
سجنی اب کون ہے تیرا
لائے تھے چھرا لاہوتی
جو جگ جیون پہ پھیرا
سجنی اب کون ہے تیرا
پانچویں داستان
1
طور سینا ہے ان کو ہر اک گام
محوِ نظارہ ہیں وہ صبح و شام
رازدارِ یقین وحدت ہیں
دور ہے ان سے کثرتِ اوہام
زیر پایہ جہانِ فانی ہے
ان کو پیارا ہے بس خدا کا نام
مثل موسیٰ ہوئے نہ وہ بے ہوش
ان کا ذوقِ نظر ہے خوش انجام
ان کے سجدوں کی محرمیت نے
سن لیا کوئی دلنشین پیغام
دل ہے راز نشاط سے آگاہ
دیکھنے میں ہیں سر بسر آلام
یہ ہیں نور ازل کے گرویدہ
اب کسی اور سے انہیں کیا کامڀ
2
جسم مسجد ہے اور دل قبلہ
ساز گار ان کو بزم خلوت ہے
آپ محراب آپ ہی منبر
اُن پر روشن ہر اک حقیقت ہے
موجزن ان کے دیدہ و دل میں
نورِ سرچشمۂ ہدایت ہے
ہر گناہ و ثواب سے بالا
اے ازل تیری محرمیّت ہے
حسنِ والا صفات کی تحقیق
جوگیوں کی یہی عبادت ہے
3
بزم لاہوت سے گزر آئے
اب ہے دل میں اُلوہیت کی دھوم
دیکھ کر ان کو کچھ پتہ نہ چلا
راز دل کا کسی کو کیا معلوم
4
ان کے ننگے بدن پہ خاکستر
روح میں آتش محبت ہے
عیش و عصیان سے دور رہتے ہیں
پارسائی ہی ان کی فطرت ہے
آپ ہی اپنی آگ میں جلنا
سوزِ دل اُن کو عین راحت ہے
5
چھوڑ یہ جوگیوں کے جاگوٹے
اور ان دھونیوں سے ہو بیزار
آتشِ عشق میں جلا دل کو
اے طلبگار حسن جلوۂ یار
لگ گئی جس کو معرفت کی آنچ
مل گئی اس کو دولت دیدار
6
صرف حلقہ بگوشیوں سے کیا
لطف تو جب ہے سر قلم ہو جائے
نورِ عرفاں ہو راہبر تیرا
جوگیوں میں ترا بھرم ہو جائے
مہرباں ہو وہ جانِ جاں تجھ پر
دور سب فکر بیش و کم ہو جائ
7
ڍکر گئے کوچ جانبِ مشرق
ساری دنیا کو چھوڑ کر جوگی
ان کے دل نے جدھر اشارہ کیا
گامزن ہوگئے ادھر جوگی
جانے پھر اس طرف سے کب گزریں
ہائے یہ صاحب نظر جوگی
8
کون جانے کہ یہ روش جوگی
کس لئے اختیار کرتے ہیں
کفر و ایماں سے ہو کے بیگانہ
ذاتِ واحد سے پیار کرتے ہیں
ذکرِ جنت نہ فکرِ دوزخ ہے
خواہش وصلِ یار کرتے ہی
9
زالِ دنیا قبیح صورت ہے
اس سے ترکِ تعلقات کرو
دردِ ہستی نہ دردِ سر بن جائے
حاصل اس درد سے نجات کرو
نفس کو پہلے سرنگوں کر لو
پھر کوئی معرفت کی بات کر
10
اپنے ناقوس کی صدائوں سے
مجھ پہ یہ جادو سا کر گئے جوگی
سونے سونے سے ان کے حجرے ہیں
کیا بتائوں کدھر گئے جوگی
11
جوگ میں پیروِ شریعت ہیں
ان کے دل عارف حقیقت ہیں
بزمِ ملکوت و عالمِ جبروت
اس تفکر کی قدر و قیمت ہیں
جس کے فیضان سے یہ لاہوتی
سرخوش بزمِ محرمیّت ہیں
12
چھوڑ کر آج عالمِ ناسوت
جا رہے ہیں وہ جانبِ ملکوت
ان کے ناقوس کی صدائوں سے
گونج اٹھی ہے محفلِ جبروت
13
قابلِ داد ہے دروں بینی
جا کے دیکھے نہ کابل و کشمیر
دھونڈھتے تھے وہ جا بجا جس کو
اپنے ہی دل میں مل گیا وہ پیر
چشم و دل کی یگانگت دیکھو
کھل گئی ان کے جسم کی زنجیر
گامزن تھے رہِ صداقت میں
جانے کب سے یہ کاپڑی رہگی
14
یاس و حسرت سے آشنا ہیں وہ
اپنی قسمت سے آشنا ہیں وہ
بحر و بر سے گذر گئے بے باک
ہر صعوبت سے آشنا ہیں وہ
ان کے لب پر نہیں کوئی شکوہ
رازِ وحدت سے آشنا ہیں وہ
15
سر خوشِ وصل یار ہیں جوگی
کیا سراپا بہار ہیں جوگی
بحرِ عرفاںمیں غوطہ زن ہو کر
خود یمِ بے کنار ہیں جوگی
عارفانہ ہیں ان کے پیچ و تاب
کیا انہیں فکرِ موجہ و گرداب
16
نامرادی مراد میں بدلی
جب عدم آشنا ہوئے جوگی
اب کسی چیز کا سوال نہیں
تاجدار رضا ہوئے جوگی
17
غمِ فردا نہ فکرِ دوش انہیں
اک ہوا خواہ دم کے ساتھ رہا
سخت دشوار تھی رہ عرفاں
جانِ جاں ہر قدم کے ساتھ رہ
18
ناسمجھ ہیں ’لطیف‘ وہ رہرو
جو تکبّر کے ساتھ چلتے ہیں
ان کی تقدیر میں ہے گمراہی
گھر سے بے راہبر نکلتے ہیں
وائي
دلنشین ان کا ہر اشارا ہے
مجھ کو ان جوگیوں نے مارا ہے
موت بھی کوچۂ گدائی میں
ان کی خاطر مجھے گوارا ہے
کیسے بھائے دوئی کی بات انہیں
جن کو وحدت کا نام پیارا ہے
اڑ گئی نیند میری آنکھوں سے
جانے کس نے مجھے پکارا ہے
کس کے رازِ فرار نے اکثر
دل میں اک تیر سا اتارا ہے
ان خدا آشنا فقیروں نے
میرا ذوقِ طلب نکھارا ہے
تیری رحمت ’لطیف‘ پر یا رب
ایک تو ہی مرا سہارا ہے
چھٹی داستان
1
درد کی ٹیس دل میں اٹھتی ہے
رات دن بے قرار رہتے ہیں
کس نے ان پر چھری چلائی ہے
جانے کیوں سوگوار رہتے ہیں
2
ان کے لب پر ہیں گرچہ کیا کیا نام
ان کے دل میں فقط رام ہی رام
جادہ پیماے معرفت جوگی
پی چکے ہیں مئے ازل کے جام
کوئی ان سامیوں سے پوچھے تو
ان کی تقدیر میں ہیں کیوں آلام
بال کیوں اس قدر بڑھائے ہیں
بن گئے کس کے بندۂ بے دام
یاد کرتا ہوں میں انہیں ’سید‘
دل کی گہرائیوں سے صبح و شام
3
عالم بے خودی میں آئے ہوئے
پیچ و تاب خودی مٹائے ہوئے
کچھ سفیدی سیاہ بالوں میں
غمِ فرقت کے دکھ اٹھائے ہوئے
اور ہر وقت پیار کے آنسو
ان کی آنکھوں میں ڈبڈبائے ہوئے
ایک مدت یوں ہی بیٹھے ہیں
گرد آلودہ سر جھکائے ہوئے
من کی دنیا میں ہیں مگن جوگی
پریت کی دھونیاں رمائے ہوئے
کیا سروکار بزم ہستی سے
وہ خدا سے ہیں لو لگائے ہوئے
4
ان کا دل ہے خزینۂ عرفان
آپ ہی اپنے کارساز ہوئے
بس گیا ان کی روح میں بھگوان
پیرو مرشد سے بے نیاز ہوئے
5
گرم و سردِ زمانہ نے ان کو
کیا کہوں کس قدر ستایا ہے
خود بھی بیراگیوں نے تن من کو
آتش عشق میں جلایا ہے
کس نے اس شان دلبری سے انہیں
دربدر مانگنا سکھایا ہے
کس ادب سے کھڑے ہیں اسکے حضور
حرفِ مطلب زباں پہ آیا ہے
فکرِ اہل و عیال سے ان کو
مطلقاً بے نیاز پایا ہے
6
دھیان ہر نام سے لگاتے ہیں
اعتبار خودی مٹاتے ہیں
یہ خدا دوست اپنے ظاہر کو
نورِ باطن سے جگمگاتے ہیں
سعی۔ٔ پیہم کے بعد بیراگی
ناتھ کو اپنے دل میں پاتے ہیں
7
ان خدا آشنا فقیروں میں
باہمی ربط و ضبط ہوتے ہیں
رچ گیا رام ان کی روحوں میں
راہ چلتے ہوئے بھی روتے ہیں
جاگتے رہتے ہیں یہ ساری رات
جب کہ اہلِ زمانہ سوتے ہیں
8
زیر خرقہ ہے یوں بدن ان کا
خار و خس میں چھپا ہو جیسے گلاب
گنجِ عرفاں ہے بوریا ان کا
اس میں پنہاں ہے گوہر نایاب
9
ہاتھ میں سبحہ دوش پر زنار
یوں ہوئے جلوہ گر سر بازار
ہائے وہ صورتیں خمار آگیں
دیکھنے والے ہوگئے سرشار
10
ان کے ناقوس کی صدائوں نے
یاد آکر مجھے ستایا ہے
گرد آلودہ جوگیوں نے مجھے
آتشِ ہجر میں جلایا ہے
وائي
آنکھوں نے مجھے الجھایا ہے
سپنوں کا جال بچھایا ہے
اب دوش کسے دوں اے سکھیو
پھل میں نے پریت کا پایا ہے
بیکار دوائوں نے اکثر
برھن کا روگ بڑھایا ہے
من میت سمجھتی ہوں اس کو
جس نے سکھ چین مٹایا ہے
کہتا ہے ’لطیف‘ سنو سکھیو
پلٹی پریتم نے کایا ہے
ساتویں داستان
1
جانے کس کے اسیر ہیں جوگی
آپ اپنی نظیر ہیں جوگی
فاقہ مستی کے راز دار ہیں یہ
کتنے روشن ضمیر ہیں جوگی
کوئی ان کا، نہ یہ کسی کے یار
رنج و غم کی نفیر ہیں جوگی
کنجِ خلوت ہیں ان کو ویرانے
دم بخود گوشہ گیر ہیں جوگی
کوئی اس کے سوا نہیں دل میں
جس کے در کے فقیر ہیں جوگی
کیا غرض ان کو پیرو مرشد سے
آپ ہی اپنے پیر ہیں جوگی
2
شام ہی سے وہ کیوں نہ سوجائیں
جاگنا جن کو اک مصیبت ہے
ہاں مگر وہ غریب لاہوتی
جاگتے رہنا جن کی عادت ہے
کس طرف اپنے پائوں پھیلائیں
ہر طرف قبلہ۔ٔ حقیقت ہے
3
صبح کے وقت یا کبھی سرِ شام
یوں ہی کچھ دیر کو وہ سوتے ہیں
اور پھر اٹھ کے اپنے چہروں کو
دھول سے بار بار دھوتے ہیں
فاقہ مستی میں بھی یہ بیراگی
بھیک سے بے نیاز ہوتے ہیں
کون جانے کہ رات بھر چپ چاپ
وہ کسے یاد کرکے روتے ہیں
4
اپنی دھن میں ہیں مست بیراگی
ان کی روحوں میں رام کا گھر ہے
نہ انہیں بھوک پیاس کا احساس
اور نہ کوئی لباس تن پر ہے
ایسی باندھی ہیں رسیاں کس کر
سخت مجروح جسمِ لاغر ہے
ان کی خاکِ بدن کا ہر ذرہ
اک عدیم المثال جوہر ہے
گامزن ہیں رہِ طریقت میں
کیا خبر کون ان کا رہبر ہے
5
نوبنو جوگیوں کے جلوے ہیں
اب کسی اور بھیس میں ہوں گے
وہ یہاں سے چلے گئے افسوس
جانے کس دور دیس میں ہوں گے
6
حرص سے بے نیاز رہتے ہیں
با ادب پاکباز رہتے ہیں
خلوتِ روح میں خدا سے یہ
محوِ راز و نیاز رہتے ہیں
بے تعلق جہاں سے ہیں پھر بھی
کتنے در ان پہ باز رہتے ہیں
7
جھیل ان کے لئے سبھی دکھ درد
دل اگر جوگیوں پہ وارا ہے
یہ لنگوٹی یہیں اتارے جا
ان کو ننگا بدن ہی پیارا ہے
8
سجدۂ شوق میں جھکی ہے جبیں
انہیں پابندیٔ وضو بھی نہیں
سن چکے ہیں وہی اذاں جوگی
قبلِ اسلام جو ہوئی تھی کہیں
اور کوئی رہا نہ ان کے ساتھ
مل گئے جب سے پیارے گورکھناتھ
9
جسم کو رسیوں سے باندھے ہیں
اور ان کے سروں پہ صافے ہیں
ہائے یہ رازدارِ غم جوگی
ان کے انداز کتنے اچھے ہیں
10
کیوں نہ پیارے ہوں مجھ کو بیراگی
ان کے پیغام دل بڑھاتے ہیں
لائیو ان کو میرے گھر یا رب!
جن سے دکھ درد بھاگ جاتے ہیں
11
ہائے یہ ان کا دیدۂ خونبار
اشک آلودہ سرخیٔ رخسار
چھید کانوں میں زخم کی مانند
اور تن پر ردائے گرد و غبار
دم بخود، زندگی سے بے پروا
وہ کسی کے نہ کوئی ان کا یار
12
ان خدا آشنا فقیروں کو
جُز غمِ عشق کچھ نہیں درکار
زندگی ان کی اک ازل کی آگ
جسم و جاں صبح و شام شعلہ بار
کون جاکر کہے کہ ان کے بغیر
ہوگئی میری زندگی دشوار
کون جانے کہاں گئے جوگی
توڑ کر رشتہ ہائے قرب و جوار
13
بے نیازی پہ حرف آتا ہے
خلق کو اپنا رازداں نہ بنا
تیری ہستی گراں بہا ہے اسے
ہر کہہ و مہ کا آستاں نہ بنا
وصل منظور ہے تو دل کے لئے
حرص کو باعث زیاں نہ بنا
کوئی منزل نہیں تمنا کی
جادۂ عمر بے نشاں نہ بنا
14
کیوں کراتا ہے بندگی اپنی
تجھ کو اس برتری سے کیا حاصل
ڈھونڈھ لے روح کی توانائی
ہو کے دکھ درد کی طرف مائل
بے خودی کے بغیر اے جوگی
مل سکے گا نہ مرشدِ کامل
وائي
وہ کاپڑی گئے کہاں
کبھی یہاں کبھی وہاں
رواں دواں رواں دواں
وہ تن بدن دھواں دھواں
نفس نفس شرر فشاں
وہ کاپڑی گئے کہاں
وہ قلب و جاں کے راز داں
غم و الم کے پاسباں
کب ان کو پائے گی یہاں
یہ میری چشمِ خونفشاں
وہ کاپڑی گئے کہاں
نہ ان میں کوئی قلبہ راں
نہ ان کو فکرِ جسم و جاں
بہ فیضِ عشق بے اماں
رواں دواں رواں دواں
وہ کاپڑی گئے کہاں
آٹھویں داستان
1
آج تجھ پر ہیں مہرباں جوگی
کل نہ جانے ہوں پھر کہاں جوگی
ان کی صحبت بڑی غنیمت ہے
روز آتے ہیں کب یہاں جوگی
صبح سے پہلے ہی نہ ہو جائیں
اور جانب کہیں رواں جوگی
ڈھونڈھنے والوں کو بتاتے ہیں
منزلِ شوق کا نشاں جوگی
سوئے ہنگلاج جانے والے ہیں
چھوڑ کر اب یہ بستیاں جوگی
پھر یہ لمحے نصیب ہوں کہ نہ ہوں
تو کہاں اور پھر کہاں جوگی
لوٹ کر پھر نہ آسکیں شاید
ہر طرف ہیں رواں دواں جوگی
2
ان کی صحبت کو تو غنیمت جان
تجھ پہ جب تک ہیں مہرباں جوگی
ان کی منزل ہے عالمِ لاہوت
تو کہاں اور پھر کہاں جوگی
آئے ہیں اس سراب ہستی میں
مثلِ آھو رواں دواں جوگی
لذتِ وصل کے تمنائی
دردِ فرقت کے راز داں جوگی
زندگی ان کی جاودانہ سفر
بے وطن اور بے اماں جوگی
3
دیکھ تو ہیں کہاں وہ لاہوتی
اب نہ ہوں گی یہ بیٹھکیں آباد
بیٹھ کر دل ہی دل میں رولینا
جب بھی آجائیں تجھ کو جوگی یاد
4
اب نہ وہ بیٹھکیں نہ وہ باتیں
سُونی سُونی فضائے قرب و جوار
کتنی ویراں ہے رہِ پر پیچ
کتنے سنسان ہیں در و دیوار
یہ چپ و راست ڈھیر یادوں کے
یہ بھٹکتا سا دیدۂ خوں بار
یہ خموشی یہ رات کے سائے
کون جانے کہاں گئے وہ یار
5
سامنے میرے آگئے جوگی
اپنا جلوہ دکھا گئے جوگی
اس طرح مسکرا گئے جوگی
مست و بے خود بنا گئے جوگی
6
مجھے اپنا بنا گئے جوگی
دیدہ و دل پہ چھا گئے جوگی
جا کے پھر یاد آگئے جوگی
کچھ نئے گل کھلا گئے جوگی
7
نہ صدائے جرس نہ نغمۂ ساز
چار سو اک سکوت بے آواز
دھونیاں ہیں نہ وہ خس و خاشاک
ہوگئے سرد کاخ و کوئے مجاز
کر گئے کوچ پوربی جوگی
اب نہ شعلے نہ شمعِ محفلِ راز
نہ چراغِ طلب نہ دودِ چراغ
نہ وہ خلوت نشیں نہ خلوتِ ناز
دفعتاً دل میں ہوک سی اٹھی
پھر مجھے یاد آگئے دمساز
ہائے وہ خود شناس سنیاسی
اہلِ عرفان و صاحبِ اعجاز
8
گر یہاں میرے راز داں ہوتے
کیوں یہ مندر وبال جاں ہوتے
بندگی کی مراد بر آتی
وہ مرے دل پہ مہرباں ہوتے
ان کے چرنوں میں جان دے دیتی
کاش وہ آج کل یہاں ہوتے
وائي
وہ کان چھدائے بیراگی
کیوں مجھ سے ناتا توڑ گئے
دکھ درد دیا سکھ چین لیا
مجبور کیا منہ موڑ گئے
وہ سنکھ بجاتے آئے تھے
اک ٹیس سی دل میں چھوڑ گئے
نویں داستان
1
فاقہ مستی ہی فاقہ مستی ہے
ان کی ہستی عجیب ہستی ہے
زندگی تشنہ کامیٔ پیہم
دل ہوا خواہِ مے پرستی ہے
دلِ ویراں کی تہ میں پوشیدہ
خوبصورت سی کوئی بستی ہے
ہر خودی کی سزا شکستِ خودی
ہر بلندی کے بعد پستی ہے
2
نہ بدن کو ہے پیرہن درکار
نہ سفر میں عزیز توشہ ہے
گھرکو ویران کرکے نکلے ہیں
اور معمور دل کا گوشہ ہے
3
آب و دانہ کی جستجو کیسی
دل خدا سے لگالیا ہوتا
خانہ بردوش جوگیوں نے کاش
راہِ عرفاں کو پالیا ہوتا
4
کوئی کاسہ نہ کوئی گدڑی ہے
جھولیاں ہیں سو وہ بھی خالی ہیں
خانہ بردوش جوگیوں نے اب
دشت میں دھونیاں رما لی ہیں
5
راحت جاں غمِ محبت ہے
احتیاطً جسے چھپائے ہیں
بے سروکار لوٹ جائیں گے
بے سروکار جیسے آئے ہیں
6
تشنگی میں عجیب راحت ہے
فاقہ مستی میں طرفہ لذت ہے
یہ شکم پروری و تن پوشی
جوگ سے ان کو خاک نسبت ہے
تیرے ساتھی ہیں واصل منزل
تو غبارِ رہِ ندامت ہے
تجھ سے اللہ دور ہے اب تک
ان کے حق میں نوید رحمت ہے
آج ہی مر کے دیکھ لے ورنہ
کل کو مرنا تو سب کی قسمت ہے
7
گائوں گنجے پہاڑ کا تج کر
پھر روانہ ہوئے کہیں جوگی
جان دی اس گرو کے چرنوں میں
ہو گئے جس کے ہم نشیں جوگی
مل گئے رام آگیا آرام
اتنے مایوس بھی نہیں جوگی
8
رات بھر بے کلی سی رہتی ہے
نیند اکثر اڑی سی رہتی ہے
پیارے آدیسیوں کی آنکھوں میں
آنسوئوں کی نمی سی رہتی ہے
9
شعلۂ جذب و شوق بھڑکالے
دل میں دھونی فنا کی سلگالے
ابھی زندہ ہیں صاحبِ ناقوس
ان کا سوز و گداز اپنا لے
10
ذات واحد کو یاد رکھتے ہیں
اور مرنے کو ہر گھڑی تیار
راحت خواب جوگیوں پہ حرام
انکو رہنا ہے تا ابد بیدار
11
خوئے مہر و وفا نہیں جس میں
معتبر ہو سکی نہ اس کی بات
بے حجابانہ جو نظر آئے
بے نیازِ صفات ہے وہ ذات
12
بہر نظارہ بند کر آنکھیں
کاوشِ جستجو سے کیا ہوگا
شعلۂ آرزو میں جلتا رہ
طلبِ رنگ و بو سے کیا ہوگا
ڈھونڈ اسے ہنگلاج میں جا کر
گردش کوبکو سے کیا ہوگا
13
فائدہ کیا تلاشِ پیہم سے
جب غم زیست سے فراغ نہیں
راہ میں چار سو اندھیرا ہے
پاس تیرے کوئی چراغ نہیں
اپنے حجرے سے تو نکل باہر
منزلِ زیست بے سراغ نہیں
14
کھل گیا ہے بھرم بھی آخر کار
سفرِ ہنگلاج تھا بے کار
جلوۂ آفتاب کیا جانیں
جو اندھیروں ہی سے رہیں دو چار
جوگیو! تم وہاں نہ دیکھ سکے
جلوہ گر تھا جہاں جہاں رخِ یار
15
جانتے تھے کہاں ہے اس کا گھر
پھر بھی شوقِ سفر نے اکسایا
کتنے خوش اعتقاد تھے جوگی
ناتھ کو ہنگلاج میں پایا
16
کون جانے یہ جوگیوں کے سوا
کہ گدائی میں بادشاہت ہے
چھوڑنا مت سلوک کو سوامی
شوقِ ہجرت نویدِ رحمت ہے
17
سہل اندیش لوگ کیا جانیں
اس عدیم المثال کی پہچان
در بدر جو صدا لگاتے ہیں
ان کو ملتا ہے عشق سے فیضان
تا ابد ہو گئے سکوت بہ لب
جب ودیعت ہوا انہیں عرفان
18
کیسی دھونی کہاں کے جا گوئے
دل میں سوز و گداز پیدا کر
بڑھ کے لاہوت سے بھی کچھ آگے
سیر حاصل کوئی نظارا کر
قرب و دوری فریب ہیں جوگی
اپنے سینے کو طور سینا کر
نیستی ہی ثبوتِ ہستی ہے
مر کے شانِ ثبات پیدا کر
19
خیمہ زن دل میں ہیں وہ بیراگی
خوب عالم ہے دل کا عالم بھی
آئو ان کے الائو پر چل کر
آگ کچھ دیر تاپ لیں ہم بھی
20
لوگ ہوتے ہیں دیکھ کر حیراں
جسم پر ان کے ہے عجب پوشاک
بھوک ہے بھیک جوگیوں کے لئے
’دھوپ‘ ہے ان کو دربدر کی خاک
21
یہ صدائے درا و بانگِ راحیل
گمرہوں کو فریب منزل ہیں
عار ہے بھیک مانگنے سے انہیں
جوگ میں جو فقیر کامل ہیں
راہ گنگا کی پوچھتا کیوں ہے
دل کے نظارے سیر حاصل ہیں
22
شہر لاہوت کی فضا سے وہ
رشتۂ زیست جوڑ دیتے ہیں
حسرت و یاس ہوں کہ وہم و گماں
سب صنم خانے توڑ دیتے ہیں
جانے کیوں پھینک دیتے ہیں ناقوس
اور کشکول چھوڑ دیتے ہیں
23
جائیں یہ گدڑیاں جہنم میں
کاسے بھی ان کے خاک ہو جائیں
جوگ کی راہ میں قدم ہے تو کیا
دیدہ و دل بھی راہ پر آئیں
کون جانے کہ جوگ کی خاطر
سنکھ کیا کیا مصیبتیں لائیں
24
زندگی دے رہی ہے تجھ کو فریب
زندگی سے فریب کرنا سیکھ
آخرِ شب بسوز لاہوتی
آگ سی جسم و جاں میں بھرنا سیکھ
25
سنکھ کے ساتھ باندھنے کے لئے
بٹ رہے تھے وہ درد کے دھاگے
پھر وہ بل کھولتے ہوئے اٹھے
کون جانے کہ کیا ہوا آگے
26
پھینک مت اپنی گدڑیاں جوگی
اپنے کاسے بھی آگ میں نہ جلا
ایک نعمت ہے سنکھ کی سنگت
جوگ ہی جوگ جسم و جاں میں رچا
27
زیب تن کی ہے جس نے یہ گدڑی
مہرباں اس پہ ذاتِ باری ہے
کیا بتائوں میں خوبیاں اس کی
کہ یہ ملبوس خاکساری ہے
بے بہا لعل اس کے اندر ہیں
دیدنی اس کی رازداری ہے
28
گدڑی والے غریب بیراگی
قابلِ احترام ہوتے ہیں
جن کے تن اجلے اور من میلے
وہ گدھوں کے غلام ہوتے ہیں
29
دیکھنے میں توگل ہیں رنگا رنگ
سوچیے تو ہے ایک ہی سی بات
ہم نہ اس کی صفات کو سمجھے
خالقِ رنگ و بوہے جس کی ذات
30
کیا کہیں اپنے سنکھ اور کاسے
کیوں یہ درویش چھوڑ آئے ہیں
ترکِ اسبابِ ظاہری کرکے
حسنِ باطن سے لو لگائے ہیں
خاکساروں کے دیدۂ تر نے
کون جانے جو گل کھلائے ہیں
31
گدڑیوں کو کبھی نہیں دھوتے
دل مگر پاک صاف ہوتے ہیں
درد ہی درد ہیں یہ لاہوتی
روز و شب دل ہی دل میں روتے ہیں
32
جوگیوں کی عجیب باتوں کو
راز سربستۂ جہاں کہئے
فہم و ادراک محوِ حیرت ہیں
وہ زباں ہے کہ چیستاں کہئے
33
معنی۔ٔ زیست تک کبھی اے کاش
کوئی امکان ہو رسائی کا
گردشِ ماہ و سال تا بہ ابد
سلسلہ ہے شبِ جدائی کا
34
اک معما ہے زندگی ان کی
نہ وہ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں
ہم تو اس بات کو سمجھ نہ سکے
کس طرح سے یہ لوگ جیتے ہیں
35
وہ رہ و رسم چھوڑ دیں اپنی
حق شناسی سے تو نہ پھر جانا
چھپ گئے ہیں یہیں وہ پردیسی
تجھے لازم ہے ڈھونڈھ کر لانا
36
رات کو رام سے لگائیں دھیان
بھور ہوتے ہی وہ کریں اشنان
اور پھر موسمی پھلوں کی بانٹ
یہ ہے دیوانے جوگیوں کی آن
37
ابھی بیٹھے تھے سرنگوں سارے
اب زمیں میں گڑے ہیں کیوں جوگی
کچھ تو دیکھا ہے ان کی آنکھوں نے
محو حیرت کھڑے ہیں کیوں جوگی
38
جھولیوں میں تھا کچھ نہ گدڑی میں
ان کو دیکھا تھا میں نے خالی ھات
پھر بھی قسمت سے مل گئی مجھ کو
ان کے در سے نہ جانے کیا سوغات
39
جھے زیبا ہے معتکف جوگی!
چھوڑ کر ظاہری لباس آئے
لذت درد پر قناعت کر
بھوک کا غم نہ تیرے پاس آئے
سانس لے تو فضا مہک اٹھے
چار سو دور دور باس آئے
40
ان ستاروں کے کارواں سے دور
ماہ و خورشید و کہکشاں سے دور
کارفرمائی مکاں سے دور
شعبدہ کاریٔ زماں سے دور
منزل عمر بے نشاں سے دور
اعتباراتِ جسم و جاں سے دور
اس زمیں اور آسماں سے دور
خلوتِ حسنِ جاوداں سے دور
حق نگر جوگیوں کا مسکن ہے
جن سے وابستہ میرا دامن ہے
سی حرفی
سر کھاہوڑی
پہلی داستان
1
حاصلِ مدعا کو ڈھونڈ لیا
بندگی نے خدا کو ڈھونڈ لیا
کرکے کھاہوڑیوں نے ذکرِ خفی
عشق کی انتہا کو ڈھونڈ لیا
وسعت لا مکاں میں گم ہو کر
جانِ ہر دوسرا کو ڈھونڈ لیا
2
عشق جن کا خدا رسیدہ ہے
میں نے ان عاشقوں کو دیکھا ہے
ان کے اسرار کا بتائے کوئی
جن کے سر دروں پہ پردہ ہے
3
جن کو دیکھا ہے میں نے محو شہود
ان کی صحبت عجیب صحبت ہے
ان کے ساتھ ایک شب بسرہو جائے
وصل جاناں جنہیں ودیعت ہے
موج و طوفاں سے پار کرتے ہیں
قرب ان کا بہت غنیمت ہے
4
سوے کہسار گامزن پایا
بھید ان’ڈوتھیوں‘ کا کیا معلوم
محو نظارہ ہیں سرابوں میں
کس لئے روز و شب خدا معلوم
5
پوچھ لے راز آشنائوں سے
ان خوش آواز ڈوتھیوں کا راز
کس طرح ڈُتھ تلاش کرتے ہیں
دشت و کہسار میں بصد اعجاز
6
دور افتادہ ڈُتھ ملے کیسے
دل تن آسانیوں پہ مائل ہے
صبح سے رہ نورد ہیں ڈوتھی
اور تو شام کو بھی غافل ہے
7
وادیٔ کوہسار میں اکثر
تپشِ آفتاب ہوتی ہے
جل رہے ہیں، انہیں نہ جانے کیوں
آرزوے عذاب ہوتی ہے
اے محبت تری لگن شاید
التہاب التہاب ہوتی ہے
8
اک مسلسل نجات کی دھن میں
ماوراے حیات جاتے ہیں
اور چمکتے ہوئے سرابوں میں
راحتِ بے حساب پاتے ہیں
ہم سفر کی غنودگی پر وہ
پیچ کھاتے ہیں سٹ پٹاتے ہیں
راز کی بات ہے کوئی اس میں
ڈوتھی کیوں اتنے دکھ اٹھاتے ہیں
9
دیکھتے ہیں کسی کو جب غافل
دفعتاً پیچ و تاب کھاتے ہیں
کس کو معلوم ان سرابوں میں
کس لئے اتنے دکھ اٹھاتے ہیں
جانتے ہیں رموز عشق مگر
احتیاطاً انہیں چھپاتے ہیں
10
جسم ان کے غبار آلودہ
دشتِ غم میں رواں دواں ہیں وہ
راز افشا کیا نہیں کرتے
اہلِ دنیا سے بدگماں ہیں وہ
11
عشق کھاہوڑیوں کی فطرتِ ہے
درد ان ڈوتھیوں کی راحت ہے
ان کا سرمایۂ حیات ہے کیا
دردِ الفت غمِ محبت ہے
12
آئی آواز کوہساروں سے
کوئی کھاہوڑی ہو تو آ جائے
منتظر بزمِ محرمیت ہے
سرگذشت وفا سنا جائے
13
ان کو ڈتھ کی کمی نہیں کوئی
حسب توفیق مل ہی جاتے ہیں
راز داران معرفت ہیں جہاں
دور وہ منزلیں بتاتے ہیں
14
مقصد زندگی ہے ڈتھ کی تلاش
سہل ان کا اصول ہوتا ہے
ڈوتھی بن کر پہاڑ پر جانا
صرف ان کو قبول ہوتا ہے
جن خدا آشنا فقیروں پر
رحمتوں کا نزول ہوتا ہے
15
مرمٹے ہیں خداے واحد پر
ڈتھ کا ملنا ہے اب انہیں آساں
وہ گھروں میں کبھی نہیں رہتے
چھان مارے ہیں سیکڑوں میداں
چشم پرنم نگاہِ غم آلود
ڈوتھیوں کی ہے بس یہی پہچاں
16
بال بکھرائے پیٹھ پر مشکیں
ان کا عالم عجیب عالم ہے
کوئی دیکھے تو ان کی جست و خیز
ڈتھ ہی ڈتھ کی صداے پیہم ہے
کہہ رہے ہیں کہ جا رہی ہے رات
دور ’ڈونرے‘ ہیں وقت بھی کم ہے
17
ڈتھ کی دھن میں مگن ہیں صبح و شام
ڈوتھیوں پر حرام ہے آرام
دشت، کہسار، وادیاں، میدان
جادہ پیمائی ہے بس ان کا کام
زندگی ہے رواں دواں ہر وقت
محوِ نظارہ ہیں بہر ہنگام
محرمِ لامکاں ہیں کھاہوڑی
کہ سمجھتے ہیں عشق کا انجام
محرمِ رازِ زندگی ہیں وہ
سہل ہی ان پہ زیست کے آلام
18
تشنہ کام سراب عشق ہیں وہ
ان کی راہیں ہیں ریگزاروں میں
سنگ ریزوں سے پیر چھلنی ہیں
جادہ پیما ہیں کوہساروں میں
ایک تیرے سوا مرے پیارے
کون ہے ان کے غم گساروں میں
19
جانتے ہیں وہ منتاے طلب
زحمت انتظار سے واقف
ہر سحر ہے انہیں پیام سفر
سختیِ کوہسار سے واقف
20
سر بسر دشمن تن آسانی
کس کو معلوم کب وہ سوتے ہیں
ان کو ڈتھ کی تلاش رہتی ہے
کب وہ بیکار وقت کھوتے ہیں
چھوڑ کر اپنی دھونیاں ڈوتھی
ننگے پاؤں روانہ ہوتے ہیں
سعیِ پیہم سے پیار ہے ان کو
نت نیا انتظار ہے ان کو
21
پائوں میں ہیں شکسہ چاکھڑیاں
اور چہرے نہ جانے کیوں مغموم
اشک آنکھوں میں آرزو دل میں
بھید ان کا کسی کو کیا معلوم
ان کو حاصل وہ محرمیت ہے
جس سے ہر آگہی رہی محروم
وائي
میں برکھا رت بن جائوں
نینوں سے نیر بہائوں
جب پیا ملن کو جائوں
کاٹوں دن رات سفر میں
انجانی پریت ڈگر میں
میں لوٹ کے پھر نہ آئوں
جب پیا ملن کو جائوں
ہر وقت ’لطیف‘ ہے کہتا
مجھ کو ہے دھیان اسی کا
گن اس کے ہی میں گائوں
جب پیا ملن کو جائوں
دوسری داستان
1
جن کو گنجے پہاڑ کی آواز
دے گئی ہے پیامِ پراسرار
ہوگئے ہیں وہ لوگ لاہوتی
چھوڑ کر اپنے سارے کاروبار
2
اڑ گئی نیند ان کی آنکھوں سے
بس گیا جن میںانتظار اس کا
ہوگئے بے نیاز سود و زیاں
پڑ گیا جن پہ بھی غبار اس کا
3
ہوگئے سر بسر وہ لاہوتی
مل گئی جن کے دل کو بینائی
جانے کس جستجو میں کھوئے گئے
چھوڑ کر جسم و جاں کی خود رائی
حرصِ دنیا پہ آگئی غالب
عزمِ راسخ کی ہمت افزائی
راز سربستہ کر گئی ظاہر
ان کے قلب و نظر کی یکتائی
دے رہی ہے پیام جست و خیز
عشق پروردہ کوہ پیمائی
4
ہر جھلک سنگلاخ کی ان کو
دفعتاً بے قرار کرتی ہے
وسعت کوہ کو نظر ان کی
کس تمنا سے پیار کرتی ہے
لیکن اے دوست جستجو ایسی
دل کو پر انتشار کرتی ہے
ہر شکست غرور انساں کو
کس قدر کامگار کرتی ہے
5
کھینچتا ہے وہ کوہِ پراسرار
جس کو بھی اس کا ہو گیا دیدار
اس کی راہوں پہ چلنے والو بڑھو
اب یہاں سے ہے لوٹنا دشوار
6
فہم و ادراک سانپ کے مانند
پیدا کرتے ہیںدل میں اک ہیجان
ہاںمگر اس نے انگبیں پایا
جو بھی اس راہ میں ہوا حیران
7
محرم لا مکاں ہیں کھاہوڑی
اپنی دھن میں رواں ہیں کھاہوڑی
دم بخود ہیں یہاں پرندے بھی
کیا بلند آشیاں ہیں کھاہوڑی
شعلۂ عشق آتش افشاں ہےl
حسن کے رازداں ہیں کھاہوڑی
وائي
میں برھن جیسی بھی ہوں
پر اس کی ہی داسی ہوں
اس آری جام سجن کے
چرنوں کی دھول بنی ہوں
انجانی کیچ ڈگر میں
میں ساری رات پھری ہوں
کہتا ہے ’لطیف‘ ہمیشہ
میں اس کی پریت لڑی ہوں
یہ جیون دین ہے اس کا
میں داسی جو اس کی ہوں
جس پردیسی کے کارن
پربت پربت بھٹکی ہوں
تیسری داستان
1
محو آہ و فغاں ہیں کھاہوڑی
کیا ہوا ہے انہیں خدا معلوم
جب سے یہ ہو گئے ہیں لاہوتی
دل میں ہے کوئی دردِ نامعلوم
بند ہیں ان کے چشم و گوش و زبان
راز ان کا کسی کو کیا معلوم
2
رسم و راہ زمانہ سے بیزار
کوئی منزل نہیں انہیں درکار
پائوں کی گرد کوہ و صحرا ہیں
سنگ ریزوں سے پاؤں خوں افشار
جن کی منزل ہے عالمِ لاہوت
ان کو آساں ہے جادۂ دشوار
راہ پیماے معرفت ہیں وہ
ان کو معراج عشق ہے سرِ دار
3
دل کے سوز و گداز میں جلنا
ہر ثوابِ عظیم سے بہتر
محرمانہ غلط روی اکثر
جادۂ مستقیم سے بہتر
4
رہ رووں کا ہجوم گھبرا کر
لوٹ آیا رہِ حقیقت سے
طے کئے جا رہے ہیں دیوانے
جادۂ دوست کو عقیدت سے
ان کو فکر تعینات نہیں
آشنا ہیں رموزِ وحدت سے
5
گامزن جادۂ یقین پر ہیں
ان کا دل ہے امین سوز و گداز
چاہے کس سمت سے پکارے کوئی
وہ ہمیشہ ہیں گوش بر آواز
6
ان کے اونٹوں کی خاک پا سے پوچھ
کن کڑی منزلوں سے آئے ہیں
ان حقیقت شناس لوگوں نے
دور دیسوں سے دل لگائے ہیں
7
ساری دنیا کو چھان مارا تھا
تھک کے اب سو گئے ہیں وہ تہِ خاک
روندتے جا رہے ہیں لوگ انہیں
ہائے یہ اختتامِ عبرتناک
8
میں نے پوچھا تو بولے وہ بیباک
یہ سفر ہے بڑا ہی عبرتناک
ان کڑی منزلوں کی وحشت کا
چند لوگوں کو ہو سکا ادراک
راہ میں خشمگیں شکاری ہیں
جو بھی تنہا گیا ہوا وہ ہلاک
9
جانتے ہیں کہ گمرہی کیا ہے
رہبری کیا ہے رہزنی کیا ہے
تارک دوجہاں ہیں کھاہوڑی
اب انہیں کوئی خوف ہی کیا ہے
10
لگ گئی آگ اس بیاباں میں
وہ کمیں گاہِ رہزناں نہ رہی
ہو گئے ایک طالب و مطلوب
کوئی دیوار درمیاں نہ رہی
11
نوحہ خواں ہیں اداس ویرانے
وہ شکاری کہاں گئے جانے
اب نہ وہ جال ہیں نہ کتے ہیں
صرف باقی ہیں چند افسانے
جانے پھر کب یہاں سے گذریں گے
وہ بیاباں نورد دیوانے
12
ایسے لوگوں سے دور رہنا تم
جن کا مسلک دروغ گوئی ہو
بیٹھ ایسوں میں جن کی صحبت میں
حسن و حق کے سوا نہ کوئی ہو
13
کاش باقی رہے نہ کوئی یار
حسرت کوے یار مٹ جائے
کتنی دل کش ہے وہ اندھیری رات
جس میں ہر رہ گزار مٹ جائے
14
فطرت حسن حسنِ فطرت ہے
نہ کوئی رنگ ہے نہ صورت ہے
ظلمت شب سپیدۂ سحری
اس دوئی میں بھی رازِ و حدت ہے
15
طلب حسن میں گناہِ عظیم
روح پر چشم و گوش کا احساں
آہ یہ رہگزارِ پراسرار
جس میں ہو جاتے ہیں خطا اوساں
پا نشینانِ کوے جاناں کو
میں نے دیکھا ہے سر بسر حیراں
سہل اندیش لوگ کیا جانیں
حسنِ مشکل پسند کی پہچان
16
جستجوے دوام سے پیدا
روح میں ارتعاش کرتے ہیں
کوہساروں پہ خیمہ زن ہو کر
ڈوتھی ڈتھ کی تلاش کرتے ہیں
17
کون جانے کب آئیں گے ڈوتھی
ڈتھ کی خاطر ادھر بصد ارماں
جن میں کل خیمہ زن تھے کھاہوڑی
آج وہ کوہسار ہیں ویراں
وائي
اپنا کے انہیں تو نے نادان، کب اپنے آپ کو پہچانا
اب ڈھونڈہ رہی ہے کیا اس میں بیکار ہے تیرا کاشانہ
گر ان کے ساتھ چلی جاتی ،تجھ پر یہ مصیبت کیوں آتی
تو ان کے الائو سے لوٹ آئی، لازم تھا اسی میں جل جانا
دل ریت کی صورت بیٹھ گیا، اب سانسیں آہیں بھرتی ہیں
رگ رگ میں چبھن سی ہوتی ہے اف تیرا تڑپنا تڑپانا
تو سمجھی تھی وہ اپنے ہیں چھوٹے گا نہ ان کا ساتھ کبھی
لیکن تری چاہت سے ان کو پایا ہے میں نے بیگانہ
وائي
جو گہری نیند میں سوتی ہے
وہ ناداں سب کچھ کھوتی ہے
دکھ دیکھو تو اس برھن کا
جو پیا سے بچھڑ کر روتی ہے
جو دیکھو نیند سے بوجھل ہیں
کب ان میں من کا موتی ہے
وہ ساجن کو کیا دیکھیں گی
یہ غفلت جن میں ہوتی ہے
ان ہوتوں ہی کے ساتھ گئی
جو تیری جیون جوتی ہے
اب یاد انہیں کرکے پیاری
تو خون کے آنسو روتی ہے
کہتا ہے ’لطیف‘ کہ مل جائے
جو تیرے من کا موتی ہے
سر پورب
پہلی داستان
1
عجز سے اس کے پاس جا کاگا
پیارے ساجن کے پانو پڑجانا
اس کی دیوار ہی پہ دم لینا
راستے میں نہ دل کو بہلانا
میں نے جو راز تجھ کو سونپا ہے
وہ کسی اور کو نہ سمجھانا
بیٹھ کر اس کے پاس اے کاگا
تم اسے بار بار دہرانا
اور پھر لے کے وصل کا پیغام
میری جانب خوشی سے لوٹ آنا
جو بظاہر ہے دور افتادہ
اس کو مجھ سے قریب تر لانا
2
میرا پیغام لے کے جا کاگا
زیب دیتا ہے تجھ کو بس یہ کام
بیٹھ کر شاخ پر سنا کاگا
میرے پیارے کا پھر کوئی پیغام
جو گئے تھے قلات کی جانب
آنے والے ہیں پھر وہ دل آرام
جا انہیں اپنے ساتھ ہی لے آ
تجھ کو پہچانتے ہیں وہ گلفام
3
کون جانے چلے گئے کس دیس
سوے محبوب پرفشاں ہو جا
اے وفادار و دل نشیں قاصد
تو ہی میرا خبر رساں ہو جا
جو برستی نہیں ترستی ہیں
تو ان آنکھوں کا ہم زباں ہو جا
4
میرے پیارے چلے گئے پردیسی
کاگا جالے کے آ کوئی پیغام
اپنے زردوز سے کرادوں گی
میں پروں پر ترے سنہرا کام
5
بیٹھ کر اس درخت پر کاگا
اپنی بولی میں کچھ سنائے جا
بول کس حال میں ہیں وہ پیارے
ان کی باتیں مجھے بتائے جا
ہر گھڑی جن کی راہ تکتی ہوں
ان سندیسوں سے دل بڑھائے جا
6
میرے آنگن میں بیٹھ کر کوا
مجھ کو پہنچا رہا ہے تیرا سلام
دل کا آرام ہیں تیری باتیں
روح کی ہے غذا ترا پیغام
7
جھونپڑی پر جو آکے بیٹھا تھا
بولو کس نے اسے اڑایا ہے
تم نے سوچا نہ یہ مری سکھیو!
کس کا پیغام لے کے آیا ہے
ہائے تم نے اڑا کے کوے کو
مجھ ستم کش پہ ظلم ڈھایا ہے
8
آ تجھے دل نکال کر دے دوں
جا کے تم اس کے سامنے کھانا
جب وہ دیکھیں تو یہ کہیں پیارے
ہو گا ایسا بھی کوئی دیوانہ
9
بائیں جانب کی شاخ پر کوا
رازدارانہ کہہ گیا اک بات
کاتنے بیٹھی تھی جو دکھیاری
پھینک کر پونی مل رہی ہے ہات
10
تمہیں غارت کرے خدا سکھیو
بھاڑ میں جائے کاتنے کا کام
چپ تو ہو جائو تاکہ میں سن لوں
جانے کس حال میں ہیں دل آرام
بائیں جانب کی شاخ سے کوا
دینے آیا ہے پھر کوئی پیغام
11
کون ایسے میں کات سکتی ہے
چھا گئے صحن پر غم و آلام
بائیں جانب کی شاخ پر کوا
دے گیا آکے جانے کیا پیغام
12
آکے بیٹھا ہے شاخ پر کوا
پھر سجن کا سلام لایا ہے
اب نہ کاتے کوئی سکھی چرخہ
سن تو لوں جو پیام لایا ہے
13
جھوٹ کب بولتے ہیں وہ کوّے
جو ساجن کے وطن سے آتے ہیں
بیٹھ کر اونچی اونچی شاخوں پر
اس کی باتیں مجھے بتاتے ہیں
میں سمجھتی ہوں ان کی فریادیں
اور وہ پیغام جو سناتے ہیں
باوفا ہیں ’لطیف‘ یہ پنچھی
جو مرے رنج و غم مٹاتے ہیں
14
تیری آوز سنتے ہی کاگا!
روح دکھ درد بھول جاتی ہے
نافۂ مشک ہے زباں تیری
تجھ سے بوے بہار آتی ہے
تیری دلدوز و دلنشین آواز
جانِ جاں کا پیام لاتی ہے
اپنے پیارے کی بات سن سن کر
آرزو تازگی سی پاتی ہے
دفعتاً عالم تصور میں
بزمِ محبوب جھلملاتی ہے
15
کیوں پڑا ہے زمین پر کاگا!
کچھ بتا یہ تجھے ہوا کیا ہے
جو تجھے ناگوار تھی ابتک
اب وہ گرمی تجھے گوارا ہے
دیکھ کر تیری مردنی پیارے
سارے کوّوں نے غل مچایا ہے
16
راستے سے نہ لوٹ آنا تھا
تجھے ساجن کے پاس جانا تھا
میں نے تجھ کو دیا تھا جو پیغام
یاد کرکے اسے سنانا تھا
17
میرے کاگا یہ تیری جست و خیز
دل نشیں، غم ربا، خیال انگیز
دیکھ کر تجھ کو اس دو شاخے پر
ہوگئی میرے دل کی دھڑکن تیز
تو جو پیغام لے کے جاتا رہے
آتا جاتا رہے وہ کم آمیز
18
جاکے پیارے سے یہ کہو کاگا!
کیوں یہ پردیس تم کو بھائے یں
کونسی ہے وہ ایسی مجبوری
جو یہاں اتنے دن لگائے ہیں
اس دکھی دل کی بھی خبر ہے کچھ
دن مصیبت کے جس پہ آئے ہیں
19
آج پھر مجھ کو دینا ہے کاگا!
ایک خط اپنے جانِ جاں کے نام
چھپ چھپا کر تم اس کو دے دینا
خود پڑھائے کسی سے وہ گلفام
دل یہ کہتا ہے آئیگا وہ ضرور
سن کے دردِ فراق کا پیغام
20
کیوں نہ اترا زمین پر کوا
آخر اس میں تھی راز کی کیا بات
اڑتے اڑتے یہ کہہ گیا مجھ سے
آنے والے ہی ہیں وہ خوش اوقات
21
آ مرے پاس بیٹھ جا کاگا!
میں سنوں تیرے میٹھے میٹھے بول
حال ہے کیا وطن میں پیاروں کا
لا یہاں لا کے ان کے خط کو کھول
22
خط جو لایا ہے آج تو کاگا
اس نے کتنی تسلیاں دی ہیں
میں انہیں بار بار پڑھتی ہوں
جتنی باتیں بھی اس نے لکھی ہیں
23
کب وہ قاصد ادھر کو آئیں گے
اور خوشی کی خبر سنائیں گے
راہ پیارے کی تک رہی ہوں میں
کب وہ آکر گلے لگائیں گے
یہ جدائی کا درد یہ پردیس
مجھ کو کب تک یوں ہی رلائیں گے
24
تیرے کنبے کا مجھ پہ احساں ہے
اس مصیبت میں میرے کام آنا
دیس پیارے کا ہے جدھر کاگا!
صبحدم تو ادھر کو اڑ جانا
ادب و عجز و انکسار کے ساتھ
اس کو یہ بات جا کے سمجھانا
اور تجھ سا نہیں کوئی محبوب
جانتا ہے تو سب کے دل کو خوب
25
جانے کیا کیا پیام لایا ہے
آج پھولا نہیں سمایا ہے
میری آنکھوں میں بیٹھ جا آکر
کیوں سر شاخ مسکرایا ہے
جو کسی سے نہ ہوسکا کاگا
تو نے وہ کام کر دکھایا ہے
26
میں نے کوے سے جب کہا آنا
حال پیارے کا کچھ سنا جانا
بولا کوّا کہ وہ نہیں غافل
ہاں جدائی میں تم نہ گھبرانا
27
کوئی کتا ہو یا کوئی کوّا
حال اس کا مجھے سنا جائے
اس پہ قربان جاؤں میں سو بار
جو بھی پیارے کے دیس سے آئے
28
پیٹ کی فکر میں ہے وہ کوّا
مردہ لاشیں تلاش کرتا ہے
کیا وہ پہنچائے گا مرا پیغام
جو تن آسانیوں پہ مرتا ہے
وائي
توڑوں گی نہ جوگ سے میں ناتا
جوگی کی بات نبھائوں گی
یہ کہہ گئے پیارے آدیسی
میں ہنگلاج کو جائوں گی
رہتے ہیں وہیں وہ بیراگی
پورب میں کھوج لگائوں گی
جس تیرتھ کو کل دیکھا تھا
میں آج بھی دیکھ کے آئوں گی
دوسری داستان
1
شوق وارفتہ لے چلا مجھ کو
دل میں اک آرزوے دید لئے
جانے کب وہ نگاہ پڑ جائے
پھر رہا ہوں یہی امید لئے
2
سوامیوں کو ہے عشق کا آزار
درد و غم نے انہیں گھلایا ہے
نہ کوئی غم نحیف ہونے کا
نہ انہیں بھوک نے ستایا ہے
دلنشیں ہیں وہ بولتی آنکھیں
جنہیں ہنستے ہوئے اٹھایا ہے
ایک ہی بار دیکھ کر مجھ کو
جو بھی دکھ درد تھا مٹایا ہے
3
جو تن آسانیوں کا عادی ہے
اس کو کیا حق ہے سوامی کہلائے
کیا ملے گا گرو سے اس کو گیان
دو قدم بھی جو چل کے تھک جائے
چند دانوں کی بھیک کی خاطر
اس نے بیکار کان چھدوائے
خوش مقدر وہی ہے آدیسی
موت سے پہلے ہی جو مرجائے
4
صبحدم جن کے ذکر سے اکثر
دلِ پر شوق ہو گیا مسرور
آخرِ شب وہ پوربی جوگی
بیٹھکیں چھوڑ جا بسے ہیں دور
کس طرح اب ملے گا ان کا سراغ
وہ ہیں مختار اور میں مجبور
5
صبح ہوتے ہی پوربی جوگی
چل دئے سوے منزلِ مقصود
اب نہیں بیٹھکوں میں آدیسی
مشک بو ہے فضائے لامحدود
6
سوے مشرق وہ رہروانِ طلب
کس عقیدت سے بڑھتے جاتے ہیں
ننگ ہے ان کو مستقل آرام
نت نئی بیٹھکیں بناتے ہیں
7
جاکے پورب میں جا بجا میں نے
لاکھ ان کا پتا لگایا ہے
لیکن ان جوگیوں کی منزل کا
کس نے اب تک سراغ پایا ہے
8
کیوں مجھے ان سے ہو گیا ہے عشق
میں کہاں اور کہاں وہ لاثانی
عشق سے سب کو منع کرتی تھی
ہائے نکلی میں آپ دیوانی
سوے مشرق رواں دواں سی ہے
دیدہ و دل کی خانہ ویرانی
جان لیوا ہے دل کی بے تابی
اب کہاں جائوں اے گراں جانی
وائي
چھوڑ حلال کی روزی کو جو روز حرام کی کھاتے ہیں
سورج ڈوبتے ہی وہ کوّے کاں کاں کرتے آتے ہیں
یہ آنکھوں کے اندھے پنچھی خاک سندرتا کو جانیں
سڑی گلی اور مردہ لاشیں جھپٹ جھپٹ کر لاتے ہیں
ہد ہد اور ہما کو سمجھیں چونچ کٹی چمگادڑیں کیا
دیکھ کے ہنج اور مور کو اکثر یہ بیری جل جاتے ہیں
کوئی انہیں سمجھائے کیسے وہ مورکھ کب سمجھیں گے
کوڑے کرکٹ ہی میں رہ کر جانے کیا سکھ پاتے ہیں
ان کو اپنے حال پہ چھوڑو جاننے والا جانتا ہے
دیکھیں کب تک اس جیون پر وہ یوں ہی اتراتے ہیں
وائي
اسی کی یہ تخلیق ارض و سما ہے
وہی ان میں شامل وہی ماورا ہے
جدا اس سے بے تاب ہیں دیدہ و دل
وہ پیارا جو رگ رگ میں میری بسا ہے
فریبِ نظر ہے یہ دو دن کی دنیا
وہی ابتدا ہے وہی انتہا ہے
جو سمجھے اسے جو محمدؐ کو مانے
یہ سمجھو کہ اس کا بھلا ہو گیا ہے
سر بلاول
پہلی داستان
1
جن کو صدق و صفا سے نسبت ہے
اُن پہ اس جانِ جاں کی رحمت ہے
جمع ہوتی ہیں گرسنہ روحیں
سب کو عزم و یقیں کی دعوت ہے
2
مفسدوں کو نکال کر گھر سے
کرو سلطاں سے امن و صلح کی بات
جاں فروشوں نے پائے ہیں اکثر
اس کے در سے وفا کے انعامات
3
تیری تشنہ لبی پہ حرف نہ آئے
تجھے مل جائے گر شرابِ طہور
سب اسی کے حضور سے لینا
غیر کے سائے سے بھی رہنا دور
4
اے سما! تو ہے تاجدار زماں
ورنہ یوں توبہت سے ہیں سردار
جوق در جوق میں نے دیکھے ہیں
تیرے در پہ ہزاروں خدمتگار
ہر کسی کا ہے اپنا پنا ظرف
تیرے جود و سخا سے کیا انکار
5
تیرے کس کام آئیں گے پیارے
آپ ہی توڑ دے یہ نقارے
اسے غیروں کے در سے کیا سروکار
جس کا حامی ہو ہاشمی سردار
6
اس سے بغض و عناد تھا جن کو
پھر ’سما‘ نے انہیں کو دی آواز
کون ہے ہم پناہ گیروں کا
یار وغمخوار و مونس و دمساز
گر وہ امداد پر ہو آمادہ
مجھ پہ کھل جائیں مغفرت کے راز
7
چھا رہا ہے سکوت کا عالم
متبسم وہ روے زیبا ہے
خوف کیا ہم پناہ گیروں کو
بے وسیلوں کا وہ وسیلہ ہے
8
لاکھ یورش کیا کریں اغیار
پھر بھی ثابت قدم ہے وہ سردار
لائو لشکر سے وہ نہیں ڈرتا
قابل داد ہے وہ خوش اطوار
اے ’لطیف‘ اس کا حوصلہ تو دیکھ
روند ڈالی ہے اس نے ہر یلغار
مہربان ہے پناہ گیروں پر
وہ بہادر وہ مالکِ ہالار
9
جابجا خیمہ زن نہ ہو اے دوست
کوئی اچھا سا ڈھونڈھ لے تالاب
کاش اس ملک میں چلا جائے
جلوہ گر ہے جہاں وہ خوش آداب
جو ہے تیری ہی قوم کا سردار
جس کا پرتو ہے عالم اسباب
دیکھ لے وہ جسے محبت سے
اس پہ کھل جائیں رحمتوں کے باب
10
جو بھی اس کی پناہ میں آیا
نہ رہا اس کو خطرۂ اغیار
وہ غضب ناک ہو کے آیا ہے
بھاگ نکلا ہے لشکرِ جرّار
سر کی بازی لگائی ’ابڑو‘ نے
فوج سلطاں سے ہو گیا دو چار
اور پھر جس طرف نگاہ گئی
زیرِ لب تھا تبسم پندار
11
کتنا خوف و ہراس تھا ہر سو
دفعتاً ’بھج‘ پہ جب ہوئی یلغار
چڑھ کے ہاتھی پہ جب علاء الدین
ساتھ لایا تھا لشکرِ جرار
اس کے حملے کی تاب تھی کس کو
ہاں مگر وہ مرا جری سردار
اپنی مہمان عورتوں کے لئے
کھینچ لی جس نے دفعتاً تلوار
حشر ساماں تھا جنگ کا میدان
ہو گیا جب سمہ ستیزہ کار
12
سائلو! تم اسی کے در پہ چلو
’جکھرے‘ جیسا نہیں کوئی سردار
اس کے جود و سخا کا کیا کہنا
صاحب حلم، پیکر ایثار
13
تابعِ شاہ ہو گئے فوراً
سارے قرب و جوار کے سردار
لیکن ابڑو کو کب گوارا تھا
وہ حریصانہ غلبۂ اغیار
14
جنگلوں میں پناہ دیتا ہے
جیسے کوئی درخت سایہ دار
پیارے ابڑو کا حال بھی ہے یہی
جو ہے اک نیک دل سخی سردار
فیض اس کا مثالِ باراں ہے
جس سے سیراب ہیں سبھی نادار
کون لوٹا ہے در سے خالی ہاتھ
اس نے بخشے ہیں بارہا رہوار
کر سکیں جو برابری اس کی
اب کہاں ہیں وہ صاحب ایثار
15
جو ہیں تیری پناہ میں ابڑو
تو ہے ان بے کسوں کا پالن ہار
کچھ کے راجہ! مگر یہ دھیاں رہے
ترک تجھ پر کریں گے اب یلغار
16
اپنے وابستگانِ دامن کو
موج و طوفان سے پار اتارے گا
عرصۂ حشر میں رفیقوں کو
اب وہ خیر البشر پکارے گا
وائي
میں انجان رہی، غفلت میں ساری عمر گئی بیکار
تجھ کو خبر ہے سب کچھ پیارے خادم ہوں میں اے ستار
غیب کی باتیں تجھ پر ظاہر، رحم سراپا تیری ذات
مجھ میں عیب ہزاروں لیکن تیرے کرم سے کب انکار
دل ہو شگفتہ مثلِ گل تر آنکھوں کی امید بر آئے
’سید‘ کو ہو جائے میسر کاش مدینے کا دیدار
دوسری داستان
1
پھر وہی شہسوار آیا ہے
دور آسودگی کا لایا ہے
شیر کی طرح پیارے جکھرونے
سب حریفوں کا دل ہلایا ہے
اس کی حمد و ثنا کروں کیا کیا
جس خدا نے اسے بنایا ہے
2
ایک جکھرو ہے قابلِ تعریف
کوئی سردار ہے نہ کوئی جام
بس وہی لائقِ ستائش ہے
یوں تو مشہور ہیں ہزاروں نام
ختم ہے اس پہ حسنِ صنّاعی
اس کے دلدادہ ہیں خواص و عام
3
وہ بیٹھی ہیں تجھی سے لو لگائے
غنیمت ہیں ترے دامن کے سائے
کوئی ایسی خبر مجھ تک نہ لائے
جو میرا غمزدہ دل توڑ جائے
تجھے میں زندہ و پائندہ پائوں
تو اے جکھرو ہر ایک غم بھول جائوں
4
یہ سب کچھ اس کے ہی زیرنگیں ہے
وہ جکھرو لائق صد آفریں ہے
نظر آئے بہت سردار مجھ کو
مگر اس کا کوئی ثانی نہیں ہے
5
جسے حاصل ہو جکھرو کی حمایت
اسے پھر اور کس کا آسرا ہو
وہاں چھوٹے کنوئوں کی کیا ضرورت
جہاں سر چشمۂ مہر و وفا ہو
6
ڈھونڈ لے ایک پر فضا چشمہ
اب نہ پی گھاٹ گھاٹ کا پانی
دل کو صدق و صفا پہ مائل کر
اے طلب گار فضل ربانی
7
رات دن اس کے میکدے میں ہجوم
وہ پلاتا ہے سب کو جام پہ جام
اسکے دروازے سے نہیں لوٹا
آج تک کوئی شخص تشنہ کام
8
کوئی دیکھے تو یہ رواداری
مہرباں سب پہ ہے وہ دل آرام
وہ سخاوت میں حاتم ثانی
فیض جاری ہے صبح ہو یا شام
9
یاد اس کو رہا نہ پھر کوئی
جس کو بھی اس کا ہو گیا دیدار
راحت جاں ہے اس کا ہر پیغام
پیارا جکھرو ہے قوم کا سردار
10
ہفت اقلیم میں ہے تو مشہور
مرحبا میری قوم کے سردار
مسجدوں کے مسافروں کو بھی
تو نے بخشے ہیں قیمتی رہوار
تیرے جود و سخا کا کیا کہنا
کوئی دیکھا نہ تجھ سا خوش اطوار
11
جس نے دیکھا ہے وہ سخی جکھرو
کیا رہے اس کو اور کوئی یاد
ان کا حامی ہے وہ سما سردار
جن کی سنتا نہیں کوئی فریاد
12
کوئی ویسا نہیں ہوا ابتک
سارے نبیوں کا پیشوا ہے وہ
لقب اس کا ہے ہادیٔ برحق
سر بسر رحمت خدا ہے وہ
13
سندھ اور ہند میں نہیں کوئی
کر سکے جو برابری اس کی
اس کے جود و سخا کا کیا کہنا
سخت مشکل ہے ہمسری اس کی
تو اسی در سے مانگ اے سائل
کر کے تسلیم برتری اس کی
جادۂ مغفرت دکھاتی ہے
دور اندیش رہبری اس کی
14
وہ امیدوں کا بحرِ بے پایاں
نہیں محدود چند دھاروں تک
جیسے دریائے گنگا کی موجیں ہیں
دور افتادہ کوہساروں تک
15
چھوڑ بھی دے یہ حیلہ و حجت
پیارے جکھرے کا رازداں ہو جا
گنگا جل کی جہاں روانی ہے
تو اسی کوٹ میں نہاں ہو جا
یاد اللہ میں فنا ہو کر
بے نیاز غمِ جہاں ہو جا
16
اس کے جود و سخا کا کیا کہنا
وہ دل خوش خصال رکھتا ہے
اور غضبناک ہو کے بھی اکثر
دشمنوں کا خیال رکھتا ہے
وائي
ہمیں ہے اسی کی رضا کا سہارا
وہی راہبر اور حامی ہمارا
میں جائوں میں جائوں میں جائوں میں جائوں
ادھر کاش ناقے کو لائے وہ پیارا
وہ ہادی کہ ہے نام جس کا محمد
اسی کی شفاعت اسی کا سہارا
نجات اس کو ہو گی غمِ دو جہاں سے
وہ کردے گا جس کے لئے بھی اشارا
’لطیف‘ اس کا لطف و کرم جاو داں ہے
دو عالم کو جس نے بنایا سنوارا
تیسری داستان
1
میرا پرسان حال تھا نہ کوئی
تو نے ہی مجھ پہ التفات کیا
تیرے جود و سخا نے اے کامل
کتنے ہی حاتموں کو مات کیا
2
پیارے جکھرو کے پاس ہی جانا
بن کے آیا ہے تو اگر سائل
عشق کی آبرو نہ کھودینا
ہو کے اب غیر کی طرف مائل
اس سخی کے سوا ہر اک در پر
تیرا عجز و نیاز لاحاصل
3
چھیڑ جا کر اسی کے در پر ساز
جس نے رہوار بھی کئے ہیں عطا
کتنے ننگے سروں کو ڈھانپا ہے
سایۂ حق ہے اس سخی کی ردا
4
کیسے کیسے غریب اور نادار
اس کے ہی در سے فیضیاب ہوئے
سائلان شکستہ خاطر پر
اس کے الطاف بے حساب ہوئے
تھیلیاں موتیوں کی آپہنچیں
جب بھی کچھ لوگ باریاب ہوئے
دور جکھرو کا جب سے آیا ہے
رنج و حرماں خیال و خواب ہوئے
5
کیوں ہے اس کی عطا سے تو محروم
نہیں جس کی نوازشوں کا حساب
جن کو عریاں تنی کا شکوہ تھا
ان کے تن پر ہیں اطلس و کمخواب
تشنہ لب سائلوں کو جکھرو نے
جامِ شفقت سے کر دیا سیراب
6
وہ سلامت رہیں سدا یا رب
جن کے سایے میں دن گزارے ہیں
تا ابد خشک ہو نہ وہ چشم
جس میں لطف و کرم کے دھارے ہیں
ربط ہے جن سے دیدہ و دل کو
وہ دل آرام کتنے پیارے ہیں
7
ایک ٹھنڈا کنواں ملا مجھ کو
مٹ گئی ساری تشنگی میری
اس بیاباں میں بھی مرے پیارے
تو نے ہی کی ہے رہبری میری
8
بیکسوں اور عاجزوں کا یار
کتنے فاقہ کشوں کا پالن ہار
ہر کسی کا خیال رکھتا ہے
وہ جواں حوصلہ سما سردار
9
یوں تو اکثر سنا ہی کرتی تھی
سب کا ہے کارساز وہ سردار
ماں! مجھے دیکھ کر یقیں آیا
واقعی وہ سما ہے پر ایثار
10
پیارے جکھرو کو دیکھ کر سائل
کیوں نہ ہو جائے سرخوش پندار
ایک ہی گھونٹ میں کیا اس نے
پینے والوں کو اس قدر سرشار
جیسے اک بیقرار عاشق کو
عین خلوت میں ہو وصال یار
11
وہ اٹھا ہے تو آج پھر ہوگی
سونے چاندی کی ہر طرف برسات
پیارا جکھرو ہے صاحبِ ایثار
اس کے جود و سخا کی ہے کیا بات
12
جو ہیں بے یار و بے سر و ساماں
ان پہ ہوں گے سما کے احسانات
اس سے دامن کشاں رہیں گے جو
وہ نہ پوچھے گا جا کے ان کی بات
13
عمر اس کی دراز ہو یا رب
مجھ کو جس جام کا سہارا ہے
ہر نظر اس کی بے کسوں کی طرف
اک محبت بھرا اشارا ہے
14
آرزو تھی یہ موجِ گنگا کو
سامنے آئے وہ سما سردار
اب کھڑی ہے نیاز مندانہ
دیکھ کر اس سخی کو گوہر بار
15
مے کی قیمت ہزار بڑھ جائے
پر چھلکتے رہیں گے اس کے جام
نہیں لوٹا ہے تشنہ لب کوئی
جکھرو کے میکدے میں اذن ہے عام
16
جوش میں ہے وہ چشمۂ رحمت
موجزن کتنے آب گیر ہوئے
ان کو سیراب کردیا فوراً
جکھرو کے در کے جو فقیر ہوئے
شاہ ہو یا گدا کوئی سید
سب ہی آسودۂ ضمیر ہوئے
چوتھی داستان
1
دیدنی اس کی آشنائی ہے
ایک ہی در سے لو لگائی ہے
کیاکہیں کیوں ’وگند‘ کے سر میں
کھانے پینے کی دھن سمائی ہے!
اس گدا کے مشام جاں میں آج
اس کی بوے بہار آئی ہے
جس کے گھوڑے کی لید بھی اکثر
اس قدر پیار سے اٹھائی ہے!
کھانے پینے کے شوق میں اس نے
ہر مصیبت گلے لگائی ہے
2
دل کو عطار سے لگایا ہے
پاے مرشد پہ سر جھکایا ہے
جسم گندا غلیظ بدبودار
حال دانستہ یہ بنایا ہے
پھر بھی دیکھو وگند کی صورت
کیسے حلیے میں آج آیا ہے!
3
دیکھتا ہوں کہ دوزخی بن کر
بارہا وہ وگند آیا ہے
لیکن اکثر نگاہِ ’سید‘ نے
اس کو جنت نشاں بنایا ہے
4
کوئی دیکھے وگند کی صورت
پھر وہ مکروہ بے نماز آیا
ایسا آیا جھپٹ کے خوشبو پر
جیسے تیتر پہ کوئی باز آیا!
سر سارنگ
پہلی داستان
1
یہ دہقان کیوں ہیں اپنے جھونپڑوں میں
کہوں ان سے کہ میدانوں میں آئیں
سیہ بادل برستے جا رہے ہیں
چراگاہوں میں چوپائو کو لائیں
"لطیف" اللہ کی رحمت ہو ان پر
مرادیں اپنے اپنے دل کی پائیں
2
سیہ بادل فلک پر چھا رہے ہیں
مسلسل رحمتیں برسا رہے ہیں
کس و خاشاک کے پژمردہ چہرے
تر و تازہ سے ہوتے جا رہے ہیں
’لطیف‘ اس ذاتِ باری کے کرم سے
یہ دہقاں زندگی سی پا رہے ہیں
3
نہیں ان بادلوںسے پیار مجھ کو
نہ ہو جب تک ترا دیدار مجھ کو
دل وارفتہ کو جن کی لگن ہے
نظر آئے نہ وہ آثار مجھ کو
کہیں بہتر برستے بادلوں سے
تمناے وصالِ یار مجھ کو
4
جب آیا دیس میں ساجن تو فوراً
قرار آیا مرے قلب و جگر کو
نہ پھر باقی رہا دکھ درد کوئی
سکوں دیدار نے بخشا نظر کو
5
شمالی بادلوں کی آبیاری
مٹا دیتی ہے سب کی بیقراری
وہ بیچارے ہوئے سیراب آخر
مسلسل تشنگی تھی جن پہ طاری
6
آ رہے ہیں شمال سے بادل
ملک بارش سے ہو گئے آباد
میرے اللہ، میرے ساجن کو
آ نہ جائے کوئی سفر پھر یاد
7
کوکتی ہے شمال میں کوئل
ہل کسانوںنے کرلئے تیار
گلہ بانوں پہ کیف طاری ہے
دیکھ کر یہ فضاے خوش آثار
ابرِ باراں کے پیرہن میں آج
کتنا پرکیف ہے جمال یار
8
بدلیان پھر شمال سے برسیں
ہر طرف سرمئی گھٹا چھائی
ہو گئے شاد کام چوپائے
ڈالی ڈالی نے تازگی پائی
9
اٹھ رہے ہیں شمال سے بادل
اور موسم ہے برق و باراں کا
روٹھنا چھوڑ، لوٹ آ پیارے
وقت آیا وفاے پیماں کا
10
کالے بادل شمال سے امڈے
برق و باراں کی بات بن آئی
آئے پردیس سے مرے ساجن
ہر طرف ہے عجیب رعنائی
11
چھا رہے ہیں شمال کے بادل
روح پرور ہے موسمی برسات
پھر خوشی کی ترنگ میں بدلے
غمزدہ سانگیوں کے احساسات
12
آج دل پر ہے یورشِ جذبات
آگئی یاد تیری ہر اک بات
یہ گھٹائیں یہ جھومتا ساون
جاگ اٹھے خوشگوار احساسات
تو اگر پاس ہو تو اے محبوب
میرے گھر صبح و شام ہے برسات
13
اٹھ رہے ہیں شمال سے بادل
اب مدینہ کی سمت جائیں گے
لے کے فیضانِ روضۂ اطہر
تپتے صحرا کو لوٹ آئیں گے
بات بن آئے گی سنگھاروں کی
وہ پیام بہار لائیں گے
پھیل جائے گی مشک کی خوشبو
جب فضا پر وہ آکے چھائیں گے
دشت و در میں چہل پہل ہوگی
وہ نئی بستیاں بسائیں گے
14
پھر سے لبریز ہوگیا ’نارا‘
بارشیں کتنی رحمتیں لائیں
بجلیاں بدلیوں کو برساتی
چوم کر روضۂ رسول آئیں
منظرِ ابرو باد کیا کہیے
پڑ رہی ہے پیا کی پرچھائیں
15
ہوگیا صاف دل کا آئینہ
آرزوے وصال بر آئی
ہوںگی رازو نیاز کی باتیں
صورت جانِ جاں نظر آئی
16
خلق کی تشنگی بجھانے کو
بدلیاں پھر سے لوٹ آئیں ہیں
بجلیاں سرمئی گھٹائوں میں
جوے آب حیات لائی ہیں
17
گائیں بھینسیں ہوئیں تر و تازہ
اور بچھڑے بھی اب توانا ہیں
یہ برستی ہوئی گھٹائیں بھی
جوش رحمت کا اک بہانا ہیں
18
کچھ خبر بھی ہے تجھ کو اے بادل
آ بتائوں میں راز کی اک بات
دیکھ لیتا جو میری آنکھوں کو
پھر نہ تھمتی کبھی تری برسات
19
سر میں بادل سے کچھ امنڈتے ہیں
اور آنکھوں میں ہے گھٹا چھائی
حسن جاناں سے ملتی جلتی ہے
ابر و باراں کی شانِ رعنائی
ان نگاہوں کی منتظر ہوں میں
جن کا اعجاز ہے مسیحائی
20
بادلوں کی اڑان ہو کہ نہ ہو
چشمِ غم کی گھٹا نہیں جاتی
اے غریب الدیار دوست تری
یادِ مہر و وفا نہیں جاتی
کیوں نہ روئیں سپرد گانِ وفا
کششِ دیرپا نہیں جاتی
21
میرے پیارے یہ تیرے احسانات
مٹ گئے رنج و غم کے احساسات
اس برس ہوگئی ہے پھر ہر سمت
موسلا دھار موسمی برسات
اب غمِ قحط و آب و دانہ نہیں
ہر طرف ہے اناج کی بہتات
22
بھینسیں اور گھوڑے میرے در پر ہوں
عیش و آرام سب میسر ہوں
میرے پہلو میں ہو مرا پیارا
اور مہکتے ہوئے سے بستر ہوں
عیش پروردہ ہوں میرے دن رات
اور ہوتی رہے سدا برسات
23
ہوگئی باغ و راغ میں برسات
جاگ اٹھے ہیں خوشی کے احساسات
تر و تازہ ہیں آج کل بھینسیں
اور گھر گھر ہے دودھ کی بہتات
کوئی دیکھے ’سنگھاریوں‘ کا حال
سب نے مکھن میںبھرلئے ہیں ہات
ہو گئے صحن و بام و در آباد
ذات باری کے ہیں یہ احسانات
24
دیکھ پیاسوں کا حال اے بادل
آج برسا دے جابجا پانی
دور ہو یہ اناج کی قلت
اور ہر چیز کی ہو ارزانی
پھر ’سنگھاروں‘ کو تو عطا کردے
فارغ البالی و فراوانی
25
دیکھتی ہے صدف بوقتِ سحر
آسمانوں پہ ابر باراں کو
ایک سا انتظار ہے اس کا
آہوئے دشت اور انساں کو
ایک مدت سے ہے امید کرم
تشنہ مرغابیاں پراں کو
کوئلیں ہوگئیں ترنم ریز
دیکھ کر موسم در افشاں کو
کاش یہ پھر برس پڑے اک بار
سیر کر دے زمین ویراں کو
26
میرے پیارے نہ بیچ بھینس کوئی
خوبصورت یہ پورا گلۂ ہے
اور یہ بھیڑیں لحیم ہوں کہ نحیف
تجھ کو سب کا خیال رکھنا ہے
چھوڑ دے یہ فراز کے میداں
تیرے حق میں نشیب اچھا ہے
اب تیرے صحن میں پیام یار
آخر اے دوست آنے والا ہے
27
جوت کر ہل یہ غمزدہ ہاری
تیری برسات کے لئے ترسے
اور تو آسمان پہ اے بادل
یوں ہی منڈلا رہا ہے بن برسے!
28
بجلیاں بادلوں کو لے آئیں
ہر طرف خوب ہو گئی برسات
سارے میدان ہوگئے شاداب
فیض رحمت کے ہیں یہ احسانات
وائي
سجدے میں سر کو جھکائے ہوں
اللہ سے آس لگائے ہوں
جب صور کی آواز آئے گی
سورج کی تپش جھلسائے گی
وہ روح کہاں گھبرائے گی
جو پیارے نبی کو پائے گی
محبوب خدا کے وعدے کو
اپنا ہمراز بنائے ہوں
اللہ سے آس لگائے ہوں
دوسری داستان
1
لاکھ کی طرح کالی کالی سی
سرمئی بادلوں کی رنگت ہے
جیسے کوئی رنگا دوپٹا ہو
ایسی ان بدلیوں کی صورت ہے
’بھٹ‘ ہی پر کیا کراڑ پر بھی آج
گہر افشاں سحابِ رحمت ہے
2
آج سوے شمال برقِ تپاں
مثلِ شاخ ِ سمن لہکتی ہے
سبزۂ ریگزار ہے لرزاں
یا کوئی گلبدن مہکتی ہے
بھٹ پر آئے رواں دواں بادل
زندگی چار سو چہکتی ہے
3
ہر طرف ہو رہی ہے پھر برسات
پھر ’مکھی‘ اور ’کراڑ‘ ہیں لبریز
موسم نو بہار آیا ہے
’پب‘ کے گرد و نواح ہیں گل بیز
کیا سہانا سماں دکھاتا ہے
ریگزاروں پہ سبزۂ نوخیز
ترہیں، ’ھڑکی‘، ’گڑنگ‘ و ’ماکانی‘
دور و نزدیک بھر گیا پانی
4
رات بھر خم کے خم لنڈہائے ہیں
ابرِ باراں نے بے دریغ و درنگ
نغمۂ سرمدی برستا ہے
چھڑ گئے ہر طرف رباب و چنگ
ہو رہی ہے ’پڈام‘ پر برسات
ہائے یہ ابرہاے رنگارنگ
5
مینہ اور نینہ کیوں مففیٰ ہیں
یہ فقط اتفاق ہی تو نہیں!
دیکھ کر جلوۂ گریزاں کو
وقف نالہ ہے آج ابر حزیں
شاید اے دوست دیکھ کر تجھ کو
میں بھی ہو جائوں مثلِ ابر غمیں
6
پھربرس جائے تو کہیں بادل
یاد آجائے وہ مرا پیارا
تربتر ہوں یہ کھیت یہ میداں
پھر ہو ان مہوشوں کا نظارا
7
دیکھ کر ابر و برق و باراں کو
کتنی مایوس ہوگئی ہیں آج
ہائے یہ بدنصیب بیوائیں
داغِ دل دے گئے جنہیں سرتاج
وہ جہاں سر چھپائے بیٹھی ہیں
ہو نہ جائیں وہ جھونپڑے تاراج
کون ان کا ترے سوا یا رب!
رکھیو ان کے دکھی دلوں کی لاج
وائي
چرنوں پہ سیس جھکائوں گی
ساجن کے دوارے جائوں گی
مرے من کی آگ سلگنے دو
تن جلتا ہے تو جلنے دو
یہ اگنی میں نہ بجھائوں گی
ساجن کے دوارے جائوں
پائل ہے پریت کی پانووں میں
پریتم ہیں مری آشائوں میں
میں ناچوں گی اور گائوں گی
ساجن کے دوارے جائوں گی
تیسری داستان
1
کیسی ساز و سرود کی رت ہے
وہ اڑا ابر وہ گھٹا چھائی
موسلا دھار بارشیں لائیں
مستی کیف و رنگ و رعنائی
کتنے خوش ہو رہے ہیں چوپائے
دیکھ کر سبزہ زارِ صحرائی
کون دیکھے سنگھاریوں کے ٹھاٹھ
وہ گلوبند اور وہ زیبائی
ہل اٹھائے ہیں پھر کسانوں نے
جسم میں ہے نئی توانائی
عام ہے اب اناج اور مکھن
وہ مصائب ہیں اور نہ مہنگائی
لے کے آئی ہے جلوۂ صد رنگ
میرے پیارے کی شان یکتائی
2
’رائک‘ اور ’پل‘ پہ ہو گئی بارش
’لوتڑی‘ کا نشیب بھی سیراب
دور و نزدیک بھر گیا پانی
سارے دشت و جبل ہوئے شاداب
3
میرے پیارے ابھی سکوں کیسا
آ رہا ہے شمال سے طوفان
برق و باراں کی یورشیں ہوں گی
چھوڑ دے یہ نشیب کے میداں
چل وہاں چل کے جھونپڑی ڈالیں
برق و باراں سے ہو امان جہاں
4
آہیں بھرتی ہے روح وارفتہ
میرے پیارے تجھے خدا لائے
5
رنگ لائی ہے آخری بارش
صلۂ رنج و غم وصول ہوا
جوش رحمت کو آگیا کیسا
کس کا عجز دعا قبول ہوا
6
آئے برسات کی طرح پیارے
ان کی آغوش ہوگئی آباد
جن کو آتی رہی ہے ساری عمر
اپنے بچھڑے ہوئے سجن کی یاد
7
دل مرا شام ہی سے گھبرائے
میں ہوں بے چین کون بہلائے
جھونپڑی اور سردیوں کی رت
رات بھر تیری یاد تڑپائے
یہ ہوا یہ خنک خنک بستر
کیسے تیرے بغیر نیند آئے
نیند آجائے تیرے پہلو میں
جنت جاودانہ مل جائے
8
ابر رحمت برس گیا شب کو
تر بتر ہوگئے ہیں میرے بال
صبحدم آگئے مرے ساجن
ہوگئی میری جھونپڑی خوشحال
وائي
ساری دنیا ہے شیدائی
صلی اللہ تیری زیبائی
سجدے میں ہیں دونوں عالم
شوکت کسری درہم و برہم
تیرا پر تو عرشِ اعظم
تو ہے نورِ ازل کا محرم
وہ تری جلوہ آرائی
ساری دنیا ہے شیدائی
صلی اللہ تری زیبائی
پانو کی تیری دھول بھی پیاری
قسمیں کھائے ذاتِ باری
ہر سو تیرا فیض ہے جاری
جاگ اٹھی تقدیر ہماری
بارش رحمت نے برسائی
ساری دنیا ہے شیدائی
صلی اللہ تری زیبائی
چوتھی داستان
1
پردۂ ابر سے کبھی خورشید پیاری پیاری جھلک دکھاتا ہے
برق نے دی نویدِ کیف و نشاط دیکھ ہر ایک مسکراتا ہے
اے دلِ زار آج پھر کوئی کر کے قصدِ بہار آتا ہے
2
’پارکر‘ اور ’پران‘ میں ہو کر اب ’عمرکوٹ‘ بھی وہ چھائیں
تر ہیں ’سامارہ‘ اور ’کامارہ‘ بدلیاں ڈھٹ سے پھر نکل آئیں
سبز و شاداب ہوگئے میدان رنگ کیا کیا نہ بارشیں لائیں
جا بجا سرمئی گھٹائوں میں بجلیاں بار بار لہرائیں
3
’ڈھٹ‘ سے امڈی ہیں بدلیاں کیا کیا کتنے پرکیف ہیں یہ نظارے
چوکڑی بھررہے ہیں چوپائے تربتر کھیت ہوگئے سارے
اس کڑک اس گرج سے ڈرنا کیا بج رہے ہیں خوشی کے نقارے
اپنی ویران جھونپڑی کو سجا دیکھ آنے کو ہیں ترے پیارے
اس کی نظروں کے سامنے ہیں ہیچ چاند خورشید اور سیارے
4
ابر باراں کا فیض جاری ہے ہر طرف ہیں خوشی کے نظارے
یہ سنگھار اور ان کے چوپائے تیرے رحم و کرم پہ ہیں پیارے
5
لذت چشم تر ملے تجھ کو جاوداں تو بھی اشک برسائے
یہ برسنا بھی کیا برسنا ہے صبح تک تو برس کے تھم جائے
بارش صبح و شام سے اے ابر تاابد تیرا جی نہ اکتائے
6
رخ کسی کا ہے سوے ’استنبول‘ کوئی جاتی ہے ’کابل‘ و ’قندھار‘
اک ’سمرقند‘ کی طرف مائل اک گریزاںہے جانب ’گرنار‘
عازم ’روم‘ ہے کوئی بدلی اور کسی کو عزیز ہے ’ولھار‘
کوئی بدلی ہوئی ’دکن‘ کو رواں کوئی ’دلی‘ کی سمت ہے تیار
الغرض بدلیوں نے کردی ہے برق و باراں کی ہر طرف یلغار
’سندھ‘ پر بھی ترا کرم ہوجائے اے دھنی تو ہے سب کا پالن ہار
7
پھر گھٹائیں امنڈ کے چھائی ہیں
برق و باراں کو ساتھ لائی ہیں
زندگی کے خمار خانے میں
کیف و مستی لٹانے آئی ہیں
بارش آلود ریگزاروں نے
کیسی رعنائیاں دکھائی ہیں
وہ بہاریں جو مضمحل سی تھیں
پھر پیام نشاط لائی ہیں
ہو گئے ہیں کساں پھر بشاش
کھیتیاں پھر سے لہلہائی ہیں
اب کہاں قحط، چور بازاری
ابر نے نعمتیں لٹائی ہیں
بادل آئے گراں فروشوں نے
شرم سے گردنیں جھکائی ہیں
زن و شوہر نے صلح جو ہو کر
باہمی تلخیاں بھلائی ہیں
8
روز و شب کھوئے کھوئے رہتے ہیں
ان کی یادوں کے برق و باراں میں
یہ لگاتار روح میں رم جھم
اور جھڑی سی یہ چشم گریاں میں
9
یورشِ بے پناہ سے وہ ابر
دیکھ سوے شمال چھایا ہے
آج اس دور دیس والے سے
مجھ کو برسات نے ملایا ہے
وائي
رت برکھا کی آئی ہے
دیکھو میں نے اپنی چندریا
کسم میں آج رنگائی سے
رت برکھا کی آئی ہے
ساونی سج دھج میں ساجن نے
سندر چھب دکھلائی ہے
رت برکھا کی آئی ہے
’لار‘ بندھے بھیگے بچھڑوں نے
من کی مستی پائی ہے
رت برکھا کی آئی ہے
آجا میں بے چین ہوں کب سے
ساجن تیری دہائی ہے
رت برکھا کی آئی ہے
سر سریراگ
پہلی داستان
1
یاد محبوب سے گریز نہ کر کیا عجب وہ بھی تجھ کو یاد کرے
ہو کے خوش تیری وضع داری سے اپنے لطف و کرم سے شاد کرے
2
کیا عجب وہ بھی تجھ کو یاد کرے
یادِ محبوب سے نہ ہو غافل
سامنے اس کے جا کے پھیلادے
اپنے دامن کو صورتِ سائل
3
کیا عجب وہ بھی تجھ کو یاد کرے
یادِ محبوب سے نہ ہو غافل
بادباںجس کا دامن دل ہو
اس کی کشتی کو مل گیا ساحل
4
وہ طلبگار گوہر نایاب
اور ترے دل میں کانچ کا انبار
اس کو صدق و صفا پسند ہے جب
کس لئے پھر یہ جھوٹ کا بیوپار
5
تیرے دل پر ہے گردِ مکر و فریب
اور مکدّر ہے آئینہ دل کا
بادباں جس کے دل کا پاک رہا
اس کو کیا انتظار ساحل کا
6
کیا عجب تجھ پہ مہرباں ہو کر
یاد کرلے تجھے ترا پیارا
تیری آنکھوں سے ہے نہاں ابتک
ساحلِ زندگی کا نظارا
بحرِ عرفاں میں ڈال دے کشتی
موج و طوفاں سے رہ ستیز آرا
زندگی کا یہی قرینہ رہے
جگمگاتا ترا سفینہ رہے
7
چھوڑ کر میں نے گوہر نایاب
سنگ ریزوں کا کرلیا سودا
پڑ گئے میری عقل پر پتھر
سنگ ریزوں سے جی کو بہلایا
جب تک اس کا کرم نہ ہو ’سید‘
کیسے حاصل ہو مدعا دل کا
8
سنگ ریزوں سے بھرلیا دامن
گوہر بے بہا کو چھوڑ دیا
موجِ طوفان معصیت نے آہ !
میری کشتی کے رخ کو موڑ دیا
ہائے وہ عہد جس کو اے مالک
اپنی غفلت سے میں نے توڑ دیا
9
قدر کر گوہر صداقت کی
پڑھ مناجات حسن وحدت کی
خس و خاشاک ہیں یہ مکر و فریب
آگ دل میں جلا محبت کی
10
جس میں شامل تری عنایت ہو
بس وہی سود مند ہے سودا
میرے ہادی! ترے بغیر کسے
ساحلِ زیست کا سراغ ملا
تند موجوں میں گھر گئی افسوس
میری کشتی کو آکے پار لگا
11
بحر ہیبت فزا کی طغیانی
شورانگیز و فتنہ ساماں ہے
ان جزیروں سے بھی بچا ہم کو
جن کے گرد اک مہیب طوفاں ہے
زد میں اب کشتیوں کے تختے ہیں
اے خدا! تو ہی بس نگہباں ہے
12
بادباں صافِ قیمتی چپو
رسیاں بھی نئی میسر ہیں
پھر بھی یہ نیک بخت سوداگر
اے خدا! تیرے آسرے پر ہیں
13
ادباں صاف، رسیاں مضبوط
اور ملاح کشتیوں کے امیر
میرے ساتھی سفر پہ چل نکے
بخش دے ان کی اے خدا تقصیر
یہ خلوص و وفا کے پیکر ہیں
ان کی عزت میں ہے تری توقیر
وائي
کس منہ سے میں کروں بیان
ساجن کے لاکھوں احسان
اس کے گن کیا گائوں میں
جگ سے نیاری اس کی شان
ساجن کے لاکھوں احسان
جانے کیا کیا روپ دکھائے
من میں رہ کر وہ مہمان
ساجن کے لاکھوں احسان
اس پیارے کی بات بڑی
اس کو جو بھولے وہ انجان
ساجن کے لاکھوں احسان
جس کو سہائے پریت کی ریت
یاد رہے اس کو گنوان
ساجن کے لاکھوں احسان
اپنے ہی من کی ٹیس بڑھائو
اس اسے لگائو اپنا دھیان
ساجن کے لاکھوں احسان
وہ جس کو بھی پریم جتائے
اس کا ہوجائے کلیان
ساجن کے لاکھوں احسان
اس کی داسی وہ بن جائے
سکھی جو اپنائے نروان
ساجن کے لاکھوں احسان
جو بھی توڑے من کا جال
اسے ملے گا سچا گیان
ساجن کے لاکھوں احسان
جو مانے پریم کی بات
کون کرے اس کا اپمان
ساجن کے لاکھوں احسان
جو آنکھوں میں کاٹے رات
سب سے الگ ہے اس کی آن
ساجن کے لاکھوں احسان
اس کو من کا میت بنالے
تجھ کو بتائے یہ قران
ساجن کے لاکھوں احسان
جو بھی تجھے دے پالن ہار
اس کامت کرنا اپمان
ساجن کے لاکھوں احسان
پگ پگ اپنے نین بچھائے
یہی ہے پریمی کی پہچان
ساجن کے لاکھوں احسان
جگ جھوٹا ہے آئو چھڑالو
جھوٹے جگ سے اپنی جان
ساجن کے لاکھوں احسان
جی کو کتنا سکھ پہنچائے
’سید‘ پریم کا بردان
ساجن کے لاکھوں احسان
وائي
ساجن من میں ہیں مہمان
رہی میں ان سے کیوں انجان
ان نینوں سے نین ملائوں
جو ہیں من مندر کی آن
رہی میں ان سے کیوں انجان
ملا مجھے جیون کا بھید
ہوئی جب ان کی کچھ پہچان
رہی میں ان سے کیوں انجان
ان چرنوں پر سیس نوائوں
جن کی سیوا ہے نروان
رہی میں ان سے کیوں انجان
وہی ہے ان کا سچا میت
ملے جو ان سے بن ابھمان
رہی میں ان سے کیوں انجان
دوسری داستان
1
یہ رنگا رنگ موجودات عالم
بقید زیست ہیں جن کے سہارے
’لطیف‘ اس کا اگر لطف و کرم ہو
تو پھر جائیں نہ کیوں یہ دن ہمارے
2
کٹی آنکھوں میں جن کی رات ساری
رہا سبحان ہی جن کی زباں پر
یہ ان کی خاک در کا مرتبہ ہے
جھکے ہیں سیکڑوں سر آستاں پر
3
’لطیف‘ اس بحرے پایاں کے قرباں
خزانہ جس کا ہیں انمول موتی
چمکتے موتیوں کی جستجو ہے
تو اس میں ڈوب کر تو رول موتی
4
نہیں ارض وسما بھی ان کی قیمت
نہاں اس بحر میں ہیں جتنے گوہر
جو روشن بخت ہیں وہ اس کی تہ سے
اڑا لائے نہ جانے کتنے گوہر
سوا اس بحر عرفاں کے کہیں اور
نہ تجھ کو مل سکیں گے اتنے گوہر
5
اسے طوفان عصیاں کا نہیں ڈر
میسر جس کو ایماں کا کنارا
بھنور سے وہ نکل آئے گا بچ کر
لیا جس نے توکل کا سہارا
ملا اکثر میان قعر دریا
وہ کامل جس نے آخر پار اتارا
6
ہے شب زندہ داران سحر خیز
نظر میں جن کی ہے معبود کامل
انہیں کیا بحر طوفاں خیز کا ڈر
ذرا سی جست اور بس وہ ہے ساحل
7
رواں ہیں اپنی اپنی نائو میں سب
عبودیت کا لے کر ساز و ساماں
وہ ہیں سوداگراں لعل و گوہر
کہ یہ بیوپار ہے مقبولِ یزداں
نہیں ہے کوئی ان سا پاک دامن
مقدر سرخرو، فطرت درخشاں
عجب کیا ایسے بندوں کی بدولت
میسر ہو مجھے ساحل کا داماں
8
مبارک عزت و شانِ صداقت
سلامت ساز و سامانِ صداقت
انہیں کیا خوف طوفانِ بلا کا
جو روح صدق ہیں، جانِ صداقت
9
جو بہ جو موجہائے قلزم ہیں
بے خطر ہو کے کود جاتے ہیں
چیر کر سینۂ صدف غواص
گوہر شاہوار لاتے ہیں
عزم و ہمت کی آب و تاب سے وہ
زندگانی کو جگمگاتے ہیں
10
بپھر کر سامنے آئی تھیں موجیں
بڑی مشکل سے ہم طوفاں سے نکلے
کیا تقسیم ان کو دوستوں میں
جو گوہر بحر بے پایاں سے نکلے
11
جو پہنچے بحر بے پایاں کی تہ تک
وہ نکلے گوہر شہوار لے کر
ہوئیں نظارۂ حاصل سے آنکھیں
درخشاں و فروزاں مثل گوہر
12
ادھر دلدل ادھر موجوں کی یورش
میں اپنی نائو کو کیسے بچائوں
اگر تیرا کرم شامل ہو یا رب!
بخیر و عافیت اس پار جائوں
13
یہ بحر موج خیز زندگانی!
ہمیشہ ورطۂ غفلت سے ڈرنا
ہزاروں کشتیاں ٹوٹی پڑی ہیں
بڑا صبر آزما ہے پار اترنا
14
یہی اک فکر دل کو رات دن ہے
بہت مجبور ہیں طوفاں کے مارے
تلاطم خیز ہے یہ بحر ہستی
لگے گی کس طرح کشتی کنارے
15
بشر کچھ اور دل میں سوچتا ہے
مگر کچھ اور فطرت کا اشارا
پھنسی گرداب میں جب کوئی کشتی
اشارے ہی سے اس نے پار اتارا
سفینوں کو تلاطم خیزیوں میں
ہمیشہ اس کی رحمت کا سہارا
عجب ہے اس کی شانِ کارسازی
بھنور خود بن گیا اکثر کنارا
شناسا گوہر عرفاں کے ہیں یہ
بچا تو ان کی کشتی کو خدارا
رواں سوے در شاہِ عرب ہے
جو معبود حقیقی کا ہے پیارا
وائي
میں پاپ میں ڈوبی پاپن
اب ڈھونڈوں کہاں کنارا
ساجن ہے مرا سہارا
روٹھے نا مجھ سے پریتم
روٹھا ہی رہے جگ سارا
ساجن ہے مرا سہارا
میں پیا کی ایک ابھاگن
مرا حال ہے جگ سے نیارا
ساجن ہے مرا سہارا
منجدھار میں میری نیّا
اب کون ہے کھیون ہارا
ساجن ہے مرا سہارا
بپھرا ہوا جیون ساگر
میں تنہا دور کنارا
ساجن ہے مرا سہارا
دکھیاروں کی بپتا میں
کام آئے پریتم پیارا
ساجن ہے مرا سہارا
یہ داسی درشن پیاسی
لیتی ہے نام تمہارا
ساجن ہے مرا سہارا
اے نردھن کے رکھوالے
مرا من ہے دکھ کا مارا
ساجن ہے مرا سہارا
یہ آس بھکارن کی ہے
آجائے وہ آنکھ کا تارا
ساجن ہے مرا سہارا
جب انت کال ہو جگ کا
موھے سہائے پریتم دوارا
ساجن ہے مرا سہارا
آشا ہے ’لطیف‘ کی ہر دم
رہے پیا کو دھیان ہمارا
ساجن ہے مرا سہارا
تیسری داستان
1
سینۂ موج پر رواں کشتی
اور موافق ہے آج باد شمال
لادکر کشتیوں میں چل نکلے
سارے سوداگر اپنا اپنا مال
اے خدا تو ہی اب نگہباں ہے
تو ہی اب آکے چپوئوں کو سنبھال
2
کار آمد ہے بس وہی سودا
اس کی نظروں میں جو قبول ہوا
بس وہی شے خریدنا اچھا
جس کو لے کر نہ تو ملول ہوا
3
نا خدائوں نے ہم کو دکھلائے
جانے کتنے ہی ساحلوں کے خواب
اور وہاں کی خبر نہ دی کوئی
ہے جہاں صبر آزما گرداب
4
تیری رحمت ہے یا مری کشتی
اک ذریعہ مری رسائی کا
مل گیا تیرا آسرا جن کو
غم نہیں ان کو ناخدائی کا
5
گناہوں سے نہ کر اس کو گراں بار
یہ کشتی ہو چکی ہے اب پرانی
نہ جانے ہوگئے ہیں کتنے سوراخ
کہ تہ میں سے چلا آتا ہے پانی
تو کّل کے سہارے جینے والے
ہر اک شے ہے یہاں کی آنی جانی
6
تری کشتی میں ہیں سوراخ کتنے
چلا آتا ہے جن سے تہ میں پانی
بہت کمزور ہے مستول اس کا
ہیں اس کی رسیاں کتنی پرانی
خدا کی ناخدائی کی بدولت
اتر جائے گی دریا کی روانی
7
سمندر میں اُسے جس وقت ڈالے
سفینہ رنگ و روغن سے سجالے
کوئی سوراخ رہ جائے نہ باقی
پرانی رسیوں کو آزمالے
کنارا دور اور گہرا سمندر
تری کشتی ہے طوفاں کے حوالے
تجھے درپیش اک لمبا سفر ہے
سفر کے قابل اس کو تو بنالے
8
سامنے ہے وہ ساحل ہستی
ذکر جس کا وبال گوش رہا
کیوں خدا کو نہ تو نے یاد کیا
وقت یاد خدا خموش رہا
سب پہ طاری تھی نیند کی غفلت
اور تجھے بھی نہ اپنا ہوش رہا
وقفِ گرداب تھا سفینہ ترا
پھر بھی تو محوِ نائو نوش رہا
9
اس شکستہ جہاز کی ہو خیر
جس کو درپیش ہے طویل سفر
ان ضعیفوں کی لاج رکھ لینا
جو رواں ہیں ترے سہارے پر
دور ہیں میرے ہم سفر ’سید‘
وہ پہنچ جائیں کاش ’پُربندر‘
10
مری کشتی! بڑھے جا سوئے ساحل
ہزاروں کشتیوں کے ساتھ مل کر
ابھر کر دے رہی ہے موج اک آواز
بپھر کر کہہ رہا ہے کچھ سمندر
اگر اس پار ہے تم کو اترنا
تو ہو رختِ سفر بہتر سے بہتر
11
اکھڑ جانے کو ہیں سب اس کے تختے
بھنور میں آکے کشتی پھنس گئی ہے
ابھرنا ڈوبنا اور پھر ابھرنا
سنبھلنے کی کوئی تدبیر بھی ہے؟
12
ہمارے ناخدائوں کو ہوا کیا
بدل کر بھیس آئے ہیں فرنگی
بتائو ہے کوئی ملاح ایسا
کہ روکے یورش دزدانہ ان کی
وہاں تیرے سہارے پر رواں ہیں
جہاں ہر ایک کشتی آکے ڈوبی
13
تجھے کچھ فکر سامان سفر ہے
کہ تیری نائو کے ہر سو بھنور ہے
تجھے لازم ہے ترکِ خوابِ غفلت
تمنا پار اترنے کی اگر ہے
14
خبر بھی ہے تمہیں کشتی نشینو!
کہ ہر سو یورش موج بلا ہے
بھرا ناحق پرایا مال اس میں
وہی آخر مصیبت بن گیا ہے
یہ کشتی کا کنارے سے بھٹکنا
تمہارے خواب غفلت کی سزا ہے
15
تمہیں کچھ ہوش اے ملاح تجھ کو
کٹی ہے خواب غفلت میں تری رات
یہ نیند، اس پر کنارے کی تمنا
نرالی ہے زمانے سے تری بات
وہاںپہنچے گا تو پوچھیں گے تجھ سے
کہ اس دنیا سے کیا لایا ہے سوغات
16
یہ طوفاں خیز موجوں کی روانی
ٹھہرتے ہی نہیں پانی میں لنگر
بڑی مشکل سے ہیں ساحل سے لگتے
بڑے بیڑے بھی اس طوفاں سے بچ کر
جو ہیں مانوس طوفانِ بلا سے
وہی ہیں بحر ہستی کے شناور
سناتے ہیں بڑی پرہول باتیں
وہ اپنے دوستوں سے پار اتر کر
17
بحرِ پُرہول منتظر ہے ترا
کیوں یہ بے چارگی، یہ غفلت کیا
تیری کشتی بڑی پرانی ہے
رنگ و روغن لگا تہ و بالا
موج کی زد میں ہے وہی کشتی
جس کے کشتی نشیں ہیں بے پروا
18
ناخدا کر رہا ہے یہ تاکید
کہ مکمل ہو سب کا زاد سفر
لطف جن پر ’لطیف‘ اس کا ہو
وہی پہنچے عدن کے ساحل پر
19
خبردار اے بہادر ناخدائو!
کہ پھر طوفان کی زد میں ہے بندر
پھنسا ہے ایسے چکّر میں کنارا
کہ جیسے چھاچھ ہو مٹکے کے اندر
20
سوگئے ہیں تمام کشتی میں
پا کے فوراً اشارہ رہبر
کوئی طوفاں نہیں سمندر میں
اور خطرے سے دور ہے بندر
تم بھی سو جائو اب تو ملاحو!
چھوڑ کر اپنی نائو ’سید‘ پر
وائي
سکھیوں نے کی تیاری
اب دور دیس ہے جانا
تیری نینوں میں ہے نندیا
بیٹھے ہیں سب نر ناری
ساگر میں ڈالے ڈیرا
تیری نینوں میں ہے نندیا
اپنی اپنی نیّا کی
سکھیوں کو رہی ہے چنتا
تیری نینوں میں ہے نندیا
کر لے کچھ یاد سجن کی
جیون ہے رین بسیرا
تیری نینوں میں ہے نندیا
سن اس کو کان لگا کر
باجے ہے کوچ کا ڈنکا
تیری نینوں میں ہے نندیا
پریمی کی ریت نہیں ہے
یوں لمبی تان کے سونا
تیری نینوں میں ہے نندیا
سچ کا پرکاش ہے تجھ میں
پھر جھوٹ کو کیوں اپنایا
تیری نینوں میں ہے نندیا
رکھ اپنے مورکھ من میں
اس اونچے گھاٹ کی آشا
تیری نینوں میں ہے نندیا
ہے کھیون ہارا پریتم
نہیں کوئی اور بھروسا
تیری نینوں میں ہے نندیا
جتنے بھی ہیں جگ باسی
اک دن ہے سب کو جانا
تیری نینوں میں ہے نندیا
اس انت کال میں سجنی
نہیں ہوگا کوئی کسی کا
تیری نینوں میں ہے نندیا
کیوں نام گھڑے کا لے تو
جب وہ ہے ترا سہارا
تیری نینوں میں ہے نندیا
اب کون کرے رکھوالی
ٹوٹا منجدھار میں ’ترھا‘
تیری نینوں میں ہے نندیا
مایا ہے آنی جانی
رکھ دھیان سدا ساجن کا
تیری نینوں میں ہے نندیا
اے مایا لوبھ کی اندھی
دو دن کا کھیل ہے دنیا
تیری نینوں میں ہے نندیا
ساجن کے ڈر سے تونے
کب ساتھ دیا نردھن کا
تیری نینوں میں ہے نندیا
جو اپنے پتی کو چھوڑے
کب دیگی ساتھ ہمارا
تیری نینوں میں ہے نندیا
جگ جیون کا ہے سپنا
ہتے پانی پہ چھایا
تیری نینوں میں ہے نندیا
یہ سستی چھوڑ ابھاگن
اب مان سجن کا کہنا
تیری نینوں میں ہے نندیا
چوتھی داستان
1
جادۂ مستقیم راہِ ازل
بے نیازِ بلندی و پستی
نیک و بد کی نہیں کوئی تخصیص
عام ہے فیضِ رہبر ہستی
2
تو امین غم محبت ہے
بے نیاز غم جہاں ہو جا
ہے عنان گیر کوئی سر ازل
راکب عمر بے عناں ہو جا
شیوۂ خود سپردگی سے تو
دوش و فردا پہ کامراں ہو جا
خوئے تسلیم و جذبہ تحقیق
ساتھ لے اور پھر عیاں ہو جا
3
عام یہ رسم ہے زمانے کی
کہ بھلوں سے بھلائی کرتے ہیں
لیکن انکا کوئی جواب نہیں
جو بروں سے بھلائی کرتے ہیں
4
ہے بدوں کی بدی سے دلچسپی
اور نیکوں کو نیکیوں کا خیال
اپنی اپنی پسند کی ہے بات
اپنے اپنے خیال کا ہے سوال
5
حسبِ دستور راہگیروں پر
نظرِ التفات کرتے ہیں
ساتھ لے کر شکستہ پائوں کو
رہ دشوار سے گذرتے ہیں
6
نہیں ہے اس سے بڑھ کر کام کوئی
بڑی نعمت ہے سوداے حقیقت
تجھے جن سے ملے ہیں نایاب گوہر
وہ سوداگر ہیں داناے حقیقت
7
وہی سمجھے گا حسن کا معیار
جوہرِ خاص کو جو پہچانے
کس کو کہتے ہیں گوہر نایاب
اس حقیقت کو جوہری جانے
8
وہ ہے صراف اور تو سونا
نظر اس کی ہے امتحاں تیرا
طبع جوہر شناس کے نزدیک
ہر زرِ کم عیار کا سودا
روح انساں پہ پرتو ظلمت
جوہر دل پہ زنگ کبر و ریا
9
گرچہ موتی ہیں میری جھولی میں
تیرا معیار ہی نرالا ہے
کہ یہ بے قدر ہیں ترے آگے
سنگ ریزوں کا بول بالا ہے
10
جواہر کی پرکھ تھا کام جن کا
نہ جانے اب کہاں وہ جوہری ہیں
یہ ان کے جانشینوں کا ہے عالم
کہ سب منت کش آہن گری ہیں
11
خدایا وہ نہ چھوڑیں ساتھ میرا
رہے ان پر ہمیشہ تیری رحمت
سوائے جوہری کے کون جانے
درخشاں گوہروں کی قدرو قیمت
درِ یکدانہ کی نیرنگیوں پر
لگا رکھتے ہوں جو چشمِ بصیرت
12
کبھی تم ان کی باتوں میں نہ آنا
کہ یہ صراف جھوٹے جوہری ہیں
نہیں ان کو تمیز سنگ و جوہر
گرفتارِ طلسمِ زرگری ہیں
تو ان کے پاس جا، جن کی نگاہیں
فریبِ دید سے یکسر بری ہیں
13
توڑ کر اپنا بے بہا موتی
وقت کو اس طرح نہ کھونا تھا
ہاتھ میں لے کے پارے پارے کو
اپنی غفلت پہ تجھ کو رونا تھا
14
توڑ کر اپنا بے بہا موتی
تجھ کو غافل ہی رہ نہ جانا تھا
چن کے پلکوں سے ذرے ذرے کو
جا کے صراف کو دکھانا تھا
15
دفعتاً دستِ نازِ جاناں سے
گوہرِ شاہوار چھوٹ گیا
اہل دل کی نگاہ میں اس کی
بڑھ گئی قدر جب یہ ٹوٹ گیا
16
ایسے موتی ہیں تیرے دامن میں
تاک میں جن کی اک زمانہ ہے
رہزنوں کا بھی ہے وہی مسکن
موتیوں کا جہاں خزانہ ہے
17
کہہ رہا ہے یہ تیرے دل کا چور
کون میری دلاوری جانے
گر کسی کی ہزار آنکھیں ہوں
پھر بھی کوئی مجھے نہ پہچانے
وائي
ساجن کی یاد دلائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
پھر بھیڑ پتنگوں کی ہو
آشا کے دیپ جلائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
رستے میں کہیں نہ ٹھہروں
جب پیا ملن کو جائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
پریتم کے دوارے جا کر
میں پگ پگ نین بچھائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
جب موت کے بادل گرجیں
مرنے سے نہ میں گھبرائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
آتی ہے موت اچانک
بھید اس کا تمہیں بتائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
آگے ہے بڑا اندھیارا
میں خالی ہاتھ نہ جائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
گیانی ہے وہ پریتم پیارا
میں کیسے بھید چھپائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
کیا ڈر ہو کسی بپتا کا
جب پیا سے آس لگائوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
سکھ پائے میرا جیون
پریتم کی سرن میں آئوں
سکھیو! میں تمہیں جگائوں
پانچویں داستان
1
شکستہ بادباں پرہول موجیں
مگر تم نے نہ میری بات مانی
بہ صد منت یہ سمجھاتی رہی ہیں
نہ بیٹھو! اس میں کشتی ہے پرانی
2
وہاں کیا آس موجوں سے لگائیں
جہاں ہر سو بھنور آنکھیں دکھائیں
ادھر طوفاں ادھر تاریک ساحل
اگرجائیں بھی اب کس سمت جائیں
تلاطم خیزیٔ موجِ بلا سے
سفینہ کس طرح اپنا بچائیں
بجز فضل خدا کیا آسرا ہے
کسے اب ناخدا کہہ کر بلائیں
3
ذرا اے ناخدا ہشیار رہنا
تلاطلم خیز ہر موج بلا ہے
وہاں ڈوبے ہیں کتنے ہی سفینے
جدھر تو نائو کو لے کر چلا ہے
جہازوں کو کیا ہے غرق جس نے
تجھے بھی اس بھنور کا سامنا ہے
4
بڑا خونیں سمندر سامنے ہے
کہیں ٹھنڈی ہوا میں سو نہ جانا
تلاطم خیز ہے موجوں کی یورش
سنبھل کر نائو کو آگے بڑھانا
5
تلاطم خیز موجوں کے شناور
شعور قعر دریا رکھنے والے
بھروسہ کر خدا کی رحمتوں پر
سفینہ کر حوادث کے حوالے
6
رموزِ قعر دریا جانتے ہیں
ہلاکت خیز موجوں کے شناور
ہمیشہ جھوٹ کے سودے سے نفرت
کہ ان کو دولت حق ہے میسر
سجاتے ہیں سفینہ زندگی کا
متاع عجز سے راتوں کو اٹھ کر
پھر اس کو ڈال دیتے ہیں بھنور میں
وہ اپنے ساتھیوں کے بن کے رہبر
7
خدا کے فضل سے اس پار پہنچے
وہ باہمت شناور وہ دلاور
نہ گرداب فنا نے ان کو تاکا
نہ موجوں نے اٹھایا ناگہاں سر
8
کمر باندھے ہوئے بیٹھے ہیں ساتھی
مگر غفلت ہے طاری تیرے دل پر
کہاں تک تیری بے فکری کا عالم
یہ موجوں کے تھپیڑے یہ سمندر
رواں ہیں عالم وارفتگی میں
سفینے تاجروں کے سونے بندر
وہی خوش بخت پہچیں گے سلامت
نہیں واجب کوئی محصول جن پر
9
’لطیف‘ ان تاجروں پر رحمت حق
چلے ہیں لے کے جو انمول گوہر
سمندر میں ہوا کے رخ پہ ڈالا
سفینہ قیمتی سامان بھر کر
ترے عاشق ہیں اے شاہِ مدینہ
در رحمت کھلے ان تاجروں پر
10
مرے حق میں ہو کتنی نیک یہ فال
سفینہ گھاٹ پر، محبوب گھر میں
نہ ہو پھر راہ میں کوئی رکاوٹ
رہے محبوب کی منزل نظر میں
دعا کو ہاتھ اٹھتے ہیں سر شام
مری کشتی ہے بحر پر خطر میں
خوشی کے شادیانے بج رہے ہوں
وطن میں ہوںجو رہتے ہیں سفر میں
وائي
سپنوں میں جیون بیتا
دن میں نے یوں ہی گنوائے
ساجن میں ایک ابھاگن
دکھ میرا کون مٹائے
دن میں نے یوں ہی گنوائے
آجائو ساجن پیارے
بیٹھی ہوں آس لگائے
دن میں نے یوں ہی گنوائے
بیٹھی ہوں یاد میں تیری
کیا اپنی دشا بنائے
دن میں نے یوں ہی گنوائے
جو کھوٹ ہے میرے من میں
ساجن ہی اُسے مٹائے
دن میں نے یوں ہی گنوائے
چھٹی داستان
1
وہیں ’ تُرھے‘ کو باندھ لے کس کے
جس جگہ پرسکوں روانی ہے
کسمپرسی کا ہے وہاں عالم
خوب گہرا جہاں پہ پانی ہے
2
آبگیروں کے جو شناور ہیں
فکر ان کو نہیں کوئی زنہار
ہاں مگر کیسے پار اتریں گے
یہ اناڑی یہ صاحب دستار
3
خدا کو یاد کر بہر خدا تو
کہیں تجھ کو نہ لے ڈوبے یہ طوفاں
نہیں آرام کا یہ وقت غافل
کہ ہر سو ہے ہجومِ برق و باراں
جو بے پروا رہا ان آفتوں سے
اسے ہونا پڑا آخر پشیماں
بچا ہے کون گرداب اجل سے
سلامت اس کی زد سے کس کی ہے جاں
4
عاقبت سے جو بے نیاز کرے
دشمنِ جاں وہ کیف و مستی ہے
غرق ہو گا بزعم خود آخر
جو ہوا خواہِ خود پرستی ہے
اس میں آتے ہیں نت نئے طوفان
اے مسافر یہ بحرِ ہستی ہے
5
نہ ٹھہرے گا کبھی دریا کا پانی
نہ سوئیں گے یہ بے آرام تارے
تری غفلت کو لیکن کیا کہوں میں
تجھے ہے نیند پیاری میرے پیارے
وہاں جائے گا خالی ہاتھ کیا تو
جہاںخوش بخت پر دامن سدھارے
وائي
بھٹکی ہوں ڈگر ڈگر میں
پگ پگ ہے مجھ کوبھاری
میں گھاٹ گھاٹ کی ماری
پہنچوں اب کیچ میں کیسے
میں دور دیس کی ناری
میں گھاٹ گھاٹ کی ماری
بھید اپنا کسے بتائوں
داسی ہوں پیا تمہاری
میں گھاٹ گھاٹ کی ماری
جی بھر کے نیر بہائوں
ساجن پہ میں بلہاری
میں گھاٹ گھاٹ کی ماری
سر سامونڈی
پہلی داستان
1
بحری تاجروں کا کارواں ہے نہ جانے کس گھڑی لنگر اٹھائے
نہیںکچھ اعتبار ان تاجروں کا جہاز ان کا روانہ ہو نہ جائے
انہیں سوئے دیارِموج و طوفان ہوائے آبگوں اکثر بلائے
ترے حق میں غنیمت یہ گھڑی ہے کہ پھر یہ ہاتھ آئے یا نہ آئے
2
جب ان کے ناخدا لنگر اٹھائیں تجھے بھی ہم سفر اپنا بنائیں
ہوئے تیار کشتیبان سارے بھری ہیں بادبانوں میں ہوائیں
بغیر ان کے نہ ہوگی کوئی رونق رہیں گی سربسر ویراں فضائیں
نہ کر اب دیر آنا ہے تو آجا یہ سوداگر روانہ ہو نہ جائیں
3
ہٹوں گی اب یہاں سے میں نہ ہرگز مجھے چاہے کوئی کتنا ہٹائے
میں ڈرتی ہوں کہیں ساجن کی نیّا اکیلا ہی نہ مجھ کو چھوڑ جائے
4
اکیلا چھوڑ کر جاتے ہو مجھ کو سجن تم نے نہ میری بات مانی
جلائے گی مجھے برکھا کی اگنی سدا روتی رہے گی یہ جوانی
5
نہ وہ صبحیں نہ وہ شامیں سہانی وبال دوش ہے اب زندگانی
نہ ساحل پر کوئی ہنگامہ ہے اب نہ موجوں میں وہ پہلی سی روانی
لبِ ساحل پہ آجاتی ہے اکثر کوئی بسری ہوئی رنگیں کہانی
6
زمانہ ہو گیا ہے راہ تکتے مگر تم لوٹ کر ابتک نہ آئے
گئے ہو تم جہاں اے جانے والو خبر اس دیس سے کوئی نہ لائے
7
بہت ہی دور جا پہنچے مسافر نظر میں اب بلندی ہے نہ پستی
نہ جانے کس گھڑی رخصت ہوئے تھے نہ دیکھی پھر کبھی آکر یہ بستی
انہیں کیا دامنِ ساحل کی پروا جنہیں راس آگئی طوفاں پرستی
نہ آنے دیں گے ان کو پاس تیرے دیار موج و طوفاں کے بسیرے
8
روانہ ہوگئے بحری مسافر نہ جانے اب وہ آئیں یا نہ آئیں
بسائیں بستیاں اس پار جا کر کہاں تک ان کے غم میں جی جلائیں
9
موافق ہوں سمندر کی ہوائیں بھٹک کر راستے میں رہ نہ جائیں
بر آئے ان کی ہر امید یا رب! یہ تاجر منزل مقصود پائیں
10
رہی جانے کی ان کو اتنی جلدی کہ وہ دو چار دن بھی رہ نہ پائے
بہت دن ہوگئے مجھ کو ترستے مرے ساجن مگر اب تک نہ آئے
میں ان کی یاد میں بیکل ہوں ایسی کوئی برچھی سے جیسے چھید جائے
سدا اس پار ہی رہنا ہے جن کو کوئی ایسوں سے کیسے لو لگائے
11
کسی ملاح کے چرنوں کی داسی کھڑی ہے دیر سے چپو اٹھائے
چبھن دل میں ہے، آنکھوں میں ہیں آنسو سنو کیا کہہ رہی ہے سر جھکائے
’تمہاری بات کا کس کو یقیں ہے یہ قصے اب نہ تم مجھ کو سنائو
یہ تنہائی، یہ ویرانی ، یہ راتیں ٹھہر جائو، خدارا اب نہ جائو‘
12
بھٹک کر رہ گئی ہوں اس کنارے ہنسی میری اڑاتا ہے زمانہ
مجھے بھی ساتھ لے جاتے خدارا یہاں سے جب ہوئے تھے وہ روانہ
13
یہ حالت ہے مرے بے چین دل کی کوئی بھٹکی ہوئی کشتی ہو جیسے
خبر کیا تھی کہ ان سے پیار کرکے مجھے سہنے پڑیں گے رنج ایسے
بھلا بیٹھے ہیں مجھ کو میرے مانجھی سکھی میں اپنا جی بہلائوں کیسے
14
دلا سے دے رہی ہوں اپنے دل کو مگر یاد ان کی رہ رہ کر ستائے
کئی منجدھار منہ کھولے ہوئے ہیں خدا ان کے سفینے کو بچائے
مرے دل میں ہے کیوں طوفان برپا ہوئی کیا بات جو اب تک نہ آئے
15
سہانی رت ’سروں‘ میں پھول آئے
’لوہیڑوں‘ پر جوانی آگئی ہے
فضا بدلی، چلی بادِ شمالی
خنک موسم ، ہوا میں دلکشی ہے
گئے ایسے کہ پھر واپس نہ آئے
نہیں کیا کچھ، مگر ان کی کمی ہے
16
گئے ایسے کہ پھر واپس نہ آئے
وہ اب آئیں تو ان سے روٹھ جائوں
یہ تنہائی، یہ جاڑے، یہ جدائی
کہاں جائوں میں کیسے چین پائوں
سنائوں کس کو اپنی آپ بیتی
کسے میں اپنے سینے سے لگائوں
نہ چھیڑ اے ماں! میرا جیون دکھی ہے
میں اپنا بھید کیا تجھ کوبتائوں
17
تم آئے ہو تو اب جانے نہ دوں گی
کرو مجھ کو نہ تڑپانے کی باتیں
پسینہ بھی ابھی سوکھا نہیں ہے
ابھی سے پھر ہیں کیوں جانے کی باتیں
18
بہت دن ہوگئے ہیں دکھ اٹھاتے کہیں ایسا نہ ہو دل ٹوٹ جائے
کرو سکھیو! مرے ساجن کی باتیں کہ باتوںہی سے شاید چین آئے
19
دیار دوست کو جا اے دل! اے دل!
عبیر آمیز ہیں جس کی فضائیں
بشوقِ آستاں بوسی بڑھے چل
خدا جانے تجھے پھر کب بلائیں
20
پڑی ہوں گھاٹ پر جن کے سہارے
اگر وہ چھوڑ کرمجھ کو سدھارے!
21
نہ بھولوں گی وہ پیاری شکل و صورت
کہ ستواں ناک اور پتلی کمر ہے
نظر میں دل کشی آنکھوں میںکاجل
مسافر کچھ تجھے اس کی خبر ہے
22
کبھی تو لوٹ کر آئے گا پیارا
ہوا ہو جائے گا دکھ درد سارا
اسی امید پر اب جی رہی ہوں
یہی امید ہے میرا سہارا
23
ہوا میں اڑ رہے ہیں ان کے پرچم
وہ دولت مند تاجر لوٹ آئے
خدا جانے اب ان کی زیب و زینت
لبِ ساحل پہ کیا کیا گل کھلائے
وائي
ساجن کی ڈگر پر مجھ کو
کوئی نہیں روک سکے گا
وہ مری جیون جوت جگانے
پردیسی پریتم آئے
کوئی نہیں روک سکے گا
وہ اپنی چھب دکھلا کر
سکھیوں کے من برمائے
کوئی نہیں روک سکے گا
میں جنگل جنگل بھٹکوں
جب تک وہ مجھے بھٹکائے
کوئی نہیں روک سکے گا
میں کھوج میں ہوں ساجن کی
کوئی نہ مجھے بہکائے
کوئی نہیں روک سکے گا
وائي
اس پار سے جب وہ آئیں
میں پگ پگ نین بچھائوں
ساجن کو بھول نہ جائوں
آشائوں سے سپنوں سے
اپنے من کو بہلائوں
ساجن کو بھول نہ جائوں
ترسائیں نہ دن برھا کے
نینوں سے نین ملائوں
ساجن کو بھول نہ جائوں
بیٹھی ہوں آس لگائے
سکھ پیا ملن کے پائوں
ساجن کو بھول نہ جائوں
وائي
مجھے چھوڑ گئے ہیں ساجن
اب کیسے جی بہلائوں
کب تک یہ بات چھپائوں
جب یاد پیا کی آئے
نینوں سے نیر بہائوں
کب تک یہ بات چھپائوں
دکھ جیون کا دیمک ہے
میں کیسے جان بچائوں
کب تک یہ بات چھپائں
ماں! کون ہے میرا ساتھی
میں اپنا کسے بنائوں
کب تک یہ بات چھپائوں
آجائو پریتم پیارے
میں واری واری جائوں
کب تک یہ بات چھپائوں
دوسری داستان
1
یہ زادِ راہ کی الجھن ہے کیسی
یہ سامانِ سفر کیوں ہو رہا ہے
نہ جانا میرے بنجارے نہ جانا
ترا عزمِ سفر صبر آزما ہے
2
لگن اس پار کی دل میں ہے پھر کیوں؟
نہ جائو میرے بنجارے نہ جائو
کہیں غم کھاتے کھاتے مر نہ جائوں
محبت کی قسم ہے لوٹ آئو
3
وہ میرے روکنے سے کیا رکیں گے
لپٹ کر ان سے لاکھ آنسو بہائوں
یہ آتش زیرپا بحری مسافر
مری ماں! میں انہیں کب تک بنائوں
وہ ان کے بادباں لہرا رہے ہیں
سفینے رقص کرتے جا رہے ہیں
4
رچی ہے میرے من میں پریت ان کی
بغیر ان کے میں کیسے چین پائوں
کہیں ایسا نہ ہو وہ بھول جائیں
میں ان کی یاد میں آنسو بہائوں
5
لبِ ساحل پہ چرچے ہو رہے ہیں
کہ اب تاجر ہیں واپس آنے والے
وہ میری زندگی کا ہیں سہارا
بغیر ان کے پڑے جینے کے لالے
6
وہ کھولے بادباں چپو اٹھائے
گئے ایسے کہ پھر واپس نہ آئے
رکے ہیں کون سی منزل میں تاجر
خدا جانے وہاں کیا دکھ اٹھائے
7
پھر آیا موسمِ بادِ شمالی
اٹھائے مانجھیوں نے اپنے لنگر
پھر ان کے بادباں لہرا رہے ہیں
پھر ان کو یاد آیا ہے سمندر
دلِ افسردہ کی گہرائیوں سے
اٹھے گی ایک لمبی ہوک اکثر
8
گھروں میں شادیانے بج رہے ہیں
خوشی سے جشن سکھیوں نے منائے
جنہیں بادِ شمالی لے اڑی تھی
سفر سے وہ مسافر لوٹ آئے
9
بلائیں لوں، خوشی کے گیت گائوں
میں ان کی راہ میں آنکھیں بچھائوں
وہ جب پردیس سے لوٹیں سہیلی!
تو ان کو اپنے سینے سے لگائوں
10
پھر آیا موسم بادِ بہاری
بڑھی قلب و نظر کی بے قراری
چلے جائیں گے پھر بحری مسافر
کھڑی ہیں کشتیاں تیار ساری
11
انہیںمیں ہوںمرے ساجن بھی اے کاش
سفینے جانبِ ساحل جب آئیں
میں ان کے بادباں پہچان جائوں
ادھر جب کشتیوں کو وہ بڑھائیں
بڑی مدت سے ان کی منتظر ہیں
ترس کر میری آنکھیں رہ نہ جائیں
خداوندا مبارک ہوں یہ آثار
دعا ہے میرے پیارے لوٹ آئیں
12
ہوئے جب بادباں تیار کھل کر
تو سب نے دفعتاً مستول اٹھائے
بڑھے لے کر وہ اپنی کشتیوں کو
پھریرے سے ہوا میں لہلہائے
’لطیف‘ ان تاجروں پر رحمت حق
سفر جن تاجروں کو راس آئے
13
وہ اپنے بادباں کو سی رہے تھے
اچانک کوچ کا پیغام آیا
بڑھے دریا کے جانب والہانہ
کسی گرداب کا دھوکہ نہ کھایا
بالاآخر اس طرف اترے سلامت
سکون جاوداں کا راز پایا
14
اگر حائل نہ ہو گردابِ باطل
تہِ دریا ہیں گوہر کے خزانے
پہن کر جو لباسِ فقر نکلا
وہی غواص ان کی قدر جانے
15
یہی چرچا ہے اکثر اس کنارے
مسافر لوٹ کر اب تک نہ آئے
رہے مہجور دل کی دھڑکنوں میں
سلگتے آنسوئوں میں جگمگائے
16
یہ ان بیوپاروں کی عورتیں ہیں
روانہ ہوچکے ہیں جو سفر پر
اب ان کا کام ہے ساگر کی پوجا
کھڑی رہتی ہیں لے کر مشک و عنبر
17
ہوئے پورے مرے ارمان سارے
ملے پھر مجھ سے آکر میرے پیارے
میں اب ان مانجھیوں کی ہوں پجارن
مرے کام آگئے جن کے سہارے
18
ہوا میں جن کے پرچم اڑ رہے ہیں
نظر آجائیں ان کے بادباں بھی
سفر سے جن کے ساجن لوٹ آئے
خوشی ہے آج ان سکھیوں کو کتنی!
19
لبِ ساحل پہ ہنگامے ہیں برپا
جہاں گرد و جہاں بیں آ رہے ہیں
وہ دیکھو ان کے مستولوں کے پرچم
ہوا میں کس طرح لہرا رہے ہیں
20
لگائیں جھنڈیاںِ دیپک جلائے
جہاں تک ہو سکا رستے سجائے
میں ہوں اپنے خدا سے لو لگائے
وہی ساجن سے اب مجھ کو ملائے
21
جو اس ساگر کی سیوا کو نہ جائے
اُسے کیوں کر محبت راس آئے
جلائے جو بھی آشائوں کے دیپک
وہی ساجن کو سینے سے لگائے
وائي
روکو نہ مجھے تم سکھیو!
جائوں گی سجن کے دوارے
ساگر میں ڈال کے ڈیرا
ساجن پردیس سدھارے
جائوں گی سجن کے دوارے
گھٹ گھٹ کے یاد میں ان کی
مر جائوں نہ دکھ کے مارے
جائوں گی سجن کے دوارے
درد ان کا مجھے تڑپائے
تڑپوں میں سانج سکارے
جائوں گی سجن کے دوارے
وائي
کیوں چھوڑا ساتھ سجن کا
تیری ہی بھول نے سجنی
سکھ چھین لیا تن من کا
کیوں چھوڑا ساتھ سجن کا
جا اُس کی کھوج میں ناداں
جو ساتھی ہے جیون کا
کیوں چھوڑا ساتھ سجن کا
پردیس گیا ہے ساجن
اب سپنا دیکھ ملن کا
کیوں چھوڑا ساتھ سجن کا
کل جیسا آج نہیں ہے
یہ چولا تیرے تن کا
کیوں چھوڑا ساتھ سجن کا
دکھڑوں کو سننے والا
اب کون ہے تجھ برھن کا
کیوں چھوڑا ساتھ سجن کا
وائي
ان کے ساتھ ہی جائوں گی
بنجاروں سے پیار مجھے
اپنی نائو کو ٹھیرالے
کھیون ہار! میں آئوں گی
بنجاروں سے پیار مجھے
بھول چکیں جن کو سکھیاں
ان کی یاد دلائوں گی
بنجاروں سے پیار مجھے
پریت کی ساری بپتائیں
سہ سہ کر مسکائوں گی
بنجاروں سے پیار مجھے
ان کو یاد کروں گی میں
ان سے پریت نبھائوں گی
بنجاروں سے پیار مجھے
ساجن ایک مہا ساگر
ان کے بھید میں پائوں گی
بنجاروں سے پیار مجھے
تیسری داستان
1
تھکی ہاری ہوں، میں بپتا کی ماری
بھلا اس پار کے کیا بھید پائوں
مجھے بھی ساتھ لے چل میرے مانجھی
بھٹک کر اس کنارے رہ نہ جائوں
یہ جانے والے میری زندگی ہیں
انہیں میں کس طرح رو کوں منائوں
2
دیا اس کو نہ سورج ڈوبنے تک
کسی مانجھی کی نیّا نے سہارا
مگرجب چاہنے والے نے چاہا
تو فوراً مل گیا اس کو کنارا
3
مری سکھیوں کے ساجن آگئے ہیں
نہ جانے میرے ساجن کیوں نہ آئے
مجھے چھیڑو نہ میری پیاری سکھیو!
اُٹھے اک ہوک سی دل کانپ جائے
یہ دن جاڑوں کے اور مانگے کے برتن
بنا ساجن کے کیا کیا دکھ اٹھائے
4
یوں ہی تکتی رہوں گی راہ ان کی
نہ چھوڑوں گی میں آشا کے سہارے
رہا ان کا کرم مجھ پر ہمیشہ
خوشی کے ساتھ میں نے دن گذارے
نہ جانے میرے تن میں کھوٹ تھی کیا
گئے کیوں روٹھ کر وہ میرے پیارے
اٹھا کر چل دیئے وہ اپنے لنگر
تڑپتی رہ گئی میں غم کے مارے
وہ کھیون ہار ان کی لاج رکھ لے
لگا دیتا ہے جو کشتی کنارے
5
لبوں پر بحر کا ذکر مسلسل
دلوں میں موج و طوفان کی صدا ہے
دیارِ دوست سے پیغام آیا
کوئی سوئے تلاطم کھینچتا ہے
6
نہ بھولے اس کنارے کی نشانی
وہیں آئے جہاں میٹھا ہے پانی
دل ان کے پاک ہیں زر کی ہوس سے
جواہر سے لدی ہے زندگانی
سکھی وہ لوٹ کر ’لنکا‘ سے آئے
بڑے انمول موتی ساتھ لائے
7
اٹھے لنگر سویرے ہی سویرے
یہ دریا آشنا تیرے نہ میرے
تلاش سیم و زر میں سوئے ’لنکا‘
روانہ ہو گئے ہیں منہ اندھیرے
ہمیشہ کام ہے موجوں سے لڑنا
سدا ساگر میں ہیں ان کے بسیرے
8
سحر ہوتے ہی پھر تیار ہیں یہ
بڑے ظالم ہیں یہ بحری مسافر
کہاں تک میں کروں گی یاد ان کو
مجھے تو مار ڈالیں گے یہ تاجر
9
ہوئے تیار پھر جانے کو ’سید‘
یہ بنجارے سویرے ہی سویرے
اُنہیں کب راس آتا ہے کنارا
سدا ساگر میں ہوں جن کے بسیرے
10
وہ پھر جانے کو ہیں تیار اے کاش!
کہیں جانے سے ان کو روک سکتی
یہ ایسے ہیں کہ ماں کی مامتا بھی
نہیں جانے سے ان کو روک سکتی
11
رہے تم تو سدا پردیس ہی میں
سہاگن ہو کے میں نے سکھ نہ پایا
مجھے پھر چھوڑ کر جاتے ہو ساجن
تمہارے بعد کیا کیا دکھ اٹھایا
12
پھر ان کے بادباں لہرا رہے ہیں
کہیں پردیس کو پھر جارہے ہیں
غم و رنج والم کے گہرے سائے
دل بے تاب پر منڈلا رہے ہیں
13
دیوالی آئی اور بیوپاریوں نے ، سکھی پھر گھاٹ سے لنگر اٹھائے
پکڑ کر ان کے چپو پیاریوں نے، نہ جانے کس قدر آنسو بہائے
اٹھائے ہیں وہ دکھ دکھیاریوں نے، جنہیں سن کر زمانہ کانپ جائے
14
دیوالی آئی بنجاروں نے پھر سے
لیا بادِ شمالی کا سہارا
بلاتا ہے پھر ان کی کشتیوں کو
کوئی بھولا ہوا شاید کنارا
وائي
اے سکھیو! موری دھیر بندھائو
مرا من ہے پریت کا مارا
کیا بھول ہوئی تھی مجھ سے
کیوں روٹھا مجھ سے پیارا
مرا من ہے پریت کا مارا
ڈھونڈے ہے یہ دکھیا داسی
اب کس کا اور سہارا
مرا من ہے پریت کا مارا
میں کتنے بھی دکھ جھیلو
بسیرے بھولوں نہ سجن کا دوارا
مرا من ہے پریت کا مارا
کیا ہنسنے والے جانیں
سکھیو! دکھ درد ہمارا
مرا من ہے پریت کا مارا
ساجن کے پاس نہ پہنچا
جو راہی ہمت ہارا
مرا من ہے پریت کا مارا
نینوں میں نیر ہوں ایسے
جیسے برکھا کی دھارا
مرا من ہے پریت کا مارا
وائي
میں پربت پربت ماری
میں جنم جنم دکھیاری
مرا من ہے پریم پجاری
سمجھوں میں سجن کی بھیدی
پاس آئے جو کوئی ناری
مرا من ہے پریم پجاری
مرے جیون کی ہر آشا
اک بجھی بجھی چنگاری
مرا من ہے پریم پجاری
پھرتی ہوں جنگل جنگل
دن رات لگن کی ماری
مرا من ہے پریم پجاری
بن باسی بن کر سجنی
بن جائوں ان کی پیاری
مرا من ہے پریم پجاری
سر کاموڈ
پہلی داستان
1
ہزاروں عیب وابستہ ہیں مجھ سے
میں اک ملاح کی بیٹی ہوںپیارے
مجھے احساس ہے بے مایگی کا
کہ مانندِ تنِ ماہی ہوں پیارے
کہیں ایسے نہ ہو پھرے رخی ہو
خبر ہے تجھ کو جیسی بھی ہوں پیارے
کہاں میں اور کہاں محلوں کی رانی
میں اس زمرے میں کب آتی ہوں پیارے
کہاں ذرہ کہاں خورشیدِ تاباں
’سمہ‘ تو اور میں ’گندری‘ ہوں پیارے
2
تماچی! گھاٹ کے مالک خدارا!
نہ کرنا اپنی گندری سے کنارا
نہ لینا تم کوئی محصول ہم سے
کہ ہر ملاح ہے غربت کا مارا
کہیں آنکھیںنہ مجھ سے پھیر لینا
دیا ہے گر محبت کا سہارا
3
فقط یہ مچھلیاںہیں ان کی دولت
غریب و ناتواں ہیں یہ مچھیرے
مگر یہ فخر بھی کیا کم ہے ان کو
کہ اب ہیں حاشیہ بردار تیرے
4
یہ ان کے جال اور یہ کشتیاں ہیں
یہ ان کے ٹوکرے اور مچھلیاں ہیں
سحر کو تیرے در کی پیشیاں ہیں
پھر اس کے بعد ماہی گیریاں ہیں
خدا جانے ’تماچی۔جام‘ پیارے
تجھے اب ہم سے کیوںدلچسپیاں ہیں
5
یہ ان کی ’کھاریاں‘ اور ’چھاج‘ تو بہ
کہ بدبو مچھلیوں کی جن سے آئے
پڑے رہتے ہیں اس پانی میں وہ بھی
سگِ آبی جہاں غوطے لگائے
جو رہتے ہوں ہمیشہ ’باندھیوں‘ پر
تعجب ہے انہیں دل میں بسائے
نہ صورت ان کی اچھی ہے نہ سیرت
نہ جانے کیوں وہ ان کے ناز اٹھائے
6
کہاں تہمد ہیں اب کیچڑ میںلت پت
کہاں اب تن پہ برگِ نیلوفر ہیں
سروں پر جن کے کل تک موڑیاں تھیں
وہ اب راجہ کی منظور نظر ہیں
چلی جائیں وہاںجس وقت چاہیں
کھلے ان کے لئے محلوں کے در ہیں
سمہ نے بخش دی ہے جھیل ان کو
ستارے آج ان کے اوج پر ہیں
تماشا ہے کہ اب سارے مچھیرے
تماچی جام سے شیر و شکر ہیں
7
بھلا بیٹھی ہے وہ اپنی حقیقت
سمہ نے جب سے بخشی ہے حضوری
محل میں رانیوں کے ساتھ اکثر
رسوماتِ حرم کرتی ہے پوری
نہ اب وہ مچھلیاں ہیں اور نہ کھارے
کہاں ہے اپنے آپے میںیہ’ ’نوری‘
نہ جانے کس خیال و خواب میں ہے
کوئی دیکھے تو اس کی لاشعوری
8
ہوا گرویدہ اس گندری کا ایسا
کہ رتھ میں لے کے اپنے ساتھ آیا
بطور خاص جب نوری کے ہاتھوں
سمہ نے پھول نیلوفر کا پایا
9
ہجوم مہ و شاں میں جلوہ آرا
وہی حسنِ نگاہ شرمگیں تھا
تماچی جام کی آغوش میں بھی
غرور و ناز نوری کو نہیں تھا
10
کہاں بغض و حسد اب رانیوں میں
نیاز آگیں ہے نوری کی جوانی
سمہ سردار اس پر شیفتہ ہے
وہ راجہ ہے یہ اس کے من کی رانی
11
سنے تھے مچھلیوں میں ہاتھ لیکن
ادائوں میں نرالی شوخیاں تھیں
تماچی جام کی ہمسایگی سے
دلِ نوری میں کیا رعنائیاں تھیں
12
وہ ملاحوں میںپیدا تو ہوئی تھی
مگر قسمت میں تھے اوصاف حوری
سمہ سردار نے پہچان کر ہی
اسے بخشا تھا اعزاز حضوری
’سرندے‘ میں نیا تاگا ہو جیسے
یوں ہی تھی رانیوں کے بیچ نوری
13
بہت ہی خوبصورت ہے وہ نوری
نہیں ’کینجھر‘ میں اس کا کوئی ثانی
سمہ خود مورچھل جھلتا ہے اس پر
بنی ہے جب سے اس کے من کی رانی
تعلق کیا اسے ان مشغلوں سے
کہاں کی کشتیاں ’مڈ‘ اور ’میانی‘
14
وہی مالک ہے ان گھاٹوں کا نوری
اسی کی ہے یہاں فرماں روائی
بہر صورت تجھے لازم ہے پیاری
تماچی جام کی مدحت سرائی
15
سمہ اور سومرہ شہزادیوں کو
عبث ہے اب یہ زعمِ سرفرازی
خوشاکنجھر کی وہ نادار گندری
کہ جس نے جیت لی الفت کی بازی
وائي
راج محل سے ملاحوں میں
جام تماچی آیا
دیکھ کے اک البیلی سج دھج
نوری کو اپنایا
جام تماچی آیا
دھن دولت جنتا میں بانٹے
مایا جال کو توڑا
کنجھر کی گندری کے کارن
راج پاٹ کو چھوڑا
جانے کیا کیا کھو کر اس نے
من کا موتی پایا
جام تماچی آیا
کیسے کیسے ہیرے اس نے
اس گندری پر وارے
اپنے من کی جیت کے کارن
جیتے دائوں بھی ہارے
دھن دولت کی چنتا کیسی
سب کچھ بھینٹ چڑھایا
جام تماچی آیا
دوسری داستان
1
نہ جانا توڑ کر میرے سہارے
ترے قرباں مری آنکھوں کے تارے
ملی ہے گندریوں کی سرخروئی
تری وابستگی سے مجھ کو پیارے
خوشی سے کاش ہم دونوں ہمیشہ
رہیں آباد کنجھر کے کنارے
2
بہار آتے ہی پھر بادِ شمالی
سراپا مشکبو ہونے لگی ہے
درختوں کے گھنے سایوں میں پیارے
یہ کنجھر ایک گہوارہ بنی ہے
میں تیرے ساتھ ہوں آب رواں پر
میسر اب مجھے ہر اک خوشی ہے
کنول کے تیرتے پھولوں کی سج دھج
نگاہوں میں سمائی جا رہی ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاید
محبت مدعائے زندگی ہے
3
سمہ کی رانیاں بن ٹھن کے آئیں
تماچی نے نہ دیکھا آنکھ اٹھا کر
نہ چھوڑا ساتھ ملاحوں کا اس نے
اگرچہ لاکھ تکلیفیں اٹھائیں
پھرا وہ مچھلیوں کا جال لے کر
ہوائیں سارا دن کنجھرکی کھائیں
4
ہوئی اک دوسرے کے حق میں راحت
تماچی جام اور نوری کی الفت
سمجھتے ہیں سبکسارانِ کنجھر
وہ افسانہ تھا یا کوئی حقیقت
5
کنارہ کش رہی ہر انجمن سے
جدا سب سے تھی اس نوری کی فطرت
سے کیا اہلِ کنجھر سے تعلق
تماچی سے ہوئی جس کو محبت
6
تماچی گندریوں پر مہرباں ہے
تماچی کارسازِ بے کساں ہے
تماچی بے نیاز جسم و جاں ہے
تماچی حاصلِ صد آستاں ہے
تماچی ہی تماچی جاوداں ہے
تماچی محرمِ کون و مکاںہے
7
وہ ملاحوں کا دل آرام آیا
بصد آسائش و اکرام آیا
صدا یہ جھونپڑوں سے آرہی ہے
کہ پھر پیارا تماچی جام آیا
خدا رکھے سروں پر اس کا سایہ
وہ بن کر سربسر انعام آیا
8
تماچی جام اور تیری حضوری
یہ کیا اعجاز ہے اے چشمِ نوری
رہی باقی نہ کوئی حدِّ فاصل
مٹادی عشق نے ہر ایک دوری
وائي
گندری اس کو کون کہے گا
جام تماچی میت ہو جس کا
پاس بھی اس کو جو نہ بٹھائیں
وہ ہی اب درشن کو آئیں
پلٹی کیسی پریت نے کایا
گندری اس کو کون کہے گا
جام تماچی میت ہو جس کا
وہ راجا یہ اس کی رانی
پریم لگن کی ریت سہانی
جے جے بولے ساری جنتا
گندری اس کو کون کہے گا
جام تماچی میت ہو جس کا
سر سسئی
پہلی داستان
1
وہاں پہنچا مجھے امرِ مشیت! جہاں وہ آرزوئے جسم و جاں ہے
وہی ہے منتہائے سعیِ۔ٔ پیہم کہاں ہے وہ مرا پنہوں کہاں ہے
وہ میری زندگی کا آسرا ہے مرے قلب و نظر کا مدعا ہے
2
نگاہوں سے عیاں کربِ مسلسل لبوں پر نالہائے جانستاں ہیں
رخِ محبوب کے رنگیں نظارے نہ جانے کیوں تصور پر گراں ہیں
سرِ منزل کوئی دم توڑتا ہے محبت کے انوکھے امتحاں ہیں
3
بجھایا اس نے جتنا تشنگی کو
تمنائوں نے اتنا ہی بڑھایا
سسئی کو اشتیاقِ دلربا نے
مٹا کر بھی نہ جانے کیا بنایا
4
جھلک ہی دیکھ کر اس دلربا کی
سوا پہلے سے بھی وارفتگی ہے
بجھائے گا اسے کیا بحرِ ہستی
محبت کی انوکھی تشنگی ہے
5
مرے محبوب اک جامِ محبت
مجھے خود اپنے ہاتھوں سے پلا دے
قسم ہے مجھ کو اس تشنہ لبی کی
سراپا تشنۂ الفت بنا دے
نہ ہو سیری کبھی وارفتگی سے
بجھائوں تشنگی کو تشنگی سے
6
سسئی کو چاہئے پنہوں کی خاطر
سہے اُفتاد ہائے ناگہانی
بھرم قائم ہے جن کی تشنگی کا
انہیں خود ڈھونڈھنے آئیگا پانی
سسئی کو چاہئے پنہوں کی خاطر
سہے اُفتاد ہائے ناگہانی
بھرم قائم ہے جن کی تشنگی کا
انہیں خود ڈھونڈھنے آئیگا پانی
7
بسیرے جن کے ہیں آبِ رواں پر
انہیں کیوں زحمت تشنہ لبی ہے
وہ پنہوں ہے رگِ جاں سے قریں تر
سسئی جنگل میں جس کو ڈھونڈھتی ہے
سن اے محرومِ رازِ خود شناسی
عبث یہ شکوۂ بیچارگی ہے
8
سسئی ملتی رہی پنہوں سے لیکن
محبت آشنا ہونے نہ پائی
رہی در پردہ کچھ بیگانگی سی
بالاآخر خود پرستی رنگ لائی
9
چلی بادِ سموم ایسی کہ جس نے
ہلا ڈالا زمین و آسمان کو
کیا تعبیر پیغام اجل سے
سبھی نے اس بلائے ناگہاں کو
سہارا اپنی بے تابی کا سمجھا
ہر اک ذی روح نے آہ و فغاں کو
فضا میں ہر طرف چھایا ہوا غم
بیاباں سوزِ غم سے خود جہنم
10
اگر ہے کیچ کی حسرت سسئی کو
بنائے اپنا رہبر عاجزی کو
میسر ہے جسے بے لوث الفت
وہ کیا جانے فریب گمرہی کو
محبت برتر از بیم و رجا ہے
محبت آپ اپنا مدعا ہے
11
بنا کر عاجزی کو اپنا رہبر
سسئی! کوہ و بیاباں سے گزرنا
رہِ الفت میں جو کچھ پیش آئے
اسے بھولے سے بھی ظاہر نہ کرنا
شعورِ آبلہ پانی مبارک
شعارِ کوہ پیمائیِ مبارک
12
نہ اب بھنبھور میں آنسو بہانا
نہ ہاڑھے۱؎ کی طرف دامن بڑھانا
بڑی مشکل سے ملتی ہے یہ دولت
رموزِ عاشقی سب سے چھپانا
غمِ محبوب کے سوزِ دروں سے
جہاں تک ہو سکے دل کو بچانا
13
تجھے کیوں درد کی شدت کا شکوہ
ترا مسلک نہیں راحت شعاری
تجھے کیا فکر سامانِ جہاں سے
ترا ساماں متاعِ خاکساری
کہاں کا بعد کیسا قرب ظاہر
نہیں کچھ بھی سوائے بیقراری
وائي
تن من میں اب گونج رہا ہے کوئی سہانا گیت
آشائوں میں رچی بسی ہے ساجن تیری پریت
آجا لوٹ کے پریتم پیارے ترس رہے ہیں نین
اب بھنبھور میں تجھ بن بالم کیسے آئے چیں
کوئی نہیں سنسار میں ’آری‘! مجھ برھن کا میت
آشائوں میں رچی بسی ہے ساجن تیری پریت
تیرے بنا اے میرے گیانی! کون مرا دکھ درد مٹائے
کس کو بنائوں اپنا بھیدی کون مری اب دھیر بندھائے
میرے لئے ہے پت جھڑ جیسی برکھا رت کی ریت
آشائوں میں رچی بسی ہے ساجن تیری پریت
دوسری داستان
1
اے سسئی! کیچ دور ہے لیکن
بدگماں ہو نہ رہ گزاروں سے
دور پگڈنڈیوں پہ چلتی جا
تجھ کو ملنا ہے شہ سواروں سے
آرزو کو چراغِ راہ سمجھ
کیوں ہراساں ہے کوہساروں سے
اس قدر بھی تو وہ بعید نہیں
دیدۂ شوق نا امید نہیں
2
عقلِ کل بھی ہے حسنِ کامل بھی
خود وہ شاہد ہے اور خود مشہود
جرأت شوق گر میسر ہو
ہر قدم پر ہے منزلِ مقصود
3
کیچ کی سمت لے چلی مجھ کو
میری افسردہ حال تنہائی
دور افتادہ اک بیاباں میں
میرے پنہوں کو میری یاد آئی
4
میں کہاں آشنائے صحرا ہوں
میرے پیارے ترا سہارا ہے
مرحلے ختم ہی نہیں ہوتے
دردِ درماندگی نے مارا ہے
اف یہ بادِ سموم کی حدت
بھنک رہا جس سے جسم سارا ہے
جان لیوا ہے تشنگی میری
تیری خاطر مگر گوارا ہے
دشت و کہسار گونج اٹھے ہیں
میں نے جب بھی تجھے پکارا ہے
کاش! میری امید بر آئے
ہر طرف تو ہی تو نظر آئے
5
ڈھونڈھتی ہوں مگر نہیں ملتا
میرے پیارے کا نقشِ پا کوئی
آتشین رہ گزر گھنے جنگل
ہم سفر ہے نہ رہنما کوئی
6
دے سہارا مجھے مرے محبوب
تجھ سے ہوں اب میں لو لگائے ہوئے
دشت گنجان اور گھنے جنگل
ناگ بیٹھے ہیں پھن اُٹھائے ہوئے
7
ہائے اس اجنبی بیاباں میں
کنِ مصائب سے وہ ہوئی دوچار
کیا خبر تھی کہ رنگ لائے گا
آخر کار دو دلوں کا پیار
وائي
سکھیو! میں کہاں ڈھونڈھوں
موھے چھوڑ گئے پردیسی
میرے پنہوں کے سنتانی
وہ البیلے ’آریانی‘
اونٹوں کو سجا بنا کر
موھے گہری نیند سلا کر
منہ موڑ گئے پردیسی
موھے چھوڑ گئے پردیسی
کیا اچھا ہو پھر آئیں
اور ساتھ مجھے لے جائیں
پنہوں کی یاد ستائے
بھید اس کا کون بتائے
دل توڑ گئے پردیسی
موھے چھوڑ گئے پردیس
تیسری داستان
1
نہیں منت پذیرِ کوہ وصحرا
جمالِ یار ہر جا ضوفشاں ہے
خوشا غمازیٔ ذوقِ فراواں
بساطِ گوشۂ دل میں نہاں ہے
یہ سچ ہے مشکلاتِ زندگی میں
تلاش دوست سب سے جانستاں ہے
2
اگر ہے اے سسٔی! درکار پنہوں
بنا اپنا کسی خلوت نشیں کو
و گر نہ عمر بھر ڈھونڈھا کرے گی
بیاباں در بیاباں اس حسیں کو
3
اسے اپنے ہی گھر میں ڈھونڈھ ناداں
کہ پنہوں ہے چراغ زیرِ داماں
وہ تیری خلوت دل میں مکیں ہے
نہیں سرگشتۂ کوہ و بیاباں
نشانِ جلوہ گاہ یار کیا ہے
فقط اک اعتبارِ چشم حیراں
4
نہ لے بیکار غیروں کا سہارا
مکیں ہے تیرے ہی دل میں وہ پیارا
اسے تو در بہ در کیا ڈھونڈھتی ہے
سمجھتی ہے جسے آنکھوں کا تارا
5
دلیلِ معرفت کب ہیں یہ راہیں
سسٔی تو کیوں پریشاں کو بہ کو ہے
وہ دُرِّ بے بہا ہے تیرے دل میں
زباں پر تیری جس کی گفتگو ہے
شعور خود شناسی چاہئے بس
جو خود تجھ میں ہے اس کی جستجو ہے؟
6
ترا پنہوں ہے تیرے دل میں پنہاں
بیاباں کی طرف کیوں جارہی ہے
ملے گا اس طرح کب ’ہوت‘ تجھ کو
فریبِ نو بہ نو کیوں کھا رہی ہے
’لطیف‘ اس کو وفا کیا راس آئے
جو فکر ماسوا میں ڈوب جائے
7
لگن پنہوں کی ہے جن کے دلوں میں
کہاں زیبا انہیں آوارگی ہے
سسئی کی خود فریبی ہے سراسر
کہ اس کو ’کیچ‘ ہی میں ڈھونڈھتی ہے
8
نہیں اب شکوۂ بے اعتنائی
گوارا ہے مجھے بے دست و پائی
یہ صحرا اور یہ کوہ و بیاباں
سراسر ہیں دلیلِ نارسائی
دماغ اس کا بھلا کیا ساتھ دے گا
جسے حاصل ہے دل کی پیشوائی
اسے درماندہ ہی رہنا پڑے گا
خودی جس شخص کے دل میں سمائی
جو ’آری‘ میں نظر آتی تھی مجھ کو
جھلک وہ روح کے نزدیک پائی
مری رگ رگ میں نغمہ زن ہے ’پنہوں‘
خوشا قسمت مری خود آشنائی
9
خدا ناخواستہ گمراہ ہو کر
خودی کی منزلوں میں کھو نہ جانا
خدا را کیچیوں کی نام لیوا
سراپا دردِ حسرت ہو نہ جانا
10
نہ ہو آمادۂ ترکِ محبت
مثالِ مشک تن من میں بسالے
تجھے لازم ہے اے درمندہ راہی
محبت ہی کو تو رہبر بنالے
وائي
کت گئے ہیں میرے ساجن، کیا کروں کہاں میں جائوں
سکھیو! یہ بھول تھی میری، اب کیسے اُن کو پائوں
کت گئے ہیں میرے ساجن……
میں سوتے سوتے جاگی اک ہوک اٹھی من رویا
موھے چھوڑ گئے پردیسی، میں کب تک نیر بہائوں
کت گئے ہیں میرے ساجن……
پریتم کا سندیسہ دے کر سکھیو! مرا من بہلائو
بیکل ہیں مری آشائیں بھید اپنا کسے بتائوں
کت گئے ہیں میرے ساجن……
چوتھی داستان
1
دیدنی ہے ہوس کا یہ انجام
سیکڑوں راہ رو ہوئے ناکام
ہاں مگر جن کا رہنما ہے عشق
ان کی منزل ہے انکا پہلا گام
2
عیب ہر ایک آدمی میں ہے
آدمیت کسی کسی میں ہے
جو بلا نوش ہیں وہ کیا جانیں
کیا مزہ دردِ تشنگی میں ہے
کون جانے کہ زیست کی معراج
جاں سپاری و تن دہی میں ہے
3
بس وہی دے سکے گی میرا ساتھ
جان کو جو نہ سمجھے اپنی جان
جائو اب لوٹ جائو اے سکھیو!
کیچ کا راستہ نہیں آسان
4
میری ہمجولیو! مری سکھیو!
وسعت کائنات ہے آگے
سہل اندیش کا یہاں کیا کام
امتحانِ حیات ہے آگے
جرأت عزمِ کوہ پیمائی
حد ناممکنات ہے آگے
نہ خودی ہے نہ بے خودی کوئی
آستانِ نجات ہے آگے
5
کوہساروں سے بھاگنے والی!
یہ سکوں کس کو راس آیا ہے
سخت مشکل ہے راہ منزل دوست
کس نے گھر بیٹھے اس کو پایا ہے
6
جائو پیاری سہاگنو! جائو
میری تقدیر میں ہے تنہائی
دے رہی ہے پیام رست و خیز
آتشیں دشت کی یہ پہنائی
پیارے پنہوں کے پیار نے مجھ کو
کر دیا وقف کوہ پیمائی
تم کو بھی پھونک لے نہ ساتھ مرے
آتشِ غم کی شعلہ آرائی
آرزوے وصال اے سکھیو!
ہائے مجھ کو کہاں کہاں لائی
7
ماں! مجھے اب سکونِ خاطر ہے
اس کی حلقہ بگوش ہوں اب میں
میری سج دھج رہے فقیرانہ
اس کی جوگن نہ کیوں بنوں اب میں
8
بزم خلد بریں سے بڑھ کر ہے
ساقیا! مجھ کو تیرا میخانہ
ہوگئی اس کی زندگی سرشار
جس نے چکھ لی، ہوا وہ دیوانہ
کون جانے کہ کیوں ہے مے آلود
یہ مرا خرقۂ فقیرانہ
9
بدگماں ہوگئے مرے دیور
خیر، اے ماں قصور وار ہوں میں
گیت گائے نہ پھول برسائے
میں نے جانا گناہگار ہوں میں
ہاں مگر اس بلوچ کا وعدہ!
ہمہ تن محوِ انتظار ہوں میں
10
ہائے تیرے سوا مرے پنہوں
دل مرا اور کس کو اپنائے
میرے پیارے کیا تھا جو وعدہ
کاش وہ تجھ کو یاد آجائے
11
یاد کر پہلے اپنا عہدِ وفا
اے تمنائے وعدۂ محبوب
سخت کوشی ہے عشق کا شیوہ
ہو رہی ہے سفر سے کیوں مرعوب
صرف قول و قرار کیا معنی؟
سرنگوں انتظار کیا معنی؟
12
اے سسئی سن کے وعدۂ محبوب
بھول کر بھی کہیں نہ سو جانا
تو نے دیکھا نہیں ابھی شاید
حسن کا بے نیاز ہو جانا
13
چشم پرنم زباں پہ تیرا نام
دل پریشان اور ڈھلتی شام
اے تمناے مسکنِ محبوب
الجھنیں بڑھ رہی ہیں گام بہ گام
میں نہ لوٹوں گی، اب نہ لوٹوں گی
لاکھ بہکائے شدتِ آلام
14
روک سکتی نہیں سفر سے مجھے
میری مجبور آبلہ پائی
کہہ سکے کیا مجال کوئی مجھے
ناشناسِ غمِ شناسائی
میری منزل ہے مسکنِ محبوب
ہمت افزا ہے جادہ پیمائی
15
اشک آنکھوں میں پائوں میں چھالے
دل ہی دل میں گھٹے گھٹے نالے
میرے پیارے نہیں کوئی شکوہ
جتنا بھی چاہے مجھ کو تڑپالے
میں ترا آسرا نہ چھوڑوں گی
اے مری زندگی کے رکھوالے
16
اے سسئی تجھ کو کون سمجھائے
اب پتہ ہے نہ کچھ نشاں ان کا
تو رہی محوِ خواب اے ناداں
کر گیا کوچ کارواں ان کا
17
اہل بھنبھور لاکھ سمجھائیں
وہ نہ سمجھے گی کچھ بجز محبوب
نہ ملے کاروانِ گم گشتہ
رہِ الفت میں موت بھی مرغوب
یہ خلوصِ وفا، یہ صدقِ طلب
ہو گئے ایک طالب و مطلوب
18
میری ہمجولیو! مری سکھیو!
مشورہ دو نہ لوٹ جانے کا
اب یہ ہی ہے تلافی۔ٔ مافات
غم نہیں مجھ کو دکھ اٹھانے کا
شکر ہے مجھ کو عشق نے بخشا
حوصلہ خود کو آزمانے کا
وائي
تجھ بن ٹیس ہی ٹیس ہے جیون اے مرے من کے میت
ہائے انوکھا دکھ ہے پریتم، تیری میری پریت
روگی میرا تن ہے سارا
مجھ برھن کا کون سہارا
بالم تیرے سوگ نے مارا
آجا تیرا نام ہے پیارا
سن لے اے مرے سندر ساجن سانسوں کا سنگیت
ہائے انوکھا دکھ ہے پریتم میری پریت
ہوک اٹھے دکھ بڑھتا جائے
مورکھتا نے دن یہ دکھائے
بیٹھی ہوں اب آس لگائے
تو میرا دکھ درد مٹائے
مان لے بات ’لطیف‘ کی ساجن، ہے یہ ہی پریم کی ریت
ہائے انوکھا دکھ ہے پریتم، تیری میری پریت
پانچویں داستان
1
منزلِ عمر بے نشاں معلوم
حاصلِ سعیٔ رائیگاں معلوم
اک طرف کیچ اک طرف بھنبھور
عشق کا عزم بے کراں معلوم
کوہ و صحرا میں جستجو کیسی
اور پنہوں کا آستاں معلوم
اب مجھے ماسوا سے کیا حاصل
اور جزا و سزا سے کیا حاصل
2
اپنی ہستی پہ چھا گیا جب خود
عشق پابندِ جسم و جاں نہ رہا
کوہ و صحرا بھی ہوگئے نا پید
فاصلہ کوئی درمیاں نہ رہا
مرحبا وصلِ شاہد و مشہود
کوئی تفریق کا گماں نہ رہا
خود شناسی خدا شناسی ہے
ورنہ ہستی صنم تراشی ہے
3
جب میں ’بھنبھور‘ سے فرار ہوئی
مطمئن روح بے قرار ہوئی
میرا ’پنہوں‘ مجھی میں تھا پنہاں
بے سبب اتنی سوگوار ہوئی
اب نہ وہ درد ہے نہ وہ آزار
وہ اسیری نہ وہ در و دیوار
4
آپ ہی بن گئی ہوں میں ’پنہوں‘
آگئی راس مجھ کو تنہائی
اب وہ شرم و حجاب کیا معنی؟
لوگ کہتے ہیں مجھ کو سودائی
میری رگ رگ میں نغمہ زن محبوب
مرحبا میری خودشناسائی
کچھ نہیں فرقِ خالق و مخلوق
جز تماشائے شانِ یکتائی
بس وہی ایک منزلِ آخر
اک بہانہ ہے جادہ پیمائی
5
ظاہری علم و آگہی کب تک
وقفِ اوہام زندگی کب تک
خود سسئی اور خود ہی پنہوں ہوں
اے غمِ عشق یہ دوئی کب تک
6
سامنے اس کے موت بھی کیا ہے
ہائے یہ مرحلہ جدائی کا
توڑ ڈالے نہ کوہسار کہیں
سلسلہ جرأت آزمائی کا
اے مرے پنہوں! اے بلوچ مرے
سامنا ہو نہ جگ ہنسائی کا
اس سے پہلے کہ جان سے جائوں
میں تجھے اپنے سامنے پائوں
7
دیکھ کر اپنی خانہ ویرانی
رو رہی ہوں میں ان سہاروں کو
جن کے دھوکے میں آکے مجبوراً
کھو دیا تھا شتر سواروں کو
8
اے وصالِ دوام کی طالب
کچھ نہیں تیرے درد کا درماں
اپنی ہستی مٹا کے دیکھ ذرا
کیا دکھاتا ہے دیدہ حیران
کونسی شے ہے وہ نہیں جس میں
ذرہ ذرہ ہے مظہر جاناں
9
غور سے دیکھ آئینہ دل کا
عکس ہے اس میں حسنِ کامل کا
راہ کیا پوچھتی ہے غیروں سے
اُن کو کیا علم تیری منزل کا
پیار کی شرط ہے فقط ایثار
پیار بکتا نہیں سر بازار
10
تیری جھولی میں ہے وہ پہلے سے
مانگتی پھر رہی ہے جس کی بھیک
دیکھ اٹھا کر نقابِ ہستی کو
کہ رگِ جاں سے بھی ہے وہ نزدیک
11
آخر کار یہ ہوا معلوم
مجھ کو تیرا پتا لگانے میں
نور تیرا محیط عالم ہے
کوئی تجھ سا نہیں زمانے میں
12
جاوداں میری سعیٔ پیہم ہے
میرا عزمِ حیات محکم ہے
اے تمناے جلوۂ جاناں
ہر طرف ایک ہی سا عالم ہے
میری ہستی ہے شعلہ زارِ طلب
گل فشاں جس میں آتش غم ہے
13
کیا بتائوں رہِ محبت میں
میں نے پایا بھی کچھ تو کیا پایا
جب کسی اہلِ کیچ کو دیکھا
میں نے پنہوں سمجھ کے اپنایا
اے مرے دلنواز ’آریانی‘
ہر طرف تو ہی تو نظر آیا
14
رات دن تیری جستجو مجھ کو
راہبر جذبۂ محبت ہے
تیرا پرتو ہے روح وارفتہ
ہر تمنا تری امانت ہے
درمیاں ہے حجابِ عشق ابھی
یہ اٹھالوں تو عینِ راحت ہے
15
یوں بھٹکتی نہ کوہساروں میں
دور ہوتا نہ مجھ سے ’آریانی‘
کیا خبر تھی کہ پیار کے بدلے
ہاتھ آئے گی یہ پریشانی
میں جھلک دیکھتے ہی پنہوں کی
جانے کیوں ہو گئی تھی دیوانی
کچھ نہ سوچا تھا میں نے اے سکھیو!
ہائے میں اور میری نادانی
دے گئے جُل مجھے مرے دیور
آہ نادانی، اف پشیمانی!
وائي
میں آن پھنسی بپتا میں
پریتم موہے دھیر بندھانا
سجنا موھے چھوڑ نہ جانا
سنسان یہ پریت ڈگر ہے
کیا جانوں کیچ کدھر ہے
میرے پنہوں راہ سُجھانا
سجنا موھے چھوڑ نہ جانا
ہر گھاٹی ہے انجانی
ہو کہاں مرے آریانی
میری جیون جوت جگانا
سجنا موھے چھوڑ نہ جانا
چھٹی داستان
1
بے قراری بڑھا گیا کوئی
جسم و جاں میں سما گیا کوئی
میرا تن من جلا گیا کوئی
آگ ایسی لگا گیا کوئی
سایۂ زلفِ یار کیا کہیے
کتنے فتنے جگا گیا کوئی
2
سایۂ زلفِ یار نے مارا
عارضِ تابدار نے مارا
کرکے بیخود یہ اہتمامِ وفا
اک سلیقہ شعار نے مارا
ہائے یہ رات تیرہ و تنہا
یادِ گیسوئے یار نے مارا
سر بہ سر درد لادوا بن کر
خود مرے حالِ زار نے مارا
مرگِ عاشق نہیں شہادت ہے
مطمئن ہوں کہ پیار نے مارا
3
تجھ سے وابستہ ہر تمنا ہے
رحم کر اپنے جاں نثاروں پر
رحمت بے حساب کے قرباں
یوں خفا ہو نہ خاکساروں پر
کون ہے مجھ غریب کا والی
جی رہی ہوں ترے سہاروں پر
جان لیوا ہے کوہ پیمائی
ہو نہ جائوں ہلاک تنہائی
4
میں تری جستجو میں سرگرداں
رات دن صبح و شام ہوں پیارے
نظرِ التفات کے قرباں
رہروِ تشنہ کام ہوں پیارے
قہر زیبا نہیں غریبوں پر
مجھ سے نادار کم نصیبوں پر
5
سنگدل کوہسار سے کہہ دو
میرا محبوب آریانی ہے
کیوں دکھاتا ہے تو مجھے آنکھیں
جاں بلب میری نا توانی ہے
6
زخم ہی زخم پاے نازک میں
دید کا شوق چشم حیراں کو
راحتِ وصل کی نوید ملے
کاش میرے دل پُر ارماں کو
کیوں بھٹکتی ہوں کون ہے محبوب
کیا خبر وسعت بیاباں کو
ہائے گم گشتہ کیچیوں کی یاد
مضطرب کیوں نہ ہو دل ناشاد
وائي
انجانی راہ دکھا کر
دکھ میرا اور بڑھا کر
موھے اپنی اور بلا کر
ترسائیں گے ساجن پیارے
لوٹ آئیں گے ساجن پیارے
مجھ برھن کو اپنا کر
پاس آکر گلے لگا کر
نینوں سے پریم جتا کر
لے جائیں گے ساجن پیارے
لوٹ آئیں گے ساجن پیارے
ساتویں داستان
1
تیرا ہر نقشِ پا مرے پیارے
کیچ کا راستہ دکھاتا ہے
اب سرِ راہ بیٹھنا کیسا
سعیٔ پیہم پہ حرف آتا ہے
وصل اس کا نصیب ہو یا رب
جو مرے حوصلے بڑھاتا ہے
2
ان سے کہہ دو کہ ہوں کمر بستہ
جن کو وندر کی سمت جانا ہے
راہِ دشوارِ جستجو سے گریز
آپ اپنا مذاق اڑانا ہے
3
مضطرب ہے مری نگاہ ابھی
نامکمل ہے رسم و راہ ابھی
اے تمناے جلوۂ جاناں
دور ہے دور جلوہ گاہ ابھی
جارہی ہوں جہاں ہے وہ غمخوار
موت آساں ہے زندگی دشوار
4
وہ شب وصل تیرا گم ہونا
اب کہاں سے میں ڈھونڈھ کر لائوں
اے اجل مجھ کو اتنی مہلت دے
سر خوشِ جام شوق ہو جائوں
مرکزِ انتشارِ غم ہے دل
ایک شیرازۂ الم ہے دل
5
دیکھ اے لذتِ فراق یار
پا بہ زنجیر ہو گئی ہوں میں
وہ مختارِ جسم و جاں ہے میرا
جس کی الفت میں کھو گئی ہوں میں
6
رتبۂ مرگِ رہروانِ عشق
سہل اندیش لوگ کیا جانیں
میں نے اس راہ میں جو دیکھا ہے
وہ محبت کے آشنا جانیں
7
اب سر راہ بیٹھنا نہ کہیں
دیکھتا ہے وہ رہنما تجھ کو
دیدۂ تر سے خیر مقدم کر
گر ملے اس کا نقشِ پا تجھ کو
تیری خوش قسمتی کہ پنہوں نے
کردیا منزل آشنا تجھ کو
8
پاے درماندہ چشمِ خوابیدہ
راہِ الفت کو سازگار نہیں
عشق کا سوز و ساز کیا جانے
جو سرِ راہ اشکبار نہیں
زندگی ایک جاوداں تگ و دو
اس سے کوئی رہِ فرار نہیں
حاصلِ عشق پیچ و تابِ دوام
فرصت راحت و قرار نہیں
9
آرزو، جستجو، خلش، تگ و دو
بے بسی، درد، کرب، غم، آزار
کوہساروں کے سلسلے، توبہ
سانس لینا بھی ہوگیا دشوار
دیدنی ہے سسئی کی بیتابی
جیسے بیم و رجا میں ہو تکرار
کون جانے ’لطیف‘ کب ہو سسئی
واصلِ خاک، آستانۂ یار
10
بڑھتا ہی جا رہا ہے گام بہ گام
سلسلہ میری نارسائی کا
وہ خلش دے گئے مرے دیور
جس سے امکاں نہیں رہائی کا
11
اے نگہدار نقش پاے دوست
دل کی بے تابیاں بڑھائے جا
ان خطرناک کوہساروں میں
جرأت شوق آزمائے جا
12
کردیا شوق نے کمربستہ
شدتِ درد سے نہ گھبرائی
کون جانے سسئی کا عجز و نیاز
محوِ حیرت ہے ہر تماشائی
جذبِ دل کی کوئی مثال نہیں
’ہوت‘ کو ’حب‘ سے کھینچ لے آئی
آخر کار مل گیا محبوب
آگئی کام کوہ پیمائی
13
تشنگی، پیچ و تاب کا عالم
ایک مسلسل سراب کا عالم
وسعتِ کوہسار صبر شکن
لمحہ لمحہ عتاب کا عالم
وصلِ جاناں کا پیش خیمہ ہے
نو بہ نو اضطراب کا عالم
14
ڈوب اپنے ضمیر کے اندر
صحبت دیگراں سے کیا حاصل
اے تمناے جلوۂ جاناں
صرف آہ و فغاں سے کیا حاصل
مسلک عشق شانِ درویشی
کرّ و فرِّ جہاں سے کیا حاصل
15
ایک ہیجان بے کراں دل میں
اتنی بے چین اس قدر خاموش
جستجوے نشان منزل میں
اتنی بے چین جس قدر خاموش
16
اے سسئی اپنے دل کی آگ کو تو
ہر طرف شعلہ ریز ہونے دے
آتش غم ہے زندگی کی دلیل
آتش غمک کو تیز ہونے دے
17
راز رسواے اشک و آہ نہیں
رازداں جز دلِ تباہ نہیں
کھو دیا جس نے تیرے پنہوں کو
وہ خود طالبِ گواہ نہیں
خیر اتنا تو ہو گیا ثابت
خود فریبی دلیلِ راہ نہیں
وائي
یہ جیون ایک سفر ہے
پربت پہ پریت ڈگر ہے
’آری‘! مری آنکھ کا تارا
مرا پنہوں پیارا پیارا
مجھے جس کے سوگ نے مارا
نہیں کوئی اور سہارا
سنسان جگت ہے سارا
مرے من کا میت کدھر ہے
پربت پہ پریت ڈگر ہے
پھرتی ہوں آس لگائے
برھا کی ہوک چھپائے
بھنبھور میں چین نہ آئے
دن رین جیا گھبرائے
کب ساجن مجھے بلائے
سپنوں میں پریم نگر ہے
پربت پہ پریت ڈگر ہے
داسی میں بلوچوں کی ہوں
چرنوں کی دھول بنی ہوں
برھن ہوں اور دکھی ہوں
بھنبھور سے کیچ چلی ہوں
بیکل اب جیتے جی ہوں
بن باس ہی میرا گھر ہے
پربت پہ پریت ڈگر ہے
آٹھویں داستان
1
میں بے ہمدرد، بے کس، بے سہارے
کھڑی ہوں منتظر ’حب‘ کے کنارے
رواں ہیں دم بدم آنکھوںسے آنسو
خدارا آبھی جا اے میرے پیارے
کہاں تک میں رہوں گی دور تجھ سے
مرے پنہوں! مری آنکھوں کے تارے
2
وہی تو آرزوے جسم و جاں ہے
وہی تو آبروے امتحاں ہے
کہاں ہے میرا پردیسی کہاں ہے
بڑی مشکل میں جانِ ناتواں ہے
وہی اس تنگناے زندگی میں
دلِ وسعت طلب کا رازداں ہے
یہاں زاد سفر کا ذکر کیسا
نظر میں کائنات بے کراں ہے
3
ہوئی ہے گامزن تیرے سہارے
تری نا آشناے راہ پیارے
نہایت پُر خطر ہے وسعتِ دشت
برا ہے حال میرا ڈر کے مارے
عجب کیا راہ سے لوٹ آئے پیارا
کہ دل میں ہیں ابھی ارمان سارے
4
نہیں کوئی سسئی کا اب سہارا
گیا ہے چھوڑ کر جب سے وہ پیارا
کیا ہے ریگزاروں نے پریشاں
محبت نے اسے بے موت مارا
’لطیف‘ اس میں بھی کوئی مصلحت ہے
وگرنہ کس کو یہ زحمت گوارا
ملا دے پھر اُسے پنہوں سے اپنے
مدد اے جذبۂ الفت! خدارا
5
سسئی کو آکے عزرائیل نے جب
گراں خوابی کے عالم میں جگایا
بظاہر اور ہی منظر تھا لیکن
وہ یہ سمجھی پیامِ دوست آیا
6
سسئی نے دفعتاً ان سے یہ پوچھا
نکیریں اس کی پرسش کو جب آئے
کہو اے میرے دل کے راز دارو
تم اپنے ساتھ پنہوں کو بھی لائے
7
ٹپک اے قطرۂ خونِ تمنا
برنگِ بادہ میری چشم نم سے
ملی ہے کس کو دنیا میں رہائی
غم سود و زیان و کیف و کم سے
دیارِ دوست کی جانب بڑھے جا
نہ گھبرا رہگدز کے پیچ و خم سے
8
اسے بھنبھور سے اب کیا تعلق
سسئی آوارۂ راہِ وفا ہے
وصال دوست کی اک یاد رفتہ
دلِ درد آشنا کا مدعا ہے
بجز رنگینیٔ خونِ تمنا
مآلِ جستجو شوق کیا ہے
’لطیف‘ اس کو کہیں سے ڈھونڈ لائیں
وہ پیارا جو اچانک کھو گیا ہے
9
مبارک عزمِ کہسار و بیاباں
نہیں وہ ہوت اب ’ہاڑے‘ میںناداں
نہ ہونا سختی۔ٔ رہ سے پریشاں
اگرہے آرزوے وصلِ جاناں
10
بڑھے جا رہ نورد کوہ و صحرا
گلہ کیسا غمِ درماندگی کا
اگر پنہوں کی ہے دل میں تمنا
مٹا دے خوف دل سے بے کسی کا
ہٹا کر ریت کو رستہ بنانا
کہیں تو اس کے نیچے دب نہ جانا
11
یہ سنگ و خشت ہیں یہ پیچ و خم ہیں
انہوں نے تھا جہاں ڈیرا جمایا
خدا جانے کہاں گم ہو گئے وہ
نشان ان جانے والوں کا نہ پایا
مگر صد آفریں اے سعیٔ پیہم
سسئی کو تو نے کیا سے کیا بنایا
’لطیف‘ ان کوہساروں کو دعا دو
سسئی کو کیچ کا رستہ دکھایا
وائي
تم بن میرے پریتم پیارے تڑپوں گی دن رین
جائو نہ چھوڑ کے مجھ کو اکیلی جیارا ہے بے چین
سکھیو! آئو منائیں
ساجن روٹھ نہ جائیں
بھاڑ میں جائے یہ جگ جیون، چھوڑو پیا نہ ساتھ
مجھ اندھی کا کون سہارا رکھیو ہاتھ میں ہاتھ
نینا نیر بہائیں
ساجن روٹھ نہ جائیں
ہائے وہ اونٹ جو میرے من کو مار گئے بن موت
سندر سپنوں کی ہر آشا بن گئی میری سوت
اپنا میت بنائیں
ساجن روٹھ نہ جائیں
نویں داستان
1
تجھے جس کی تمنا ہے وہ محبوب
ملے گا باوجودِ نارسائی
یہ عزم رہروی اے سعیٔ پیہم
مٹادے گا حدودِ نارسائی
2
وہ بیگانہ سہی جس کی طلب ہے
کوئی کجرو اسے کب پاسکا ہے
بغیر اک رہروِ راہِ طلب کے
سرِ منزل بھلا کون آسکا ہے
3
کہیں دھوکا نہ دے مجھ غمزدہ کو
خرامِ دشت پیماے ہوا بھی
کہیں یہ ریگ صحرا گم نہ کردے
مرے پنہوں کے پیارے نقش پا بھی
4
ابھی اے آرزوے وصلِ جاناں
مری قسمت میں ہیں کوہ و بیاباں
مرے پنہوں کا نقش پا مٹا کر
صبا نے کردیا مجھ کو پریشاں
5
گذرنا ہے تجھے بھی اب ادھر سے
گئے ہیں کیچ کو ناقے جدھر سے
خدارا مبتلاے بار ہستی
سبق لے اس غبار رہگذر سے
6
تلاشِ دوست میں ہر ایک منزل
فریبِ راہ ہے منزل نہیں ہے
تیری رہبر ہے پیہم بے قراری
تمناے سکونِ دل نہیں ہے
کوئی کہدے سسئی سے جا کے ’سید‘
محبت سعیٔ لا حاصل نہیں ہے
7
گھسٹتی جارہی ہوں میرے پیارے
میں لے کر اپنی کہنی کا سہارا
نہیں اب پیر اٹھانے کی سکت بھی
نہ کر اب دیر آنے میں خدارا
8
سسئی کی سعیٔ پیہم رنگ لائی
اسے راس آگیا دردِ جدائی
بخیر و عافیت ’حب‘ سے گذر کر
نوید آسائشِ منزل کی پائی
9
قسم ہے تجھ کو درماندہ نہ ہونا
کسی مشکل سے مشکل مرحلے میں
سفر ہر ایک راہی کے لئے ہے
نہ آئے فرق تیرے حوصلے میں
10
کہاں ہے اے مری آنکھوںکے تارے
بڑی بے چینیوں میں دن گذارے
بنے گردِ سفر کتنے بیاباں
تجھے اب تک نہ پایا میرے پیارے
میںکیا خاطر میں لائوں مشکلوں کو
سمجھتی ہوں ترے پیہم اشارے
بتا اے آرزوے دیدِ جاناں
کہیں دیکھے ہیں ایسے غم کے مارے
’لطیف‘ اس راہرو پر آفریں ہے
جو اس عالم میں بھی ہمت نہ ہارے
11
کہاں تک دشت پیمائی کا شکوہ
یقیں ہے تیرے پاس آئوں گی پیارے
بھٹکتی ہی رہوںگی تیری خاطر
مصائب سے نہ گھبرائوں گی پیارے
یہ نازک پیر اور خارِ مغیلاں
مگر جیسے بھی ہو، جائوں گی پیارے
ندامت سے جھکا کر اپنے سر کو
تجھے پھر سے منا لائوں گی پیارے
12
اسے کیوں شکوۂ درماندگی ہو
جسے اس کی محبت کھینچتی ہو
گذر جائے گا کوہ و دشت و در سے
وہ جس کی آس پنہوں سے لگی ہو
مقدر میں ہے اس کے سرفرازی
میسر جس کو ایسی زندگی ہو
وائي
پھروں میں ڈگر دن رین
ترس ترس گئے میرے نین
پربت پربت گھاٹی گھاٹی تیری کھوج لگائوں
پھر بھی اے ابھمانی پریتم! تیرا بھید نہ پائوں
آجا لوٹ کے من بیکل ہے آئے نہ تجھ بن چین
پھروں میں ڈگر ڈگر دن رین
کہنے کو ہوں اور کسی کی، پر ہے تجھ سے پیار
مورکھ ہے وہ سکھی جو بالم! جائے نہ تیرے دوار
ڈھونڈ رہے ہیں امرت رس کو میرے پیارے نین
پھروں میں ڈگر ڈگر دن رین
دسویں داستان
1
سن مری روح کی پکار نہ جا
جا نہ اے جانِ انتظار، نہ جا
دل مضطر ہے سوگوار نہ جا
ہوک اٹھتی ہے بار بار، نہ جا
یہ بیاباں، یہ صعوبتِ راہ
یہ درندے یہ ریگ زار، نہ جا
میںنہ جائوں گی لوٹ کر پیارے
کر بھی لے میرا اعتبار، نہ جا
کیسی بے چین ہوں تری خاطر
دیکھ تجھ سے ہے کتنا پیار، نہ جا
2
تجھ سے اب تک نباہ کرتی ہوں
اعتراف گناہ کرتی ہوں
دشت و کہسار تک بھی چیخ اٹھے
کس قیامت کی آہ کرتی ہوں
3
غم سے مانوس ہوگئی ہوں میں
وہ خوشی ہے نہ وہ زمانہ ہے
اب تو وہ ذوق و شوق کا عالم
ایک بھولا ہوا فسانہ ہے
4
جس سے وابستہ ہے مری تقدیر
اس کی آمد ہے زیست کا پیغام
سر بہ سر اضطرابِ شوق ہوں میں
اب مجھے صبر وشکر سے کیا کام
5
زندگی صبر و شکر کے با وصف
ناوکِ غم سے دلفگار رہی
کون جانے کہ میں تری خاطر
تا ابد وقفِ انتظار رہی
6
روے زیبا ذرا دکھا جائو
دل پریشاں ہے اب تو آجائو
پھر مرا شوق کم نہ ہو جائے
آؤ آکر اسے بڑھا جائو
دیکھ کر تم کو کچھ نہ دیکھ سکوں
چشمِ حیراں میں یوں سما ج
وائي
نینا درشن کی ابھلاشی ہیں اب تو آجائو
پل بھر کو بھی چین نہیں ہے ساجن دھیر بندھائو
داسی بنکر اونٹ تمہارے پربت پر لیجائوں گی
اپنے من کا سکھ سمجھوں گی جتنے دکھ بھی پائونگی
پریم پجارن ہوں میں اپنا تن من بھینٹ چڑھائونگی
کیچ کے ہر اک کاگا کو میں چن چن ماس کھلائونگی
مان لو بات ’لطیف‘ کی پیارے ’آریانی‘ آجائو
پل بھر کو بھی چین نہیں ہے ساجن دھیر بندھائو
گیارھویں داستان
1
دلِ پر سوز کی ہمراز ہو جا
روادارِ نگاہِ ناز ہو جا
سمجھ اس نغمۂ ایما کی لے کو
بذات خود سکوتِ ساز ہو جا
صداے محرمانہ آ رہی ہے
سراپا گوش بر آواز ہو جا
2
بناے غیریت تیری خودی ہے
عبث یہ وقفۂ بیگانگی ہے
یہ قیدو بندِ حرف و نغمۂ و صوت
حریف اعتماد عاشقی ہے
نہیں جنبش بھی اب اس کے لبوں کو
جسے حاصل سکوتِ آگہی ہے
سراپا گوش بر آواز ہو جا
بڑی پر سوز لے اس نغمہ کی ہے
دلوں میں ایک ہیجانِ مسلسل
فضا میں ارتعاش سرمدی ہے
3
کبھی تو نالۂ پرجوش ہو جا
کبھی خود ہی سراپا گوش ہو جا
بہر صورت مٹا دے اپنی ہستی
بہر عنواں حریفِ ہوش ہو جا
نگاہ دوست تیرا خوں بہا ہے
یہی مفہوم ِ تسلیم و رضا ہے
4
کہاں یہ شاخہاے نو دمیدہ
ملیں گی پھر تمہیں اے ساربانو!
تمہارے کام آئیں گی سفر میں
لئے جائو انہیں جو میری مانو
5
جدھر دیکھو غبارِ رہگذر ہے
کدھر ہے نقشِ پا تیرا کدھر ہے
کہاں ہے روشنیٔ دل کہ در پیش
جہاں کا تیرہ و تنہا سفر ہے
6
مجھے محسوس ہوتا ہے یقینا
کہ برگ و بار ہیں تیرے نظارے
مداوا چشمِ حیراں کا ترا نور
انیسِ رندگی تیرے اشارے
7
تفاوت ظاہر و باطن میں رکھنا؎
بہر عنواں حریف مدعا ہے
ترے ہر فعل سے ثابت ہو پیاری
کہ تیرا دل حقیقت آشنا ہے
وائي
یہ برھن تمہیں پکارے
لوٹ آئو پریتم پیارے
بھنبھور کو چھوڑ چلی ہوں
سب ناتے توڑ چلی ہوں
سکھ سے منہ موڑ چلی ہوں
نینا ہیں پریت کے مارے
لوٹ آئو پریتم پیارے
جس نے یہ چوٹ نہ کھائی
کیا جانے پیڑ پرائی
ہو لاکھ مری رسوئی
آئوں گی پاس تمہارے
لوٹ آئو پریتم پیارے
ابیات متفرقہ
1
نیند آنکھوں میں کروٹیں لے کر
آج تیری تلاش کرتی ہے
روحِ ماضی میں ٹیس سی اٹھ کر
حال کو پاش پاش کرتی ہے
اور ٹھہرے ہوئے دکھوں کو جب
مائلِ ارتعاش کرتی ہے
میری ہستی مچلنے لگتی ہے
تیری یادوں میں ڈھلنے لگتی ہے
2
میں دلدادہ ہوں تیری میرے ’آری‘
کروں یہ التجا میں اور کس سے
عطا کر مجھ کو ایسا عزمِ راسخ
وقارِ کوہِ شرمندہ ہو جس سے
3
سسئی تجھ کو اگر پیارا ہے ’آری‘
بھکارن بن کے اس کو ڈھونڈ پیاری
بسرکرنی ہے اب پنہوں کی خاطر
بیاباں در بیاباں عمر ساری
4
بجا آسائش و آرام اپنا
مگر بہتر ہے تیری بے قراری
نہیں اے رہرو راہِ تمنا
صلاے عام یہ الفت شعاری
5
کسی کی اجنبی نظروں کی خاطر
نہ جانے کیوں ہے اس کو بے قراری
کوئی جانے گا کیا دکھ درد اس کا
عجب عالم میں ہے یہ غم کی ماری
6
سپیروں کی طرح بیباک ہو کر
بیاباں در بیاباں گھومتی ہے
’لطیف‘ ان روح فرسا وادیوں میں
خدا جانے سسئی کیا ڈھونڈتی ہے
7
یہ تیرا رشتہ و پیوند ان سے!
وطن جن کا ہے کوسوں دور پیاری
ملے شاید پتہ ان کا کسی سے
کبھی ہمت نہ ہار اے غم کی ماری
کہاں کی دھوپ کیسی چھانو آجا
ترا مسلک ہے پیہم بے قراری
8
وہ دیور تو ہیں پہلے ہی سے بدظن
مجھے اب ان سے امیدِ وفا کیا
رہے بھنبھور میں اب کس کی خاط
اسے درکار پنہوں کے سوا کیا
’لطیف‘ اس رہِ گذار پر خطر میں
سسئی کو اور کوئی آسرا کیا
فقط اک اعتبارِ وصلِ جاناں
مداواے دلِ درد آشنا کیا
9
کہیں ایسا نہ ہو اے غم رسیدہ
کہ تو پنہوں کو اپنے بھول جائے
سوا اس کے نہیں کوئی بھی تیرا
جو اس بے چارگی میں کام آئے
محبت میں وہی جیتے گا آخر
جو ہنستے کھیلتے ہر دکھ اٹھائے
وائي
کوئی عالم ہو تیری آرزو ہے
جہاں جاتی ہوں تیری جستجو ہے
فراز کوہسار و وسعت دشت
بڑی پرکیف سعی۔ٔ جستجو ہے
کہاں ڈھونڈوں تجھے اے میرے پنہوں
کہاں وہ ناقۂ آوارہ خو ہے
جبین شعلہ آسا کو ابھی تک
سکونِ سنگِ در کی جستجو ہے
خدارا اب وہیں مجھ کو بلالے
جہاں اے پیارے ’آری جام‘ تو ہے
وائي
صدائے آرزو بن کر وہ پیارا
مرے ہر ریشۂ جاں سے پکارا
وہیں اب بھیج دو مجھ کو خدارا
جہاں ہے وہ مری آنکھوں کا تارا
مجھے بھنبھور میں روکو نہ سکھیو!
نہ مانوں گی میں کہنا تمہارا
یہ کیسی آگ ہے اے وحشت دل
سلگ اٹھا ہے میرا جسم سارا
سہارا دے مجھے اے سعی۔ٔ پیہم
نہیں درماندگی مجھ کو گوارا
’لطیف‘ اب کیا کریں ذوقِ طلب کو
ہوا ہے سامنے وہ جلوہ آرا
وائي
خدارا روٹھ کر مجھ سے نہ جائو
مرے پنہوں کہاں ہو لوٹ آئو
نہ ہانکو کیچیو! اونٹوں کو اپنے
مرے نزدیک انہیں لاکر بٹھائو
جہیز اپنا لئے بیٹھی ہوں کب سے
کہاں ہیں میرے باراتی بلائو
وہی رونق وہی جشنِ طرب ہو
اب آجائو مری شادی رچائو
کوئی دکھ بانٹنے والا نہیں ہے
نہ اب اس سے زیادہ دل دکھائو
نہیں بھنبھور میں اب کوئی میرا
تمہیں آکر مجھے اپنا بنائو
وہی ہے بے وسیلوں کا وسیلہ
’لطیف‘ آئو اسی کے گیت گائو
وائي
تھکی ہاری اکیلی بے سہارے
نہ جانے کیچ کب پہنچوں گی پیارے
ہوئی ہے شام سورج ڈوبتا ہے
کہاں ہے اے مری آنکھوں کے تارے
نشاں ان سے میں تیرا پوچھتی ہوں
مگر یہ اجنبی دہقاں بچارے
بتائیں گے بھلا کیا تو کہاں ہے
مجھ اے کاش تو خود ہی پکارے
نہیں رکتے مری آنکھوں کے آنسو
پھٹا جاتا ہے سینہ غم کے مارے
میں تیری خاکِ پا بن کر رہوں گی
بجا لائوں گی تیرے حکم سارے
وائي
کوئی ہمدم نہ کوئی راہبر ہے
میں تنہا اور یہ لمبا سفر ہے
پیادہ پا ہوئی ہوں کوہ پیما
دیار غیر راہِ پرخطر ہے
نشاں تیرا بتائے گا کوئی تو
مرا غم آشنا ہر اک شجر ہے
جلاکر اپنے گھر کو پوچھتی ہوں
بتا اے بیکسی جانا کدھر ہے
تیرے ہونٹوں سے مے پینے چلی ہوں
ترا ہر نقشِ پا مجھ کو خضر ہے
وائي
کوئی دیکھے تو میری چشمِ گریاں
کوئی سمجھے مرا حالِ پریشاں
سحر ہوتے ہی میں جائوں گی سکھیو!
بلاتے ہیں مجھے کوہ و بیاباں
خداوند! کوئی رہگیر آکر
بتا دے مجھ کو راہِ شہر جاناں
وائي
مری سکھیو! مجھے ایسی دعا دو
نثار جلوۂ جاناں بنا دو
سفر درپیش ہے اب آخرت کا
مجھے کچھ کام کی باتیں بتا دو
لحد میں جن سے دل کو چین آئے
وہ آدابِ حکیمانہ سکھادو
خدا اور اس کے پیغمبر کی خاطر
کوئی پیغام جاں پرور سنادو
میںاب جا کر نہ واپس آسکوں گی
بھلادو اب مجھے دل سے بھلا دو
وائي
سکھی دل کی لگی دل میں چھپائے
پھروں گی اب سجن سے لو لگائے
چلو اے پیاریو! چل کر منائیں
خدا جانے وہ آئے نہ آئے
کسی کی کیا مجال اے ہم نشینو!
کہ بات اس دلربا کی ٹال جائے
بھکاری بن کے اکثر عاشقوں نے
درِ محبوب پر ڈیرے جمائے
کوئی خالی نہ آیا جس کے در سے
مجھے بھی کاش وہ داتا بلائے
وائي
کہی ہے بات جو اس آشنا نے
میں جانوں اور یہ دنیا نہ جانے
خبر بھی ہے تمہیں اے کوہ و صحرا
مجھے جانا ہے پنہوں کو منانے
محبت میں اسی کی جیت ہوگی
جو ہارے اور ہار اپنی نہ مانے
اجل کی گود یا آغوشِ جاناں
حقیقت ایک، باقی سب فسانے
اشاروں پر کسی پردہ نشیں کے
یوں ہی بنتے بگڑتے ہیں زمانے
وائي
مرے پنہوں! میںجب وندر میں آئی
گماں یہ تھا کہ تیری راہ پائی
بیاباں ہی بیاباں اور وہ بھی
فقط پیمانۂ صبر آزمائی
نہ آتے کیچ سے پنہوں کے بھائی
یقینا ان کے دل میں تھی برائی
فریب ایسا دیا مجھ کو کہ آخر
ہوئی مجبورِ دردِ نارسائی
تری خاطر بیاباں میں بھی خوش ہوں
گوارا ہے مجھے تیری جدائی
مرے پنہوں! کوئی شکوہ نہیں ہے
اسی میں ہے اگر میری بھلائی
سنا ہے اپنے اونٹوں کو سجائے
جتوں کی ایک ٹولی آج آئی
کیا آرام اس وادی میں لیکن
کسی کو بھی خبر ہونے نہ پائی
’لطیف‘ ان کو کوئی ڈھونڈے کہاں تک
جو خود کرتے ہیں اپنی رہنمائی
رہِ منزل بھی ہیں، منزل بھی ہیں وہ
نہ گمراہی نہ خوفِ نارسائی
سر معذوری
پہلی داستان
1
کاھشِ جاں خلوصِ قلب کے ساتھ ’ہوت‘! تیری طرف رواں ہوں میں
منتظر ہیں سگان کوچۂ یار ان کی خادم بہ جسم و جاں ہوں میں
سنگریزے ہی سنگریزے ہیں اور دیبا و پرنیاں ہوں میں
دم بخود ہوں تری تمنا میں والہانہ رواں دواں ہوں میں
2
سامنے ہے شکار چپ ہو جا
اے سگِ کوے یار چپ ہوجا
پیارے پنہوں کے پیار کی ماری
میں ہوں اک خاکسار چپ ہو جا
کیوں سمجھتا ہے اجنبی مجھ کو
اے مرے راز دار چپ ہو جا
میں ہوا خواہِ وصلِ جاناں ہوں
اے سگِ کوے یار چپ ہو جا
3
اس کی صورت سے جو نہیں ڈرتے
ان سے مانوس ہو کے رہتا ہے
اے دلِ بے قرار سنتا جا
کیا سگِ کوے یار کہتا ہے
4
تو کسی اور کو نہ زحمت دے
کام میرا تمام کرتا جا
اک ذرا اپنے دستِ نازک کو
مائلِ انتقام کرتا جا
5
جہاں مردار ہے اہل جہاں سگ
یہ جگ والوں کی حالت ہے یہ ہے جگ
6
مثل مردار ہے جہاں کہ یہاں
ہم نے دیکھی بشر میں خوے سگاں
قدر کیا جانیں ان کی اہلِ ہوس
خون دل پی کے جو ہوئے ہوں جواں
7
جان کر مجھ کو طالبِ دیدار
چونک اٹھے سگانِ کوچۂ یار
اپنے مالک کے حکم سے مجبور
یہ وفا کیش اور خلوص شعار
چاہتیں ہیں جو ان کے مالک کو
یہ ستاتے نہیں انہیں زنہار
8
ان کے آقا نے ان کو اکسا کر
دم بہ دم بھونکنا سکھایا ہے
ورنہ کیا ہیں سگانِ کوچۂ یار
کس نے ایسوں کو منہ لگایا ہے
ان کی آواز کو بسا اوقات
دل کی گہرائیوں میں پایا ہے
9
مجھ کو پہچان تو گئے ہوں گے
راز داں ہیں یہ میرے پیاروں کے
خوف مجھ کو نہیں کوئی زنہار
ان درندوں سے کوہساروں کے
وہ بظاہر مجھے ڈراتے ہیں
اصل میں مجھ کو آزماتے ہیں
وائي
تجھ پہ ظاہر ہے عاجزی میری
دیکھ اے دوست زندگی میری
اے خوشا شدت غم و آلام
بس مجھے مل گئی خوشی میری
پڑھ رہی ہوں سبق محبت کا
بڑھتی جاتی ہے بے خودی میری
میں ہوں مانوس حزن اے پیارے
عیں راحت ہے بیکسی میری
فاقہ مستی نہیں تو کیا ہے ’لطیف‘
آرزوے وصال بھی میری
دوسری داستان
1
ہم نے اپنا لیا ترے غم کو
کام حرص و ہوا سے کیا ہم کو
چاہتے ہیں کہ مسکرائیں ہم
کیا غرض بھوک پیاس سے ہم کو
اب کوئی کس طرح چھپائے گا
اپنی دیوانگی کے عالم کو
اپنی غفلت سے کھونہ بیٹھے کہیں
چشم خوابیدہ حسن محرم کو
محو عشرت شعار اپنا بنا
طلب انبساط پیہم کو
2
وحشت دل کو سازگار نہیں
وہ گریباں جو تار تار نہیں
یہ گل اندامی و سمن پوشی
محرم شوق وصل یار نہیں
اے شناساے راہ و رسم عدم
عیش و عشرت ترا شعار نہیں
3
حاجت در شاہوار نہیں
اتنا ارزاں وصالِ یار نہیں
یاد رکھ سر گذ شت ’لیلا‘ کو
زیب و زینت کا اعتبار نہیں
4
خنجر ’لا‘ کو آبدار تو کر
اپنی حیوانیت پہ وار تو کر
ہر تمنائے زیست بے معنی
دوشِ ہستی سے کم یہ بار تو کر
راس آئے گا قول ’سید‘ بھی
جرأت شوق استوار تو کر
5
دیکھ ’ہاڑھے‘ سے وہ گذر آئی
کیچ کی راہ جس نے اپنائی
اب تو ہمجولیوں کے جھرمٹ میں
اس کو محسوس ہوگی تنہائی
ساز و سامانِ زیست کیا معنی
اور کس کام کی خود آرائی
کیسی حرص و ہوس محبت میں
شرط ہے اس میں جادہ پیمائی
بوالہوس کے لئے نہیں آساں
دیدہ و دل کی بے تمنائی
میم و زر سے ہوئی ہے کب حاصل
شوقِ جاوید کی توانائی
6
اپنی بے مائیگی بجا لیکن
وہ غم دل جو اب پرایا ہے
اور جس کی عزیز داری
کوہ و صحرا میں آزمایا ہے
کیچ میں کیوں نہ مہرباں ہو گا
جو مرے ساتھ ساتھ آیا ہے
فخر ہے مجھ کو پیارے پنہوںپر
یہ سفر مجھ کو راس آیا ہے
7
ایک گمنام گوشہ گیر تھی میں
لیکن اے جانِ جاں ترا دستور!
سندھ تو سندھ ساری دنیا میں
کر دیا مجھ کو عشق نے مشہور
وائي
تو ہے داسی ہوت پیا کی بات تری بن آئے
سکھی ری پریت ڈگر مل جائے
اونچے نیچے پربت سجنی رنگے لہو سے پائوں
بیکل من میںکیچ کی آشا ڈھونڈے پب کی چھائوں
جن اونٹوں کی کھوج میں ہے تو ان اونٹوں کو پائے
سکھی ری پریت ڈگر مل جائے
پگ پگ پر انجانی بادھا دور ’جتوں‘ کا دیس
بدلے ہیںہر اک بپتا نے کیسے کیسے بھیس
بن آریانی اس درگت میں کون تجھے اپنائے
سکھی ری پریت ڈگر مل جائے
جس کے ٹوٹے من میں باجے برھا کاسنگیت
وہ برھن ساجن کی داسی، ساجن اس کا میت
چھا جائے جب گھور نراشا پریتم دھیر بندھائے
سکھی ری پریت ڈگر مل جائے
تیسری داستان
1
لاکھ رنج و غمِ فراق سہے
حوصلے پھر بھی تازہ دم ہی رہے
رہِ الفت کی مشکلات نہ پوچھ
کوئی یہ مشکلات کس سے کہے
پیرو نقشِ پاے یار ہوں میں
محرم جبرو و اختیار ہوں میں
2
ہائے گذروں گی پیادہ پا کیونکر
پیش افتادہ رہگذاروں سے
ایک ہیبت سی مجھ پہ طاری ہے
ان فلک بوس کوہساروں سے
کون جانے کہاں ملوں جا کر
اپنے گم گشتہ شہسواروں سے
3
قہر آلود شدت سرما
راہ دشوار اور میں انجان
اب سرِ راہ بیٹھنا کیسا
کتنے بیچین ہیں مرے ارمان
یوں بظاہر تو میں بھی انساں ہوں
اک مجسم تلاش جاناں ہوں
4
لاکھ مجبوریاں سہی لیکن
اب میں ہاڑے سے منہ نہ موڑوں گی
پر خطر وادیوں سے گھبرا کر
کیچ کا راستہ نہ چھوڑوں گی
میں ہوں پنہوں کی طالب دیدار
عہد اپنا کبھی نہ توڑوں گی
5
کوہ و صحرا میں کام آئے کون
میرے دکھ درد کو مٹائے کون
اپنے گم گشتہ راز داروں سے
میں بہت دور ہوں ملائے کون
ہائے کس راہگیر سے پوچھوں
مجھ کو ان کا نشاں بتائے کون
6
ہو نہ نشو و نما درختوں کی
اور اونچے یہ کوہسار نہ ہوں
دیکھ لوں میں نقوش پاے حبیب
میری آنکھیں جو اشکبار نہ ہوں
7
اے بیاباں تجھے خبر ہو گی
کس طرف میرا ماہِ طلعت ہے
میرے پیاروں کا راز دار ہے تو
کیوں یہ طاری سکوت حیرت ہے
پیچ در پیچ رہگذاروں میں
روز افزوں غمِ محبت ہے
دیکھ تو ہائے کتنی درماندہ
ایک غمگین اسیر فرقت ہے
کوئی آکر مجھے سہارا دے
ہر قدم پر نئی مصیبت ہے
خارزاروں کے مرحلے توبہ
قابل رحم میری حالت ہے
8
غم نہیں پیر لاکھ زخمی ہوں
میں وہاں ننگے پائوں جائوں گی
شکوۂ سنگ و خار ہے کس کو
کون کہتا ہے لوٹ آئوں گی
9
آریانی سے ہے سسئی کو لگائو
نہیں رسم جہاں کی زندانی
وہ سدا ننگے پائوں چلتے ہیں
جن کا شیوہ نہیں تن آسانی
وائي
سکھی ری! پریت کی ریت سہائے
جیون کی پھلواری سجنی! نیارے پھول کھلائے
میرا من للچائے
سکھی ری! پریت کی ریت سہائے
ہاتھ میں تھی کل سانجھ کو سکھیو! جن اونٹوں کی ڈور
بھور بھئی تو ان کو لے کر چلے گئے چت چور
گہری نیند میں ایسی سوئی جیسے جگ سوجائے
سکھی ری! پریت کی ریت سہائے
پربت پربت گھوم گھوم کے ہوئی تھکن سے چور
میںہوں داسی ہوت پیا کی پاس رہوں یا دور
مدھر ملن کی آشا مجھ کو کیچ کی راہ سجھائے
سکھی ری! پریت کی ریت سہائے
برھا کے دن کاٹ رہی ہوں بپتائوں کے ساتھ
کب ہو گا اے پیارے پنہوں ! ہاتھ میں تیرا ہاتھ
اس انجانے دیس میں سجنی کون مرے کام آئے
سکھی ری! پریت کی ریت سہائے
چوتھی داستان
1
جستجوے جمال ہستی میں موت بھی تو حیات ہوتی ہے
اے سسئی اس جہان فانی کی ہر خوشی بے ثبات ہوتی ہے
جستجوے نجات میں حائل آرزوے نجات ہوتی ہے
وصلِ جاناں کی ایک ساعت بھی انتخاب حیات ہوتی ہے
اک ثبوت ثبات اپنے پاس آرزوے ثبات ہوتی ہے
ذکر پنہوں کی جستجو کا ہے کس کی ہمت کی بات ہوتی ہے
اس طرف وہ نظر نہیں ہوتی جس طرف کائنات ہوتی ہے
جاں نثارانِ حسن جاناں پر نگہ التفات ہوتی ہے
دیدہ و دل کی منزلِ آخر حدِّ ناممکنات ہوتی ہے
2
اے سسئی! ان کی پیروی کرنا
جاں گئی جن کی راہ جاناں میں
کیا ہے دو روزہ زندگی کا بھرم
دیدۂ شوقِ و چشمِ حیراں میں
3
موت سے پہلے جس کو موت آئی
زندگی اس نے جاوداں پائی
مدعاے حیات کیا کہیے
جُز تماشاے حسن یکتائی
جاں نثارانِ جلوۂ جاناں
خود تماشا ہیں خود تماشائی
4
زندگی اک فریبِ کثرت ہے
مجھ کو اس زندگی سے نفرت ہے
تابہ کے عزمِ کوہ پیمائی
اب کہاں مجھ میں اتنی طاقت ہے
اے اجل تو پناہ دے مجھ کو
تیری آغوش عینِ راحت ہے
5
اے سسئی پست ہمتی تیری
حائلِ شوقِ وصلِ یار ہوئی
پیارے پنہوں کو کر دیا بدنام
اور خود بھی ذلیل و خوار ہوئی
ڈر گئی سوزِ عشق سے ناداں
موت سے کیوں نہ ہمکنار ہوئی
اب پیشمانیوں سے کیا حاصل
اب گراں جانیوں سے کیا حاصل
وائي
پیارے پنھوں لوٹ آ،جیارا ہے بچپن
پریتم تیرے سوگ میں روتی ہوں دن رین
جس دن آری جام کے اونٹوں کو میں پاوں
مہندی ہری ملیر ک بھر بھر پیٹ کھلاوں
ساجن مجھ کو سونپ دے کوئی ایسا کام
جس کے کارن ہو سکے جگ میں میرا نام
پانچویں داستان
1
آ رہی ہے صداے یار آجا
تیز تر اے وفا شعار آجا
عشق جینے کا اک بہانہ ہے
اے شناساے ہجر یار آجا
تیری یادوں میں کھوئی کھوئی سی
ہے ازل کی کوئی پکار آجا
حسن یکتا کشاں کشاں آئے
اے تمناے بے قرار آجا
ماوراے حیات ہے کوئی
تیزتر اے نفس شمار آجا
جلوۂ دوست خود تری خاطر
کب سے ہے محوِ انتظار آجا
2
گرم و سردِ زمانہ کیا جانے
جو محبت کا مدعا جانے
پتہ پتہ سکوتِ معنی خیز
ہر شجر یار کا پتہ جانے
پوچھتی ہے سسئی پرندوں سے
کس کا نام و نشاں خدا جانے
کاش پھر مہرباں ہو آریانی
دور ہو جائے خانہ ویرانی
3
کون سمجھائے تجھ کو اے رہگیر
کچھ نہیں فرقِ عجلت و تاخیر
عرصۂ زیست میں بہر صورت
وقت ناوک ہے اور تو نخچیر
گل کھلاتی ہے نو بہ نو قسمت
ورنہ کیا جذب و شوق کی تاثیر
کون سمجھے سکوتِ راز ازل
کون جانے نوشتۂ تقدیر
4
راہ دشوار اور تو معذور
جان کر کیوں یہ دکھ اٹھایا ہے
جانے کیوں تجھ کو کوہساروں میں
جذبۂ عشق کھینچ لایا ہے
جانے کیوں تو نے اپنے تن من کو
کیچیوں کے لئے جلایا ہے
5
کلبلاتی ہوئی تمنائیں
یہ اذیت، یہ آرزو، یہ تلاش
جارہی ہوں رواں دواں یون ہی
میری منزل کہیں ملے اے کاش
6
اس تگ و دو کا جو بھی ہو انجام
ہو سکوں گی نہ خائفِ آلام
گلۂ دوست شکوۂ ہجراں
میری دیوانگی پہ ہیں الزام
بڑھ رہی ہوں رہِ محبت میں
اپنی منزل کی سمت گام بہ گام
طعنہ زن مجھ پہ کوئی کیا ہوگا
ننگ کی آرزو نہ خواہشِ نام
وائي
اس پریت ڈگر میں اے سجنی!
جیون جیون میں بڑھتی جائوں گی
ساجن کا سندیسہ پائوں گی
کہتی ہے جو دنیا کہنے دو
پریتم کی آس نہ توڑوں گی
ان بپتائوں سے گھبرا کر
’وندر‘ کا ساتھ نہ چھوڑوں گی
اس ’کیچی آری جام‘ کو میں
آشا کا میت بنائوں گی
ساجن کا سندیسہ پائوں گی
ریشم سے پائوں کو ریتے نے
پگ پگ پہ لہو سے لال کیا
آ دیکھ تو آری جام ذرا
مجھ برھن کا کیا حال کیا
سکھیو میں ’جتوں‘ کی باتوں کو
من ہی من میں دہرائوں گی
ساجن کا سندیسہ پائوں گی
چھٹی داستان
1
مبتلاے خیال یار ہوں میں
کون جانے کہ بے قرار ہوں میں
آزمودہ ہے وعدۂ فردا
دشمنِ رسمِ انتظار ہوں میں
تو نہ آئے تو موت آجائے
میرے پیارے بہ حال زار ہوں میں
2
دیکھ لیں گردشیں زمانے کی
اب تمنا ہے تجھ کو پانے کی
اس طرح تیرے در پہ سجدہ کروں
نوبت آئے نہ سر اٹھانے کی
3
پیارے پنہوں تری دہائی ہے
کیا مصیبت سسئی پہ آئی ہے
اب بجھائے گا کون تیرے سوا
آگ جو عشق نے لگائی ہے
4
دکھ شعورِ ثبات ہے پیاری
سکھ فرار حیات ہے پیاری
تا ابد نقشِ پاے جاناں ہیں
زیرِ پا کائنات ہے پیاری
5
اے سسئی رنج و غم کا پشتارہ
ایک دن تیرے کام آئے گا
اور یہ عزمِ کوہ پیمائی
پیارے پنہوں سے پھر ملائے گا
6
کیا خبر تھی کہ جذبۂ ناکام
زندگی کا مذاق اڑائے گا
میں سمجھتی تھی شعلۂ الفت
اپنے محبوب سے ملائے گا
7
تیری خلوت کا ایک لمحہ بھی
جلوتِ ماہ و سال سے بہتر
پیارے پنہوں مجھے ترا دیدار
لاکھ حسن و جمال سے بہتر
مجھ ستم کش کو خلوت غم بھی
بزمِ آسودہ حال سے بہتر
8
ایک لمحہ تری محبت کا
زندگی۔ٔ دوام سے بہتر
زلف و رخ کا تصورِ پیہم
گردشِ صبح و شام سے بہتر
9
جادۂ عشق سے بلاتا خیر
مسکراتے ہوئے گذر جانا
زندگی کا پیام ہوتا ہے
دوست کی جستجو میں مر جانا
10
دیکھ تو اے شبِ ستم ایجاد
کس کے لب پر ہے شکوۂ بیدار
جانداروں پہ ہی نہیں موقوف
سنگ ریزے بھی آج ہیں ناشاد
وسعتِ دشت گونج اٹھی ہے
ہے کہیں کوئی مائل فریاد
11
اے سسئی آہوان رم خوردہ
تجھ کو رو رو کے یاد کرتے ہیں
اور پھر اجنبی سرابوں میں
اپنی ہستی سے در گذرتے ہیں
12
سسکیاں لے رہی ہے آج فضا
ہائے وہ کشتۂ محبت ہائے
دشنہ یار کا ہلاک آخر
پہلوے یار ہی میں تسکیں پائے
13
ذکر کرتا ہے ہر شجر تیرا
ان پہ بھی ہو گیا اثر تیرا
ذرے ذرے میں ٹیس اٹھتی ہے
دیکھ کر خونچکاں جگر تیرا
اے سسئی رہروانِ ہستی سے
جانے کیا کہہ گیا سفر تیرا
14
زخم کوئی تو اس نے کھایا ہے
ورہ کیوں اتنا دکھ اٹھایا ہے
اور تو اور ان درختوں نے
اس کا غم سینہ سے لگایا ہے
شدتِ کرب میں سکوں کیسا
کس کا پرتو سسئی پہ چھایا ہے
15
غم سسئی کو ہے اپنے پیاروں کا
اور اپنی بھری بہاروں کا
نالۂ نے میں بھی پس پردہ
سوز شامل ہے دلفگاروں کا
16
موسم برشگال کے باوصف
اس کی قسمت میں قحط سالی ہے
برکتیں ہیں ’جتوں‘ سے وابستہ
اور یہ دم بخود سوالی ہے
پیارے پنہوں کے پاس سب کچھ ہے
ہاتھ پھر بھی سسئی کا خالی ہے
وائي
آشا کی چتا جلانے کو
ساجن میں تمہیں بلاتی ہوں
جیون تو میں نے لٹا دیا
اب لوٹو راکھ لٹاتی ہوں
روٹھے ہو پیا مناتی ہوں
ساجن میں تمہیں بلاتی ہوں
آجائو ملن کو پردیسی
میں دور دیس کو جاتی ہوں
تھک ہار کے اب اس گھاٹی میں
لو اپنی جان گنواتی ہوں
ساجن میں تمہیں بلاتی ہوں
اس رنگ رنگیلی دنیا میں
اک سپنا بن کر آتی ہوں
کچھ دیر بھٹکتی رہتی ہوں
پھر یادوں میں کھو جاتی ہوں
ساجن میں تمہیں بلاتی ہوں
دکھ درد سبھی مٹ جاتے ہیں
جب تم کو گلے لگاتی ہوں
تم پھولوں کی سندرتا ہو
میں ان کی مہک بن جاتی ہوں
ساجن میں تمہیں بلاتی ہوں
ساتویں داستان
1
جستجو اس کی صبح ہو یا شام
نہ ملا پھر بھی مجھ کو ’آری جام‘
کاش اک بار دیکھ کر اس کو
ڈوب جائے مرا دلِ ناکام
گم نہ کردے کہیں مری منزل
تیز رفتار ابلقِ ایام
2
میرے پنہوں کے دیس میں اے شام
جا کے ’ہوتوں‘ کو دے مرا پیغام
کیچ کی سمت آرہی تھی میں
لیکن افسوس شدت آلام
کر گئی مجھ کو موت سے دوچار
قابلِ رشک ہے مرا انجام
3
کاش میری امید بر آئے
پیارا پنہوں کہیں نظر آئے
رائیگاں ہو نہ زندگی میری
کام دشواریٔ سفر آئے
میرے اشکوں میں جھلملاتی ہوئی
میرے آری کی رہگذر آئے
جنت عشرت دوام ملے
اس کے پہلو میں موت اگر آگئے
4
یہ فلک بوس کوہ یہ صحرا
کاش ہو تیری پیروی مجھ سے
پیارے پنہوں تری جدائی میں
روٹھ جائے نہ زندگی مجھ سے!
دفعتاً ہو کے مائلِ فریاد
پوچھتی ہے یہ بیکسی مجھ سے
عمر ساری گذر گئی بیکار
کب ملے گا وہ اجنبی مجھ سے
5
سعی۔ٔ پیہم کے باوجود اے دوست
نہ ملا اپنا مدعا مجھ کو
اس سے پہلے کہ ہو ترا دیدار
کردیا عشق نے فنا مجھ کو
6
غم یہ ہے تجھ سے دور ہوں پیارے
اور کوئی مجھے ملال نہیں
وہ عزازیل سامنے ہے مرے
کہہ سکوں کچھ مری مجال نہیں
7
یک مدت ہوئی ہے غم کھاتے
کیا کہوں درد نارسائی سے
موت اب سر پہ آگئی پیارے
مر نہ جائوں غمِ جدائی سے
8
اپنے پنہوں کی جستجو اس کو
عاشقی کا مزا چکھائے گی
اور اس اجنبی بیاباں میں
لقمۂ کر گساں بنائے گی
9
مثلِ طائوس شاخساروں میں
وہ ہے محوِ تلاش جلوۂ یار
پیٹ بھرنے کو برگ و بار ملے
بھوک سے جب وہ ہوگئی لاچار
ہائے اس کا جمال رنگا رنگ
اور یہ گردِ سایۂ اشجار
ہائے یہ اس کا روے خاک آلود
ہائے یہ جست و خیز یہ رفتار
ہائے یہ اس کا عزم و استقلال
ہائے یہ اس کی جرأت ایثار
آرہی ہے وہ باز گشت صدا
جس میں شامل ہیں سینکڑوں اسرار
کون جانے کہ اس بیاباں میں
رنگ کیا لائے حسرتِ دیدار
10
اس بیاباں میں پیارے پنہوں کو
ڈھونڈھتی ہے مگر نہیں پاتی
کاش یہ باز گشتِ نالۂ دل
اے سسئی تیرے کام آجاتی
11
رہروانِ رہِ فنا کے سوا
منزل شوق کس نے پائی ہے
کون جانے یہ باز گشت صدا
درحقیقت کہاں سے آئی ہے
12
ہائے ان کی نفیر درد آلود
دشتِ ویراںمیں ولولہ انگیز
جیسے کوئل کی کوک جنگل میں
سرد راتوں میں ہو قیامت خیز
13
ہائے ان کی نفیر درد آلود
ان سرابوں میں یوں بھٹکتی ہے
جیسے طوطی کی دلنشیں آواز
آتے آتے کہیں اٹکتی ہے
14
گونجتی ہے سرابِ ہستی میں
آج اس کی نفیر زہرہ گداز
آسمانوں میں ولولہ انگیز
جیسے آوارہ کونج کی آواز
جیسے اک ضربِ سرمدی معاً
جوش میں آکے ٹوٹ جائے ساز
وائي
میں جائوں واری واری
اے میرے پیارے آری
پھرتی ہوں ماری ماری
بس دیر نہ کر اب آجا
یہ گھاٹی ہے انجانی
تو کہاں ہے اے آریانی
مرگھ آشا مری جوانی
اب آجا پیاس مٹا جا
میں جائوں واری واری
سر دیسی
پہلی داستان
1
قیامت ہے ترا مل کر بچھڑنا خدارا روک لے ناقے کو پیارے
نہ جا ویران کر کے دل کی دنیا کہیں میں مر نہ جائوں غم کے مارے
2
کبھی ناقے کبھی پنہوں کے بھائی
نیا ہر روز انداز ستم ہے
یہ کہسار و بیاباں میں بھٹکنا
ازل سے میری قسمت میں رقم ہے
مگر میری خوشی ہے تیرا ہر غم
ترا غم جو ملے وہ مغتنم ہے
3
وہ ناقے اور مرے پنہوں کے بھائی
جنہوں نے مجھ کو دانستہ ستایا
مری تقدیر! کوہ و دشت نے بھی
مرے دکھ درد کو پیہم بڑھایا
بہت ڈھونڈا مگر ان وادیوں میں
نظر پنہوں کا نقشِ پا نہ آیا
4
نہیں شکوہ مجھے بیگانگی کا
سمجھتی ہوں تری بے اعتنائی
کہاں ہے ناقۂ رم آشنا تو
ابھی سے کجروی و کج ادائی
مرا پنہوں ہے کوسوں دور مجھے سے
خدا جانے وہاں کب ہو رسائی
5
یہاں وہ اجنبی ناقے جب آئے
ترے دیور تھے جن کو ساتھ لائے
خیال اس بات کا آیا نہ تجھ کو
کہ ان پر کوئی پابندی لگائے
تجھے یہ بات بھی سوجھی نہ افسوس
کہ زنجیر اپنی زلفوںسے بنائے
سسئی! پھر ان کی نوبت ہی نہ آتی
جو دکھ تونے جدائی میں اٹھائے
اگر کچھ باخبر پہلے سے رہتی
تو ٹل جاتے یہ بدبختی کے سایے
6
مرے پیارے مرے پنہوں کے بھائی
اگر بھنبھور میں بیلوں پہ آتے
تو ان کے پائوں کی آہٹ کو سن کر
یہاں سب سونے والے جاگ جاتے
مناتی رت جگا ایسا کہ پھر وہ
مرے پنہوں کو چھپ کر لے نہ جاتے
اگر وہ چل بھی دیتے رات ہی کو
انہیں پیدل ہی چل کر ڈھونڈ لاتے
صبا رفتار تھا ہر اونٹ ان کا
نہیں تو ہم کبھی دھوکا نہ کھاتے
7
مجھے معلوم تھی اونٹوں کی خصلت
مگر وہ اونٹ کیسے تھے خدایا
کہ جب رکھے گئے پالان ان پر
کوئی چیخا نہ کوئی بلبلایا
انہیں پہلے سے میرے دیوروں نے
کچھ ایسا راز داں اپنا بنایا
کہ پنہوں کو گئے جس وقت لے کر
کسی نے بھی نہ اس کا بھید پایا
8
چلوں گی جادۂ صبر و رضا پر
کہ میں ہوں واقف امر مثیت
کیا جو کچھ بھی میرے دیوروں نے
نہیں اس کی مجھے کوئی شکایت
کروں بیکار کیوں اونٹوں کا شکوہ
میں دیکھو گی دکھائے جو بھی قسمت
9
نہ جانے چھوڑ کر کس وقت چل دیں
انہیں پابندیٔ مہر و وفا کیا
محبت دیس والوں ہی سے اچھی
بھلا پردیسیوں کا آسرا کیا
صبا میں بوے پنہوں جب نہیں ہے
تو پھر بھنبھور کے صبح و مسا کیا
10
کیا تھا ہنس کے جن کا خیر مقدم
گئے افسوس وہ مجھ کو رلا کر
خبر کیا تھی کہ ان کی اجنبیت
مجھے تڑپائے گی اپنا بنا کر
خدا جانے وہ شب بیدار ناقے
کہاں گم ہو گئے صورت دکھا کر
11
کوئی ان ظالموں سے یہ تو پوچھے
جدا کیوں مجھ سے پنہوں کو کیا ہے
بگاڑا کیا تھا ان اونٹوں کا میں نے
یہ بدلہ مجھ سے آخر کیوں لیا ہے
نہ آئیں اب وہ میرے پاس ہرگز
جنہوں نے مجھ کو ایسا جل دیا ہے
12
دعا دیتی ہے میری بے زبانی
خدا رکھے جتوں کی نوجوانی
جہاںمیں کوئی بھی میرا نہیں اب
بہت ویراں ہے میری زندگانی
تمنا ایک زنجیر محبت
محبت ایک ربط جاودانی
13
سسئی جس کارواں کی منتظر تھی
رواں پیشِ نظر وہ کارواں ہے
وہی ناقے وہی آرائشیں ہیں
مگر وہ دیدۂ حیراں کہاں ہے
سسئی اس خوابِ آسائش سے حاصل؟
محبت پیچ و تابِ جاوداں ہے
14
خبر لے اے مرے گم گشتہ پنہوں
میں سرتا پا محبت ہوگئی ہوں
کہاں ہیں اب وہ پراسرار ناقے
میں جن کی جستجو میں کھو گئی ہوں
نہ آئے لوٹ کر وہ جانے والے
میں ہوں اب کوہساروں کے حوالے
15
نہ یہ غم تھے نہ ایسی بے کسی تھی
بڑی پرکیف میری زندگی تھی
جتوں نے کردیا مجھ کو پریشاں
و گر نہ ہر خوشی میری خوشی تھی
16
نہ جذبِ شوق یہ زحمت اٹھاتا
نہ احساس وفا ناکام ہوتا
کہاں ملتا مجھے سوزِ محبت
اگر دل واقف انجام ہوتا
17
نہ دیکھا تھا کبھی پہلے جتوں کو
کہاںڈھونڈوں انہیں اے چشمِ حیراں
انوکھے پیچ و خم دکھلا رہے ہیں
مجھے یہ اجنبی کوہ و بیاباں
صبا رفتار ان کا کارواں ہے
میںدرماندہ ہوں باحال پریشاں
مرے پاس آ بھی جا اے آریانی
خدارا یوںنہ ہو مجھ سے گریزاں
18
محبت بھی نہ مجھ کو راس آئی
کوئی دیکھے جتوں کی بے وفائی
مجھے تھی ہوت سے دیرینہ نسبت
مگر قسمت میں تھی اس سے جدائی
خدا جانے کہ میرے دیوروں کو
نظر آئی تھی مجھ میں کیا برائی
19
جدھر یہ کارواں اب گامزن ہے
ادھر ہی پیارے پنہوں کا وطن ہے
پھسلتے بھی نہیں وہ تیز رفتار
عجب ان تیز اونٹوں کا چلن ہے
مرا دل توڑ کر وہ جا رہے ہیں
نجانے مجھ سے کیا کیا سوئِ ظن ہے
20
ادھر ہوں رحمتِ کامل کے سایے
جدھر وہ ناقۂ محبوب جائے
خدایا پیارے پنہوں کو کہیں بھی
نہ ہرگز کوئی زحمت پیش آئے
ہزاروں صورتیں دیکھی ہیں میںنے
مگر اس کے سوا کوئی نہ بھائے
21
درختوں میں تری خوشبو بسی ہے
مہک تیرے تصور کی چمن میں
فریب عشق دے کر کھو گئے ہیں
خدا جانے وہ جت کس انجمن میں
درندوں سے مجھے کیا خوف ہو گا
بسا ہے ایک انساں میرے من میں
22
کچھ ان اونٹوں نے میرا دل دکھایا
کچھ ان کے ساربانوں نے ستایا
کہوں کیا دیوروں کی دشمنی کو
جنہوںنے مجھ سے پنہوں کو چھڑایا
کیا سورج نے خود چھپ کر اندھیرا
صبا نے نقشِ پا اس کا مٹایا
قمر بھی ہو گیا روپوش آخر
پہاڑوں نے بھی میرا غم بڑھایا
ہوا دشمن مرا سارا زمانہ
مصیبت میں نہ کوئی کام آیا
وائي
چاند کسی کا میت نہیں ہے
سچی اس کی پریت نہیں ہے
پنچھی اس کو کب پاتے ہیں
اڑتے اڑتے تھک جاتے ہیں
پھول سے ہر گز پیار نہ کرنا
کانٹوں کا بیوپار نہ کرنا
پھول سدا مرجھا جاتے ہیں
کانٹوں میں الجھا جاتے ہیں
سکھیو! ان سے دور ہی رہنا
چاہے جتنے بھی دکھ سہنا
جو پنہوں کولے جاتے ہیں
اور سسئی کو تڑپاتے ہیں
اپنے دل پر چوٹ نہ کھانا
اور جتوں کے پاس نہ جانا
اوجھل ہو کر ترساتے ہیں
پربت پربت بھٹکاتے ہیں
دوسری داستان
1
اندھیری اور برستی رات پنہوں!
ترے ناقے کہاں ہیں میرے دمساز
یہی وہ طاق و بام و در ہیں پیارے
کہ جن میں گونجتی تھی تیری آواز
تری ہر یاد یادِ جاوداں ہے
علاج چاکِ زخم خونچکاں ہے
2
سسئیِ سے کہہ رہی ہے ہر سہیلی
کہ یہ راہِ وفا راہِ جنوں ہے
خدارا لوٹ بھی آ غم کی ماری
رواں کس دھن میں باحال زبوں ہے
کہاں تک آتشیں راہوں پہ چلنا
کہاں وہ خود ترا سوزِ دروں ہے
3
خیال یار جائے گا نہ دل سے
سزاے مرگ بھی مجھ کو گوارا
نہیں مایوس میں سعی۔ ٔ وفا سے
کہیں تو مل ہی جائیگا وہ پیارا
ازل ہی سے مرے ذوقِ طلب نے
لیا ہے پیارے پنہوں کا سہارا
4
گیاہے جب سے آری جام میرا
مری دنیا اندھیرا ہی اندھیرا
تلاشِ یار ہے، تنہائیاں ہیں
غم و آلام نے ڈالا ہے گھیرا
نہ کشتی ہے نہ کوئی ناخدا ہے
سراسر موج و طوفان پر بسیرا
جدا اس راہبر سے ہو گئی ہوں
فریبِ ماسوا میں کھو گئی ہوں
5
تلاشِ ناقۂ محبوب توبہ
سسئی نذر بیاباں ہو گئی ہے
خدا جانے وہ اب آئیں نہ آئیں
یہ جن کی جستجو میں کھو گئی ہے
6
حمایت ہوت کی حاصل ہے جن کو
انہیں کیا زحمتِ کوہ و بیاباں
گذر جاتے ہیں راہِ پر خطر سے
بآسانی گدائے کوئے جاناں
گلہ ان تیزرو اونٹوں سے کیسا
نہیں ان سے کسی لغزش کا امکاں
کیا ہے ان وفاداروں کی خاطر
مشیت نے ہر اک منزل کو آساں
کوئی اے کاش مجھ کو بھی بتا دے
کہاں ہے منزلِ یار گریزاں
7
بلوچی میں کبھی کرتے وہ باتیں
کبھی کچھ بولتے تھے فارسی میں
خدا جانے وہ پراسرار کیچی
یہاں کیوں آئے کیا ٹھانے تھے جی میں
خبر کیا تھی چلے جائیں گے یہ لوگ
رہوں گی میں یہاں بھنبھور ہی میں
یہ میری زندگی کا حال ہے اب
کہ پیہم دکھ ہی دکھ ہیں زندگی میں
8
انہیں کچھ کھانے پینے کا نہیں فکر
وہ ناقے سرخوش عزم سفر ہیں
خدا جانے انہیں کیسی لگن ہے
کہ وہ منزل بہ منزل تیز تر ہیں
9
جہاں جاتے ہوئے ناقے بھی لرزیں
سسئی ان وادیوں میں جا رہی ہے
سلگتی اور تپتی بادِ صحرا
سسئی کے جسم کو جھلسا رہی ہے
نشاں پنہوں کا کوسوں تک نہیں ہے
مگر وہ ہے کہ بڑھتی جارہی ہے
’لطیف‘ اس دشت آوارہ کو شاید
محبت راستہ دکھلا رہی ہے
10
سرِ نازک تہِ سنگِ گراں ہے
مکمل اب سسئی کی داستاں ہے
جسے اپنا نہ سمجھا تھا جتوں نے
وہ درماندہ شریکِ کارواں ہے
’لطیف‘ اس غمزدہ کی باوفائی
ازل سے تا ابد ہے، جاوداں ہے
وائي
دکھ دور ہوا سکھ پائے
جیون کا سندیسہ لائے
جب ساجن لوٹ کے آئے
میں پگ پگ نین بچھائے
بیٹھی تھی آس لگائے
جب ساجن لوٹ کے آئے
نینوں سے نین ملائے
پھر سوئے بھاگ جگائے
جب ساجن لوٹ کے آئے
مرا انگ انگ مسکائے
آشا کے دیپ جلائے
جب ساجن لوٹ کے آئے
سنسان ہوا کی لہریں
کستوری سا مہکائے
جب ساجن لوٹ کے آئے
انجان تھی ان سے سجنی
جو بھید سجن سے پائے
جب ساجن لوٹ کے آئے
تیسری داستان
1
خدارا اپنے اونٹوں کو نہ ہانکو
کہیں میں مر نہ جائوں غم کے مارے
تمہارا پیار میرا آسرا ہے
نہ جائو توڑ کر میرے سہارے
قسم بھنبھور کی گلیوں کی جن میں
کسی کی آرزو میں دن گذارے
نہ لوں گی نام بھی بھنبھور کا میں
دکھا دو کیچ کے پیارے نظارے
2
اگر ہے کیچ کو جانا تو جائے
مگر ایسا نہ ہو پھر لوٹ آئے
سسئی اس رہگذار جانستاں میں
نہیں ممکن کہ تو آرام پائے
فقط جھلسی ہوئی ویرانیاں ہیں
نہ پانی ہے نہ سبزہ ہے نہ سائے
3
سنا ہے کیچ کی راہوں میں اکثر
فنا کے گھاٹ اترے جانے والے
ہجوم رہرواں اب تک ہے لیکن
پڑے ہیں جان کے ان سب کو لالے
خدا جانے وہ گذرے ہیں کدھر سے
پتا چلتا نہیں کچھ رہگذر سے
4
کہاں ہے ان کی جلوہ گاہ یارب
مجھے ہر وقت جن کی جستجو ہے
سکونِ زندگی کا چشمۂ صاف
مرے پیارے جتوں کی گفتگو ہے
ادھر ہی منزلِ آخر ہے اپنی
جدھر وہ کاروانِ رنگ و بوہے
وہیں لے چل مجھے جذب تمنا
جہاں وہ منتہاے آرزو ہے
5
سنا ہے کیچیوں کے کارواں نے
کیا ہے آخر شب رخ ادھر کا
پہنچ جائوں میں ان کے کارواں تک
یہی ہے مدعا قلب و نظر کا
چمک اٹھے ’لطیف‘ ان کی نظر سے
مقدر دامن دریوزہ گر کا
6
سراغِ خاکِ راہِ یار پائوں
اٹھا کر اپنی آنکھوں سے لگائوں
مثالِ نسترن میں لہلہائوں
جو بوے دامنِ محبوب پائوں
اگر وہ گوہرِ نایاب مل جائے
میں اپنے دامنِ دل میں چھپائوں
بفیضِ جلوہ گاہِ حسنِ محبوب
میں اپنی تیرہ بختی کو مٹائوں
جدا مجھ سے نہ ہو وہ پیارا پنہوں
خدایا میں اسی کے ساتھ جائوں
کہیں وہ کاروانِ شوق میرا
جو مل جائے، لگن دل کی بجھائوں
7
سنا ہے اپنے اونٹوں کو سنوارے
ادھر آئے ہیں پھر کیچی ہمارے
سراپا کیف ہے جن کا تصور
خوشا وہ جذب و مستی کے نظارے
بہرقیمت میںان کے ساتھ جائوں
اگر ہوں مہرباں مجھ پر وہ پیارے
مرا پنہوں ہے میرے دل کی زینت
میں ہوں وابستۂ حسنِ عقیدت
8
جلو مں جس کے وہ رعنا جواں ہے
بڑا ہی خوبصورت کارواں ہے
کہیں انمول ہیروں کا نظارا
کہیں گلہاے رنگیں کا سماں ہے
خبر ہے کچھ تمہیں اے راہگیرو!
کہاں ہے قافلہ اُن کا، کہاں ہے!
9
وہ جب آئے یہاں اونٹوں کو لے کر
کھلا مجھ پر نہ ان کا راز کوئی
ہوئے گم اس طرح پنہوں کو لے کر
نہ آئی کان میں آواز کوئی
جھپٹ کر جیسے میرے من کا موتی
اچانک لے گیا ہو باز کوئی
کہاں میں اتنی گہری نیند سوتی
مری قسمت اگرکھوٹی نہ ہوتی
10
عجب ان کیچیوں نے گل کھلایا
نظر مجھ کو میرا پنہوں نہ آیا
وہ راتوں رات یوں بھاگے یہاں سے
کھلی جب آنکھ میں نے کچھ نہ پایا
خدایا اپنے پنہوں سے ملا دے
ملا دے اپنے پنہوں سے خدایا
11
سحر ہونے سے پہلے ہی سدھارا
ہمارا مہرباں، مہماں ہمارا
یہ آخر کیا ہوا اے چشم حیراں
مجھے پنہوں نے کیوں بے موت مارا
نظر میں چار سو ویرانیاں ہیں
کچھ ایسا گم ہوا میرا سہارا
نہ زندہ چھوڑتی اونٹوں کو ان کے
اگر ملتا کوئی ایسا اشارا
کہ دانستہ جتوں نے میری خاطر
بچھایا ہے یہ دلکش جال سارا
اب اس معمورۂ ہستی میں اس بن
مجھے بھاتا نہیں کوئی نظارا
12
مرے بھنبھور کو ویران کرکے
کدھر کا رخ کیا اس کارواں نے
کہاں ہیں کیچ اور مکران یا رب!
بہت ڈھونڈا ہے مجھ آشفتہ جاں نے
وہی کھینچے گا میرے دل سے ناوک
بنایا ہے ہدف جس مہرباں نے
ہراساں اور پریشاں کر دیا ہے
مجھے اس ہیبتِ کوہِ گراں نے
13
رہا اس عالمِ سود و زیاں میں
تمہارا غم مجھے ہر غم سے پیارا
رہے گا عمر بھر یہ دشت ویراں
دلِ وحشت زدہ کا استعارا
تم ایسے کھوئے دشتِ بے کراں میں
تمہیں ہر سانس میں میں نے پکارا
14
کہیں تم راکھ ہو کر رہ نہ جائو
شرارِ آہِ سوزاں کے اثر سے
بس اب ہٹ جائو اے کوہ و بیاباں!
گذرنے کو ہوں میں اس رہگذر سے
مجھے جل دے کر میرے دیوروں نے
کیا مجھ کوجدا اس راہبر سے
وہ میری زندگی کا آسرا
مرے قلب و نظر کا مدعا ہے
15
ابھی اس رہگذارِ پرخطر میں
نہ جانے اور کتنے مرحلے ہیں
مگر اے آرزوے منزلِ شوق
محبت کے نرالے حوصلے ہیں
وائي
سکھیو! میں ہوئی ہوں برھن
مجھے چھوڑ گئے ہیں ساجن
میں بھولی بھالی ناری
سمجھی تھی ہوت کو اپنا
نینوں سے نین ملا کر
دیکھا تھا سندر سپنا
اب سب کچھ بھول گئی ہوں
انجان پیا کے کارن
مجھے چھوڑ گئے ہیں ساجن
پربت پربت میں بھٹکی
بن بن میں نیر بہائے
اس تپتی کیچ ڈگر میں
کیسے کیسے دکھ پائے
جل بھن کر راکھ ہوئے ہیں
برھا کی آگ میں تن من
مجھے چھوڑ گئے ہیں ساجن
ہر وقت ’لطیف‘ یہ چاہے
مل جائے آنکھ کا تارا
اس آری جام سے بڑھکر
نہیں کوئی اور سہارا
میں ڈھونڈ رہی ہوں جن کو
کب ہوں گے اس کے درشن
موھے چھوڑ گئے ساجن
چوتھی داستان
1
ستایا کیوں مجھے آکر جتوں نے
یہ کیسا ظلم ڈھایا دیوروں نے
خدا جانے مرے دل کا سہارا
کہاں گم کردیا ان ظالموں نے
کیا سنسان مثل دشت ویراں
مرا بھنبھور کیچی جابروں نے
کیا ہے ایک سحر حشر ساماں
بظاہر آرسیدہ ساحروں نے
بہت ہی دور ہوں پنہوں سے لیکن
قسم کھائی ہے میرے حوصلوں نے
کہ اب ان کو مٹا کر چین لیں گے
کھلایا ہے یہ گل جن فاصلوں نے
2
فریب راہ مجھ کو ہر نشاں ہے
کہاں ہے وہ مرا پنہوں کہاں ہے
کہاں ہے کاروانِ حسن اے دل
کہاں وہ سر خوشی کا کارواں ہے
خدا جانے گیا کس راہ سے وہ
کہ سونی رہگذار کہکشاں ہے
نظر آتے ہیں خوابوں کے بھنور سے
ابد تک تیرگی بیکراں ہے
سنائوںکیا تجھے میں اے شب غم
بڑی پردرد میری داستاں ہے
یہ کیا معلوم تھا اک صبح محشر
پسِ بے ہوشیٔ خواب گراں ہے
خبر کیا تھی جتوں کا خیر مقدم
مرے حق میں وداع جسم و جاں ہے
3
وہ میری سجدہ گاہِ دل نشیں ہے
جہاں وہ راحت قلب حزیں ہے
یہ دنیا ہوکہ ہو دنیاے آخر
سوا اس کے مرا کوئی نہیں ہے
4
برہمن زاد ہوں لیکن یہ سچ ہے
کہ اک دھوبی نے لاکر مجھ کو پالا
مجھے دنیا نے سمجھا ایک دھوبن
بظاہر ہوش جب میں نے سنبھالا
کیا اک اجنبی سے پیار میں نے
سمجھ کر دیدہ و دل کا اجالا
یہ کیا معلوم تھا اس کی جدائی
دلِ مہجور میں ڈالے گی چھالا
اب اس کی جستجو میں کھو گئی ہوں
مجھے بے موت جس نے مار ڈالا
5
مہکتا ہے مثالِ مشک پنہوں
مرے کپڑوں میں ہے صابون کی بو
6
مرا پنہوں بھی کپڑے دھو رہا تھا
اچانک کیچ سے قاصد جب آیا
کہا اس نے پسند آئی نہ یہ بات
کہ اک دھوبن سے تو نے دل لگایا
7
کہاں ہے کیچ اور بھنبھور کیسا
یہ سارے رشتہ و پیوند کیا ہیں
نگاہوں میں انوکھی التجائیں
لبوں پر نالہ ہاے نارسا ہیں
نہ جانے کیوں مرے درپے ہیں دشمن
نہ جانے دوست کیوں صبر آزما ہیں
8
عجب یہ زندگی کا کارواں ہے
تنِ تنہا ہر اک راہی یہاں ہے
بہر منزل ہجوم رہرواں ہے
کوئی ہمدم نہ کوئی راز داں ہے
کہیں صحرا کہیں کوہِ گراں ہے
سفر یا رہرووں کا امتحاں ہے
یہ راہِ سخت اور یہ خستہ حالی!
مگر تیری طلب دامن کشاں ہے
وائي
کیوں میری آشا توڑ گئے
سپنوں میں بھٹکتا چھوڑ گئے
بھنبھور سے کیوں منہ موڑ گئے
کیا بھول ہوئی مجھ سے پریتم؟
کچھ دیر تو جی کو بہلاتے
اک رات ہی کیچی رک جاتے
اتنا تو نہ مجھے تڑپاتے
کیا بھول ہوئی مجھ سے پریتم؟
’منجر‘ سے اونٹوں کو ساجن
بہلا لینا میرے کارن
درشن ابھلاسی ہے برہن
کیا بھول ہوئی مجھ سے پریتم؟
پانچویں داستان
1
فزوں ہردم سسئی کا دردِ ہجراں
نہیںاس درد کا کوئی بھی درماں
ہرن کی طرح کب سے سوختہ جاں
سرابِ زندگی میں ہے ہراساں
ہما جس طرح سرگرداں فضا میں
نگاہِ اہل عالم سے ہو پنہاں
2
جو دیکھے آخرِ شب چند آہو
سسئی سمجھی جتوں کے اونٹ آئے
تمناے رخِ یارِ گریزاں
نہ جانے اور کتنے گل کھلائے
سسئی اس عالمِ بیم و رجا میں
تری روحِ تپاں تسکین پائے
3
خوشا یہ آہوانِ دشت ویراں
تلاشِ آب میں اُفتان و خیزاں
کچھ ایسی ہی مرے وارفتگی ہے
خلا میں کھو گئی ہے چشم حیراں
جھلک تھی جس کی پیارے کیچیوں میں
مجھے پیارا ہے وہ حسن گریزاں
4
سسئی! اس وادیٔ کوہ گراں میں
درندوں سے بھی تو دوچار ہو گی
مگر کہتی ہے یہ فریاد تیری
کہ تو حلقہ بگوشِ یار ہو گی
5
بجیں گے پھر خوشی کے شادیانے
قریں مجھ سے مرا ہمراز ہو گا
وہی ہو گا وفورِ عشق و مستی
وہی پھر ربط سوز و ساز ہو گا
6
جہاں تشویش میں ہراک شتر ہے
جہاں وہ تنگ و پیچاں رہگذر ہے
وہاںبھی مطمئن ہے قلب اس کا
وہاں بھی گامزن وہ دیدہ ور ہے
سکوتِ مرگ ہے جن وادیوں میں
سسئی ان وادیوں میں رہ سپر ہے
اسے آرام کی اب کیا تمنا
سفر اس کا محبت کا سفر ہے
7
نہ جانے کیوں رہِ جاناں میں حائل
خیالِ ہیبتِ کوہِ گراں ہے
ہزاروں مرحلے ہر مرحلہ سخت
مگر پہنچوں گی میں پنہوں جہاں ہے
8
مری قسمت میں تھا دھوکے میں آنا
متاع دل چرا کر لے گئے ہیں
بتائو تو مجھے اے کوہسارو!
کہاں اس کو چھپا کر لے گئے ہیں
مرے پنہوں کو ’برفت‘ اور ’بروہی‘
زبردستی اٹھا کر لے گئے ہیں
سرابوں میں بھٹکتی پھر رہی ہوں
سراپا تشنگی ہی تشنگی ہوں
9
دمادم بڑھ رہی ہوں بے خودی میں
مجھے روکیں گے کیا کوہ و بیاباں
یہ ’کانبھو‘ اور ’کارو‘ میرے نزدیک
نہیں کچھ بھی بجز ابرِ بہاراں
ز سر تاپا کسی کی جستجو ہوں
دلِ حسرت زدہ کی آرزو ہوں
10
ہوا ابر سیہ پھر اتفاقاً
فرازِ کوہ سے دست و گریباں
سکوتِ مرگ سا طاری ہے بن پر
بڑے پرھول ہیں دشت وبیاباں
میں تنہا پاپیادہ دل گرفتہ
کہاں جائوں بایں حالِ پریشاں
کرے گی آپ میری رہنمائی
یہ پیہم آرزوئے روئے جاناں
وائي
جائوں گی کیچ کی اور
سکھی ری… چھوڑ کے میں بھنبھور
سکھی ری… جائوں گی ہوت کی اور
آشا ہے لوٹ آئیں گے پریتم
پریت کی ریت نبھائیں گے پریتم
آگ لگائی ہے جو من میں
خود ہی آن بجھائیں گے پریتم
بھائے پنہل چت چور… سکھی ری
جائوں گی کیچ کی اور
بن بن میں بھٹکانے والا
جیون جوت جگانے والا
پھرتی ہوں میں کھوج میں جس کی
آئے گا وہ آنے والا
ناچے من کا مور… سکھی ری
جائوں گی کیچ کی اور
چھٹی داستان
1
یہ کوہستان کی پیچیدہ راہیں
یہ ویرانی یہ خاموشی یہ آہیں
تجسس میں رہیں منزل بہ منزل
تھکی ماندی نم آلودہ نگاہیں
بیاباں در بیاباں خاک چھانی
ابھی ہیں دور اس کی جلوہ گاہیں
کہاں تک ساتھ دیں پائوں کے چھالے
اگر اہلِ طلب چلنا بھی چاہیں
وہی آخر بنیں گے دل کے غمخوار
جہاں تک ہوسکے ان سے نباہیں
2
عجب ’وندر‘ کی راہِ پر ستم ہے
عجب یہ رہگذار خم بہ خم ہے
کہاںگم ہیں وہ پراسرار ناقے
صبا سے تیز تر جن کا قدم ہے
سرابوں میں ہراساں پھر رہی ہوں
جگر میں آگ ہے، آنکھوں میںنم ہے
جدائی میں تری اے میرے پنہوں
یہ طرفہ یورش رنج و الم ہے
کہاں ہے لوٹ آ اے میرے پیارے
مرے جینے کی اب امید کم ہے
3
یہ کوہستاں یہ ویران ٹیلے
کھڑے ہوں جیسے فیل مست بن کر
میں اس کوہِ گراں کو کاٹ دیتی
اگر ہوتا کوئی تیشہ میسر
ہوئی نشو و نما اس کی غموں سے
تمنا بن گئی نخل تناور
4
فراز کوہِ تا حدِ نظر ہے
خدا جانے مری منزل کدھر ہے
مسلسل رہگذاروں کا سفر ہے
وہی صحرائے گرم و پرخطر ہے
یہاں کیا کام ہے فرزانگی کا
بڑی صبر آزما یہ رہگذر ہے
مگر اے جذبۂ جوشِ محبت
مجھے غم کیا کہ پنہوں راہبر ہے
اسی کا ہے تصور میرے دل میں
اسی کا نقش پا پیش نظر ہے
صداے ناقہ جیسے ہر قدم پر
دلِ آگاہ سے نزدیک تر ہے
زمانے میں ازل سے کارفرما
محبت ہی محبت کا اثر ہے
5
مسلسل کوہساروں کا سفر ہے
خدا جانے مرا پنہوں کدھر ہے
یہ تپتی ریت یہ وحشی درندے
ستم انگیز دشتِ پرخطر ہے
جہاں ناقے بھی ہمت ہار جائیں
وہی یہ تنگ و تیرہ رہگذر ہے
یہ عالم ہے کہ جیسے ہر قدم پر
وطن پیارے جتوں کا دور تر ہے
نہیں کچھ اور اب میری نظر میں
وہ آری جام ہی پیش نظر ہے
جتوں کے بائیں سے گزرے نہ تیتر
نکل جائیں شگون بد سے بیچ کر
6
کہاں وہ انتظار روے جاناں
کہ چاہا بھی تو کمتر نیند آئی
کہاں یہ بدنصیبی چشم حیراں
کہ منزل پر پہنچ کر نیند آئی
سزا یہ ہے کہ تڑپوں زندگی بھر
خطا یہ تھی کہ شب بھر نیند آئی
7
یہ احساں ہے دلِ بے مدعا کا
مجھے کچھ ڈر نہیں روز جزا کا
حریم چشم حیراں بن گیا ہے
ہر اک جلوہ کسی جانِ وفا کا
وائي
جتوں بن جگ جیون ہے روگ
سکھی ری… جگ جیون ہے روگ
بلائے موھے ’پنھل‘ چت چور
چلی ہوں آج میں کیچ کی اور
نہیں ہے بھاگ میں اب بھنبھور
لیا ہے آشائوں نے جوگ
سکھی ری! جگ جیون ہے روگ
آئے نہ بیکل من کوچین
پھروں گی بن بن میں دن رین
ملا ہے مجھ کو جیون سوگ
سکھی ری! جگ جیون ہے روگ
وائي
پھرتی ہوں کنجن کنجن
بیکل ہوں جتوں کے کارن
بھنبھور میں کون ہے میرا
اجڑا وہ رین بسیرا
روٹھے مرے سندر ساجن
بیکل ہوں جتوں کے کارن
کیا بھول ہوئی تھی جانے
گھیرا جو مجھے بپتا نے
سکھ پائے کیسے جیون
بیکل ہوں جتوں کے کارن
ہر وقت ’لطیف‘ ہے کہتا
گھر ڈھونڈھ لے اپنے پی کا
اب جائوں کہاں میں برہن
بیکل ہوں جتوں کے کارن
ساتویں داستان
1
نہ دو ترغیب مجھ کو واپسی کی
کہ یہ توہین ہے وارفتگی کی
کبھی بھنبھور میں جو دل کشی تھی
جھلک بھی اب نہیں اس دل کشی کی
دیا ہے جب سے دل پنہوں کو سکھیو!
نہیں ہے مجھ کو حسرت زندگی کی
2
قطار اندر قطار آئے تھے ناقے
بڑی پرکیف انکی کہکشاں تھی
وہ آویزے وہ گھنگھرو وہ چھنا چھن
عجب بانگِ دراے کارواں تھی
3
سسئی جنگل م ںتھک کر رہ گئی ہے
درندوں سے بھی کیا کچھ کہہ گئی ہے
بہر صورت یہ نخچیر محبت
ستم دل پر ہزاروں سہ گئی ہے
4
کرم کر اب تو میرے دل پہ آری
چلی ہے کیچ کو یہ غم کی ماری
خبر لے اے مسیحائے محبت
نہ جائیں کوششیں بیکار ساری
تجھے معلوم ہے اے میرے پنہوں
کہ دردِ دل نہیں ہے اختیاری
5
نہیں قسمت میں اب آرام کوئی
نہیں جز شغل گریہ کام کوئی
نویدِ عشرتِ شب لے کے آئی
مری جانب نہ ابتک شام کوئی
اسی امید پر جیتی ہوں پیارے
کہ آجائے ترا پیغام کوئی
مجھے اب سانس لینا بھی گراں ہے
نہ جانے پیارے پنہوں تو کہاں ہے
6
خوشا یہ کیفیت کوہ و دمن کی
مہک ہے ناقۂ مشکِ ختن کی
خدا جانے کہاں سے آ رہی ہیں
یہ خوشبوئیں جتوں کے پیرہن کی
وہ آری جام ہو جس انجمن میں
نہ پوچھو رونقیں اس انجمن کی
بر آئیں اس کی صورت دیکھتے ہی
مرادیں غمزدہ اہل وطن کی
ہوا بھنبھور میں جشن چراغاں
خوشی دیکھے تو کوئی مرد و زن کی
7
خدا جانے مجھے یہ درد دے کر
ہوئے کس وقت وہ کیچی روانہ
گواہی دے رہے ہیں اشکِ شبنم
کہ ہے یہ آخر شب کا فسانہ
8
دل بیتاب کو پامال کرکے
کہاں وہ میرا پنہوں کھو گیا ہے
کھلایا ہے یہ گل جب سے جتوں نے
خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے
9
بلوچوں سے وفا کا آسرا کیا
خطا کاری ہے ان سے دل لگانا
مجھے معلوم ہے دستور ان کا
نہیں آساں انہیں اپنا بنانا
وہ مجھ پر اولِ شب غلبۂ خواب
وہ ان کا آخر شب کیچ جانا
گھڑی بھر کے لئے تھی آشنائی
مرے کس کام یہ مہندی رچانا
10
قصور ان دیوروں کا اس میں کیا ہے
جو سچ پوچھو تو میری ہی خطا ہے
رہی انجان میں ان منزلوں سے
جن سے آری جام آشنا ہے
اگر میں تھام لیتی ان کا دامن
نہ ہوتا پھر یہ جو کچھ بھی ہوا ہے
وہی درماندگی میں ساتھ دے گا
وہی اس غمزدہ کا آسرا ہے
11
خطا اپنی ہے تیرا نام کیوں لوں
مرے جی کا ہے یہ جنجال پیارے
مری تقدیر ہی کھوٹی تھی ورنہ
نہ ہوتا دفعتاً یہ حال پیارے
وہ کیچی اور ان کے اونٹ مجھ کو
نہ کرتے اس طرح پامال پیارے
چھپے رہتے مری آغوش ہی میں
وہ تیرے گھنگھریالے بال پیارے
وائي
رگ رگ میں رنگ روپ رچائے ہوئے ہوںمیں
دل میں کسی کی یاد بسائے ہوئے ہوں میں
میں سو رہی تھی کیچ کو وہ کارواں گیا
لگتے ہی میری آنکھ وہ پیارا کہاں گیا
اب کیا ہے زندگی میں وہ آرام جاں گیا
حیران ہوں کہاں وہ مرا رازداں گیا
سوزِ غمِ فراق چھپائے ہوئے ہوں میں
دل میں کسی کی یاد بسائے ہوئے ہوں میں
آرائشیں جتوں کی ابھی تک نظر میں ہیں
نیرنگیاں جمال کی قلب و جگر میں ہیں
کیا غم جو مشکلیں بھی مری رہگذر میں ہیں
مونس یہ طائران خوش الحان سفرمیں ہیں
لطف و کرم کی آس لگائے ہوئے ہوںمیں
دل میں کسی کی یاد بسائے ہوئے ہوں میں
وائي
جنجال ہوئی جیون رچنا
میں کس کو سنائوں دکھ اپنا
موھے مار گئے روٹھے سجنا
اب کیسے جیوں ہوتوں کے بنا
بہروپ بھیانک اس پربت کا
کیا دیکھے میری دربلتا
اے جھوٹی آشا تو ہی بتا
نگری میں ہے کون اپنا
اب کیسے جیوں ہوتوں کے بنا
وائي
میں برھن کوسوں دور رہی
پہنچے مرے دیور کیچ سکھی
پربت پربت بے چین پھری
پنہوں کے لئے لئے دن رین پھری
جائوں میں ان اونٹوں پر واری
پہنچے مرے دیور کیچ سکھی
دھوبی نے مجھے پالا پوسا
کیا میرا برھمن سے ناتا
میں ابھلا پنہوں کی داسی
پہنچے مرے دیور کیچ سکھی
وائي
مرے پنہوں دھیر بندھانا
اس رن میں چھوڑ نہ جانا
اے میرے پیارے آری
ہے تیری یہ دکھیاری
تری مہما جگ سے نیاری
مرے پنہوں لوٹ کے آنا
پربت میں چھوڑ نہ جانا
سیوا میں کروں گی ساجن
پانی میں بھروں گی ساجن
چرنوں پہ مروں گی ساجن
دھوبن کا مان بڑھانا
پربت میں چھوڑ نہ جانا
سر کوہیاری
پہلی داستان
1
رات سوکر گذاردی ساری
اے سسئی اب کہاں ترا آری
اب نہ وہ کارواں نہ وہ ناقے
رہ گئی کھوئی کھوئی بیداری
درس عبرت یہ خواب غفلت ہے
بے خودی ہے تری خود آزاری
کچھ تو کرلے تلافی۔ٔ مافات
ہائے بیٹھی ہے کیوں تھکی ہاری
ہے ابھی رہگذار میں پنہوں
جا اب اس کی تلاش میں پیاری
2
تجھ سے بہتر تو ان کے ناقے تھے
نیند جن کو نہ رات بھر آئی
تیری غفلت شعار فطرت پر
آہیں بھرتی ہوئی سحر آئی
جا اب اس کی تلاش میں کہ تجھے
پیش اک سخت رہگذر آئی
3
مژدہ وصلِ دیدۂ بیدار
چشمِ خوابیدہ کس کے کام آئی
کاروانِ حیات جا نکلا
تو بھی ہو محوِ جادہ پیمائی
یہ نہ ہو اس رہِ تمنا میں
صرف رہ جائے تیری تنہائی
4
ان کے اونٹوں کی کوئی آہٹ بھی
سن سکی تو نہ خواب غفلت میں
شام ہوتے ہی تجھ کو نیند آئی
اب کہاں وصل تیری قسمت میں
5
ہائے قسمت کہ خواب غفلت میں
اپنے پنہوں سے بے نیاز رہی
کر گئے کوچ قافلے والے
اور میں مست خوابِ ناز رہی
اور بھنبھور میں رہا کیا ہے
جب نہ وہ چشم دلنواز رہی
6
گھر میں جب تک رہا وہ آری جام
رہی بے فکرِ گردش ایام
یہ نہ جانا حرام ہے مجھ پر
راحت خواب، نیند کا آرام
اے سسئی کچھ خبر بھی ہے تجھ کو
کہ وہ لائے تھے اپنے ساتھ اک دام
7
شام ہی سے کوئی جو سو جائے
کیوں نہ غفلت شعار کہلائے
آنکھ کھلنے پہ لاکھ پچھتائے
ان جتوں کو مگر کہاں پائے
اے سسئی تجھ کو اب ترا پنہوں
کیسے بھنبھور میں نظر آئے
8
خواب غفلت میں اے سسئی تجھ کو
فکر پنہوں کی رات بھر نہ ہوئی
ہر طرف تھے ترے سراغ رساں
تجھے ان کی کوئی خبر نہ ہوئی
مثلِ مردہ لپیٹ کر منہ کو
ایسی سوئی کہ پھر سحر نہ ہوئی
خود ہی ملزم ہے خود ہی تو الزام
کر رہی ہے جتوں کو کیوں بدنام
9
گر روادار عاشقی ہوتی
یوں نہ طاری غنودگی ہوتی
’کیچ‘ سے آنے والوں کی خاطر
رات آنکھوں میں کاٹ دی ہوتی
وائي
دوش کسی کا کیا ہے اس میں
بھاگ پہ کس کا زور
چھوڑ چلی بھنبھور
سکھی…میںچھوڑ چلی بھنبھور
سکھ سنتوش سنگار سہاگن
بہلاتے ہیں تیرا تن من
پر میں جی بہلائوں کیسے
ہائے پنہل چت چور
سکھی…میںچھوڑ چلی بھنبھور
جیسے بھی ہو، جائوں گی میں
بن بن کھوج لگائوں گی میں
ڈال ڈال پہ سیس جھکا کر
روئے گا من مور
چھوڑ چلی بھنبھور
سکھی…میںچھوڑ چلی بھنبھور
دوسری داستان
1
مشکلیں چوب کار کی مانند
کاٹ دیتی ہیں ہر درختِ امید
ہائے یہ کوہسارِ صبر شکن
راہ پرخم دیار یار بعید
دل عاشق کی آزمائش سخت
عزم انساں کی دل شکن تردید
2
اے رہِ کوہسار ناہموار
زخمِ دل کس طرح چھپائوں گی
تیری ایذا رسانیاں ظالم
پیارے پنہوں کو میں بتائوں گی
کر دیا گم وہ نقش پا تو نے
جس کا کوئی بدل نہ پائوں گی
3
اے پراسرار کوہسار بتا
پیارا پنہوں کدھر سے گذرا تھا
کچھ خبر ہے کہاں گیا آخر
قافلہ جو ادھر سے گذرا تھا
لوٹ آئے وہ کاش آری جام
کل جو اس رہگذر سے گذرا تھا
4
تو ہی جب گم ہے پیارے آری جام
کوہساروں میں خاک ہو آرام
پائوں چھلنی ہیں سنگ ریزوں سے
ہائے یہ کوہسارِ خوں آشام
نالۂ بے اثر سنے گا کون؟
میں پکاروں مگر سنے گا کون؟
5
اے رہِ کوہسار دیکھ کہ میں
اک مجسم غم تمنا ہوں
مجھے پر اتنے ستم ہیں کیوں ظالم
میں تو پہلے ہی ایک دکھیا ہوں
6
غم کے ماروں کا دل بڑھانا تھا
اس طرح بھی نہ ظلم ڈھانا تھا
سنگدل کوہسار کیا جانے
مجھے کس کا پتہ لگانا تھا
سوگوارِ غمِ فراق تھی میں
پیارے پنہوں کے پاس جانا تھا
7
ہائے مجبوریٔ دلِ بے تاب
تجھ کو سمجھی تھی رازداں اپنا
پیچ در پیچ جادۂ صحرا
ہو سکا تو مگر کہاں اپنا
8
آکہ رو لیں دیارِ دشت و جبل
اپنی قسمت میں نوحہ خوانی ہے
تیرے ویران رہگذاروں سے
ملتی جلتی مری کہانی ہے
9
جن پہ حزن فراق ہے طاری
فرض ہے تجھ پہ ان کی دلداری
اے رہِ سخت کوہسار بتا
کھو گیا ہے کہاں مرا آری
10
خشک اب میری چشمِ پرنم ہے
دل کا عالم عجیب عالم ہے
ریزہ ریزہ ہوا ہے کوہِ گراں
مشتعل پھر بھی سوز پیہم ہے
اس کی فتنہ طرازیاں مت پوچھ
جان لیوا یہ ابلق غم ہے
11
اے خوشا کوہسار پراسرار
جان اس جانِ انجمن پہ نثار
12
غمزدہ ہو گئے درندے بھی
نوحہ خواں کوہسار ہے اب تو
اے سسئی تیرا ہمنوا بن کر
ہر نفس شعلہ بار ہے اب تو
13
کوئی اس کا جواب کیا ہوگا
ہوت ہے میری آنکھ کا تارا
یہ جبل ہیں زمین کی میخیں
اور ان سب کی میخ وہ پیارا
14
کون جانے یہ راز در پردہ
رنگ ان وادیوں کا کیوں فق ہے
دیکھ کر نوحہ خواں سسئی تجھ کو
سینۂ کوہسار بھی شق ہے
15
اے مری عزم کوہ پیمائی
یہ فراز جبل یہ تنہائی
کوہساروں میں ساتھ دے نہ سکی
میری سکھیوں کی پرنیاں پائی
آخر اس کا پتہ لگائوں گی
جو مرے دل کا ہے تمنائی
16
ہمسفر چاہتے ہیں اب آرام
ہائے لیکن مرا دل ناکام
میں رہوں گی ان ہی سرابوں میں
دور جب تک ہے پیارا آری جام
وائي
میں پریم پجارن ہوں سکھیو
وہ ہوت نہ مجھ کو چھوڑے گا
میں ڈال چندریا پی کے گلے
جیسے بھی ہو جا کے منالوں گی
اس پریت ڈگر میں اے سجنی
آشا کے دیپ جلا لوں گی
میں پریم پجارن ہوں سکھیو
وہ ہوت نہ مجھ کو چھوڑے گا
پل بھر بھی تجھ بن اے پنہوں
اس جگ میں رہ نہ سکوں گی میں
داسی ہوں دیالو داتا کی
من موہن آن ملوں گی میں
میں پریم پجارن ہوں سکھیو
وہ ہوت نہ مجھ کو چھوڑے گا
تیسری داستان
1
تک رہا ہے یہ کوہسار مجھے
کر گیا کون بے قرار مجھے
اے مرے ’ہوت‘ آ بھی جا پیارے
ہے بہر گام انتظار مجھے
یاد آئیں اگر تو کیوں آئیں
اب وطن کے وہ برگ و بار مجھے
روک سکتا تو روک ہی لیتا
غم سے بے حال ان کا پیار مجھے
تجھ سے ہو کر جدا نظر آیا
سارا بھنبھور شعلہ بار مجھے
قرب منزل نے وہ فریب دیا
کر دیا واقف رہگذار مجھے
تو نہیں راہبر مرا تو نہیں
رہگذر کا بھی اعتبار مجھے
پھر اچانک قریب تر کر دے
اپنے اونٹوں سے ایک بار مجھے
2
پیارے پنہوں کی حشر ساماں یاد
جیسے سینے میں ناوکِ فولاد
چشمِ خوابیدہ مائلِ فریاد
اور شبہا ے غم ستم ایجاد
جرأت صبر کا نہ ذکر کرو
جان لیوا ہے عشق کی بیداد
3
اپنی ہر بے بضاعتی تسلیم
لیکن اے جذبۂ جنوں آثار
میری رگ رگ میں رہ گیا رچ کر
دور افتادہ کیچیوں کا پیار
کس طرح بھول جائوں میں اس کو
جو ازل ہی سے ہے مرا دلدار
4
ان بلوچوں کی خادمہ ہوںمیں
جن سے وابستہ درد ہستی ہے
لاکھ ترکِ تعلقات کریں
میرا مسلک وفا پرستی ہے
ہر تمنا ہے ہوت سے منسوب
دل کی مستی عجیب مستی ہے
5
کاش اک بار راس آجائے
یہ تمناے کمتری میری
کیچیوں کی کنیز ہوں لیکن
درس عبرت ہے زندگی میری
پیارے پنہوں تری دہائی ہے
لاج رکھ لینا جیتے جی میری
مجھ پہ اس کار زار ہستی میں
خندہ زن ہو نہ عاجزی میری
وائي
مرے دیالو ساجن آئیں گے
پھر ساتھ مجھے لے جائیں گے
ٹوٹیں نہ ملن کی آشائیں
کیا روکیں گی یہ بپتائیں
ساجن موہے راہ سجھائیں گے
پھر ساتھ مجھے لے جائیں گے
تن میرا پاپ کی نگری ہے
من مایا لوبھ کی گٹھڑی ہے
ساجن یہ روگ مٹائیں گے
پھر ساتھ مجھے لے جائیں گے
چوتھی داستان
1
کون جانے کہاں میں آپہنچی
دشت وکہسار و رہ گذر خاموش
منزلِ غمگسار نامعلوم
ضبط دشوار، صبر دشمن ہوش
تیرا پہلو، زہے نصیب اے دوست!
اب بلاتی ہے قبر کی آغوش
2
حشر ساماں یہ نارسائی ہے
جان لیوا تری جدائی ہے
اے مرے ’ہوت‘ میں ترے قرباں
کیوں یہ درگت مری بنائی ہے
میں کہاں اور کوہسار کہاں
اے محبت تری دہائی ہے
کس سے پوچھوں بتائے کون مجھے
معتبر کس کی رہنمائی ہے
خوابِ غفلت کا ہو برا یا رب!
میں نے جس کی سزا یہ پائی ہے
3
کون جانے کہاں ملیں گے وہ
ہائے مجھ کو جنہوں نے مارا ہے
جن کے ابرو کی نوکِ پیکاں نے
موت کے گھاٹ لا اتارا ہے
جسم میں اب لہو کا نام نہیں
کس کو تاب و تواں کا یارا ہے
پیارے پنہوں مگر تری خاطر
ہر مصیبت مجھے گوارا ہے
چارہ سازوں سے کیا امید مجھے
درد دل کو ترا سہارا ہے
4
عشق نے مثل گوسفند مجھے
دُشنۂ ہجر سے حلال کیا
ہوت کی یاد نے مرے دل کو
اک صنم خانۂ خیال کیا
کیا بتائوں کہ کن اشاروں نے
مجھ کو آمادۂ وصال کیا
5
پیارے پنہوں کا پرتوِ رنگیں
بادلوں کی جھلک دکھاتا ہے
جادۂ سخت دشتِ وحشت میں
خوں کے آنسومجھے رلاتا ہے
6
پرتوِ حسنِ دوست منڈلایا
اب نہ وہ خستگی رہی نہ تھکن
ہر مصیبت میں دل کو راحت ہے
جب سے ’آری‘ ہوا ہے جلوہ فگن
وائي
اس ’ہوت‘ بلوچ کو پائوں
پھر ایک بار مل جائوں
یہ اونچا نیچا پربت
مجھ سے تو چڑھا نہ جائے
تجھ تک مرے پیارے پنہوں
اب کون مجھے پہنچائے
میں پگ پگ نین بچھائوں
پھر ایک بار مل جائوں
بھنبور میں مجھ کو سکھیو!
داتا کی مہما لائی
پھر پنہوں جام کی ہو کر
دُربل داسی کہلائی
وہ آئیں تو سکھ پائوں
پھر ایک بار مل جائوں
پانچویں داستان
1
ہائے کب تک کسی کا غم کھائوں
کس طرح اپنے جی کو بہلائوں
اک مسلسل عذاب ہے ہستی
کیوں نہ ہستی سے میں گذر جائوں
تو نہیں اور ترے سوا کیسے
راحتِ جاں سکوں دل پائوں
سر بسر دردِ لادوا ہوں میں
جب سے اس ’ہوت‘ سے جدا ہوں میں
2
پیارے پنہوں غم جدائی سے
ٹکڑے ٹکڑے ہوا دل حیراں
چارہ ساز حیات تیرے بغیر
کیسے حاصل ہو اس کو تاب و تواں
3
جن سے وابستہ ہے دلِ ناکام
کر رہے ہیں وہ کیچ میں آرام
بدگماں ہو گیا نہ جانے کیوں
ساکنِ کوہسار ’آری جام‘
4
عام رنگ و بو کی ہر تنظیم
ایک پل میں ورق ورق ہو جائے
راکھ ہو جائیں برگ و بار تمام
اور بیاباں کا منہ بھی فق ہو جائے
میرا غم ہے وہ غم جو ظاہر ہو
سینۂ کوہسار سے شق ہو جائے
5
حالِ حسن مدعا ہے تو
ہر حقیقت سے آشنا ہے تو
بے وسیلوں کو کیچ پہنچادے
آس تجھ سے ہے، آسرا ہے تو
نہ ملا ’حب‘ کا راستہ جن کو
ان غریبوں کا رہنما ہے تو
6
ہاں یہ سچ ہے کہ میں ہوں پر تقصیر
لیکن اے کارسازِ عالمگیر
ہے بہرطور تجھ سے وابستہ
جادہ پیماے شوق کی تقدیر
7
سکھ سہائے سہیلیو! تم کو
میں دکھی ہوں دکھی ہی رہنے دو
اشک بن بن کے میری آنکھوں سے
بہہ رہا ہے لہو تو بہنے دو
پریت کی ریت ہے یہی سکھیو!
چوٹ برھا کی جی پہ سہنے دو
8
وہ نہ سمجھیں گے پریت کے دکھ درد
چوٹ کھائے ہوئے جو لوگ نہیں
کیوں مرے ساتھ رو رہی ہو تم
پیاری سکھیو! یہ سو گ، سوگ نہیں
ہائے برھا کی آگ میں جلنا
ہرسہیلی کے بس کا روگ نہیں
وائي
تم چھوڑو یا لے جائو مجھے
دھتکارو یا اپنائو مجھے
ساجن میں تمہیں اپنائے ہوں
کچھ دن تو جتوں کو رہنا تھا
کہہ لیتے جو کچھ کہنا تھا
اک چوٹ سی دل پر کھائے ہوں
ساجن میں تمہیں اپنائے ہوں
ترے نینوں کی مدھ ماتی
میں بھول گئی سونا چاندی
پھر سے اک آس لگائے ہوں
ساجن میں تمہیں اپنائے ہوں
اونٹوں کو کہیں رکوالینا
داسی کو پاس بلا لینا
میں من کو دھیر بندھائے ہوں
ساجن میں تمہیں اپنائے ہوں
سن بات ’لطیف‘ کی اے پیارے
ہیں پریم کے یہ بندھن سارے
یادوں سے جی بہلائے ہوں
چھٹی داستان
1
چشمِ پرنم کو کیا کروں پیارے
اشکِ پیہم کو کیا کروں پیارے
ناشکیبا ہے سوختہ جانی
شعلۂ غم کو کیا کروں پیارے
تشنگی ہے کہ بجھ نہیں سکتی
موجۂ یم کو کیا کروں پیارے
فکرِ رہزن فراقِ راہنما
سعئی پیہم کو کیا کروں پیارے
یہ سرِ راہ آفتوں کا ہجوم
میں ترے غم کو کیا کروں پیارے
زندگی کا نظام درہم ہے
حسن برھم کو کیاکروں پیارے
تیری منزل ہی جب گریزاں ہے
میں دو عالم کو کیا کروں پیارے
عشق کے پیچ و خم ہی کیا کم ہیں
راہِ پر خم کو کیا کروں پیارے
2
نوح خواں برگ و بار ہیں مجھ پر
ان پہ ظاہر مرا غم دل ہے
لیکن اربابِ عشق کے نزدیک
اشک باری ریا میں داخل ہے
3
لاکھ آبادیوں سے بڑھ کر ہے
دل سوزاں کی خانہ ویرانی
مرحبا میری جستجوے حسین
اور جلوئوں کی فتنہ سامانی
ایک دھوکا مظاہر کثرت
حسن وحدت مگر ہے لاثانی
4
اعتبارِ مظاہر کثرت
کم نگاہی نہیں تو پھر کیا ہے
زندگی کے نگار خانے میں
بس وہی ایک جلوہ فرما ہے
5
منزلِ زندگی معین کر
دیکھ پیارے کا نقشِ پا پیاری!
ہے ترے جذب و شوق میں موجود
دیدہ و دل کا رہنما پیاری
6
ڈر نہ تو کوہسار ’پب‘ سے کہ یہ
تیرے شوقِ طلب کی ہے توہین
دل کی آنکھوں سے دیکھ اے ناداں
یہ بیاباں ہے یا کوئی قالین!
7
اف یہ بادِ سموم کی حدت
کوہ و صحرا میں آگ سی دیکھیں
ضبطِ پیہم کے باوجود اے دوست
دیدۂ شوق میں نمی دیکھی
وائي
برھا کی سمرن میں آنسو پرو لوں
جب بھی اٹھے ہوک جی بھر کے رو لوں
بیری بلوچوں نے اونٹوں کو پھیرا
چھایا ہے آنکھوں میں کیسا اندھیرا
جانے نہ کوئی بھی دکھ درد میرا
گھٹ گھٹ کے مرجائوں منہ سے نہ بولوں
جب بھی اٹھے ہوک جی بھر کے رو لوں
کھویا ہوا من کا موتی نہ پائوں
کب تک نراشا کو آشا بنائوں
دھول اور مٹی سے ہولی منائوں
نینوں کی ندیا سے آنچل بھگولوں
جب بھی اٹھے ہوک جی بھر کے رو لوں
وائي
ڈھونڈھوں گی تمہیں جا کر بن بن
دکھیا پہ دیا کرنا ساجن
دیکھے نہ مرے دل کے چھالے
پاگل سمجھے دنیا والے
مت روٹھ مرے پریتم پیارے
میں بیکل ہوں تیرے کارن
دکھیا پہ دیا کرنا ساجن
رنگ لوں گی چندریا نیروں سے
گھائل ہوں نین کے تیروں سے
بن تیرے چین نہ پائوں گی
میں چاہے کروں اب لاکھ جتن
دکھیا پہ دیا کرنا ساجن
سر حسینی
پہلی داستان
1
یہ وقت شام یہ خاموش سائے سسئی اب دن کا اندازہ لگائے
قدم کچھ اور تیز آگے بڑھائے کہ رستے میں نہ سورج ڈوب جائے
یہ مانا بوجھ برھا کا ہے بھاری مگر جیسے بھی ہو گرنے نہ پائے
سسئی کے پیرہن کا طولِ دامن رہ پرخار میں آڑے نہ آئے
غروب آفتاب عالم افروز پیام منزل مقصود لائے
2
بلا کی دھوپ میں درماندہ ہو کر
سسئی سایہ شجر کا ڈھونڈہتی تھی
بیاباں ہی میں اس کو ہو گئی شام
گھڑی وہ کس قیامت کی گھڑی تھی
درخشاں چشمِ پرنم میں تمنا
سماں رستے میں سورج ڈوبنے کا!
3
غروب اے مہر تاباں ہو نہ جانا
رہِ الفت میں کانٹے بو نہ جانا
مری راہِ وفا میں کام آئیں
مرے مرنے سے پہلے مٹ نہ جائیں
بلوچوں کے نشاں محفوظ رکھنا
مری سعی۔ٔ طلب ملحوظ رکھنا
4
میں کوہ ودشت میں افتاں وخیزاں
تلاش اے جانِ جاں تجھ کو کروں گی
مرے پنہوں اگر جیتی رہی میں
تری ہی یاد میں آہیں بھروں گی
5
عجب یہ شام کا رنگیں سماں ہے
شفق آلودہ ہر کوہِ گراں ہے
کہیں یہ نقش پا بھی مٹ نہ جائے
فضا میں پرتوِ شب پرفشاں ہے
کہیں تاب و تواں رخصت نہ ہوجائیں
کہاں ہے وہ مرا مونس کہاں ہے
6
مرا کیا دے سکو گی ساتھ سکھیو!
خدارا تم یہیں سے لوٹ جائو
سرابوں ہی سرابوں کا سفر ہے
چلی بھی جائو ضد سے باز آئو
وائي
مجھ دکھیاری کو اے سکھیو، ملے دان میں اونچے ٹیلے
ڈگر ڈگر پر کب تک بھٹکیں میرے نین ہٹیلے
پائوں اٹھانا بھی دوبھر ہے، قدم قدم جنجال سکھی ری
ہائے یہ میرا حال سکھی ری
ہرے بھرے پیڑوں سے بن میں کہتی ہوں یہ سانجھ سویرے
جو کچھ مانگو مل جائے گا ساتھ میں ہوں جب ساجن میرے
کب سے آس لگائے ہوئے ہے، ہر البیلی ڈال سکھی ری
ہائے یہ میرا حال سکھی ری
ہیرے جیسا دل پریتم نے توڑا جیسے کنکر توڑے
واری واری جائوں اس پر، کیوں ہے برھن سے منہ موڑے
گھائل من کی صورت جیسے پھول انار کا لال سکھی ری
ہائے یہ میرا حال سکھی ری
’پب‘ کے پتھر موتی بن کے نینوں میں دن رین سمائیں
پر اس آری جام پیا کو کت ڈھونڈیں اور کیسے پائیں
بیٹھے تھے سر جوڑ کے دیور چلنے کو یہ چال سکھی ری
ہائے یہ میرا حال سکھی ری
کہے ’لطیف‘ کوی اے سکھیو پریتم پردیسی لوٹ آئے
مدھر ملن کی شوبھائوں نے آشائوں کے بھاگ جگائے
لائے سندیسہ پریت لگن کا، وہ کیچی سکھ پال سکھی ری
ہائے یہ میرا حال سکھی ری
دوسری داستان
1
یہ صحرا اور گرمی دوپہر کی
یہ بے تابی مرے قلب و جگر کی
خدا جانے کہاں لے کر چلی ہے
مجھے آوارگی فکر و نظر کی
نہ بھولوں گی تجھے اے پیارے پنہوں
قسم ہے مجھ کو اپنی چشم تر کی
چلی ہوں عالمِ وارفتگی میں
ضرورت کیا مجھے رخت سفر کی
2
مچل کراشک خونین چشم تر میں
یہ کہتے ہیں نہ جائو میرے پیارو
چلے ہو مجھ کو داغ ہجر دے کر
کہاں اے بندہ پرور شہسوارو
3
کبھی تو سیر ہو اے چشم حیراں
عبث ہیں زندگی کے ساز و ساماں
کہاں ہے نور چشم و راحت دل
کہاں ہے عشرت روح پریشاں
حیات چند روزہ کے مشاغل
ہوئے نقش و نگارِ طاقِ نسیاں
دل برباد کو کیا راس آئیں
امیدیں آرزوئیں اور ارماں
4
میں چرخا کاتنے بیٹھی ہوں لیکن
کہاں پونی ہے اور دھاگہ کدھر ہے
مسلسل سعئی لا حاصل کے صدقے
کہ اس کا ماحصل یہ چشم تر ہے
5
کہاں کا عشق کیسی آشنائی
میں ایسے دردِ سر سے باز آئی
محبت نے مجھے بے موت مارا
دہائی ہے مرے پنہوں دہائی!
6
شعاعِ مہرِ عالمتاب ہو یا
ہوا ے سردِ شب ہو، تیز تر جا
سسئی یہ تیری راہِ پیچ در پیچ
نہ جانے ختم کب ہو، تیز تر جا
7
بڑھے ہر سمت تاریکی کے سائے
کہیں وہ نقشِ پاگم ہو نہ جائے
تلاشِ جاوداں سعئی مسلسل
تجھے شاید رہِ منزل دکھائے
کہاں کی دھوپ کیسی چھائوں اس کو
ہجوم غم میں بھی جو مسکرائے
تجھے روکے نہ پھر کوہِ گراں بھی
دیار دوست جب تجھ کو بلائے
وائي
ہوت سے موھے پیار … سکھی ری
ہوت ہے میرا سنگھار … سکھی ری
ہوت گلے کا ہار … سکھی ری
گھاٹی گھاٹی کو مہکائے
کیسے کیسے پھول کھلائے
تن برمائے من برمائے
رنگ رنگیلے روپ دکھائے
پربت پربت ہن برسائے
پریم سے جیون جوت جگائے
بن دیکھے موہے چین نہ آئے
ہوت سے موھے پیار … سکھی ری
ہوت گلے کا ہار … سکھی ری
تیسری داستان
1
سکھی بھنبھور سے دل بدگماں ہے
سہارا کون اب میرا یہاں ہے
وہ فردوس نظر ’آری‘ کہاں ہے
یہ آہیں ہیں کہ دوزخ کا دھواں ہے
ستاتی ہے جتوں کی یاد مجھ کو
بھیانک صبحِ وحشت کا سماں ہے
وہیں آئوں گی میں اے پیارے پنہوں
سنا ہے تو پسِ کوہ گراں ہے
تجھے میں کس طرح دل سے بھلائوں
تو ہی تسکینِ دل آرامِ جاں ہے
عبارت منزلِ مقصود تجھ سے
مری ہستی غبارِ کارواں ہے
قیامت تھی مری غفلت شعاری
تصور جس کا اب دل پر گراں ہے
2
اب اس بھنبھور سے ویرانہ بہتر
گلوں سے سبزۂ بیگانہ بہتر
سکوں ناآشنا ویرانیوں میں
دلِ وارفتہ و دیوانہ بہتر
ہر اک نظارۂ باطل سے مجھ کو
سرورِ جلوۂ جانانہ بہتر
3
سن اے دوشیزہ بھنبھور آخر
کہاں اس جان جاں کو ڈھونڈھتی ہے
عبث دشت و جبل کی وسعتوں میں
رہ محبوب کو تو ڈھونڈھتی ہے
4
سسئی کے دیدۂ و دل کے اجالے
نہ پہچانے تجھے بھنبھور والے
سسئی کی چشم حیراں نے بالآخر
کئے قلب و نظر تیرے حوالے
اسے کیا کام فکر ماسوا
جسے وہ جانِ جاں اپنا بنالے
5
کہاں یہ جلوۂ صبح و مسا تھا
کہاں بھنبھور اتنا پر فضا تھا
بہاریں لے کے آیا پیارا پنہوں
و گر نہ یہ چمن ویراں سا تھا
وائي
نہ سمومِ دشت کا شکوہ ہے نہ غبارِ راہ کا ہے گلہ
یہ مہک فضا کی بتا رہی ہے یہیں کہیں ہے وہ قافلہ
مرے رہنما، مرے رہنما
ترا نقش پا مجھے مل گیا
جو سنا تھا صبح الست کو، وہ پیام ہے مرا راحلہ
کہ فضاے دشت و جبل میں بھی، ہے وہ جذب و شوق کا سلسلہ
مرے رہنما، مرے رہنما
ترا نقشِ پا مجھے مل گیا
چوتھی داستان
1
مرے دیور مجھے بے عیب پاتے
تو مجھ سے یوںخفا ہو کر نہ جاتے
بہر عنوان وہ مجھ کو آزماتے
میں جتنا روٹھتی اتنا مناتے
نہ تھا کچھ رشتہ و پیوند ان سے
و گر نہ مجھ پہ وہ کیوں ظلم ڈھاتے
کدورت تھی دلوں میں ان کے ورنہ
مجھے جانے سے پہلے وہ جگاتے
اگر میں خواب غفلت میں نہ ہوتی
مصیبت کے یہ دن مجھ پر نہ آتے
سلایا مجھ کو شوق مطمئن نے
نہ میں سوتی نہ وہ یہ گل کھلاتے
2
نہ کیچی ہیں نہ ان کا کارواں ہے
سراسر غفلت خواب گراں ہے
عبث بے تابیٔ اشک رواں ہے
تلاش دوست سعئی رائگاں ہے
مقدر میں فراق جان جاں ہے
کہان ناقے ہیں اور پنہوں کہاں ہے
نہ جانے کونسی خامی ہے مجھ میں
جو ان پیارے بلوچوں پر عیاں ہے
3
کہاں وہ تیزرو ناقے سدھارے
کہاں گم ہو گئے کیچی دلارے
نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہمنشیں ہے
رہوں بھنبھور میں کس کے سہارے
کسے آواز دوں کس کو پکاروں
نہیں سنتا کوئی فریاد پیارے
کہاں ہے وہ مری گم گشتہ جنت
سنے کون اب کوئی کس کو پکارے
4
جہاں وہ حاصل فکرو نظر ہے
وہ منزل ماورائے رہگذر ہے
خدا جانے کہاں وہ جلوہ گر ہے
رگِ جاں سے بھی جو نزدیک تر ہے
چل اے جوش جنوں دیکھیں وہاں بھی
سنا ہے کیچ میں پنہوں کاگھر ہے
خوشا وارفتگی قلب و نظر کی
نشاں اس کا نہ کچھ اپنی خبر
وائي
میں بن باسی بن جائوں گی
بھنبھور کو آگ لگائوں گی
اے ہوت تجھے اپنائوں گی
جیسے بھی ہو کھوج لگائوں گی
بن تیرے جان گنوائوں گی
میں تن من بھینٹ چڑھائوں گی
اوجھل نہ ہو آنکھوں کے تارے
بیکل ہیں نین تھکے ہارے
کر دیں گے راکھ مجھے پیارے
سانسوں کے سلگتے انگارے
کب ٹوٹیں گے بندھن سارے
کب مدھر ملن کو آئوں گی
میں تن من بھینٹ چڑھائوں گی
دکھ درد کے پاٹوں کی چکی
جیون کو کہاں تک پیسے گی
مانوں گی ہار نہ جیتے جی
ہو جائے چاہے جو کچھ بھی
میں ہوں امرت رس کی پیاسی
پیاسوں کی ریت نبھائوں گی
میں تن من بھینٹ چڑھائوں گی
وائي
اس جیون کے تپتے رن میں، آشا کے انجانے بن میں
پاس نہ ہو جب پنہوں میرے،
کیسے آئے چین … سکھی ری
ہائے جتوں کو پربت پربت،
ڈھونڈوں گی دن رین … سکھی ری
ڈور بنائوں گی میں سجنی، اونٹ چرائوں گی میں سجنی
درشن ابھلاشی ہیں کب سے،
میرے پیاسے نین … سکھی ری
ہائے جتوں کو پربت پربت،
ڈھونڈوںگی دن رین … سکھی ری
’شاہ لطیف‘ کی بات بن آئے … پیارا پنہوں پھر آجائے
مجھ برھن کے بیکل من کو،
مل جائے سکھ چین سکھی ری
ہائے جتوں کو پربت پربت،
ڈھونڈوں گی دن رین … سکھی ری
پانچویں داستان
1
وہ ’لس بیلا‘ ہو یا ’منہبار‘ پیارے
مجھے درکار ہیں تیرے سہارے
میسر تھے بلوچوں ہی کے دم سے
مرے بھنبھور کو رنگیں نظارے
مرے دل سے صبا رفتار ناقے
اڑا کر لے گئے کچھ چاند تارے
2
پہن کر جن کو کہلائی سہاگن
میں اب ان چوڑیوں کو توڑتی ہوں
کہاں تک ماں! سہونگی تیرے طعنے
میں اب گھر بار سے منہ موڑتی ہوں
جہیز اپنا، زباں اپنی سنبھال اب
ترے بھنبھور کو میں چھوڑتی ہوں
کوئی سمجھے گا کیا دکھ درد میرا
یہاں سر اپنا ناحق پھوڑتی ہوں
لیا ہے جوگ برھن بن کے میں نے
بیابانوں سے ناتا جوڑتی ہوں
بھری ہے آنسوئوں سے میری جھولی
سمجھتی ہوں ہر اک پربت کو ڈولی
3
ان بلوچوں سے دوستی کر کے
کیا بتائیں سسئی نے کیا پایا
ماوراے ہجومِ راہگذر
دیدہ و دل کا مدعا پایا
4
مسافر بن کے وہ جس وقت آئے
نہ جانے کیوں مرے دل میں سمائے
عبث ان اجنبی پردیسیوں سے
محبت کرکے یہ دکھ درد پائے
دلا سے دے کے ماں! کیوں روکتی ہے
کہیں دل ہی میں دل کی رہ نہ جائے
فراقِ ہوت میں کب تک شب و روز
دل درد آشنا یوں تلملائے
5
عبث پردیسیوں سے دل لگایا
کسی کا پیار تن من میں بسایا
سسئی تو نے برہمن زاد ہو کر
بلوچوں سے بھلا کیوں دل لگایا
سمجھ کر کھیل کیوں پنہوں کو تو نے
ہمیشہ کے لئے اپنا بنایا
6
بلوچوںکو یہاں آتے ہی شاید
بتایا تھا کسی نے راز میرا
وہ رخصت ہو گئے میں سورہی تھی
ابھی ہونے نہ پایا تھا سویرا
7
عجب ہے سوزِ آہنگ ’حسینی ۱؎ ‘
بہت آسودہ میری جان ہوئی ہے
گل تازہ ہے زخم خونچکاں بھی
خلش ہی درد کا درماں ہوئی ہے
مرے حق میں سفر کی ہر صعوبت
نہ جانے کس لئے آساں ہوئی ہے
8
بسا اوقات وہ حسن گریزاں
تہی آغوش پر حیراں ہوا ہے
فراق یار کا رنگیں تصور
امید وصل پر خنداں ہوا ہے
وائي
کیا معلوم تھا اس نگری میں
یہ جیون ہے رین بسیرا
تو ہی بتا پردیسی پنہوں
لائے کون سندیسہ تیرا
ہائے ہائے حال یہ میرا
بن بن بھٹکوں نیر بہائوں
چین نہ آئے جی گھبرائے
گت گھائل کی ہائے نہ پوچھو
جب نینوں کی برچھی کھائے
پگ پگ ہے دکھ درد کا ڈیرا
ہائے ہائے حال یہ میرا
پان رچائے سندر ساجن
مجھ برھن یہ پیک تو ڈالے
خالی ہے یہ جھولی کب سے
وہ داتا کچھ بھیک تو ڈالے
جانے کب ہو کیچ کا پھیرا
ہائے ہائے حال یہ میر
وائي
میں بھول گئی سدھ بدھ اپنی
کس دیس گئے دیور سجنی
کیا بھول ہوئی کیوں روٹھ گئے
میں کب سے نیر بہاتی ہوں
کاگا کی بانی سنتے ہی
جانے کیوں چونک سی جاتی ہوں
بیکل ہے جیا کب آئیگا
وہ کیچ کا آری جام دھنی
کس دیس گئے دیور سجنی
جو جیون لے کر آئے تھے
وہ موت کے گھاٹ اتار گئے
کیا میں نے بگاڑا تھا ان کا
وہ اونٹ مجھے کیوں مار گئے
اپنا کے انہیں درگت یہ بنی
کس دیس گئے دیور سجنی
چھٹی داستان
1
کسی کیچی کو جب میں دیکھتی ہوں
تو یاد آتے ہیں وہ رنگیں نظارے
ہوا ہو جاتے ہیں چشمک زدن میں
نہ جانے کیوںمرے دکھ درد سارے
امیدیں، آرزوئیں، خواب، ارماں
یہی ہیں زندگی کے اب سہارے
2
غم جاناں سرورِ جاوداں ہے
مرا دل ہر خوشی سے بدگماں ہے
زمانے بھر کی خوشیوں سے ہے بہتر
وہ دردِ دل جو تیرا راز داں ہے
محبت میں سر سودا طلب بھی
خود اپنا درد اپنا آستاں ہے
دلِ پر داغ کا ہر داغ رہبر
مثالِ نقش پاے رفتگاں ہے
3
گھلی جاتی ہے غم سے سخت جانی
نمک کو گھول دے جس طرح پانی
جلا مجھ کو نہ پیہم سوز پنہاں
خدارا دیکھ تو یہ ناتوانی
4
دیا پنہوں نے تو داغ جدائی
کہیں اے درد، تو دل سے نہ جانا
کروں گی تجھ سے میں اب ان کی باتیں
تجھے ہے راز داں اپنا بنایا
5
مرے اشکوں میں ہے ایسی روانی
ہوا ہو سر سے اونچا جیسے پانی
میں زندہ ہوں بہ فیض سخت جانی
کہاں آرام کیسی شادمانی
کوئی شکوہ نہ کوئی بدگمانی
بڑی پردرد ہے میری کہانی
تری فرقت میں پیارے آریانی
فزوں ہے نو بہ نو سوزِ نہانی
ہر اک غم ہے محبت کی نشانی
فراقِ یاد تیری مہربانی
6
یہ کہہ دو لذتِ درد نہاں سے
نہ جائے اب مرے قلب تپاں سے
اگر جانا ہے تو اس وقت جائے
ملوں جس وقت میں اس جانِ جاں سے
7
جنوں ہوش و خرد پر مسکرایا
نہ جانے عشق نے کیا گل کھلایا
جگر کی ٹیس میں کچھ فرق آیا
تو درد دل کو بے قابو سا پایا
ترے تیرِ نظر نے پیارے پنہوں
زسر تا پا مجھے بسمل بنایا
8
مجھے گھائل کیا تیرِ نظر نے
دیا دھوکا کسی بیداد گر نے
بلوچوں سے کئے ہیں عہد و پیماں
بہر صورت مرتے قلب و نظر نے
رہیں محفوظ شبنم۱؎ سے وہ ناقے
جنہیں گم کردیا مجھ بے خبر نے
بہیں گے کیچ تک یہ اشکِ خونیں
قسم کھائی ہے میرے چشم ترنے
نہ روک اے ماں مجھے ان وادیوں سے
بلایا ہے جتوں کے رہگذر نے
9
ہوئی رخصت کسی کا نام لے کر
امیدِ زیست قلبِ ناتواں سے
اٹھا ہر سمت آہوں کا دھواں سا
جلے دشت و جبل سوزِ نہاں سے
10
فضا ناسازگار، آنکھوں میں نم ہے
کسے اب میری بربادی کا غم ہے
تن تنہا ہوں اس ماتم کدے میں
مسلط ہر طرف شام الم ہے
کرے گا کون میری غمگساری
ہجوم رہگذر کو کس کا غم ہے
11
مرا دکھ درد کوئی کیا بٹائے
ہوئے ہیں اب تو اپنے بھی پرائے
نہ پوچھو مجھ سے جو صدمے اٹھائے
ہزاروں غم ہیں اک دل میں سمائے
میں جس کی جستجو میں پھر رہی ہوں
خدا جانے وہ آئے یا نہ آئے
12
ذرا ہمت دکھا قسمت کی ماری
تری منزل ہے کوسوں دور پیاری
تجھے درپیش اک لمبا سفر ہے
اور اس کی شرط کیا ہے جاں سپاری
کڑے ہیں کوہساروں کے مصائب
مگر تیرا محافظ ہے وہ آری
وائي
میں ہار گئی، میں ہار گئی
ہائے من کی لگی موھے مار گئی
جانا ہے ہوت کے پاس مجھے
ماں روک نہ مجھ کو جانے دے
جو دکھ بھی اٹھائوں ’ہاڑے‘ میں
جیتے جی موھے اٹھانے دے
جیون آشا بیکار گئی
ہائے من کی لگی موھے مار گئی
میں آئوں گی میں آئوں گی
جیسے بھی ہو پریت نبھائوں گی
روکیں یہ پربت لاکھ مجھے
اے ہوت تجھے اپنائوں گی
ان سندر چرنوں پہ رکھ کر
میں سیس سدا سو جائوں گی
میں ہوت پہ سب کچھ وار گئی
ہائے من کی لگی ہوھے مار گئی
ساتویں داستان
1
نہیں وہ ماوراے دیدہ و دل
کسی حیرت زدہ کا امتحاں کیا
تمنا خود ہے مسجود تمنا
مکاں کیسا تلاشِ لامکاںکیا
تمنا جستجو ہی جستجو ہے
تمنا میں سکونِ جسم و جاں کیا
2
قریب اے کاش میں تیرے نہ آئوں
بہت ڈھونڈوں مگر تجھ کو نہ پائوں
اسی کاہش اسی وارفتگی میں
سدا منزل بہ منزل بڑھتی جائوں
سراپا جستجو شوق بن کر
تپاکِ دیدہ و دل آزمائوں
مجھے لے چل وہاں اے جوش الفت
جہاں میں نت نئے صدمے اٹھائوں
دم آخر دلِ حیرت زدہ کو
وصال یار کا مژدہ سنائوں
3
نہیں اب کوہ پیمائی کا یارا
مگر یہ بھی نہیں مجھ کو گوارا
کہ رہ جائے کہیں مجھ سے بچھڑ کر
مرا محبوب آری جام پیارا
مجھے دشت و جبل میں لے کے آیا
اسی جانِ تمنا کا سہارا
گھسٹتی جارہی ہوں بیخودی میں
کہیں تو مل ہی جائیگا وہ پیارا
4
نہیں آساں انہیں اپنا بنانا
بلوچوں سے نہ ہرگز دل لگانا
سکھی میری طرح پردیسیوں کو
نہ بھولے سے بھی رازِ دل بتانا
و گر نہ تجھ کو بھی دشت و جبل میں
پڑیں گے عمر بھر آنسو بہانا
سکھائے گا تجھے بھی جذبۂ دل
نہ جانے کیسے کیسے دکھ اٹھانا
وائي
میں ہاری، ماں، میں ہاری
میں جائوں جتوں پہ واری
بے بس ہوں پریم کی پیاسی ہوں
پیارے پنہوں کی داسی ہوں
بھولی بھٹکی بن باسی ہوں
میں ہاری، ماں، میں ہاری
میں جائوں جتوں پہ واری
جھلسائے پریت کی آگ مجھے
بھٹکائے ’کیچ‘ کی لاگ مجھے
برھا نے دیا بیراگ مجھے
جت جیت گئے میں ہاری
میں جائوں جتوں پہ واری
جنجال ہوا پل بھر سونا
اپنے ہی لئے کانٹے بونا
جیتے جی رونا ہی رونا
ہے پل پل مجھ پہ بھاری
میں جائوں جتوں پہ واری
آٹھویں داستان
1
جدا جب سے مرا پنہوں ہوا ہے
مرا گھر، گھر نہیں ماتم کدہ ہے
وہیں لے چل مجھے اے وحشت دل
جہاں وہ زندگی کا آسرا ہے
وہیں ہے سجدہ گاہ دیدۂ و دل
جہاں اس باوفا کا نقش پا ہے
صبا رفتار ناقوں کا تعاقب
دلِ حسرت زدہ کا مدعا ہے
جلا دے کوئی اس بھنبھور کو اب
بجز افسردگی اب اس میں کیا ہے
مجھے معلوم ہے اے چشم پرنم
کہ ان اشکوں میں احساس وفا ہے
کہاں میں اور کہاں صحرا نوردی
مگر اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے
2
گئے ہیں چھوڑ کر دانستہ مجھ کو
خدا جانے کہاں وہ کیچ والے
کیا ہے آتش جذب دروں نے
دل محزوںکو شعلوں کے حوالے
در و دشت و جبل میں چشم پرنم
مثال جوئبار آنسو بہا لے
بالآخر ’آریانی‘ سے ملوں گی
رہِ دشوار مجھ کو آزمالے
3
کسے معلوم تھا اے حسرت دل
پہنچنا کیچ تک دشوار ہو گا
خبر کیا تھی مجھے عہد محبت!
مقدر میں فراقِ یار ہو گا
4
سسئی! وہ جارہے ہیں کیچ والے
انہیں جیسے بھی ہو جا کر منالے
ابھی وہ سارباں اس موڑ پر ہیں
خدارا تو انہیں واپس بلالے
ملے گا پھر نہ پنہوں سا کوئی بھی
انہیں جیسے بھی ہو اپنا بنا لے
یہی ڈر ہے مجھے پنہوں کی دوری
کہیں تجھ کومصیبت میں نہ ڈالے
5
نظر آئیں جہاں وہ کیچ والے
سسئی! تو بھی وہیں ڈیرا جمالے
نہ ہو آمادۂ ترکِ تمنا
وفا کی راہ میں دھونی رمالے
وہ گذرے ہیں انہیں کوہ و دمن سے
انہیں کوہ و دمن سے لو لگائے
غنیمت ہے تصور کا سہارا
کہیں دل اور کہیں آنکھیں بچھالے
6
پس پردہ جو ان کے درمیاں تھی
عجب وہ گفتگو محرماں تھی
ہمہ تن گوش بر آواز تھی میں
مجھے کب فرصت خواب گراں تھی
جسے سنکر ہوئی میں خود فراموش
نہ جانے وہ زباں کیسی زباں تھی
مگر اس پیاری بولی کے سوا اور
کوئی بولی انہیں آتی کہاں تھی
7
غم محبوب جس کا ماحصل ہے
وہ دل معمورۂ حسن ازل ہے
تجھے کیا مذہب وملت سے حاصل
اگر تیرے تخیل میں خلل ہے
8
جہاں وہ رہبر ہستی ملے گا
مجھے وہ جادۂ ہستی دکھادو
چلو اے ساکنانِ کوہ و صحرا
مجھے اس پیارے پنہوں سے ملا دو
وائي
کہیں ان کوہساروں میں خدارا
اکیلا چھوڑ کر جائے نہ پیارا
مجھے ہے پیارے پنہوں کا سہارا
مرا جذب محبت کام آئے
وہ جانِ جاں مری بگڑی بنائے
پلٹ آئے مرا کیچی دلارا
مجھے ہے پیارے پنہوں کا سہارا
فقیرانہ لباسِ ظاہری ہو
مگر درپردہ حسن قاہری ہو
’لطیف‘ اس کے لئے سب کچھ گوارا
مجھے ہے پیارے پنہوں کا سہارا
نویں داستان
1
مجھے کب خنجر و پیکاں نے مارا
مرے پیارے ترے ارماں نے مارا
یہ زخم دل نہ ہوگا مندمل اب
مجھے اک درد بے درماں نے مارا
عجب تھا حسنِ ظاہر کا نظارا
طلسم دیدۂ حیراں نے مارا
2
شعور آدمیت جس نے بخشا
دیا جس نے محبت کا سہارا
میں اس کی اور یہ بھنبھور اس کا
یہاں جب چاہے، آجائے وہ پیارا
3
تقاضے غم کے اب پیہم رہیں گے
یوں ہی دن رات اب آنسو بہیں گے
مرے ارمان اے جوش محبت
ستم اس کی جدائی کے سہیں گے
مرے دل نے جسے اپنا بنایا
مگر کھویا تو پھر اب تک نہ پایا
4
نہ آیا ہے نہ آئے گا وہ ’آری‘
عبث ہے یہ سسئی کی آہ و زاری
فریب آشنا کی چوٹ ہے یہ
مٹے گی کیا دعائوں سے ہماری
5
مری فطرت سراپا اشکباری
تبسم اک نقاب بے قراری
وہیں آخر سکوں مجھ کو ملے گا
جہاں مل جائے گا وہ پیارا ’آری‘
6
کہاں پائیں گی ویسا پیار آنکھیں
یوں ہی ترسیں گی یہ نادار آنکھیں
مئے حسنِ ازل سے ہوگئی تھیں
گھڑی بھر کے لئے سرشار آنکھیں
کیا ہے سوزِ دل نے راکھ ان کو
کبھی ہوتی تھیں شعلہ بار آنکھیں
نہیں آنکھوں میں اب پنہوں کے جلوے
ہیں اب میرے لئے بیکار آنکھیں
نہ مجھ کو خون کے آنسو رلاتیں
نہ ہوتیں باعث آزار آنکھیں
شکارِ خوابِ غفلت ہوگئیں کیوں
نہ جانے میری شب بیدار آنکھیں
7
غبارِ رہ، ہواے ابر آلود
بیاباں در بیاباں راہِ مقصود
خلائوں میں بھٹک کر رہی گئی ہوں
کہاں ہواے مرے معبود و مسجود
8
مجھے دل کی لگی کب تک جلائے
کوئی آکر مری ڈھارس بندھائے
دہکتی آگ کو پانی چھڑک کر
وہی گم گشتہ آہن گر بجھائے
9
مری آنکھیں ہیں اب اور اشک خونین
حصولِ سعئی پیہم کیا یہی ہے
تھکی ہاری ہوں اور سایہ شجر کا
مری درماندگی یہ سوچتی ہے
کہ جب وہ نقش پا ہی مٹ گیا تو
کہاں یہ وحشت دل لے چلی ہے
10
جدھر جائوں ادھر جانے دو مجھ کو
کسی دھن میں گذر جانے دو مجھ کو
وفا کے نام پر دھبا نہ آئے
جو مرتی ہوں تو مر جانے دو مجھ کو
11
رہوں پامالِ راہ شوق کب تک
بس اب تو خاتمہ بالخیر کردے
میں تشنہ کام ہوں آب فنا سے
مرے پیمانۂ ہستی کو بھر دے
12
اگر کل ہی گذر جاتی میں جاں سے
تو پھر کیوں آج یہ صدمے اٹھاتی
حیات جاوداں سے ہے گریزاں
نہ جانے کیوں اسیر بے ثباتی
حصار زندگی میں رہنے والے
ذرا سی ایک جست کائناتی!
13
بلا سے جان جاتی ہے تو جائے
غمِ جاناں پہ ہی الزام آئے
مروں اے کاش میں راہ طلب میں
ترے ارمان سینے سے لگائے
کرے جو ذکر میرے بعد میرا
زباں پر وہ مرے اوصاف لائے
14
جو خود گم گشتۂ خواب گراں ہو
وہ کیسے آشناے جان جاں ہو
وہی ہے سرخوش جام محبت
جو بے پروائے شمشیر و سناں ہو
15
غم جاناں میں کب سے مر رہی ہے
سسئی ہر وقت آہیں بھر رہی ہے
یہاں آئے ہیں کچھ پنہوں کے خادم
یہ ان کا خیر مقدم کر رہی ہے
ملال آنے نہ پائے ان کے دل پر
سسئی اس بات سے اب ڈر رہی ہے
وائي
دکھ جھیلوں یا سکھ پائوں
میں دیس پیا کے جائوں
جب تک ہے ملن کی آشا
ٹوٹے گی نہ من کی آشا
بپتائیں لاکھ اٹھائوں
میں دیس پیا کے جائوں
پنہوں مرے من کا موتی
پنہوں مری جیون جوتی
گن جس کے دیس کے گائوں
میں دیس پیا کے جائوں؎
تھک جائوں نہ پریت ڈگر میں
گذریں دن رات سفر میں
آری سے آس لگائوں
میں دیس پیا کے جائوں
وہ دے گا ساتھ دکھی کا
آئے گا دور خوشی کا
البیلے گیت سنائوں
میں دیس پیا کے جائوں
دسویں داستان
1
مرے ہمدم مرے ہمراز سن لے
کسی عنوان مری آواز سن لے
نوائے دل لب تشنہ پہ آئی
ذرا اے صاحب اعجاز سن لے
جو مجبوراً زباں تک آگئی ہے
وہ فریاد اے سراپا ناز سن لے
خدارا ایک بار اے نغمہ پرور
یہ آواز شکست ساز سن لے
2
اسے کیا آرزوے زیست پیارے
جو بیچاری ازل سے نیم جاں ہے
براے کشتگانِ تیغ ابرو
اجل گہوارۂ جنت نشاں ہے
3
تجھے اب چین کیا آئے گا گھر میں
سسئی الجھی ہے کیوں دیوارو در میں
تن آسانی نہیں زیبا سفر میں
خصوصاً اس طلسمی رہگذر میں
غم جاناں کو فکر ماسوا کیا
سوا پنہوں کے کوئی آسرا کیا
4
کسی ہمسائے کی آہ و فغاں سے
ہوئے ہیں زخم دل پھر خونچکاں سے
مقدر میں ہے پیہم بے قراری
نظر جب سے ملی اس جانِ جاں سے
کسے معلوم کیا حالت ہے میری
گیا جب سے مرا پنہوں یہاں سے
کہاں ڈھونڈوں اسے دشت و جبل میں
جدا ہو کر جتوں کے کارواں سے
اگر حاصل وہ جان جاں نہ ہوگا
دلِ پردرد کا درماں نہ ہو گا
5
دل پردرد کی ہمت بڑھائو
مرے کیچی بلوچو لوٹ آئو
کسی دلگیر کو دیکر دلاسے
نہ جائو اے مرے پیارے نہ جائو
کنیز کمتریں بن کر رہوں گی
خدا کے واسطے پنہوں کو لائو
6
ہمیشہ یوں ہی دکھ پاتی رہی ہوں
فریب زندگی کھاتی رہی ہوں
خدا جانے وہ کس کا آسرا ہے
جسے مدت سے اپناتی رہی ہوں
بہ صد عزم و یقین غمگین دل کو
تمنائوں سے بہلاتی رہی ہوں
نہ توڑوںگی میں اس پیارے سے رشتہ
ازل سے جس کے گن گاتی رہی ہوں
7
نہیں احساس کچھ صبح و مسا کا
ہمیشہ اپنی ہی دھن میں مگن ہے
پتہ ’ہاڑے‘ کا سب سے پوچھتی ہے
سسئی کو پیارے پنہوں کی لگن ہے
8
جو دل وارفتہ یاد حزیں ہے
غم دنیا نہ اس کو فکر دیں ہے
یہ اعجاز دروں بینی ہے ورنہ
کسی نے بھی اسے دیکھ نہیں ہے
دل عشاق میں اے چشم حیراں
ازل ہی سے کوئی پردہ نشیں ہے
9
ملیں گے مر کے جو مجھ کو سہارے
عطا کر زندگی ہی میں وہ پیارے
خدا جانے کہاں گم ہو گئے ہیں
مری آنکھوں سے وہ دلکش نظارے
10
بظاہر درمیاں جو فاصلہ ہے
طلسم دید بن کر رہ گیا ہے
عجب ہے یہ غم دوری کا شکوہ
ترا محبوب کب تجھ سے جدا ہے
11
ذرا آکر مری ڈھارس بندھائو
سندیسا کوئی پنہوں کا سنائو
بہاتی ہوں میں جس کے غم میں آنسو
مری سکھیو مجھے اس سے ملائو
جو روٹھا ہے مجھے اپنا بنا کر
کہاں ہے وہ، پتہ اس کا بتائو
12
مرے گھر میں بپا جشن طرب تھا
تبسم زبر لب کہسار ’پب‘ تھا
نہ کام آئے مرے سکھیوں کے تحفے
کوئی اس بات کا آخر سبب تھا
پھنکا جاتا تھا سوز غم سے تن من
وہ میرے دل کا عالم بھی عجب تھا
13
جو تجھ پر کیچیوں کا حق تھا واجب
ادا کب اے سسئی تو نے کیا ہے
خدا اس خواب غفلت سے بچائے
فریب اس خواب غفلت نے دیا ہے
وائي
پنہوں کے پریم کی ماری
سکھیو، یہ سسئی دکھیاری
میرے خواب غفلت نے
تیار جتوں کو پایا
بھنبھور سے جب وہ نکلے
اونٹوں کو تیز اڑایا
کھولی گئیں سب کی باگیں
پٹھوں پہ جب کجاوا آیا
سوتی ہی رہی بیچاری
سکھیو، یہ سسئی دکھیاری
کسی پربت پر جا پہنچے
وہ کیچی راج دلارے
کس انجانی گھاٹی سے
وہ من کا میت پکارے
اس آس پہ وہ جیتی ہے
مل جائیں گے پریتم پیارے
بیٹھی ہے سب کچھ ہاری
سکھیو، یہ سسئی دکھیاری
وائي
پریت ڈگر پہچانی میں نے…پریت ڈگر پہچانی
سکھیو ہے مرا چت چور وہاں
کھلتے ہیں انوکھے پھول جہاں
بو باس جہاں انجانی
میں نے … پریت ڈگر پہچانی
بن پنہوں میں مر جائوں گی
اب کیسے جی بہلائوں گی
تن من میں بسا آریانی
میں نے … پریت ڈگر پہچانی
گیارھویں داستان
1
انہوں نے بات پنہوں کی نہ مانی
نہ جانے کیا تھے اپنے جی میں ٹھانے
مہاریں تیز رو اونٹوں کی تھامے
کہاں گم ہوگئے دیور نہ جانے
جبل کی ہیبت آور وسعتوں سے
مجھے آئی ہے یاد ان کی بلانے
مگر اے وحشت دل دیکھ لینا
پڑیں گے نت نئے صدمے اٹھانے
مری حیرت زدہ وارفتگی پر
نہ آئیگا کوئی آنسو بہانے
اجل کی نیند سوجائوں گی جس دم
مجھے آئیگا وہ پیارا جگانے
2
بچھڑ کر مجھ سے پچھتائے تو ہوں گے
اُن آنکھوں میں بھی اشک آئے تو ہوں گے
ادھر آئے تھے جب وہ کیچ والے
یہاں کچھ دیر سستائے تو ہوں گے
وہ موتی اے سکوت دشت ویراں
ترے حصے میں بھی آئے تو ہوں گے
3
ذرا اے ساکنان دشت ویراں
بتادو کچھ نشانِ جانِ جاناں
گیا ہے ناقۂ پنہوں کو لے کر
کہاں وہ کارواںِ فتنہ ساماں
پہنچنا کیچ تک ہے سخت مشکل
مگر جیسے بھی ہو نکلے یہ ارماں
میں قرباں اس نگاہ اولیں پر
ہوا پیوست دل میں جس کا پیکاں
4
سکھی وہ کیچ یا باغِ عدن ہے
جہاں پیارے بلوچوں کا وطن ہے
وہیں ہے منزلِ مہر و محبت
وہیں حسن ازل جلوہ فگن ہے
یہ فیضان نگاہ محرمانہ
چراغ بزم و شمع انجمن ہے
دل سوزاں و چشم تر سلامت
طلب کی حدِ آخر ’جان من‘ ہے
5
بڑھا کر جب سسئی کی بے قراری
نہ آیا جیتے جی وہ پیارا آری
تو اپنی جان کو قربان کر کے
ہوئی وہ نازنیں پیاروں کی پیاری
بالآخر اس کو آغوش اجل میں
ملی کوہ و جبل سے رستگاری
پیام وصل جاناں لے کے آئی
’لطیف‘ اس غمزدہ کی جان نثاری
6
کسی کو شہسواروںنے ستایا
کسی کو ساربانوں نے مٹایا
مرے دکھ درد ہیں سب سے نرالے
کہ دل پر ان جتوں کا زخم کھایا
7
عجب خاکہ اڑایا ہے جتوں نے
مری پسماندگی و عاجزی کا
ذرا آکر اسے دیکھو تو سکھیو
یہ نقش پا تو ہے اس ہوت ہی کا!
8
مجھے تسلیم اپنی ہر برائی
مگر ایسی بھی کیا بے اعتنائی
خبر کیا تھی نہ بھائے گی جتوں کو
کسی دھوبن سے پنہوں کی سگائی
کہاں کیچی اور ان کی شان و شوکت
کہاں میں اور میری بے نوائی
مگر اے میرے آری جام پیارے
تجھے زیبا نہیں یہ بے وفائی
بھٹکتی پھر رہی ہوں گھاٹیوں میں
دہائی ہے مرے پیارے دہائی
کسے معلوم تھا یوں چپکے چپکے
جلائے گی مرے جی کو جدائی
اگر نظروں سے اوجھل ہو گئے وہ
تو پھر کس کام جرأت آزمائی
وائي
روٹھ گئے چت چور …… سکھی ری
بھائے نہ اب بھنبھور
کیسے بھولوں پیار کی باتیں
بیتے دن اور بیتی راتیں
تڑپت ہے من مور ……سکھی ری
بھائے نہ اب بھنبھور
بن بن پی کا نام پکارو
پریت ملن پہ تن من واروں
جائوں کیچ کی اور …… سکھی ری
بھائے نہ اب بھنبھور
وائي
گھائو ہے گہرا گھائل من کا
مار گیا موھے بان سجن کا
روک نہ اے ماں مجھ دکھیا کو
جوکچھ بھی ہو، ہو جانے دے
ان چرنوں کی دھول پہ مجھ کو
میٹھی نندیا سو جانے دے
کیا ہوگا میرے جیون کا
مار گیا موھے بان سجن کا
ہائے یہ مایا موہ کے اندھے
کیا جانیں گے بپتا میری
آنکھیں موند کے من کا موتی
لے گئی پاپن رین اندھیری
کوئی نہیں اب مجھ برھن کا
مار گیا موھے بان سجن کا
کہے ’لطیف‘ سنو اے سکھیو
بچھڑے پریتم مل جائیں گے
درشن ابھلاشی ہیں نینا
کب تک یوں ہی ترسائیں گے
سندر سپنا مدھر ملن کا
مار گیا موھے بان سجن کا
وائي
چت چور مرے مہمان رہے
پھر بھی کتنے انجان رہے
وہ اونٹ جو کیچی لائے تھے
کل رات یہاں ٹھیرائے تھے
میں کیا جانوں کیوں آئے تھے
وہ اپنا بھید چھپائے تھے
ان ہاتھوں میں ان نینوں میں
بیری برھا کے بان رہے
پھر بھی کتنے انجان رہے
نینوں میں نہ آنے دیتی
سکھیو نہ انہیں جانے دیتی
اونٹوں کے پیر جکڑ لیتی
ساجن کا ہاتھ پکڑ لیتی
میں پریت میں سب کچھ بھول گئی
من ہی میں چھپے طوفان رہے
پھر بھی کتنے انجان رہے
بارھویں داستان
1
اگر اس ہوت کا دیدار ہوتا
تمہیں بھی اس سے سکھیو پیار ہوتا
تمہارے دل میں بھی کچھ داغ ابھرتے
تمہارا دل بھی لالہ زار ہوتا
مری بربادیوں پر یوں نہ ہنستیں
اگر تم کو بھی یہ آزار ہوتا
تمہارا قلب بھی راہ وفا میں
غم و آلام سے دور چار ہوتا
تمہارا بھی دل وارفتہ سکھیو
سراب آرزو میں خوار ہوتا
تمہارے سر سے بھی اے خوش نصیبو
گریزاں سایۂ دیوار ہوتا
دلوں میں آرزوے دید ہوتی
لبوں پہ ذکر حسن یار ہوتا
اگر ہوتا وہ نظارہ میسر
طلسم ماسوا بیکار ہوتا
2
تجسس نت نئی راہیں سجھائے
تمنا ہوت کی بڑھتی ہی جائے
کسی صورت بھی دل تسکیں نہ پائے
محبت خون کے آنسو رلائے
ہزاروں مرحلے ہیں اس سفر میں
بغیر اس کے قرار آئے نہ آئے
مرے پیارے خدا جانے میں کب تک
رہوں دل کی لگی دل میں چھپائے
غبار کارواں بن جائوں یا رب
صدائے سارباں بن جائوں یا رب
3
اگر سوداے قرب دوستاں ہے
یہ اشکوں کے روانی رائیگاں ہے
تحمل شرط اول صبر لازم
عبث یہ شورش آہ و فغاں ہے
دلِ پر خوں کی حالت ہو نہ ظاہر
کہ راز عشق سر دلبراں ہے
4
یہ جان بے کس و مجبور یا رب!
یہ مرا شیشۂ دل چور یا رب
پلٹ کر دیکھ لیتا مجھ کو پنہوں
رہی جاتی ہوں کتنی دور یا رب
کبھی ملنا کبھی مل کر بچھڑنا
یہی ہے عشق کا دستور یارب
5
نہ وہ آنسو نہ وہ آہ و فغان ہے
مجھے اب سانس لینا بھی گراں ہے
یہاں خاموش ہیں زاغ و زغن تک
سکوتِ رہگذر حسرت نشاں ہے
بڑی ہوں جن سے اتنی دور یا رب
نشاں ان جانے والوں کا کہاں ہے
6
حبت طالب عزم و یقین ہے
جہاں تو ہے تری منزل وہیں ہے
کسی عالم میں بھی وہ عالم حسن
جدا ہو کر جدا تجھ سے نہیں ہے
بہارِ بے خزاں جذب محبت
حسیں جب تک ہے دل ہر شے حسیں ہے
7
مجھے جب روکتا ہے یہ زمانہ
تو آتی ہے صداے غائبانہ
فریب دوش ہے نیرنگ ہستی
یہ رنگا رنگیاں خوابِ شبانہ
مجھے بھنبھور سے اب کیا تعلق
بلاتی ہے نگاہ محرمانہ
8
زمانہ حسب عادت گامزن ہے
مگر سب سے الگ میری لگن ہے
وہی دشواری کوہ و دمن ہے
مسلسل کاوش رنج و محن ہے
9
پس پردہ مری درماندگی کے
کئی ناکام صدیوں کی تھکن ہے
عجب بار گراں ہے زندگی بھی
کہ چکنا چور سارا تن بدن ہے
یہ تنہائی یہ ویرانی یہ وحشت
جنوں ہر گام پر ہمت شکن ہے
مرے غم کی حقیقت کون جانے
زمانہ اپنی خوشیوں میں مگن ہے
دو عالم نیند میں کھوئے ہوئے ہیں
فلک سے چاند جگ پر ضوفگن ہے
نہ جانے دیدۂ بے خواب کب سے
طلبگار بساط انجمن ہے
بلایا خود جسے شہر طلب نے
وہی صحرا نورد و بے وطن ہے
حیات جاوداں ہے آب جس کی
کہاں وہ ابروے شمشیر زن ہے
10
جسے دیکھو تگ و دو میں لگا ہے
سرابِ زیست میں گم آشنا ہے
بجز بے تابی جوش تمنا
طواف کوہِ ناہموار کیا ہے
غم جاناں بدل کر بھیس اکثر
رمِ ویرانۂ ہستی ہوا ہے
یہاں خدشے ہی خدشے ہیں بہرسو
یہ میں نے رازداروں سے سنا ہے
مگر کیا خوف مجھ کو رہزنوں سے
کہ خود وہ مرد کامل رہنما ہے
وہی ہے مونس تنہائی غم
اسی سے مجھ کو امید وفا ہے
وہی ہے مرکز عجز تمنا
وہی پروردگار مدعا ہے
اب اس معمورۂ فکر و نظر میں
مجھے درکار کیا اس کے سوا ہے
11
غم ہستی سے بیگانہ ہوئی ہے
تری صورت پہ دیوانہ ہوئی ہے
سوا تیرے کسی سے کب محبت
سسئی کو پیارے آریانی ہوئی ہے
مری آنکھوں میں چھایا ہے اندھیرا
کوئی تو مجھ سے نادانی ہوئی ہے
خداوندا وہ ناقے لوٹ آئیں
یہ جن ناقوں کی پہچانی ہوئی ہے
12
سکوں بخشیں گے کیا ماں کے دلاسے
گوارا ہی تن آسانی نہیں ہے
نہیں بھنبھور اب پہلا سا بھنبھور
یہاں جب سے وہ آریانی نہیں ہے
13
لگی دل کی کہاں جا کر بجھائوں
میں کیسے ان بلوچوں کو منائوں
برا کہتا رہے مجھ کو وہ لیکن
میں پھر بھی گن اسی پنہوں کے گائوں
رہوں بھنبھور میں کس کے لئے اب
سکھی!جیسے بھی ہو میں کیچ جائوں
وہی تعبیر ہے خواب وفا کی
کہیں سے ڈھونڈ کر میں اس کو لائوں
ملے اک بار پھر مجھ سے وہ پیارا
سہاگن بن کے پھر مہندی رچائوں
14
یہاںجب تو نے کپڑے دھوئے آکر
وہ دن ہے مجھ کو اب تک یاد آری
مگر کچھ تو بتا اب ہو گیا کیا
اکیلی رہ گئی ہوں غم کی ماری
جو اس ناچیز نے کی تیری خدمت
کرے گی کوئی محلوں کی دلاری!
تعجب ہے کہ ان پیارے جتوں پر
ہوئی ظاہر نہ میری بے قراری
15
کوئی غم اس جدائی کا نہیں ہے
مجھے اس کی محبت کا یقین ہے
کسے معلوم تھا یہ حال ہوگا
کہ میں بے کس کہیں ہوں وہ کہیں ہے
بظاہر گم ہے وہ دشت و جبل میں
جو ابتک دیدہ و دل میں مکیں ہے
16
سسئی راہِ وفا میں گامزن ہے
بدن پر اک دریدہ پیرہن ہے
ہجوم رہ گذر سے دور ہٹ کر
نہ جانے کونسی دھن میں مگن ہے
کمی آئے نہ کوئی اس لگن میں
کہ یہ اس پیارے پنہوں کی لگن ہے
اسے بھنبھور سے اب کیا تعلق
جہاں وہ ہے وہیں اس کا وطن ہے
17
کسے معلوم کب تک جی جلائیں
ستائیں، آزمائیں، روٹھ جائیں
یہ تیرے ہوت کے ہم قوم تجھ پر
نہ جانے اور کتنے ظلم ڈھائیں
عبث پنہوں سے تو نے دل لگایا
بجز بے چارگی کیا ہاتھ آیا
18
میں اب بھنبھورسے ہوتی ہوں رخصت
ہمیشہ کے لئے ماں! بھول جانا
بہت ممکن ہے اس پیارے وطن میں
نہ ہو اب زندگی بھر میرا آنا
19
عبث بھنبھور سے کر کے کنارا
جتوں کو چار سو میں نے پکارا
خبر کیا تھی کہ کوہ و دشت و در میں
نہیں اب وہ مری آنکھوں کا تارا
20
مسلسل کوہساروں کے سفر سے
ہوا ہے جسم چکنا چور پیارے
نظر سے ہوگئے اوجھل تو کیا ہے
نہ ہوگے میرے دل سے دور پیارے
21
تجھے میں نے گلے کا ہار سمجھا
کہ از سرتا بہ پا گلزار سمجھا
خریدے شوق سے دکھ درد تیرے
طلب کو سربسر آزار سمجھا
تری خاموش کم آمیزیوں کو
غور حسن اور پندار سمجھا
مسلسل پے بہ پے ناکامیوں کو
خلوص عشق کا معیار سمجھا
22
سسئی! کیوں دل شکستہ ہو رہی ہے
غم پنہوں میں کیوں جاں کھو رہی ہے
ادھر آنے ہی والے ہیں وہ پیارے
جنہیں تو یاد کرکے رو رہی ہے
23
بڑی مشکل سے دنیا کو ملے گی
مثال ایسی مثالی عاشقی کی
رہے گی جاں فروشوں کو سدا یاد
جواں مردی حسین ابنِ علی کی
وائي
بن بن میں مجھے بھٹکایا
کیوں ہوت نہ لوٹ کے آیا
جیون سے جوڑ کے بندھن
پی کر گئے پریت اجیرن
مرا انگ انگ مرجھایا
کیوں ہوت نہ لوٹ کے آیا
جب گیا تھا پنہوں پیارا
سنتی ہوں مجھے پکارا
کب جاگی لاکھ جگایا
کیوں ہوت نہ لوٹ کے آیا
کس کس کو منانے بھیجا
حال اپنا سنانے بھیجا
پر کیچ کا بھید نہ پایا
کیوں ہوت نہ لوٹ کے آیا
کہنا ہے ’لطیف‘ کوی کا
آئے گا سندیسہ پی کا
پھر پلٹے گی یہ کایا
کیوں ہوت نہ لوٹ کے آیا
سر لیلا چنیسر
پہلی داستان
1
واسطہ ہے مجھے چنیسر سے
کیا سروکار لعل و گوہر سے
جذبہ آرزو کی کیفیت
کوئی پوچھے تو قلب مضطر سے
کاش وہ تاجدار کشور عشق
بدگماں ہو نہ دامن تر سے
کوئی نسبت نہیں مرے نزدیک
ساز و ساماں کو حسن دلبر سے
2
لعل و گوہر کا اعتبار نہیں
عیش و عشرت سدا بہار نہیں
دولت عشق جاوداں کے سوا
کوئی دولت بھی پائدار نہیں
جو نہ مرعوب ہو چنیسر سے
کوئی بھی ایسا شہر یار نہیں
کوئی نعم البدل نہیں اس کا
خوب ہے حسن دلنشیں اس کا
3
دل کو جب محو ماسوا پایا
حسن وارفتگی میں فرق آیا
کس توقع پہ ہائے اے لیلا!
لعل و گوہر کو تو نے اپنایا
کھل گیا حرص فتنہ زا کا بھرم
جب چنیسر نے تجھ کو ٹھکرایا
دیکھ تو آنکھ کھول اے ناداں
ہار کیا کیا مصیبتیں لایا
4
یہ یقین تھا کہ ہار جیتوں گی
گوہر شاہوار جیتوں گی
راحت وصلِ یار جیتوں گی
میں چنیسر کا پیار جیتوں گی
یوں خمار خودی میں مست ہوئی
آج کونرو مری شکست ہوئی
5
ہار ہے ایک حلقۂ آلام
وہ سزاوار انتخاب نہیں
کیوں ہے ان موتیوں کی گرویدہ
دیرپا جن کی آب و تاب نہیں
اس وفا آشنا چنیسر کو
بے سبب تجھ سے اجتناب نہیں
تیری جیسی ہیں اور بھی نادان
تو ہی اک موردِ عتاب نہیں
6
کیف آگیں تھی بیخودی میری
سی حاصل تھی سادگی میری
بھا گئی تھی مرے چنیسر کو
بے نیازانہ زندگی میری
لیکن اے حرص فتنہ زا تو نے
چھین لی مجھ سے ہر خوشی میری
ان کی نظروں میں ہو سکی نہ فزوں
زر و زیور سے دل کشی میری
ہائے یہ آرزوے زیبائش
آبرو جس سے لٹ گئی میری
7
وقت ایسا بھی مجھ پہ آنا تھا
موتیوں کا تو اک بہانہ تھا
سوچتی ہوں کہ موتیوں کے لئے
حرص دل کو نہ یوں بڑھانا تھا
دیکھ کر اشکبار ’جکھرو‘ کو
لعل و گوہر سے ہاتھ اٹھانا تھا
اپنے روٹھے ہوئے چنیسر کو
گر کے قدموں پہ پھر منانا تھا
میں ہوں مجبور اور وہ مختار
تابہ کے حرص، خود سری، پندار
8
کیا کہوں میری جان پر جو بنی
ہائے میرا فریبِ گلبدنی
تیرے پھیلے ہوئے نقوش قدم
اور سر پوش کی وہ راہزنی
تیری آغوش وا کسی کے لئے
اور میرے لئے گراں سخنی
اے چنیسر تری محبت میں
درس عبرت ہے میری دلشکنی
9
جا کے کہہ دے کوئی چنیسر سے
لیلا جاتی ہے آج اس گھر سے
دستِ شل میں مہار ناقہ ہے
اشک جاری ہیں دیدۂ تر سے
وائي
منہ مایا لوبھ سے موڑا …… میں نے
ہار کو ہاتھ سے چھوڑا
آ جائو چنیسر پیارے
میں پیّاں پڑوں تمہارے
بیٹھی ہوں سب کچھ ہارے
پھوٹے ہیں بھاگ ہمارے
بیراگ سے ناتا جوڑا، میں نے
ہار کو ہاتھ سے چھوڑا
ترے دوارے سجن میں آئی
ڈھک لے ہر ایک برائی
کوئی جیون کی للچائی
کیا جانے پریت پرائی
ہر جھوٹا بندھن توڑا میں نے
ہار کو ہاتھ سے چھوڑا
دوسری داستان
1
راس آئی نہ یہ بہار مجھے
کر گیا کوئی بیقرار مجھے
یہ نہ جانا کہ میری پر کاری
کر رہی ہے ذلیل و خوار مجھے
ڈس گیا مار آستیں بن کر
ہائے یہ موتیوں کا ہار مجھے
ہنس رہا ہے زمانۂ بے درد
دیکھ کر آج اشکبار مجھے
اس حریصانہ خود فریبی نے
کر دیا کتنا بے وقار مجھے
اے غم ہجر اپنی معصومی
یاد آتی ہے بار بار مجھے
ہاں اسی طرزِ محرمانہ سے
اے دل آرام پھر پکار مجھے
2
ہائے میں نے بزعم دانائی
کیسی ٹھوکر یہ دفعتاً کھائی
شاق گذری مرے چنیسر کو
حرص پروردہ شان خودرائی
آج میری ہی بھول سے مجھ پر
فوقیت اک کنیز نے پائی
کج غم ہے سر ندامت ہے
رحم کر اے سکوت تنہائی
وہ مرا حسن سادہ و معصوم
اور وہ تیری قدر افزائی
شوخی و زیرکی و پرکاری
اہل دل کے لئے ہے رسوائی
3
عشرت صبح و شام کا عالم
جلوت خاص و عام کا عالم
ہر طرف سے صداے نقارہ
چار سو احترام کا عالم
وہ دمامے پہ زد، دہل پر چوٹ
شوکت و احتشام کا عالم
ہائے سب کچھ خیال و خواب ہوا
ہار میرے لئے عذاب ہوا
4
ہائے کل جھولتی تھی جھولوں میں
اور حزین و ملول ہوں میں آج
لازمی تھی سزاے خود بینی
ورنہ کیوں روٹھتے مرے سرتاج
موتیوں نے کیا مجھے نادم
اب نہ راجا مرا نہ میرا راج
بس اسی جرم خود پرستی سے
ہو گئی میری زندگی تاراج
5
جس سے ذوق طلب میں فرق آئے
ہجر ہے اس وصال سے بہتر
دوریٔ دوستاں بسا اوقات
صحبت ماہ و سال سے بہتر
6
برتری مورد عتاب نہ ہو
فتنۂ حرص بے نقاب نہ ہو
دیکھ لیلا ترا بضد ہونا
ایک دن باعث عذاب نہ ہو
بھول ہی بھول میں کہیں تجھ سے
جرم ناحق کا ارتکاب نہ ہو
ایک ادنیٰ کنیز پر مائل
شوخیٔ حسنِ انتخاب نہ ہو
اور تو اپنی خود نمائی سے
دفعتاً صید اضطراب نہ ہو
ڈر ہے یہ نکتہ چیں چنیسر کو
تیری صورت سے اجتناب نہ ہو
لطف اس کا سراب سر تا سر
اس سے آگے نیا سراب نہ ہو
ہائے اس خارزار ہستی میں
تیری مٹی کہیں خراب نہ ہو
خوش فریبی ہی خوش فریبی میں
ہر تمنا خیال و خواب نہ ہو
تیسری داستان
1
مبتلائے غرور و ناز نہ ہو
اس قدر سرخوش مجاز نہ ہو
عشق میں حرص و آز سے مطلب؟
فتنہ پرور یہ حرص و آز نہ ہو
دیکھ لیلا کہیں یہ گستاخی
باعث فرق و امتیاز نہ ہو
جو سراپا خلوص ہے لیلا
تجھ سے بدظن وہ چارہ ساز نہ ہو
چاہتی ہے اگر چنیسر کو
رسمِ الفت سے بے نیاز نہ ہو
2
دیدنی ہے سہاگنوں کا سنگھار
جیسے پھولا پھلا کوئی گلزار
زیوروں کا نہیں ہے کوئی شمار
یہ گلوبند یہ چمکتے ہار
اپنی سج دھج پہ ناز کرتی ہے
آج محلوں کی ہر سجیلی ناز
کون جانے مگر یہ آرائش
ہے چنیسر کے واسطے بیکار
ان وفا آشنا نگاہوں میں
اور ہی کچھ ہے حسن کا معیار
جس کو احساس خودشناسی ہو
ہے اسی بے نوا سے اس کو پیار
جو بہ انداز والہانہ رہے
نیک دل، نیک بخت، نیک اطوار
وائي
ٹوٹے جھوٹے بندھن سارے
لوٹ آئیں گے پریتم پیارے
یاد سے کیا جی بہلائوں گی
بن ساجن میں مر جائوں گی
جیت گئے وہ اور ہم ہارے
لوٹ آئیں گے پریتم پیارے
اس بن اک پل رہ نہ سکوں گی
من کی بیتی کہہ نہ سکوں گی
آئیں گے جب پریم دوارے
لوٹ آئیں گے پریتم پیارے
بھیدی ہیں وہ میرے من کے
ساتھی میرے جنم مرن کے
جگ جگ دھاریں روپ نیارے
لوٹ آئیں گے پریتم پیارے
سر مومل رانو
پہلی داستان
1
روئے زیبا دکھا گیا کوئی
مست و بیخود بنا گیا کوئی
مٹ گیا فرق سجہ و زنّار
دام ایسا بچھا گیا کوئی
کل سر شام چاندنی کی طرح
بزم گیتی پہ چھا گیا کوئی
ہائے وہ رنگ روپ وہ سج دھج
کتنے جلوے دکھا گیا کوئی
کل بدل کر بھکاریوں کا بھیس
گنجِ عرفاں لٹا گیا کوئی
2
یوں نظر میں سما گیا کوئی
محو حیرت بنا گیا کوئی
خرقۂ سبز فام میں آکر
روح میں لہلہا گیا کوئی
یا بدل کر مجاز کا بہروپ
تن خاکی میں آگیا کوئی
آئینہ خانۂ تصور کو
دفعتاً جگمگا گیا کوئی
اب ابد تک سکوت برلب ہوں
راز ایسا بتا گیا کوئی
3
کیف بخشا ہے ’کاک‘ نے کس کو
کون یہ سر خوش خمار ہوا
اور پھر یک بیک نہ جانے کیوں
باتوں باتوں میں اشکبار ہوا
آرزوئیں ہوئیں خراش انگیز
مندمل زخم آشکار ہوا
4
کون مستِ مئے شباب آیا
صبحدم مثل آفتاب آیا
مثلِ پروانۂ چراغ ازل
اک سراپاے اضطراب آیا
یا طلسمات بزم خوباںسے
محرم حسن لاجواب آیا
یا پراسرار بحر ہستی میں
کوئی مانند موج آب آیا
اک مہکتا ہوا بدن جیسے
تیر کو موجۂ گلاب آیا
یا حقیقت سے آشنا کرنے
حاصل چشم انتخاب آیا
اس کے جلوئوں کی تاب تھی کس کو
اس طرف جب وہ بے نقاب آیا
وائي
موھے کون بتائے ساتھی
کب ہوگا ’کاک‘ کو جانا
جو کوئی ادھر جاتا ہے
کب لوٹ کے پھر آتا ہے
پریتم موھے راہ سجھانا
کب ہو گا ’کاک‘ کو جانا
بھیجیں گے سندیسا ساجن
تج دوں گی میں اپنا جیون
ٹوٹے گا یہ تانا بانا
کب ہو گا ’کاک‘ کو جانا
پیاری ہے جو اپنے پی کی
سن بات ’لطیف‘ کی سجنی
ہر دم گن پریم کے گانا
کب ہو گا ’کاک‘ کو جانا
دوسری داستان
1
حسن کیا بے مثال دیکھا تھا
’کاک‘ میں کیا کمال دیکھا تھا
کچھ بتا تو ہمیں بھی اے سوامی
تو نے کس کا جمال دیکھا تھا
اشک خوں کیوں ہیں دیدۂ تر میں
کس کا پرتو تھا روئے ’گوجر‘ میں
2
باعث فخر و ناز ہے مومل
کتنی عشوہ طراز ہے مومل
تاب کس کو نظر ملانے کی
ناوکِ جاں گداز ہے مومل
سرکشان حیات ہی جانیں
کس قدر سرفراز ہے مومل
سب لبِ کاک خاک ہوتے ہیں
منتہاے مجاز ہے مومل
قہر آگیں جلال کے با وصف
کوش جمالی کا راز ہے مومل
فتنہ زا کارزار ہستی میں
تیغ جوہر طراز ہے مومل
کیا عدم کیا وجود، وہ جانے
مابہ الامتیاز ہے مومل
3
جانب کاک بے عناں آجا
ناقۂ دل رواں دواں آجا
کھل رہے ہیں جہاں کنول کے پھول
ہے وہی تیرا آستاں آجا
مثلِ خورشید صبحدم مومل
ہے لبِ کاک ضوفشاں آجا
4
وہ سرِ کاک صندلیں شاخیں
تاکِ انگور وہ ملاحت بیز
جن کو بھورے نہ چھو سکے اب تک
وہ کنول ہیں وہاں صباحت ریز
حسنِ دوشیزگی بلاتا ہے
ناقۂ شہرِ عاشقاں برخیز
5
جا رہی ہے رواں دواں ناقہ
مثل شاہیں ہے پرفشاں ناقہ
منزلِ کاک آ رہی ہے نظر
دیکھ پہنچا کہاں کہاں ناقہ
6
جو شناساے راہِ کاک ہوا
وہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
کئی آشفتہ سر گئے تھے وہاں
جن کا کوئی نشاں نہیں پایا
یہ سکوں مل گیا تو پھر منظور
ہمیں طوبیٰ کا بھی نہیں سایا
کاک میں ایسے لوگ جاتے ہیں
جن کا جی ہر خوشی سے اکتایا
7
دیکھ وہ شاطران شاہد باز
دیکھتے ہیں بغور شہرِ مجاز
یہ فراست کہ ایک سوپاری!
ان طلسمات کی ہوئی غماز
آگئے وہ قریب مومل کے
کاک میں ہوگئے قدم انداز
کاک کاراز جس نے بھی پایا
تا ابد بن گیا ہے وہ اک راز
وائي
نہ یہ عالم نہ یہ منعم نہ یہ سردار دیکھیں گے
نہ یہ دین دار دیکھیں گے نہ دنیا دار دیکھیں گے
بہرصورت جو تسلیم و رضاے یار دیکھیں گے
وہی مومل کا حسن عافیت آثار دیکھیں گے
بوقت جانکنی یا رب! نظر جب آسماں پر ہو
بفیضانِ محمد ذکر تیرا ہی زباں پر ہو
جو فیضانِ نگاہِ احمد مختار دیکھیں گے
وہی مومل کا حسنِ عافیت آثار دیکھیں گے
تیسری داستان
1
خوشا آرائشِ بزم نگاراں
زہے نظارہ ہاے گل بداماں
فضائوں میں کہیں گیسو معطر
مہکتی ہے کہیں زلفوں میں ریحاں
دلِ صد چاک میں ان کی تمنا
بنی ہے اک سوالِ حشر ساماں
ہوا دیدار جب سے ان کا ’سید‘
بھٹکتی پھر رہی ہے چشم حیراں
2
سروں پر سبز شالیں یا دو شالے
مہکتے بال اور مانگیں نکالے
یہ جسم صندلیں یہ عنبریں بال
یہ چہروں کے تر و تازہ اجالے
کسی کے کان میں سونے کے جھمکے
کوئی پہنے ہوئے چاندی کے بالے
انہیں میں تھی وہ گل اندام مومل
وہ سب انداز تھے جس کے نرالے
اسے ’سوڈھے‘ سے جو وابستگی تھی
حقیقت میں وہی اس کی خوشی تھی
3
انہیں کیا سیم و زر کی قدر وقیمت
وہ ہیں دوشیزگانِ بزم فطرت
نہاں خانوں میں مثلِ مشک و عنبر
مہکتی ہے سدا ان کی نفاست
قطار اندر قطار آتے ہیں عاشق
مگر ہوتی نہیں سب کو زیارت
وہی ہیں دولت دیدار پاتے
جو رکھتے ہیں فقیرانہ بصیرت
قدم میں لغزش مستانۂ شوق
خمار کاک کی چہروں پہ رنگت
4
دیار کاک کے جو راز داں ہیں
وہ سرمست خمار جاوداں ہیں
یہاں آنکھوں سے جو آنسو رواں ہیں
وہ مانندِ شراب ارغواں ہیں
چڑھایا ہے کسی نے رنگ ایسا
کہ سرتاپا بہار بے خزاں ہے
خیال یار میں کھوئے ہوئے سے
تلاش یار میں پیہم رواں ہیں
5
نہ ہوگی ماند اس کی سرخ روئی
جو سودائی جمال یار کا ہو
رہے گا دھل کے بھی رنگیں کپڑا
گر اس پر رنگ ہی ’ہالار‘ کا ہو
6
بساکر زلف میں صندل کی خوشبو
جہاں آتی تھی وہ مومل نہانے
وہاں بھٹکے ہوئے گرداب اکثر
اب آتے ہیں نئے فتنے جگاتے
سنا ہے کتنے ہی ناکام الفت
وہاں آتے ہیں اشک خوں بہانے
مقدر ایک سوڈھے کا تھا ورنہ
کسے بھائے محبت کے فسانے
اب اس مومل کی آنکھوں میں ہیں آنسو
جو گاتی تھی جوانی کے ترانے
چلایا جس نے تھا تیرِ محبت
بذات خود ہے نخچیر محبت
7
یہ دنیا ہے کہ ہے آئینہ خانہ
حقیقت ایک باقی سب فسانہ
کئی رانے ہیں لیکن میرا رانا
بہر انداز یکتاے زمانہ
کوئی عالم ہو یا کوئی عاقل
مگر ہے ’میندھرو‘ سب میں یگانہ
مٹا دیتی ہے زنگارِ کدورت
محبت کی نگاہ محرمانہ
8
ہوئی ’سوڈھے‘ سے جس کی آشنائی
اسے پھر کوئی بھی صورت نہ بھائی
رہا مومل سے اس کو کیا تعلق
وہ جس نے ’میندھرے‘ سے لو لگائی
9
پسند آئے نہ رنگیں قصر و ایواں
نہ بھائی مہہ وشوں کی کج ادائی
زن و زر کی کشش اہل طلب کو
نہ سنگ راہ بن کر آڑے آئی
کسی نے کاک کو مڑ کر نہ دیکھا
کچھ ایسی بے خودی دل میں سمائی
ہوا محسوس جیسے آگئی ہو
سمٹ کر ایک مرکز پر خدائی
رلاتا ہے اب ان کے بعد اکثر
حسینوں کو خیال نارسائی
10
نہیں قسمت میں تیری وصلِ جاناں
مگر ہونا نہ اے مومل ہراساں
نہ آئے گا ادھر اب تیرا ’سوڈھو‘
بھلا دے چند روزہ عہد و پیماں
اب آنسو پونچھ لے خاموش ہو جا
چھپالے داغ ہاے یاس و حرماں
دیا تھا تجھ کو رانا نے جو طعنہ
سمجھ لے اس کو دردِ دل کا درماں
ملے ہیں کاک سے جو زخم تجھ کو
بنالے ان سے اک تازہ گلستاں
بسوز دل بشوق سعئی پیہم
کوئی مشکل نہیں جو ہو نہ آساں
11
بظاہر آب جوے کاک پیارے
محبت کے لہو سے احمریں ہے
مگر اک چشم بینا کے لئے وہ
ہمیشہ مثلِ جائے انگبیں ہے
وائي
دیتی ہے مجھے دنیا طعنہ
تم بھول نہ جانا اے رانا
کیوں اور کسی کے ساتھ ہنسی
کسی بپتا میں آن پھنسی
تم کیا چھوٹے جگ چھوٹ گیا
جی بیٹھ گیا دل ٹوٹ گیا
پردیسی پریتم لوٹ آنا
تم بھول نہ جانا اے رانا
چوتھی داستان
1
میں جلاتی رہی چراغ سحر پو پھٹی ہو گیا اجالا سا
پوچھتی ہی رہی پرندوں سے ہائے لیکن ترا نشاں نہ ملا
مررہی ہوں تری تمنا میں آ بھی جا میرے دوست آ بھی جا
2
غم دیئے انتظار نے کیا کیا
گل کھلائے ہیں پیارے نے کیا کیا
کہہ دیا ڈوبتے ستاروں سے
ہر شبِ انتظار نے کیا کیا
سوز بخشا شب جدائی کو
دیدۂ اشکبار نے کیا کیا
فاصلے طے کئے تصور میں
ناقۂ شہریار نے کیا کیا
عود مہکا، کئی چراغ جلے
جل دیئے اعتبار نے کیا کیا
گد گدایا فریب منزل کو
ہر نئی رہگذار نے کیا کیا
3
ختم ہوتی ہے رات آ بھی جا
اے نگارِ حیات آ بھی جا
وہ ستارے چھپے چراغ بجھے
بجھ گئی کائنات آ بھی جا
تا بہ کے اشکباریٔ پیہم
اے پیام نجات آ بھی جا
4
ہائے ’سوڈھا‘ ترا پتا نہ ملا ساحل عمرِ موجِ پا نہ ملا
حلقۂ زلف یار سے آگے آرزئووں کا سلسلہ نہ ملا
تیری فرقت میں آج جو دیکھا رنگ چہرے پہ پھول سا نہ ملا
5
روز و شب تیری جستجو ہی تو ہے
مجھ کو اک تیری آرزو ہی تو ہے
تجھ پہ ظاہر ہیں سب گناہ و ثواب
ظاہری فرق ما و تو ہی تو ہے
6
’ڈھٹ‘ سے کتنے ہی لوگ آتے ہیں
اس دیار دگر میں صبح و شام
لیکن آیا نہ آج تک کوئی
لے کے رانے کا نامہ و پیغام
جی بہلنا نہیں کسی صورت
جب سے رخصت ہوا وہ دل آرام
بس گیا مثل رنگ و بوئے بہار
دیدۂ و دل میں کوئی گل اندام
راز دارانہ میرے کانوں میں
کہہ گیا جو وہ ماوراے کلام
وہ اگر آشکار ہو جائے
پھر نہ لے کوئی راحتوں کا نام
رات بھر کروٹیں بدلتا ہے
کتنی مشکل میں ہے دل ناکام
منتظر ہے فضائے مے خانہ
آ بھی جا میرے ساقی گلفام
7
تو ہے مختار کل بہر حالت
تیرے حلقہ بگوش خاص و عام
ایک مجھ ہی پہ کچھ نہیں موقوف
ساری دنیا ہے بندۂ بے دام
وائي
موڑ لے اونٹ کی باگ سجنوا
آجا لوٹ کے آجا
رات کٹی ہے نیر بہاتے
توڑ دیے سب رشتے ناتے
سونا سونا کاک ہے سارا
سندر چھب دکھلا جا
آجا لوٹ کے آجا
تیرے کارن پیارے رانے
سنتی ہوں سکھیوں کے طعنے
یہ گھر بار نہ بھائے مجھ کو
اے مرے من کے راجا
آجا لوٹ کے آجا
پانچویں داستان
1
سوے منزل قدم بڑھائے جا
راہِ ہستی کے راز پائے جا
پیشرو جب ہے شیر دل رانا
ہر غم ماسوا مٹائے جا
جلوت خاص و عام سے بچ کر
اپنی دنیا الگ بسائے جا
ہر عمل کا ہے ایک ردِ عمل
عاقبت کی خبر سنائے جا
خار زارِ حیات سے مومل
اپنا دامن ذرا بچائے جا
2
جاے عبرت یہ دار فانی ہے
ہر تگ و تاز آنی جانی ہے
سوچتا ہوں قدم قدم پر میں
پیچھے پیچھے کوئی جوانی ہے
کتنی آساں ہے اجل کی راہ
کتنی دشوار زندگانی ہے
3
غیر سے تو نے آشنائی کی
اپنے حق میں بڑی برائی کی
تو نے رانا کو کھیل سمجھا تھا
جھیل اب سختیاں جدائی کی
4
بخش دے میری ہر خطا رانے
تیرے قربان روٹھنے والے
دیکھ آنکھیںبچھائے ہوں کب سے
ناقۂ تیزرو کو لوٹا لے
سونا سونا سا کاک ہے تجھ بن
آ بھی جا رنگ و بو کے متوالے
ان وفا آشنا فضائوں کو
اے دل آرام پھر سے اپنالے
5
ہر نفس ہو گیا عذاب نہ جا
لوٹ آ میرے ماہتاب نہ جا
عشق کی چاکدامنی کی قسم
مظہرِ حسن لاجواب نہ جا
کوئی تیرے سوا نہیں میرا
کرکے یوں مجھ سے اجتناب نہ جا
میرے ’سوڈھے‘ تری جدائی میں
زندگانی ہے اک عتاب نہ جا
بخش دے میری سب خطائوں کو
درگذر کر یہ پیچ و تاب نہ جا
تجھ پہ قربان اے مرے رانے
جان لیوا ہے اضطراب نہ جا
6
ہو گئے سارے قصرو ایواں خاک
میں جلی اور جل گئی یہ کاک
پیارے رانے تری جدائی میں
شعلۂ عشق ہو گیا بے باک
وہ گلستان وہ برگ و بار کہاں
کچھ نہیں اب بجز خس و خاشاک
ساز و سامانِ زیست کیا معنیٰ
کیسا اسباب اور کیا املاک
رنج و غم ہیں جو میری قسمت میں
کرسکے کوئی ان کا کیا ادراک
لا رہا ہے مصیبتیں کیا کیا
عشق مانند گردشِ افلاک
منتظر ہے تری رفاقت کا
اضطراب آفریں دل صد چاک
جانے کب انتظار ہو گا ختم
جانے کب تک رہوں گی میں غم ناک
وائي
محل پردیس میں کیوں ’میندھرے‘ نے جا کے بنوائے
کوئی جائے میرے روٹھے ہوئے رانے کو سمجھائے
سکھی ری جیسے بھی ہو پیارے ’سوڈھے‘ کو منا لائے
بہت دن ہوگئے دیکھے ہوئے اب لوٹ بھی آئے
اسے اے کاش میری بیکسی پر رحم آجائے
ہوئے ہیں جان لیوا جور مجھ پر بے وفائی کے
سہے جاتے نہیں دکھ درد اب مجھ سے جدائی کے
یہ غم ناکامیوں کے اور صدمے نارسائی کے
میں قرباں کاک کی جانب وہ پھر ناقے کو لوٹائے
اسے اے کاش میری بیکسی پر رحم آجائے
چھٹی داستان
1
دل میں ایک آگ سی لگائی ہے
پیارے رانے تری دہائی ہے
کون ہے میرا والی و وارث
شاق مجھ پر تری جدائی ہے
کوئی جا کر تجھے یہ دے پیغام
جلد آجا کہ موت آئی ہے
مجھ کو معلوم تو ہو کچھ آخر
کیا ادا ’ڈھٹ‘ کی تجھ کو بھائی ہے
2
دیکھ آنکھیں بچھائے ہوں کب سے
ناقۂ تیزرو کو لوٹالے
ایک ادنیٰ کنیز ہوں تیری
بدگماں کیوں ہے روٹھنے والے
گاڑ دے آکے پھر سے سینے میں
تیکھے نینوں سے عشق کے بھالے
کیا سروکار کاک سے مجھ کو
دیدہ و دل ہیں تیرے متوالے
3
کاش اک بار پھر مری جانب
نظرِ التفات ہو جائے
گوشۂ روح میں ترنم ریز
پھر تری بات بات ہو جائے
میرے ہر درد عشق کا درماں
حسن والا صفات ہو جائے
عشرت وصل کی تمنا ہی
حاصل کائنات ہو جائے
4
وہ شبستاں جو تجھ سے تھا آباد
اب ہے میرے لئے ستم ایجاد
ایک تو غم تری جدائی کا
دوسرے ننگ و نام کی افتاد
5
لوٹ آئے اگر مرا رانا
اس پہ کر دوں متاعِ جاںقرباں
ساز و سامان زندگانی کا
میرے دل میں نہیں کوئی ارماں
غم کوئی جز غم وصال نہیں
اور کوئی مرا سوال نہیں
6
تیری فرقت میں فرطِ حسرت سے
آنکھ اب شبنمی نہیں ہوتی
میری آنکھوں میں اب درخشاں سی
کوئی دلبستگی نہیں ہوتی
وقف دار و رسن نہ ہو جب تک
عاشقی عاشقی نہیں ہوتی
7
میں نے دیکھی ہیں صورتیں کیا کیا
لیکن اس کا نہیں کوئی ثانی
جس نے بخشی ہے دیدۂ و دل کو
خلوت افروز آتش افشانی
8
کس تصور میں محو ہے مومل
وہ کبھی تو جھلک دکھائے گا
میں کھلائوں گی خوشنما بیلیں
جب وہ ناقے کو اپنے لائے گا
یاد آئیں گی راز کی باتیں
جب وہ میرے قریب آئے گا
9
شدت درد شعلہ ساماں ہے
جان گزیں جب سے یاد جاناں ہے
طعنۂ دیگراں ہے اور میں ہوں
دل پریشاں نظر پشیماں ہے
کاش میں اپنے پیارے رانے کو
اب نہ ترسوں گلے لگانے کو
10
ڈوبتے رہتے ہیں کئی سورج
کتنی راتیں تمام ہوتی ہیں
کھوئے رہتے ہیں تیری یادوں میں
تیری باتیں مدام ہوتی ہیں
میری اپنی خطائیں رہ رہ کر
مائل انتقام ہوتی ہیں
11
خاک ہو جائے ایسی خود رائی
بھاڑ میں جائے ایسی دانائی
پیارے سرتاج کے لئے قرباں
اپنے میکے کی قدر افزائی
آ مری جانِ انتظار آجا
اے مرے رشک صد بہار آجا
12
ہائے یہ ہولناک سناٹا
اف یہ خاموشیوں کے ویرانے
ہر گھڑی جن کے ساتھ جیتی تھی
وہ گئے ہیں کہاں خدا جانے
کب سے رانے کے انتظار میں ہیں
کاک کے سوگوار کاشانے
13
کون تیرا حریف ہے رانے
’ڈھٹ‘ ترا ہے فضاے کاک تری
کون جانے کہ میری ہستی میں
خون تیرا ہے اور خاک تری
حاصل حسن دو جہاں آجا
اے تمناے جاوداں آجا
14
خیمہ زن کاک میں ہو پھر آکر
ورنہ ممکن ہے تو بھی پچھتائے
بدگمانی ہی بدگمانی میں
بات حد سے کہیں نہ بڑھ جائے
وائي
دینا مرے روٹھے ہوئے رانے کو یہ پیغام
اے قافلے والو!
کہنا یہ بڑے عجز سے اے جانِ بہاراں
افسردہ ہوا سیج پہ ہر اک گلِ خنداں
ڈوبا ہوا اشکوں میں ہے اب دیدۂ حیراں
معلوم نہ تھا مجھ کو محبت کا یہ انجام
اے قافلے والو!
دینا مرے روٹھے ہوئے رانے کو یہ پیغام
اے قافلے والو!
آیا نہ اگر لوٹ کے وہ جان سے پیارا
کر لوں گی میں اس عالمِ ہستی سے کنارا
راس آئے ’لطیف‘ اس کے سوا کس کا سہارا
اے کاش گلے آکے لگالے وہ دل آرام
اے قافلے والو!
دینا مرے روٹھے ہوئے رانے کو یہ پیغام
اے قافلے والو!
ساتویں داستان
1
عہد و پیماں کا پاس ہے مجھ کو
تجھ بن آتا نہیں مجھے آرام
تیری یادیں ہیں اور آنسو ہیں
قصر و ایواں سے اب مجھے کیا کام
’ڈھٹ‘ کی خاطر کہیں مرے رانے
کرکے جانا نہ کاک کو بدنام
2
کیوں ’لڈونے‘ سے کر گئے ہجرت
ہئے وہ کاک کے جو شائق تھے
کیا تعلق اب ان سے مومل کو
یہ شبستان انہیںکے لائق تھے
رحم اس پر نہ کھائیں گے وہ لوگ
’ڈھٹ‘ سے واپس نہ آئیں گے وہ لوگ
3
پاس جب تک ہے تو سبھی کچھ ہے
تیری ہو کر سدا سہاگن ہوں
توڑنا مت پریت کا ناتا
تو ہے جوگی میں تیری جوگن ہوں
4
بس وہی حاصل بصیرت ہے
بس اسی سے مجھے محبت ہے
ایک ڈھانچا سا رہ گئی ہوں میں
اب نہ تاب و تواں نہ طاقت ہے
روح میں جیسے پھول میںخوشبو
اس کی سانسوں کی محرمیت ہے
5
کیا بتائوں جو گل کھلائے ہیں
ظلم رانے نے مجھ پہ ڈھائے ہیں
یہ شبستاں یہ بام و در یہ صحن
کبھی میرے تھے اب پرائے ہیں
کاک کے کیف زا مناظر پر
اب مری بے کسی کے سائے ہیں
رنج ہجر و فراق کے بادل
اب گھٹا بن کے دل پہ چھائے ہیں
کون جانے غم محبت میں
میں نے کیا کیا فریب کھائے ہیں
6
دیکھنے والا کاک میں ہے کون؟
اپنی چھب اب کسے دکھائوں میں
کیا خبر مجھے سے تو ہے کیوں برہم
ہائے کیسے تجھے منائوں میں
پھر یہاں کاش لوٹ آئے تو
اور تجھ کو گلے لگائوں میں
7
خاک اڑتی ہے قصر و ایواں میں
ہو کا عالم ہے اب شبستان میں
اب کوئی دلکشی نہیں باقی
عیش و عشرت کے ساز و ساماں میں
تیرے جاتے ہی اے مرے رانے
کیوںخزاں آگئی گلستان میں
دل میں ہیں بے شمار وہم وگماں
کتنے طوفاں ہیں چشمِ گریاںمیں
8
بخش دے میری ہر خطا پیارے
مان جا بات، لوٹ آ پیارے
تیری گرویدہ ہیں بہت لیکن
کون میرا ترے سوا پیارے
9
مجھ کو اپنا ہی جب بنانا تھا
ظلم ایسا نہ مجھ پہ ڈھانا تھا
کوئی مشکل نہ تھی مری پہچان
پاس آکر مجھے جگانا تھا
اے مرے میندھرے! مرے سوڈھے!
یوں نہ آتے ہی لوٹ جانا تھا
10
سرد ہوتے کبھی نہیں دیکھا
آنسوئوں سے وہ شعلۂ رخسار
اس سراپا جمال کے نزدیک
اور ہی کچھ ہے عشق کا معیار
11
سیکڑوں جس کے اشتیاق میں ہیں
کیاملا ہائے مجھ کو اس در سے
عشق نے کر دیے ہیں وابستہ
یاس و حرماں مرے مقدر سے
12
میں اسیرِ نگاہِ ناز ہوئی
ساری دنیا سے بے نیاز ہوئی
خلش انتظار سے حاصل؟
آرزو خود ہی چارہ ساز ہوئی
13
کاک کے باغ سونے سونے ہیں
جی بہلتا نہیں نظارے سے
جھلملاتے ہیں میری آنکھوں میں
رات بھر شبنمی ستارے سے
ہے کچھ ایسا تعلق خاطر
اے سکھی مجھ کو اپنے پیارے سے
نائو میں جیسے باندھ کر رسی
کھینچے مانجھی کوئی کنارے سے
14
آخر شب چلا گیا رانا
دل بہت بے قرار ہے سکھیو
ایک ساعت بھی کاک میں رہنا
اب مجھے ناگوار ہے سکھیو
آتش غم سے جل رہی ہوں میں
ہر نفس شعلہ بار ہے سکھیو
15
عاجزی سے حضورِ جانانہ
پیش کر آنسوئوں کا نذرانہ
خوے تسلیم سے بڑھیں آگے
دیدۂ و دل نیاز مندانہ
آ بتائوں میں تجھ کو اے مومل
کیوں وہ رانا ہے تجھ سے بیگانہ
ہر خوشامد ہے سعی لا حاصل
تجھ میں جب تک ہے بوے شاہانہ
اس طرح جا قریب تو اس کے
شمع کے گرد جیسے پروانہ
وائي
روٹھ کر گئے ساجن اب انہیں کہاں پائوں
کیا کروں کہاں جائوں
چل گیا پتا سب کو اپنے ہوں کہ بیگانے
دے رہی ہیں اب سکھیاں مجھ کو نت نئے طعنے
جانے کس نگر پہنچے راتوں رات ہی رانے
بڑھ رہی ہے بیچینی کیسے جی کو بہلائوں
کیا کروں کہاں جائوں
پھر سے اپنے سوڈھے کو کاک ہی میں پائوں گی
بال اپنے رانے کی راہ میں بچھائوں گی
میں ’کھرولیاں‘ ان کے اونٹ کو کھلائوں گی
اے ’لطیف‘ میں ان کو جان و دل سے اپنائوں
کیا کروں کہاں جائوں
آٹھویں داستان
1
جو کیا تھا وہ سامنے آیا
اپنی ہی لغزشوں کا پھل پایا
عالم رنگ و بو میں اے رانے
کیا بتائوں فریب کیوں کھایا
خار زاِ حیات میں اکثر
دامن دل کو میں نے الجھایا
یہ نہ سمجھا کوئی جزا بھی ہے
ہر خطا کے لئے سزا بھی ہے
2
تیرے صبر و شکیب نے پیارے
جادۂ دکھا دیا مجھ کو
راز دارانہ چشم پوشی سے
تو نے سب سکھا دیا مجھ کو
محرمانہ سکوت کے قربان
جانے کیا کیا بتا دیا مجھ کو
3
ماوراے مجاز ہے رانا
سر بسر بے نیاز ہے رانا
بخش دی میری ہر خطا اس نے
رحمت کارساز ہے رانا
رازِ وابستگی بتائوں کیا
میری ہستی کا راز ہے رانا
4
پردہ دارِ برہنگی تھا وہ
میں سر عام بے حجاب ہوئی
ہو کے رانے کے نام سے منسوب
زندگی کتنی کامیاب ہوئی
وہ نگاہ کرم مرے حق میں
چارہ ساز ہر اضطراب ہوئی
کاک کے واسطے مری ہستی
مثلِ نیرنگیِ سحاب ہوئی
5
حاصل حسن و عشق ہے پیارے
تیرا صبر و شکیب عرفانی
پیارے ’سوڈھے‘ تری عنایت سے
میں نے پائی وہ پاک دامانی
ناز کرتی ہے جس کی ندرت پر
خود مری پر سکوت حیرانی
معجزہ ہے تری نگاہوں کا
سرخرو ہو گئی پشیمانی
6
تیرے صبر و شکیب سے پیارے
یوں تو سب کی مراد بر آئی
ایک میں ہوں کہ سوچتی ہوں یہی
کس خطا پر تری نہ کہلائی
7
تیرے صبر و شکیب نے رانے
مجھ کو بخشا وقار انسانی
آہ میری غلط روی نے مگر
کچھ نہ پایا بجز پشیمانی
8
جو ترے صبر نے نصیحت کی
اس کو دل میں بسائوں گی پیارے
جب کبھی ہو گا سامنا تیرا
خون کے آنسو بہائوں گی پیارے
9
مجھ سی کم عقل کے لئے پیارے
صبر تیرا ہے رمز دانائی
تیری خاموشیوں میں آسودہ
ہے نیازانہ شان یکتائی
10
تیرے صبر و شکیب نے رانے
خود فریبی سے دی نجات مجھے
میں گرفتار حرص تھی لیکن
حرص سے مل گئی نجات مجھے
11
زندگی کتنی بے قرار ہوئی
جب گناہوں پہ شرمسار ہوئی
ہو گیا جس کو عیب کا احساس
پیارے سوڈھے کی راز دار ہوئی
جو خطا پر نہ ہو سکی نادم
ہائے کتنی ذلیل و خوار ہوئی
12
اے سکھی کٹ گئی ہماری ناک
اور ہم ہیں اسی طرح بے باک
اف یہ دیدہ دلیر بے شرمی
ہائے یہ خود فریبی ادراک
13
بے نیازانہ شان استغنا
غیرت ننگ و نام سے بہتر
شکمِ گرسنہ پرِ پرواز
دانۂ زیر دام سے بہتر
نویں داستان
1
پیارے رانے کا نامہ بر آیا
کیا سہانا سماں نظر آیا
جیسے بھولے سے چودھویں کا چاند
کاک کے صحن میں اتر آیا
2
ہر طرف بوے مشک بکھراتا
کوئی نکہت فروش ادھر آیا
بن کے قاصد دیار جاناں کا
دیکھنا کون میرے گھر آیا
3
آکے پھر کاک اور لڈونے کو
صبح ہوتے ہی جگمگائے گا
کتنے سنسان کاخ و ایواں ہیں
از سر نو انہیں بسائے گا
میں نے بھیجا ہے تیزرو قاصد
پیارا رانا ضرور آئے گا
4
جب مہار اس کے اونٹ کی آخر
کاک کی سمت موڑی جائے گی
اپنے آنگن کو لیپنے کے لئے
گارا چندن کا یہ بنائے گی
پیارے سوڈھے کی گود میں مومل
سارے ڈھٹ کا سہاگ پائے گی
5
میں نے کل رات پھر سنا سکھیو!
پیارے رانے کا دلنشیں پیغام
ہے وہ مقبولِ بارگاہ وفا
جو ہوا اس کا بندۂ بے دام
اس رحیم و کریم کے نزدیک
کچھ نہیں امتیاز خاص و عام
6
ڈھٹ میں بھی تو ہے کاک میں بھی تو
سوچتی ہوں کہ اب کدھر جائوں
کچھ بتا تو سہی مجھے رانے
میں ادھر آئوں یا ادھر جائوں
مٹ گئی تیرگی مرے دل کی
چاندنی ہے وہیں جدھر جائوں
7
کون ہے میرا آسرا پیارے
تو نہ ہو اس قدر خفا پیارے
میں کہ ہوں ایک خاطیِ معصوم
بخش دے میری ہر خطا پیارے
چاہتی ہوں تلافی مافات
ہے یہی ایک التجا پیارے
بھول جا میری ہر برائی کو
جان کر مجھ کو بے نوا پیارے
ایک ادنیٰ کنیز ہوں تیری
ساتھ میرا نہ چھوڑنا پیارے
8
سن لے اب میری التجا پیارے؎
مجھ کو تسلیم ہر خطا پیارے
تیری حلقہ بگوش لاکھوں ہیں
تجھے ان کی کمی ہی کیا پیارے
لیکن اس خار زار ہستی میں
کون میرا ترے سوا پیارے
کھل گیا خود پرستیوں کا بھرم
مل گئی مجھ کو ہر سزا پیارے
خم ہے تا زندگی سرِ تسلیم
ہے مقدم تری رضا پیارے
9
دیکھ بیتاب انتظار نہ ہو
نا شکیباے وصل یار نہ ہو
وہ ترے صحن کے قریب آئے
دیکھ اس درجہ بے قرار نہ ہو
اہتمام حریم جاں کر لے
دیدہ و دل کو میزباں کرلے
وائي
اے ناقۂ سودائی ۔ کیا چیز وہاں کھائی!
کیا کاک کی وادی نے پیغام سنایا ہے
کس نے ترے چہرے کو گلرنگ بنایا ہے
یہ رنگ یہ خوشبوئیں یہ حسن بہ رعنائی
اے ناقۂ سودائی
کیا چیز وہاں کھائی
جا ڈھٹ کی طرف جا کر لے آ مرے رانے کو
کہنا مجھے مومل نے بھیجا ہے منانے کو
میں عاجز و درماندہ تجھ میں یہ توانائی
اے ناقۂ سودائی
کیا چیز وہاں کھائی
وائي
رات جانے کو ہے رانے آجا
آجا اے مرے تن من کے راجا
جھوم کر پریم کے گیت گائوں
اونٹ کو تیرے چندن کھلائوں
راہ تکتی ہوں دن رات تیری
یاد آتی ہے ہر بات تیری
جانے کب کاک میں تجھ کو پائوں
اونٹ کو تیرے چندن کھلائوں
وائي
نگاہِ شوق پھر نذر لب و رخسار ہو جائے
تمنا سر خوش حسنِ جمالِ یار ہو جائے
مجھے اے کاش جیتے جی ترا دیدار ہو جائے
کوئی مجھ کو تری حیرت فزا محفل میں پہنچادے
ذرا آداب پا بوسی مرے دل کو بھی سمجھا دے
نگاہوں میں مری پھر ماسوا بیکار ہو جائے
مجھے اے کاش جیتے جی ترا دیدار ہو جائے
صدائے باز گشتِ محرمیت جان جاں سن لے
جو کہتا ہے ’لطیف‘ اس بات کو اے راز داں سن لے
مجھے حاصل ترا فیضان پراسرار ہوجائے
مجھے اے کاش جیتے جی ترا دیدار ہو جائے
سر بروو سندھی
پہلی داستان
1
تھام اس کریم کا دامن
وہی سارے جہاں کا داتا ہے
کیوں کسی کا غلام کہلائے
جو فقط اس سے لو لگاتا ہے
2
درد تو اٹھ رہا ہے سینہ میں
بازئووں کو نہ داغ چارہ ساز!
ہائے مجبوریٔ دل بے تاب
کھل گیا میری حسرتوں کا راز
جیسے سرکنڈا کاٹتا ہو کوئی
آرہی ہے عجیب سی آواز
3
بس اسی بات سے ہیں خوش پیارے
بار بار ان کے درپہ مت جانا
نت نیا درد تجھ کو مل جائے
اپنے دل کی مراد یوں پانا
جو محبت میں غم اٹھائے ہیں
ان کو اپنی زباں پہ مت لانا
4
غیر اس کو عزیز ہیں ’سید‘
مری قسمت میں کب وہ پیارا ہے
بعد مدت کے شادماں ہوں میں
خواب میں رات اس کو دیکھا ہے
جو اٹھایا ہے بار غم میں نے
سامنے اس کے کوہ بھی کیا ہے
5
بالوں کو راہ میں بچھائوں گی
پلکیں پیروں سے جا لگائوں گی
تیری خدمت گذار بن کر میں
عمر بھر پھر کہیں نہ جائوں گی
اگر ان وادیوں میں تو آئے
راز اپنے تجھے بتائوں گی
6
میری آغوش میں ہو آری جام
ساعت ایسی بھی اے خدا آئے
اس طرح لطف سے مجھے دیکھے
عیب میرا ہنر ہی کہلائے
مجھ سی درماندۂ محبت کو
کیچ میں اپنے ساتھ لے جائے
7
جھوٹوں کی دوستی سے تو ناحق
اپنے دل کی لگن بجھاتا ہے
کوئی دیکھے تو تیری خوشی فہمی
جان کر تو فریب کھاتا ہے
8
ایسی بھی اب ہے آرزوے ’لطیف‘
تیرے قدموں میں ہو دلِ مہجور
جس طرح عجز و انکسار کے ساتھ
سر بہ سجدہ زمیں ہے تیرے حضور
9
صبر کر صبر اے دلِ مہجور
اب خیالِ وصال ہے بیکار
تیرے پیارے تو کر گئے ہجرت
اب یہ حزن و ملال ہے بیکار
ہاں یہی تھا نوشتۂ تقدیر
عشق میں قیل و قال ہے بیکار
10
اپنی دیوانگی کا شکوہ ہے
میرے پیارے تیرا گلا تو نہیں
تو تغافل شعار ہے پھر بھی
کوئی میرا ترے سوا تو نہیں
11
آج پھر تیری یاد آئی ہے
آنسوئوں نے جھڑی لگائی ہے
آنکھیں اب دوسروں کو کیا دیکھیں
ان میں صورت تری سمائی ہے
12
دور ہو کر بھی ہے کوئی نزدیک
کوئی نزدیک ہو کے بھی ہے دور
بعض مشکل سے یاد آتے ہیں
بعض کی یاد سے ہے دل معمور
جیسے ’کنڈی‘ کے سینگ الجھے سے
دوست اس طرح دل میں ہے مستور
13
تیغ ابرو سے ذبح کر کے مجھے
منہ کسی اور سمت موڑ گئے
گوشت تو سارا کر دیا تقسیم
ڈھانچہ ایک ہڈیوں کا چھوڑ گئے
اور پھر کر کے صبر کی تلقین
اک تبسم سے دل کو توڑ گئے
14
دل کو مانوس کرکے پیارے نے
کچے دھاگے سے باندھ رکھا ہے
پیچ ڈالے ہیں عشق نے ایسے
مجھ کو ہر دم اسی کا سودا ہے
15
عام ہے جاہ و مال زر کی حرص
مجھ کو ہے صرف تیرا ہی ارمان
تو نے بخشی ہے وہ خوشی پیارے
جس پہ دنیا کی ہر خوشی قربان
16
حسن پیارے کا انگبیں سا ہے
اور حنظل ہے اسکا ہر انداز
جو بھی اس کے قریب آتا ہے
اس پہ گرتی ہے برق عشوہ و ناز
17
ان پہ قربان جان و دیدہ و دل
کیا تھے وہ خوش جمال کیا کہئے
وہ چمکتی ہوئی حسیں آنکھیں
اب ہیں خواب و خیال کیا کہئے
18
میرے پیارے چلے گئے جب سے
چین دن کو نہ رات کو آرام
ان پہ سو جان سے ہوں میں قربان
جرأت دل اگرچہ ہے بدنام
گلۂ سختی فراق بجا
اور جو آجائے وصل کا پیغام
19
دل میں مسکن ہے پیارے ساجن کا
روح میں رچ گئی ہے رعنائی
ایک ساعت کو بھی نہ بھولوں گی
اس دل آرام کی شناسائی
20
کاش ضد چھوڑ کر وہ پھر آئے
راز کی ایک بات سن جائے
اب یہی چاہتا ہے میرا دل
کوئی اس کو قریب تر لائے
21
کبھی سن ہی سکیں نہ میری بات
اور کبھی بات کرنے خود آئیں
بند کرلیں کبھی تو دروازے
اور کبھی خود ہی لینے آجائیں
22
خود بخود تو نے سامنے آکر
یہ محبت مجھے سکھائی ہے
عشق سے واسطہ مجھے کیا تھا
میرے پیارے تری دہائی ہے
23
میرے پیارے تو ایک شہزادہ
اورمیں تیری بندۂ بے دام
تجھ سے پل بھر کو بھی جدا ہو کر
سخت مغموم ہے دل ناکام
وہ نظر اب بدل نہ جائے کہیں
دے رہی ہے جو روح کو آرام
وائي
رگ رگ میں بسا وہ پیارا ہے
وہ پیارا سب سے نیارا ہے
وہ پیارا آنکھ کا تارا ہے
میں پربت پر چڑھ جائوں گی
اور اس کو ڈھونڈ کے لائوں گی
اب سارے جگ میں اے سکھیو!
بس وہ ہی ایک سہارا ہے
وہ پیارا آنکھ کا تارا ہے
دوسری داستان
1
نگہِ التفات پر قربان
دل میں ہیں اور بھی کئی ارمان
اے کمالِ شعور مجھ پر بھی
اپنے شایانِ شاں کر احسان
2
تیغِ ابرو پہ جائوں میں قربان
لے کے آئی ہوں اپنے جسم و جان
نذر میری قبول ہو جائے
اس سے بڑھ کر نہیں کوئی ارمان
3
دل و جاں کو مٹا کے بھی پیارے
تو نے پوچھی نہ ہائے میری بات
خون کی بوند تک نہیں باقی
دلِ سوزاں ہے اور ہجر کی رات
میری قسمت کہ تجھ کو پا نہ سکی
چھان مارا جہانِ امکانات
4
جب بھی وہ بزم یاد آتی ہے
آہ دل سے نکل ہی جاتی ہے
کیا کہوں میں وہ جان مہرو وفا
دل سے دل کس طرح ملاتا ہے
جیسے کڑیوں کو جوڑ کر لوہار
ایک زنجیر سی بناتا ہے
5
سرجھکا کر ادب سے ہر ایک حور
حسن جاناںکی داد دیتی ہے
پڑھ کے اکثر زمیں بھی بسم اللہ
نقش پا اس کے چوم لیتی ہے
6
تیری بندی ہوں اے مرے پیارے
تیرے ہی غم سے لو لگاتی ہوں
مفسدوں سے بھی میں تری خاطر
کتنی عزت سے پیش آتی ہوں
7
اے گرفتار زیست روزِ نجات
تیرے کام آئے گا قلم نہ دوات
وقت آخر امینِ جاں ہوگی
کونسی بات اے اسیر حیات
لولی ’بروے‘ کی جانتا ہے تو!
یوں تو پیاری ہے تیری ہر اک بات
8
تیرے ابرو و چشم ہیں پیارے
تیغ خمدار و خنجر خونخوار
زخم اب دل کے بھر نہیں سکتے
جاں لیوا ہے عشق کا آزار
دل ہے جسکے فراق میں بیتاب
کاش مل جائے مجھ کو وہ دلدار
9
یاد جاناں نے بے قرار کیا
آج پھر میں نے انتظار کیا
اپنی آنکھوں کو بادلوں کی طرح
شدت غم سے اشکبار کیا
شوق کی تشنگی نہیں بجھتی
جب سے اس دلربا سے پیار کیا
کشش حسن دوست کیا کہئے
آپ ہی اپنا دل فگار کیا
میرے تن من میں آگ سی بھر دی
تو نے یہ کیا جمال یار کیا
10
مدعاے حیات پایا ہے
وہ سراپا بہار آیا ہے
عالم فرط انبساط نے آج
شدت غم کو یوں دبایا ہے
’کھوڑ‘ کے ساتھ جیسے دھوبی نے
کپڑوں سے میل کو چھڑایا ہے
وائي
مرے مولیٰ بھول نہ جانا
دکھیا کی مدد کو آنا
تو کھیون ہار ہے داتا
میری نیا پار لگانا
گھیرے ہیں مجھے جو بیری
تو ان کا زور مٹانا
کہنا ہے ’لطیف‘ کوی کا
وہ پیارا دیس دکھانا
مرے مولیٰ بھول نہ جانا
وائي
وہ پیارا ساجن آئے گا
اور ساتھ مجھے لے جائے گا
خود ہاتھ پکڑ کر اندھی کو
آبادی میں پہونچائے گا
ان گھاٹوں کا کیا خوف مجھے
وہ بیڑا پار لگائے گا
وہ پیارا نبی رہبر بن کر
اک سیدھی راہ سمجھائے گا
کہتا ہے ’لطیف‘ کہ اے سکھیو
وہ پیارا دھیر بندھائے گا
تیسری داستان
1
سفر کوہسار ہے دن کو
اور پھر ساری رات سوتے ہیں
حوصلہ مند بھی محبت میں
اپنے ہوش و حواس کھوتے ہیں
ہر گھڑی عاشقوں کے جھرمٹ میں
تذکرے جان جاں کے ہوتے
2
دم تو سب دوستی کا بھرتے ہیں
دوست کس کو مگر کہا جائے
قدر ہوتی ہے دوست کی اس وقت
جب مصیبت کسی پہ آجائے
3
تیری رحمت سے مل گئے مجھ کو
زندگی ہی میں وہ مرے پیارے
اب وہ مجھ سے جدا نہ ہوں یا رب!
راحت جاں ہیں ان کے نظارے
4
ان گنت عیب مجھ میں ہیں یارب!
نگِہ التفات ہو جائے
پھر بھی جائے اگر کبھی مجھ سے
حسب عادت ادھر پلٹ آئے
5
کیا کہوں جب سے وہ سفر پہ گئے
کس طرح زندگی گذاری ہے
اس پہ قربان جائوں میں سو بار
جس کی خاطر یہ بے قراری ہے
آرزوے وصال کیا کیجئے
کہ جدائی رضاے باری ہے
6
کیوں یہ فکرِ ہوس، ہوس بھی کہیں
قابل اعتبار ہوتی ہے!
ایک ہی دل ہو ایک ہی دلبر
عاشقی ایک بار ہوتی ہے
7
بھانپ لیں میری خامیاں تو نے
پیارے ساجن ترا جواب نہیں
جانتا ہے برائیاں میری
پھر بھی مجھ پر کوئی عتاب نہیں
8
آج اس کے حضور میں پھر ہوں
پھر وہ لطف و کرم پہ مائل ہے
جو تعلق ہے مجھ سے پیارے کو
ٹوٹنا اس کا سخت مشکل ہے
9
کند خنجر سے کر نہ مجھ کو ہلاک
دسترس میں ہیں تیز خنجر بھی
ہائے یہ درد اور یہ آزار
زخم دل پر بھی ہے جگر پر بھی
وائي
اونٹوں کو چپکے سے لیکر مجھ کو سوتا چھوڑ گئے
آدھی رات کو ہائے بلوچی کیوں مجھ سے منہ موڑ گئے
رات ہی رات مین وہ پردیسی پہونچے کوسوں دور کہیں
سمجھی تھی من میت جنہیں میں وہ بیری دل توڑ گئے
کہتا ہے یہ ’لطیف‘ ہمیشہ سجن ملیں گے بھور بھئے
وہ ناتا ہے پریت کا ناتا جو ناتا وہ جوڑ گئے
وائي
مجھ دکھیا کی دھیر بندھانا
پیارے محمد چھوڑ نہ جانا
مطلب کی ہے دنیا ساری
کون سنے فریاد ہماری
ہر اک بپتا میں کام آنا
پیارے محمد چھوڑ نہ جانا
روز ازل سے نور تمہارا
دیدۂ دل میں جلوہ آرا
رہبر بن کر راہ سجھانا
پیارے محمد چھوڑ نہ جانا
میں ہوں تشنہ کام محبت
مجھ کو بھی اک جام محبت
مجھ کو بھی دو گھونٹ پلانا
پیارے محمد چھوڑ نہ جانا
وائي
وہ پیارا ساجن آئے گا
مجھ اندھی کو لے جائے گا
خود ہاتھ پکڑ کر دکھیوں کو
آبادی میں پہونچائے گا
وہ کامل اپنی رحمت سے
ہر دکھیا کو اپنائے گا
غربت کی اندھیری راتوں میں
وہ جگ جگ دیپ جلائے گا
وہ کھیوں ہار انوکھا ہے
ہر بیڑا پار لگائے گا
وہ رہبر سب کا رہبر ہے
وہ سیدھی راہ سجھائے گا
سر ڈھر
پہلی داستان
1
کوئی تیرے سوا کس کو پکارے
بڑا پیارا ہے تیرا نام پیارے
یونہی خاموش بیٹھی ہوں میں کب سے
خدایا تیری رحمت کے سہارے
تعلق روح کا ہے بس تجھی سے
تجھے معلوم ہیں غم بھی ہمارے
کسے تیرا پتا اے چھپنے والے
نظر میں ہیں ترے رنگیں نظارے
وسیلہ کون ہے ہم بے کسوں کا
کہاں جائیں گے یہ غربت کے مارے
اسی امید پر اب جی رہے ہیں
کہ مل جائیں ہمیں تیرے سہارے
2
چھپالے دامنِ رحمت میں پیارے
نہ بھولوں گی کبھی احساں تیرے
تیرا شیوہ ہے میری عیب پوشی
تجھے معلوم ہیں سب عیب میرے
3
اگر ہو تیری رحمت کا اشارا
تو قعرِ آب بن جائے کنارا
ترے قربان اے شاہِ مدینہ
مجھے درکار ہے تیرا سہارا
اثر رکھتی ہے کچھ تو اس کی آواز
محبت سے تجھے جس نے پکارا
نہ خالی جائے اس بیکس کی فریاد
تجھے اپنا کہے جو غم کا مارا
ترے قدموں کی مٹی کیمیا ہے
نہیں تیرے سوا کوئی ہمارا
مجھے عصیاں پہ ہے بیحد ندامت
بھلا دینا نہ تو مجھ کو خدارا
4
اگر ہے عاشق شہر مدینہ
تو اے سائل و ہاں اس طرح جانا
یہ فرط شوق اپنے چشم و دل کو
غبار منزل جاناں بنانا
نظر آئے تجھے جب نور احمد
تو اس کو اپنی رگ رگ میں سمانا
5
ترے دامن سے وابستہ ہوں پیارے
ذرا آکر مری ڈھارس بندھا دے
مری اجڑی ہوئی اس جھونپڑی کو
مرے سرتاج تو آکر بسا دے
6
سبھی سکھیوں کے ہیں سرتاج لیکن
مرے سرتاج ہیں سب سے نرالے
کرے گا کون ایسی عیب پوشی
کہ دیکھے اور ہر اک عیب ٹالے
مری لغزش بنے اس کی نوازش
میں گر جائوں تو وہ مجھ کو سنبھالے
اسے ہونے نہ دے دنیا میں رسوا
جسے وہ اپنے دامن میں چھپالے
دوسری داستان
1
بظاہر شوخیاں سرتاج سے ہیں
مگر منظور غیروں کی خوشی ہے
تو دانہ چھوڑ کر کیوں آج ناداں
یہ بھوسا جمع کرنے میں لگی ہے
2
تجھے بننا ہے اک اچھی سہاگن
تو اے غافل ذرا ہشیار ہو جا
گراں خوابی ترے کس کام آخر
سحر ہونے کو ہے بیدار ہو جا
3
پلک جھپکا کے پھر ہشیار ہو جا
یہ نیند اچھی نہیں بیدار ہو جا
ارے ناداں ابھی تو دو پہر ہے
سفر کے واسطے تیار ہوجا
4
خوشا وہ لوگ بیداری سے جن کو
یقیں کی روشنی حاصل ہوئی ہے
شبانہ خلوتوں میں جن کے دل کو
سحر کی تازگی حاصل ہوئی ہے
5
بجز حسرت نہیں کچھ حاصل خواب
اگر ہے جانِ جاں کی یاد پیاری
بہت پچھتائے گی اپنے کئے پر
اگر یہ رات سونے میں گذاری
6
یہ کیوںشب خوابیوں پر ناز بے جا
مقدر میں ہیں کچھ ایسی بھی راتیں
کہ تنہائی میں تو گھبرا کے اکثر
کرے گی دل سے بیداری کی باتیں
7
مجھے اس نیند نے جو دکھ دیا ہے
تمہیں کس دل سے اے سکھیو بتائوں
جو لمحے خواب غفلت میں گذارے
کہاں سے ڈھونڈ کر اب ان کو لائوں
وہ پیارا ہوت ’ہاڑے‘ میں نہیں ہے
اگر جائوں بھی تو کس سمت جائوں
8
بہائے درد کے ماروں پہ آنسو
مگر شبنم سمجھنا ہے انہیں تو
9
گذارے گی اگر آنکھوں میں ہررات
تو ان سے سرخرو ہوتی رہے گی
نہ ہوگی دولت دیدار حاصل
اگر تو رات بھر سوتی رہے گی
10
کھڑا ہے ریت پر یہ قصرِ ہستی
عبث اس قصر ہستی پر ہے نازاں
عروسی پیرہن ہے آج جس کا
وہی کل ساکن گورِ غریباں
11
نہ ہو اے کاش اب کوئی سویرا
رہے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا
تجھے جب تک نہ میں پھر سے منالوں
ہٹے سر سے نہ پیارے ہاتھ تیرا
12
دل اس کی یاد میں کھویا ہوا ہے
خدا مجھ کو پیارے سے ملانا
جو اس کے وصل کا پیغام لائے
ہوا میری طرف ایسی چلانا
13
مری سکھیو کرو پیارے کی باتیں
کہ ان میں نت نئی وارفتگی ہے
اگر مل جائے پھر مجھ کو وہ ساجن
تو سمجھوں میری قسمت کھل گئی ہے
اسی کی راہ اب تکتی رہوں گی
جو صورت میری آنکھوںمیں بسی ہے
محبت کے فسانے تازہ ہر دم
ہمیشہ داستانِ دل نئی ہے
تیسری داستان
1
ارے ’کنڈا‘! مجھے کچھ تو بتا دے
کہاں ہیں آج وہ پیارے کہاں ہیں
بہار رفتہ کا غم ہے تجھے بھی
گل و برگ و ثمر نذر خزاں ہیں
کدھر گم ہوگئے ’ڈھورے‘ کے مالک
ترے دن رات جن کے رازداں ہیں
2
اگر تو طالب آزار ہوتا
تو کیوں مرہون برگ و بار ہوتا
نہیںغم تجھ کو اپنے مالکوں کا
و گر نہ سوکھ کر تو خار ہوتا
کبھی رہتا نہ تو اس طرح قائم
اگر ان سے تجھے کچھ پیار ہوتا
3
’ڈھورا‘ لبریز تھا جب اے ’کنڈا‘
یاد تو ہوگا وہ سماں تجھ کو
کہ ملا تھا یہیں کہیں شاید
وہ ’جسودن‘ سا راز داں تجھ کو
4
اس علاقہ کے مالک و مختار
جانے کس دیس کو سدھارے ہیں
اس قدر خشک ہو گیا ڈھورا
آک میں چھپ گئے کنارے ہیں
5
موجزن جب تھے ’ڈھاگی‘ اور ڈھورا
آپ اپنی مثال تھا ’بلیار‘
یادگار زمانہ ہیں اب تک
وہ جسودن کے دلنشیں اطوار
6
بہہ رہا تھا جہاں کبھی ڈھورا
اب وہاں چھوٹے چھوٹے چشمے ہیں
موجزن تھا جہاں ’پٹیہل‘ کل
اب وہاں تشنہ لب کنارے ہیں
جن میں رہتا تھا اک ہجوم سدا
کتنے ویران اب وہ رستے ہیں
7
کشتیاں کھولنے لگے ملاح
پہلے جیسا نہیں رہا ڈھورا
کون پرساں ہے اب جسودن کا
ہائے پایاب ہو گیا ڈھورا
8
دیکھ کر اس کو آنکھ ہے پر آب
اب ’جسو‘ گھاٹ پر کہاں احباب
9
خواب میں بھی نظر نہیں آتا
گھاٹ پر جو ہجوم رہتا تھا
کر گئی ہیں جو پار ’کاچھا‘ کو
ہائے ان گوریوں کے ٹھاٹھ تھے کیا
10
اے ’پٹیہل‘ کہاںوہ تیرا جوش
نہ تلاطلم نہ وہ روانی ہے
ریت ہی ریت ہے جدھر دیکھو
خشک کس غم سے تیرا پانی ہے
11
آج مجھ سے کہا ’پٹیہل‘ نے
کردیا غم نے خشک دھاروں کو
ہر گھڑی فکر ہے جسودن کی
یاد کرتا ہوں اپنے پیاروں کو
12
ہم چلے، رخصت اے مہارانی
تنگ ہے ’سانگ‘ غم کے ماروں پر
آک کے پھول اور سو کھی گھاس
کیا ہے ان کے سوا کناروں پر
چوتھی داستان
1
کیوں نہ لوٹا تو اے نہنگ اس وقت
آبجو میں سوا تھا جب پانی
اب شکاری ہیں اور ان کی جال
چل سکے گی نہ تیری من مانی
آج ہو جائے گا تجھے معلوم
جان لیوا ہے کل کی نادانی
2
باز آ اے نہنگ مستی سے
فتنہ پرور تری جوانی ہے
جس کو دریا سمجھ رہا ہے تو
چند روزہ ہی اس کا پانی ہے
3
جب شکاری نے جال پھینکا تھا
تجھے اس وقت تیر جانا تھا
تجھ سے پہلے بھی جو نہنگ مرے
ان کے حلقوں میں بھی کانٹا تھا
انہی غفلت شعاریوں سے نہنگ!
تجھے بے موت یونہی مرنا تھا
گلچھڑوں میں چبھا ہوا کانٹا
حلق میں تو نے خود ہی ڈالا تھا
4
گلچھڑوں میں چبھو کے وہ کانٹا
چھوڑ جاتے ہیں اپنے پیاروں کو
وہ تڑپنا بھی دیکھتے ان کا
مارتے ہیں جو غم کے ماروں کو
5
چھوڑ کر تو کنارا ’پائر‘ کا
کسی ’ترائی‘ میں گھاس چرتا ہے
شاید اے گوسفند بے پروا
موت نے تجھ کو آکے گھیرا ہے
ذبح کر دیں گے تجھ کو بھی قصاب
ان کی نظروں سے کون بچتا ہے
6
رہنا اے گوسفند تو ہشیار
دفعتہ وہ نظر بدلتے ہیں
گلہّ بانوں سے رہتے ہیں خائف
گلہّ بانوں کے گھر میں پلتے ہیں
7
زندگی بھر سراب ہستی میں
نت نئی آرزو کا غم کھانا
بھاڑ میں جائیں بیریوں کے جھنڈ
تو کبھی ان کے پاس مت جانا
8
اے ہرن تو ہے فربہ و تازہ
تو نے جنگل میں خوب کھایا ہے
دیکھ شاید اسی لئے صیاد
لے کے تیر اور کمان آیا ہے
9
عاصیوں کے صبیح چہرے دیکھ
کج روی پر بھی مسکراتے ہیں
آئے جس کام کے لئے وہ یہاں
آکے وہ کام بھول جاتے ہیں
10
دین کو چھوڑ کر نہ جانے کیوں
مول لیتے ہیں نت نیا آزار
جھاگ ہی کو سمجھ رہے ہیں دودھ
کیوں یہ دیں ناشناس دنیا دار
پانچویں داستان
1
وادیوں اور کوہساروں میں
ہم صفیروں نے غل مچایا ہے
تو ہے خاموش کس لئے اے ’کونج‘
ہم صفیروں کو کیوں بھلایا ہے
2
رو رہی ہے کہ دے رہی ہے کونج
ہم صفیروں کو پھر کوئی پیغام
ہائے وہ وادیاں وہ جھرمٹ ہائے
آہ یہ غم یہ نت نئے آلام
3
کھوئی کھوئی سی ہے اداس سی ہے
زندگی کس طرح گذارے گی
ہم صفیروں سے چھین کر اے کونج
تیری تنہائی تجھ کو مارے گی
4
آدمی میں بھی ہے مگر کمیاب
ان پرندوں میں جو اخوت ہے
ایک ہی غول ایک ہی منزل
ہمسفر، راہبر محبت ہے
5
باز پلٹا تو غول پر جھپٹا
غول سے کونج کو شکار کیا
اور ادھر ننھے منھے بچوں نے
ماں کے آنے کا انتظار کیا
6
جب سے بچھڑی ہے کونج جھرمٹ سے
شب کو سوتی ہے اور نہ کھاتی ہے
یاد کرتی ہے ہم صفیروں کو
اور پیہم صدا لگاتی ہے
7
کوہساروں میں تھا وطن جن کا
کھینچ لائی انہیں یہاں تقدیر
حکم ہے رازق حقیقی کا
اس میں کونجوں کی کچھ نہیں تقصیر
8
تیری آواز غمزدہ اے کونج
یاد محبوب کی دلاتی ہے
رات کے وقت دکھ بھری فریاد
زخمِ دل کی خلش بڑھاتی ہے
روتی رہتی ہے رات بھر تنہا
دمبدم اشک خوں بہاتی ہے
تجھ پہ شاید وہی ستم ٹوٹا
جو جدائی بشر پہ ڈھاتی ہے
9
کوئی مہجور کونج متواتر
کل سے سوے شمال نالاں ہے
خواب میں ہم صفیر دیکھے ہیں
اس لئے نیم شب کو گریاں ہے
10
کونج بچھڑی ہوئی ہے بچوں سے
اس لئے شور و غل مچاتی ہے
بڑھتی جاتی ہے کوشش پرواز
یاد ان کی ستائے جاتی ہے
11
حسب معمول اس ترائی میں
ایک امید ان کو لے آئی
لیکن اس سبزہ زار میں کیا تھا
یہاں ہر کونج آکے پچھتائی
اڑ چکے تھے وہ جب سویرے ہی
جن کی چاہت انہیں یہاںلائی
12
آج اے کونج ہم صفیروںکو
کر رہی ہے اداس تیری یاد
تونے دیکھے نہ وہ تہ خاشاک
جال پھیلا گئے تھے جو صیاد
تجھے بیتابیوں سے کیا حاصل
کون سنتا ہے اب تری فریاد
کر چکے ہیں شکار لاکھوں کو
وہ جفا پیشہ وہ ستم ایجاد
13
یہ ترے جال غرق ہو جائیں
موت آجائے تجھ کو اے صیاد
میرے دور فراق کا باعث
تیرا دام فریب ہے صیاد
14
دل صیاد میں بھی ناوک تھا
کونج کو یہ نہ ہو سکا معلوم
دفعتہ اک فریب نے اس کو
کردیا اپنے جھنڈ سے محروم
15
کتنا بوسیدہ حال ہے صیاد
ایک بندوق کا سہارا ہے
کوہساروںمیں چھپنے سے پہلے
کچھ حسین طائروں کو مارا ہے
چھٹی داستان
1
اپنی بھینسوں کو تو وہاں لے جا
بستیاں ہیں جہاں ’سنگھاروں‘ کی
بارشوں کے اثر سے ہے محفوظ
جھونپڑی ان وفا شعاروں کی
2
کوئی پہنچائے ان سنگھاروں کا
کاش میری طرف سے یہ پیغام
میری ہستی ہے تم سے وابستہ
مجھے ’کاچھے‘ سے اب رہا کیا کام
3
دوسروں کو پلا کے پیتے ہیں
کتنا اچھا اصول ہے ان کا
ہر جمعرات کو سنگھاروں نے
اپنی بھینسوں کا دودھ ہے بانٹا
ماں! یہ منعم ہیں صاحب ایثار
اور دنیا میں ہے کوئی ان سا!
4
گھیر لیں گے مجھے کئی دکھ درد
مار ڈالے گی سختی فرقت
کیا یہ سچ ہے سنگھار کاچھے سے
اب کہیں اور کر گئے ہجرت!
5
کیوں نہ رشک آئے ان سنگھاروں پر
دل سخی اور ہمتیں عالی
پھر جمعرات کا دن آیا ہے
پھر ہیں گھر ان کے دودھ سے خالی
6
سونا سونا ہے موسم برسات
دن دکھایا ہے کیا بہاروں نے
آج ماتم بپا ہے کاچھے میں
رخ کدھر کا کیا سنگھاروں نے
7
صبحدم کیوں نہ ساتھ چلنے کو
تو نے رخت سفر کیا تیار
جانتی تھی سنگھار جائیں گے
وطن ان کا ہے کاچھا اور کوہسار
8
شاد و آباد وہ رہیں یا رب!
آسرا ہے مجھے سنگھاروں کا
اس برے وقت میں انہیں شاید
کچھ خیال آئے غم کے ماروں کا
9
گلہّ بانوں سے کیوں وہ کترائیں
خود بھی جو گلہّ بان کہلائیں
میں برا کیوں کہوں سنگھاروں کو
ہو نہ ہو پھر وہ اس طرف آئیں
10
ان کے مٹکوں کے ٹھنڈے پانی سے
کتنے ہی تشنہ لب ہوئے سیراب
یہ سنگھاروںکی بیٹھکیں خالی
اب جنہیں دیکھ کر ہے دل بیتاب
ماں! نہ جانے کہاں گئے وہ لوگ
چھوڑ کر ایسا موسم شاداب
11
بیٹھکیں ان کی سونی سونی ہیں
کیوں سنگھار اب نظر نہیں آتے؟
کیا پسند آگیا ’چٹا نو‘ گھاٹ؟
ان کے گلیّ ادھر نہیں آتے
12
سبزہ زاروں کی جستجو ہے اگر
ساتھ چھوٹے نہ ان سنگھاروںکا
ان کی صحبت میں چین اور آرام
وہ سہارا ہیں بے سہاروںکا
13
اہے کتنے ہی عیب ہوں ان میں
بخششوں میں کمی نہیں آتی
جو سنگھاروں کی ہوگئی باندی
روکھی روٹی کبھی نہیں کھاتی
14
پڑ رہی ہیں زمین پر بوندیں
اور گوبر میں بھر گئے ہیں ہات
پھر سنگھاروں کی یاد نے مارا
میری آنکھوں سے پھر ہوئی برسات
15
جوبھی کاچھے میں گھوم پھر آئی
دودھ اپنے تھنوں میں بھر لائی
ان کے گلیّ میں رہ کے بھینسوں میں
آگئی ہے نئی توانائی
ان سنگھاروں کے دیس کی کیابات
جوگیا اس نے زندگی پائی
ساتویں داستان
1
پھر ہوں ’جاڑیجا‘ اور ’سما‘ ہشیار
ان پہ ’لاکھو‘ نے کی ہے پھر یلغار
2
کچھ کا راجہ بھی ہو گیا ناراض
ہائے جاڑیجوں نے کیا وہ کام
مل سکے گا نہ اب کہیں ان کو
وہ سہارا وہ امن، وہ آرام
3
’کچھ‘ میں لاکھو کی لوٹ نے ہر سو
ایک کہرام سا مچایا ہے
کوئی دیکھے تو اس ستم گر کو
کتنے فتنوں کو ساتھ لایا ہے
لے گیا ہے کہیں سے چوپائے
ساز و ساماں کہیں چرایا ہے
اس ستم کیش کے لٹیروں نے
ہر طرف بستیوں کو ڈھایا ہے
لیکن اب دیکھنا ہے کیا ہوگا
رائے غصے میں ’بھج‘ سے آیا ہے
4
قیمتی اونٹ بے بہا زیور
لاکھا ’لونی‘ میں آج لایا ہے
کس قدر ہے عزیز اس کو ’لکھی‘
زین کو شوق سے سجایا ہے
ایسے جاسوس ہیں سواروں میں
جن سے گھر گھر کا بھید پایا ہے
کھول کر لے گیا ہے چوپائے
یا کہیں اور کچھ اڑایا ہے
جا کے جاڑیجوں سے کوئی پوچھے
اس نے اندھیر کیا مچایا ہے
ان لٹیروں کی چیرہ دستی سے
دور آہ و فغاں کا آیا ہے
5
کھیت ویران بیٹھکیں مسمار
ہائے لاکھے کی نت نئی بیداد
سونی سونی سی ہو گئی ’لونی‘
کر دیا سب کو خانماں برباد
6
سارے رستوں پہ چھا گئیں بیلیں
اب کے پھر زور کی ہوئی برسات
لے رسد جنگلوں میں اے لاکھا
کیسے گذریں گے اب ترے دن رات
7
اے ’بڈامانی‘ کے کنور آجا
جستجو ہے تری ادھر آجا
ہر طرف ہے مہیب ویرانی
گرچکے سقف و بام و در آجا
کاچھے کو رہزنوں نے گھیرا ہے
میرے پیارے کہیں نظر آجا
8
اے ’ریباری‘ پھر آگیا لاکھا
تو اسے عجز سے منا لینا
جب وہ ٹھاکر تری طرف دیکھے
بے دھڑک اس کے ناز اٹھا لینا
9
دل پریشاں ہے اشکبار آنکھیں
کس قدر غمزدہ ’ریباری‘ ہے
اس کے چوپائے لے گیا لاکھا
کتنی مظلوم غم کی ماری ہے
جب سے کاچھے میں آئے ہیں رہزن
سب پہ خوف و ہراس طاری ہے
ان کی زد سے نہ بچ سکا کوئی
ہر طرف لوٹ مار جاری ہے
10
سر پہ باندھے سنہرا صافہ وہ
پھر ’لکھی‘ پر سوار آیا ہے
کوئی دیکھے تو قہر لاکھو کا
کتنے فتنوں کو ساتھ لایا ہے
11
چارا دے کر انہیں ’چٹانو‘ کا
بے زبانوں پہ تونے ظلم کیا
جب انہیں کھولنے وہ آ پہنچا
تجھے اس بات کی ملی یہ سزا
تیرے چوپائے لے گیا لاکھا
ان کے منہ سے نکل سکی نہ صدا
12
رہزنوں کی خبر کو سن کر جو
مخبروں کا مذاق اڑاتے ہیں
ایسوں پر بھاگنے سے پہلے ہی
راہزن آکے ظلم ڈھاتے ہیں
13
’ڈھٹ‘ کے باشی یہاں سے چل تو بھی
لوگ کاچھے سے ہوگئے بے زار
لوٹ جا لے کے اپنے چوپائے
آجکل ڈھٹ میں بھی ہیں سبزہ زار
میں نے لاکھا اور اس کے ساتھی کل
اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اُس پار
14
جتوں کی دوستی کو آزمانا
تو جاڑیجوں کو بھی اپنا بنانا
سنا ہے ہر طرف ہیں وہ لٹیرے
سنبھل کر اپنے چوپائے چرانا
یہاں جب اے سنگھار آئے گا لاکھو
تجھے دشوار ہوگا بھاگ جانا
15
ناسمجھ ’اوڈ‘ جانتے ہیں یہ
کتنے گھر تونے پھونک ڈالے ہیں
جو ترے جی میں آئے اے لاکھو
جھونپڑے اب ترے حوالے ہیں
16
اوڈ تھے ایسے مطمئن جیسے
اب کوئی جھونپڑی نہ چھوڑے گا
کیا خبر تھی کہ دفعتہ لاکھا
رخ ادھر ہی کو اپنا موڑے گا
18
صبحدم اوڈ ’کاک‘ سے نکلے
کوئی دیکھے تو ان کی مجبوری
اب کدال اور چھاج لے کر وہ
کرنے جاتے ہیں روز مزدوری
19
چھوڑ دی لوٹ مار لاکھے نے
ہورہی ہے خوشی سنگھاروں کو
گائے بھینسوں سے پھر بسائیں گے
اس ترائی کے سبزہ زاروں کو
20
کون ’جھونی پران‘ سے پوچھے
لاکھے جیسا ہے اور بھی کوئی
اک زمانہ ہوا اسے لیکن
کہیں ویسا ہے اور بھی کوئی
21
اب نہ لاکھو نہ وہ لکھی باقی
مشکلیں سب کی ہوگئیں آساں
شاد و آباد پھر ہیں ریباری
عام ہے اے خدا ترا احساں
22
لاکھوں لاکھے ہوئے یہاں پیدا
لیکن اس کی تھی اور ہی کچھ شان
اور ’پھلانی‘ کے نام سے اکثر
کانپ جاتے تھے جنگ جو سلطان
کتنے سردار کتنے ہی رانے
بھاگ نکلے بچا کے اپنی جان
خوف جاڑیجوں کو رہا اکثر
اس کے ڈر سے خطا ہوئے اوسان
پھرنہ راہِ فرار اس کو ملی
اس کی زد میں جو آگیا انسان
سر گھاتو
پہلی داستان
1
سٹ پٹاتے ہیں صاحب مقدور
محو حیرت کھڑے ہیں فرزانے
ناز تھا جن کی آشنائی پر
اب ہیں وہ مد و جزر بیگانے
ہائے وہ جرأت آزما مانجھی
گم کہاں ہو گئے خدا جانے
2
چھین لی شب کو ژالہ باری نے
ان کے صافوں کی ساری آب و تاب
ساز و ساماں کہاں سفینے کے
ہو گئے ہوں گے نذر موج آب
آئے واپس نہ وہ ’کلاچی‘ سے
کون جانے کہاں ہوئے غرقاب
3
قہر ساماں ’کلاچ‘ میں جا کر
جیتے جی کون لوٹ کر آئے
موت نے جال وہ بچھایا ہے
جو بھی جائے وہیں کا ہو جائے
4
لے کے بھالے کلاچ پہنچے تھے
پھر نہ آئی کوئی خبر ان کی
بھائیوں کو ہوئی بڑی تشویش
ہوگئی زہر ہر خوشی ان کی
پھنس گئے جانے کس بھنور میں وہ
کس کو معلوم بے بسی ان کی
5
کتنا گہرا تھا جانے وہ گرداب
کشتیاں ہیں نہ جال باقی ہے
لوٹ کر آسکے نہ کیوں ملاح
آج تک یہ ملال باقی ہے
6
گھر کے مانوس و دل نشیں منظر
اب مجھے اجنبی سا پاتے ہیں
اورپھر یک بیک نہ جانے کیوں
ڈوبنے والے یاد آتے ہیں
7
مجھ کو رنج و ملال دے کر ماں!
گم کلاچی میں ہوگئے پیارے
مچھلیوں کے شکار کی خاطر
کس سمندرمیں کھو گئے پیارے
اک طرف کو کھڑی ہوئی چپ چاپ
گھاٹ پر ہاتھ مل رہی ہوں میں
وہ شکاری نہ لوٹ کر آئے
دھوپ میں کب سے جل رہی ہوں میں
8
جب سے میرا سہاگ اجڑا ہے
مجھے خاطر ہی میں نہیں لاتے
ہنس کے خوش آمدید کہتی ہوں
پھر بھی ’ساٹی‘ ادھر نہیں آتے
9
کوئی ساٹی نہ کوئی ماہی گیر
گھاٹ والے نہ گھاٹ کا محصول
جس جگہ کل شکارگاہیں تھیں
آج اڑتی ہے اس جگہ پر دھول
10
ڈھیر ’ڈنبھروں‘ کا ہے نہ وہ بو باس
وہ خریدار ہیں نہ وہ بازار
گردشِ روزگار کے ہاتھوں
خاک میں مل گئے در و دیوار
11
لوٹ بھی آئو اب مرے پیارو
میں نے کیا کیا نہ منتیں کی ہیں
گھاٹ کے دوسرے مچھیروں سے
قرض پر میں نے مچھلیاں لی ہیں
12
بیٹھکوں کو اداس پاتے ہیں
ساٹی اب آکے لوٹ جاتے ہیں
آج کوئی تو بات ہے ورنہ
دیر اتنی کہاں لگاتے ہیں
13
جو روش ہے ہر اک شکاری کی
معتقد وہ اسی کے ہوتے ہیں
وہ کلاچی کے شوق میں اکثر
رات کو چین سے نہیں ہوتے
14
نفسِ امارہ کے ’مگر‘ کو وہ
قعرِ دریا میں ختم کر آئے
آج اُن کے صبیح چہروں پر
شادمانی کے رنگ لہرائے
15
جانے والے شکاریو! سن لو
اس کلاچی میں ہیں سبھی انجان
رنگ لینا تم اپنا اپنا جال
تاکہ آسان ان کی ہو پہچان
16
تم ’مگر‘ کا شکار گر چاہو
جال مضبوط سا بنا لینا
جھول میں جال ڈالنے والے
’رائوں‘ کو خوب آزما لینا
آگے آئے گا بحر بے پایاں
کھاڑیوں کا نہ آسرا لینا
وائي
نین کنول مرجھائے
ساجن لوٹ نہ آئے
آشا کی اگنی تو من میں
دیپ پہ دیپ جلائے
ساجن لوٹ نہ آئے
جا کر اس گہرے ساگر میں
کوئی انہیں گھر لائے
ساجن لوٹ نہ آئے
وہ انگڑے جال کہاں ہیں
کوئی کھوج لگائے
ساجن لوٹ نہ آئے
بیری ہیں مگرمچھ مورکھ!
کیسے کوئی جائے
ساجن لوٹ نہ آئے
سر کاپائتی
پہلی داستان
1
اکیلی بیٹھ کر مت کاتنا سوت
تجھے ہو اس میں کتنی ہی مہارت
پرکھنے والے دیکھیں گے اسے جب
تری سب جائے گی محنت اکارت
2
ارے ماں، جس نے تنہائی میں کاتا
اسے حاصل ہوئی ہے خوب دولت
مگر وہ تار مجھ سے تو نہ نکلے
بہت ہوتی ہے جن کی قدر و قیمت
3
گھما چرخے کو اور کچھ کرلے ناداں
کہ بس دو چار دن کی زندگی ہے
یہاں جیسا کسی نے سوت کاتا
اسے ویسی ہی عزت بھی ملی ہے
’پہی‘ کو ہاتھ سے اس نے نہ چھوڑا
جسے حاصل شعور و آگہی ہے
4
گذرتی جاتی ہے ہر ایک ساعت
تجھے ہے فکرِ فردا کی ضرورت
جہاں تک ہو سکے کاتے چلی جا
تجھے زیبا نہیں چرخے سے غفلت
کل اس کو سوت اگر ماچی دکھائے
پرکھنے والے کو ہو گی شکایت
5
ابھی تو کات لے جو کاتنا ہے
اگر ہیں عید کی خوشیاں منانا
گذر جائے گی غفلت میں جو ساعت
نہیں ممکن پھر اس کا لوٹ آنا
کہیں ایسا نہ ہو سکھیو میں تجھ کو
ندامت سے پڑیں آنسو بہانا
6
نہیں کیوں کاتنے کی فکر تجھ کو
ترا بستر ہے اور انگڑائیاں ہیں
تجھے شام و سحر بیکار رہنا
یہی کیا عید کی تیاریاں ہیں؟
بڑی سج دھج سے سکھیاں آئیں گی کل
تری تقدیر میں مایوسیاں ہیں
7
اگر تھا شوق تجھ کو کاتنے کا
نہ ڈالا تو نے کیوں چرخے میں ڈورا
کبھی سوچا بھی ہے پہنے گی تو کیا
اگر آیا تجھے کوئی بلاوا
کوئی تجھ سانہ غافل ہم نے دیکھا
ترے سر پر ہے ناداں بوجھ کتنا
8
مری کاتی ہوئی یہ انٹیاں ہیں
کوئی ہے وزن میں کم اور کوئی بیش
انہیں جب تولنے والے نے تولا
ندامت سے مرا دل ہو گیا ریش
9
تجھے رغبت نہیں جب کاتنے سے
کہیں جانے کا یہ ارمان کیوں ہے
اگر تجھ کو دکھانا ہے اسے منہ
تو اتنی غفلت اے نادان کیوں ہے
10
وہ ناحق تو نے غفلت میں گذارے
جو تیرے کاتنے کے دن تھے نادان
نہیں پہلی سی اب تیری بصارت
تجھے پیری میں کیا تاروں کی پہچان
11
اگرچہ عمر کافی ہو چکی ہے
ترے حق میں غنیمت ہے یہ فرصت
توچرخے والیوں کا ساتھ مت چھوڑ
مبارک ہے یہ ان کی نیک صحبت
صلہ مل جائے شاید کاتنے کا
تجھے ان نیک سجنوں کی بدولت
12
ترے ہاتھوں میں کندن کی دمک ہے
مگر تو تانے سے ہے گریزاں
کسی گوشہ میں چھپ کر کات لے کچھ
کسی دن ورنہ تو ہوگی پشیماں
13
نہ جب تک مل سکے رنگین چرخہ
پرانے چرخہ ہی پر اکتفا کر
تجھے زیبا نہیں بیکار رہنا
ہمیشہ کام کی دھن میں رہا کر
نئے چرخے نہ جانے کون کاتیں
اسی چرخے سے اپنا فرض ادا کر
14
سحر ہوتے ہی وہ سکھیوں میں آئی
پرکھنے والا جس کا آسرا ہے
نہ جانے کس طرح کاتا تھا لیکن
صلہ محنت کا اس کو مل گیا ہے
15
بخت پر کوئی اعتبار نہیں
کیوں یہ ناز و غرور کرتی ہے
کاتنے کے بغیر سکھیوں پر
کسی کو معلوم کیا گذرتی ہے
روز کے کام سے نہ ہو غافل
اپنے انجام سے نہ ہو غافل
16
کاتنے پر غرور کرتی ہے
کیا ملے گا تجھے صلہ اس کا
کچھ عزازیل ہی سمجھتا ہے
تلخ ہے کتنا ذائقہ اس کا
17
صرف چرخے سے رکھ غرض باقی
تاکہ رہ جائے کاتنے کی لاج
اپنے کاتے پہ ناز ہے تجھ کو
اس لئے تجھ سے ہے خفا سرتاج
18
کاتتی جا یہ فرض ہے تیرا
عاقبت کا خیال کرتی جا
بخت پر کوئی اعتبار نہیں
سوئے محبوب ڈرتی ڈرتی جا
19
تو نے کاتا ہو کتنا ہی باریک
دل دغا باز ہے تو لاحاصل
جس کا اک تار بھی نہ لے کوئی
سوت وہ کاتنے سے کیا حاصل
20
جس کے دل میں غم محبت ہے
دم اسی کا وہ لوگ بھرتے ہیں
سوت تولے بغیر بھی اکثر
جیسا بھی ہو قبول کرتے ہیں
21
تو نے کاتا نہ سوت کل کچھ بھی
اور جانے کو آج ہے تیار
’مال‘ ڈھیلی، کھلے ہوئے پائے
اب تو چرخہ بھی ہو گیا بیکار
قابلِ رحم اس کی حالت ہے
کاتنے سے جو ہو گئی بیزار
22
جس نے چرخے کی گردشوں ہی کو
قابل اعتبار گردانا
وہ سکھی ہے نجات سے محروم
اس کی تقدیر میں ہے پچھتان
23
وہی مقبول ہیں ’سید‘ کے نزدیک
نہیں تولے گا جن کا سوت کوئی
جو اچھا کات کر بھی کانپتی ہیں
کرے گا کون ان کی عیب جوئی
24
لگائے کون ان تاروں کی قیمت
جو ہیروں سے زیادہ قیمتی ہیں
روئی دھنوا کے ان تاروں کو سکھیاں
بڑے ہی صدق دل سے کاتتی ہیں
وہی مقبول ہیں ’سید‘ کے نزدیک
جو چرخے کی حقیقت جانتی ہیں
25
روئی دھنوا کے جن سکھیوں نے کاتا
عجب ہے ان کے تاروں کی نفاست
انہیں کا کام ہے ململ بنانا
ملی ہے ان کو ماں سے یہ وراثت
26
عرب میں اور کبھی کابل میں کاتا
عجب ان مہوشوں کا کاتنا ہے
نفاست دیکھ کر اندازہ کرلو
کہ ان کا سوت کتنا بے بہا ہے
وہی ہیں خوش بخت انہیں کل کی نہیںفکر
جنہیں کوئی سہارا مل گیا ہے
مسلم ہو چکی ان کی نفاست
وہ کاتیں یا نہ کاتیں سب روا ہے
27
چلی ہے وہ کپاس آنچل میں لے کر
صدا دیتی ہوئی ہر ایک در پر
سنا ہے جابجا اس کو یہ کہتے
کہ میں ہی کاتنے والی ہوں بہتر
28
تری باریک تکلی اس پہ یہ بل!
نہیں اب کاتنے کی کوئی صورت
چلے گا مانگ کر کب تک ترا کام
تجھے محتاج کردے گی یہ عادت
تو سکھیوں کی طرح خوشیاں منائے
میسر ہو خلوص دل کی نعمت
29
تجھے ہے ناز اپنے کاتنے پر
اکارت جا رہی ہے تیری محنت
غرور اتنا نہ کر چرخے پہ ناداں
ذرا پہچان اپنی قدر و قیمت
بہت سی ہیں یہاں تجھ سے بھی اچھی
جنہیں رہتا ہے احساس ندامت
30
کہاں وہ آج چرخے والیاں ہیں
جنہیں کل تک یہاں مصروف پایا
یہ چرخے بے سر و ساماں شکستہ
خمیدہ تکلا، گرد آلودہ پایا
یہ ویران جھونپڑوں میں ہو کا عالم
کسی کو بھی نہ ان کا دھیان آیا
وہاں اب زخم ہی ملتی ہیں دل کو
جہاں ملتا تھا زخم دل کا پھایا
یہ بازاروں کی حالت کہہ رہی ہے
ہوئی مدت نہ کوئی سوت لایا
31
نہیں فصل ربیعی سے ہے امید
انہیں ناداریوں کا غم ہی کیا ہے
جلاہوں کی نہیں ان کو ضرورت
وہ سکھیاں منع جن کو کاتنا ہے
32
سکوں ملتا ہے اس کو کاتنے میں
ہمیشہ کاتنے کا شغل جاری
جہاں بھی اس کو مل جائے وہ پیارا
وہی ہے راہ سب راہوں سے پیاری
33
نہ آیا کاتنا باریک جس کو
اسے کیوں کاتنے سے ہو شکایت
وہ ہے خوش بخت سمجھاجس نے یہ راز
کہ موٹا کاتنا بھی ہے غنیمت
34
میسر مال ہے جن کو نہ تکلی
وہی بازار میں اب سرخرو ہیں
مسلسل جس نے کاتا ہے اسی پر
مصائب ہی مصائب چارسو ہیں
35
نہ جانے میری سکھیوں کو ہوا کیا
کہ ہر اک بیٹھک اب خاموش سی ہے
کپاس آنچل میں لے کر جب میں آئی
تو دیکھا ہر سہیلی سو چکی ہے
36
چلایا جس نے چرخا ڈر کے مارے
ہمیشہ خوش رہے ہیں اس سے پیارے
نہ کاتا بھی اگر اس نیک دل نے
چھپالے آپ اس کے عیب سارے
37
نہ جانے اس میں کتنے عیب نکلے
خریداروں نے جب تانے کو تولا
سر بازار سکھیوں کو بلایا
اور ان کا دل محبت سے ٹٹولا
کہا ہر ایک نے انجان بن کر
نہ مجھ سے بن سکا ہموار گولا
38
وہ کیا پوچھے کٹے گی رات کیوں کر
جسے پہلوئے جاناں ہو میسر
39
بڑی پیاری ہیں اس پیارے کی باتیں
غلط نکلا جو اندازہ لگایا
اسے ہو کاتنے سے فائدہ خاک
سمجھ میں سوت ہی جس کی نہ آیا
کوئی آساں نہیں چرخہ چلانا
بجزبے تابی دل کچھ نہ پایا
وائي
کچھ تودل میں سوچ سکھی ری کچھ تو دل میں سوچ
دھنوا کر پہلے رکھنا ہر پونی تیار
نکلیں گے پھر ہاتھ سے تیرے سیدھے سیدھے تار
چڑیاں کر دیتی ہیں تیرے پہئیوں کو بیکار
کچھ یہ ہوا بھی لے اڑتی ہے جیسے گرد و غبار
جیون کے ہر دائوں پہ گوری ہو گئی تجھ کو ہار
پھر بھی نیند میںکھوتی ہے تو ، ہو جا اب بیدار
دل سے مان ’لطیف‘ کا کہنا اے من مورکھ نار
وہ ہے تیرے من کا راجہ کرلے اس کو پیار
کچھ تودل میںسوچ سکھی ری کچھ تو دل میں سوچ
وائي
وہ من میت بلوچ کہاں ہے؟
کیسے چین میں پائوں گی!
روک نہ اے ماں جیسے بھی ہو
اس کی اور ہی جائوں گی
مجھ کو جس کی آس ہے وہ ہے دونوں جگ کا رکھوالا
مجھ برھن کو چھوڑ گیا جو اس کی کھوج لگائوں گی
کام نہ آئیں گے یہ دھوکے، جیون ساتھی کون یہاں
کب تک اس سنسان نگر میں یہ دکھ درد اٹھائوں گی
سونی سونی ہے ہر بیٹھک وہ سکھیاں کس گھاٹ گئیں
اس اندھیارے جگ میں کیسے جیون جوت جگائوں گی!
سر رپ
پہلی داستان
1
ارے ماں! میں کدھر جائوں اکیلی
بنا ساجن مرے جی پر بنی ہے
یہی ہے شان ان دکھیاریوں کی
کہ جن کی آنکھ ساجن سے لگی ہے
مرے تن من میں ہیں دکھ درد کیا کیا
جدائی کتنے غم لے کر چلی ہے
2
دلِ بیتاب پر اے جانِ ارماں
تری فرقت میں یوں دکھ درد چھائے
کہ جیسے موسم باراں میں سبزہ
کسی میداں میں پیچ و تاب کھائے
3
لگا کر آگ رخصت ہو گئے وہ
اشاروں پر اب ان کے جل رہی ہے
بجھانے آگئے گا اب کون اس کو
جو دل ہی دل میں کب سے جل رہی ہے
4
سراسر خامکاری ہے بتانا
نہیں آسان بھی اس کا چھپانا
پڑا ہے ایسے بیدردوں سے پالا
کہ مشکل ہوگیا پیچھا چھڑانا
5
محبت نے جلایا ہے مجھے یوں
تلا ہانڈی کا جیسے آگ پر ہو
مبارک ہے وہ دل جو رفتہ رفتہ
بقدر ظرف سرشارِ نظر ہو
6
محبت دل کو تڑپاتی ہے اکثر
پرانی چوٹ ابھر آتی ہے اکثر
خیالِ یار میں بیٹھے بٹھائے
سہانی رات کٹ جاتی ہے اکثر
7
دلِ بیتاب چھپ کر خوب رو لے
نہ ہو ظاہر غم الفت کسی پر
کبھی آجائے گا غمخوار تیرا
بھروسہ کر ابھی دکھ درد ہی پر
یہ آنسوں اس طرح آنکھوں میں گم ہوں
کہ جیسے جھیل کے پانی میں ’کم‘ ہوں
8
سکون خواب راحت کی طلب کیا
مقدر میں نہیں جب خواب راحت
بس ان کی یاد میں وارفتہ رہنا
سوا ہے دمبدم جن کی محبت
9
ترے لطف و کرم یاد آ رہے ہیں
کہ دل ہے اور گدازِ محرمانہ
تری ہر بات فرقت کا سہارا
تری ہر یاد جینے کا بہانہ
10
نظر سے دور جب سے وہ سجن ہے
مری رگ رگ میں کچھ ایسی چبھن ہے
کہ جیسے سارا دن اونٹوں کا گلہّ
کہیں صحرا بصحرا گامزن ہے
11
ہمیشہ دل کو تڑپاتے رہے ہیں
مجھے رہ رہ کے یاد آتے رہے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو وہ بھول جائیں
جو مجھ کو یاد فرماتے رہے ہیں
12
یہ مانا بدگماں ہے مجھ سے ساجن
مگر کیسے میں اس کو بھول جائوں
مجھے دکھ درد جو اس نے دیئے ہیں
انہی کو اپنے سینے سے لگائوں
13
گل بے خار جیسے خشک ہو کر
خلش انگیز ہو جاتے ہیں اکثر
یونہی ہیں اس سجن کی چند باتیں
جو دل میں چبھ رہی ہیں مثلِ نشتر
14
یہ تیرے غم گھٹائوں سے گھنیرے
مرے چاروں طرف یادوں کے گھیرے
مری آنکھیں مثال ابرِ گریاں
برستی ہیں سویرے ہی سویرے
یہاں بے وقت برسات آگئی ہے
کہاں ہو آج اے محبوب میرے
15
وہی میں ہوں وہی آزردگی ہے
وہی دل اور دل کی بے کلی ہے
بلا سے بادل آئیں یا نہ آئیں
وہی آنکھیں وہی ان کی جھڑی ہے
16
مجھے سوتے میں تیری یاد آئی
جھڑی سی آنسوئوں نے پھر لگائی
مری آنکھیں ترے عارض مرے لب
سبھی نے مل کے برکھا رت منائی
کٹھن ہے زندگی تجھ سے بچھڑ کر
دہائی ہے مرے ساجن دہائی
17
یکایک میری رگ رگ میں سمائی
رباب درد کی نغمہ سرائی
خدا جانے مجھے یوں مطربانہ
یہ کس شیریں ادا کی یاد آئی
18
تمہاری یاد میں بے تاب ہے دل
کسی طعنے کا اس پر کیا اثر ہو
مسلط ہو گئے دکھ درد جس پر
اسے ہوش و خرد کی کیا خبر ہو
ہوا ہے اس طرح غم سے مکدر
کہ جیسے گرد آلودہ شجر ہو
19
دلا سے دے کے جب میں دل کو اکثر
نکل آتی ہوں شب کو گھر سے باہر
بلاتا ہے غم محبوب مجھ کو
خدا جانے کدھر آواز دے کر
20
اسی کے غم سے میری روح رخشاں
اسی کے غم سے چہرے پر تمازت
نہیں وہ دور چشمِ منتظر سے
مگر ہے یاد کرنے کی ضرورت
21
خلش افزا مرے قلب و نظر میں
ترے رخ کی جھلک ہونے لگی ہے
کہ جیسے کوئی ہڈی ٹوٹنے سے
رگ و پے میں کسک ہونے لگی ہے
22
انہیں محفوظ کرلیتی ہوں اکثر
جدائی میں جو یاد آتی ہیں باتیں
مگر جب رو برو ہوتے ہیں پیارے
تو دل کی دل میں رہ جاتی ہیں باتیں
وائي
داتا کی دین ہے نیاری
مت توڑ یہ آس بھکاری
جو سب کے عیب چھپائے
جو سب کی دھیر بندھائے
ہر بپتا میں کام آئے
جو دیا روپ کہلائے
سب اس کے پریم پجاری
مت توڑ یہ آس بھکاری
جا بیٹھ اسی کے دوارے
اے جگ جیون کے مارے
آدم سے تجھ تک پیارے
مِٹی سے بنے ہیں سارے
ہے بات ’لطیف‘ کی بھاری
مت توڑ یہ آس بھکاری
دوسری داستان
1
مرے دل میں تری باتیں ہیں اتنی
شجر جیسے کوئی پھولا پھلا ہو
بتائوں گی تجھے ہر راز اپنا
اگر خلوت میں تیرا سامنا ہو
2
شب سرد و سیہ کیسے کٹے گی
کہاں ہے وہ مرا پیارا کہاں ہے
نہ چھیڑ اے ماں کہیں کھل ہی نہ جائے
وہ راز دل جو تجھ سے بھی نہاں ہے
3
تمنا کی خلش بڑھنے لگی ہے
رگ و پے میں نئی بے چینیاں ہیں
کرشمہ دیدۂ خونبار کا ہے
درختوں پر جو یہ رنگینیاں ہیں
4
کبھی مجھ کو سرابوں سے گذرنا
کبھی اونچے پہاڑوں کی چڑھائی
ہوئے ہیں چلتے چلتے پائوں چھلنی
کوئی امید لیکن بر نہ آئی
نہیں تیرے سوا کوئی سہارا
دہائی ہے مرے پیارے دہائی
5
نہیں اک ابر پارہ بھی فضا میں
مگر دل میں گھٹا سی چھا رہی ہے
مجھے یاد آگیا ہمسایہ میرا
جدائی دمبدم تڑپا رہی ہے
نہیں رکتے مرے آنسو کہ دل میں
محبت حسرتیں برسا رہی ہے
6
برستے ہی رہیں آنکھوں سے آنسو
یہ بادل اے خدا تھمنے نہ پائیں
یہ تیری دید بھی کیا دید ہے دوست
کہ تیرے درد کو ہم بھول جائیں
7
نہیں مجھ کو کسی سے کوئی شکوہ
کسی نے کب مرے دل کو دکھایا
محبت میں تن آساں بن گئی میں
تو یہ صدمہ جدائی کا اٹھایا
8
کبھی یہ نیند سے بوجھل ہوئی تھیں
اسی کی اب سزا پاتی ہیں آنکھیں
کبھی بجھ بجھ کے جل اٹھتی ہیں تنہا
کبھی جل جل کے بجھ جاتی ہیں آنکھیں
9
کسی کی اس کے آگے کیا چلے گی
وہ پیارا جو ترے دل میں مکیں ہے
اسی کی تلخ باتیں کر گوارا
کوئی اس کے سوا تیرا نہیں ہے
10
وہ پیارا ریشمی ’گج‘ کی طرح ہے
جلو میں نت نئی رنگینیاں ہیں
دل بیتاب اسے کیونکر بھلائے
بڑی پرکیف جس کی شوخیاں ہیں
11
خیال دوست یوں دل میں ہے جیسے
تنہ پتوار کا گودے سے ہو پر
کوئی ہمزار مل جائے جو مجھ کو
بتا دے وصل جاناں کا کوئی گر
12
کنویں میں جس طرح پانی کے سوتے
ملے رہتے ہیں ریگ تہ نشیں سے
یونہی وابستہ ہے گویا مرا دل
کسی نادیدہ دلدارِ حسیں سے
13
وہی باد شمالی آرہی ہے
بدن پر کپکپی سی چھا رہی ہے
ہواے سرد ٹوٹی جھونپڑی میں
مسلسل تیر سے برسا رہی ہے
کہاں ہے وہ مرا عہدِ جوانی
کہ جس کی یاد اب تڑپا رہی ہے
پھٹا سا اک دوپٹہ میرے سرپر
ہوا یخ بستہ ہوتی جارہی ہے
کہاں ہے تو کہ مجھ پر بیکسی میں
شب فرقت قیامت ڈھا رہی ہے
14
جو کم ہو جائے آوے کی حرارت
کہاں برتن کمہار اپنے پکائے
یہی عالم ہے کچھ سوزِ دروں کا
یہ لازم ہے کہ تو اس کو چھپائے
کہیں ایسا نہ ہو یہ آتش دل
جو ظاہر ہو تو پھر واپس نہ آئے
15
چھپی سی آگ آوے میں جلے گی
مرا دل تجھ سے ہم آغوش ہو گا
مری آنکھیں سلگتی ہی رہیں گی
جہاں جب نیند میں مدہوش ہوگا
16
نہ جانے کیا ملا کر کوزہ گرنے
یہ دلکش پیکر خاکی بنائے
خود اپنی جاں سے ہو جائے گا بیزار
یہ بات اس کی سمجھ میں آ نہ جائے
وائي
جذبۂ دلفگار کیا کہئے
خلش نوک خار کیا کہئے
اپنے پیارے بلوچ کی خاطر
سفر کوہسار کیا کہئے
مدعا اپنا ساربانوں کو
روک کر بار بار کیا کہئے
رنگ آمیزی حنا کیا خوب
چشمِ خوننابہ بار کیا کہئے
عہد و پیماں غم محبت کے
کیوں نہ ہوں استوار کیا کہئے
’کیچ‘ کی سمت اٹھ رہے ہیں قدم
وصل کا انتظار کیا کہئے
جادہ پیما ہے کس بھروسے پر
اک غریب الدیار کیا کہئے
وائي
اے قاصد! پیارے ساجن کو پیغام مرا پہنچا دینا
میں دکھیاری انجان سہی
پر ان کی اور ہی تکتی ہوں
تن من میں بسائے پیار ان کو
یونہی دن رات بھٹکتی ہوں
کیوں بھول گئے من میت مجھے تو جا کر یاد دلا دینا
پیغام مرا پہنچا دینا
وائي
پھر جاگ اٹھی ہے دل میں کسی دلربا کی یاد
یادش بخیر پیکر مہر و وفا کی یاد
تائب ہوں آپ نامۂ اعمال دیکھ کر
اے بیکسی مجھے نہ دلا اب خطا کی یاد
اے چشم شوق پیش نظر حسن دوست ہے
اے دل حرام تجھ پہ ہے اب ماسوا کی یاد
دریا فروش دیدۂ خوں بار ہو گیا
شایدپھر آگئی کسی راز آشنا کی یاد
خلوت میں ہو سکی نہ کبھی گفتگوئے شوق
بے فیض وصل یار ہے صبح و مسا کی یاد
بیگانۂ بہار رہا نخل آرزو
اس پر بھی ہے ’لطیف‘ کے دل میں خداکی یاد
وائي
اونچی نیچی گھاٹیاں کیچی کر گئے پار
میں برھن اب جاسکوں کیسے ’ہوت‘ کے دوار
مرا جائوں گی کھوج میں پر نہیں مانوں ہار
میری جیون جوت ہے پریتم تیرا پیار
وائي
پیار کا ہاتھ نہ مجھ برھن کے سر سے پیاہٹائو
نینا درشن ابھلاشی ہیں پیارے ساجن آئو
جن چرنوں کی داسی ہوں میں ان پرسیس جھکائوں
بھولی بھٹکی دکھیاری ہوں پریتم راہ سجھائو
پیارے ساجن آئو
دیکھ لیا ہے دور سے تم کو اب نہ چھپو پردیسی
سن لو بات ’لطیف‘ کی سن لو دیکھو مان بھی جائو
پیارے ساجن آئو
وائي
چھوڑ کے اپنے دیس کو اپنایا بن باس
اے برھن کیا رہ گئی جگ جیون کی آس
باندھ کے کیچی چل دیئے اونٹوں پر پالان
جانے کیوں نہ آسکا تجھ کو ان کا دھیان
سر کارایل
پہلی داستان
1
وحدہ کی صدا لگاتا ہے سوے افلاک اڑتا جاتا ہے
کون جانے کہاں ہے اس کی جھیل وہ جہاں چین سے نہاتا ہے
2
پھر لب جو کھڑا ہے وہ بیتاب
اور آنکھیں ہیں جانب گرداب
ہنس کو ہیں پسند جو چیزیں
ڈھونڈنے سے ملیں گی وہ تہ آب
3
جاں نثارانِ عشق کے مانند
موت سے پہلے اپنے دل کو مار
ایسا نغمہ سنا ’لطیف‘ کوئی
جس کی لے ہو نوید جلوۂ یار
4
رزق تیرا وہیں تو ہے اے ہنس
بحر کی تہ میں کیوں نہیں جاتا
زیر گرداب ہے جہاں تیرا
ان کناروں سے تیرا کیا ناتا
5
یہ تو زاغ و زغن کا مسکن ہیں
کیا پسند آئیں ہنس کو تالاب
سطح پر ان کی جستجو کا مدار
اس کی جولانیاں تہ گرداب
6
آج کل ہنس ادھر نہیں آتے
ہائے زاغ و زغن کی نادانی
گرد آلود ہو گیا کتنا
صاف شفاف جھیل کا پانی
7
جانے کس فکر میں ہے تو اے ہنس
اور کس بات پر یہ حیرت ہے
بھول جا اجنبی صدا کو اگر
آرزوے نواے وحدت ہے
خود پرستوں سے دور ہی رہنا
دل اگر مائل حقیقت ہے
وسعت بحر ہے ترا مقصود
ان کناروں سے کیوں محبت ہے
طالبوں جیسی بات پیدا کر
بس یہی شرط محرمیت ہے
8
جھیل میں گھس کے لاکھوں ہی پنچھی
حسب توفیق کچھ تو پاتے ہیں
موتیوں ہی پہ کچھ نہیں موقوف
بعض تنکے بھی لے کے آتے ہیں
ہنس کو حوصلے مبارک ہوں
زیر گرداب لے کے جاتے ہیں
9
’کنگ‘ اور بگلے ان کو کیا بھائیں
غور سے ہنس کو جو دیکھ آئیں
10
گندے پانی کو چھوڑ کر اے ہنس
صاف شفاف جھیل پر جانا
پیاس جب بھی تجھے لگے پیارے
جا کے پانی وہیں سے پی آنا
کنگ اور بگلے کی روش ہے فریب
اس پہ چل کر نہ تو بھی بچھتانا
11
کنگ بیچارہ اس کو کیا سمجھے
پیارے داتا کی نیاری لیلا ہے
جھیل کب سے پڑی ہے خشک مگر
ہنس کا پائوں اب بھی گیلا ہے
12
اڑ کے آجا تو پھر یہیں اے ہنس
کر رہی ہے یہ جھیل تجھ کو یاد
وہاں رہتا ہے جان کا خطرہ
جہاں رہتے ہوں گھات میں صیاد
13
ہائے اس ایک ہنس کی خاطر
گھات میں بیٹھے ہیں کئی صیاد
اسے اللہ پر بھروسہ ہے
جھیل میں اس کا دل ہے کتنا شاد
14
تو ہے اور دور دور تک پرواز
تجھ کو جھیلوں کی کیا کمی اے ہنس
میلے پانی پہ تیرتے رہنا
اک مصیبت کی زندگی ہے ہنس
15
صبحدم تو یہاں سے اڑ جانا
کہیں تجھ کو پکڑ نہ لے صیاد
رات ڈھل جائے جب تو لوٹ آنا
نیلوفر کے یہ پھول رکھنا یاد
16
بچ سکے گا نہ ان سے تو اے ہنس
سازشیں آج کل جو ہوتی ہیں
چن لے ان میں سے چار پانچ ابھی
پیارے مہران میں جو موتی ہیں
17
دے گیا جل انہیں پرِ پرواز
ہنس دریا پہ اڑ کے کیوں آتے
اپنی ننھی سی جاں کی خاطر
ایسا مہلک فریب کیوں کھاتے
اعتبار نگاہ نے مارا
ورنہ کیوں اڑ کے جھیل سے جاتے
18
پانچ موتی اٹھا کر تو کھالے
پیاری مہران کا ہے یہ انعام
ہوس دانہ ہے تجھے اے ہنس
اور نظر سے نہاں ہے ان کا دام
جو تجھے پھانسنے کو پھرتے ہیں
کتنے بیچین ہو کے صبح و شام
19
دو دلوں کو قریب لاتے ہیں
فاصلے اور بڑھتے جاتے ہیں
پانی کی تہ میں ہیں کنول کی جڑیں
اور بھونرے فلک پہ گاتے ہیں
دونوں کی پیاس بجھ نہیں سکتی
پی کے بھی تشنگی سی پاتے ہیں
عشق کے راز ہیں انوکھے راز
کب کسی کی سمجھ میں آتے ہیں
جو بھٹکتا رہے کناروں پر
20
کیوں نہ مخدوش اس کی حالت ہو
خوف صیاد اپنے دل سے نکال
طالبِ جادۂ حقیقت ہو
منتخب کرلے سبزہ زار ایسے
جن میں ہر سمت حسن وحدت ہو
اب کوئی جھیل ایسی کرلے تلاش
تیرا ایمان جس کی وسعت ہو
تجھ پہ کھل جائیں معرفت کے راز
قلب سرچشمۂ ہدایت ہو
21
ان کا صیاد کیا بگاڑیں گے
ہونے دو سازشیں جو ہوتی ہیں
جب یہ ہوتے ہیں مائلِ پرواز
بستیاں گہری نیند سوتی ہیں
دانہ و دام سے غرض ان کو!
انہیں مرغوب صرف موتی ہیں
22
بگلوں کے ساتھ ہیں وہ دیوانے
پھر بھی ہیں مچھلیوں سے بیگانے
گندے پانی سے دور رہتے ہیں
وہ حقیقت شناس فرزانے
جن کو مرغوب صرف موتی ہیں
کیا ہیں وہ ہنس کوئی کیا جانے
23
جھیل اور نیلوفر کے پھولوں کو
چھوڑ کر کیوں ادھر کو جاتے ہیں
دور جنگل میں جا کے یہ بھنورے
راز اپنا کسے بتاتے ہیں
24
جھیل زاغ و زغن سے ہے ناپاک
شور یہ بدقماش کرتے ہیں
ہنس تو سر جھکائے پانی میں
صرف موتی تلاش کرتے ہیں
25
عصر کے وقت سے نواخواں ہیں
مرتعش ہے فضاے قرب و جوار
مثل آئینہ جھیل کا پانی
مدعا عکس جلوۂ رخ یار
تند موجوں نے لاکھ جنبش دی
لڑ کھڑائے نہ طالب دیدار
26
صاف ستھر ے ہیں کس قدر یہ ہنس
کیوں انہیں دیکھ کر نہ آئے پیار
رات جس جھیل پر وہ آئے تھے
ہو گئی ہے وہ جھیل خوشبودار
27
شام ہوتے ہی جھیل پر طائوس
سیپیوں پر جھپٹتے آتے ہیں
یا پکڑتے ہیں سانپ زہریلے
اور کناروں پہ آکے کھاتے ہیں
28
بگلے سن سن کے ہوگئے گونگے
جانے اس کی صدا میں تھا کیا راز
ہو گیا جھیل میں اجالا سا
رات آئی ’للے‘ کی جب آواز
سارے قرب و جوار سے طائر
سوے کہسار کر گئے پرواز
29
جھیل میں آکے بولیاں اپنی
بولتا ہی رہا وہ ساری رات
کر دیا ہنس نے مگر زخمی
صبح کو آگیا جب اس کے ہات
30
اب ہے آباد ان سے ’کنجھر‘ جھیل
اب وہ طائر ادھر نہیں آتے
وہی جھیلیں ہیں آج بھی لیکن
وہ پرندے نظر نہیں آتے
31
ہنس اور مور تو کہاں ہیں آج
جھوٹے کووں کا ہے وطن میں راج
32
جھوٹے کووں سے ہوگئی گندی
ہائے وہ جھیل جو تھی خوشبودار
کوہساروں میں چھپ گئے جاکر
ہو گئے ہنس اس قدر بیزار
وائي
میں پنہوں کے پائوں کی پلکوں جھاڑوں دھول
باندی بنوںبلوچ کی جائوں سب کچھ بھول
وائي
ان کی باندی کہلائوں گی
میں ان کے اونٹ چرائوں گی
رکتے ہی نہیں کیچی پیارے
اب کیسے ان کو پائوں گی
آئیں گے وہ لینے مجھ کو
جائوں بھی تو کیسے جائوں گی
دوسری داستان
1
خود ہی وہ جھیل اور خود ہی ہنس
خود ہی پنجرہ ہے خود ہی پنچھی ہے
میرے دل میں چھپا ہے وہ صیاد
ہر گھڑی جس کی فکر رہتی ہے
2
میں نے طائوس کی محبت میں
پوری کنجھرکو چھان مارا ہے
ہنس دیکھے نہ وہ ’للے‘ دیکھے
کون اس دل کا اب سہارا ہے
3
جن سے دنیا میں خیر و برکت ہے
تو وہی مور ڈھونڈ کر لانا
یاد آتا ہے آج تک مجھ کو
مور کا سانپ کو نگل جانا
4
اس کو پورا نگل نہ لیں جب تک
منہ ادھر سے وہ موڑتے کب ہیں
سانپ کو دیکھتے ہیں جب طائوس
پھر اسے زندہ چھوڑتے کب ہیں
دشمن مار ہیں ازل سے مور
اولیں عہد توڑتے کب ہیں
5
اسقدر خوفناک ہیں یہ سانپ
زہر سے ان کے فیل مر جائے
ان کو سمجھو نہ تم فرومایہ
ہر تنومند جن سے ڈر جائے
6
جن کے جبڑے بھی زہر اگلتے ہیں
کون ایسوں کے سامنے جائے
دشمنِ زندگی ہیں کالے ناگ
کیا کوئی ان کو مارنے جائے
7
سوسماروں کی بات ہے کچھ اور
ناگ ایسے نہ ہاتھ آئے گا
گیان والا گورو ہی ’گاروڑی‘
اس کا منتر تجھے سکھائے گا
8
دیکھتے بھی نہیں سپیروں کو
جب وہ ان کو پکڑنے آتے ہیں
ہاں وہ جن کا یقین نہیں کامل
انکو یہ سانپ کاٹ کھاتے ہیں
9
زہر سے جن کا جسم ہے بھرپور
دیکھنے والے خوف کھاتے ہیں
سامنے آئیں جب وہ کالے ناگ
مور میدان چھوڑ جاتے ہیں
10
جو زمین ہی میں گھر بناتے ہیں
کب وہ بس میں کسی کے آتے ہیں
کون جانے وہ زہر ہے کیا چیز
جو ہم ان اژدھوں میں پاتے ہیں
ان کے چہرے ملائکہ جیسے
دور ہی سے جو تمتماتے ہیں
وار ان کا خطا نہیں ہوتا
دیکھ کر لوگ خوف کھاتے ہیں
بھول کر بھی جو پائوں پڑجائے
ایک نشتر سا وہ لگاتے ہیں
11
کچھ تو ایسے بھی سانپ ہوتے ہیں
جن سے کرتے ہیں مور بھی پرہیز
ان کو چوپائے سمجھیں اپنا دوست
گر رضا مند ہوں وہ کم آمیز
اور جب قہر پر اتر آئیں
بستیوں میں بپا ہو رستا خیز
12
سانپ کے ڈر سے ہی کوئی انساں
انتقاماً قریب آئے گا
اور ڈس لے جیسے وہ دشمن جاں
یا تو وہ شخص مر ہی جائے گا
اور جو بچ جائے اپنی قسمت سے
ہاتھ دھوئے گا اپنی صحت سے
13
اس سپیرے سے دشمنی کی ہے
جس کا فرمان ٹل نہیں سکتا
تیرے بل پر ہے اس کا پیر اے سانپ
اب تو باہر نکل نہیں سکتا
جونا گڑھ کو جلا دیا جس نے
بس ترا اس پہ چل نہیں سکتا
وائي
یہ دنیا ایک تماشا ہے
ہر کھیل یہاں کا جھوٹا ہے
یہ دنیا ایک تماشا ہے
پل بھر کی مہلت ہے تجھ کو
پھر کیوں یہ خوشامد کرتا ہے
معلوم نہیں اے مور تجھے
کیوں اتنا شور مچاتا ہے
خوش ہو ہو کر ان شاخوں پر
جانے کیوں بیٹھا رہتا ہے
دیکھا ہی نہیں شاید تو نے
کیسے شہباز جھپٹا ہے
یہ دنیا ایک تماشا ہے
سر ماروی
پہلی داستان
1
خدا شاہد ہے جب روحوں نے باہم
کیے روز ازل کچھ عہد و پیماں
نہ جانے کیوں اسی دن سے ہیں مجھ کو
بہت پیارے یہ سب نادار دہقاں
2
کیا ہے قید مرے جسم و جاں کو
عبث اے سومرا سردار تو نے
نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسانی
دیئے کیوں روح کو آزار تونے
ازل ہی سے مرے دل کو ودیعت
ہوئی ہے پیارے ’مارو‘ کی محبت
3
میں روز آفرینش ہی سے پیارے
سمجھتی ہوں محبت کے اشارے
یہ لطف خاص اس جہدِ بقا میں
مجھے بخشے گئے تیرے سہارے
4
ازل میں جب ہوئی تعظیمِ آدم
ہوا پیدا یہ رنگا رنگ عالم
رضاے خالق ارض و سما نے
کیا مارو کو میرے دل کا محرم
5
نہ ہائو ہو نہ یہ بزمِ جہاں تھی
نہ کانوں میں صداے کن فکاںتھی
نہ جانے جرأت تخلیق آدم
عدم کے بطن میں کب سے نہاں تھی
مگر اس وقت بھی روح محبت
کسی حسن ازل کی راز داں تھی
کوئی مانوس و معنی خیز صورت
نگاہ محرمانہ میں عیاں تھی
6
نہ روشن مشعل شمس و قمر تھی
نہ فکرِ امتیازِ خیر و شر تھی
نہ تھا کچھ ماسوائے نور وحدت
صداے کن فکاں جانے کدھر تھی
مگر اس عالم لاہوت میں تھی
میں اس روح ازل سے بہرہ ور تھی
7
لکھے تھے میری قسمت میں ازل سے
یہ قید و بند یہ کاخ اسیری
مگر منسوب ہے ان مارووں سے
بہر صورت مری روشن ضمیری
مرے حق میں رگ جاں سے بھی بڑھکر
’پنوار‘ خوبرو کی دل پذیری
رہا کردے مجھے اے ’تھر‘ کے راجا
عبث ہے یہ عذاب سخت گیری
کہاں کنج قفس میں پھڑپھڑانا
کہاں اہل چمن کی ہم صفیری
8
جگر جور و جفا سے خون چکاں ہے
تو جوے اشک آنکھوں سے رواں ہے
یہ قیدالماء قیدِ ظاہری ہے
مرا دل تھا جہاں پہلے وہاں ہے
مجھے اہل وطن سے پھر ملائے
نہ جانے کب خدا وہ دن دکھائے
9
مرے درد آشنا مارو ہیں ’تھر‘ میں
مگر میں قید ہوں اس بام و در میں
نہ تھا معلوم اے امرِ مشیت
کہ اک ایسی بھی منزل ہے سفر میں
کسے انکار تسلیم و رضا ہے
وہی ہو گا جو قسمت میں لکھا ہے
10
رہائی کا نہیں امکان کوئی
کسے معلوم کب تک یہ سزا ہے
مٹا سکتا نہیں کوئی اسے جو
اسیروں کے مقدر میں لکھا ہے
’عمر‘ سے ’تھر‘ کے چروا ہے ہیں عاری
خدا جانے ملے کب رستگاری
11
مٹادو یہ در و دیوار زنداں
جلا کر خاک کر دو قصر و ایواں
وہیں ہے میرے دردِ دل کا درماں
جہاںرہتے ہیں وہ نادار دہقاں
مرے قلب و نظر میں بس گئے ہیں
وہ ہنستے کھیلتے اہل بیاباں
مجھے اے کاش اس پیارے وطن میں
بہالے جائیں یہ اشکوں کے طوفان
وائي
یاد آئی ہے پیارو آئو
او دیس دلارو آئو
جکڑے ہیں مجھے جو بندھن
توڑیں انہیں آکر ساجن
جیون کے سہارو آئو
او دیس دلارو آئو
مرے من کو دھیر کہاں ہے
وہ پیارا ’ملیر‘ کہاں ہے
موت آئے تو دیس میں آئے
او دیس دلارو آئو
اس کوٹ میں لاج نہ جائے
موت آئے تو دیس میں آئے
دکھ درد کے مارو آئو
او دیس دلارو آئو
دوسری داستان
1
کوئی قاصد نہ نامہ و پیغام
مجھ کو بھولے ہیں کیوں وہ دل آرام
ہائے افسوس بھائیوں کو بھی
یاد آیا کبھی نہ میرا نام
کون جانے کہ اس طرح کب تک
ہے مقدر میں دانہ زیرِ نام
2
بار خاطر یہ قید ایواں ہے
چشم پرنم ہے دل پریشاں ہے
جلد اے قاصد وطن آجا
تیری آمد بہار ساماں ہے
3
روشنائی مجھے میسر ہے
کون کاغذ مرے لئے لائے
حرف اشکوں سے مٹتے جاتے ہیں
ہائے ایسے میں کیا لکھا جائے
ایسے قاصد کو بھیج دے یارب
بن کے جو میرا رازداں آئے
میں اسی کی ہوں میں اسی کی ہوں
چاہے اپنائے یا نہ اپنائے
4
ورق دل دریدۂ تقدیر
خامۂ شوق مانع تحریر
چشم پرنم زبان پر مہریں
ہر ادا جرم، ہر نفس تعزیر
کیا خبر تھی کہ اس شبستاں میں
موت ہے خوابِ زیست کی تعبیر
5
جا کے بیٹھے ہیں چین سے تھر میں
مجھ کو سولی پہ چھوڑ کر پیارے
کیوں نہ آنسو بہائوں میں دن رات
جب نہ آئیں کہیں نظر پیارے
6
اے ’عمر‘ اب مجھے اجازت دے
اپنے پیاروں کے پاس جائوں میں
پھر نظر آئیں ان کے پشمینے
’لاکھ‘ کا رنگ پھر چڑھائوںمیں
ساتھ ساتھ ان کے ’تھر‘کی وادی میں
بھیڑ اور بکریاں چرائوں میں
7
اوڑھ کر سر پہ پھر حیا کی شال
’مارووں‘ کو گلے لگائوں میں
چھوڑ دے مجھ کو سومرا سردار
پھر انہیں جھونپڑوں میں جائوں میں
8
تھر سے جو پیرہن ملا مجھ کو
میں اسی پیرہن میں گھر جائوں
لاکھ پیوند اس میں لگ جائیں
دیکھ کرمیں اسے نہ شرمائوں
یوں ہی اچھے مرے پریشاں بال
تیل ڈالوں نہ بال سلجھائوں
پیارے مارو سے دور ہوں جب تک
اس روش سے کبھی نہ باز آئوں
چھوٹ کر ان محل سرائوں سے
اپنے پیارے وطن کو اپنائوں
حرف آئے نہ میری عصمت پر
میں یہاںچاہے جتنے دکھ پائوں
9
حرف آئے نہ میری عصمت پر
اپنا ہر چاک پیرہن سی لوں
دکھ تو ہوتے ہی ہیں محبت میں
اور کچھ دن امید پر جی لوں
تیسری داستان
1
اپنے گھر کی رنگی ہوئی ’لوئی‘
کیوںنہ ہو رشک اطلس و کمخواب
اے عمر اس کے سامنے کیا ہے
مخملی بافتے کی آب و تاب
2
میں نہ پہنوں گی ریشمی ملبوس
چاہے جس رنگ کا بھی ہو کوئی
میرے پیارے وطن کا تحفہ ہے
صاف و شفاف اون کی لوئی
جان سے بھی عزیز ہے مجھ کو
اپنے پہنوار کی رضا جوئی
3
اے عمر تیرا خلعت زرتار
میری لوئی کے سامنے بیکار
ریشمی لمس سے نہ کم ہوگا
دل سے ان پیارے ماروئوں کا پیار
4
اور بیتاب کر نہ اے سفاک
تجھ سے بیزار ہے دل غمناک
اے عمر لاکھ درجہ بہتر ہے
سیم و زر سے مجھے وطن کی خاک
رنگ و روغن تجھے مبارک ہوں
مجھ کوپیارے وہی خس و خاشاک
5
دست و بازو پہ اون کے دھاگے
خلعت زرنگار سے بہتر
اے سمن پوش کچھ نہیں میرے
جامۂ تار تار سے بہتر
سوگ اپنی خزاں نصیبی کا
اس فریب بہار سے بہتر
بے نیازانہ دردِ مہجوری
وصل بے اعتبار سے بہتر
6
نرم و نازک کلائیں یاد آئیں
اور شیشے کی چوڑیاں یاد آئیں
میرے تن من میں ماروئوں کا پیار
اور پیاری سہیلیاں یاد آئیں
تابحد نگاہ سبزہ زار
اور تھر کی وہ جگیاں یاد آئیں
اے عمر چھوڑ دے، میں جائوں گی
اسی دنیا کو پھر بسائوں گی
7
وہ سیسہ چوڑیان کلائی پر
ان کا ہر نقش کتنا پیارا ہے
سیم و زر کا مجھے نہ دے لالچ
یہ سہارا کوئی سہارا ہے؟
بھول جائوں وہ جھونپڑے کیسے
میں نے بچپن جہاں گذارا ہے
اس عمر کوٹ کے حصاروں سے
لاکھ بہتر وطن ہمارا ہے
اے عمر، اپنے ماروئوں کے ساتھ
مجھ کو فاقہ کشی گوارا ہے
8
سن رہے ہوں گے کتنے طعنے آج
تھر میں رہتے ہوئے مرے سرتاج
سومرا تیری بدنگاہی سے
ہو گئی میری زندگی تاراج
اے عمر ان سفید کپڑوں سے
مجھ کو پیاری ہے اپنے گھر کی لاج
9
وہ بیاباں کی سرد راتوں میں
زیرِ افلاک لرزہ بر اندام
میں ملوث حریر و دیبا میں
رات بھر چین سے کروں آرام؟
کھائے جاتے ہیں مجھ کو اے سردار
یہ محل یہ فصیل یہ در و بام
تیری ہر انگبیں صفت عشرت
میری تشنہ لبی پہ اک الزام
10
زیب دیتے ہیں تھر کی سکھیوں کو
’گگریاں‘ اور ان کے ’گولاڑے’
اپنی شرم و حیا پہ نازاں ہیں
سبز بیلوں کو جسم پر ڈالے
اک بیاباں ملا جہیز میں اور
میرے ماں باپ مجھ کو کیا دیتے
11
سدا برسات کا پیتے ہیں پانی
یہ میرے ہم وطن جو پاک ہیں سب
بدن پر کھردری سی اون پہنے
وفادار خس و خاشاک ہیں سب
گھنیرے جھنڈ ہیں چوپال ان کے
نڈر ہیں نیک ہیں بیباک ہیں سب
مگر ظالم ہو اتنے اے عمر تم
کہ یہ مظلوم سینہ چاک ہیں سب
12
تھر کے کھارے ببول کے نیچے
وہ بناتے ہیں ریت پر چوپال
اور پلاتے ہیں راہگیروں کو
چھا چھ سے بھر کے اپنا جام سفال
اے عمر میں جہاں امانت ہوں
سانس لینا وہاں ہے مجھ کو وبال
13
عمر تیرے یہاں جو عید سی ہے
مجھے وہ ماتم بیچارگی ہے
خبر بھی ہے تجھے ان ماروئوں کی
ترے قبضے میںجن کی ہر خوشی ہے
وہ میرے سوگ میں کھوئے ہوئے ہیں
وبال جان اب ان کی زندگی ہے
14
حال اہل وطن کیا کیا ہوگا
میں ادھر قید وہ ادھر ناشاد
میری آنکھوں میں ہیں وہ سبزہ زار
کتنے گنجان کس قدر آباد
آہ وہ ’پھرہ‘، ’لانی‘ اور ساڈوھی
چٹکیاں لے رہی ہے جن کی یاد
اف یہ زنداں یہ آہنی زنجیر
ہائے یہ ظلم اور یہ بیداد
آرزوئیں ہیں سہمی سہمی سی
اور تمنا ہے مائل فریاد
پاس ہے اپنے عہد و پیماں کا
چھوڑ دے مجھ کو اے ستم ایجاد
وائي
مارو کو میت بنایا
مارو سے بیاہ رچایا
ہاتھوں میں اون کے بندھن
جیسے سونے کے کنگھن
بن باس چرواہوں نے
کملی میں موہے چھپایا
مارو سے بیاہ رچایا
بیری ہے عمر تو میرا
پہنوں گی نہ ریشم تیرا
پیارے کملی والوں سے
مری پریت نے سب کچھ پایا
مارو سے بیاہ رچایا
چھوٹی جب دیس کی ’سائوں‘
کیوں تیری کھجوریں کھائوں
’سنگر‘ ’ماندھانو‘ والا
بن میرے دان میں آیا
مارو سے بیاہ رچایا
چوتھی داستان
1
جب بھی آتی ہے یاد پیاروں کی
ماروی بے قرار ہوتی ہے
زلف ژولیدہ، مضمحل چہرہ
آہیں بھرتی ہے اور روتی ہے
فکر کھانے کی ہے نہ پینے کی
ایک پل کو بھی کب وہ سوتی ہے
رات دن جیسے قصر و ایواں میں
اپنے ہوش و حواس کھوتی ہے
غم یہی ہے کہ پھر وہاں جائوں
جس جگہ میرے من کا موتی ہے
اے عمر تابکے یہ ظلم یہ جور
چھوڑ دے اس غریب کو فی الفور
2
ملے میلے سے الجھے الجھے بال
یہ نہ دھوئے انہیں نہ سلجھائے
ماروی پیارے مارووںسے دور
کوٹ میں کیا سکونِ دل پائے
سوچتی ہے کہ آج تک آخر
کیوں نہ وہ آشنا ادھر آئے
مجھ سی بیکس پہ کاش بہر خدا
خود عمر ہی کو رحم آجائے
3
زلف ژولیدہ، مضمحل چہرہ
اب نہ شوخی نہ وہ شرارت ہے
جب سے آئی عمر کی محلوں میں
ماروی کی عجیب حالت ہے
نہ تصنع نہ ذوق آرائش
وہ سراپا غم محبت ہے
4
مجھ کو پیارے ملیر کی سوگند
جال میں تیرے، میں نہ آئوں گی
اے عمر سوگوار آنکھوں سے
یونہی آنسو سدا بہائوں گی
ڈال رکھی ہے سر پہ جو کملی
لاج اس کی نہ میں گنوائوں گی
چھوڑ کر ماروئوں کی بستی کو
چین ہرگز یہاں نہ پائوں گی
لاکھ بھولے ہوں وہ مجھے لیکن
آس ان سے ہی میں لگائوں گی
مجھ کو سولی ہے تیری سیج نہیں
جان پر اپنی کھیل جائوں گی
5
یوں مسلط ہے اب خیال ترا
سر پہ لٹکی ہو جس طرح تلوار
میرے دل کو قرار بخشے گا
کیسے زنداں کا سایۂ دیوار
یاد رکھتے اگر مجھے مارو
یوں نہ ہوتی میں نیند سے بیزار
6
جس کی خاطر یہ گت بنائی ہے
کب انہیں میری یاد آئی ہے
مجھ کو رکھنی ہے جھونپڑوں کی لاج
ورنہ محلوں میں کیا برائی ہے
مارئووں کی ہوں منتظر لیکن
نارسائی ہی نارسائی ہے
ایسی امید تو نہ تھی ان سے
معتبر جن کی باوفائی ہے
کون جانے کہ میری رگ رگ میں
آرزوئے وطن سمائی ہے
7
اپنے پیارے ملیر میں جائوں
گن اسی سبزہ زار کے گائوں
پاس ہوں پھر اگر مرے سرتاج
کس قدر خوش نصیب کہلائوں
اس صبیح و ملیح چہرے کو
جب بھی دیکھوں نئی کشش پائوں
8
اے عمر ذکر اپنے پیاروں کا
اک مداوا ہے غم کے ماروں کا
ایک مدت ہوئی انہیں دیکھے
جانے کیا حال ہے بچاروں کا
ان کا کاشانۂ خس و خاشاک
حسن ہے تھر کے سبز زاروں کا
کھب گئی کوئی کیل سی دل میں
نہ چلا بس یہاں لوہاروں کا
وائي
پرجا ہوں عمر میں تیری
مت چھین کملیا میری
جیون ساتھی ہے مارو
مری بپتا تو کیا جانے
میں ’ڈنئور‘ پہ پلنے والی
کیوں کھائوں محل کے کھانے
بس چھوڑ یہ ہیرا پھیری
مت چھین کملیا میری
کہتے ہیں جسے بن باسی
مرے من کا میت وہی ہے
دکھ درد بھری سانسوں کا
البیلا گیت وہی ہے
مانوں گی بات نہ تیری
مت چھین کملیا میری
پانچویں داستان
1
دیکھ کر میری خستہ حالی کو
پیارے مارو بھی ہوں نہ بیگانے
میرے گھر والے سن رہے ہوں گے
کتنے طعنے وہاں خدا جانے
اے عمر کھول دے مری زنجیر
جائوں اس کوٹ سے میں بے تاخیر
2
ہائے اس قید و بند کی میعاد
سارا حسن و جمال ہے برباد
کررہا ہے دھنواں دھنواں مجھ کو
یہ سلگتا ہوا دل ناشاد
کیسے اب ان کو منہ دکھائوں گی
جن کی بستی ہے حسن سے آباد
دیکھ کر میری زشت روئی کو
سن سکیں گے وہ کیا میری فریاد
3
سومرا تیری قید میں آکر
مجھ میں کوئی کمال ہی نہ رہا
کیسے جائوں وطن کو اب واپس
جب وہ حسن و جمال ہی نہ رہا
مجھ میں باقی کہاں ہے وہ پندار
جس سے ملتی ہے دولت دیدار
4
اے عمر اس غم اسیری میں
کیسی حالت یہ ہوگئی میری
تھے وہ مارو فریفتہ جس پر
اب کہاں ہے وہ دلکشی میری
اب وہ حسن و جمال ہی نہ رہا
جس پہ نازاں تھی زندگی میری
اپنے پیارے ملیر والوں کو
منہ دکھائے گی کیا خوشی میری
کتنی برباد اور بے رونق
کر گئی مجھ کو بے کسی میری
5
میرے سر پر جو یہ مصیبت ہے
اے عمر اپنی اپنی قسمت ہے
ورنہ پیارے ملیر میں اب بھی
سایہ افگن خدا کی رحمت ہے
ان حسین ماروئوں کا کیا کہنا
ہر ادا جن کی خوبصورت ہے
6
جانتا ہے وہ قادر مطلق
کیا ہے تعزیر اور کیا تقصیر
کوئی اس کو بدل سکے گا کیا
جو بھی ہو گا نوشتہ تقدیر
وائي
تری رحمتوں سے چھپا نہیں جو برا کیا کہ بھلا کیا
مرے رازداں میں بتائوں کیا کہ شکست خوردہ نے کیا کیا
تری ذات تیری صفات کا مرے سر پہ دست کرم رہے
مری آرزو کی لگن رہے مرے حوصلوں کا بھرم رہے
یہ بجا کہ عرصۂ زندگی نے ذلیل لغزش پا کیا
مرے رازداں میں بتائوں کیا کہ شکست خوردہ نے کیا کیا
ترا آسرا ہے وہ آسرا جو ہے زندگی سے عزیز تر
تری آرزو ہے وہ آرزو جسے چاہتے ہیں دل و جگر
ترے التفاتِ نگاہ نے مجھے آشناے وفا کیا
مرے رازداں میں بتائوں کیا کہ شکست خوردہ نے کیا کیا
چھٹی داستان
1
پیارے مارو کے دیس میں جا کر
کاش پھر خود کو سرخرو پائوں
حرف آئے نہ میری عصمت پر
جیسی آئی تھی ویسی ہی جائوں
آسماں پر جو ابر چھائے ہیں
یاد پھر سبزہ زار آئے ہیں
2
ہائے اب ان کے سامنے جا کر
کس طرح اپنا سر اٹھائوں گی
نہ وہ تمکیںنہ وہ تسلی ہے
ان کو کیسے یقیں دلائوں گی
نہ وہ رونق نہ رنگ چہرے کا
جیسے برسات میں گل لالہ
3
یا تو پیدا کبھی نہ ہوتی میں
اور جو پیدا ہوئی تھی مر جاتی
میں نہ جیتی اگر تو مارو پر
کیوں پھر ایسی بری گھڑی آتی
4
ایسے جینے سے زہر ہی کھالے
کیا یہ صورت انہیں دکھائے گی
کوئی عورت ملیر میں تجھ کو
اب نہ بھولے سے منہ لگائے گی
ماروی تیرا ان سے کیا رشتہ
تو انہیں اجنبی سا پائے گی
5
ہائے کس منہ سے دیس میں جائوں
کتنی رسوائی ہوگئی میری
اے عمر خاک ایسے جینے پر
بھاڑ میں جائے زندگی میری
6
پیدا ہوتے ہی مرگئی ہوتی
یا نہ پیدا ہی میں کبھی ہوتی
’سانگیوں‘ کے بغیر کیا جینا
مجھ کو محلوں میں کیا خوشی ہوتی
اس عمر کوٹ میں پھنسی آکر
ورنہ مارو کے ساتھ ہی ہوتی
7
اپنی کملی کو دھو رہی ہوں میں
آسرا اس کا مجھ کو پیارا ہے
خوف سے میں عمر کے ہوں خاموش
ورنہ یہ قید کب گوارا ہے
بڑھ کے دنیا کے ہر سہارے سے
پیارے مارو ترا سہارا ہے
8
زندگی اپنے دیس میں گذرے
موت بھی اپنے دیس میں پائوں
ہائے یہ قید اف یہ زنجیریں
روتے روتے یہیں نہ مر جائوں
9
ہائے یہ قید و بند یہ زنجیر
کوئی طعنہ نہ مجھ کو دے جانا
میرے مرنے کی تم خبر سن کر
میری میّت ملیر لے جانا
10
میری آنکھیں وطن کی جانب ہیں
میرے پیاروں کو لاش دے آنا
آخری ہچکیوں سے پہلے ہی
میری میّت ملیر لے جانا
اے عمر تھر میں ماروئوں کے ساتھ
ٹھنڈی مٹی میں مجھ کو دفنانا
دیس کی کچھ مہکتی بیلوں کو
قبر کے آس پاس سلگانا
کیا عجب عشق یہ بھی دکھلائے
تن مردہ میں روح لوٹ آئے
11
یہ سلاسل یہ طوق یہ زنجیر
یہ سلاخیں، یہ قفل یہ زنداں
تاک میں ہر طرف کئی جاسوس
اور مخبر قدم قدم نگراں
کیا بتائوں میں پیارے مارو جام
زندگی ہے کہ درد بے درماں
12
وہ ’سسوں‘ اور رچھیوں کا اون
وہ ملیر اور اس کے سبزہ زار
کملیاں اوڑہے من چلی سکھیاں
وہ حسین بیلیں اور برگ و بار
اونچے محلوں میں ہوسکے کیسے
اپنے پیاروں کا اب مجھے دیدار
آ بھی جا ہم وطن خدا کے لئے
میں عمر کوٹ سے ہوئی بیزار
13
ہاتھ پائوں مرے جکڑنے کو
ہتھکڑی آئی بیڑیاں آئیں
اے عمر اس محل میں آتے ہی
مجھ پہ کیا کیا نہ سختیاں آئیں
14
میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی تیری
دل میں مارو کے پیار کی زنجیر
اے عمر مجھ کو یاد آتا ہے
سانگیوں کا خلوص دامن گیر
عہد و پیماں کچھ اور تھے ان سے
آکے پھوٹی کہاں مری تقدیر
15
کیا کروں طوق اور سلاسل نے
ہر طرف سے جکڑ لیا مجھ کو
اے عمر تیری چیرہ دستی نے
غم کا ڈھانچا بنا دیا مجھ کو
16
صاف و شفاف اون کی کملی
دیکھ اس پر نہ کوئی میل آئے
بیٹھی سیتی رہوں اسے چپ چاپ
دھجی دھجی ہی کیوں نہ ہو جائے
اے عمر میری خستہ حالی کا
کاش تجھ کو کبھی خیال آئے
اپنی سکھیوں سے پھر ملوں جا کر
رت ہو برسات کی گھٹا چھائے
آرزوے تلافی مافات
کوئی پیغام جانفزا لائے
وائي
میں تڑپ تڑپ مرجائوں
مارو سے پریت نبھائوں
اے برکھا رت جب آنا
پریتم کا سندیسا لانا
وہ لاکھ کرے گا ھتیا
چھوٹے گی نہ مجھ سے ستیا
تھر والے کوٹ میں آئیں
مرتی ہوں مجھے لے جائیں
چھٹکارا عمر سے پائوں
مارو سے پریت نبھائوں
ساتویں داستان
1
ہو رہی ہے خوشی پنواروں کو
تھر میں پھر موسم بہار آیا
والہانہ مری زباں پر نام
ان گھروندوں کا بار بار آیا
جھونپڑی ہے چٹان پر جس کی
یاد مجھ کو وہ رازدار آیا
2
کتنے خوش ہوں گے اے عمر وہ لوگ
رت ہے برکھا کی آج کل تھر میں
کوئی کاٹے گا کوئی کاتے گی
اون ہی اون ہوگا ہر گھر میں
کتنے خوش ہو کے بن رہے ہوں گے
نت نئی کملیاں وہ ’کھائر‘ میں
گوسفندوں کی وہ توانائی
وہ طرارے نشیب ’پائر‘ میں
وہ حسیں بیلیں اور برگ و بار
اب کہاں ہیں مرے مقدر میں
کہتی ہوں گی ملیر کی سکھیاں
کاش آجائے ماروی تھر میں
اے عمر جھونپڑوں کا وہ سکھ چین
کیا ملے گا محل کے بستر میں
3
گھاس کے بیج روز لاتے ہیں
اور کس شوق سے پکاتے ہیں
جنگلی ’سائوں‘ اور ’لنب‘ اکثر
جمع کرتے ہیں اور سکھاتے ہیں
ان کے آگے پلائو بھی ہے ہیچ
جو غذائیں وہ لوگ کھاتے ہیں
4
’ڈونرے‘ چن چن کے روز لاتے ہیں
اور کس شوق سے پکاتے ہیں
اے عمر میرے دیس کے دہقان
جنگلوں میں سکون پاتے ہیں
اعتدال مزاج کے قرباں
وقتِ پیری بھی مسکراتے ہیں
5
وہ کسی بات کے نہیں محتاج
کیا کہوں میں بہادری ان کی
گرد آلودہ ہی سہی کملی
دیدنی ہے مگر خوشی ان کی
اے عمر خود ملیر میں جا کر
دیکھ لے پاکدامنی ان کی
6
خود نگہدار اور خود مختار
کوئی قدغن نہ ہے کوئی محصول
اک مہکتا ہوا چمن ہے ملیر
اور مارو ہیں اس چمن کے پھول
7
خوب ہیں میرے دیس کے دہقان
کتنی ندرت ہے ان کے جینے میں
ٹوکرا سر پہ دھول پیروں پر
جسم بھیگا ہوا پسینے میں
8
جا بہ جا وہ جھکی جھکی ڈالیں
گھومتے پھرتے ساتھ ہیں سرتاج
پھر تصور میں چن لئے ’پیروں‘
یاد ’ساڈوھیوں‘ کی آئی آج
9
رت ہے ساڈوھیوں کے پکنے کی
اور مجھ پر یہ بند یہ بیداد
وہ کشادہ فضائیں وہ میدان
ہر فصیل و حصار سے آزاد
کیسے محلوں میں جی لگے میرا
آ رہے ہیں ہیں ملیر والے یاد
10
خیمہ و شامیانہ و در و بام
اب انہیں سے لگا دل برباد
ماروی مان لے مرا کہنا
بے اثر یہ نالہ و فریاد
خود مصیبت زدہ ہیں وہ مارو
کیا کریں گے بھلا ترا دل شاد
11
سوزنِ عشق نے مرا دامن
سی دیا ’مارووں‘ کی بستی سے
اے عمر وہ حسین ’گولاڑے‘
منسلک ہیں رداے ہستی سے
میں بظاہر ہوں کوٹ میں محصور
دل انہیں جھونپڑوں میں ہے مستور
12
منسلک کردیا ہے مارو سے
میری سانسوں کو سوزنِ غم نے
اپنے کانوں میں کوئی آویزہ
کیسے پہنوں بغیر مارو کے
13
سوزن آہنی میں دیکھا ہے
حسن ایثار میری فطرت نے
خود برہنہ رہی مگر ڈھانپا
ساری دنیا کو اس کی ہمت نے
وائي
روتے روتے رات گذاری
میں ہوں عمر، مارو کی پیاری
بیکل ہیں میرے پریتم تھر میں
کیسے رہوں میں تیرے گھر میں
پریم کی داسی دکھ کی ماری
میں ہوں عمر، مارو کی پیاری
کتنے دن سے دیس کو چھوڑے
بیٹھی ہوں سب ناتا توڑے
جال میں تیرے سب کچھ ہاری
میں ہوں عمر، مارو کی پیاری
آٹھویں داستان
1
ازل سے جو مرے دل میں بسا ہے
بس اس مارو کو اب کیسے بھلائوں
یہی جینا ہے تو اس سے یہ بہتر
کہ اس کی یاد پر قربان جائوں
2
وہی برسات کا پیارا سماں ہے
مگر جانے مرا مارو کہاں ہے
مری محویتوں میں بسنے والے
تری یادوں میں کھویا دو جہاں ہے
مرے ساقی مرے ہونٹوں پہ اب تک
وہی کیف شراب ارغواں ہے
مرے بے مثل مارو گرچہ تیرا
مری آنکھوں سے اوجھل آستاں ہے
عدم کے وسعتوں میں ڈھونڈ لوں گی
کہ اک تو ہی تو میرا رازداں ہے
3
وہیں آسائش قلب و نظر ہے
جہاں ان مارئووں کی رہگذر ہے
میں آئوں توڑ کر بند و سلاسل
بلالے اے مرے پیارے کدھر ہے
مزے لے لے کے کھائوں گی خوشی سے
جو پیارے جھونپڑوں کا ماحضر ہے
4
مرے قلب و نظر میں بس گئی ہے
محبت مارئووں کے بانکپن کی
خدایا اپنی رحمت سے سنا دے
نوید جانفزا صبح وطن کی
5
خدا جانے وطن سے کرکے ہجرت
گئے ہیں کس طرف وہ نیک سیرت
میں ان کی راہ کب سے تک رہی ہوں
ملے گی جانے کب آنکھوں کو راحت
سمائی ہے مرے قلب و نظر میں
ازل سے پیارے مارو کی محبت
6
وہ اس برسات کے موسم میں شاید
کسی ڈھلوان پر جا کر رہیں گے
کنویں وہ کھارے پانی کے ہمیشہ
منقش لوح فطرت پر رہیں گے
نہ بھولوں گی سحر کے مشعلوں کو
تصور میں وہی منظر رہیں گے
مرے قلب و نظر میں پیارے مارو
بہر انداز جلوہ گر رہیں گے
7
کہیں وہ پیاسے چوپایوں کو لے کر
چلے ہیں گھاٹ پر پانی پلانے
کہیں سکھیوں نے آنگن میں کئے ہیں
اکٹھے جنگلی بالوں کے دانے
گھلائے جارہے ہیں اس محل میں
مری جانِ حزیں کو یہ فسانے
8
سحر ہوتے ہی وہ گہرے کنوئوں سے
چلی ہیں پانی بھرنے ڈول لے کر
نہ کیوں یاد آئیں وہ مسرور سکھیاں
کھلا ہے ان کے دل کا حال مجھ پر
9
چلی تھی حسب عادت آخر شب
میں اک گہرے کنویں سے پانی بھرنے
خبر کیا تھی کہ میری تاک میں ہیں
وہ ظالم جن کو بھیجا تھا عمر نے
نہ آئی تھی کبھی میرے وطن سے
کوئی عورت یہاں بے موت مرنے
جلا کر کیوں نہ پہلے ہی مٹایا
مجھے اس آتش قلب و جگر نے
10
نہ پنگھٹ پر وہ سکھیوں کا جھمیلا
نہ وہ چرخی گھمانے کی صدا ہے
وہ ’سن‘ کی رسیاں گلنے لگی ہیں
جنہیں چھوڑے ہوئے عرصہ ہوا ہے
سحر کے وقت بھی سوئی ہوئی ہیں
مسلط ان پہ کوئی خوف سا ہے
11
بہت پیاسی اگر ہوتی ہے کوئی
تو ڈرتے ڈرتے جاتی ہے کنویں پر
نظر میں رکھتی ہے گلے کو اپنے
نہیں رکتی وہاں پھر پانی پی کر
12
کنویں ہیں اب نہ چرخی کی صدا ہے
سماں اس گائوں کا سنسان سا ہے
نظر آتے ہیں ان کے حوض خالی
نہ گلہ ہے نہ کوئی جھونپڑا ہے
کہاں ہیں اب وہ خرقہ پوش مارو
خدا جانے وہاں کیا ہو گیا ہے
سراپا محو حیرت ہو گئی ہوں
خیال ان کا مرے دل میں بسا ہے
13
چراگاہیں، کنویں اور ان کے گلے
وہی خوشیاں وہی معمول ہوگا
مری حالت کی مارو کو خبر کیا
وہ اپنے کام میں مشغول ہوگا
14
کوئی جانے گا کیا دکھ درد میرا
عمر، میں حال اپنا کیا بتائوں
وہ مارو جس کی خاطر جی رہی ہوں
اسی کو جب نہ اپنے پاس پائوں
تو اس اونچے محل میں کیوں نہ آخر
یونہی بے چین ہو کر تلملائوں
جو اجڑی ہے مری رسوائیوں سے
میں اس بستی کو کیسے بھول جائوں
وائي
مجھ دکھیا کا کون سہارا
روٹھ نہ جائے مارو پیارا
مجھ میں ہے ہر ایک برائی
اس میں ہے ہر ایک بھلائی
وہ من میت ہے جگ سے پیارا
روٹھ نہ جائے مارو پیارا
میرے سارے عیب چھپالے
پریتم پیارا پاس بلالے
پھر پلٹے یہ جیون دھارا
روٹھ نہ جائے مارو پیارا
مدھر ملیر میں برکھا آئی
گھاٹ گھاٹ پر دھوم مچائی
سندر ہے وہ دیس ہمارا
نویں داستان
1
ہو رہی ہو جہاں کہیں برسات
پیارے مارو وہیں کو جاتے ہیں
جنگلوں میں اِدھر ُادھر اکثر
نت نئے جھونپڑے بناتے ہیں
کیا خبر ان کو میری حالت کی
نت نئی دھن میں گیت گاتے ہیں
2
تھر کے دلدل میں ہوں گے وہ مارو
اور بارش برس رہی ہوگی
کیا خبر ایک تشنہ لب ان کو
دیکھنے کو ترس رہی ہوگی
لذت جرعۂ محبت ہائے
اس کے ہونٹوں میں رس رہی ہو گی
3
وہ ڈھلانوں پہ رنگ رلیاںہائے
اور چٹانوں پہ ایک عالم خواب
مارووں کے کھلے ہوئے کھلیان
اور ’پائر‘ کی وادیٔ شاداب
اے عمر اس قفس میں گھٹ گھٹ کر
کیوں نہ تڑپے مرا دل بیتاب
4
پیارے ’کھائر‘ میں آئی برکھا رت
ہر طرف ہے نئی توانائی
کوئی دیکھے ملیر میں جا کر
ماروئوں کی غیور برنائی
سبزہ زاروں میں ان کے چوپائے
وہ تبسم وہ رنگ و رعنائی
چہچہائے ہوائوں میں تاڑے
وہ اٹھا ابر وہ گھٹا چھائی
سامنے اپنے اپنے پیاروں کے
ہر سکھی دیس کی غذا لائی
اے عمر رشک قصر و ایواں ہے
جھونپڑوں کی قطار آرائی
میری قسمت کہ اس اسیری نے
چھین لی مجھ سے ہر شناسائی
ہر گھڑی اشک خوں بہاتی ہے
میری افسردگی کی تنہائی
سوچتی ہوں وطن کے لوگوں میں
ہو رہی ہوگی میری رسوائی
کون پوچھے یہ جاکے مارو سے
کیا اسے میری یاد بھی آئی
کاش پھر میرے روبرو آئے
کملی والوں کا حسن زیبائی
5
کس طرف کوچ کر گئے
یہ دل بیقرار کیا جانے
اجڑا اجڑا سا سبزہ زار ہے کیوں
دیدہ اشکبار کیا جانے
ہائے یہ دوری اور مجبوری
خلشِ انتظار کیا جانے
6
کوئی قاصد نہ نامۂ و پیغام
مجھ سے شاید وہ بدگماں ہوں گے
میرے خانہ بدوش تھر والے
حسب عادت رواں دواں ہوں گے
کیا خبر تھی کہ مجھ سے اتنے دور
دیدۂ و دل کے آستاں ہوں گے
7
کس طرح خاک و خس پہ ’پائر‘ میں
ہاتھ پر رکھ کے سر میں سوتی تھی
کون جانے کدھر گئے وہ لوگ
میں کبھی جن کے ساتھ ہوتی تھی
کون سمجھے گا سوچ کر کیا کیا
یہ غریب الدیار روتی تھی
8
جانے کتنی چہل پہل ہوگی
آجکل تھر کے سبزہ زاروں میں
دیکھتی ہوں بہ دیدۂ حیراں
اک تلاطم سا جوئباروں میں
یاد ہے میں بھی تھی کبھی شامل
اپنے پیارے وطن کے پیاروں میں
9
میں یہاں مررہی ہوں گھٹ گھٹ کر
اور مارو ہیں اب نظر سے دور
ہیں کسی گونج سے بسا اوقات
میری یادوں کے کاخ و کو معمور
کوئی قاصد ہی بھیج دے یا رب!
کچھ تو ہو جائے میرا دل مسرور
وائي
سکھ اپنے دیس میں پائوں گی
مت روک عمر میں جائوں گی
سکھیوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گی
’گولاڑوں‘ کو پھر توڑوں گی
’سنگر‘ کی ڈال گرائوں گی
مت روک عمر میں جائوں گی
’گندیوں‘ کی ’کوکڑ‘ پھانکوں گی
بن بن میں ڈونرے جھانکوں گی
’مکھنی‘ ’ماندھانو‘ کھائوں گی
مت روک عمر میں جائوں گی
مارو کے ساتھ نبھائوں گی
میں روکھی سوکھی کھا لوں گی
تہوار تمام منائوں گی
مت روک عمر میں جائوں گی
دسویں داستان
1
دور آسودگی کا ہے تھر میں
موسم برشگال آیا ہے
ماروی یہ نسیم کا جھونکا
مژدۂ نوبہار لایا ہے
دیکھ بھیجا ہے ماروئوں کے نام
سومرہ نے بھی صلح کا پیغام
2
کب ہوئی ہے ملیر میں بارش
کیا بتائے یہ دیدۂ بے تاب
یاس نے جس کو جڑ سے کاٹا ہو
کیسے ہوگا وہ نخل دل شاداب
3
کس سے پوچھوں یہاں ہے کون اپنا
جانے ان بے کسوں پہ کیا گذری
کل وہاں بجلیوں کی یورش تھی
رات بھر مارئووں پہ کیا گذری
4
کوئی قاصد وہاں سے آیا ہے
مارئووں کا پیام لایا ہے
ماروی کیوں ہے اس قدر مایوس
کیوں یہ خوف و ہراس چھایا ہے
تجھ کو جانا ہے لوٹ کر تھر میں
کوٹ تیرے لئے پرایا ہے
5
ماروی! مارئووں کی عزت کو
بھول کر بھی نہ تو گنوا دینا
حرف آئینہ تیری عصمت پر
سر سے کملی نہ یہ ہٹا دینا
اور کچھ دن ہے کوٹ میں رہنا
پیارے تھر کو نہ تو بھلا دینا
6
سچ ہے جن کا سنگھار وہ سکھیاں
ماروی تجھ کو یاد کرتی ہیں
سونا ان کی نظر میں سیسہ ہے
جو خطا کاریوں سے ڈرتی ہیں
ان کی عفت پہ حرف کیوں آئے
دم جو شرم و حیا کا بھرتی ہیں
پیروی ان کی تجھ پہ لازم ہے
جو خلوص و وفا پہ مرتی ہیں
7
دل کی باتیں نہ میں چھپائوں گی
حال اپنا اسے بتائوں گی
آیا ہے میرے دیس کا قاصد
گرکے قدموں پہ میں منائوں گی
لوٹ جائوں نہ میں وہاں جب تک
چین ہر ،گز یہاںنہ پائوں گی
8
میرے پیارے وطن کے قاصد نے
مجھ کو آتے ہی یہ دیا طعنہ
تیری کملی متاع غیرت ہے
نذر آتش اسے نہ کر جانا
بیٹھنا مت پلنگ پر ہرگز
طوق زریں کو بھی نہ اپنانا
کہہ رہی ہیں سہیلیاں تیری
روح اپنی کہیں نہ کھو آنا
ساعت نیک آنے والی ہے
ختم ہونے کو ہے یہ افسانا
9
میل میں چپ چپاتے بالوں سے
پڑ گئی ہیں جوئیں مرے سر میں
یاد ساڈھوئیوں کی لذت ہے
نیند کیا آئے دیدۂ تر میں
دور کر لیں سہیلیاں آکر
وہ غلط فہمیاں جو ہیں تھر میں
10
داغ دل کے یونہی چھپائے جا
چوٹ کھائے جا دکھ اٹھائے جا
ماروی پاک دامنی اپنی
جیسے بھی ہو سکے بچائے جا
لوٹ کر پھر وطن میں جانا ہے
آبروے وطن بڑھائے جا
11
کوٹ میں کیسے جی لگے میرا
لاج تھر کی مجھے بلاتی ہے
قید میں یاد پیارے مارو کی
کس طرح مجھ پہ ظلم ڈھاتی ہے
شام ہوتے ہی آشیاں کی طرف
جس طرح کونج اڑ کے جاتی ہے
موجۂ قعر آب میں جیسے
سیپ بادل سے لو لگاتی ہے
گھر ہی جس کا ہو گہرے ساگر میں
کب ندی میں وہ چین پاتی ہے
میٹھی بوندوں کی آس میں جی کر
کھارے پانی کے دکھ اٹھاتی ہے
پیار سے اپنے من کے موتی کو
دوسروں سے سدا چھپاتی ہے
اس کو پیاری ہے آبرو اپنی
پریت کی ریت یہ سکھاتی ہے
بادلوں کا اسے سہارا ہے
مجھ کو اپنا ملیر پیارا ہے
12
باوفا ماروئوں کے گھر یا رب!
پیارے تھر میں رہیں یوں ہی آباد
ہر گھڑی بیکسی کے عالم میں
آ رہے ہیں ملیر والے یاد
پہلی ہی رات کاخ وایواں سے
کانپ اٹھا مرا دل ناشاد
13
دن وطن سے الگ جو گذرے ہیں
ان پہ تہمت دھریں گے تھر والے
جیسی آئی تھی ویسی جائوں گی
ورنہ نفرت کریں گے تھر والے
وائي
اس کوٹ میں جی گھبرائے
مارو مرا من برمائے
جو پی تھی ساتھ سجن کے
وہ تھر کی لسی یاد آئے
مارو مرا من برمائے
جانے کب یہ میری آشا
کملی والوں کو پائے
مارو مرا من برمائے
پل بھر کو بھی میرے سر سے
کملی یہ اتر نہ جائے
مارو مرا من برمائے
گیارھویں داستان
1
ہو گیا ظالموں کا سر نیچا
پھر مرے دل نے حوصلہ پایا
قید غم سے مجھے چھڑانے کو
پیارا مارو ملیر سے آیا
2
ہے جہاں مشک بیز خاکِ وطن
کس قدر وہ مقام پیارا ہے
دل ہے اس سر زمیں کا گرویدہ
اور سر میں بھی اس کا سودا ہے
خوش رہے ماروئوں کا وہ قاصد
جو وہاں سے پیام لایا ہے
3
جانے کس گھاٹ پر بسے ہوں گے
ہو رہی ہوگی آجکل برسات
پھول جھڑتے ہیں مے چھلکتی ہے
جب بھی ہوتی ہے مارئووں کی بات
جی رہی ہوں کسی سہارے پر
گرچہ ناسازگار ہیں حالات
4
سوچتی ہوں ملیر میں شاید
ہو رہی ہوگی آج کل برسات
ہر طرف آجکل وہاں ہو گی
سبزیوں اور اناج کی بہتات
لیکن افسوس میری قسمت میں
ہیں یہی صرف چند احساسات
پیارے مارو کی راہ تکتی ہوں
بھیگی آنکھوں میں یوں ہی دن رات
مجھ کو بھولے ہوئے ہیں کیوں وہ لوگ
میرے آتے ہی ہوگئی کیا بات
کاش پھر ماروئوں میں لے جائے
کھینچ کر مجھ کو گردش حالات
5
جب بھی چاہا بفیض ربانی
سارے تھر میں برس گیا پانی
خوے تسلیم ان کا جوہر ہے
جانتے ہیں رضاے رحمانی
میرے پیارے ملیر والوں کو
ہوگی حاصل ہر ایک آسانی
6
کاخ و کو پر برس رہا ہے ابر
کلبلاتا ہے میرا جسمِ اسیر
ہو گئی دھل کے میرے اشکوں سے
صاف و شفاف پیر کی زنجیر
پھر بھی آیا نہ آج تک مارو
پھوٹی آکر کہاں مری تقدیر
دن جو اپنے وطن میں گذرے تھے
ہو گئے ایک خواب کی تعبیر
7
میں نے بھیجا ہے مارئووں کے نام
اے عمر آج پھر کوئی پیغام
جانے بھولا ہوا ہے کیوں مجھ کو
وہ بیاباں نورد مارو جام
کاش زنجیر ٹوٹ ہی جائے
کاش نکلے یہ جذب دل سے کام
وائي
ماروجام کی پریت
میرے من کی جیت
میں بن کے دلہن جب آئی تھی
دان میں لوئی پائی تھی
تھر کی سندرتا لائی تھی
جیون کا سنگیت
مارو جام کی پریت
میرے من کی جیت
میں ہوں پیارے ملیر کی رسیا
محل سے اچھی اپنی کٹیا
رکھے میری لاج کملیا
ہے یہی دیس کی ریت
ماروجام کی پریت
میرے من کی جیت
سکھیوں کے جھرمٹ میں جائوں
’کھاٹونبا‘ اور ’سنگر‘ کھائوں
اپنے پیارے کو پھر پائوں
گائوں ’لطیف‘ کے گیت
ماروجام کی پریت
میرے من کی جیت
ابیات متفرقہ
1
گر عمر کی یہی رہی بیداد
کس طرح رہ سکے گا تھر آباد
ان غریبوں کی کون سنتا ہے
پیارے مارو کہاں کریں فریاد
جس کو سمجھے تھے راہبر اپنا
وہ ہے اک رہزنِ ستم ایجاد
2
بد نصیبی ملیر سے مجھ کو
ہائے اس کوٹ میں پکڑ لائی
چیرہ دستی مجھے ’ہمیروں‘ کی
ایک زنجیر میں جکڑ لائی
سوچتی تھی وطن نہ چھوٹے گا
دیدۂ و دل حکایتیں کیا کیا
3
شب کو عصمت مری رہے محفوظ
صبح ہوتے ہی کوئی آجائے
دن جو پیارے کے ساتھ گذرے تھے
یاد رہ رہ کے ان کی تڑپائے
چھٹ گیا مجھ سے جب چمن میرا
جی نہ کیوں اس قفس سے گھبرائے
اے عمر تیری چیرہ دستی ہائے
کیسے میرے سہاگ کو بھائے
کاش وہ میرا پیارا مارو جام
کل مجھے پھر ملیر میں پائے
4
اے عمر مجھ کو پیاری سکھیوں نے
کتنے طعنے وہاں دیے ہوں گے
ہوں گی کیا کیا شکایتیں اُن کو
گلے شکوے بہت کیے ہوں گے
اس محل اور محل کی چیزوں کے
نام تحقیر سے لیے ہوں گے
5
اس کی دوشیزگی پہ حرف آیا
اس کی عفت کا پھول مرجھایا
یاد آیا ملیر جب اس کو
اس کی آنکھوں نے خون برسایا
کاش ان کو گلے لگائے وہ
پھر اسی انجمن میں جائے وہ
6
پیارا مارو جہاں کہیں ہو گا
چین دل کو مرے وہیں ہوگا
چنتی ہوں گی سہیلیاں ٹنڈے
وہ سماں کس قدر حسیں ہوگا
جانے کب میری آہ سے یا رب!
کوٹ خاکسترِ زمیں ہوگا
7
جوئے آب حیات ہے تھر میں
وہی پانی بجھانے پیاس آئے
اس کے قدموں پہ میری آنکھیں ہوں
جب وہ پیارا وفا شناس آئے
زندگانی ملیر میں گذرے
موت بھی ماروئوں کے پاس آئے
پھر ان ہی کملیوں میں سوجائوں
تھر کی رعنائیوں میں کھو جائوں
8
مژدہ لایا ہے طالع بیدار
آنے ہی والے ہیں وہ میرے پنوار
وہ میرے پاکباز آتے ہیں
جن کی ہیبت سے کانپتے ہیں حصار
صبحدم پھرتے ہیں چٹانوں پر
کھو کے میرے لئے وہ صبر و قرار
9
کس کی شادی میںمجھ کو جانا ہے
جو میں کملی کو اپنی دھلوائوں
کیسے پہنوں یہ ریشمی ملبوس
پاس مارو کو جب نہ میں پائوں
میری آنکھیں ملیر والوں کا
رات دن انتظار کرتی ہیں
اے عمر تجھ سے ان کو کیا نسبت
وہ تو مارو سے پیار کرتی ہیں
10
کیسے مارو کومیں برا سمجھوں
جو ہمیشہ سے دل میں بستا ہے
اور میری نظر میں کوئی نہیں
بس وہی خرقہ پوش اچھا ہے
11
میں نہیں چاہتی کسی عنوان
حرف میرے وقار پر آئے
منہ نہ دھوئوں گی میں یہاں ہرگز
میل چہرے پہ لاکھ جم جائے
12
کھال کو کھینچ کر نمک بھر دے
پھر بھی عہد وفا نہ توڑوں گی
سانس جب تک ہے میرے سینے میں
پیارے مارو سے منہ نہ موڑوںگی
13
ہوک اٹھتی ہے اشک بہتے ہیں
جب بھی مارو کی یاد آتی ہے
پیارے دوھیال کے تصور میں
ایک بجلی سی کوند جاتی ہے
اے عمر تیری خود سری لیکن
بیکسی کا مذاق اڑاتی ہے
14
کوششیں ہیں مجھے مٹانے کی
آہ! نیرنگیاں زمانے کی
چند تنکے ہیں برق کی زد پر
خیر ہو میرے آشیانے کی
گریۂ جاوداں ہوئی تعزیر
صرف اک بار مسکرانے کی
یہ سزا تھی مرے مقدر میں
پیارے مارو سے دل لگانے کی
اے عمر جان سے بھی پیاری ہے
خاک اپنے غریب خانے کی
کاش میں پھر وہیں پہنچ جائوں
یا وہ زحمت کریں خود آنے کی
دے رہی ہیں یہ بجلیاں مجھ کو
پھر تمنا نظر ملانے کی
ہائے یہ ابر و باد و برق و رعد
یاد آتی ہے آشیانے کی
15
جھونپڑوں اور کملیوں کا دیس
کس طرح میرا جی لبھاتا ہے
پیار ان بھولی بھالی سکھیوں کا
میری آنکھوں میں جگمگاتا ہے
تھر کے میووں کا ذائقہ اکثر
اپنی جانب مجھے بلاتا ہے
پیارے مارو کا وعدۂ فردا
مجھے رہ رہ کے یاد آتا ہے
16
یاد آتے ہیں تھر کے وہ دن رات
جھونپڑوں میں وصال کے لمحات
نامہ بر میرے پیارے مارو سے
کہنا رو رو کے میری ہر اک بات
بھوکی پیاسی ہوں میں کئی دن سے
بھیج دے دیس کی کوئی سوغات
ہائے یہ قید و بند تنہائی
حیف یہ دلفگار احساسات
برق کی طرح دیدۂ و دل میں
تلملاتی ہے یورش جذبات
میرے پہنوار اب تو آبھی جا
دشمنِ جاں ہے گردش حالات
17
پیارا مارو نہ تھر کے سبزہ زار
کوئی ساتھی نہ اب کوئی غمخوار
ہتھکڑی اور بیڑیاں توبہ
نت نیا سوگ نت نیا آزار
کھاتی ہوں گی سہیلیاں سنگر
اور ’کرڑوں‘ میںہوں گے برگ و بار
جاکے اے قاصد وطن ان کو
دینا میرا پیام پر ایثار
میرے سرتاج سے بصد آداب
کہنا اے خوش ادا و خوش اطوار
پھر انہیں پرسکوں فضائوں میں
کب بلائے گا مجھ کو تیرا پیار
18
قید میں گر وہ ماروی ہوتی
جا کر اس کو ابھی چھڑا لیتا
آڑے آتا عمر تو میں اس کو
جسم و جاں دے کے بھی منالیتا
کھول کر اس کے پیر کی زنجیر
پیار سے گود میں اٹھا لیتا
اے ’لطیف‘ اس ملیر والوں کو
کوٹ کے ظلم سے بچا لیتا
19
تن پہ کپڑا نہیں تو کیا غم ہے
مقصد جسم و جاں سمجھتے ہیں
ہم بیاباں نورد ’ڈھٹ‘ والے
تھر کو جنت نشاں سمجھتے ہیں
20
پاس جب تک تھے پیارے مارو جام
آتے رہتے تھے نامہ و پیغام
کیسے بھولوں میں ان کے احسانات
یاد ہے وہ ملیر کا آرام
وائے محرومی ان سے مجبوراً
چھٹ گیا تھر بہ پاسِ ننگ و نام
کن مقاموں سے اب گذرتے ہیں
ان کے خانہ بدوش صبح و شام
21
جیسے جڑ میں ’گنڈھیر‘ کی گانٹھیں
ویسے ہی دل میں ان کی چاہت ہے
میرا جینا بغیر مارو کے
ہائے کتنی بڑی اذیت ہے
اے عمر تیری سعی۔ٔ نامشکور
رخنہ انداز عیش و عشرت ہے
تجھ کو ان مارئووں سے کیا نسبت
ذات جن کی سراپا رحمت ہے
22
دیدۂ و دل میں گشت کرتے ہیں
وہ بیاباں وہ گھر وہ سبزہ زار
یاد ہیں تھر کے وہ خس و خاشاک
اور وہ پیارے مارئووں کا پیار
کاش میں پھر وہیں پہنچ جائوں
آج بھی ہیں جہاں مرے غمخوار
23
مجھ پہ مارو کے ہیں وہ احسانات
جن کا ہرگز بدل نہیں کوئی
سر سے اس کو نہ میں اتاروں گی
آبروے وطن ہے یہ لوئی
24
چھٹ گئی مارئووں سے مجبوراً
ورنہ بگڑے تھے کب مرے حالات
ان کا بدلہ چکائوں اب کیسے
مجھ پہ سکھیوں کے ہیں جو احسانات
25
چھٹ گئی قید و بند سے لیکن
دل میں زنجیر عشق ہوں ڈالے
چابیاں ماروئوں کے بس میں ہیں
کھول سکتا ہے کون یہ تالے
کس سے شکوہ کروں جدائی کا
جانے ہوں گے کہاں وہ تھر والے
جب سے میں اس محل میں آئی ہوں
پڑ گئے دل میں کتنے ہی چھالے
26
دفعتاً پھر گیا نگاہوں میں
عکس رنگیں ہر ایک منظر کا
خوبرو بہنیں اور وہ سکھیاں
وہ سہانا سماں مرے گھر کا
اے عمر کھل گئی کلی دل کی
بڑھ گیا جوش قلب مضطر کا
آپ ہی آپ کٹ گئی زنجیر
ذکر کس نے کیا مرے تھر کا
27
عالم الغیب کاتب تقدیر
میری عصمت پہ سایہ افگن تھا
اے عمر کچھ خبر بھی ہے تجھ کو
تو ازل ہی سے پاکدامن تھا
28
پیارے مارو چلے گئے تھر سے
لے گئے ساتھ اپنے احساسات
سوچتی ہوںکہ جب وہی نہ رہے
کیا رہے زندگی کے امکانات
29
گھٹ رہی ہوں میں تیرے محلوں میں
اور تو محو عیش و عشرت ہے
چیرہ دستی سے باز آ ظالم
تجھ سے بڑھ کر بھی کوئی طاقت ہے
مجھ کو جان عزیز سے پیارا
مارئووں کا غم محبت ہے
30
ختم کر اشک و آہ کو پیاری
بس یہ بدبختیاں ہیں ٹلنے کو
یہ سلاسل یہ طوق ہیں اب تو
اپنی ہی آگ میں پگھلنے کو
اورکچھ دن یونہی نہ ہمت ہار
تو ہے اس قید سے نکلنے کو
پھر اٹھا لے ذرا دعا کو ہاتھ
شب ہے نور سحر میں ڈھلنے کو
پھر ترے تھر میں آئے گی برسات
بھیگی بھیگی ہوا ہے چلنے کو
پھر انہیں مارئووں میں تو ہوگی
تیرے حالات ہیں سنبھلنے کو
ساعت نیک آنے والی ہے
سوز ہے ساز میں بدلنے کو
31
اپنی سج دھج کبھی نہ بھولوں گی
دیس کی آن بان ہے لوئی
مرتے دم تک بھی میں نہ بھولوں گی
پیارے مارو تری رضا جوئی
میں سراپا غم محبت ہوں
ورغلائے گا کیا مجھے کوئی
پھر مجھے مارئووں کی یاد آئی
دل کے زخموں نے تازگی پائی
وصل کی آرزو نہ جانے کیوں
رنگ سوز فراق کا لائی
اب نہ وہ تھر ہے اور نہ وہ مارو
بیٹھکیں ہیں نہ ان کی زیبائی
دل میں اب درد کا بسیرا ہے
میں ہوں اور یہ نحیف تنہائی
وائي
میرے من میں اس کا گھر ہے
اس کے من میں میرا ڈیرا
میں مارو کی، مارو میرا
طعنۂ دیگا پریتم پیارا
منہ اپنا میں کیسے دھولوں
تھر میں جب تک لوٹ نہ جائوں
یاد کروں اور چھپ کے رولوں
سومرا جیسی ہوں رہنے دے
کیا مانوں میں کہنا تیرا
میں مارو کی، مارو میرا
سر سوہنی
پہلی داستان
1
پر ہول و خطرناک سہی ورطۂ دریا
لیکن دل عشاق کو اس کی نہیں پروا
کرلیتے ہیں یہ غوطہ بحر محبت
خلوت ہی میں طوفان و تلاطم کا نظارہ
کاش انکو میں پھر دیکھ سکوںبرلب ساحل
وابستہ ہے جن سے مری تقدیر خدایا
2
دیکھے تو کوئی جوش تمناے محبت
پابندیٔ ساحل نہیں موجوں کو گوارا
ان کے لئے پہنائی دریا ہے بس اک گام
منظور ہے جن کو رخ جاناں کا نظارا
3
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اگر دیکھتی تم بھی
سکھیو!تمہیں بھولے سے بھی پھر چین نہ آتا
سوتیں نہ کبھی رات کو تم اپنے گھروں میں
ساہڑ کبھی صورت جو تمہیں اپنی دکھاتا
پھر تم کو لبھاتی نہ کسی اور کی صورت
میری ہی طرح تم کو بھی طوفان نہ ڈراتا
تم اپنے گھڑے لے کے بڑے شوق سے جاتیں
جس وقت بھنور اپنی طرف تم کو بلاتا
4
دل درد سے لبریز گھڑے سر پہ سجائے
وہ سوہنی کی سکھیاں چلیں سوہنی بن کے
بے چین جسے دیکھ کے ہوجاتی ہے منجدھار
سب پریم پجاری ہیں اسی ایک سجن کے
5
اب گھاٹ پہ سکھیوں میں ہے ساھڑ ہی کا چرچا
کیا جانیں کہ اس طرح تو ساہڑ نہیں ملتا
اس کیلئے جو کودے نڈر ہو کے بھنور میں
دیتا ہے سدا ساتھ وہ ساہڑ بھی اسی کا
6
جا پہنچے تھے سب اپنے بسیروں میں پرندے
لیکن تھا عجب حال میں اس کا دلِ ناکام
کس جوش تمنا سے وہ دوشیزۂ محزوں
داخل ہوئی دریا میں گھڑا لے کے سر شام
7
داخل ہوئی دریا میں گھڑا لے کے سرشام
بڑھتی ہی رہی یورش گرداب پہ ہر گام
’سر در قدم یارفدا شد چہ بجا شد‘
اے سوہنی! ہونا تھا یہی عشق کا انجام
پہنچیں تری رحمت سے وہ اس پار خدایا
ہے آمد شب جن کے لئے وصل کا پیغام
8
داخل ہوئی دریا میں گھڑا لے کے سر شام
گھبرائی نہ ہر گز کسی گرداب بلا سے
رو کے گا انہیں کون رہ عشق میں ’سید‘
کیا ڈر انہیں غیروں کا جو ڈرتے ہیں خدا سے
راتوں کو جنہیں ملتی ہے دیدار کی دولت
وہ پار اتر جائیں گے فیضان دعا سے
9
پھر سوہنی دریا میں گھڑا لے کے چلی ہے
ملنے کے لئے مہینوال سے اس پار
کہتی ہے کہ اس دھن میں ہو کچھ بھی مرا انجام
بڑھتی ہی رہوں گی میں اسی دھن میں لگاتار
ہر چندکہ درپیش ہے منجدھار ہی منجدھار
منجدھار، نہنگوں سے بھی مانوں گی نہ میں ہار
10
جب سوہنی دریا میں گھڑالے کے چلی تھی
آیا تھا اچانک یہ برا وقت بھی اس پر
دلدل کی کثافت میں اٹے بکھرے ہوئے بال
لتھڑے ہوئے کیچڑ میں چمکتے ہوئے زیور
گھڑیال وہ خونخوار، خطرناک وہ منجدھار
جاتی تو کہاں جاتی ان آفات سے بچ کر
11
سکھی! قربان جائوں اس گھڑے پر
نہ ٹوٹے یہ مری آنکھوں کا تارا
ملا ہے اس طرف مجھ کو مہینوال
دیا ہے جب مجھے اس نے سہارا
12
کبھی ہمت نہ ہاروں گی مہینوال
چلی آئوں گی جب تو نے پکارا
گھڑے کے ٹوٹنے کا غم نہیں ہے
مجھے درکار ہے تیرا سہارا
اسے روکا نہ گردابِ بلانے
تری رحمت نے جس کو پار اتارا
13
گھڑا ٹوٹا تو یہ آواز آئی
نہیں دونوں میں اب کوئی جدائی
شکست جسم خاکی سے ہے پیدا
ربابِ روح کی نغمہ سرائی
وصال یار کی راحت پہ قرباں
طریقِ زہد و رسمِ پارسائی
14
سہارے روح کے اب تیرتی جا
گھڑا ٹوٹا تو ٹوٹا دل نہ ٹوٹے
تجھے دکھلا گیا ہے جو مہینوال
وہ سیدھا راستہ ہرگز نہ چھوٹے
15
طالبِ وصل یار بڑھ آگے
دیکھ محروم شوقِ دید نہ ہو
کیوں گھڑا ٹوٹنے سے ہے مایوس
اس کی رحمت سے ناامید نہ ہو
16
اب گھڑا ہے نہ سوہنی باقی
اف! مہینوال کی شناسائی
ہو گئے اس کے سب جتن بیکار
اپنی سج دھج اسے نہ راس آئی
ہر سہارے نے ساتھ چھوڑ دیا
ختم ہونے لگی توانائی
جان سے اپنی ہاتھ دھو بیٹھی
کھینچ کر موت اسے کہاں لائی
جاوداں عرصۂ محبت میں
رہ گئی صرف اس کی یکتائی
17
دے رہی ہے یہ دل نشیں پیغام
تجھ کو آبِ رواں کی گہرائی
توڑ دے اپنے ہر سہارے کو
کام آتی نہیں یہ خود رائی
سوہنی، جادۂ محبت میں
شرط ہے روح کی توانائی
18
کیوں گھڑا ٹوٹنے سے ہے مایوس
اٹھ گیا ایک پردۂ حائل
موج آبِ رواں پہ بہتی ہے
کیسا گرداب اور کیا ساحل
بیخودی شرط ہے محبت میں
خود فریبی ہے سعئی لا حاصل
جادہ پیماے معرفت کے لئے
عشق ہوتا ہے رہبر کامل
19
اس جہانِ وسیع و تنہا میں
اک محبت کا آسرا کیا ہے
ہم تو پروردۂ تلاطم ہیں
ساحل آسودگی بلا کیا ہے
سازو سامان زیست بے معنیٰ
ہر تگ و دو کی انتہا کیا ہے
زلفِ پرخم سے موج پیچاں تک
یہ تمنا کا سلسلہ کیا ہے
سوہنی، جذبۂ محبت کو
موج و طوفان سے واسطہ کیا ہے
20
بس مہینوال ہے انہیں کا میت
جن کے من میں بسی ہے اس کی پریت
کھیل ہے جن کے سامنے منجدھار
ہار میں بھی ہے ان کے من کی جیت
کیوں کسی اور کا سہارا لیں
جن کو معلوم ہے ملن کی ریت
21
بحر ہستی کا ناخدا بھی عشق
موجۂ ورطۂ فنا بھی عشق
عشق راز، بلندیٔ انساں
عشق ساز خودی، خدا بھی عشق
22
نہ کوئی سوہنی نہ جاناں ہے
نہ کوئی آب جُو نہ طوفاں ہے
ایک سربستہ رازِ عرفاں ہے
ایک گم گشتہ سرِّ انساں ہے
وائي
نہ سمجھوں اونچی نیچی بات
جگت کی کوئی ریت نہ بھائے
پیا بن میرا جی گھبرائے
رہوں میں دنیا میں چپ چاپ
میں اپنے من کی ہوک چھپائے
پیا بن میرا جی گھبرائے
بنوں میں ان چرنوں کی دھول
مری من مورکھتا مٹ جائے
پیا بن میرا جی گھبرائے
بہتے پانی سا سنسار
کئی ببولوں کو چمکائے
پیا بن میرا جی گھبرائے
اسی مانجھی کو میں اپنائوں
جو میری نیا پار لگائے
پیا بن میرا جی گھبرائے
برھا ہے میرا چت چور
سکھی ری مجھ کو چین نہ آئے
پیا بن میرا جی گھبرائے
جس کو من کا میت بنایا
وہی اب میرا روگ مٹائے
پیا بن میرا جی گھبرائے
دوسری داستان
1
قعر دریا و شورش امواج
اور ہر سمت خشگمیں گرداب
دیکھئے سوہنی کی ہمت کو
ایک دل اور کتنے پیچ و تاب
اے خوشا لطفِ کارساز ’لطیف‘
موج طوفان بھی ہوگئی پایاب
2
الاماں، الحفیظ، ہائے غضب!
یورش موجۂ تلاطلم خیز!
سوہنی بے نیاز بیم و رجا
ہوگئی موت سے ستیز انگیز
کاش تیرے کرم سے وہ پہنچے
تا لبِ ساحل سکوں آمیز
3
اس خطرناک قعر دریا میں
کوئی کچا گھڑا نہ کام آیا
ہو گئے جب مرے جتن بیکار
یاد اس ناخدا کا نام آیا
4
کیسی تاب و تواں کہاں کا ہوش
اہلِ ہمت بھی ہو گئے خاموش
قعر دریا نہنگ در آغوش
موجۂ آب صد بلا بردوش
ان سے بچ کر کوئی کہاں جائے
مجھے اس پار کون پہنچائے
5
قعر گرداب و شورشِ امواج
دہشت انگیز جوش طغیانی
کیسے مشکیزے اور کیا تیراک
کچھ نہیں جز شکستہ سامانی
کاش تیرے کرم سے مل جائے
اپنا ساحل مجھے بآسانی
6
روح فرسا ہے دہشت امواج
جوئے طوفاں بدوش بہتی ہے
گہرے پانی میں مضطرب ہو کر
نازنیں سوہنی یہ کہتی ہے
وہ مہینوال مجھ کو مل جائے
جستجو جس کی مجھ کو رہتی ہے
7
یونہی منجدھار میں بہے کب تک
دور محبوب سے رہے کب تک
اے مہینوال دکھ جدائی کے
رات دن سوہنی سہے کب تک
8
دہشت انگیز ہے بہت گرداب
تیز موج بلا کی شورش ہے
عین منجدھار میں پھنسی ہوں میں
میری قسمت کی آزمائش ہے
آسرا ہے ترا مرے مالک
ورنہ کیا چیز میری کوشش ہے
9
اس طرف پانی، اس طرف پانی
موج و طوفاں کی فتنہ سامانی
اسے مہینوال دیکھتا ہے تو
قہر گرداب، جور طغیانی
قعر جوے رواں میں آ بھی جا
اس کڑے امتحاں میں آ بھی جا
10
کلبلاتی ہوئی نفیریں ہیں
میری واماندہ روح کی غماز
جان لیوا ہے زور موجوں کا
میری امداد! اے مرے ہمراز
کہیں ایسا نہ ہو کہ رہ جائے
شور طوفاں میں ڈوب کر آواز
11
دہشت انگیز شورش طوفاں
دشمن جاں مصیبتیں، آزار
تاک میں موجہاے طوفاں خیز
ناخدائوں کی کوششیں بیکار
جانے کتنی ہی کشتیاں ڈوبیں
کتنے گرداب میں پھنسے ہشیار
کون سمجھے یہ قہر نادیدہ
کس کو معلوم کیا ہے یہ منجدھار
اے مہینوال اب تو پہنچادے
اپنی رحمت سے تو مجھے اس پار
12
یہ تلاطم یہ ورطۂ دریا
کونسی دھن میں ہیں خدا جانے
جز شناساے قلزم ہستی
کوئی ان کے رموز کیا جانے
وائي
دیا کر میرے کھیون ہار
رہوں میں کب تک آس لگائے
مجھ کو تیری یاد ستائے
من کو مرے موہے منجدھار
لہر لہر مجھ کو للچائے
مجھ کو تیری یاد ستائے
میں چھوڑوں جگ جیون کا ساتھ
آجا! تجھ بن چین نہ آئے
مجھ کو تیری یاد ستائے
تیسری داستان
1
کون ہوتا ہے خوگرِ گرداب
جز شناساے قلزم ہستی
فکرِ طوفان نہ رغبت ساحل
عشق ہے ناخداے سرمستی
2
سوہنی کو نہیں غمِ ساحل
عشق محبوب کار فرما ہے
یہ بھنور اور یہ شب تاریک
جز طلسمات ظاہری کیا ہے
جرأت شوق ہے نگاہوں میں
قعر دریا حباب آسا ہے
3
سوہنی اور منت ساحل
عشق کو یہ کہاں گوارا ہے
’ڈم‘ کی طاقت ہے، جسم تک محدود
اور مہینوال کا سہارا ہے
پیارے ساہڑ کی ناخدائی سے
موجِ طوفان ہی خود کنارا ہے
4
فکرِ ساحل ہے شیوۂ باطل
سوہنی محو حق پرستی ہے
وہ مہینوال کی محبت میں
بے نیاز۔ قیود ہستی ہے
کیسا گرداب اور کیا دریا؟
دل کی مستی عجیب مستی ہے
5
نور آنکھوں میں آرزو دل میں
ہر طرف موجزن محبت ہے
ساحل زشت و خوب کیا معنیٰ
سوہنی طالب حقیقت ہے
کیا بگاڑیں گے اس کا یہ گرداب
جس پہ اس ناخدا کی رحمت ہے
6
ناخدا تھا نہ کوئی کشتی تھی
پھر بھی حائل نہ ہوسکا گرداب
اے خوشا سوہنی کا جذبۂ شوق
موجِ طوفاں بھی ہو گئی پایاب
7
سوہنی نے ہمیشہ سمجھا ہے
اک مہینوال کو گلے کا ہار
اس جہانِ بسیط میں اس کو
جز غم عشق کچھ نہیں درکار
8
تیری زیبائش لب و رخسار
تیری حرص و ہوا، ترا پندار
رغبتِ سایۂ در و دیوار
رسم مہر و وفا نہیں زنہار
9
یہ الف اور میم کی قربت
سوہنی خوب ہے تری قسمت
اک مہینوال کو پسند آئی
تیری کیا بات اے وفا طینت
10
سوہنی نے پکڑ لیا دامن
رہ۔روِ جادۂ محبت کا
معرفت کے کھلے انہیں پر راز
جن کو ادراک ہے حقیقت کا
11
ہیں بہرحال صابر و شاکر
دل گرفتہ بقیدِ تنہائی
مسلک عاشقانِ عزلت گیر
رازداری و خولت آرائی
تیرتی ہے بغیر مشکیزہ
اے خوشا روح کی توانائی
12
کیا ڈراتی اسے شب تاریک
مطمئن تھی وہ موج طوفاں سے
بے کسی، بے بسی میں بھی نہ پھری
سوہنی اپنے عہد و پیماں سے
بندشیں ڈم کی ہوگئیں بے سود
مرحبا وصلِ شاہد و مشہود
13
جن کو اس پار کی تمنا ہے
خوف گرداب کا انہیں کیا ہے
وہ مہینوال کو بھلا نہ سکا
جس نے اک بار اس کو دیکھا ہے
جان جاناں ہے وہ تپیدۂ عشق
قعر دریا میں آرمیدۂ عشق
14
ڈم نے ہر چند پیش بندی کی
سوہنی پھر بھی کامیاب ہوئی
جب مہینوال کے بغیر اسے
زندگی باعث عذاب ہوئی
ختم سب ہوگئے نشیب و فراز
اور لگی دل کی بے نقاب ہوئی
15
تندیٔ باد و شدت سرما
دور محبوب، درمیاں گرداب
حرف آئے نہ عہد و پیماں پر
المدد، المدد، دلِ بیتاب
16
ہائے وہ تیز سردیوں کی رات
بیچ منجدھار اور وہ برسات
کیا ہوا سوہنی کا پھر انجام
آئو معلوم تو کریں یہ بات
17
اے خوشا سوہنی کی تیراکی
زیرِ گرداب جس کا ساحل ہے
جوش طوفان و شدت سرما
پار اترنا بڑا ہی مشکل ہے
کون روکے گا کودنے سے انہیں
قعر دریا ہی جن کی منزل ہے
18
آ بتائوں میں تجھ کو اے بجرے
اپنی بے چین زندگی کا حال
سکھ ہے تن من کا گہرے پانی میں
اور کنارہ مرے لئے ہے وبال
سردیوں میں بھی لطف ساون کا
یوں گذرتے ہیں میرے ماہ و سال
وہ مہینوال جلوہ گر ہے جہاں
آرہا ہے مجھے وہاں کا خیال
19
کوئی جا کر کہے یہ دریا سے
جوش طوفاں کا اعتبار نہیں
رت ہے ساون کی چند دن کے لئے
ابر باراں سدا بہار نہیں
20
اب جہان تو ہے ریگ زار بنے
خشک دیکھوں میں تیرے دھاروں کو
کوئی آفت ملا کے ایک کرے
دور افتادہ ان کناروں کو
تو نے اے جوے آب، غرق کیا
جانے کتنے امیدواروں کو
21
شوروشر یہ کہاں تک اے دریا
ڈونگیوں کو نہ کر تہِ گرداب
اپنے دل سے بھلا سکوں گی کیا
میں مہینوال کی وہ آب و تاب
خوف کیا تجھ کو موج طوفاں کا
پاس ہے اپنے عہد و پیماں کا
22
تیری خدمت میں جاوداں دریا
اور میں ایک عاشق ناکام
لا کہیں سے مرے لئے بجرے!
اس مہینوال کا کوئی پیغام
23
سوہنی تیری روح پر ایثار
بادۂ جذب و عشق سے سرشار
ہو مہینوال جس کے دل میں مکیں
کچھ نہیں اس کے سامنے منجدھار
وائي
او پیارے مہینوال بچا لے گہری ہے منجدھار
تجھ بن ’ڈم‘ کے ساتھ رہوںمیں؟
کب تک یہ دکھ درد سہوں میں؟
کیسی ہوں کیا بات کہوں میں؟
کوئی نہیں اس گھاٹ پہ ساجن میرا کھیون ہار
او پیارے مہینوال بچا لے گہری ہے منجدھار
کچا گھڑا ہے رین اندھیری
کون سنے گا بپتا میری
ہائے بھنبھور کی ہیرا پھیری
آ بھی جا بجرے کو لے کر پہنچا دے اس پار
اوپیارے مہینوال بچا لے گہری ہے منجدھار
چنچل ندیا گہرا پانی
اور یہ لہروں کی من مانی
ہائے میری بھرپور جوانی
تاک میں چاروں اورکھڑے ہیں کتنے ہی خونخوار
او پیارے مہینوال بچا لے گہری ہے منجدھار
چوتھی داستان
1
اکثر اوقات کر گئی مجھ کو
نے کی آواز لرزہ براندام
جذبۂ عشق! بے قرار نہ ہو
راز محبوب ہو نہ طشت ازبام
خلوت دل میں آئے در پردہ
دور افتادہ دوست کا پیغام
2
نالۂ نے، خموشی صحرا
چشم خوابیدہ ہو گئی بیدار
دل میں ہیجان سا ہوا برپا
چین آیا نہ پھر مجھے زنہار
3
پے بہ پے سن رہی ہوں نالۂ نے
کیا مہینوال ہے کہیں دلگیر
جیسے میں ہوں اسیر جذبۂ شوق
اور عالم ہے حلقہ زنجیر
4
یہ شب تار، یہ سیہ گرداب
مطمئن ہے مگر دلِ معتوب
راہبر بن گیا ہے نالۂ نے
قعر دریا ہے جادۂ محبوب
5
نالۂ نے سکوت نیم شبی
سوہنی خواب سے ہوئی بیدار
وہ مہینوال اور وہ اس کی یاد
چشم وارفتہ طالب دیدار
6
دلِ غمگیں میں نالۂ نے سے
ایک تازہ شگفتگی آئی
خلوت آرا ہوئی کسی کی یاد
جگمگانے لگی ہے تنہائی
پھر کسی کا خیال درپے ہے
یہ فراق و وصال کیا شے ہے
7
اس مہینوال سے ملوں گی میں
تابکے غفلت و گراں خوابی
دشت میں گونج اٹھی صداے جرس
المدد! اے جنونِ بیتابی
8
آئی اس پار سے صداے جرس
چشم خوابیداہ ہوگئی بیدار
مندمل زخم ہو گئے تازہ
یاد پھر آگیا مجھے غمخوار
پھر مہینوال کی طرف لے جائے
کیا عجب مجھ کو حسرت دیدار
9
پیارے ’ساہڑ‘ کی پیروی کرکے
اک نیا گل کھلا گئیں بھینسیں
ان کی آواز میں تھا کیا جانے؟
محو حیرت بنا گئیں بھینسیں
10
آرہی ہے کہاں سے یہ آواز؟
اس مہینوال کی نہ ہو یہ نفیر!
اے تمناے مسکنِ محبوب
توڑ دے موجِ آب کی زنجیر
11
پھر مہینوال اس کو یاد آیا
سوہنی کی پھر آنکھ بھر آئی
جاکے بھینسوں کے پاس کہنے لگی
دیکھتی ہوں تمہاری برنائی
جانتی ہوں یہ میں کہ تم کو بھی
ہے مہینوال سے شناسائی
آئو تم کو گلے لگائوں میں
کم ہو کچھ رنج آبلہ پائی
ساتھ ـ’ڈم‘ کے نہ رہ سکوں گی میں
چاہے کتنی ہو میری رسوائی
12
جس جگہ سے چلیں تری بھینسیں
پھر وہیں لوٹ لوٹ کر آئیں
اے مہینوال تیری بھینسیں بھی
دور رہ کر بہت ہی پچھتائیں
13
اک مہکتی ہوئی صباحت ہے
نشۂ عشق سے خمار آلود
چوٹ کھائے ہوئے محبت کی
فطرۃٔ بے نیاز رسم و قیود
پھر مہینوال کی طرف ہے رواں
سر بسر ایک شعلۂ بے دود
14
ایک ہی گھونٹ پی کے اے ’سید‘
ہائے کیا سوہنی کا حال ہوا
بے مہینوال، سوہنی کے لئے
زندہ رہنا بڑا محال ہوا
15
ہو وہی آن بان ’کٹیوں‘ کی
ان کا مالک رہے سدا خوشحال
نت نئی ہو چہل پہل اس کی
کاش اجڑے کبھی نہ وہ چوپال
لوگ کچھ بھی کہیں مجھے لیکن
میرے دل میں رہے اسی کا خیال
16
وہ مہینوال کی ملاقاتیں
آج بھی مجھ کو یاد آتی ہیں
اس کی وہ کٹیاں اور وہ بھینسیں
میری آنکھوں میں جگمگاتی ہیں
ہائے وہ صبحیں ہائے وہ شامیں
مجھ کو لائیں جو قعر دریا میں
17
خوش رہیں اس کے سارے چوپائے
اور سرسبز ہوں چراگاہیں
کاش پھر سامنے ہو وہ منظر
بھرتی ہوں جس کی یاد میں آہیں
18
ہو کے آسودۂ شکم سیری
ساتھ چلنے کو ہوگئیں تیار
حکم دیتا ہے جو انہیں مالک
ٹال سکتیں نہیں اسے زنہار
اس قدر خوش ہیں گہرے پانی میں
جیسے دریا ہو ان کا گہرا یار
پیارے ساہڑ کے نقش پاپہ چلیں
خود بخود ہی پہنچ گئیں اس پار
خود مہینوال چاہتا ہے جنہیں
تیر جاتی ہیں پل میں وہ منجدھار
کیوں نہ ہوں شاد کام وہ بھینسیں
مہرباں جن پہ ہے وہ کھیون ہار
وائي
کھینچ رہی ہے پریت پیاکی مجھے نہ کوئی روکے
اپنے ہی من کو سمجھائے اپنے آپ کو ٹوکے
مجھے نہ کوئی روکے
چڑھی ہوئی یہ چنچل ندیا اور یہ آدھی رات
پریتم ہے اس پار میں پکڑوں کیسے اس کا ہات
یہ لہروں کے جھو کے
مجھے نہ کوئی روکے
پریت کی اگنی سلگ رہی ہے دھواں سا ہے اس پار
میرا من بھی جھلس رہاہے لے چل اے منجدھار
کوئی نہ مجھ کو ٹوکے
مجھے نہ کوئی روکے
پانچویں داستان
1
جس طرف بھی نظر اٹھی دریا
دور اس پار کا کنارا ہے
تند گرداب جوش میں طوفاں
روح فرسا ہر ایک دھارا ہے
سوہنی اور سعٔی لاحاصل
المدد! اے خداے آب و گل
موج و طوفاں سے تا لب ساحل
سایہ افگن ہو رحمتِ کامل
2
کیا انہیں اپنی جان کی پروا
خود مہینوال جن کو اپنائے
کیا ڈریں گے وہ موج و طوفاں سے
موج و طوفاں ہی جن کو راس آئے
3
سوہنی آئیں گہرے پانی میں
جن کو جانا ہے شوق سے اس پار
ہے مہینوال بھی وہیں موجود
حلقہ زن ہے جہاں جہاں منجدھار
4
فکر مشکیزہ کے بغیر یہ لوگ
اپنے دل کی لگن بجھاتے ہیں
یہ بھنور کیا ڈبوئیں گے ان کو
خود بھنور جن میں ڈوب جاتے ہیں
5
جو تھے مقبول بارگارہ وفا
موج طوفاں بھی ان کو راس آئی
اے مہینوال دلربا میرے
میں نے اب تک نہ وہ جھلک پائی
جو تری یاد بن کے آتی ہے
کالی راتوں کو جگمگاتی ہے
6
یادِ جاناں، سکوتِ نیم شبی
روح میں اضطراب و پیچ و تاب
تو ہے مقبول بارگاہ وفا
سامنے تیرے کیا ہے یہ گرداب
آشبستانِ یار میں آجا
پرتو۔ِ صبح کی طرح چھا جا
7
جس طرف لے چلا ہے دل مجھ کو
تاک میں ہے اسی طرف منجدھار
وہ مہینوال ہے کہاں یا رب
کشتی دل کا ہے جو کھیون ہار
8
عشق میں پیچ و تاب، کیا معنی
خلش و اضطراب کیا معنی؟
جب مہینوال محتسب ہے خود
فکر روز حساب کیا معنی؟
9
گو بظاہر وہ دور ہے لیکن
درحقیقت قریب ہے دل سے
قعر دریا سے بھاگنے والے
کچھ نہ تجھ کو ملے گا ساحل سے
10
وہ مہینوال ہے کہاں یا رب!
اس کو میں ڈھونڈنے کہاں جائوں
اے گوالو! تم ہی بتائو کچھ
کس طرح اپنے جی کو بہلائوں
خود ہی اس کو خیال آجائے
جب میں آنکھوں سے نیر برسائوں
جس کی دوری عذاب جاں ہے مجھے
اس کو پھر اپنے سامنے پائوں
11
ڈم کا ڈر ہے نہ خوف دریا کا
سوہنی نے نیازِ سود و زیاں
کون جانے سواے تاروں کے
کہ مہینوال جلوہ گر ہے کہاں
12
اس مہینوال کی محبت میں
دشمنِ صبر امتحان نہ ہوا
ڈم نے طعنے تو سوہنی کو دیئے
دل مگر اس کا بدگماں نہ ہوا
13
اب حد نیک و بد سے دور ہوں میں
آزمائے گا کوئی کیا مجھ کو
بڑھ گیا پھر سکوت نیم شبی
یاد آیا وہ دلربا مجھ کو
14
ڈوبتے ہی عمیق دریا میں
سب فنا ہو کے رہ گئے اوہام
جسم فانی سے کر گئی پرواز
یک بیک اس کی روح تشنہ کام
آرزوے حیات سے بہتر
ایسی پرکیف مرگ بے ہنگام
اس کی وارفتگی کا کیا کہنا
عشق آغاز عشق ہی انجام
عشق اسے راس آگیا ورنہ
جانتا کون سوہنی کا نام
15
رازدارانہ رات دن گرداب
ذکر ان عاشقوں کا کرتے ہیں
جرعۂ عشق کی طلب میں جو
تہِ گرداب میں اترتے ہیں
16
مثل ماہی مری تمنائیں
قعر دریا میں تشنہ رہتی ہیں
اک مسلسل تلاش میں دن رات
موج آب رواں پہ بہتی ہیں
17
ڈم کا غصہ، بھنور کی داروگیر
ایک نادیدۂ خواب کی تعبیر
میں کہاں اور سیلِ آب کہاں
سامنے ہے نوشتۂ تقدیر
18
ڈوبتی ہوں تو ڈوب جانے دو
میرا پیار مجھے ابھارے گا
سرخرو ہوکے جائوں گی اس پار
جب وہ آکر مجھے پکارے گا
19
ہائے یہ کون بیقرار آیا
سوے دریاے جاں شکار آیا
موج و گرداب کے تھپیڑوں میں
کون گل پوش و گلزار آیا
ایک طوفانِ رنگ و بو اٹھا
دفعتاً سوے جوئبار آیا
20
ہو نہ تر دامنی اگر حائل
موجِ طوفاں ہی ناخدا بن جائے
لو لگائے رہے جو ساہڑ سے
کس کو معلوم کیا سے کیا بن جائے
21
ہائے کس سوچ میں پڑی ہوں میں
ہر طرف اک فساد کا ڈر ہے
گر نہ جائوں تو خلوت شب میں
اپنے ساہڑ کی یاد کا ڈر ہے
اور اگر جائوں میں کبھی اس پار
تو جہاں کے عناد کا ڈر ہے
22
کس کو اپنا بنائوں میں یا رب!
الجھنیں میری کون سلجھائے
میرے دل کو لگن ہے ساہڑ کی
چین اس کے بغیر کیا آئے
وائي
نینوں کو پائوں بنائوں
ساجن کے دوارے جائوں
سکھیو! جب لوٹ کے آئوں
پریتم کا بھید چھپائوں
ساجن کے دوارے جائوں
مہینوال کی پریت لگن کو
من ہی من میں بہلائوں
اوروں کو نہ کچھ بتلائوں
ساجن کے دوارے جائوں
چھٹی داستان
1
کیا مہینوال، سوہنی تھی کون؟
راز سربستہ ہی رہی یہ بات
فہم و ادراک کی رسائی سے
ماورا آرزو کے امکانات
2
کیا مہینوال، سوہنی کیا تھی
درحقیقت وہ سرخوشی کیا تھی
ماورائے ازل نمو جس کی
کون جانے وہ عاشقی کیا تھی
3
یاد عہدِ ازل رہا اس کو
زندگی بھر وفا پرست رہی
کہ مہینوال کی محبت میں
سوہنی سرخوشِ الست رہی
4
یاد ہے مجھ کو عالم ارواح
جاوداں میرے عہد و پیماں میں
ہوں مہینوال کی ازل سے میں
لوح محفوظ میرے ارماں ہیں
5
میں مہینوال کا نہ چھوڑوںساتھ
یاد روحوں کا عہد و پیماں ہے
میں ازل سے ہوں راز دار الست
پیارے ساہڑ پہ جان قرباں ہے
6
کر دیا آشکار روحوں پر
جب احد نے الست کا فرماں
تو مہینوال کی محبت میں
سوہنی جان سے ہوئی قرباں
ٹوٹنا ہی گھڑے کا راس آیا
اے خوشا جذب عشق کا ہیجاں
قعرِ دریا کی تہ بہ تہ موجیں
اور اس کے وہ مضطرب ارماں
7
جن کی روحیں تھیں آشناے الست
وحدتِ حق کے راز دار ہوئے
اور جو محوِ ماسوا ہی رہے
اپنے اوہام کا شکار ہوئے
8
جستجو ، اضطراب سوزِ دروں
جز محبت یہ زندگی کیا ہے
بحرِ ہستی سے سیر ہو نہ سکی
کون جانے یہ تشنگی کیا ہے
9
اک مسلسل تپش مری ہستی
موت بھی مجھ کو ساز گار نہیں
اکثر اوقات خلوت شب میں
ایک پل بھی مجھے قرار نہیں
اک خلش سی ہے سعئی لاحاصل
ہائے میں پھر بھی سوگوار نہیں
10
گھڑا کچا، تلاطم خیز دریا
گرجتی گونجتی موجیں رواں ہیں
یہ آدھی رات، یہ پرھول گرداب
یہ جسم نازنیں، سب چیستاں ہیں
بعید از فہم ہیں یہ ساری باتیں
عجب تقدیر کی نیرنگیاں ہیں
11
اُسے تیرہ شبی سے خوف کیسا
جسے ہے موج طوفاں ہی کنارا
وہ مشکیزہ ہو یا کچا گھڑا ہو
نہیں درکار اب کوئی سہارا
پہنچ جائے گی وہ دل کے سہارے
مہینوال اس طرف سے جب پکارا
12
گھڑا کچا ہے، میرے سر پہ چھائے
برستی رات کے گھنگھور سائے
فضا ایسی کہ جیسے شیر کوئی
کہیں بیٹھا ہو اپنا سر اٹھائے
سہارا دے مجھے جوشِ محبت
کمی جوش محبت میں نہ آئے
نڈر ہو کے میں اب دریا میں اتروں
بلا سے جان جاتی ہے تو جائے
13
کنارا صرف ساجن کے لئے ہے
تجھے گہرا بھنور ہی راس آئے
وہیں اے سوہنی! منزل ہے تیری
جہاں تو اتفاقاً ڈوب جائے
14
اسے کچے گھڑے کا کیا سہارا
جسے منجدھار میں رہنا گوارا
خدایا تیری رحمت کے حوالے
نہیں جس کے لئے کوئی کنارا
15
عجب تھا سوہنی کا جذب الفت
کہ خود دریا بھی آتش زیر پا تھا
کیا تھا غرق جس نے سیکڑوں کو
وہی اب کشتہ مہر و وفا تھا
16
کہیں پر ہول دریائوں کے ڈر سے
چلن بدلا ہے اپنا عاشقی نے
خوشا وہ جذبۂ ایثار الفت
جسے اپنا لیا تھا سوہنی نے
17
کوئی اس ڈوبنے والی سے کہہ دہے
نہیں زیبا تجھے کوئی سہارا
کہیں ایسا نہ ہو اے غیرت عشق
کہ طعنہ دے تجھے وہ تیرا پیارا
18
اگر ہے ڈوبنے کا شوق تم کو
تو بے خوف و خطر دریا میں آئو
نظر آئے گر ساجن کی نیا
تو بھولے سے نہ ہاتھ اس کو لگائو
کٹھن ہے یہ ملن کی ریت لیکن
جہاں تک نبھ سکے ہنس کر نبھائو
19
جہاں ڈوبے کوئی ناکام الفت
وہیں آتا ہے وہ محبوب پیارا
سمٹتی ہیں ادھر دریا کی موجیں
ادھر دامن بڑھاتا ہے کنارا
’لطیف‘ اس ڈوبنے والی کی قسمت
جسے مل جائے ساہڑ کا سہارا
20
نہ ساہڑ ہے نہ کوئی سوہنی ہے
فقط قلب و نظر کی بے خودی ہے
وہاں کیا اعتبار موج و ساحل
جہاں بس عاشقی ہی عاشقی ہے
نہ لے اے ڈوبنے والے سہارا
تری منزل یہی وارفتگی ہے
21
مرے ابیات پر معنی کی کیا بات
شگفتہ صورتِ آیاتِ قرآں
دل انساں پہ کھلتے جارہے ہیں
رموزِ معرفت، اسرارِ عرفاں
وائي
مرے من میں یاد سجن کی
سکھیو! ہے پیا کے کارن
یہ درگت مجھ برھن کی
مرے من میں یاد سجن کی
گھر بیٹھے چین نہ آئے
ساہڑ جیارا تڑپائے
ڈم نشدں مار لگائے
من وینا ٹوٹ نہ جائے
چت چور وہ سندر گوالا
مرا پیارا مرلی والا
پہلے تو ندی میں ڈالا
پھر بڑھ کر آپ نکالا
بر آئی آس ملن کی
مرے من میں یاد سجن کی
ساتویں داستان
1
اک مہینوال کی تلاش سدا
عین راحت ہے سوہنی کے لئے
شور انگیز و فتنہ خیز بھنور
کھیل ہے اس کی بے خودی کے لئے
ہائے وہ اضطراب قلب و نظر
ایک نادیدہ روشنی کے لئے
2
میرے کچے گھڑے کی لاج رہے
بیچ منجدھار میں پھنسی ہوں میں
رحم کر مجھ پہ میرے کھیون ہار
اپنے ساہڑ کو ڈھونڈتی ہوں میں
3
کیسی تجہیز اور کیا تکفین
مرگ عاشق صلاے عام نہیں
مر کے بھی اس کی روح وارفتہ
جز غمِ دوست شاد کام نہیں
4
لب دریا پہ ناخدائوں سے
یہ مہینوال پوچھتا ہے سوال
آئو دیکھو تو اس بھنور میں ذرا
ڈال کر تم سب اپنے اپنے جال
کس طرف ہے وہ ڈونبے والی
پردۂ راز میں ہے جس کا حال
کون جانے کدھر گئی آخر
قعر دریا میں روح حسن و جمال
اے رفیقو! اسے جہاں پائو
میری آنکھوں کے سامنے لائو
5
ڈوبنا سوہنی کا اے دریا
تاقیامت رہے گا مجھ کو یاد
دیکھ کر اپنی چیرہ دستی کو
موج مضطر ہے مائل فریاد
6
لوگ ساحل پہ کانپ کانپ اٹھے
دیکھ کر آبِ جو کی گہرائی
جس بھنور میں کوئی نہیں جاتا
کس طرح سوہنی یہاں آئی
7
موج طوفاں اسے ڈبو نہ سکی
جو بھی ساہڑ کا ہو گیا دل سے
ہو بھروسہ جسے توکل پر
کیا سروکار اس کو ساحل سے
8
دے رہا ہے کوئی مجھے آواز
معتبر جذبۂ محبت ہے
یہ گھڑا اور تندخو دریا
جو بھی پیش آئے میری قسمت ہے
ہے یقیں مجھ کو میں نہ ڈوبوں گی
آزمودہ مری صداقت ہے
9
اے تمناے جلوۂ محبوب
چاک کر دے یہ پردۂ اوہام
اب مہینوال کے بغیر تجھے
عالمِ بے ثبات سے کیا کام
عاشقی ہے صفاے قلب و نظر
کیسا آغاز اور کیا انجام
10
میری دلبستگی کا کیا کہنا
سیر حاصل ہے جلوۂ محبوب
جس کی طالب تھی روح وارفتہ
آج پیش نظرہے وہ محبوب
11
دل ہے وابستۂ غم محبوب
کثرت آرزو سے کیا نسبت
اس مہینوال کے بغیر مجھے
عالم رنگ و بو سے کیا نسبت
وائي
سجنا موھے بھول نہ جانا
ہر موتی بھینٹ چڑھائوں
جب تجھ سا ہیرا پائوں
سو جان سے واری جائوں
میں من ہی میں مسکائوں
مری جیون جوت جگانا
سجنا موھے بھول نہ جانا
دوبھر ہے تجھ بن جینا
ٹوٹے نہ مری من وینا
مرے من کی دھیر بندھانا
سجنا موھے بھول نہ جانا
آٹھویں داستان
1
جو ہیں داناے رازِ موج طوفاں
سمجھتے ہیں وہ رحمت کا اشارا
کسے معلوم ہے تائید غیبی
خدا جانے انہیں کس نے پکارا
تلاطم خیز گرداب بلا میں
ہوا ہے خود بخود پیدا کنارا
’لطیف‘ ان ڈوبنے والوں کی قسمت
جنہیں راس آئے تنکے کا سہارا
2
خس و خاشاک ساحل کی رفاقت
وہی اسباب ظاہر کی اسیری
حیات افزا ہیں یہ اسباب ظاہر
پر اس کی شرط ہے روشن ضمیری
کرے گا کون گرداب بلا میں
بجز محبوب تیری دستگیری
3
نہ جانے کتنے ہنگامے ہیں برپا
کنارِ آب تند و فتنہ زا پر
’لطیف‘ ان کو عطا ہو کامیابی
بھروسا ہے جنہیں صبر و رضا پر
رہے کچے گھڑے کی لاج یا رب!
کہیں آئے نہ حرف اہل وفا پر
4
الجھ کر رہ گئے موج بلا میں
روادار شکست عہد و پیماں
مگر وہ دل جو منزل آشنا ہے
’لطیف‘ اسکی ہر اک مشکل ہے آساں
رہیں گے کون بے پرواے ساحل
بجز وارفتگانِ عیش طوفاں
5
ارے او ناشناس موجِ طوفاں
تجھے کچے گھڑے کا کیا سہارا
سا تو ہوگا لوگوں کو یہ کہتے
بڑا ظالم ہے یہ کالا کنارا
وہی منجدھار سے جائے گا بچ کر
مدد کو جس کی آئے گا وہ پیارا
6
رہا پیش نظر ہر دم مہینوال
نہ آیا حرف اس کی عاشقی پر
بھلا کچے گھڑے کی خامکاری
اثر کیا کرسکے گی سوہنی پر
’لطیف‘ ان کے لئے کیا قعر دریا
بھروسا ہو جنہیں محبوب ہی پر
بھٹک کر رہ گئے موج بلا میں
جو نازاں تھے تکبر پر خودی پر
7
کہاں میں اور کہا یہ قعر دریا
دل بیتاب نے کیا گل کھلایا
مقدر میں ہے گرداب بلا بھی
گھڑا بھی آج کچا ہاتھ آیا
خدا جانے کہاں ہے وہ مہینوال
مجھے جس کی محبت نے بلایا
8
کشش تھی روح کی اے جوشِ الفت
و گر نہ میں نے کب ایسا کیا ہے
کہاں میں اور کہاں موج تلاطم
گھڑے نے سر بسر دھوکا دیا ہے
9
کہاں وہ عشرت جوش جوانی
کہاں یہ روح فرسا بے قراری
کہاں وہ چند روزہ رنگ و روغن
کہاں گرداب کی طوفاں شعاری
ہوئی ظاہر بالآخر سوہنی پر
گھڑے کی خوشنما ناپائیداری
10
گھڑا کچا ہے لیکن میرے پیارے
میں اس طوفاں میں ہوں تیرے سہارے
نہیں اب ڈم سے مجھ کو کوئی نسبت
سمجھتی ہوں ترے دلکش اشارے
میں جن کی جستجو میں کھو گئی ہوں
خوشا وہ دور افتادہ کنارے
11
میں سمجھوں گی اسی کو عین راحت
مری وارفتگی جو کچھ دکھائے
اسے کیا امتیازِ پختہ و خام
جسے ہر بے ثباتی راس آئے
12
گھڑا کچھ دیر بھی رہنے نہ پایا
بھنور جب سوہنی کو کھینچ لایا
کہیں بیچارگی نے ہوش اڑائے
کہیں پرجوش موجوں نے ڈرایا
دیا آخر اسے کس نے سہارا
اجل کے بھیس میں وہ کون آیا
13
بھلا کچا گھڑا کیا ساتھ دیتا
مرے ساہڑ میں اب بے دست و پا ہوں
مدد کر اے مرے پیارے مدد کر
میں اس گرداب سے نا آشنا ہوں
14
غضب ہے سوہنی! یہ سادہ لوحی
خبر ہے یہ ستم کس نے کیا ہے؟
گھڑے نے اپنی ظاہر داریوں سے
تجھے دانستہ یہ دھوکہ دیا ہے
15
نہ ہوگی کارگر تدبیر کوئی
بھنور میں تجھ کو پچھتانا پڑیگا
گھڑے کو آزماکر دیکھ لینا
نہیں تو جان سے جانا پڑیگا
16
اسی تاریک ساحل سے گذر کر
سدا محبوب سے ملنے گئی ہوں
ہوا ایسی چلی ہے آج لیکن
اسیر پنجۂ بے چارگی ہوں
17
یہ دریا اور پر ھول موجیں
کہاں بچ کر کوئی ایسے میں جائے
مجھے ڈر ہے کہیں گمراہ ہو کر
مری بے چارگی دھوکا نہ کھائے
خدا جانے مری بے دست و پائی
تہ گردا ب کیا کیا گل کھلائے
مہینوال! اب تو میرے پاس آ جا
تمنائیں ہیں تجھ سے لو لگائے
سوا تیرے مجھے اے میرے ساہڑ
بھلا کس کا سہارا راس آئے
وائي
پریت لگن اس پار کی سکھیو! میرا من برمائے
سندر ساجن سانجھ سویرے اپنی اور بلائے
او پریتم پردیسی! مجھ کو تیری یاد ستائے
رین اندھیری جگ والوں کو گہری نیند سلائے
مجھ برہن کو بن باسی کی بنسی تان سنائے
او پریتم پردیسی! مجھ کو تیری یاد ستائے
رہتے ہیں اس پریت ڈگر میں بیری تاک لگائے
ڈرتی ہوں میری آہٹ سے کوئی جاگ نہ جائے
او پریتم پردیسی! مجھ کو تیری یاد ستائے
تیری چھل بل، تیری چھب ڈھب نینوں کو ترسائے
ہائے ملن کی آشا مجھ کو کیا کیا روپ دکھائے
او پریتم پردیسی! مجھ کو تیری یاد ستائے
نویں داستان
1
بحرو بر ہی پہ کچھ نہیں موقوف
ساری دنیا ہے حسن سے معمور
کار فرما ہے اے مرے محبوب
فرش سے تا بہ عرش تیرا نور
عرصۂ دار و گیر ہے دنیا
ذرہ ذرہ ہے پیروِ منصور
2
موج در موج بحر بے پایاں
میرے محبوب کی نشانی ہے
باعث جلوہ ہاے رنگا رنگ
موج بے تاب کی روانی ہے
اے مری آرزوے گم گشتہ
ہر جگہ ایک ہی سا پانی ہے
خواہش وصل یار کیا معنی؟
قرب محبوب جاودانی ہے
3
سوہنی! موت سے نہ ڈر، رکھ یاد
اس مہینوال کی محبت کو
ڈم کی نظروں سے کوئی نسبت ہے
تیری معصومیٔ صباحت کو
4
میں ہوں وابستۂ غم محبوب
جی رہی ہوں اسی سہارے پر
مجھے منظور ہے اسی کی رضا
جان قربان ہر اشارے پر
5
دیکھ کر جلوہ ہاے رنگا رنگ
حسن کا اعتبار کون کرے
اے خوشا عیش تلخی ہجراں
خواہش وصلِ یار کون کرے
موت سے پہلے کیوں نہ مرجائوں
موت کا انتظار کون کرے
6
ہیں ابھی کتنے مرحلے باقی؟
اے غمِ انتظار کیا معلوم؟
حشر کا دن تو پھر بھی ہے نزدیک
دوریٔ وصل یار کیا معلوم؟
7
میں کہاں اور سیلِ آب کہاں
کھینچ لائی مجھے یہاں تقدیر
کیا خبر تھی کہ موجِ طوفاں میں
ڈوب جانا ہے عشق کی تقدیر
8
ہے یہی مسلک قضا و قدر
کیا کرے کوئی شکوۂ آلام
کچھ نہیں جز نوشتۂ تقدیر
کس کو ٹھیرائوں موردِ الزام
9
اہل ساحل ہیں طعنہ زن مجھ پر
ہائے میں اور یہ مرا ہیجان
دعوت سیل آب دیتا ہے
قعر دریا مجھے علی الاعلان
میں نے سمجھا نوشتہ تقدیر
جس طرف لے چلے مرے ارمان
10
تیرتی ہوں تو جان کا خطرہ
اور واپس بھی لوٹنا دشوار
قرب محبوب کی طلب دل میں
اور آنکھوں میں حسرت دیدار
ہائے اپنوں کی ناشناسی بھی
میرے حق میں ہے مستقل آزار
میرے محبوب آسرا تیرا
میں بھنور میں ہوں اور تو اس پار
11
درد ہی درد ہے، دوا کیسی
کیا ہے یہ ماجرا کسے معلوم
حاصل عشق کوئی کیا جانے
ابتدا ہے نہ انتہا معلوم
12
اک مہینوال سوہنی کے لئے
اب نہیں اور ناخدا کوئی
درد مندوں کا غمگسار نہیں
دامن عشق کے سوا کوئی
13
ہو گیا تیرنا مرا بے سود
ہائے گہرائیاں محبت کی
تجھ سے پوشیدہ کب ہے اے محبوب
بیقراری اسیر فرقت کی
اے نگہدارِ ظاہر و باطن
اس طرف بھی نظر عنایت کی
14
دل ہے وابستہ غم محبوب
عالم جذب و شوق لا محدود
ہے گرانبار عشق کی زنجیر
جنبشِ پاے ناتواں بے سود
جستجو ایک راہ خم در خم
آرزو ایک شعلۂ بے دود
بحر غم اور سیل اشک رواں
موج در موج گوہر مقصود
15
ساحل تابناک دور و دراز
اور میں دلفگار تنہائی
تیرتی ہوں ترے سہارے پر
ورنہ مجھ میں کہاں توانائی
16
پھر نوید وصال یار آئے
ختم ہو جائے ظاہری دوری
سرخرو جذبہ محبت ہو
اب نہ حائل ہو کوئی مجبوری
وصل سے شاد کام ہوں یا رب
یہ اسیرانِ دردِ مہجوری
17
کتنی راتیں گذر گئیں روتے
آج تک محوِ انتظار ہوں میں
غم کی بیلوں نے جس پہ یورش کی
وہ خزاں دیدہ شاخسار ہوں میں
18
کیا بتائوں ترے بغیر اے دوست
زندگی کس طرح گذرتی ہے
کیا کہوں کیا ہے حسرت دیدار
وہ خلش نو بہ نو ابھرتی ہے
جانے کیوں میری تیرہ بختی سے
ہر تجلی گریز کرتی ہے
19
اک مہینول کے سوا مجھ کو
اب نہیں کوئی اور شے درکار
محوِ آرائشِ جمال ہوئی
شام ہوتے ہی حسرت دیدار
وائي
پگ پگ ہے رین اندھیرا
ٹھوکر نہ کہیں کھا جانا
مت مایا لوبھ میں آنا
جگ جیون کی آشائیں
نت نیارے روپ دکھائیں
کچھ انجانی بادھائیں
دکھ درد کو اور بڑھائیں
بچ بچ کے پائوں بڑھانا
مت مایا لوبھ میں آنا
کس کام کے جھوٹے بندھن
بس توڑ انہیں اے برھن
ان بپتائوں کے کارن
چھوٹے نہ پیا کا دامن
من مانی پریت چھپانا
مت مایا لوبھ میں آنا
منجدھار کا چنچل دھارا
جل گہرا دور کنارا
اس پار ہے ساجن پیارا
اب تیرا کون سہارا
ساجن سے آس لگانا
مت مایا لوبھ میں آنا
ابیات متفرقہ
1
درحقیقت بغیر ساھڑ کے
سوہنی سر بسر کثافت ہے
قرب اس پاکباز ساہڑ کا
ایک سرچشمۂ لطافت ہے
2
سوہنی کو بغیر ساہڑ کے
بار خاطر یہ اجنبیت ہے
ایسے بیمار دردِ ہجراں کو
قربِ محبوب غسلِ صحبت ہے
3
سوہنی کو بغیر ساہڑ کے
شدت درد سے اماں نہ ملی
لاکھ آہیں بھریں مگر بے سود
ناتواں قلب کو تواں نہ ملی
4
سوہنی کو بغیر ساہڑ کے
ڈم کی قربت ہے باعث آزار
دفعتاًً ہو گئی وہ صحت یاب
جب مہینوال کا ہوا دیدار
5
یہ اندھیرا، یہ رات، یہ پانی
سیل گرداب اور طغیانی
آنکھ ڈم کی کہیں نہ کھل جائے
پر خطر ہے تری پریشانی
نکتہ چیں ہے ہر ایک ہمسایہ
سوہنی کیا ہوئی ہے دیوانی؟
6
کیا خبر ڈم کو اے شبِ تاریک
ہے مہینوال جان سے بھی عزیز
امتحان اس کا شورش طوفاں
وہ اسے امتحان سے بھی عزیز
7
ہائے وہ نامراد کیا جانے
غم میں راحت جو میں نے پائی ہے
سختیاں ڈم کی روز افزوں ہیں
میرے ساہڑ تری دہائی ہے
8
زندگی پیچ و تاب میں گذری
ایک طرفۂ عذاب میں گذری
کیا مقدر ہے، عمر اہلِ طلب
جادۂ کامیاب میں گذری
یاد محبوب پیش پیش رہی
میں جدھر اضطراب میں گذری
وہ مہینوال مل گیا آخر
جان سے موجِ آب میں گذری
9
چاندنی رات سے کہیں بڑھ کر
شبِ تیرہ کا آسرا مجھ کو
اور کیا دیکھنا ہے دنیا میں
اک مہینوال کے سوا مجھ کو
10
اے گرفتارِ قید تیرہ شبی
اے شناساے سرحدِ امکاں
سوے محبوب گامزن ہو جا
اس سے پہلے کہ صبح کی ہو اذاں
11
سوہنی یوں نہ ڈوبتی شاید
موجزن ایک جوے رحمت تھی
موت کے بعد اس کی آنکھوں میں
اس مہینوال کی محبت تھی
12
بحر و بر پر نہیں ہے کچھ موقوف
ہر جگہ ہے وہی سراپا نور
پیارے ساہڑ نے حوصلہ بخشا
ورنہ کچے گھڑے کا کیا مقدور
13
ریگ زاروں کے ان گنت ذرے
اور ساون کی نت نئی برسات
ہاں مگر ان سے بھی کہیں بڑھ کر
میرے محبوب تیرے احسانات
14
میں نہ جانوں یہ رشتہ و پیوند
کس سے وابستہ ہیں مرے ارماں
کیا بتائوں کئے ہیں کیوں مجھ پر
میرے پیارے نے اس قدر احساں
وائي
روح پرور ہے دلکشی تیری
سیر حاصل ہے بندگی تیری
بے سہاروں کا تو سہارا ہے
اے خوشا بندہ پروری تیری
بس گئی ہے مری نگاہوں میں
دور افتادہ روشنی تیری
مچلے آنکھوں میں خون کے آنسو
جب کبھی یاد آگئی تیری
دیکھنا ہے بروزِ حشر مجھے
گل کھلاتی ہے کیا خوشی تیری
میرا مرشد وہ غوث اعظم ہے
جس کو حاصل ہے رہبری تیری
وائي
یوں تو کہنے کو بے نیاز ہے تو
پھر بھی در پردہ کارساز ہے تو
کوئی جن کا نہیں زمانے میں
ان غریبوں کا کارساز ہے تو
تیرا در چھوڑ کر کہاں جائوں
میری دلبستگی کا راز ہے تو
وائي
اے مہینوال سوگوار ہوں میں
آ بھی جا اب کہ بے قرار ہوں میں
تن بہ تقدیر بے سر و ساماں
ہمہ تن محوِ انتظار ہوں میں
کوئی تیرے سوا نہیں درماں
ہائے کس درد کا شکار ہوں میں
کیا غرض کس رسم و راہِ دنیا سے
حسن یکتا کا اعتبار ہوں میں
عیش و عشرت کی آرزو کیسی
مبتلاے فراق یار ہوں میں
وائي
کیا خبر اس کو عاشقی کیا ہے
طفلِ ناداں نے کھیل سمجھا ہے
بھول جانا الست کا پیماں
سر بسر گمرہی کا سودا ہے
کیوں نہ کہلائے پیروِ نمرود
جس سے برگشتہ ذاتِ یکتا ہے
رحمتِ حق سے جو ہوا محروم
کون پرسان حال اس کا ہے
وائي
مرحبا تیری جلوہ آرائی
کارفرما ہے شانِ یکتائی
تجھ سا محبوب مل گیا مجھ کو
بس مری ہر امید بر آئی
ماوراے ثنا ہے تیری ذات
ذرہ ذرہ ہے تیرا شیدائی
بادہ پرور نگاہ کے قرباں
دیدہ و دل نے سر خوشی پائی
گرچہ حدِ ادب سے گذری ہے
بارہا میری ناشکیبائی
تیرا در چھوڑ کر کہاں جائے
مطئمن ہے مری جبیں سائی