عنوان | ملوڈیز آف شاھ عبداللطیف بھٹائی |
---|---|
شارح / محقق | آغا سليم |
ڇپائيندڙ | ثقافت کاتو، حڪومتِ سنڌ |
ڇپجڻ جي تاريخ | 2015-01-01 |
ايڊيشن | 2 |
سر کلیان
پہلی داستان
1
اول اللہ علیم، اعلیٰ عالم کا دھنی،
قادر اپنی قدرت سے، قائم اور قدیم،
والی، واحد، وحدہ، رازق رب رحیم،
مدحت کر اس سچے رب کی، کہہ تو حمد حکیم،
وہ والی وہ کریم، وہ جگ کے کام سنوارے۔
2
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہہ دے جب اک بار،
محمد(صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، پیار سے کر اقرار،
پھر کیوں غیر کے دوار، جا کر سر کو جھکائے۔
3
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہا جنہوں ئے یار!
محمد (صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، دل سے تھا اقرار،
پہنچے وہ سب پار، کبھی بھی مشکل گھاٹ نہ آیا۔
4
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہیں اور ہو ایمان،
محمد (صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، مانے قلب و زبان،
یہ فائق کا فرمان، وہ کبھی نہ مشکل گھاٹ گئے۔
5
راہ میں مشکل گھاٹ نہ آیا، ناؤ رہی سالم،
ایک سے مل کر ایک ہوئے ہیں، ایسے سارے عالم،
بن گئے وہ سب بالم، رب کے روزِ ازل سے۔
6
رب نے ان کو روزِ ازل سے، کیا سراپا نُور
لاخوف علیہم ولا ھُم یحزنون، کبھی نہیں رنجُور
عشق میں معمور ، کردیا رب نے روزِ ازل سے۔
7
وہ جو قتیلِ وحدت ہیں اور، لب پر الا اللہ،
جن کو عرفانِ حقیقت، جن کی طریقت راہ،
معرفت کی مہر ہے لب پر، ڈھونڈے دُور نگاہ،
سُکھ سے پل بھی آنکھ نہ جھپکیں، من میں درد اتھاہ،
ان کی عجب ہے چاہ، وہ کاٹیں سر کندھوں سے۔
8
وہ جو قتیل وحدت ہیں اور، الا اللہ کے بسمل،
کہا کہ "برحق محمدﷺٖ ہیں" اور ہو گئے دل سے قائل،
کہے لطیف کہ جس عاشق نے، پائی ہے یہ منزل،
وحدت سے گئے مل، تب رب نے اس کو دھو دیا۔
9
وہ جو قتیل وحدت ہیں اور الا اللہ کے بسمل،
کون ابھاگا ایسا ہو جو، چاہے نہ یہ منزل۔
10
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ ، سنا نہیں اے غافل!
باطن کی آواز سے بھی تُو، ہو سکا نہ قائل،
ہوں گے گواہ مقابل، روئے گا تو دن محشر کے۔
11
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، یہ ہی کر بیوپار،
یہی تیری منزل ہے اب، جیت ہو چاہے ہار،
کہیں گے خود سرکار، پی لے جام تو جنت کا۔
12
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، یہ ہے حق یکتائی،
منزل کبھی نہ پائی، دوئی میں جو الجھ گئے۔
13
سر ڈھونڈوں تو دھڑ نہ پاؤں، دھڑ پاؤں تو سر کہاں،
جیسے سرکنڈے کٹتے ہیں، کٹے ہیں ہاتھ اور انگلیاں،
تن من خون افشاں، وصل جنہیں وحدت کا۔
14
عاشق مت کہ اس کو، اور نہ کہ معشوق،
نہ ہی کالق اے ناداں! نہ ہی کہ مخلوق،
بتا نہ رمز سلوک، ناقص اور ناداں کو۔
15
وحدت سے ہی کثرت ہے اور، سب کثرت ہے وحدت،
حق تو حقیقی ایک ہے سائیں! چھوڑ تو سب غفلت،
ہر سُو پی کی نوبت، واللہ باج رہی ہے۔
16
خود ہی جل جلالہٰ، خود ہی جانِ جمال،
خود ہی صورت یار کی، خود ہی حسن کمال،
خود ہی پیر مرید بنے اور، خود ہی یار خیال،
سارا یہ احوال، اپنے آپ میں ڈوب کے پایا۔
17
خود ہی دیکھے خود کو، خود ہی ہے محبوب،
خود ہی خالقِ خوب، خود ہی اس کا طالب۔
18
یہ بھی وہ اور وہ بھی وہ، اِجل بھی وہ اللہ بھی وہ،
پریتم وہ اور جان بھی وہ، دشمن اور پناہ بھی وہ۔
19
ایک صدا ایک گونج، سننے میں ہیں دو
غور سے گر سُن لو، مخرج ان کا ایک ہے۔
20
ایک قصر در لاکھ، اور کروڑوں کھڑکیاں،
جدھر اُٹھے یہ آنکھ، ادھر ہے سندر روپ سجن کا۔
21
ساجن! کیا کیا روپ ہیں تیرے! درشن لاکھ ہزار،
جی جڑے ہیں جی سے سائیں! الگ الگ دیدار،
تیرے روپ ہزار، کیا کیا روپ ہیں دیکھوں۔
وائي
سبھی پریتم کو پوجیں،
اکھین پریت، رسیلی بتیاں، ایسے پی کو سب ہی پوجیں،
جو بھی میرے من میں ہے وہ، تو ہی جانے جاناں!
دو ہی بیت لطیف کوی کے، تیری صدا ہی سجناں!
دوسری داستان
1
دیکھی جب بیماری میری، پیا ہوئے رنجور،
سولی کو اورانگا میں نے، روگ ہوا سب دور۔
2
اندھے نیم حکیم بھلا کیوں، اور تو روگ بڑھائے،
روگ ہے میرے من میں پر تُو، دارو اور پلائے،
سولی سیج سہائے، موت تو پیا ملن کی۔
3
سولی نے ہے بُلایا، کون چلے گی ساتھ
ان سے رہا نہ جائے کریں جو، پیا ملن کی بات۔
4
جن کے من میں پریت ہے ان کو، سولی نے ہے بلایا
پیچھے قدم ہٹا نہ عاشق! گر ہے عشق کا دعویٰ،
کاٹ کے سر تو لے آ، پھر کر باتیں پیار کی
5
سولی روزِ ازل سے، عاشق کا سنگھار
لوٹ کے آنا طعنہ جانیں، سولی پر دیدار،
مرنے کا اقرار۔ ان کا روز ازل سے ہے۔
6
سولی روزِ ازل سے، عاشق کا سنگھار
پاؤں کبھی نہ ان کے لرزے، دیکھ کے بھالے دار،
آن چڑھائے یار! پریت انہیں سولی پر۔
7
سولی پہ یوں سجنا، کیوں کر ہیں مسرور
جب سے لاگے نیناں، تب سے سولی سیج ہے۔
8
سیج سمجھ کر سولی چڑھنا، یہ عشاق کا کام،
رُکیں نہ وہ اک گام، آئیں مقابل سولی کے۔
9
عاشق سولی پہ چڑھتے ہیں، دِن میں سو سو بار،
پریت کی ریت کو بھول نہ جانا، دیکھ کر نیزے دار،
تو دیکھ نہ پایا یار، پریت جہاں سے پھوٹی ہے۔
10
پہلے گھونپ لے خنجر، پھر کر بات پریت کی،
درد سجن کا صورت نغمہ، گونجے دل کے اندر،
انگاروں میں پک کر، پھر لے عشق کا نام۔
11
تیغ پہ کیا الزام، وہ ہے سجن کے ہاتھ میں،
سیکھ ادائیں محبوبوں کی، لرزے تیغ تمام،
دکھ ہی دکھ ہر گام، عاشق کو ہے پریتم کا۔
12
دستِ یار میں خنجر ہے وہ، تیز نہ ہونے پائے،
ہاتھ ذرا رُک جائے، یار کا پل بھر تن پہ۔
13
دستِ یار کے خنجر سے، کٹ کٹ جائے چام،
لے کے یار کا نام، عاشق انگ کٹائیں۔
14
پریت کی ریت جب سیکھی تو پھر، خنجر سے کیا ڈرنا،
پریتم نے جو درد دیا ہے، عام اسے مت کرنا
ہنس ہنس راز میں رکھنا، درد کی اس دولت کو۔
15
کاٹیں گردہ انگ تو آجا، ورنہ راہ لے اپنی،
یہ ہے ان کا دیس کہ جن کے، ہاتھوں میں ہے کٹاری۔
16
ایسے پی سے پریت لگی کہ، ہاتھ میں ہے خنجر
اُلفت کے میدان میں آئیں، کیسا خوف و خطر
آگے رکھ دوں سر، شاید کاٹ لے سجن۔
17
کچھ تو مقتل میں جا پہنچے، باقیوں کی ہے قطار،
تجھ کو قبول کریں گے ہو جا، مرنے کو تیار،
کیا تو دیکھ نہ پایا ان کے، سروں کے ہیں انبار،
سروں کا کاروبار، دیکھ کلال کے ہاٹ پہ ہے۔
18
مے پینا گر چاہے تو پھر، پاس کلال کے جا،
مے کے خُم کے پاس تو جاکر، کاسہ سر کو جھکا،
ایک ہی سانس میں گاڑھی مے کے، جام پہ جام چڑھا،
شہزوروں کے ہوش گنوائے، یہ ہے وہ مدرا،
بھاؤ بڑا سستا، سر دے کر گر مے مل جائے۔
19
جا کلال کے ہاٹ پہ ہے، مے کی خواہش گر،
کہے لطیف کہ سر کو کاٹ کے، مٹکے پاس تو دھر،
سر کا سودا کر، جام پہ جام تو پی کے۔
20
گر ہے مے کی خواہش تو پھر، کوچہ کلال میں جا،
مہیسر، کی مے کا ہر دم، وہاں ہے شور برپا،
رمز میں یہ سمجھا، کہ سر کے بدلے مے سستی ہے۔
21
گر ہے مے کی خواہش تو پھر، گھر کلال کے جا،
کاٹیں تیرا انگ انگ تو، مے کی ریت نبھا،
سودا ہے سستا۔ گر جام ملے جاں دے کر۔
22
مے کا کوئی مول نہیں ہے، مول ملے کب مدرا،
کہے لطیف سر کے کٹوانے کو، سر کو سجا کر لا،
یہ مقام ہے انکا جو مدھ شالا میں مرتے ہیں۔
23
عاشق عادی زہر کے ہیں اور، زہر سے ہیں مسرور،
کڑوا قاتل زہر جو دیکھیں، مستی میں ہوں چُور،
کہے لطیف کہ عشق یار میں، مٹتے ہیں وہ ضرور،
زخموں سے ہیں چُور، کبھی نہ زخم دکھائیں۔
24
کڑوی مے گر پی نہ پائے، مت لے مے کا نام،
جان رگوں سے کھینچے یہ مے، لرزاں جسم تمام،
چکھ لے کڑوا جام، سر دے کر تو پی لے گھونٹ۔
25
جو بس خواہش کرنا جانیں، لیں کیوں مے کا نام،
جُوں ہی کلال نے تیغ نکالی، لرزاں جسم تمام،
وہی چڑھائیں جام، جو سر کا سودا کر پائیں۔
26
سر جدا ہیں جسم سے اور، دیگ میں جسم تمام،
حق ہے اِن کا جام، سر جو سجا کے لائیں۔
27
انگ اُبلتی دیگ میں ہیں اور، کڑ کڑ کرے کڑھائی
زخموں کی رعنائی، دیکھ کے بھاگے بید۔
28
مدرا پینے آئیں اِن سے، سر مانگے ہے ساقی،
جن کی مدرا بھٹی، وہ کچھ اور ہی مانگیں۔
29
جو ہیں پریت کے مارے ان کو، کب ہے پیاری جان،
سجا کے سر وہ لے آتے ہیں، جان کریں قربان،
سر کا دے کر دان، بات کریں پھر عشق کی۔
30
جو ہیں پریت کے مارے ان کو، کب ہے پیاری جان،
یار کی ایک جھلک کی خاطر، لاکھوں سر قربان،
میرا جسم یہ جان، یار کی خاکِ پا پہ صدقے۔
31
سر کا صدقہ دے کر سائیں، پریتم گر مل جائے،
سستا سودا جان کر عاشق، سر اپنا کٹوائے،
قسمت جب بر آئے، تب ملتا ہے ساجن۔
32
مے انمول کے اک قطرے کی، آس شہادت ہے،
یہ بھی عبادت ہے، گر ناز سے ساجن دیکھے۔
وائي
پی کر مے کا جام، ساجن کو پہچان لیا،
عشق کے پیالے پی کر ہم نے، جانا بھید تمام،
انگ انگ میں پیار کی اگنی، سلگیں سب اندام،
جگ میں جینا دون دن کا ہے، دو دن کا ہے قیام،
کہے لطیف کہ تُو ہی تُو ہے، باقی تیرا نام۔
تیسری داستان
1
مجھ کو چھوڑ گیا ہے ساجن، پریت کا روگ لگا کر،
ایسا درد وہ دے گیا دل کو، میرا یار وہ دلبر،
کوئی نہ چارہ گر، میرے من کو بھائے۔
2
من کو اب نہ بھائے کوئی، پی بِن اور طبیب
وہ ہی یار حبیب، میرے حال کا ہادی ہے۔
3
ہادی ہُوا حبیب وہ میرا، راہ نمائے راحت،
پی نے روگ مٹایا سارا، قائم ہوگئی نسبت،
ہم نےپائی صحت، روگ سے تیرے ہاتھوں۔
4
اور طرح کا روگ لگے ہے، ہادی ہو جو حبیب،
ایسا روگ مِٹا نہ پائے، کوئی اور طبیب،
رہنما ہے رقیب، وہ ہی درد کا درماں ہے۔
5
جب وہ چارہ ساز ہُوا تو، دُور ہُوا آزار،
گاہے بول سے رس گھولے اور، گاہے قہر کا وار،
اس کو ہی وہ گھائل کردے، جس کا ہو وہ یار،
صاحب رب ستار، وہ ہی من کی بیتا جانے۔
6
پل پل جھن جھن باج رہے ہیں، رگ رگ تار رُباب،
میرے لب پر مہر لگی ہے، ساجن دے نہ جواب،
وہ جو میرے زخم کا مرہم، دل کو کرے کباب،
وہ ہی عین عذاب، وہی راحت روح کی ہے۔
7
وہ بھٹکائے راہ دکھائے، عجب ہے اس کی عادت،
جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت۔
8
کیا ہے درد کا کارن؟ پی نے چُھپ کر پوچھا،
درد کا درماں بخشا یار نے، مجھ کو پاس بلایا
"آخر العصر" پریتم نے فرمایا،
تب سے یہ من میرا، ترسے پی درشن کو۔
9
دور سے بیٹھا کیوں ترسے ہے، جا اس یار کے دوار،
ٹھکرایا سنسار، جس نے دیکھا دوار پیا کا۔
10
شیرینی سے شیریں تر ہے، میٹھا ہر ایک بول،
ساجن ہے انمول، چپ بھی پیار کی باتیں ہیں۔
11
شیرینی ہی شیرینی ہے، جو کچھ پریتم دے،
دل سے گر چکھ لے، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
12
جان بوجھ کے پی نے تجھ سے، باندھا درد کا رشتہ،
پریت کے درد کی باتیں پیارے!، غیر کو مت بتلا۔
13
جس کی چاہ میں تڑپ رہے ہو، وہ بھی تجھ کو چاہے،
فاذکرونی اذکرکم، پی کی بات سمجھ لے،
ایسا وہ پریتم ہے، شیرین لب اور ہاتھ میں خنجر۔
14
پریتم نے اک بار پکارا، مہر سے مجھ برہن کو،
بس اس ایک سخن کو، سکھیو! دل دُہراتا ہے۔
15
پیار سے پریتم نے پوچھا تھا، مجھ سے یہ اک بار،
" کیا میں تیرا رب نہیں ہوں؟"، میرا تھا اقرار،
درد کی تیز کٹار، تب سے دل میں اُتری ہے۔
16
پوچھ رہے ہیں یار، پی نے باندھا کدھر نشانہ،
عشق کے بھالے برس رہے ہیں، خود کو کریں نثار،
دیکھ کہ کیسی سج دھج سے وہ آئیں سوئے دار،
سر دیتے ہیں وار، مر مٹنا تو پیا ملن ہے۔
17
پاس بلا کر قتل کرے اور، پھر وہ پاس بلائے،
لاکھ گڑھے ہوں عشق کے بھالے، قدم لرز نہ پائے،
موت سے آنکھ ملائے، بھول کے علم و دانش کو۔
18
پی کا پاس بلانا بھی تو، گویا ہے دھتکار،
جس کو کوئی سمجھ نہ پائے، ایسا اس کا پیار،
آس اسی کی یار!، جو توڑ کے ناتہ جوڑے۔
19
قتل کرے تو مہر کرے اور، مہر سے قتل کرے وہ،
میری روح کی راحت ہے اور، میرا قاتل ہے وہ۔
20
قتل کرے اور مہر سے یہ پھر وہ، پاس بلائے یار،
ہر دور میں اس کی عادت ہے، عجب ہے اس کا پیار،
زخم وہ دے ہر بار، وہ ہی روح کی راحت ہے۔
21
پاس بلا کر گھائل کردے، ایسے ناز و ادا،
وہ ہی دار پر لٹکائے اور، جلائے روز پیا،
کریں برہ کا سودا، آجا تو بھی سودا کر لے۔
وائي
ہوگا درد کا کا درماں، میرا یار حبیب سکھی ری!
درد کا آکر کرے مداوہ، مہر سے میرا سجناں،
میرے انگناں آ کر دیکھا، میرا حال پریشاں،
مجھ روگی کا روگ مٹایا، آن کے میرے انگنا،
کہے لطیف کہ تجھ سا جگ میں، اور طبیب نہ جاناں!
سُر ایمن
پہلی داستان
1
تُو حبیب، تُو طبیب، تُو درد کی دوا
جانی! میرے جان کو ہے، روگ کیا لگا
تُو ہی دے شفا، صاحب! اہلِ دل کو۔
2
تُو حبیب، تُو طبیب، درد کا تُو ہی درماں،
میرے دل کی دوا ہیں، سائیں، تیری بتیاں،
روتی ہوں دن رتیاں، تجھ بِن اور نہ درماں۔
3
تُو حبیب، تُو طبیب، تُو دوائے کرب،
روگ بڑھائے اور اتارے، تُو ہادی، تُو رب،
کیسی بات عجب، کہ کام طبیب نہ آئیں۔
4
تُو حبیب تُو طبیب، درد کی تُو دوا،
ماندگی بھی تو ہی دے اور، تو ہی دے شفا،
حکم ہو جب تیرا، تب دوا اثر کرے ہے۔
5
کوئی طبیب کبھی جو آ کر، میرا درد مٹاتا ہے،
اس کو ختم کر جاتا ہے، آ کر میرا ساجن۔
6
ہاتھ اُٹھا کر تیر چلا دے، مجھ پر کر احسان،
مر کر پائہں مان، پریتم تیرے ہاتھوں۔
7
ہاتھ اٹھا کے تیر چلادے، مانگے دل یہ ہر دم،
آہ کروں تو جگ جانے ہے، صبر نہیں جانم،
کیا بتلائیں ہم، کہ ساجن نے مارا ہے۔
8
ہاتھ اٹھا کر تیر چلادے، کھینچ لے یار، کمان،
آن گروں آغوش میں تیری، اسی بہانے مان،
پورے ہوں ارمان، وصل تو ہو پل بھر کا۔
9
جس جا پریت کے تیر چَلائیں، میرے یار حبیب،
بھولیں بید طبیب، سارے علم و حکمت۔
10
مارے گر تو پیار سے، میرے یار حبیب،
پوچھوں کیوں میں طبیب، گھایل ہی پھرتی رہوں۔
11
تیر چڑھا کر ساجن نے، کھینچی آج کمان،
سسک رہی ہے جان، جس کو تیر لگا ہے۔
12
جن کے تن میں تیر چبھے ہیں، سسک رہے ہیں گھایل،
اُلفت کے مقتل میں اب تو، تڑپ رہے ہیں بسمل،
اپنے زخم کا آپ ہی مرہم، درد ہی ان کا حاصل،
ہو کر ان میں شامل، ان سنگ رات بِتائیں۔
13
چلو تو رات بِتا آئیں ہم، ایسے گھائل سنگ،
دل زخموں سے چھلنی ہے اور، دُکھتا ہے ہر انگ،
یہ ہیں ان کے ڈھنگ، چھپ کر زخم وہ سہلائیں۔
14
آج بھی اپنے آنگن میں، سسک رہے ہیں گھائل،
شام ہوئی تو بسمل، دھونے لگ گئے زخم۔
15
گھائل کے کوچے سے آئی ، کیسی یہ آواز،
شاید چارہ ساز، کھول کے دیکھ رہے ہیں گھاؤ۔
16
شاکر اپنے حال پر دائم، پریت کے سارے گھائل،
رواں ہیں سوئے منزل، تھک کر کبھی نہ بیٹھیں۔
17
جو ہیں پریت کے گھائل وہ تو، درد کی بات سنائیں،
کیسا روگ لگا ہے اُن کو، اور کو نہ بتلائیں،
آخر ڈھونڈ نکالیں، جو ہے انکے من میں۔
18
گھائل کا وہ درد نہ جانیں، سدا ہیں جو مسرور،
کروَٹ تک بھی لے نہ پائیں، درد سے یہ مہجور،
چُھپ کر یاد کریں پریتم کو، روئیں وہ رنجور،
یاد میں مہجور، رو رو رین بِتائیں۔
19
گھائل کا وہ درد نہ جانیں، درد سے جو انجان،
کیسے تڑپ رہے ہیں بسمل، سسک رہی ہے جان،
کہے لطیف کہ پریت لگی ہے، دردِ ہجر ہر آن،
جن کی پریت مہان، رو رو کر وہ رین بِتائیں۔
20
نیر بہائیں نینن سے جو، جھوٹی اِن کی پریت،
جگ دکھلاوا جھوٹ ہے یہ، کب یہ پریت کی ریت،
جن کے من میں میت، وہ کبھی نہ نیر بہائیں۔
وائي
بھولے بید بچارے، درد نہ جانیں دل کا،
چارہ سازو! لے جاؤ تم، اپنے نشتر سارے،
وہ ہی مہر کا مرہم دیں گے، دیں جو زخم نیارے،
جن کے ہجر کا درد ہے دل میں، وہ آئے آج دلارے۔
دوسری داستان
1
من کا روگ نہ جانے میرا، تو نہیں چارہ گر،
بھاڑ میں جھونک تو اپنا مرہم، اور یہ علم و ہنر،
بِن اپنے دلبر، جینا ہے بے کار۔
وائي
میں ہوں پریت کی ماری، کبھی تو آ میرے انگنا،
دوش نہ دینا مرجائے گر، ہجر میں یہ بے چاری،
آن کے درد کا درماں کر دے تیرے میں بلہاری۔
2
چارہ گر سے اُلجھیں روگی، کب مانیں اس کی بات،
دور ہوں سب آفات، مان لیں چارہ گر کی باتیں۔
3
چارہ گر سے الجھ رہے ہیں، پرہیز وہ کر نہ پائیں،
درد ہی سہتے جائیں، اسی لیے ہیں روگی۔
4
بیماروں کی حالت پر، ترس طبیب کو آئے،
سب کو وہ سمجھائے، بِن پرہیز کب بات بنے ہے۔
5
بیماروں نے صحت پائی، رہے طبیب کے ساتھ،
حیلے کر کر روگ مٹایا، ترس سے تھام کے ہاتھ۔
7
تو نے کب پرہیز کیا، وہ کیا جو من کو بھایا،
کرتا گر پرہیز تو تیرا، روگ یہ سب مٹ جاتا۔
8
گر ہے من میں چاہ تو سیکھو، چوروں کے اطوار،
راتیں جاگیں، جشن منائیں، نینن نہیں خمار،
جو کچھ پائیں، اے چھپائیں، ایسے ہیں ہوشیار،
چاہے سولی پہ چڑھ جائیں، کریں نہ وہ اظھار،
جیون بھی دیں وار، راز نہ کھولیں دل کا۔
9
چارہ گر نے گھائل کو، گھر سے دیا نکال،
ہر اِک زخم کے ٹانکے ٹوٹے ، سارا تن بے حال،
اپنے دوست کے درشن سے ہی، دور ہو رنج و ملال،
پریتم آن سنبھال، بید ہوئے مایوس۔
10
گھر میں بید کے بیٹھے بیٹھے، انگنا آیا یار،
انگ انگ سے خوشیاں پھوٹیں، دل کو ملا قرار،
دور ہوا آزار، دیکھتے ہی دلبر کو۔
11
جس ساجن نے زخم دیئے ہیں، وہ ہی مرض شناس،
آن کے اس نے زخم سیئے تو، صحت آئی راس،
رہے جو ان کے پاس، تو روگ لگے نہ جی کو۔
12
ہائے طبیب! اس روگ نے مارا، تُو نے لی نہ خبر،
آئے گا جب دلبر ، تو کروں گی اس سے شکوہ۔
13
بید! صحت کی طلب نہیں اور، دوا نہیں درکار،
آئے شاید یار، مہر سے میرے آنگن۔
14
چارہ گر کے پاس رہو تو، کبھی نہ ہو بیمار،
کوئی نہ ہو آزار ، بدلے گر تو اپنی عادت۔
15
چارہ گر کے پاس رہے پھر، پالا کیوں آزار،
کرتے سر رایار، سر کا صحت کی خاطر۔
16
نیم حکیم نے مارا مجھ کو، ماہر بید نے پایا،
داغ داغ کے سارے تن کو، روگ کو اور بڑھایا۔
17
بید طبیب کی قدر نہ کی اور، سدا رہے بیمار،
بید نے جب سنبھالا ان کو، تو دور ہوا آزار۔
18
چارہ گر نے جتن کیے، پر درد ہوا نہ دور،
آپ ہی درد کا درماں دیں گے، چُھو کر تن رنجور،
پوچھیں جن کو حضور، تو روگ نہ ان کو لاگے۔
19
بیماروں نے مل کر آج، صحت کو ہے بلایا،
دور ہو جا اے روگ تو ہم سے، درماں آنگن آیا۔
تیسری داستان
1
دل میں اک کہرام ہے تیری، طلب میں مرے سجن،
سلگ رے ہیں انگ یوں بھڑکی، دل میں پریت اگن،
جلتا یہ تن من، یقین نہیں تو آن کے دیکھو۔
2
من میں اک کہرام ہے ساجن، طلب میں سلگیں پہلو،
تن سلگا تو پھیلی ہر سُو، جلتے ماس کی بو،
آ کر دیکھ لے تو، یقین نہیں گر پیارے۔
3
جیسے آگ ببول کی دہکے، دہک رہا ہے تن،
جل کر یار! کباب ہوا ہے، سارا تن اور من،
چارہ گر ساجن، اور نہ درماں کوئی۔
4
یار نے کہنی ٹیک کے، ایسا تیر چلایا،
پہلو میں پوست ہوا اور، تن کو پیر گیا،
پیٹھ میں اُترا، جگر کو چھیدا، قلب کے پار گیا،
بید طبیب بُھلایا، پی بِن اور نہ درماں۔
5
کھینچ کے ایسا تیر چلایا، لرزاں جسم تمام،
تن کو چیر کے قلب میں اُترا، چیر گیا ہے چام،
آیا کچھ آرام؟ پوچھو یار سجن سے۔
6
کھینچ کے ایسا تیر چلایا، یار نے دوجی بار،
سَن کرتا یوں تیر چلا کہ ، ہوا بدن کے پار،
قلب و جگر کو چیر کے سائیں! آر سے ہوگیا پار،
جینا ہے دشوار، تڑپوں تیر نہ نکلے۔
7
تیر چلانے کو ساجن نے کھینچی آج کمان،
سَن کرتا اک تیر چلا اور، زخمی جسم و جان،
تیر انداز مہان، ساجن یار ہے میرا۔
8
جلا جلا دہکائیں جو، من میں پیار کی اگنی،
جلتی سیخ کُھپی ہے تن میں، پریت نئی ہے سجنی،
یہ ہے دید کی کرنی، جلتی ہوں میں اگنی میں۔
9
پروانوں سے پوچھے کوئی، جل جانے کا حل،
آگ میں خوش خوش جھونکیں خود کو، جینا ہے جنجال،
کرلے نہیں نڈھال لگے ہیں ایسے عشق کے بھالے۔
10
پروانہ تب کہلائے جب، آگ ہو خاکستر،
اس آتش کے سوختہ ہیں سب، اے تو سوختہ کر،
بھید تُو اس کا پاکر، من کی آگ سے آگ بجھادے۔
11
پروانہ کہلاتا ہے تو، جان بوجھ کے جل،
جب تک جلتی آگ ہے باقی، جلنا جان اٹل،
جان لے آگ ہے جو دو پل ، جل جا بھید نہ بتلا۔
12
پروانہ کہلاتا ہے تو، لوٹ نہ دیکھ کے آگ،
پریتم کی مکھ جوت پر، جلے تو تیرا بھاگ،
جلنے سے ہے باک، کچی تیری پریت ہے۔
13
پروانوں نے موت کی ٹھانی، دیکھ کے روشن باٹی،
سانچ کی آنچ سے ذرا نہ جھجکے، جھوم کے جان جلادی،
خاک ہے اُڑتی پھرتی بیچارے پروانوں کی۔
14
دیکھ کے جلتی آگ کو، پرونے منڈلائے،
کھلے وہ واڑی پھول کی مانند ، دیکھ کے چلتے شعلے،
کیوں نہ خود کو جلائے، آ کر اس کھورے میں۔
15
تن تندور کی مانند دہکے، مار ذرا چھینٹا،
من میں عجز کی آگ جلا کر، اپنی جان جلا،
اپنے اندر منزل منزل، آگے بڑھتا جا،
کہے لطیف کہ پیار کی اگنی، اور کو مت دکھلا،
کہیں یہ دکھلاوا، وصل کے آرے آئے۔
16
کل عشاق کو جلتی بھٹی سے، جب کھینچ کے لائے،
ان کے من میں آتشِ وحدت، اور بھڑکتی جائے،
کبھی نہ بجھنے پائے، دلِ عشاق کی آتش۔
17
آگ جلا کر کندن کر دیں، لوہے کو جو یار،
ان کو خوب ہی پہچانے ہے، آہن گر ہشیار۔
18
آہن گر کی بھٹی میں ہیں، شعلے رقص کناں،
شعلئہ عشق کو بھڑکاتے ہیں، انگارے ہیں یہاں،
آہن گر نہ وہاں، جب تک لوہا پگھل نہ جائے۔
19
جائے نہ آگ کے پاس کبھی اور، آہن گر کہلائے،
شعلئہ عشق کی آگ ذرا بھی، تجھ سے سہی نہ جائے،
سب کو یہ بتلائے، کہ میں تو آہن گر ہوں۔
20
سر کو بنا کے سنداں پھر جا، آہن گر کے پاس،
کُوٹ کے کندن کر دیں شاید، تجھ کو رمز شناس۔
21
سر کو بنا کے سنداں سائیں! چوٹ پہ چوٹ جو کھائے،
تب ہوگا کندن جب تو، اپنا آپ گنوائے۔
22
دیکھ تو انگاروں کو کیسے، جلتے ہیں دو بار،
لکڑی جل کر کوئلہ ہو تو، لائے گھر لوہار،
جلتی آگ میں ڈار، ان کو راکھ کرے وہ۔
23
جَلا بجھائیں، بجھا جلائیں، مجھ کو میرے پیارے،
جلا رہے ہیں آہن گر کے، شعلے اور اَنگارے۔
24
دیکھو آج آئے ہیں، آہن گر وہ مہمان،
لائے ہیں سنداں، تیغ کو تیز کریں گے۔
25
آئے ہیں آہن گر، عجب ہیں اِن کے ڈھنگ،
اُترے گا سب زنگ، اور صاف کریں گے لوہا۔
26
زنگ اُترے اور لوہا پگھلے، لپکیں جس جا شعلے،
دیکھو سنداں لرز رہی ہے، ایسے پڑیں ہتھوڑے،
آج لگے ہیں میلے، آہن گر کے باٹ پر۔
27
سنداں سے مانوس ہیں اِن کا، دمک رہا ہے رنگ،
تیغ ہے اِن کی تیز کہ جس کو، کبھی نہ لاگے زنگ۔
وائي
جی بہلاؤ ، آس بندھاؤ، مجھ کو یہ بتلاؤ،
کب آئے گا ساجن یار،
میرے پیاسے تن کو یار نے، کردیا سرتار،
تیرے ایک اشارے سے، دور ہو سب آزار،
اپنی مہر سے اس پاپن کو، تو ہی پار اُتار،
پھیر کے منہ تو میری جانب، میری اور نہار،
کبھی تو مہر سے اِس سائل کو، پاس بلا اے یار!
چوتھی داستان
1
اک پیالے کے دو ہوں طالب، یہ نہیں عشق پرستی،
گِن کر جام پئیں وہ کیسے، پائیں قرب الستی،
حائل ہوگئی ہستی، وصل سے وہ محروم ہوئے۔
2
اک پیالے کے دو ہوں طالب، یہ نہیں عشق کی ریت،
گھل کر ایک سے ایک ہوئے، جب جاگی من میں پریت،
دوئی پہ پالی جیت، جب گھائل ہو گئے عشق میں۔
3
ایک پیالے کو دو ہوں طالب، عشق نہ مانگے آدھا،
جوں شاعر اور گائک میں ہے، شعر و غنا کا ناطہ۔
4
آنکھیں ادھر کو دیکھ رہی ہیں، جہاں دوئی کے قاتل،
زہر ملی جو مے پیتے ہیں، کر ان سے مے حاصل۔
5
آنکھیں ادھر کو دیکھ رہی ہیں، جہاں دوئی کے قاتل،
سر کا کوئی مول نہیں گر، قطرہ مے ہو حاصل۔
6
زہر کو مار کے شہد بنائیں، بیٹھ تو ان کے پاس،
ان کی رکھ تو آس، بھر بھر پیالے پی لے۔
7
مے نوشوں کو مت ترسا اور، مے کو کردے عام،
جام پہ جام پلا تو جائیں، جھومتے گام بگام،
میخانے کا نام، موکھی! ہو مے نوشوں میں۔
8
چُھپا نہ مے تو مے نوشوں سے، جام پہ جام پلا،
راہرؤں کو مدرا دے کر، ظرف تو پرکھ ذرا،
مے کا ایک قطرہ، بڑا ہی ہے انمول۔
9
ہچکی پر ہچکی ہے اور ہیں، لب پر زہر کے پیالے،
جام پہ جام پلادے ساقی! آئے ہیں متوالے،
خم کے طالب سارے، گھونٹ دو گھونٹ سے کیا بنتا ہے۔
10
موکھی نے تب مٹکے کھولے، چلی جب خنک ہوا،
مے کی مہک سے کھچ کر پیاسے، سروں کو آئے سجا۔
11
رات پڑی جو میخانے پر، شبنم قطرہ قطرہ،
ساقی! قطرہ قطرہ چُن کر، راہرؤں پر برسا،
نگر نگر میں بات چلے اور، دھوم مچے پھر ہرجا،
صبح پئیں جو مدرا، وہ آئیں گے مے خانے میں۔
12
آئیں گے مے خانے میں تو وہ، کریں گے خالی خُم،
بھر بھر دینا تم، اور بڑھے گی پیاس۔
13
موکھی مے فروش، اوچھی اس کی ذات
زہر پلا کر رات، مارا متاروں٭ کو!
(٭متارا: کرداروں کے نام)
14
زہر ملی مے دے کر تُونے متوالوں کو مارا،
موکھی، بن متوالوں کے اب کرے گی جی کر کیا؟
15
مر گئے مے کے متوالے سب، تو بھی جان سے جا،
موکھی! کس کو دکھلائے گی، اب تو جور و جفا۔
16
مے کب اِن کو مار سکی تھی، مار گیا اک بول،
بول نے رگ ریشے میں ان کے، زہر دیا تھا گھول،
متوالے انمول، مرگئے سن کر بات۔
17
ابھی بھی بھٹی میں پکتے ہیں، مدرا کے کچھ خُم،
بھول نہ جانا تم، موکھی! ان متوالوں کو۔
18
تیغ تنی تھی گردن پر اور، لب پر جام پہ جام،
خم کے خم وہ خالی کر گئے، مے نوشی تھی عام،
وہ کب تشنہ کام، جو پالیں حال و مستی۔
19
برا نہ چاہا موکھی نے اور، زہر کا تھا نہ اثر،
بس ایک گھونٹ کی خاطر چوما، میخانے کا در،
باتون سے گئے مر، ہیں قبریں پاس بھٹی کے۔
20
آج تو یار کلال سے جاکر، سر کا سودا کر،
ہاتھ میں خنجر لے کر سائیں، کاٹ لے اپنا سر،
موت سے کیسا ڈر، مول بڑا ہے مے کا۔
21
دیکھ کہ ہر اک پیالے میں ہے، طرح طرح کی مدرا،
یار کلال کی قدر ہوئی جب، مے کا کیف ہوا،
آج کلال کے پاس وہ سارے، سر کا دیں صدقہ،
چکھتے ہیں مدرا، سر کا سودا کر کے۔
22
زہر ملی مے پی کر جب یہ، جسم بنے انگار،
جن سنگ تونے مدرا پی تھی، گئے برس اے یار!
ملیں گے وہ میخوار، تجھ سے مے خانے میں۔
23
نیر بہاتے، جلائیں بھٹی، رینا جائے بیت،
اے دل! تو نے کیوں نہیں سیکھی، جو ہے کلال کی ریت۔
24
یار کا پایا درشن، دوست میرے گھر آیا،
جس کو دیکھے جگ بیتے تھے، آج وہ آیا ساجن،
ہجر کے بعد اب ملن ہوا ہے، مولا لایا ساجن،
دور دیس میں یار بسا تھا، آج وہ آیا آنگن،
کہے لطیف کہ مہر سے سائیں، گھر آیا وہ ساجن۔
پانچویں داستان
1
وہ ہی سچے صوفی تھے جو، دوئی سے بیگانے،
عشق کی بازی بھول نا پائے، ایسے تھے فرزانے،
مستی سے مستانے، پا گئے قرب اس ساجن کا۔
2
خلق میں یوں موجود ہے صوفی، جیسے جسم میں جان،
کبھی نہ ایسی بات کریں کہ، دوجا لے پہچان،
سمجھیں پاپ مہان، گر بھید سمجھ لے کوئی۔
3
دان بنے ہے دکھ کا کارن، بِن بِھکشا مسکائیں،
صوفی وہ کہلائیں، جن کی جھولی خالی۔
4
صوفی ہے لاکوفی اس کا، مسلک کیا مذہب،
اپنے من میں ہی محشر ہے، ظاہر سے کیا مطلب،
اِن کی ریت عجب، بیَری کو بھی راہ دکھائیں۔
5
صوفی نے ہی صاف کیا ہے، ورق وجود کا دھوکر،
تب دیکھا وہ دلبر، جب دُھل کر ہم صاف ہوئے۔
6
کیسے صوفی سنت بنے ہو، من میں آشا جال،
اپنی کلاہ اُچھال، پہلے جلتی آگ میں۔
7
کامل صوفی بن، پھر کر فکر کلاہ کی،
کہیں سے زہر کا پیالہ پی کر، ہو جا مست مگن،
ان کا یہ مسکن، مے سے جو مدہوش ہوئے۔
8
جسم میں جبار کا، خیمہ لگا مھدم،
تیرے لب پر ذکر جلی کا، ورد رہے ہر دم،
فکر سے تو فرقان میں سائیں! ڈونڈ اسمِ اعظم،
اس در پہ ہمدم، یہ موتی ہے انمول۔
9
یہ جگ سارا خود بینی کے، کیا کیا رنگ دکھائے،
کوئی سمجھ نہ پائے، کیسی یہ جادونگری ہے۔
10
چشمئہ حُسن کا جگ طالب، رومی نے فرمایا،
جس نے پایا بھید حسن کا، بات نہ لب پر لایا،
11
چشمئہ حُسن طالب ہے، رومی ہے یہ کہتا،
کہاں سے انسان آیا ہے، دیکھ یہ طلسم سارا۔
12
چشمئہ حُسن کا طالب ہے، رومی یہ بتلائے،
پردہ گر ہٹ جائے، تو خود میں دیکھیں ساجن۔
13
چشمئہ حسن کا جگ طالب ہے، رومی کہے یہ بات،
دیکھے تو وہ ذات، گر خودداری کو تج دے۔
14
چشمئہ حُسن کا جگ طالب ہے، رومی نے فرمایا،
جس نے سچ کے بھید کو پایا، اس نے کب بتلایا۔
15
حُسن کے بھید کے سب طالب ہیں، رومی یہ فرمائے،
توڑ فراق کے دروازے تو، خود میں اس کو پائے۔
16
ظاہر میں تو پاپی ٹھہرے، باطن چشمئہ عرفاں،
یار کے درس کا دل میں لاگا، آکر ایسا پیکاں،
من میں یار ہے پنہاں، پل پل وِرد ہے یار کا۔
17
دور کریں جو درد کا، دُکھ کا پڑہیں سبق،
فکر کی تختی ہاتھ میں لے کر، جھپکیں چُپ میں پلک،
پلٹیں وہ ہی ورق، جس میں دیکھیں ساجن کو۔
18
پہلی سطر بھی یاد نہیں ہے، سارا سبق بُھلایا،
میں تو پڑھ نہ پایا، یارو! ورق وصال کا۔
19
ورق وصال کا پڑھ کر دیکھا، میں جب سارا،
اس میں تو بس تُو ہی تُو ہے، ذکر نہ اور ذرا۔
20
سطر پڑھیں نہ وہ جس میں، الف ہے سب سے پہلے،
کاہے وہ ٹٹول رہے ہیں، ورق جو ہیں دوجے۔
21
جس میں الف کا حرف ہو ایسی، کریں سطر کا دھیان،
لا مقصود فی الدارین، ہے ساجن کا فرمان،
پایا ہے رحمان، سیدھی راہ ملی ہے۔
22
مل گئی سیدھی راہ ہے جن کو، پاگئے وہ رحمان،
اِن کو تو ہر آن، ملے بِدھائی ملن کی۔
23
پڑھ پڑھ بنتے ہو تم قاضی، علم سے کیا حاصل،
خودپرستی و خودداری نے، کب پائی منزل،
کیف سوزِ دل ، پوچھو عزازیل سے۔
24
عشق میں رتبہ کس کو یارو، عزازیل سا حاصل،
عشق تھا اس کا کامل، عشق میں ہی معتوب ہوا تھا۔
25
اپنی خاطر روزِ ازل جو، میں نے سبق پڑھا،
سب سے پہلے پہچانا تھا، نفس کا تب رشتہ،
روحوں کو عرفان تھا حاصل، اپنے ساجن کا،
دورِ ہجر کا آیا، ہستی ہو گئی حائل۔
26
سمجھیں تو اک لفظ بہت ہے، بات بڑی آسان،
یونہی بات بڑھاتے جائیں، کب سمجھیں نادان۔
27
پڑھ پڑھ کر وہ بنے ہیں عالم، سوز سے خالی دل،
جوں جوں پڑھیں کتابیں ان کو، پاپ ہوا حاصل۔
28
پڑھ تو درد کا سبق اے سائیں! جس سے منوا پگھلے،
یار، سجالے اپنے من میں، الف تو میم سے پہلے،
دھیان میں بات یہ رکھ لے، کہتا ہے جو شاہ لطیف۔
29
حرف تو پڑھ لے الف کا سائیں! دوجے ورق بِسار،
اپنے من کو اُجار، کیا کیا ورق پڑھے گا۔
30
ہر اک ورق جو اُلٹایا تو، پاپ نظر آیا،
علم سے کیا پایا، جب عمل سے ملا نہ ساجن۔
31
لام کے دامن میں رکھتا ہے، کاتب! الف کو جوں،
یار کو ہم نے یوں، سجا لیا ہے من میں۔
32
سیاہی کرے ہے ضائع اور تو، کرے ہے کاغذ کالے،
اسکے دور اشارے، لفظ جہاں تخلیق ہوئے۔
33
کہاں برابر پی درشن کے، چلّے کاٹنا یار،
کاتب کیوں ہے لگایا تونے، کاغذ کا انبار،
پلٹو ورق ہزار، سب میں ایک ہی لفظ ہے سائیں!
34
چلّے کاٹ تو مت کہ تیرا، تن کھڈی من حُجرہ،
کیوں نہ پوجے اس ساجن کو، جو موجود ہے ہر جا،
پرکھ کے دیکھ ذرا سا، تو سب میں دیکھے ساجن کو۔
35
وہ ہی ہے ہر جانب ہر سو، وہ ہی ہے ہر جا،
جو بھی احد سے غافل ہوگئے، ان کا کریں گے کیا،
من میں ہی پایا، یار کو انجانے میں۔
36
چلے ہیں یار سجن، میں کیسے روکوں من کو،
مجھ برہن کو بھول نہ جائے، جس کی میں دلہن،
ٹھکراؤں میں اور سہارے، میرا تو ساجن،
ماریں وہ، مرجاؤں میں اور، ٹکڑے ہو یہ تن،
موت قبول ہے مل جائے گر، میرا وہ ساجن۔
37
جوبن کے دن چار، یار کی باتیں بھول نہ جانا،
ان کو جگ کے طعنے جن کے، نینن نیند خمار،
جو سوئیں وہ کھوئیں پریتم، پائیں نہ پی کا پیار،
بات میری تم مانو سکھیو!، نندیا ہے آزار،
ان کو اپنا جانوں جاگیں، جو ساجن کے کار،
رات ڈھلے تو جھٹک کے نندیا، رِجھالو اپنا یار۔
چھٹی داستان
1
اِن کی شان تو داؤدی ہے، ہم مفلس نادار،
ساجن شاہ سوار، روندے خدمت گاروں کو۔
2
اس کی شان تو داؤدی ہے، ہم ٹھہرے نادان،
وہ دانا نکتہ دان، روندے خدمت گاروں کو۔
3
اے قابیل! آنکھوں میں تیری، کیا کیا کاری بان،
وار پہ وار کئے جاتے ہیں، ہر گھڑی ہر آن،
کیا ہے کیا کیا زیان، تونے ان نینن سے۔
4
اے قابیل، آنکھوں میں تیری کیا کیا تیکھے تیر،
ساجن، ان تیروں سے ہیں، سب گھائل تیرے فقیر،
مار نہ اور امیر! بس اک ناوک کافی ہے۔
5
اے قابیل، آنکھوں کے تیرے، تیر کریں ہیں گھائل،
کیسے کوئی جان سکے گا، کیا ہے دردِ بسمل،
پھر ہے قتل پہ مائل، تان لیا ہے تیر سجن نے۔
6
اے قابیل، آنکھوں سے کیسا، تیر چلایا تونے،
دوجا تیر تو تب چلائے، جب پہلا لگے نہ نشانے پر۔
7
تیر نظر جب تانے ساجن، سینہ سپر ہو جاؤ،
قلب و جگر پر ہنس ہنس یار کے، زخم ہر اک تم کھاؤ،
سولی پر چڑھ جاؤ، بن کر عاشق سائیں۔
8
جب وہ تانے تیر تو سائیں! سینہ تان لے اپنا،
پریتم کے ہر وار کو تونے، سینے پہ ہے سہنا،
پیچھے لوٹ نہ جانا، بن کر عاشق سائیں۔
9
تانے جب وہ تیر تو تب تُو، تان لے اپنا سینہ،
دل میں رکھ مت کینہ ، جب ہو کوچئہ یار میں جانا۔
10
تیر چڑھا کر چلے پر تُو، ساجن مار نہ موہے،
تیر لگے گا توہے، مجھ میں تُو ہی بسا ہے۔
11
ایسے بھی عشاق ہیں جن کا، کام ہے جان بچانا،
عاشق پہلے تیر سے ہی، ہوگئے یار نشانہ۔
12
پہلا تیر جہاں کھایا تھا، وہیں کھڑا ہوں ساجن،
دوجا تیر چلائے شاید، گھائل کر دے تن من۔
13
اُلفت کے میدان میں آ اور، بن جا یار نشانہ،
کہے لطیف کے تیروں سے پھر، ہوگا جان سے جانا،
حرف نہ لب پر لانا، پریتم روٹھ نہ جائیں۔
14
اُلفت کے میدان میں آئے، کریں گے جان نثار،
عشق کے ہر اک زخم کو جانیں، اپنا ہار سنگھار،
سر دیتے ہیں وار، ہم نے ایسے عاشق دیکھے۔
15
اُلفت کے میدان میں آکر، ہو جا نعرہ زن،
سر سولی دھڑ نیزے پر، لب پر مہر ہو ہمدم،
اُلفت ہے ناگن، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
16
اُلفت کے میدان میں آکر، سر کا چھوڑ خیال،
اپنے سر کو کاٹ کے پی کے، قدموں میں تو ڈال،
افعی عشق کا حال، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
17
اُلفت کے میدان میں پیارے، کیا پروا ہو سر کی،
بڑھ جائے گا تیرا رتبہ، چوم لے بڑھ کر سولی،
پریت ہے ناگن کیسی، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
18
وہم مٹا کر کود پڑو یہ، عشق کا ہے میدان،
تج دے ہر اک خواہش دل کی، کوئی نہ ہو ارمان،
عشق ہے ناگ سمان، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
19
عشق تو ایسا کھیل نہیں کہ، کھیلیں طفل، جوان،
جسم کا جان سے رشتہ توڑے، اس کا رکھ تو دھیان،
عشق میں دے تو جان، سر نیزے پہ آویزاں کر۔
وائي
عشق مکمل، برھان پورن، میں پاپوں کی ماری پاپن،
سیج پر تڑپوں، آنکھ نہ جھپکوں، نیند کو ترسیں دکھیا نینن،
راتیں جاگیں، من میں پریتم، جن کو مارے تیرا درشن،
عقل کی راہیں اُلجھ گئی ہیں، عشق ہی آن دکھائے ساجن۔
ساتویں داستان
1
عاشق کے ہر ریشے میں، بسا ہوا ہے رب،
کیا جانیں کہ کب، آہیں بھرتے جاں نکلے گی۔
2
کب ان کو آرام، پل بھر چین نہیں ہے،
ہوگئے یار تمام، سن کر طعنہ ساجن کا۔
3
تیرے انگ تو سالم ہیں اور، عاشق ہیں معذور،
عاشق پل پل نیر بہائیں، جاکر پی کے حضور،
ان کا یہ دستور، کہ جئیں وہ یار کی خاطر۔
4
قطرۂ خون بھی گر ہے تن میں، مت کر عشق کا دعویٰ،
لب پر ٹھنڈی آہیں ہوں اور ، پیلا زرد ہو چہرہ،
کریں وہ سر کا سودا، دولت پاس نہیں ہے۔
5
تیرا تو خون بہہ نکلے گر، چھو جائے خاشاک،
کیسے یار کے وار سہے گا، کریں گے تن وہ چاک،
عشق کرے گا خاک! مت کر باتیں عشق کی۔
6
کیوں تو جگ سے چھپ کر دیکھے، اپنے من کا میت،
یار کے آنگن میں جاں دے دے، یہ ہی پریت کی ریت،
جھوٹی تیری پریت، کہ ہجر یار میں تو ہنس ہنس بولے۔
7
دونوں لفظ یہ ایک ہی جانو، پیار ہو یا ہو دار،
دونوں ہی میں رستہ تکنا، پل پل ہے دشوار،
موت ہے آخرکار، دونوں ہی کا حاصل۔
8
پریت کرو یا دیکھو کیسے، مضطر ہیں عشاق،
ان سے تو بس دور ہی اچھے، جن کو عشق سے باک۔
9
بیٹھ تو اس کی راہ میں جاکر، ہے تیرا ساجن،
گھبرا کر تو چھوڑ نہ دیجو، اپنے یار کا آنگن،
تجھ پر ایسی مہر کریں گے، ہوگی دور دُکھن،
خاک جئے گی برہن، تو تو ہم بن جی ہی لے گا۔
10
بیٹھ تو اس کی راہ میں جاکر، جو ہے تیرا دلبر،
تجھ پر لطف کرے گا ساجن، تیرے آنگن آکر،
ہوگا وہ ہی رہبر ، وہ ہی مہر کرے گا۔
11
اپنے سندر ساجن کا تو ، چھوڑ کبھی نا در،
خود ہی آکر پوچھیں گے وہ، تیری خیر خبر،
اعلیٰ وہ رہبر، سیدھی راہ دکھائے گا۔
12
جا تو یار کے کوچے میں اور، بیٹھ اسی کے دوار،
تج دے اپنی خودداری کو، اپنا آپ بِسار،
ہو پھر مائل یار، سرخرو رہے تو ہمیشہ۔
13
جا تو یار کے کوچے میں اور، بیٹھ تو اُس کے دوارے،
موکھی کے اس میخانے سے، منہ مت پھیر متوالے،
پی لے بھر بھر پیالے، وار کے اپنا سر اے سائیں!
14
جاکر بیٹھ تو راہ میں اس کی، جو ہے سندر ساجن،
میخانے سے مدرا دے کر، کروائیں گے درشن،
پھیر کبھی مت گردن، جا کر پاس پیا کے۔
وائي
ہم تو بھول نا پائیں، سندرتا اِس ساجن کی،
سولی پہ سر وار کے پھر ہم، یار کے دوار پہ جائیں،
ان کی پریت ہی سچی ہے جو، سر سولی چڑھوائیں،
پھر ہوں پریت کی باتیں پہلے، سر تو وار کے آئیں،
عقل ہے حیراں، عشق کے مارے، دار پہ سر کو سجائیں۔
آٹھویں داستان
1
کوچہِ یار میں روز کا جانا، کب اچھا ہے یار،
دھیان سے قدم اٹھاتا آ تُو، اپنے یار کے دُوار،
اپنے پیار کا بھید چھپالے، جان نہ لیں اغیار،
پریتم آن کریں گے خود ہی، دُور تیرا آزار،
آنگن آئے یار تو کرنا راز کی باتیں!
2
جب تک کوئی روگ نہیں ہے، یاد طبیب نہ آئے،
درد کوئی لگ جائے، تب ڈھونڈیں چارہ گر کو۔
3
جن کو پریت کا روگ لگے وہ ، روگ کو جانیں صحت ،
جن کو دردِ اُلفت ، وہ درد سے راحت پائیں۔
4
وہ ہی میرے درد کا درماں، جس نے درد دیا،
کہے لطیف کہ جو لکھا تھا، وہ ہی پی نے کیا،
اس کا لطف ہوا، تو آئیں دوائیں کام۔
5
ناقہ بن کر پانی پی لوں، بلائے گر وہ یار،
بِن بلائے چشمے پر تو، جانا ہے دشوار۔
6
انکہی بات عیاں نہیں ہوتی، کہی نہ سمجھے کوئی،
پرکھ سکے نہ لوگ اے سائیں، بات یہ سونے جیسی۔
7
الجھی بات عیاں نہیں ہوتی، کہی نہ سمجھے کوئی،
وہ ہی سونا پرکھ سکے گا، جس کی قسمت اچھی۔
8
جو بھی دیا دوست نے، میں نے وہ گن جانا،
پہلے مجھ کو پرکھا، پھر کی مہر کی باتیں۔
9
جو بھی دے وہ یار سجن تو، ہنس کر لے اے دل!
گر وہ توڑے پریت سمجھ لے، تجھ پر ہے مائل۔
10
توڑ نہ اس سے پریت کا ناطہ ، توڑے گر ساجن،
اِس کے اوگن گن ہی جانو، یہ ہی پریت چلن،
پَھیلا کر دامن، مانگ تو گنوانوں سے۔
11
صبر کریں سکھ پائیں، صبر نقیبِ رحمت،
غصہ وجہ زحمت، بات سمجھ لے ناداں!
12
صبر کریں سکھ پائیں، غصہ دکھ کا کارن،
فرق تجھے معلوم ہوگا، چھوڑے نہ صبر کا دامن۔
13
غصہ دکھ کا کارن، صبر تو کستوری،
سن لے بات حضوری، اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔
14
صبر میں جیت ہی جیت ہے اور، غیض و غضب ہے ہار،
چکھ کے دیکھ اے یار!، صبر کا پھل میٹھا ہے۔
15
اس کے نیارے بھاگ ہیں ، صابر تو سکھ پائے،
اس کا خالی دامن سائیں، غصہ جو دکھلائے۔
16
برا کہے جب کوئی تجھ کو، خود میں رہ تو مگن،
غیض و غضب سے کیا ملتا ہے، دکھ کا بنیں یہ کارن،
ان کا خالی دامن، جن کے من میں کینہ ہے۔
17
تجھ کو برا کہے جب کوئی، بس تو رہ خاموش،
موم کی صورت پگھلا دے تو، غیض و غضب اور جوش،
صبر کا پھل کر نوش، کینے سے کیا حاصل۔
18
کینے سے کیا حاصل ہے تو، بات سمجھ نادان!
ٹوٹے گی وہ کمان، جس کو زور سے کھینچو۔
19
تجھ کو برا کہے جب کوئی، کبھی نہ کچھ تم کہنا،
ہادی کی ہر بات کو تو، بنا گلے کا گہنا،
صبر سنگھار ہے بہنا! پا لے نفس پر قابو!
20
پلٹ کے کچھ مت کہہ ، سن کر کڑوے بول،
اپنے مورکھ من کو سمجھا، صبر بڑا انمول،
بول کو پہلے تول، تو پیار ملے ہر در سے۔
21
کہا سنا سب لوگوں کا تو، دل سے دے بِسرا،
آٹھوں پہر حلیمی کا ہی، خود کو درس سکھا،
جیون یار گزار دے اپنا، سر کو تو نہوڑا،
مفتی من میں بٹھا، پھر کیا حاجت ہو قاضی کی!
22
تجھ کو ٹوک کے سکھلائیں جو، ہر ایک کو "جی" کہنا،
پاس انہی کے رہنا، جیون بھر اے دل!
23
جن کی قربت روگ بڑھائے، ایسوں سے رہ دور،
جا تو ان کے حضور، جو تیرا روگ مٹائیں۔
24
جن کی قربت روح کی راحت، دل کا اُترے زنگ،
رہ ایسوں کے سنگ، جیون بھر اے دل!
وائي
یار سجن کا فراق، مجھ کو مار گیا ہے،
میرے سجن کے اور کئی ہیں، مجھ جیسے مشتاق،
ہر جا ہر سُو دھوم مچی ہے، ہر جا حُسن کی دھاک،
سرمہ جان کے اکھین ڈاروں، ان پیروں کی خاک،
کہے لطیف کہ ساجن میرا، سدا ہے سندر پاک.
سُر کھنبھات
پہلی داستان
1
کتنا ہے گنوان، کیا کیا گُن گِنوائوں،
عیب کبھی نہ جتلائے وہ، مہر بھری ہے شان،
میں پاپن نادان، مہر ہی مہر ہے پریتم۔
2
پیشانی میں دمک رہے ہیں، نیکی کے آثار،
تیری دید کو ترسیں نیناں، آ بھی جا اک بار،
سورج چندا یار! کب ہیں ہمسر تیرے۔
3
تو ہے وہ مہتاب جو دیکھے، چمک چمک کر ساجن،
پریتم سے تم سب کچھ کہیو، کہے جو رو رو برہن،
آئے وہ میرے آنگن، اور لوٹ کے پھر نہ جائے۔
4
دور کبھی نہ جائے مجھ سے، ساتھ سدا ہو ساجن،
روح میں میری نقش ہوئے ہیں، جس کے پیارے نینن،
اس کی باتیں جیون، اور جیون کی آس ہیں۔
5
سیدھی راہ اور چاند چڑھا ہے، کتنا دور سفر،
پی کی راہ پہ چلتے، دیکھ نہ تو مڑ کر،
ملا دے وہ دلبر، چال تو ایسی چل اے ناقے!
6
سیدھی راہ اور چاند چڑھا ہے، مجھ پر کر احسان،
چل چندن چرنے اے ناقے!، بات میری تو مان،
پی کی بات نہ غیر سے کہیو، اس کا رکھیو دھیان،
جلے رقیب کی جان، جھومتا چل تو پیا ملن ہو۔
7
سیدھی راہ اور چاند چڑھا ہے، پریت نئی پی دور،
چل رے میرے اونٹ چلا چل، میرے پی کے حضور،
دمک رہا ہے دھیان میں ساجن، وہ کیوں مجھ سے دور،
پہنچیں پی کے حضور، رات ڈھلے تو لوٹ کے آئیں۔
8
سیدھی راہ ہے، پونم رات، پریت نئی ہے چل!
ایسی چال دکھا کہ نکلیں، تیرے سب کس بَل،
رات نہ جائے ڈھل، پہنچا، دشمن جان نہ پائے۔
9
چمکا ہے پھر چاند گگن میں، اُجلی پونم رات،
میرے یار کے آنے کی تو، آج چلی ہے بات،
خوشیوں کی برسات، رقیب کے گھر میں ہوگا ماتم۔
10
چندا پونم رات کا، کرے گا جگمگ آج،
میرے پیا ہیں آنے والے، پورے ہوں گے کاج،
حُسن کا وہ سرتاج، بھیگی رات تو انگنا آیا۔
11
چندا پونم رات کا، لوگ تو دیکھ نہ پائیں،
سمجھیں رات اندھیری ہے، ہم ان کو کیا سمجھائیں۔
12
چندا پونم رات کا تو، کیا کیا کرے سنگھار،
کہاں برابر ایک جھلک کے، حیلے کرے ہزار،
تو چمکے لاکھوں بار، بس ایک جھلک پریتم کی!
13
سورج اُبھریں چار طرف اور، ہر سُو اُبھریں چاند،
ساجن بِن سب ماند، تاریکی ہی تاریکی ہے۔
14
کیسے میں ٹہراؤں چندا!، تجھے برابر پی کے،
تُو تو رات کو چمکے، پریتم تو ہر آن ہے روشن۔
15
دیکھوں تیری چاندنی تو، جلے میرا من،
انگ انگ خوشبو مہکائی، من میں پی کے لگن،
آیا نہ ساجن، مہکتے انگ مُرجھائے۔
16
شام سے ہی اے چندا تجھ کو، لاگے ایسی گرہن،
رات کی تاریکی میں مجھ کو، مل جائے وہ ساجن۔
17
چاہے ہو ناراض اے چندا، بات کہوں بے باک،
کہاں ہیں تجھ میں مرے سجن کے، نینن ستواں ناک۔
18
سچی بات کہوں اے چندا، بُرا اگر نہ لاگے،
کبھی ہلال کی صورت ہے پھر، بن مہتاب تو دمکے،
مکھ میں شعلہ لپکے، پر کہاں پریشانی پریتم کی۔
19
پریتم نے جب ناز و ادا سے، ڈالی ایک نظر،
سورج شاخیں جھک آئیں اور، کمہلایا قمر،
ماند ہوا ہر جوہر، دیکھ کے میرے پریتم کو۔
20
پی نے دکھلائی تھی صورت، بھیگ چلی جب رات،
مان ہوئے تھے تارے سارے، چاند ہوا تھا مات۔
21
اے ستارے صبح کے تو، صبح کو ہی ہے روشن،
نور سراپا ساجن، جگمگ جگمگ ہر پل۔
22
تارے! تیری جانب میں تو، دیکھتی ہوں اِس کارن،
وہیں ہے میرا ساجن، جس جانب تو اُبھرے۔
23
یہیں کہیں ہے میرا ساجن، اُس تارے کے پاس،
سر تاپا ہے مٹھاس، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
24
ڈال رہا ہے وہ جو تارا، پی پر روشن چھاؤں،
میٹھا پی کا ناؤں، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
25
چمک رہا ہے پی پر دیکھو، ٹم ٹم کرتا تارا،
ساجن شہد ہے سارا، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
26
جیسے رات کو تارے چمکیں، مکھ پہ چمکیں تِل،
ملن ہو جب مشکل، ایسی رات نہ آئے۔
وائي
میرا من مہجور، ساجن کے بِن رہے تو کیسے،
پل بھر بھی سکون نہ پائے، میرا من یہ ملور،
ساجن نے پریت کے ماروں کو، درد دیا بھرپور،
پیدل تو میں پہنچ نہ پاؤں، دیس پیا کا دور،
مجھ کو چھوڑ کے میرا منوا، پہنچے پی کے حضور۔
وائي
ساجن انگنا آئے، جن کی یاد تھی پل پل،
ساجن میرا مشک و عنبر، خوشبوئیں وہ لائے،
میرا تن ہے جس کا پیاسا، من بھی اس کو چاہے،
اس ساجن کی سندرتا کی، بات کہی نہ جائے،
لطف لطیف ہوا ہے ایسا، پیا میرے گھر آئے۔
وائي
پی کو آپ مناؤں، تو رات آکر نہ بیتے،
شمع کی صورت جل کر، خود کو میں پگھلاؤں،
جوں جوگی کی دھونی، سلگ سلگ جل جاؤں،
اپنے میت کی پیت بھلا، اور کو کیا سمجھاؤں،
دکھ ہے پریت کا پل پل، دکھ میں گھل گھل جاؤں،
میں تو یار ہوں سید کا، پورنتا میں پاؤں،
پریت میں دکھ ہی دکھ ہے، دکھ میں رچ بس جاؤں،
ویرانوں میں چمکوں، پریت پیا کی پاؤں،
پریتم ہے جب ایسا، میں محشر میں مسکاؤں۔
دوسری داستان
1
اے چندا تو جونہی اُبھرے، دیکھیو میرا پریتم،
یاد سے کہیو میرے سجن سے، تو ہی حال کا محرم،
اور نہ کوئی ہمدم، آس لگی آنکھوں کو۔
2
اے چندا، تو جونہی اُبھرے، دیکھیو میرا ساجن،
یاد سے کہیو مرے سجن سے، کہتی ہے جو برہن،
ساجن، سارے جیون، آس لگی آنکھوں کو۔
3
اے چندا تو جونہی اُبھرے، ڈالیو پی پہ نگاہ،
مجھ عاجز کا حال سجن سے کہیو سب اللہ ،
دیکھ رہی ہوں راہ، آس لگی آنکھوں کو۔
4
اے چندا تو جونہی اُبھرے، ڈالیو پی پہ نظر،
میں ہوں نربل ناری کہیو، پی سے یہ جاکر،
تو ہی چھاؤں چھپر، آس لگی آنکھوں کو۔
5
اچھے چاند! تو میرے سجن کو دینا یہ پیغام،
اُبھر کے اس کے انگنا پہ تو، چھو لینا گلفام،
دھیرے لینا نام، چھو کر پیر پیا کے۔
6
میں جو دوں پیغام اے چندا! لے پَلُو میں باندھ،
کہنا حال حبیب سے میرا، سر نہوڑا کر چاند!
اور سبھی کچھ ماند، جگ کا تو ہی سہارا ہے۔
7
چاند! اُبھر کر دیکھ پیا کو، مجھ سے ہے وہ دور،
مشک رچے وہ جوڑے کھولے، سوئے سراپا نور،
بابل دے نہ ناقہ میں واں، جانے سے مجبور،
میں پہنچوں وہاں ضرور، ناقہ دے گر بابل موہے۔
8
ہجر یار میں مرجاؤں میں، پی گنوان ہے دور،
ناقہ دے نہ بابل موہے، میں نربل مجبور۔
9
ہوگا مدھر من، کب میرے اللہ!
پل پل مشتاقوں کے من میں، جلے ہے پریت اگن،
دور بسا ہے ساجن، کس سے من کی بات کہوں میں۔
10
دل نے پھر سے یاد کیا ہے، ہوگا کہاں وہ ساجن،
آن کے سیج پر کب بیٹھیگا، تو اے میرے لالن،
ہو اب تجھ سے ملن، اور کسے میں حال سناؤں۔
11
میرا ناقہ بیٹھ گیا ہے، ہر سو باد و باراں،
کیسے پلان میں ڈالوں یہ تو بن پلان ہے گریزاں۔
12
پلان میں ڈالوں کمان لیکن یہ، بن پلان نہیں اٹھنا،
ہے اس کی نگاہ اس جا، جہاں ہے اس کا گلہّ ۔
13
ناقہ پاس نہیں ہے کیسے، پہنچوں پی کے پاس،
کوئی تو لے جائے برہن کو، من میں ملن کی آس،
روئیں نین نراس، میں ہوں بے بس برہن۔
14
چھوڑ دے ساری سُستی ناقے، رکھ اب تیز قدم!
لے چل موہے پاس پیا کے، مل جائے پھر بالم،
گہرا ہجر کا غم، پیتا پڑے نہ تجھ پر۔
15
چھوڑ دے ساری سُستی ناقے!، تیز بڑھا تو گام،
جانا ہے اُس دیس مجھے، جہاں میرا گلفام،
چرے گا اب چندن ناقے!، گھاس سے اب کیا کام،
جب ہو رات کا دھام، تو پہنچا پاس پیا کے۔
16
تیز ذرا تو قدم بڑھا اور، چھوڑ دے مستی یار!
سیدھی راہ ہے پریتم کی، جان نہ تو دشوار،
مل جائے دلدار، رات ہی رات میں ناقے!
17
کیا ہے تیری نسل ذرا تو، خود کو تو پہچان،
بڑی ہی اعلیٰ نسل ہے تیری، اِس کا کر کچھ دھیان،
مجھ پر کر احسان، آج ملا دے پریتم سے۔
18
آن کے باندھا اونٹ وہاں کہ، کلیاں چن چن کھائے،
کیا ہے بد ذات یہ ناقہ، گھاس ہی اِس کو بھائے،
ہم تو سمجھ نہ پائے، ڈھنگ ذرا بھی ناقے کے۔
19
مان لے مجھ برہن کی بات تو، کروں میں تیری منت،
قلب ناپ نہ راہ کے فاصلے، لے جا وہاں ہر صورت،
کرلوں آج زیارت، میں اپنے اِس پریتم کی۔
20
گلے میں موتی مالا ہے اور، ہیروں جڑی مہار،
آ تیری گردن میں ڈالوں، میں ہیروں کا ہار،
رات ملا دے یار، چندن تجھے کھلاؤں گی میں۔
21
گردن میں یاقوت کے گانے، موتی جڑی مُہار،
چندن، تجھے کھلاتی جاؤں، آٹھ پہر میں یار!
جس سے میرا پیار، پہنچا پاس اسی کے۔
22
تیری گردن میں ڈالوں میں، اک سونے کی مہار،
چندن، ڈالی مہندی کی میں، تجھے کھلاؤں یار!
جس سے میرا پیار، پہنچا پاس اس پریتم کے۔
23
ساتھی کوئی نہ بھائے اِس کو، نہ کھائے گھاس،
ایسا عشق لگا مالک سے، اور نہیں کچھ راس،
مالک کے ہی پاس، رہے وہ مرتے دم تک
24
ناقہ گھاس نہ کھائے اور ہے، اپنوں سے بیزار،
کھایا ایسا عشق کا ناوک، جیون ہے آزار،
کرے ہے جان نثار، راہِ وفا کا راہی ہے وہ۔
25
بیٹھ کے گلے سنگ وہ کھائے، ڈالی خوشبو دار،
اے ماں، نہ دیکھ تو اسکی ظاہری رفتار،
دِل میں بسا ہے یار، ویسے اوروں جیسا ہے۔
26
بھورا اونٹ نہ کھائے کبھی بھی، ڈالی، کونپل، بور،
رات کو روند کے آیا ہے وہ، خوشبوئیں کافور،
کیسا ہے مسرور چندن چکھ کر آیا ہے۔
27
کل تک چال جو اونٹ کی تھی، آج نہیں وہ چال،
نہ تو گھاس ہی چرتا ہے وہ، نہ آئے چوپال،
زہریلی اک ڈال، شاید کھا کرآیا ہے۔
28
آج دکھائی ایسی مستی، غیر کے کھیت کو روندا،
علم ہوا جب مالک کو تو، اونٹ کو اِس نے گھیرا،
دور سے ہی دہقاں کو دیکھا، بھاگ سکا نہ ناقہ،
بھول گیا بے چارہ، اپنی ساری مستی۔
29
تونے جانے کتنی کھائیں، بیلیں خوشبودار،
زہر بھری بھی یار!، کھانا پڑے گی اک دن۔
30
تو اپنے اس ناقے کی، کس کر باندھ مہار،
برکھا رُت میں جب پھیلیں گی، بیلیں خوشبودار،
ہوگا پھر دشوار، اونٹ کا قابو رکھنا۔
31
کیا جانے کس اور سے وہ، کیا ہے چکھ کر آیا،
توڑ کے سارے بندھن وہ تو، پہنچے ہے اس جا۔
32
اس ناقے کو ڈالے میں نے، جانے کیا کیا بندھن،
پھر بھی بیلیں کھاتا ہے وہ، نیچی ڈال کے گردن،
مولا! اپنی مہر سے اس کا، اُجلا کر دے تن من،
سدھر چال چلن، کہے لطیف کہ لطف سے تیرے۔
33
چابک تھا یوں اونٹ کو مارا، چلے وہ سیدھی راہ،
سیدھی راہ کے سفر سے ناقہ، ہو جائے آگاہ۔
34
جب اے میرے ناقے تو، پہنچے گھاٹ کھنبھات،
میرے پیا کے آنے کو تو، سن لے شاید بات۔
35
جانے کتنی بار کہا تھا، کبھی نہ کھانا آک،
پر ناقہ زہریلی بیلیں، کھا جائے بے باک،
پھیل گئی ہے چندن خوشبو، مہک رہی ہے خاک،
ناقہ یہ چالاک، کرے پریشان مجھ کو۔
36
چھوڑ کُھلا مت ناقے کو، کردے پابہ رسن،
لاد دے ایسا بوجھ کہ اس کا، سدھرے چال چلن،
باندھ لے ایسا بندھن، کہ سیدھی راہ پر آجائے یہ۔
37
رسے باندھے پیروں میں اور، باندھی ہے زنجیر،
پھول ہی اس کے من کو بھائیں، سب کچھ اور حقیر،
کرے اب کون اسیر، ایسے سرکش ناقے کو۔
38
کس نے تجھ پر جادو ڈالا، کیوں ہے آج پریشاں،
آنکھوں پر ہے پٹی باندھی، لہو لہان ہے جاں،
کولہو میں ہے وواں، بھولا کیسے گلّے کو تو۔
39
میں نے اپنے من کو روکا، کیا کیا کیں تدبیریں،
پھر بھی پاس پیا کے پہنچا، توڑ کے سب زنجیریں۔
40
کیا کیا ڈالی زنجیریں اور، کیا کیا باندھے بندھن،
توڑ دیں ساری زنجیریں جب، آیا یاد وہ ساجن۔
41
چندن پاس نہ جائے ناقہ، کھائے نہ "کھٹن ہار"
خوشبوؤں کے پاس نہ بھٹکے، سر کھنڈ دیئے بسار،
"لانے" سے ہے پیار، اور کھا کر مست ہوا ہے۔
42
پیئے نہ اُجلا پانی ناقہ، نہ ہی چندن کھائے،
چھوڑ دیئے ہیں مشک و عنبر، خوشبو اُسے نہ بھائے،
"لانو" اسے لُبھائے، کیا جانے کس کارن۔
43
جس بگیا کی ڈالی، پانچ لاکھ میں پاؤ،
ناقے کو ہے چاؤ، کھائے اس بگیا سے۔
44
جس بگیا کا پتا پتا، مول انمول بکے،
جھکا کے ڈالی پھولوں کی، اسی کو وہ کھائے،
لاکھوں مول بکے، اس بیل کا سوکھا پتہ۔
46
جس کا کوئی مول نہیں ہے، مول لیا وہ ناقہ،
ناقہ من کو بھائے یہ ہے، سودا کیسا سستا۔
47
جس کا کوئی مول نہیں ہے، اس کو لے لے مول،
آج خرید لے اور تو اس کا، مول چُکا اور کھول،
ایسا ہے انمول، لے جائے گا پاس پیا کے۔
48
جس کا کوئی مول نہیں ہے، مول چُکا لے جا،
خوشبودار سی بیلیں اس کو، جاکر خوب کھلا،
کرے گا کب پروا، لے جائے گا پاس پیا کے۔
وائي
کروں میں پی سے بتیاں، پورے ہوں ارمان اے میا!
بِن پریتم کے بیت گئیں جو، خاک ہوں وہ سب رتیاں،
پی سنگ باتوں میں جو بیتیں، وہ انمول ہیں گھڑیاں،
دیکھن کارن اپنے پی کو، ڈھونڈ رہی ہیں اکھیاں،
کہے لطیف کہ بھیگی رات تو، جاگا دردِ ہجراں۔
وائي
مرےمن میں آس ہی آس، آس سے پریتم کب ملتا ہے،
کالی رات میں پل پل روئیں، جب جب نین نراس،
سولی پر جو چڑھنا جانے، پریت انہی کو راس،
کیسے لطیف وہ ہر پل روئیں، یار نہ جن کے پاس۔
وائي
چاہے دھکارے، پڑی ہوں تیرے دوارے،
تو مجھ کو چاہ نہ پھر بھی، میرے بھاگ نیارے،
در در بھٹکے دیکھا، تو ہی ہے ہرجا پیارے۔
سُر سری راگ
پہلی داستان
1
شاید پوچھے یار، لگا رہے یہ دھڑکا،
مانے اَمر جو اِس کا، رہے نہ خالی دامن۔
2
دل میں رہے یہ دھڑکا، شاید پوچھے ساجن،
پھیلا اپنا دامن، بن کر یار! بھکاری۔
3
ہر پل رہے یہ دھیان، شاید پوچھے پریتم،
دھو کر میلے بادباں، چمکا لے اب ہمدم،
رہ ہشیار تُو ہر دم، اُترے گا تو پار اے مانجھی!
4
پل پل رہے یہ دھڑکا، شاید پوچھے یار،
مت کر کانچ کا سودا اور نہ، جھوٹ کا کاروبار،
سچ کا کر بیوپار، سچ کا بن سوداگر۔
5
لگا رہا ہے یہ دھڑکا، شاید پوچھے یار،
کُھرچ کے اپنے دل سے، سارا جھوٹ اُتار،
تب اُترے گا یار!، خوف و خطر اِس پار کا۔
6
پوچھ نہ بیٹھے یار، ہر پل رہے خیال،
مانجھی رکھ نظر میں، مال جو ہے اُس پار،
کشتی خوب سنوار، سونپ دے پھر رہبر کو۔
7
کانچ کمایا، کر نہ پایا، ہیروں کا بیوپار،
چھوڑ کے اچھا مال لگایا، شیشے کا انبار،
تجھ پہ ہے آدھار، دیکھ تو کیسا حال ہے میرا۔
8
خوب کمایا جھوٹ، توڑے عہد خدا سے،
تن پاپوں سے چُور ہے، خود کو دی یوں چُھوٹ،
میرے سب کرتوت، تجھے تو ہیں معلوم۔
9
خوب کمایا کانچ، کر لے یاد خدا کو،
دھو دے دھوکہ دل سے، یار کو بھائے سانچ،
من میں بڑھتی جائے تیرے، پل پل عشق کی آنچ،
اعمالوں کو جانچ، تو سودا ہوگا ستھرا۔
10
سودا ہے جو ستھرا سائیں!، وہ پلو میں ڈار،
چلے نہ بس برہن کا، میں ہوں بے بس نار،
تیری راہ نمائی بِن میں، کیسے اُتروں پار،
مہر سے پار اُتار، لہر لہر ہے بپھرا ساگر۔
11
لہر لہر ہے بپھرا ساگر، ملتا نہیں کنارا،
ہیبت ناک جزیرے، بیڑے، بچ جائیں خدایا،
میرے اس بیڑے کا اللہ، تو ہی سہارا،
طغیانی کا دھارا! بیڑا پار لگا دے۔
12
اُجلے اُجلے بادباں، عاج جڑے پتوار،
لاد کے کشتی سارے ساتھی، چلے ہیں اب اس پار،
تجھ سے ہے آدھار، سائیں! بنجاروں کی۔
13
ڈھلے ڈھلائے بادباں، ماہر کھیوں ہار،
سارے ساتھی چلے سفر کو، چلے ہیں اب اس پار،
تجھ سے ہے آدھار، بیڑے پار لگا دے۔
14
آن پڑی کشتی میں، پانی کی اک بوند،
ایسی لگی پھپھوند، سب مال ہوا بے کار۔
15
آن پڑا کشتی میں، پانی کا اک قطرہ،
اِن کو روتے دیکھا، جن کا مال ہوا بے کار۔
وائي
شکر بجا لاؤں میں کیسے، لاکھوں ہیں احسان،
حمد کر تو حکیم کی اور، کر عظمت تو بیان،
ظاہر باطن سب کچھ جانے، پائے جو اس سے گیان،
اس کی حمد و ثنا کو بھولے، کون ہے وہ نادان،
مَن کا منکا پھیرو سائیں!، پل پل اس کا دھیان،
اتنا درد بڑھا تو دل میں، ہو جائے ہلکان،
شاید اپنی مہر سے تجھ پہ، سائیں کرے احسان،
کھوٹ ہے جتنا دل میں دھولے، پالے سچا گیان،
صاحب کو بس سچ ہی بھائے، سچ کو تو پہچان،
سیس جھکانے والوں کا کب، کوئی کرے اپمان،
جو بھی اِس کے عشق میں جاگے، پالے نرالی شان،
یاد کرو تو یاد کرے وہ، فرمائے قرآن،
شکر کرو اللہ کا یارو، اور چھوڑو کفران،
سب کے عیب چھپائے ساجن، ایسا وہ گنوان،
اس سائیں کی حمد کرو تم، دل سے ہر ہر آن،
کیوں بیٹھا یوں وقت گنوائے، تائب ہو نادان،
لطف ہو لطیف کا تجھ پہ، پائے امن و امان۔
وائي
مجھ میں تو موجود، میں تو ہوں نادان
مہر ہو جب جب گمراہوں پہ، آن کریں وہ سجود،
بھید بقا کا پا گے، ہوگئے جو نابود،
پریت کے مارے اِن نینن کے، نین تیرے مسجود،
وہ ہی تیرے دوار پہ پہنچے، بھول گئے جو وجود۔
دوسری داستان
1
تیری مہر و وفا سے قائم، سارے موجودات،
کہے لطیف کہ لطف و کرم کی، کتنی ہے بہتات،
فضل سے تو ملے نجات، عدل سے کب مل سکتی ہے۔
2
کریں جو حمد سُبحان، جاگ کے ساری رات،
کہے لطیف کہ اِن کی مٹی، پا لیتی ہے مان،
لاکھوں کریں ہر آن، آ کر انہیں سلام۔
3
سیوا کر تو ساگر کی، جہاں نہ جل کا کال،
مانجھی! بیچ بھنور میں کیا کیا، چھپے ہیں مانک، لعل،
تھوڑا بھی ہو مال، تو بھر جائے گی کشتی۔
4
بھری ہے اِن کی نیا، چھان چکے جو ساگر،
کیسے کیسے موتی لائے، وہ ساگر کے خوگر،
کہے لطیف کہ لعل چھپے تھے، لہر لہر کے اندر،
لائے وہ ایسے گوہر، جن کا مول نہ کوئی۔
5
پوجیں جو سبحان، لہر لڑے نہ اُن سے،
توبہ کی تاثیر سے سارے، پار کیے طوفان،
کیا توکل پر جب تکیہ، گھاٹ ہوئے آسان،
ماہر کشتی بان، ہوا ہے ان کا رہبر۔
6
سودا ان کا صاحب سے ہے ، جاگیں جو ہر آن،
عبدیت سے کشتی بھر کر، نکلے یار جوان،
پل بھر میں بلوان، پار گئے ساگر کے۔
7
عبدیت سے کشتی بھر کر، کرتے ہیں جو سودا،
موتی ہیں عرفان کے سارے، سودا سارا سچا،
"التائبُ مِنَ الذنّبِ" ، اِس کا ملا منافع،
اُن کے صدقے مولا! مجھ کو پار اُتار۔
8
سوچ سمجھ کر جو کرتے ہیں، سچ کا کاروبار،
اِن کو خوشخبری دیتا ہے، سب کا پالنہار،
سب اُترے ہیں پار، مہر ہوئی مولا کی۔
9
وصف یہی غواصوں کا ہے، ساگر چھان کے آئیں،
ڈوب کے گہرے ساگر میں وہ، کیا کیا موتی لائیں،
پھر جو موتی پائیں، وہ آن کے بانٹیں سب میں۔
10
اُترے گہرے ساگر میں وہ، ایسے تھے غواص،
بھنور بھنور کی لہر لہر بھی، آگئی ان کو راس،
لائے ہیں الماس، چھان کے گہرا ساگر۔
11
اُترے گہرے ساگر میں جو، پہنے کانچ نقاب،
سیپ سیپ سے موتی لائے، چھان کے گہرا آب،
موتی وہ نایاب، دیکھیں گے آنکھوں سے۔
12
گھاٹ بڑا دشوار، میری ناؤ سہے نہ موج،
خوب لگایا کشتی میں، عیبوں کا انبار،
کیا کیا میرے ہیں سائیں، جن کا نہیں شمار،
مہر سے پار اُتار، تو ہی بپھرے ساگر سے۔
13
سر پر ساگر گرج رہا ہے، بھول نہ اے نادان!
سکھیوں کو جب جاتا دیکھے، کر تب موت کا دھیان،
دیکھ تو ہر انسان، چلا ہے دوجے پار کو۔
14
آٹھوں پہر گرداب کا، اِس پر خوف ہے طاری،
کیسے کہے بے چاری، کہ ناؤ گھاٹ لگے گی۔
15
بندہ جانے کیا کیا سوچے، صاحب کام سنوارے،
گہرے بپھرے ساگر میں وہ، کشتی پار لگائے،
آساں گھاٹ پہ لائے، وہ ہی ساری کشتیاں۔
16
ایک بات تو بندہ سوچے، دوجی سوچے صاحب،
بیچ بھنور سے گھاٹ پہ لائے، مہر کرے جب وہ رب،
ایسا کرے وہ سبب، کہ ڈوبتی نیا پار لگے۔
17
بندہ جانے کیا کیا سوچے، اِس کی اور ہی قدرت،
خود ہی بیچ بھنور میں لائے، خود ہی کرے وہ رحمت،
کیا کیا کریں مدحت، وہ سب کشتی پار لگائے۔
18
بندہ جانے کیا کیا سوچے، اس کے کام نیارے،
خود ہی بیچ بھنور میں لائے، خود ہی پار اُتارے،
کشتی گھاٹ پہ لائے، جو پہنچ نہ پائی گھاٹ پر۔
19
ایک بات تو بندہ سوچے، دوجی وہ جبار،
بھنور بھنور سے آپ بچائے، اس پر ہے آدھار،
بھرے جہاز جواہر والے، تیریں بِن پتوار،
ٹوٹی ناؤ، ثابت بیڑے، پہنچیں گے سب پار،
شہر مدینہ جس جا سائیں، سوہنا محمد ﷺ یار،
مہر سے تو ستار، سب کی کشتی گھاٹ لگا دے۔
وائي
منزل کر آسان، مانگون امن امان، تیری مہر کنارا جانوں،
اوگن کیا گنواؤن اپنے ، بے حد ہیں عصیان،
قبر کی کوئی خبر نہیں ہے، ذرا نہیں ہے دھیان،
تو ہی آکر راہ دکھا دے، مورکھ سب انسان،
سن لے تو فریاد ہماری، اے سچے سبحان!
دیکھے میرے پاپوں کو تو، شرمائے شیطان،
ایسا میرا حال ہوا کہ، حیراں ہیں حیوان،
تو ہی ناؤ، تو ہی کنارا، تو ہی کشتی بان،
ناؤ نہ ڈوبے بیچ بھنور میں، رحمت ہو رحمان،
ڈوبتی نیا پار لگائے، یہ ہی تیری شان،
منگتا مانگے بھیک تجھی سے، مہر کا دے تو دان،
کیا کیا یار غلاموں پہ ہیں، مولا کے احسان،
میں اندھا بھی بھیڑ میں بیٹھا، مانگوں تجھ سے دان،
جو آواز لگائے آکر، اس کا رکھے مان،
تجھ داتا سے بھوکے ننگے، پائیں اونچی شان،
مجھ کو بھول نہ جانا سائیں! میں در کا دربان،
تو ہی محشر میں رکھے گا، سائیں! میرا مان،
ہم گمراہوں کی بخشش کو، کردینا آسان،
کہے لطیف کہ سن لینا تو، فریادیں سلطان۔
تیسری داستان
1
ہوا چلی جب اُتر کی، اس آس اٹھائے لنگر،
ٹوٹیں نہ پتوار اے سائیں! ان کے بیچ بھنور،
چلے ہیں سوداگر، مال سے کشتی بھر کر۔
2
مانگے ہے کستوری اور ہے، نمک کا کاروبار،
تیری کشتی لہر کی زد میں مت جھوٹ کا کر بیوپار،
بھول منافع یار!، اور سنبھال لے مال تو اپنا۔
3
مال کا ڈھیر لگے ہیں لیکن، کاہل ہیں بنجارے،
مشکل سے ہی بچ سکیں کچھ، سودا صبح بیچارے،
آنکھ جھپکتے پیارے! کچھ نے بیچ دیا سب مال۔
4
کبھی بھی ہو نہ پرانا تو وہ، سودے میں لے مال،
دیس بدیس میں قدر ہو ایسا، مال ناؤ میں ڈال،
ہوجائے خوشحال، پہنچ کے دوجے پار اے مانجھی!
5
ساگر سے لے آئے ہیں وہ، کچھ کچھ خبریں رہبر،
لیکن کب وہ بتلاتے ہیں، کیا کیا وہاں بھنور۔
6
کشتی تیری مہر کی ہو اور، لدا ہو وصل کا مال،
آسان کر دی لہر لہر اور، چلے ہے بادِ شمال،
تو ہو جب رکھپال، تو پھر کیا منت مانجھی کی۔
7
لاد نہ اس پر مال، تیری ناؤ پرانی،
دیکھ تلے میں چھید ہوئے اور، ناؤ میں آیا پانی،
یہ گھڑی تو بیتی، سوچ تو مانجھی کل کا۔
8
کیا کیا چھید ہوئے نیا میں، ناؤ میں پانی یار!
ٹوٹ گئی ہر نیا ڈوری ٹوٹ گئے پتوار،
وہ جب کھیون ہار، تو پہنچے نیا پار بھنور کے۔
9
کر تو مرمت کشتی کی پھر، کھینچ لے مانجھی لنگر،
سجا کے نیا لے جا پھر تو، جہاں گہرا ساگر،
کھول رسے لے جا مانجھی، نیا بیچ سمندر،
پھر کیا خوف و خطر، ڈولے نیا بیچ بھنور میں۔
10
کر تو مرمت کشتی کی اور، کر لے اب تیاری،
ہر پل گہرے ساگر کا، خوف ہو دل پر طاری،
آج یا کل یہ کشتی، گزرے گی بپھری لہروں سے۔
11
جو کانوں سے سن رکھے تھے، دیکھے آج بھنور،
کہے لطیف کہ نینن نیند تھی، بھولے تھے ساگر،
تیری غفلت سے ہی نیا، پہنچی بیچ بھنور،
ٹوٹی نیا کو ساگر میں، تو ہی بچا رہبر!
مجھ نربل کی نیا پر تو، مہر کی ڈال نظر،
پہنچوں "پربندر"، تیرے سنگ میں سید!
12
اور جہاز ہیں جانے والے، تو بھی اُٹھا اب لنگر،
سنگ لے سارا ساز و سامان، جا پھر بیچ سمندر،
تجھ کو بپھرا ساگر، دیتا ہے آوازیں۔
13
دیکھ کہ کیسے ساگر میں یہ نیا ڈوب کے تیرے،
ٹوٹ گئی ہے ہر اک ڈوری، خستہ حال پھریرے،
جانے رہبر کہاں گئے ہیں، اب ہیں فرنگی گھیرے،
مانجھی تیری کشتی میں اب، چوروں کے ڈیرے،
جہاں ڈوبیں بیڑے، وہاں پہ تو ہی سہارا۔
14
ڈال دے نیا ساگر میں، سنگ لے زادِ راہ،
تجھ سے بپھری لہر لڑے گی، رکھنا تیز نگاہ،
بھنور جہاں اتھاہ، غفلت اس جا لے جائے گی۔
15
ڈالا بنجاروں نے، ناؤ میں غیر کا مال،
لہر لڑی تو نیا ٹوٹی، مال ہوا پامال،
رہے نہ خوف و ملال، جاگ کے پار کرو جب ساگر۔
16
راس نہ آئیں دونوں باتیں، نیند اور دوجا پار،
ٹیک لگائے بیٹھا ہے اور، نینن نیند خمار،
دینا ہوگا یار! کل تو یہاں حساب۔
17
ایسا تیز بہاؤ ہے کہ، ٹھہر نہ پائیں لنگر،
کھیچ سکیں نہ بیڑے، مانجھی زور لگا کر،
روکیں روک نہ پائیں، نیا بیچ سمندر،
ہیبت ناک ہے ساگر، رہبر بتلاتے ہیں۔
18
اس سید کے ساتھ بنا کب، کام بنے گا یار!
خوب سجا لے کشتی اپنی، اب تو کھیون ہار،
لحظہ لحظہ کشتی پر ہے، لہروں کی یلغار،
لہر کرے گی وار، گر عمل کیے نہ اچھے۔
19
بھچ رہے ہیں خبریں جن کو، ساگر کی پہچان،
اپنے اپنے سنگ لیا ہے، سفر کا سب سامان،
کہے لطیف کہ تیری مہر سے، پار کیے طوفان،
یاد جنہیں سبحان، وہ عدن کے پار گئے ہیں۔
20
گھاٹ پہ خوف و ہراس، چین سے بیٹھ نہ مانجھی،
جیسے کوئی دہی بلوئے، بھنور ہیں گھاٹ کے پاس،
یہ دکھڑے یہ یاس، آنکھ جھپک نہ پل کو۔
21
چین سے سب سوئے ہیں، رہبر کا ہے سہارا،
سو جاؤ کہ ساحل پر ہے، خوف نہ کوئی خطرہ،
سید کا سہارا، تو پہنچیں گے سب پار۔
وائي
چلنے کو تیار ہیں سکھیاں، چلے کو تیار،
ڈالا سامان کشتی میں، ہیں چلنے کو تیار،
تیرے نینن نیند بھری ہے،
اُٹھا لیے ہیں سب نے لنگر، چلے ہیں اب اُس پار،
سب کو گہرا گھاٹ پکارے، اب ہے تیری بار،
سو کر رات بِتائی پھر بھی، نینن نیند خمار،
شاید دن نہ پائے مانجھی، ساگر کی للکار،
وقت ہے اب بھی تائب ہو جا، بھول نہ اپنا یار،
لمبی تان کے سو مت مانجھی، آگے ہے منجدھار،
سائیں سچ کا سوداگر ہے، جھوٹ تیرا بیوپار،
کیسا بپھرا بپھرا ساگر، گرج رہا منجدھار،
مشکیزے بِن چلی ہوں سائیں!، تو ہی کھیون ہار،
شرک و شک کے گردابوں سے، سائیں! پار اُتار،
شرک و شک کے گردابوں سے، سائیں! پار اُتار،
کُل نَفسِ ذَائقتہ الموت، کر کچھ سوچ بچار،
باز کی صورت جھپٹ کے اک دن، کرے گی موت شکار،
یِومَ یَفرُّ المرءُ من اَخیہ ، کوئی نہ ہوگا یار،
چھوٹ گیا ہے بجرہ سائیں، تو ہی کھیون بار،
مال لٹائے اِس دنیا میں، تو نے لاکھ ہزار،
یار کے نام پہ دان دیا جو، سچا وہ بیوپار،
کیا کیا آن لگائے گھر میں، دولت کے انبار،
فرمایا ہے احمد پی نے، دنیا ہے مردار،
کچھ تو نروھن کو بھی دیتے اِس ساجن کے کار،
شوہر کے بھی نافرماں جو، دولت ہے وہ نار،
جیون رین بسیرا سجنی، جھوٹا ہے سنسار،
کیسے بھول رہی ہے ناداں، قبر کا وہ اندھکار۔
چوتھی داستان
1
سب کو سیدھی راہ دکھائے، کسی کو نہ بھٹکائے،
جو اپاہج ہیں ان سب کو، سائیں تو اپنائے۔
2
سونپ دے اب سبحان کو، اپنے کام تمام،
سر تسلیم سے خم کر اپنا، دل سے دھو اوھام،
پورے ہوں گے کام، وہ جب مہر کرے گا۔
3
اچھوں سے تو کرتا ہی ہے، ہر کوئی اچھائی،
بد سے کرے بھلائی، تجھ بِن اور نہ کوئی۔
4
نیک کرے اچھائی اور بد، کرتا ہے برائی،
جس کی جو خُو بھائی!، وہ خُو وہ دِکھلائے۔
5
لاد کے ساماں ناقے پر، وہ ناداروں کو بلائے،
یہ وصف میرے ساجن کا، کہ سب کو سنگ لے جائے۔
6
قدر تو جانے بیمے کی تو، کرے نہ اور بیوپار،
ان سے سیکھ جو کرتے ہیں، سچ کا کاروبار،
جن سے لائے یار، موتی عجز و نیاز سے۔
7
دے مت بے قدروں کو، یہ موتی انمول،
قدر جو جانیں موتی کی تو، اِن سے موتی تول،
کھولیں جھوٹ کا پول، سچ کے وہ بیوپاری۔
8
پرکھ جو پائیں کنچن، ایسے ڈھونڈ تو ماہر،
جس میں نہیں جواہر، کبھی نہ کر وہ سودا۔
9
پرکھ جو پائیں کنچن، ایسے ڈھونڈ تو ماہر،
کریں جو ضایع جواہر، انکے لیئے اندھیرا ہے۔
10
لاد گئے جب ماہر، کنچن! تو بھی لاد کے جا،
تجھ میں کھوٹ ملائیں گے اور ، مول نہ ہوگا تیرا۔
11
سچے موتی لٹاتے ہیں، قدر ہے کانچ کی آج،
آتی ہے اب لاج، سچ بھرا ہے دامن میں۔
12
پرکھیں اور تراشیں ہیرے، گئے وہ ماہر لاد،
سیسے کی بھی قدر نہیں ہے، اب تو ان کے بعد،
آہن گر آباد، آج ہیں ان کے باٹ پر۔
13
پرکھیں اور تراشیں ہیرے، جائیں نہ ایسے ماہر،
پرکھیں خوردبینی سے جو، موتی مزاج کے نادر،
اب بِن ایسے ماہر، موتی پرکھے جاتے ہیں۔
14
کچھ صراف ہیں جگ میں ایسے، ماہر جو کہلائیں،
بھینچ کے مٹھی میں ہم موتی، ان کے پاس لے جائیں،
کہے لطیف کہ موتی کا وہ، کیسے مول چکائیں،
موتی پرکھ وہ پائیں، یا کھوٹ ملائیں سونے میں؟
15
نادانی سے کر ڈالے ہیں، موتی کے دو ٹکڑے،
اٹھالے روتے روتے، موتی کے ٹکڑوں کو۔
16
نادانی سے توڑ دیا ہے، تونے یہ الماس،
اب یہ ٹکڑے لے کر، جا صراف کے پاس۔
17
پڑے پڑے پیٹی ٹوٹا، گوری ہاتھوں ہیرا،
جب تک تھا یہ ثابت تب تک ، لاکھوں مول تھا اُس کا،
جب سے ہے یہ ٹوٹا، تب سے تو انمول ہوا ہے۔
18
جس جا ہیرے موتی ہیں، تاک میں وہاں لُٹیرے،
ان کے بھاگ نیارے ہیں جو، بچا کے لائے ہیرے۔
19
ظاہر چور کہے کہ دیکھو، میں موجود یہاں،
کیسے اس کو پکڑ سکیں جو، چور ہے دل میں نہاں۔
وائي
جاگو، سکھیو، جاگو، پریت نہ ہم بِسرائیں،
کیوں ٹھہریں پنگھٹ پر، پیا ملن کو جائیں،
جگمگ پریتم اپنا، پروانے بن جائیں،
بپتا سب تن من کی، ساجن کو بتلائیں،
گرجے موت سروں پر، جوں گھنگھور گھٹائیں،
موت اچانک جھپٹے، کیسے یہ بِسرائیں،
تاریکی ہے آگے! زادِ راہ لے جائیں،
ساتھ قبر کا توشہ، خالی ہاتھ نہ جائیں،
دل کے بھید وہ جانے، کیسے عیب چھپائیں،
جو گذرے ہے وجود پہ، اس سے چھپا نہ پائیں،
جو ڈرتے ہیں، پی سے، اور سے ڈر نہ پائیں،
وہ سدا ہیں سکھ سے سائیں! رب کے دوار جو جائیں۔
سُر سامونڈی
پہلی داستان
1
بیٹھ تُو نیا پاس، نیّا گھاٹ بندھی ہے،
کر کے تُجھے نراس، چلا نہ جائے مانجھی۔
2
پک کر ہو جا راس، گھاٹ بندھی ہے کشتی،
جلا کے دل میں اگنی، چلا نہ جائے ماجھی۔
3
بیٹھ تو نیا پاس، آج ہیں ڈالے لنگر،
تُو تو تھم تھم چلے ری گوری! چلے وہ بیچ سمندر،
جن کا دیس ہے ساگر، کیوں نہ ان کے سنگ گئی۔
4
آنا ہے تو آ، پکڑ لے آج پتوار،
چلی ہے تیز ہوا، وقت کہاں تیاری کا۔
5
جلدی سے تو آ، اُٹھ نہ جائیں لنگر،
جن کا دیس ہے ساگر، کھول نہ دیں وہ پھریرے۔
6
اُٹھا لیے مستول، گئے وہ کھیون ہار،
بندر اور بزار، ویراں بن بنجاروں کے۔
7
گھاٹ سے میرا من، نہیں دھکیلا جاتا،
گنوں سے وہ ساجن، من کو باندھ گیا ہے۔
8
یہی تو جوبن ملن کے دن تھے پیا چلا پردیس،
روؤں، روکوں، رُکے نہ ساجن، ساگر اس کا دیس،
چُبھو کے ہجر کے نیش، چلا وہ لیکر ناؤ۔
9
نا تو باتیں بنجاروں کی ہیں، نہ وہ گھاٹ پر ناؤ،
پھر سے تازہ ہوگئے سکھیو!، دل میں پریت کے گھاؤ،
بنجاروں کا چاؤ، مارے گا اب موہے۔
10
چلے وہ لے کر ناؤ مانجھی، مجھ کو چھوڑ کنارے،
جگ بیتے پر لوٹ نہ آئے، میرے وہ بنجارے،
مروں گی ہجر کے مارے، بچھڑ گیا ہے ساجن۔
11
لے کر اپنی ناؤ مانجھی، پہنچے جب منجدھار،
گھیر لیا ساگر نے کی پھر، موجوں نے یلغار،
وہاں پہ پہنچے یار، جہاں پر کوئی انت نہیں ہے۔
12
گہرے ساگر اور گئے جب، مانجھی ناؤ کھیتے،
اے میاّ ، وہ میرے مانجھی، کب ہیں لوٹ سکے،
شاید گھیر گئے، بھنور ہیں ان کو ساگر کے۔
13
گہرے ساگر اور گئے جو، ان کے بول نے مارا،
پریتم ہے بنجارہ، پریت نے درد دیا ہے۔
14
کیا جانے کب لوٹ کے آئیں، آج گئے بنجارے،
بیچ سمندر میں ساجن کے، چمک رہے ہیں پھریرے،
مارے گی اب موہے، بنجاروں کی پریت اے میاّ!
15
ناؤ کھیتے چلے جہاں سے، وہاں پہ لوٹ کے آئیں،
ایسی چلیں ہوائیں، کشتی گھاٹ پہ لاگے۔
16
بنجاروں کی یاد میں اب تک، کھڑی ہوں گھاٹ کنارے،
مار رہی ہیں پیارے!، تیرے پیار کی باتیں۔
17
بنجاروں کی یاد میں میاّ، تڑپ رہا ہے تن،
جانے کتنے دن بیتے ہیں، لوٹ سکا نہ ساجن۔
18
بنجاروں کی پریت میں، دکھ ہی دکھ ہے میاّ!
چھوڑ گیا وہ کھویا، ہجر کی آگ میں جلتا۔
19
کاش! بُھلا پائے اے ساجن، سارا بنج بیوپار،
کل آئے تھے یار، پھر پردیس چلے ہو۔
20
بر بہاتے نیا روکی، تھام لیا پتوار،
بُھولے سب بیوپار، ساجن! جو سیکھا ہے۔
21
بنجارے کی نیا روکی، تھام لیا پتوار،
رات بتا دے سنگ اے ساجن!، مت جا ساگر پار،
دکھیا کر کے یار! دور دیس مت جاؤ۔
22
شاید عشق تھا نربل تب ہی، چھوڑ گیا بنجارہ،
کرتی جتن تو میری خاطر، شاید وہ رک جاتا،
کاش کہ باندھا ہوتا خود کو نیاّ ڈوری سے۔
23
بنجاروں سے پریت سکھی ری، کبھی کرے نہ کوء،
اس دم منوا روء، جب اُٹھ جاتے ہیں لنگر۔
24
آن کے مشکل گھاٹ لگے جو، من ہے ایسی نیا،
کبھی نہ آن کے پوچھا، مہر سے میرے ساجن نے۔
25
جس کی پریت میں تڑپے جیئرا، چلا وہ بیچ سمندر،
بول رے کاگا!، کب آئے گا، ساجن میرا اب گھر،
کس کارن وہ دلبر، پردیس میں جا بسا ہے۔
26
کاگا بول اَٹریا پر، کب آئے گا مانجھی،
کیا کیا منت مانی، کہ ساجن لوٹ کے آئے۔
27
ٹہنی ٹہنی بور لگا ہے، چلے ہے خنک ہوا،
ساجن لوٹ کے آ، کیا کیا منت مانگی۔
28
کونپلیں، سرخ شگوفے پھوٹے، پھوٹے ہیں سرکنڈے،
ساجن! تم کیوں بھولے، کہ ملن کی رت آئی ہے۔
29
اب کے میرے انگنا، آئے جو میرا ساجن،
کروں میں من کی بتیاں، بانہیں ڈال گلےمیں۔
30
روٹھ روٹھ من جاؤں میاّ!، ساجن لوٹ کر آئے،
کیوں پردیس سہائے، پاس میرے تم رہے نہ ساجن۔
31
ساجن بن سردی سے، لرزاں جسم تمام،
پیت نہ ہو بدنام، چھیڑ نہ مجھ کو میاّ!
32
ابھی ابھی آئے بنجارے، پھر سے کریں تیاری،
میں برہا کی ماری، اب تڑپوں گی برہا میں۔
33
ٹوٹتے من کو تھام لو سکھیو!، کہو کہ پی آیا ہے،
منوا ٹوٹ گرا ہے، ٹوٹ گرے جوں برج قلعے کا۔
34
چل تو چل کر دیکھیں اے دل!، اپنے پی کا گھر،
چل کر ہم چومیں، دہلیز سجن کے گھر کی۔
35
آن کھڑی ہوں گھاٹ پر، من میں آس لیے،
گھاٹ پہ چھوڑ کے موہے، بھول نہ جائے ساجن۔
36
پتلی کمر، ستواں ناک اور کجراری سی اکھیاں،
ایسے سندر سیاں، کسی نے دیکھے ساگر میں۔
37
چاھ سے جس کی راہ تکی تھی، یہی تو ہے وہ ساجن،
آکر میرے من کی سکھیو!، کرے گا دور دُکھن۔
38
جھلمل کرتے دیکھ پھریرے، حد نظر تک ساگر،
اے میاّ! سج دھج کر میرے، آئے ہیں سوداگر،
کل سے کاگا آکر، دیتا تھا سندیسہ۔
وائي
لوں ساجن کی راہ، سکھیاں روکیں، روک نہ پائیں،
آیا جوڑنے والام کہیں ہم خوش آمدید وَللہ،
ٹوٹے من کو جوڑے سکھیو!، اِس کی ایک نگاہ،
سکھیوں نے بھی دُکھ پایا ہے، سب کے لب پہ آہ،
شاید ساجن سے مل جائے، کوئی خوشبو، چاہ،
جب تک جان ہے، دشت و جبل میں، ڈھونڈھے اسے نگاہ،
روک نہ مجھ کو میاّ! میرے، من میں پریت اتھاہ۔
وائي
مانجھی اُترے پار، میں کھڑی ہوں گھاٹ پہ یار، میں بادباں پہچانوں،
میں منت مان کھڑی ہوں، کب آئے کھیون ہار،
دکھ کی آگ میں جھونک کے مجھ کو، دور گیا ہے یار،
من میں آس بندھی ہے، وہ آئے کھیون ہار۔
وائي
کیسے جی بہلائوں، میرا من نہیں میرے بس میں۔
بادباں کو کھولا اس نے، نینن نیر بہاؤں،
بنجاروں سے پریت کا ناتہ، تڑپ تڑپ مرجاؤں،
دُکھ برہا کا دیمک جیسا، پل پل گھلتی جاؤں،
دکھ کی بیلیں لپٹیں تن کو، دکھ سے مکتی پاؤں
ہاتھ جوڑ اور پگ پگ چل کے، پی کے دوار میں جاؤں۔
دوسری داستان
1
پھر باتیں ہیں دور سفر کی، باندھیں رختِ سفر،
سر میں سودا ساگر کا ہے، ان کو آٹھ پہر۔
2
پھر باتین ہیں دور سفر کی، چلنے کو تیار،
میں ہوں گھاٹ کنارے سکھیو، وہ تھامے پتوار،
بنجاروں کا پیار، مارے گا اب موہے۔
3
پھر باتیں ہیں دور سفر کی، چلے ہیں پھر بنجارے،
چلنے کو تیار ہیں مانجھی، روؤں گھاٹ کنارے،
کب تک روک سکوں گی اِن کو، ساگر جنہیں پکارے،
کھول پھریرے سارے، ساگر اور چلے ہیں۔
4
پل پل جن کی یاد ستائے، مجھے نہ وہ بِسر آئے،
پریت کے تانے بانے میں، جڑا ہے من جس سے۔
5
دمک رہا ہے دھیان میں سکھیو!، بنجارہ ساجن،
جس سے اٹکا من، بھول نہ جائے مجھ کو۔
6
گھاٹ گھاٹ پر دھوم مچی ہے، مانجھی لوٹ کر آئے،
سن کر بنجاروں کی باتیں، میرا من مسکائے۔
7
کھولی نیا ڈوری، تھام لیے ہیں چپو،
اِن کو مشکل گھاٹ ہے جانا، پھرا ساگر ہر سُو،
بنجارہ وہ مہرو، جانے کب صورت دکھائے۔
8
چلی ہوا جب اُتر کی تو، بادبان کو کھولا،
کس کر رسے نیا کے وہ، ساگر اور چلا،
تڑپے ہے جیئرا، وہ جو ساگر اور چلے ہیں۔
9
چلی ہوا تو چلے مسافر، برکھا رت میں آئیں،
بھاڑ میں جھونکوں ہیرے موتی، اپنے سنگ جو لائیں،
وہ تو جشن منائیں، جن کے لوٹ کے آئے مانجھی۔
10
ساجن انگنا آجائے تو، سکھیوں! میں مسکاؤں،
اپنے اِس انمول پیا پہ، میں ہیرے موتی ہاروں۔
11
چلی ہوا پھر اُتر کی، لگا ہے دل کو دھڑکا،
چمکاتے ہیں نیا، کرتے ہیں تیاری۔
12
دیکھ سفینوں کے ساگر میں، پھڑ پھڑ کریں پھریرے،
جن کی راہ میں تکتی ہوں وہ، آئیں ساجن میرے۔
13
بیچ سمندر بادباں، دیکھ کر بولی برہن،
شاید میرا ساجن، ارماں ہے لوٹ کے آیا۔
14
سیتے تھے کل بادبان، بیٹھے گھاٹ کنارے،
آج سجا کر اپنی نیا، چلے سفر کو سارے،
بنجاروں نے بیچ بھنور میں کھولے دیکھ، پھریرے،
موجوں سے وہ گزرے، لطف سے لطیف کہے۔
15
سیتے تھے کل بادباں، مانجھی گھاٹ کنارے،
پوچھ کے حال وہ موسم کا پھر، ساگر اور سدھارے،
پہنچے پار وہ سارے، راہ میں مشکل گھاٹ نہ آیا۔
16
طرح طرح کے گھاٹ جہاں پر، ملے نہ مال کا مول،
فقیری کے بھیس میں سائیں، مول ملے بِن تول۔
17
برہن پوچھے ہر اک سے کیا، راہ میں دیکھے مانجھی،
کاش وہ لوٹ کے جلدی آئیں، ملن کی آس ہے جن کی۔
18
بنجاروں کی بیویاں، پوجتی ہیں ساگر،
کستوری کے نذرانے، دیتی ہیں ساگر پر۔
19
جس ساجن کے کارن پوجے، ساگر کے پوجاری،
ساجن لوٹ کے آیا میری، آس ہوئی ہے پوری۔
20
جھلمل کریں پھریرے سکھیو! نظر نہ آئیں بادباں،
جن کے پیار لوٹ آئے ہیں، مسکائیں وہ سکھیاں۔
21
دیکھ پھریرے پھڑک رہے ہیں، پرچم پھر لہرائے،
گھاٹ گھاٹ جو گھومے مانجھی، آج وہ لوٹ کے آئے۔
22
پیڑوں میں جو دھاگے باندھے، جل پر دیپ جلائے،
اللہ! لوٹ کے آئے مانجھی، میری آس بندھی ہے۔
23
جو نہ پوجے گہرا ساگر، جل پر دیپ جلاکے،
کیوں امید کرے ملنے کی، بنجارے ساجن سے۔
وائي
جاؤں گی ساجن کے دوارے، راہ نہ روکو سکھیو!
وہ تو ساگر پار گئے ہیں، کھڑی ہوں گھاٹ کنارے،
ان کی یاد میں مرجاؤں گی، وہ پردیس سدھارے،
کب سے تڑپیں برہا میں یہ، تیرے ہجر کے مارے،
تجھ بن کیسے جی پاؤں گی، یار میرے کوہیارے!
وائي
سجا کے اپنا ناقہ، کیوں نہ ساجن سنگ گئی،
کتی دُھل کر اُجلی ہو گئیں، دھویا میل ہے سارا،
مت بِسرا اس پریتم کو تو، اس کو ڈھونڈنے جا،
آج تو اس کو ڈھونڈ رہی ہے، کل جو لاد گیا،
آج ہے پہنا چولا وہ جو، کل تھا کاڑھ لیا،
کون سنے فریاد تیری بِن، پریتم کے بتلا؟
وائي
پی ہے بنجارہ، میں جاؤں گی پاس پیا کے،
بادباں مت کھول اے پیارے!، ناؤ ذرا ٹھہرا،
سُونا کر گئے گھاٹ گھاٹ کو، سُونا جگ سارا،
چرخے سے اب کرے ہے باتیں، من یہ دکھیارا،
کسی طرح بھی جاؤنگی میں جہاں بھی ہے بنجارہ،
نیا کھیتے دور گیا وہ ذرا دیر نہ ٹھہرا۔
تیسری داستان
1
گھاٹ بہت ہی دور، چلوں تو شاید پہنچوں،
جھولی خالی، کہے لے جاؤں، اپنے پی کے حضور،
لے چل مانجھی! ملوں پیا سے، میں برہن مجبور،
روتی ہے مہجور، تیرے دوار پے مانجھی۔
2
جھولی خالی، کوئی بھی مانجھی، چلا نہ لے کر ساتھ،
کھڑے کھڑے ساگر کے کنارے، ہر سو چھائی رات،
ناؤ لگی تب گھاٹ، مہر ہوئی جب ساجن کی۔
3
مانگ تانگ کے پورت کی ہے، دور تھا کھیون ہار،
ہائے ٹھٹھرتی راتیں، پالا، تنہا برہن نار،
سکھیوں سنگ دلدار، دیکھ کے ہوک اُتھے ہے۔
4
مجھ کو چھوڑ وہ گھاٹ کنارے، چلے سکی ری! سُن،
پریتم مہر سراپا ہے پر، مجھ میں ہیں اوگن۔
5
مجھ کو چھوڑا گھاٹ کنارے، دور چلا دلدار،
پریتم مہر سراپا ہے پر، مجھ میں عیب ہزار۔
6
مجھ کو چھوڑا گھاٹ کنارے، چلا وہ لے کر نیا،
پریتم مہر سراپا ہے پر، مجھ میں عیب تھے میا۔
7
مجھ کو چھوڑا گھاٹ کنارے، پریتم دور چلا،
رکھ کر رب کی آس چلا میں، پل پل کروں دعا،
آس تری مولا! مانجھی، لوٹ کے آئیں۔
8
سکھیو! شام ڈھلے ہی ان کو، ساگر آیا یاد،
کریں گے پھر تیاری اور وہ، چَلیں گے یاں سے دلا۔
9
ساگر کھیتے دریا کو وہ لوٹے کھیون ہار،
سیم و زر کا سودا کیا ہے، کریں وہ اور بیوپار،
موتی اِس مہران کے سائیں! ان کو ہیں درکار،
بڑے ہیں ساہوکار، لنکا لُوٹ کے آئے۔
10
لب پر لنکا لنکا ہے، لنکا اور ہے منزل،
کنچن کارن چین نہیں ہے، کریں گے کنچن حاصل،
صبح سویرے بنجاروں نے، چھوڑ دیا ہے ساحل،
پائیں اپنی منزل، جو گہرے ساگر اور گئے۔
11
بنجاروں نے کھول دیئے، پھر سے صبح پھریرے،
لہراتے وہ بادبان، دیکھ کے جیئرا روئے،
مارے گا اب موہے، اے میا!، درد فراق کا۔
12
صبح سویرے بنجارے نے، بادبان پھر کھولا،
کہے ہے سید بنجاروں نے، پتواروں کو تولا۔
13
روک لے بنجارے کو اب تو، بنجارے کی میا!
بارہ ماہ بدیس رہا ہے، پھر وہ آج چلا۔
14
بنجارے سے بیاہ نہ ہوتا، اچھی تھی بِن بیاہی،
چلا وہ دور سفر کو میا!، چلی ہے جب پروائی۔
15
کیوں باندھا تھا پَلو میا!، بنجارے کے ساتھ،
کرتا ہے بنجارہ پل پل، دور سفر کی بات۔
16
چلا ہے پھر پردیس سکھی ری!، چلا ہے بیچ سمندر،
مجھ کو مار دیا ہے، درد فراق کا دے کر۔
17
دیپ جلے دیوالی کے، سفر کی ہے تیاری،
تھام کے چپو نیا کے وہ، کرے ہے آہ و زاری،
مرے گی یہ بے چاری، صبح کو دردِ ہجرے۔
18
دیپ جلے دیوالی کے اب، سفر کی ہے تیاری،
چلی ہوا پھر اُتر کی اور، آئی سفر کی باری،
سن برہا کی ماری! کرتے ہیں پردیس کی باتیں۔
وائي
آن کے دیکھو عشق میں سکھیو، تڑپے ہے جیئرا،
دے کر درد اس برہن کو وہ ساجن چھوڑ گیا،
عشق کی اگنی میں سکھیو، مجھ کو جھونک دیا،
کشٹ اٹھاؤں، ڈھونڈوں ساجن، مجھ سے دور گیا،
ہنستی ہو تم کیا جانو کہ یہ درد ہے کیسا،
چلو تو سکھیو، شاید پاؤ، نشاں تم منزل کا،
ایسے برسیں نین کہ جیسے، بادل ساون برکھا۔
وائي
دشت میں ہوگا دور، ہر اک دکھ برہن کا،
جس کو دیکھوں جانوں، قاصد ہے ساجن کا،
زور آور وہ ہستی، کیا کیا دکھ برہن کا،
جنگل جنگل ڈھونڈوں، اندھیارا ہے بن کا،
دیکھے “کیچ” کے پیڑ، دور ہوا دکھ تن کا۔
سُر سوہنی
پہلی داستان
1
دریا نالے، تیز بہاؤ، کیسا تیز ہے دھارا،
عشق جہاں پہ موجیں مارے، وہاں بہاؤ نیارا،
جن کو عشق ہے گہرائی سے، سوچ کا ساگر گہرا،
ملادے ساجن، مولا! جس سے من اٹکا ہے۔
2
گھاٹ کنارا بھینسیں اور یہ، لہروں کی یلغار،
سندرتا اس ساجن کی ہے، میرا روپ سنگھار،
جن کے من میں یار، وہ پہنچیں پار اک پل میں۔
3
اور بہت ہیں دریا نالے، آگے تیز ہے دھارا،
گھر میں بیٹھ کے کرتی ہو تم سکھیو! پریت کا دعویٰ،
ایک جھلک جو دیکھو تم وہ، میرا ساجن پیارا،
چلو سب سوئے دریا، مجھے نہ پھر تم روکو۔
4
دیکھیں گر اک بار، سکھیاں صورت ساجن کی،
اپنے پی سنگ سیج پر سونا، ہوجائے دشوار،
جاؤ سوئے یار، مجھ سے پہلے گھڑے اُٹھاکر۔
5
دیکھی ہے اک بار، جنہوں نے صورت ساجن کی،
اپنے پی سنگ سو نہ پائیں، کھویا صبر و قرار،
چلیں وہ سب منجدھار، گھڑوں بنا ہی سکھیاں۔
6
میری طرح جب تم بھی دیکھو، سکھیو! ساجن یار،
پی سنگ سکھ سے سو نہ پاؤ، پی کو بھی دو وار،
جاؤ دریا پار، مجھ سے پہلے گھڑے اُٹھاکر۔
7
جو کچھ دیکھا میں نے، سکھیوں نے جو دیکھا،
گھر ، بر، وار دیا، چین سے بیٹھ نہ پائیں۔
8
گھڑے اُٹھا کر گھاٹ پر آئیں، چلی ہیں سب اُس پار،
ہر اک کہے کہ سوہنیہوں میں، جاؤں میں پاس میہار،
ڈوبے گی ہر نار، کل کو گہرے دریا میں۔
9
گھاٹ کنارے کھڑی ہیں سکھیاں، ساجن نام پُکاریں،
کچھ کو اپنی جان ہے پیاری، کچھ تو خود کو واریں،
ساجن وہ ہی پائیں، جو کود پڑیں دریا میں۔
10
پنچھی آن چھپے پیڑوں میں، سورج ڈوبا، شام،
گونجی جب آذان چلی وہ، لے کر پی کا نام،
ڈھونڈے وہی مقام، جہاں ہے اس کا ساجن۔
11
دیکھ کے پیچ و خم دریا کے، اتری لے کے گھڑا،
جان کروں قربان پیا پر، وصل کا یہ دعویٰ،
پار انہیں پہنچا، وعدہ وصل ہے ساجن سے۔
12
دیکھ کے پیچ و خم دریا کے، ہوگئی دریا واصل،
وَاِمّا مَن خَافَ مَقَامَ رَبّ، کرلی پار یہ منزل،
جن کے من میں پریت بسی ہو، ان کو کیسی مشکل،
شب کو وصل ہو حاصل، ان کو پہنچا پار اے سائیں۔
13
عزم ہے دل میں گھڑا اُٹھائے، چلی وہ دریا پار،
تن لہروں میں ڈال رہا ہے، من ہے پاس میہار،
پریت کا ہے منجدھار، میں ڈولوں پریت بھنور میں۔
14
سنگ گھڑے کے تیر رہی تھی، ڈبوتی دونوں بانہیں،
ڈوبتے بیچ بھنور میں دی تھیں، پریتم کو آوازیں،
نہنگ میں بپھری موجیں، تو ہی آکر بچالے اے ساجن!
15
گھڑا لیے وہ چلی ملن کو، لے کر رب کا نام،
مچھلیوں کے منہ میں ہے اب، اِس کا جسم تمام،
بکھرے بال اور ٹوٹے گہنے، بھنور بھنور کا دام،
منہ مارا تھا مچھلی نے اور، کاٹ لیا تھا چام،
پریت کا یہ انجام، کہ وہ تھی نہنگ کے منہ میں۔
16
اسی گھڑے پہ تیر کے میں تھی، پہنچی پاس میہار،
کیسے اِسکو ہاتھ سے چھوڑوں، اس پر جان نثار۔
17
گھڑا رہے نہ باقی بیشک، رہے نہ ہار سنگھار،
طالبِ المولیٰ مًذکر، اِسکی لی ہے سہار،
پریتم ہے میہار، جھوٹا ڈم کا ناطہ ہے۔
18
گھڑا رہا نہ باقی تو کیا، بیشک ٹوٹیں زیور،
طالبُ المولیٰ مُذکرّ ، اب کیا خوف و خطر،
من میں تو ہے میہر، کیسے لوٹ کے آؤں۔
19
گھڑا رہا نہ باقی تو کیا، گھڑا تو تھا رکاوٹ،
ساز کی صورت باج رہی ہے، جسم و روح میں چاہت،
بس میہار کی قربت، اور ثواب نہ مانگوں۔
20
گھڑا رہا نہ باقی تو کیا، پھر بھی تیر اے دل!
نینن کو رکھ اپنے بس میں، رہ نہ پل بھر غافل،
لہر لہر ہے ساحل، پی نے راہ دکھائی۔
21
گھڑا رہا نہ باقی پھر بھی، سوہنی ہو نہ نراس،
لَاتَقَنَطُواَ مِن رَّحمتِ اللہ، اِس کی رکھ تو آس،
من میں ملن کی پیاس، تو دیکھے گی میہار۔
22
گھڑا رہا نہ سوہنی باقی، ہوگئے ختم وسیلے،
جان رہی نہ جسم میں باقی، اور رہے نہ حیلے،
ہار سنگھار رسیلے، بھولی سب وحدت میں۔
23
گھڑا رہا نہ سوہنی باقی، ختم ہوئے اسباب،
تب ہی زیرِ آب، سنی صدائیں ساجن کی۔
24
ڈوبی سنگ سہاروں کے جب، پہنچی بیچ بھنور،
آیا پوچھنے سوہنی کو، بھنور میں تب میہر۔
25
خود کو لے نہ ساتھ، بھول جا اور سہارے،
جا پریتم کے دوارے، بسا کے دل میں پریت۔
26
خود کو لے نہ ساتھ، بھول جا اور سہارے،
پریت ہی پہنچائے گی، تجھ کو پاس کنارے،
من میں پیت اُجیارے، تو پہنچے گی تب پار۔
27
خود کو لے نہ ساتھ، بھول جا اور سہارے،
چل تو بیچ بھنور میں، من میں پریت بسالے،
جا تو پاس پیا کے، سجا کے من میں پریت۔
28
خود کو لے نہ ساتھ، لے نہ اور سہار،
وہ پائیں میہار، جن کا رہبر عشق بنے۔
29
خود کو لے نہ ساتھ ، وسیلوں کو چھوڑ،
کچے گھڑے کو توڑ، پریت کا لے سہارا۔
30
عشق سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، جگ میں اور سہار،
جن کی جھوٹی پریت ہے سجنی!، کھڑی وہ اِس پار،
دریا کو جو نالا سمجھیں، گھڑا ہو کیوں درکار،
سچی پریت ہی پہنچاتی ہے، دریا کے اس پار،
من میں ہو میہار، تو بھنور، لہر بھی روک نہ پائے۔
31
یاد جنہیں میہار ہے اُن کو، یاد کرے میہار،
گھڑا بھی جانیں بار، جن کا عشق اٹل ہے۔
32
جن کا عشق اٹل ہے وہ تو، گھڑے بنا ہی تیریں،
وہ لہروں پہ ٹہلیں، جن کے من میں پریت بسی ہو۔
33
بجرہ کیوں وہ مانگیں جن کے، من میں پریت اتھاہ،
پوچھے وہ ملاح، جب جائے میہار سے ملنے۔
34
سوہنی ساھڑ ایک ہے، وہ ساحل وہ دریا،
بوجھ لے بھید یہ سارا، بھید میں بھید چھپا ہے۔
وائي
دے تو کوئی جواب، میں دور ہوں کیوں ساجن سے،
پاپ سے اپنا آپ بچالے، پھر کیا طلب ثواب،
نہ وہ زہد ہے نہ وہ تقویٰ، نہ ہی رنگ رباب،
خود سے ہی خوبی ہو حاصل، لگا دے گر لعاب،
پاپ پوترتا ہوجائے، کرے جو مہر جناب،
خاک کے آگے ہیچ میں سارے، اطلس و کمخواب،
جل میں جھلمل دمک رہے ہیں، جیون کے یہ حباب،
چل ہادی کے سنگ اے سائیں، کھلے کرم کا باب،
من کے چور پہ ایسے جھپٹ تُو، جیسے یار! عقاب،
کھول دے دل کے دروازے اب، کر نہ پی سے حجاب،
جوں ادغام ہو اعرابوں کا، یوں ہو وصل جناب،
لب پہ مہر ہو دل میں اگنی، جل کر دل ہو کباب،
ملے گی اِس کو مئے طہورا، مانگے جو مئے ناب،
مرض عشق میں برہن نے، کب اچھے دیئے جواب۔
دوسری داستان
1
قہری لہریں، شور، طلاطم، نہنگ جہاں گرداب،
کود پڑی دریا میں سوہنی، چڑھی تھی موجِ آب،
دریا تھا پایاب، مہر ہوئی جب پی کی۔
2
بپھری لہریں، بھنور، طلاطم، دریا ہیبت ناک،
کود گئی دریا میں سوہنی، ذرا نہیں تھی باک،
دریا دہشت ناک، کر گئی مہر سے پار۔
3
دہشت ناک ہے چڑہتا دریا، ہیبت ناک ہے شور،
لہروں بیچ وہ ٹوٹا آخر، گھڑا جو تھا کمزور،
لے جائے اُس اور، ساجن سنگ ہے بیچ بھنور میں۔
4
دریا دہشت ناک بھنور، لہروں میں "سیسار"،
کیسے کیسے نہنگ چھپے تھے، ہیبت ناک ہزار،
تجھ بِن ساجن کون سہارا، میں ہوں نربل نار،
تو ہی اے ستار، پہنچ اب بیچ بھنور میں۔
5
دریا دہشت ناک طلاطم، بھنور ہیں ہیبت ناک،
پیڑ اُکھڑ کر ایسے تیریں، تیریں جوں خاشاک،
دیکھ کے دہشت دریا کی، کانپ اُٹھیں پیراک،
لہریں ہیں سفاک، تو ہی پہنچا پار اے سائیں!
6
دریا دہشت ناک طلاطم، اوپر بھنور کا شور،
جھپٹ رہے ہیں نہنگ اے سائیں! لہروں کا ہے زور،
اب تو مہر سے آجا ساجن!، مجھ برہن کی اور،
اندھیارا گھنگھور، تو ہی تھام لے ہاتھ۔
7
دہشت کیسی دریا میں ہے، لہر بھنور کا شور،
ساجن! میں تو سہہ نہ پاؤں، اِن لہروں کا زور،
میں برہن کمزور، تو ہی سُن فریاد اے سائیں!
8
کیسی دہشت دریا میں ہے، موجیں پیچاں باہم،
تیرے حضور کا دھڑکا سائیں!، لگا ہے دل کو پیہم،
شاید میری پریت سے ہی اب، طوفان جائیںگے تھم،
پار لگا دے پریتم، تو بس اپنی ہی مہر سے۔
9
دریا دہشت ناک بھنور، موجوں کی طغیانی،
ڈوب گئے ہیں پیڑ، جزیرے، لہریں ہیں طوفانی،
پھسلن گہرا پانی، یہاں سے پار لگا دے۔
10
دریا دہشت ناک بھنور، لہروں کی یلغار،
شاد ساجن سُن پائے اب، میری چیخ و پکار،
مہر کرو میہار! تو لہر لڑے نہ مجھ سے۔
11
کیسی دہشت ہے دریا میں، نہنگ کریں یلغار،
ناپ سکیں نہ گہرائی جو، مانجھی ہیں ہشیار،
ایسے ہیں گھڑیال چھپے جو، کر دیتے ہیں وار،
بیڑے ڈوبیں، نکل نہ پائیں، پہچنا ہے دشوار،
نام و نشان تک کھو بیٹھے ہیں، بیڑے پائیدار،
وہ پھر لوٹ کے کب آئے جو، گئے ہیں اِس منجدھار،
اِن کو پہنچا پار، جو تیر نہ پائیں سائیں!
12
شور طلاطم، طغیانی اور، لہروں کی یلغار،
جن کے سنگ تھے مشکیزے وہ، ہوئے پریشان یار،
پار کیا منجدھار، جو اصل سے پیراک تھے۔
وائي
اپنے سچے ساجن کو ہی، رہبر میں جانوں،
وہ یار کی راہ دکھائے!
تو ہو سنگ تو بیچ بھنور بھی، ساحل ہی سمجھوں،
تیرے وصل کی آس میں سائیں! جیون بھی تج دوں۔
تیسری داستان
1
بن سوچے منجدھار میں جانا، یہ عشاق کا کام،
کیا کیا طعنے "ڈم" دیتا ہے، مجھ کو صبح و شام،
عقل و شرم تمام، پریت نے ہیں بسرائے۔
2
بن سوچے دریا میں اُتریں، آسان گھاٹ نہ دیکھیں،
جن کی پریت ہو ساجن سے وہ، کیسے چین سے بیٹھیں،
گھر لیا ہے وہموں نے اور، بھنور یہ بپھری لہریں،
بھنور بھی آساں سمجھیں، جن کے دل میں درد سجن کا۔
3
جس بھی گھاٹ سے اُترے تو وہ، گھاٹ نہیں دشوار،
آساں گھاٹ تو وہ ہی ڈھونڈیں، جن کا جھوٹا پیار،
ڈم کے پاس تو جسم ہو لیکن، من ہو پاس میہار،
آساں ہے منجدھار، جن کے من میں پریت بسی ہو۔
4
جہاں سے اُترے گھاٹ وہی ہے، آساں ہے وہ مقام،
آساں گھاٹ تو وہی ڈھونڈیں، جن کی پریت ہو خام،
جن کے دل میں پریت بسی ہو، آساں گھاٹ تمام،
دریا ہے اک گام، جب ہو دل میں درد ہجر کا۔
5
جس بھی گھاٹ سے اتریگی وہ، ہوجائیگا آساں،
سالم پہنچی دریا میں وہ، ذرا نہیں تھی ترساں،
پی کے عکس سے جھلمل جھلمل، دمک رہے تھے نیناں،
تھا حق کا اس پر باراں، حق کی تھی وہ طالب۔
6
اِس کو روزِ ازل سے ہی، حق ہی حق تھا پیارا،
مانجھی سنگ نہ ناؤ نہ ہی تھا، کوئی اور سہارا،
پانی کب تھا گہرا، وہ سمجھی منجدھار میں ہے۔
7
اس کو روزِ ازل سے ہی، عشق ہوا تھا حاصل،
میں گلے کا ہار حبیب کا، جسکے تھی نہ قابل،
پائی تھی وہ منزل، سب کا جہاں سہارا۔
8
سوہنی! اب تو چھوڑ دے، سارا حرص و ہوا،
جھوٹی ہے جو ساجن بِن، کرے ہے ناز و ادا،
غیروں میں دن نہ بِتا، کر نہ ایسی بھول۔
9
سب میں بس اک سوہنی کو ہی، حاصل تھی تعظیم،
قرب تھا حاصل الف کا اور، بسا تھا من میں میم،
ایسی تھی وہ حلیم، کہ پایا پیار میہار کا۔
10
سوہنی پڑھ تو شریعت کا، اچھی طرح سبق،
رکھ ادراک طریقت کا، جان لے سارا حق،
عاشق پڑھیں ورق، معرفت کا روزِ ازل سے۔
11
جن کو صبر نصیب ہے، اُن کے آنگن میں آرام،
وصل یار جو حاصل ہو تو، کریں نہ اس کو عام،
جن کو عشق مدام، وہ تو بِنا سہارا تیریں۔
12
روک سکے نہ طعنے ڈر کے، ختم ہوئی نہ آس،
دیکھ دہشت دریا کی، سوہنی تھی نہ نراس،
کالی رینا، چلی ملن کو، من میں ملن کی پیاس،
ندی رات اوماس، وہ وعدہ کی تھی پوری۔
13
ندی نالے روک سکے نہ، دریا تھا آساں،
جس کی کوکھ سے جنم لیا تھا، مسکائی وہ ماں،
پی کو دیکھیں سکھیاں، تو پل بھی رُک نا پائیں۔
14
نہ تو سردی روک سکی نہ، دریا کی دہشت،
کیسے اُس کو روک سکے گی، ڈم کی کوئی رکاوٹ،
چاہے پی کی قربت، من میں آگ ہے عشق کی۔
15
سردی، پالا، باد و باراں، بپھری موجیں طوفاں،
پیا ملن کی پیاس ہے من میں، کیسے ہو وہ گریزاں،
پی سے ملن کا پیماں، کیسے توڑ سکے گی۔
16
ٹھنڈی رات اور بادل بارش، چلی وہ دریا پار،
چلو تو چل کر دیکھیں سوہنی، کر جانے جو پیار،
من میں بس میہار، دن ہو چاہے رات۔
17
سب اُتریں دریا میں ہو جب ساون رت اور برکی،
یہ اترے اس موسم میں، جب سردی اور تھا پالا،
اُتری اُلفت کے دریا میں، سوہنی عشق سراپا،
ظالم ہے یہ دریا، جو مارے پریت کے ماروں کو۔
18
بجرے! آج بتاؤں تجھے میں، اپنی پریت کا حال،
سکھ پاتی ہوں دریا میں اور، ساحل گھاٹ وبال،
سرما کو میں ساون جانوں، پیارا ہے پاتال،
جانیں وہ ہر حال، اس پار ہو جن کا ساجن!
19
زور نہ دکھلا، دینا ہوگا، دریا! تجھے حساب،
سدا نہ ہوگی رُت ساون کی، تھمے گا جب سیلاب،
بھنور یہ موجِ آب، ہوجائیں گے ختم یہ سارے۔
20
سوکھ جائے اے دریا! ختم ہو سب سیلاب،
تجھ میں جنگل اُگ آئے اور، ذرا رہے نہ آب،
پریت سے جو بے تاب، تونے اُن کو غرق کیا ہے۔
21
بھنور نہ کر تو شور، کر نہ تنے پہ وار،
رنگ چڑھا جو پریتم کا وہ، کیسے دوں میں اُتار،
جاؤں میں پاس میہار، تُو جتنا چاہے زور دکھائے۔
22
تیری فکر کروں کہ اپنی، بجرے! تو یہ بتلا؟
میرے ساجن کی جانب سے، کوئی خبر تو لایا،
تو منجدھار چلا، مجھ کو ساجن پاس ہے جانا۔
23
جن کے من میں میہر یار کی، سُلگے پریت اگن،
ان کو سوئے دریا لائے، ان کے دل کی لگن،
جن کا میہر ساجن، ان کو سیدھی راہ ہے دریا۔
وائي
مدت سے میہار یار، میں ہوں بیچ بھنور میں،
بیچ بھنور اور مشکل گھاٹ، تو ہی پار اُتار،
دم دے ساتھ دن بیت رہے ہیں، تجھ بِن اے دلدار،
بپھری موجیں، بھنور چنگھاڑیں، لہر لہر منجدھار،
کچا گھڑا اور کوئی نہ ساتھی، چلی ہے وہ اُس پار،
تو ہی لے آ اب مشکیزہ، تو ہی پار اُتار،
میں ہوں گھاٹ کنارے کیسے، پہنچوں پاس میہار،
ٹلیوں کی آواز سنوں تو، تڑپ اُٹھے من یار!
لہر لہر ہے طغیانی اب، تیری ہے آدھار،
چیر کے بپھری موجیں میں تو، جاؤں گی پاس میہار،
داخل ہوئی تو بحری حیواں، بے بس ہوگئے یار۔
چوتھی داستان
1
گونج اُٹھیں جب ٹلیاں، لرزا جسم تمام،
ٹلیوں نے جو پریت جگائی، کروں وہ کیسے عام،
جس سے عشق مدام، وہ دوست دلاسے دیتا ہے۔
2
چاروں اور اب باج رہی ہیں، تیری ٹلیاں یار!
نیند سے میں بیدار ہوئی، سُن لی جب جھنکار،
چھینا صبر قرار، چین نہیں پل بھر کا۔
3
ٹلیوں نے یوں پریت جگائی، آئے نہ اب آرام،
دن میں دس دس بار سجن کا، لیتی ہوں میں نام،
ڈالا پریت کا دام، جو جیتے جی نہ ٹوٹے گا۔
4
کالی رات اور سیاہ بھنور، موجوں کی پھنکار،
دریا دہشت ناک کا دھڑکا، لہروں کی چنگھاڑ،
سوہنی چلے ہے پیا ملن کو، موجیں اور اندھکار،
پہنی جب منجدھار، تو ٹلیوں نے اسے راہ دکھائی۔
5
ٹلیوں کی آواز سُنی تو، جھوما جسم تمام،
اپنے پی کے درشن کو وہ، ہوگئی بے آرام،
ہوگئی نیند حرام، جب یاد پیا کی آئی۔
6
یادِ یار سے ہی زندہ ہوں، کیسا وصل ملن،
تن من میں اب اُمڈ رہی ہے، تیری پریت سجن،
من جس کا مسکن، اِس یار کو دور نہ جانوں۔
7
چونک اُٹھی میں سُن کر، ٹلیوں کی جھنکار،
جاگا درد فراق کا، درد بنا آزار،
جہاں پہ وہ میہار، میں جاؤں گی اس جا سکھیو!
8
ٹلیوں کی آواز سکھی ری!، گونجی جب اُس پار،
درد نے دل میں کروٹ لی اور، آئی یادِ یار،
اپنے یار کی پریت کی سکھیو! آئی پھر مہکار،
دیکھوں اب میہار، جاکر پار میں دریا کے۔
9
چونک کے جاگی نندیا سے، گونجی جب جھنکار،
پھر سے تازہ زخم ہوئے جب، آیا یاد میہار،
جاؤں یار کے دوار، مجھ پر اب یہ لازم ہے۔
10
کس جانب ہیں بھینسیں اور یہ، کہاں پہ گونجیں ٹلیاں!،
جہاں پہ بھی میہار ہے ان کا، بھینسیں جائیں وہاں۔
11
کس جا گونجیں ٹلیاں، کہاں پہ ہے میہار؟
کس جا دھونی یار کی، کہاں ہے دوجا پار؟
کس کی خاطر یار! میں نے غوطے کھائے؟
12
آن کے سوہنی بھینسوں سے، کہے ہے دل کا حال،
دیکھا وہ مہیوال، جس سے پریت ہے میری۔
13
نیر بہا کر نینن سے، کہے ہے دل کا حال،
گھر تو ہے جنجال، کیسے ڈم سنگ جیون بیتے۔
14
بیٹھی نیر بہائے، وہ بھینسوں کے پاس،
میں تو انگ ملوں گی وہ جو، تم کھاؤ گی گھاس،
من میں جاگے آس، جن سنوں آواز تمہاری۔
15
وہیں پہ لوٹ کے آئیں بھینسیں، جہاں چری تھی گھاس،
اور کہیں وہ جا نہ پائیں، جائیں میہر کے پاس۔
16
چکھا تھا یار کے ہاتھوں سے، پریت کی مے کا جام،
چکھ کر مے مستانی ہوگئی، ہوگئی تشنہ کام،
کہاں تھا اب آرام، پریت کا تیر لگا تھا۔
17
سوہنی نے میہار کے ہاتھوں، پیا تھا پریت کا پیالہ،
من میں جاگی پیاس ملن کی، ہوگیا من متوالا،
پل بھی نہیں گوارا، اب تو بِن میہار کے۔
18
سدا جئے میہار، سدا بسے چوپال،
بھینسوں کے اس مالک کا، بیکا ہو نہ بال،
میرا ہے وہ جمال، پر جگ دیتا ہے طعنے۔
19
بھینسیں اُس میہار کی، جیئیں اور رہیں سلامت،
بندھی رہیں سب کھونٹوں سے اور، دیکھ کے ہووے راحت،
دیکھ کے جنکی صورت، میں گئی تھی پاس میہار کے۔
20
بھینسیں اِس میہار کی، سدا رہیں خوشحال،
اِن کی نسل ہو دُگنی تگنی، بھرا ہو سب چوپال،
جنگل گونجے ٹلیوں سے، جھن جھن کرتی چال،
رہے وہ ماہیوال، آن کے پاس پڑوس میں۔
21
بھر کر پیٹ اب جھولتی آئیں، بھینسیں، دیکھ قطار،
صدا سنی ہے صاحب کی، اب چلنے کو تیار،
ہوگا ساتھ میہار، تو پہنچیں گی سب پار۔
22
بھر کر پیٹ وہ تیرتی آئیں، پہنچیں آن کنارے،
مالک کے وہ سہارے، پہنچیں گی سب پار۔
23
بھر کر پیٹ وہ تیرتی آئیں، پہنچی ہیں منجدھار،
میہر کے آواز سنیں گی، اٹھائیں گی گردن یار،
جائینگی سب اس پار، امن کے پہنچائیگا ساجن۔
24
بھر کر پیٹ وہ آئی ہیں، پہنچیں پنگھٹ پاس،
صدا سنیں گی صاحب کی تو، بندھے گی من میں آس،
آئے گا اِن کو راس، کل کو پار کنارا۔
وائي
مجھے نہ کوئی روکے، اپنے آپ کو دیکھے، میں ہوں عشق بھنور میں،
جاؤں گی پاس پیا کے، کوئی مجھے کیوں ٹوکے،
کالی رات اور بیچ بھنور، سوہنی پار چلے،
دیکھ کے دھوتی یار کی، میرا من سُلگے۔
پانچویں داستان
1
حدِ نظر تک دریا، موجیں، اور کنارا دور،
جہاں پہ لہریں وار کریں وہ، چلی وہاں مہجور،
کانپ اُٹھی جب یاد آئے سب، اپنے پاپ قصور،
ہو تیری مہر حضور! تو لہر لڑے نہ اس سے۔
2
حدِ نظر تک دریا، موجیں، اور ہے دور کنارا،
کانپ اُٹھے جب دیکھے کوئی، ہیبت ناک نظارا،
دونوں جگ کے مالک! میرا، تجھ بن کون سہارا،
مہر کرے وہ پیارا، تو لہر لڑے نہ اس سے۔
3
جن کے من میں پیار ہے اُن کو، دریا کا کیا ڈر،
پار کریں ہر حال میں وہ تو، موجیں اور بھنور،
جاتی ہیں وہ پیا ملن کو، وار کے جان نڈر،
من میں پریت اگر، تو پار اتارے پریتم۔
4
کود پڑیں جو دریا میں، ہوگئی اُن کی جیت،
تو بھی داخل دریا ہوجا، گر ہے سچی پریت،
پائے گی پھر وہ میت، جو پار تجھے پہنچائے گا۔
5
جن سکھیوں نے نینن میں، سجا لیا میہار،
وہ تو بن مشکیزے کے ہی، پہنچیں دریا پار،
لہریں اور منجدھار، ڈبو سکے نہ اُن کو۔
6
رات کو آئے یاد، سکھ میہار کے سارے،
وہ ہی سب اس پار گئے ہیں، جو ہیں اُس کے پیارے،
دیکھوں میں نظارے، اپنے یار میہار کے۔
7
رات ڈھلی تو سینے سے، نکل گیا یہ دل،
جوشِ عشق میں دریا تیرے، میرا دل بسمل،
دیکھا یار کا محمل، جب بھیگ چلی تھی رات۔
8
دل کی لگن جس اور ہے، بہے اُدھر کو دھارا،
عشق جا تیز بہاؤ اُدھر کو، روک سکے نہ کنارا،
ملا دے میہر پیارا، کہے لطیف کے لہروں میں۔
9
روکوں روک نہ پاؤں خود کو، اُمڈ رہا ہے پیار،
چلوں کہ من میں گرج رہا ہے، پریت کا اک منجدھار،
جن کے من میں یار، اُن پر جانا لازم ہے۔
10
حدِ نظر سے دور ہے پریتم، دور نہیں ہے پریت،
بِن دریا کے میت، کیسے کوئی پائے۔
11
کیا کیجئے کہ اب بھینسوں نے، بدل دیئے ہیں ڈیرے،
پوچھ رہی ہے ہر اک سے وہ، کھڑی ہے آن کنارے،
پریت کی ماری ساحل پر، اب تو کھڑی پکارے،
تیرا ٹھکانا اے پیارے! اب تو قریب آ جائے۔
12
اب تو ڈم کا خوف نہیں ہے، ذرا بھی اس کو یار!
پانی میں یہ اپنا بھگوئے کیسے، کیونکہ ہار سنگھار،
تیرے لیئے میہار، بھنور چیر کے آنا ہے۔
13
روز ہی دے میہار کے مجھ کو، ڈم رہ رہ کے طعنے،
پھیلاتی ہوں دامن تاکہ، لوں دامن میں میہنے،
جتنے چاہے دے لے، طعنے اس ساجن کے۔
14
جب سوئے جاگ سارا، جاگیں میری اکھیاں،
اس پل میری سکھیو مجھ کو، آئے یاد وہ جاناں،
ملتا ہے گر طعنہ، تو اسکو فخر میں جانوں۔
15
ڈوبی بیچ بھنور میں، جبھی ہوا ہے نام،
کتنے دن وہ جیتی، موت ہی تھا انجام،
مستی چڑھ گئی پریت کی، پی کر عشق کا جام،
کہے لطیف کہ عشقِ یار میں، گھائل جسم تمام،
موت ہی تھا انجام، پر مر کر امر ہوئی ہے۔
16
کرتے ہیں سرگوشیاں، رات کو جب گرداب،
یاد آئے تب سکھیو! دریا موجِ آب،
کبھی نہ ہوں سیراب، جن کو پریت کی پیاس ہے۔
17
کیسے میلی ہو وہ مچھلی، جس کا مسکن جل،
پانی کی ہے پیاس وہ مانگے، پانی ہی ہر پل۔
18
کیسا ڈم اور کہاں کی سوہنی، کیسا یہ منجدھار،
قسمت کا یہ کھیل تھا ورنہ، کیوں جاتی اُس پار،
رات، بھنور، اندھکار، قسمت کا ہے کھیل سکھی ری!
19
ڈوب بھی جاؤں تو کیا پروا، چلوں تو میں اِس پار،
آن کنارے اشک بہائے، شاید وہ میہار،
جی اٹھوں میں یار، پھر سے پریت کے کارن۔
20
لہر لہر ہے لالی، مہک رہا ہے جل،
رنگ و بو کا طوفاں ہے، خوشبو کے بادل،
ڈوب گئی تھی کل، پریت کی ماری سوہنی۔
21
جو کچھ دیکھا دریا میں، کہہ دینا سب کل،
بھیگ نہ جائے دامن، موجیں مارے جل،
دھیان میں رکھ سہنل، تو پہنچے گی اُس پار۔
22
وہموں نے اب گھیر لیا ہے، جاؤں میں اب کس پار،
گر ساحل پہ رک جاؤں تو، جھوٹا ہوگا پیار،
طعنے دیں گی ساری سکھیاں، جاؤں گی گر منجدھار،
ملن کا ہے اقرار، اور ہے جگ کی رسوائی۔
23
یہ دکھڑوں کی گھٹڑی، پی کی ہے سوغات،
مل جائے گر ساجن تو، دور ہوں سب آفات،
غم سے دلا نجات، ملا دے میہر مولا۔
وائي
نینوں کے بل چلئے، چلئے، ری! چلئے،
بات پیا کے بھید کی، ہو محرم تو کہیے،
پریت کی اگنی من میں، چھپ چھپ کر ہی جلئے،
سارے جگ سے چھپا کے، اپنے دکھ کو رکھیئے۔
چھٹی داستان
1
روزِ ازل سے بھی پہلے تھا، پی کا ہار سنگھار،
نہ تو کن فیکوں کا عالم، نہ ہی روپ نکھار ،
ابھی تو تھے ناپید ملائک، پی سے تھا تب پیار،
تب سے ہی میہار، بسا تھا اِس کے من میں۔
2
روزِ ازل سے بھی پہلے تھا، سوہنی کا سنگھار،
نہ تو کن فیکوں کا عالم، نہ ہی روپ نکھار،
مُسکا کر میہار، اس نے اپنایا تھا۔
3
جب تھا دن میثاق کا، چلی تھی وہ منجدھار،
"الست بربکُم قالو بلیٰ"، یاد تھا وہ اقرار،
جو دیکھی راہگذار، اب سب کو بتلاتی ہے۔
4
سُنی تھی جب سب روحوں نے، وہ آوازِ الست،
عہد کیا تھا میہر سے تب، پائی تھی اُلفت،
ڈوبنا تھی قسمت، کیسے ٹل سکتی تھی۔
5
الست کا سب روحوں کو، ہوا تھا جب فرمان،
کہہ کر بلیٰقلب سے، لیا تھا میں نے مان،
تب سے عشقِ میہار میں، من ہے یہ مستان،
چین نہیں اک آن، حق ہے یہ کہ ملوں سجن سے۔
6
روحوں کو جب حکم ملا اور، گونجی الست صدا،
تب سے ہی اِس ساجن سے، ہوا تھا عشق میرا،
یہ ہی تھا مقصود بھنور میں، جائے ٹوٹ گھڑا،
عہد کیا پورا، پہنچ کے بیچ بھنور میں۔
7
روحوں سے جب ساجن نے، الست تھا فرمایا،
تب سے اس میہار کا، دل میں عشق سمایا،
رب نے تھا جو چاہا، اسکی بھنور میں ہوئی تعمیل۔
8
جب دیا تھا فائق نے، روحوں کو فرمان،
پریت ہوئی میہار سے، سکھیو ری! اس آن،
گھڑا رہا نہ باقی یہ بھی، وہاں کا تھا فرمان،
جی سے لیا ہے مان، حکم اپنے ہادی کا۔
9
سنی تھی جب روحوں نے، الست کی یار صدا،
تب سے ہی سوہنی کا، پی سے عشق ہوا،
ہادی نے جو کہا، اس کی بھنور میں ہوئی تعمیل۔
10
الست کی جب آواز آئی تھی، کیے تھے جب اقرار،
پی کی اور جو جاتی تھی وہ، دیکھی تھی راہ گذار،
لیکن وحدت کی وادی میں، آئے تھے چند ہی یار،
لہریں لاکھ ہزار، دیکھ کے بھولے دریا کو۔
11
سلگ رہی ہوں سکھیو! تن من ہے بے تاب،
پیتی ہوں پر تَنِ پیاسا ہے، کیسے ہو سیراب،
ساگر، سیلِ آب، پیئے نہ پیاس بجھے۔
12
سلگ رہی ہوں سکھیو، سلگتی ہوں سب رات،
بھول جا دوئی کو تو سوہنی، ساجن کی کر بات،
ہجر کی ہیں آفات، اور پونجی پاس نہیں ہے۔
13
کالی رات اور کچا گھڑا ہے، کیسا ہے اندھیارا،
چاند کا نام و نشاں نہیں ہے، مچل رہا ہے دریا،
آدھی رات کو پیار سجن کا، اسکو کھینچ ہے لایا،
کون بھنور میں آتا ہے یہ حکم خدائی سکھیو۔
14
کالی رات اور کچا گھڑا، سنگ نہیں ہے بجرا،
کیسے دیر لگائے اس کا، پی ہے میہر پیارا،
بھنور بنے ہے کنارا، اُلفت ہو جو من میں۔
15
کالی رات اور کچا گھڑا ہے، برس رہی ہے برکھا،
شیر کی مانند گرجے دریا، کھوجانے کا دھڑکا،
جان کا دوں اب صدقہ، ٹوٹ نہ جائے پریت۔
16
ڈول رہی ہے بیچ بھنور میں، نہ ہی آر نہ پار،
پریتم ہی تو ساحل ہے، باقی سب منجدھار،
کیسی سوچ بچار، جو ڈوبیں ان پر کرم کرے ہے۔
17
ڈول رہی ہے بیچ بھنور میں، نہ ہی آر نہ پار،
گھڑ پرکھ نہ پائی وہ جو، ٹوٹا آخرکار،
تو ہی پار اُتار، اب تو میرے مولا۔
18
کیا کیا تھے پیراک کہ جن کو، دریا نے ہے ڈبویا،
لیکن سوہنی نے تو خود میں، دریا کو تھا سمویا،
پٹخ رہا ہے دریا، ماتھا آج کناروں پر۔
19
لاکھوں دریا شور مچائیں، ریت نہ بدلے برہن،
کیسے دریا توڑ سکیں گے، جو ہے پریت کا بندھن۔
20
سنگ نہ لے تو سوہنی اپنے، پریتم کا مشکیزہ،
کہیں گے کل کو پی تجھ سے کہ، ہم نے پار اُتارا۔
21
ڈوب جا لیکن پریتم سے، مت لے تُو مشکیزہ،
وصلِ یار کی خاطر تیر تو، جہاں بہاؤ ہے اُلٹا،
اس جانب تو جا، جہاں نہیں ہے کوئی بستی۔
22
ساحل کی خواہش میں، جو بھی ڈوب گیا،
ان کو آن ملا، ساجن دونوں کناروں پر۔
23
ساجن اِن کا سہارا ہے جو، ڈوبے ساحل پر،
اپنے کاندھوں پر بٹھلاکے، کرے گا پار بھنور،
جن کا دور سفر، وہ یہیں پہ منزل پائیں۔
24
ساحل کی خواہش میں تو بھی، ڈوب جا اے سوہنی!
کاہے کو تو بجرہ ڈھونڈے، بِن بجرے چل سجنی!
نہ تو اب ہے سوہنی، نہ ہی صدا ہےساجن کی۔
25
ان کو مت ابیات سمجھ یہ، ہیں آیاتِ قرآن،
دھیان سے گر تو پڑھ لے تو ہو، پریتم کا عرفان۔
وائي
پی کو نہ بِسرائے، وہ ہے پریت کی ماری،
جس کے دل میں درد سجن کا، چین سے بیٹھ نہ پائے،
ڈم کے سنگ ہے جینا مشکل، ان را سے مجھے وہ مارے،
ٹلیوں کی آواز نے دیکھو، اس کے ہوش گنوائے،
بن جنگل اور صحرا دریا، صدا اسی کی آئے،
بے کل من میں آس بندھی ہے، آس میں عمر بتائے۔
ساتویں داستان
1
وہ آیا نہ گھاٹ پہ پھر بھی، من ہے ملن کو بے کل،
شور مچا ہے دریا میں اور، ہجر میں من ہے گھائل،
موج چڑھی ہے چاہت کی میں، ملن کو تڑپوں پل پل،
دریا پار کے جنگل میں، میں دیکھوں نور کی مشعل،
لہروں کی ہے ہلچل، گھڑا یہ ٹوٹ نہ جائے۔
2
تو ہی ڈبوئے، پار اُتارے، اور کا جھوٹا دعویٰ،
بیچ بھنور میں مجھ برہن کا، جانے حال تو سارا،
یہ دریا کا دھارا، کچے گھڑے کی لاج تو رکھیو!
3
منڈلاتے تھے پنچھی، تیر رہی تھی لاش،
تجہیز و تکفین کو آئے، پنچھی اڑ کر پاس،
بڑھی ملن کی پیاس، جب آئے پاس ملائک۔
4
دیتا ہے ملاحوں کو، میہر آج صدائیں،
آؤ تو ڈالیں جال اب اسکی، لاش کو ڈھونڈ نکالیں،
دریا چھان کے آئیں، تو ملن ہو شاید سوہنی سے۔
5
میہر اب ملاحوں سے، کرتا ہے یہ سوال،
آؤ تو اسکی لاش کو ڈھونڈیں، ڈال دو اپنے جال،
چھان لیں سب پاتال، شاید ملن ہو سوہنی سے۔
6
دیتا ہے ملاحوں کو، میہر آج صدا،
اپنی اپنی لے آؤ تم، کشتی اور مشکیزہ،
ڈوبی جو اس جا، چلو تو اس کی لاش کو ڈھونڈیں۔
7
ساحل کے سرکنڈے تھام کے، وہ ہے آہیں بھرتا،
کیونکر میری سوہنی کو اے دریا تونے ڈبویا؟
قیامت کے دن اے دریا! میں کرونگا تیری شکایت۔
8
بھنور جہاں ہیں قہری جس جا، ٹوٹ گرے ہے کنارا،
گہرائی کو کیا ناپینگے، جنکے پاس ہے بجرہ،
ساحل پر ہی لرز رہے ہیں، بغل میں ہے مشکیزہ،
جس کا گھاٹ ہے گہرا، کیوں اُترےواں دریا میں۔
9
دریا! پار اتر جائیں گے، بیشک دکھلا زور،
رب کے نام کا بجرہ لے اور، چل تو پی کی اور،
تیرینگے کمزور، جن پر اس کی رحمت ہے۔
10
آتی ہیں آوازیں، آجا اب اِس پار،
دریا کی بپھری موجیں، اور بھنور منجدھار،
جن کو رب کی سہار، وہ کیسے ڈوب سکینگے۔
11
آتی ہیں آوازیں، آجا دیر نہ کر،
کچا گھڑا اور بپھری موجیں، قہری ہیں یہ بھنور،
سچ ہو ساتھ اگر، تو کوئی بھی ڈوب نہ پائے۔
12
سوہنی! تو اس ساھڑ کی، پریت کی لاج نبھانا،
بھول کے سارے اندیشوں کو، دل سے وہم مٹانا،
اپنے دل کے آئینے میں، پی کا روپ سجانا،
راہ اسی پہ چلنا، تو پائے گی پی کا درشن۔
13
سوہنی! تو اس ساجن کی، رکھنا پریت کی لاج،
سارے وہم گمانوں کو، مٹادے دل سے آج،
ملے گا وہ سرتاج، بھولے گر تو غیر کو۔
14
وہ ہی ایک سہارا میرا، جس سے پریت ہے میری،
باندھی پریت کی ڈوری، پی نے من نیا کو۔
15
دیکھے جھولتے پیڑ تو، آئی تیری یاد،
منوا بہل نہ پایا میرا، چراوہے کے بعد،
پل پل تیری یاد، باندھ لیا من نیا کو۔
وائي
جی اٹھے یہ جیئرا، پریتم یاد کریں گر موہے،
سو سو بار میں ڈم کو واروں، ساجن پر اے میّا!
ہیرے موتی واروں اُس پر، وہ انمول ہے ہیرا،
کہے لطیف کہ آئے ساجن، جی اٹھے یہ جیئرا۔
آٹھویں داستان
1
ساحل کے سرکنڈے کو جب، تھامے ڈوبنے والا،
کہے لطیف کہ سرکنڈا یوں، اپنی لاج ہے رکھتا،
یا تو ڈوبنے والے کو وہ، ساحل پر ہے لاتا،
یا پھر ساتھ ہے چلتا، جڑ سے اُکھڑ کر بیچ بھنور میں۔
2
جب کمزور سے سرکنڈے کو، ڈوبتا تھامنے آئے،
کہے لطیف کہ سرکنڈا یوں، اپنی لاج نبھائے،
چھٹ جائے گر ہاتھ کسی کا، لرز لرز رہ جائے،
ساحل پر لے آئے، یا پھر ساتھ چلے وہ بھنور میں۔
3
جب ہیں ساحل پر سرکنڈے، ہوجا تو تیار،
ہاتھ تھمادے پریتم کو کر، اوروں کو اِنکار،
سُن سکی نہ پکار، کیا تو لہر بھنور کی۔
4
کہتے ہیں کہ قہری ہے، دریا کا منجدھار،
کہے لطیف کہ کرینگی لہریں، کچے گھڑے پہ وار،
اُنکو پار اُتار، جو تیریں کچے گھڑے سے۔
5
ہوجا اب تیار، تو ہے امانت ساجن کی،
بڑے بڑے پیراک تھے جن کو، لہریں تھی دیوار،
روک دیا لہروں نے ان کو، مان لی سب نے ہار،
پیڑ کا تنہ یار، مہران میں تیر نہ پائے۔
6
لے آئی کمہار سے جاکر، کچا گھڑا وہ نار،
کیا وہ سن نہ پائی تھی، لہروں کی پھنکار،
لاکھوں ڈوبے لہروں میں، نگل گیا اندھکار،
اُن کو پار اُتار، جو کچے گھڑے سے تیریں۔
7
کچے گھڑے کے سنگ چلی وہ، پکا گھڑا نہ پوچھا،
اُلجھ رہی تھی لہروں سے اور، من میں تھا وہ پیا،
دل پر عشق کا قبضہ، وہ کیسے عشق پے قابو پائے۔
8
کچے گھڑے کے سنگ چلی ہے، وہ سوئے منجدھار،
پکا گھڑا نہ پوچھیں جن کو، عشق کی ہے آدھار،
کہے لطیف کہ عشق والوں کو، کب ہے کچھ درکار،
گھاٹ گھاٹ دشوار، جن میں خودداری ہے۔
9
چھوڑا ساتھ گھڑے نے، بری تھی میری قسمت،
بیچ بھنور میں ٹوٹ گیا جب، لہریں بنیں مصیبت،
سونپ دیا ہے خود کو میں نے، اے دریا کی وسعت!
مانگوں اس کی قربت، جو ہے میرا سہارا۔
10
گھڑے کے نقش و نگار، دیکھ کے دل للچایا،
کچے گھڑے پہ دل آیا اور، کی نہ سوچ بچار،
اس لیئے اے یار، دیر ہوئی دریا میں۔
11
گھڑے کے نقش و نگار، دیکھ کے وہ للچائی،
نقش گھڑے کے مٹ گئے سارے، لہر اُبھر کر آئی،
من میں تھا بس جوش ملن کا، گھڑ ا پرکھ نہ پائی،
بیچ بھنور میں آئی، تو جانا گھڑا کچا تھا۔
12
کچے گھڑے کی کیا پروا، پی کی رہے نظر،
ڈم کے قریب کو پاپ میں جانوں، پریتم ہے میہر،
طوفاں ہو کہ بھنور، میں جاؤں گی پاس سجن کے۔
13
کچا گھڑا تھا مٹی کا، وہ ہی آیا کام،
پکا گھڑا تو وہ ہی پوچھیں، جن کو سُکھ آرام۔
14
جب کمہار نے گھڑے بنائے، بھٹی کی تیار،
آیا تب ہی حصے میں یہ، کچا گھڑا اے یار!
15
کب تک دیتا ساتھ، آخر ٹوٹ گیا،
اُلجھی لہر لہر سے، ہوگئے شل اعضائی،
گھیر لیا لہروں نے، دریا چڑھ آیا،
آنکھوں سے دیکھا، لہر لہر میں ملک الموت۔
16
کب تک دیتا ساتھ، ٹوٹ گیا بے مہر،
بن کر موت اُبھر آئی تھی، دریا کی ہر لہر،
وہ ہی کرے اب مہر، جو حال میرا جانے ہے۔
17
کچا گھڑا تو سہہ نہ پایا، لہروں کی ہلچل،
تن تو تھکن سے چور تھا سارا، انگ ہوئے تھے شل،
بھنور نہ جائیں نگل، پہنچ اب بیچ بھنور میں۔
18
دیکھے نقش گھڑے کے تو، للچایا تب من،
لہروں نے تھا شور مچایا، "ڈوب چلی برہن"،
ہیرا تھی وہ دلہن، کچا گھڑا لے ڈوبا۔
19
پکا گھڑا لے ساتھ، پھر ہوجا تیار،
لوٹا دے تو کمہار کو، کچا گھڑا اے نار،
سن لے بات وہ دھیان سے، کہے جو فائق یار،
ورنہ یہ منجدھار، تجھ کو لے ڈوبے گا۔
20
بدلے یوں حالات کہ ہوگئیں، بانہیں میری شل،
پہلے تاریکی میں جاتی تھی، میں تو پاس سہنل۔
21
شل ہوگئی ہیں باہیں، جسم ہوا ہے نڈھال،
اُبھری ہیں یوں لہریں ہر سو، لہروں کا ہے جال،
حال سے ہوں بے حال، پہنچ تو بیچ بھنور میں۔
22
من تو ہے اب ماندہ، انگ انگ ہے چور،
کر اب مہر منجدھار میں، تو ہی میرے حضور!
میں ناداں معذور، پہنچ تو بیچ بھنور میں۔
23
آجا اب منجدھار میں، چھوٹ گیا ہے کنارا،
تجھ بِن کوئی نہیں ہے، بھنور میں اور سہارا،
جن کا کوئی نہ چارہ، ان کو میہر پار لگائے۔
24
بھنور سے تیری مہر بچائے، اور نہ آئیں کام،
بیچ بھنور میں تجھ بن دوجے، ہوتے ہیں ناکام،
لہر نے ڈالا دام، تو ہی پار لگا دے میہر۔
وائي
پل پل یاد ہے یار، میں جاؤں گی اس پار،
تم سن لو سب اے سکھیو!
جاگ نہ پائے پریت کا بیری، جانا ہو دشوار،
وہاں ملا دے یار کہ جس جا، بھینسوں کی ہے قطار،
من میں باج رہی ہیں ٹلیاں، گونج رہی جھنکار،
وصل کبھی بھی ختم نہ ہو، سُن میری دعا ستار!
پریت کے طعنے دیتا ہے جگ، گھر گھر ہے گفتار،
بیچ بھنور ہے اور نہنگ ہیں، میہر! پار اُتار۔
نویں داستان
1
بحر و بر اور ڈالی ڈالی، ایک صدا مستور،
سبھی ہیں لائق سولی کے، سب میں ایک ہی نور،
ہر اک ہے منصور، کس کس کو تو سولی دے گا۔
2
سب میں ایک ہی پریتم ہے، سب میں وہی حضور،
ہر اک ہے منصور، کس کس کو تو سولی دے گا۔
3
ایک ہے آب کی صورت لیکن، لہریں لاکھ ہزار،
ساگر کی گہرائی کا، چھوڑ دے تو اب بچار،
جہاں بے حد عشق ہے، وہاں ہر خواہش بیکار،
ڈھونڈ نہ گھاٹ اے نار، تو مجھ کو ملے گا وہ ساجن۔
4
مرجا پاس میہار کے، لوٹ کے پھر نہ آ،
ساجن کا جو رنگ چڑھا ہے، ڈم کو مت دکھلا۔
5
کہے اگر اک بار، لوٹ کے جا مت سوہنی!
بیٹھوں پاس میں دھونی کے اور، جیون دوں میں گذار،
اوڑہوں دوجی بار، کبھی نہ رنگیں چُنری۔
6
نہ بھی کہے میہار، پھر بھی لوٹ نہ آؤں،
بیٹھوں پاس میں دھونی کے اور، جیون دوں میں وار،
صورت نہ کی حسن نے، ہے چھینا صبر و قرار،
بعدِ وصل فراق کا، سوجھے ہے آزار،
اسی لیئے تو یار، میں واپس لوٹ کے آئی ہوں۔
7
وعدہ وصل ہو محشر کا تو، جانوں وصل قریب،
شاید اس سے آگے ہوگا، یار کا وصل نصیب۔
8
کیا معلوم تھا بن جانا ہے، دریا کا نخچیر،
یہ ہی میری قسمت تھی، کرتی کیا تدبیر،
ایک تو تھی تقدیر، اور دوجا عشق بنا تھا کارن۔
9
یہ ہی میری قسمت تھی، کس کو دوں الزام،
کیا کوئی تدبیر کرے اور، کیا کوئی آئے کام،
یہی ہوا انجام، کس سے میں فریاد کروں۔
10
دیتی ہیں سب سکھیاں، مجھ کو پل پل طعنے!
حالِ دل تو سُن لیتا تُو، اے دریا دیوانے۔
11
سُن کر طعنے تیر رہی ہوں، ذرا نہیں پروا،
لے آیا ہے بیچ بھنور میں، دیوانہ دریا،
قسمت کا لکھا، لے آیا ہے لہروں میں۔
12
تیروں تو ہے جان کا خطرہ، لوٹ آنا دشوار،
دل میں تڑپ ہے پیا ملن کی، پل کو نہیں قرار،
یاد آئے جب پاپ تو چھایا، آنکھوں میں اندھکار،
پریتم ہے اُس پار، اب کیسے لوٹ کے جاؤں۔
13
نہ تو عشق کی حد ہے کوئی، نہ ہی درد کا ساحل،
ناپ سکے نہ عشق کو کوئی، عشق ہی عشق کی منزل۔
14
عشق کی حد نہ انت ہے کوئی، سن اور ہو تیار،
جس کا انت آغاز نہیں ہے، ایسا وہ میہار۔
15
جوں جوں تیروں دریا میں، توں توں بڑھے ہے پیار،
تو ہی جوت ہے نینن کی، تو ہی روح میں یار،
تجھ کو دریا پار، تکتے جگ بیتے ہیں۔
16
کاٹ کے رکھ دیتی ہے، تیری پریت اے ساجن!
باندھا ایسا بندھن، کہ جکڑ گئے ہیں انگ یہ سارے۔
17
تیری پریت کا انت نہیں ہے، دل میں پریت اتھاہ،
بھڑک کے باہر آجاتی ہے، جلائے تیری چاہ،
کاٹ دیا وَاللہ، بِن خنجر کے ساجن نے۔
18
پریت کا کوئی انت نہیں ہے، اُبل رہی ہے پریت،
تیری پریت میں میت! ڈوبے دل کے کنارے۔
19
کچھ ہمت سے تیراتی ہوں، اور کچھ مدد ہے تیری،
راہ میں رکاوٹ میری، آئے نہ میرے ساجن۔
20
کر تو دردِ دل اور ملا دے بچھڑا دلبر،
دونوں جگ میں بس اک تو ہے، ایسا طاقتور،
تن میں جنکے طلب ہے کر مہر تو ان پر،
کاگا انگنا آکر، کب ملن بدھائی دے گا۔
21
بن دیکھے دن بیتے، کیسا ہے اب وہ میت،
چھلک رہی ہے پریت، اب تو ان نینن سے۔
22
بِن دیکھے دن بیتے، کیسے ہیں اب ساجن،
ٹوٹ رہا ہے تن من، درد کی بیلیں لپٹیں۔
23
بن دیکھے دن بیتے، کیا ہے اس کا حال،
جانے کتنے سورج اُبھرے، بیتے ماہ و سال،
جس کا حسن جمال، بن دیکھے اک پل نہ بیتے۔
24
گھر نہ بر نہ اور ہے کچھ، اک من میں ہے میہار،
شام سے ہی اس پی کے کارن، کیے ہوں سنگھار،
کس طرح اس پار، آکر تجھے میں دیکھوں۔
وائي
سنبھل کے پاؤن رکھنا، گھاٹ میں پانی گہرا،
کھڑے، کھبے، کیچڑ، پھسلن، نظریں نیچی رکھنا،
آنکھیں گر ہوں اوپر، تو ہے راہ میں ٹھوکر کھانا،
گھاٹ بہت ہیں مشکل، یہ ہے ملاحوں کا کہنا،
جو بھی جائے پریتم پائے، چین سے بیٹھ نہ بہنا!
توڑ کے جگ کے رشتے ناتے، پریت کی ریت نبھانا،
دیکھ بھال کے گھڑا اُٹھالے، تجھ کو پار ہے جانا،
پاس پیا کے جانا ہوگا، اور سے یہ مت کہنا،
توڑ دے ڈم سے تعلق تجھ کو، پاس میہار ہے جانا،
صدا تو سن لے ساجن کی، دریا سے مت ڈرنا،
پریت اگر ہو من میں پھر کیا، مشکل پار اُترنا،
ڈوب بھی جائے پھر بھی پی کا، دامن تھامے رکھنا،
پریتم پاس بلائیں گے جب، سج دھج کے تو چلنا۔
دسویں داستان
1
سوہنی بِن اس ساجن کے، میلا تیرا سراپا،
کریگا وہ ہی اُجلا، جو ہے بھینسوں کا چرواہا۔
2
سوہنی اس ساجن بِن، ساری ہے ناپاک،
تجھ کو دھوکر اجلا کر دے، جا اس کے اوطاق،
کریں گے تجھ کو پاک، پیئں جو اُجلا دودھ۔
3
سوہنی! اس ساجن بِن، میلا تیرا تن،
دریا کی ان لہروں سے کب، دھلے گا یہ تن من،
پاس ہو جب ساجن، تو دُھل کر اجلی ہوجائے۔
4
سوہنی! اس ساھڑ بِن، بدصورت بدحال،
ایسا روگ لگا ہے، جیون ہے جنجال،
بِن اس کے حسن و جمال، بھرتی ہے وہ آہیں۔
5
بِن اپنے اس ساجن کے، جیون ہے آزار،
روگ تھی ڈم کی قربت، صحت بس میہار،
اس کے روگ کا درماں، پریتم کا دیدار،
دیکھے گر میہار، تو پائے گی صحت سوہنی!
6
مت جا تو دریا پر سوہنی، دریا میں ہے بھنور،
کیا لینا ہے دریا سے، ہیبت ناک ہے منظر،
ڈم وہ تیرا شوہر، پوچھ نہ لے سکھیوں سے۔
7
پوچھ لیا گر سکھیو سے تو، مجھے کرے گا کیا،
وہ ہی اس منجدھار میں جائیں، جن کے من میں پیا،
میں نے وار دیا، سب کچھ اپنے میہر پر۔
8
ڈم کو میری پریت نہ بھائے، ہوتا ہے ناراض،
پریتم آکے سمجھا اس کو، اپنی پریت کا راز۔
9
جب تک جسم میں جان تھی، چین سے بیٹھ نہ پائی،
پی کی تھی سودائی، مری ملن کی آس میں۔
10
جب تک جسم میں جان تھی، چین سے بیٹھ نہ پائی،
ڈولتی پہنچی پاس سجن کے، مر کر پریت نبھائی۔
11
بجھ جائے اب چاند کی مشعل، سدا ہو رات اوماس،
دیکھوں اور نہ بن ساجن کے، من میں ہے یہ آس۔
12
کیوں تو رات کی تاریکی میں، پیا ملن کو جائے،
جا تو دن کے اُجیارے میں، من میں پریت بسائے۔
13
کون ڈبوتا سوہنی کو، ڈبو گیا دریا،
نینن میں بس عکس پیا کا، تھا جھلمل کرتا۔
14
ساجن تو تھا ساحل پر، آیا تھامنے ہاتھ،
کب تک دیتا ساتھ ،کچا گھڑا منجدھار میں۔
15
ریت کے ذرّے، بال ہیں جتنے، اور برکھا کی بوندیں،
مجھ پر تیرے احساں سائیں! اس سے زیادہ ہیں۔
16
میکے اور سسرال میں، کہاں تھے یہ سکھ جانا!
کیا کیا کئے ہیں احساں، تونے اپنا کر اے سائیں!
وائي
کہاں ہے میرا یار، کھنچے ہے من اس پار، نینن پریت لگائی،
وہ جو سارے جگ کا داتا، اسی کی ہے آدھار،
دھونی یار میہار کی جیسے، دیپ جلے اس پار،
یاد میں اپنے ساجن کی وہ، روئے زار قطار،
تیرا دامن تھام لیا ہے، محشر تک اے یار،
میرا پیر ہے حضرت میراں، سب کی ہے آدھار۔
وائي
در پر دی ہے صدا، اور دوار نہ جانوں،
سب پر تیری نوازش سائیں! سب پر تیری سخا،
سارے اپاہج دوار پہ آئیں، سب کا تو داتا۔
وائي
میرا من بے بس، تیری دید کو تڑپے ترسے،
تن سنگھار کو ترس رہا ہے، چلے نہ میرا بس،
یار میہار کی بات بِنا ہیں، سب باتیں بے رس،
تو ہی آکر درد مٹادے، تو ہی بندھا ڈھارس،
سکھ نا مانگوں دکھ ہی دے جا، عجب ہے دکھ میں رس۔
وائي
الھڑ تھی وہ جان نہ پائی، پریت کو سمجھی کھیل،
اندھی تھی وہ اُلوہیت میں، یار کو دیکھ نہ پائی،
کیسے اس کویاد رہے گی، اُس کی یاد بُھلائی،
یار سے توڑ کے پریت کا ناتا، غیر کی ہے شیدائی۔
وائي
رینا بیتی جائی، بِن دیکھے ساجن کو،
اتنے پاس تھے ساجن تیرے، تجھ پہ نیند کے سائے۔
وائي
ہر آس میری بھر آئی، ہوئیں ساری مرادیں پوری،
کہاں ہے اور کسی میں، اس جیسی رعنائی،
بات کریں تو کھل اُٹھے من، سنیں تو من شیدائی،
اس کے دوار پہ بیٹھ تو جاکر، اسکی کر تو بڑائی،
حمد کروں میں اسکی لیکن، اس کو سمجھ نہ پائی،
اتنے اس کے احساں ہیں کہ، رحمت ہے برسائی،
تو ہے جس تعریف کے قابل، وہ میں کر نہ پائی،
جس کو تو بس چھو بھی لے وہ، ہو جائے شیدائی،
اُس کے تن میں پیاس ہے جو بھی، تجھ کو دیکھ کے آئی،
لب پر مہر مناسب ہے پر، روئے دل سودائی۔
سُر سسئی آبری
پہلی داستان
1
اوّل و آخر جانا ہے، مجھے پنہل کے پاس،
میری پیہم کوشش کا تو، مولا! رکھیو پاس،
ہو پوری ملن کی آس، مجھ پہ کر احسان اے مالک۔
2
روتی اور رُلاتی ہے وہ، درد سے چُور ہے تن،
نظریں تو اس اور جمی ہیں، جہاں ہے اس کا ساجن،
کہے لطیف کہ یار کی صورت، دل میں ہے جلوہ فگن،
مری ہے رہ میں برہن، پریت کی ریت نبھاکر۔
3
ہجرِ یار میں خاک ہوئی پر، ملن کو ہے بے تاب،
پی لی پریت پنہل کی لیکن، ہوئی نہ وہ سیراب،
پریت وہ چشمہ آب، جو اور بڑھائے پیاس۔
4
جس نے حسن کا جلوہ دیکھا، جرعہئہ حسن پیا،
وصلِ یار کی طلب بڑھی اور، دردِ ہجر بڑھا،
اُنکو پیاس سدا، گو کہ ہیں وہ بیچ بحر میں۔
5
جن کے من میں پریت پیا کی، پیا سے ہیں وہ سدا،
تو بھی پی کر پریت کے پیالے، پیاس سے پیاس بڑھا،
پنہل آپ پلا، تو پیاس سے پیاس بجھاؤں۔
6
پریت میں جن کا من ہے جیسے، کوئی چھلکتا جام،
کبھی نہ ان کی پیاس بجھے ہے، دل میں آگ مدام،
منزلِ عشق سراب ہے سکھیو!، پیاس یہاں ہر گام،
پیاس ہی پیاس مدام، گوکہ ہیں وہ بیچ بحر میں۔
7
سدا ہیں بحر عشق میں وہ، پیاس سے ہیں بے تاب،
کبھی نہ حاصل منزل ہو اور، وصلِ یار سراب،
دریا، موجِ آب، اور پیاس سے نکلے جان۔
8
ہوت پنہل کی خاطر سسئی، کرلے قبول سراب،
جو بھی دشت میں آب کو ڈھونڈے، اس کو ڈھونڈے آب۔
9
پانی پر ہیں مسکن لیکن، پھر بھی سدا کی پیاس،
ڈھونڈیں پر نہ پائیں جو ہے، شہ رگ سے بھی پاس،
سدا رہے وہ نراس، خود کو جان نہ پائے۔
10
یار سے پریت لگائی لیکن، سمجھ نہ پائی ناداں،
اس سے پریت کا ناتا جوڑ کے، کر دیا آپ عیاں،
خود کو کر کے قرباں، پریت لگائی آری سے۔
11
بادِ سموم کے جھونکوں سے تب، جھلس گیا تھا جہاں،
آئی صدا افلاک سے ایسی، مانگی سب نے اماں،
چیخ اٹھا ہر ذی روح اک دم، ہر اک تھا حیراں،
غم سے نکلی جان سبھی کی، مرگئے سب حیواں،
چلا جو یار پنہل تو سب کی، نکلی جسم سے جاں،
پربت اور انساں، روئے پنہل کی خاطر۔
12
بنا لے عجز کو رہبر، ڈھونڈلے نقشِ پا،
چل تو کیچ کی جانب، اپنا آپ بھلا،
تج دے خود بینی کو، من میں پریت بسا،
راہ میں عزازیل سے، اپنا آپ بچا،
من میں یاس بسا، تو پائے گی امید۔
13
تج دے خودداری کو، عجز کو کر رہبر،
راہ میں جو دکھ جھیلے، کبھی نہ ظاہر کر،
من میں پریت بسا کے، پربت سے تو گذر،
آساں ہیں سب دشت، من میں پریت ہو گر،
تج دی خودی کو گر، تو اجر ملے ہے اسکا۔
14
اب بھنبھور میں کیا رہنا، "ہاڑے" کو مت جا،
جھوٹ سے اپنا آپ بچالے، سچی بات چھپا،
پریت میں جاں نہ جلا، مت بسرا تو دکھڑے۔
15
خوشیوں سے مت کھیل، دکھڑوں سے مت ڈر،
بھٹک نہ پربت پربت، چھوڑ نہ اپنا گھر،
یوں بے موت نہ مر، نہ ہی جی اب سسی!
16
خوشیاں آئیں نہ راس، دکھڑوں سے نہیں خوف،
اک پل کو بھی رک نہ پائے، جائے نہ پی کے پاس،
آس کبھی ہے نراس، جیتی ہے دونوں کے بیچ۔
وائي
چھلک رہا ہے پیار، تن من میں اے یار!
دور کہیں جوں ٹلیاں باجیں، یاد کی یوں جھنکار،
تیری دید کی پیاسی اکھیاں، درس دکھا جا یار!
کیسے پریت کو بھول گئے اور، بھولے قول و قرار،
شہر بھنبھور ہے زندان جیسے، تجھ بِن اے "کوہیار"!
مجھ کو چھوڑ کے مت جا ساجن! تجھ بن کون سہار،
تیرے ہجر میں پت جھڑ جانوں، یہ رُت میگھ ملہار،
جوں جوں دوائے دل کی ہم نے، اور بڑھا آزار،
لاکر دے تو علیل کو، دوائے دل دے یار،
کوی لطیف کو یاد ستائے، تیری ہی ہر بار۔
دوسری داستان
1
دیکھ کے راہ کے ویراں پربت، تو ہمت مت ہار،
جس جس راہ سے گذرے ہیں وہ، ڈھونڈ وہ راہگذار،
منزل منزل آگ جلاتے، گئے ہیں وہ اسوار،
بڑا ہی ہے گنوان کوہیارل، اسی کی رکھ آدھار،
دور نہیں ہے یار، بسا ہے وہ تیرے نینن میں۔
2
جگ سے ناتہ توڑ کے جو بھی، جوڑے پی سے ناتہ،
عقلِ کُل اور حسنِ کُل کو، وہ ہی ہے پاتا۔
3
شاید یار نے یاد کیا ہے، جہاں پہ ہے "ونکار"
اسی لئے تو تیز ہوئی ہے، میری اب رفتار،
تیری مہر سے یار!، میں آخر پہنچی "کیچ" کو۔
4
انجانی ونکار کی راہیں، پربت کا یہ سفر،
کہے لطیف ویرانوں میں لے تو خیر خبر،
ویران ڈگر ڈگر، چھوڑ نہ دنیا کی راہوں میں۔
5
ان دیکھا ان جانا دیس، انجانے اشجار،
خنجر بِن طعنوں سے کاٹا، دشت نے تن، کوہیار!
پیارا ہے وہ یار، اس کارن میں بھٹک رہی ہوں۔
6
انجانی ونکار کی راہیں، پانی نہیں ہے پاس،
دشت کی تیکھی تپش سے ہے، من میں چھایا خوف و ہراس،
آگ اگلتا سورج، میرا، جھلس رہا ہے ماس،
وہاں تو آجا پاس، جہاں ہوں تنہا ویرانوں میں۔
7
انجانے اشجار ہیں ہر سو، ہیبت ناک ہے منظر،
کہے لطیف کہ دور سفر اور، مشکل راہگذر،
مشکل ہو نہ سفر، پہلی منزل آساں کردے!
8
اونچے انجانے اشجار یہ، عود و بید کا جنگل،
آگ ہوئی ہے ساری دھرتی، تپتے دشت و جبل،
یہ راہوں کے بل، دشت میں کیسے ڈھونڈوں ساجن۔
9
اونچے انجانے اشجار یہ، جہاں پہ ناگ ہیں نیلے،
کہے لطیف وہاں ملن کے، کئے ہیں کیا کیا حیلے،
جہاں نہ اور وسیلے، وہاں پہ پہنچ اے سائیں!
10
پہلے کب دیکھے تھے میں نے، انجانے اشجار،
مہر کہاں تھی انسانوں میں، ہر سو تھا اندھکار،
دکھ پانے کو یار!، تجھ سے پریت لگائی۔
وائي
دور دیس سدھارے، زور آور وہ ہوت کے پیارے،
کہاں ہیں یار پنہل کے سنگی، ڈھونڈے دوارے دوارے،
قاصد! تونے جاتے دیکھے، کیچی سب سے نیارے،
اونٹ سجائے، گھنگھرو باندھے، چھم چھم چھمکارے،
لے جائیں گے سنگ کہ جن کی، اعلیٰ ذات ہے پیارے،
سکھیو! شاہ لطیف کہے وہ، آئے ہیں میرے دوارے۔
تیسری داستان
1
پیچھے چھوڑ کے یار کو اب وہ، بھٹکی دشت و جبل،
بنی تھی اس کی دلہن اب تو، اس کارن ہے بے کل،
کیسی بھول ہوئی کہ ڈھونڈا، بن میں ہوت پنہل،
ہاڑے اور نہ چل، پوچھ جنہوں نے یہاں پہ پایا۔
2
ان سے پوچھ جنہوں نے خود میں، دیکھے پی کے نشان،
تجھ میں یار نہاں، ڈھونڈلے خود میں یار کو۔
3
جہاں تو سمجھی یار بسا ہے، وہاں نہیں وہ یار،
کیوں تو سوئے دشت چلی ہے، تجھ میں ہی "ونکار"،
خود میں ڈھونڈ کوہیار، خود سے پوچھ پتا پریتم کا۔
4
اپنے پنہل یار پہ سسی! سب کچھ کردے قرباں،
ڈھونڈ نہ اسکو پربت میں یہ، دل ہے شہر جاناں۔
5
دل ہی شہر جاناں ہے اب لوٹ تو اپنی اور،
تونے پربت، پربت میں کیوں، ڈال رکھا ہے شور۔
6
بھول کے دوجے دوارے سسی، خود میں ڈھونڈ وہ یار،
جسکے کارن کشٹ اٹھائے، تجھ میں ہے کوہیار۔
7
جس کو سنگ لئے تو گھومے، اس کو ڈھونڈ نہ ناداں!
کس نے دشت و جبل میں پایا، اپنا دلبر جاناں،
تجھ میں یار ہے پنہاں، خود میں پالے پریتم۔
8
وہ تو تجھ میں پنہاں ہے تو، جس کو ڈھونڈ ے دور،
جھانک کے دیکھ دریچہ دل سے، تجھ میں وہ مستور،
تجھ میں اس کا ظہور، تجھ میں دیرہ دوست کا ہے۔
9
ڈھونڈ یہاں پہ ہوت پنہل کو، کیوں جائے "ونکار"،
تجھ کو چھوڑ، لطیف کہے کب، چھپا وہ دوجے پار،
پریت نِبھا اس پیارل سے اور، ہوجا اب تیار،
خود میں دیکھ وہ یار، تجھ میں دیرہ دوست کا ہے۔
10
جھوٹی ہیں جو کیچ کو جائیں، یہاں نہ ڈھونڈیں یار،
جن کا عشق ہے یار پنہل سے، دیں وہ کیچ بِسار۔
11
کر نہ دور سفر کی باتیں، لے تو دل کی راہ،
قاصد بن کر بھٹک بھٹک کر، کب پائیگی راہ۔
12
نہ کر دور سفر کی باتیں، لے تو راہِ دل،
پربت میں کب راہ ملیگی، خود میں پا منزل۔
13
لے تو دل کی راہ اے سسی، بھول جا دشت جبل،
"آریانی" انمول ہے تجھ میں، تجھ میں "کوہیارل"۔
14
لے تو دل کی راہ اے سسی، بھول جا سارے پربت،
ہم نے خود میں پریتم پایا، خود میں یار کی صورت۔
15
لے تو دل کی راہ اے سسی، تج دے خودداری کو،
جس نے خودداری دکھلائی، پا نہ سکی پریتم وہ۔
16
آج میں پوچھوں تجھ سے کیسے، ڈھونڈے گی کوہیار،
بے خود ہوکر چل صحرا میں، اپنا آپ بِسار،
جب تک ملے نہ یار، بندھا ہو پریت کا بندھن۔
17
پریت سدا ہو قائم، توڑ نہ پریت کا بندھن،
جیسے جُڑواں سنگ ہوں ایسے، سنگ تیرے ہے ساجن۔
18
پریت سدا ہو قائم، توڑ نہ پریت کا بندھن،
ذرہ سی کستوری سے مہکا، سسی! اپنا تن من۔
وائي
سوکر یار گنوایا، کیا کروں، کت جاؤں،
سوئی تو وہ چھوڑ چلے اور، جاگی تو دکھ پایا،
کھا پی کر پھر ڈھونڈا ساجن، کیسے وقت گنوایا،
مجھے بھی سکھیو راز بتاؤ، ہوت نے جو بتلایا۔
چوتھی داستان
1
کب وہ "وندر" کو جائیں جن کے، من میں نہیں ہے پیار،
جو بس خواہش کرنا جانیں، بیٹھ گئیں تھک ہار۔
2
سب ہی یار کو پانا چاہیں، خود کو دیں آرام،
دشت کے کشٹ اٹھانا سکھیو!، سب کا نہیں ہے کام،
جھیلیں دکھ آلام، وہ ہی میرے سنگ چلیں۔
3
اتنا آساں کیچ نہیں کہ، جائے وہاں ہر نار،
وہ ہی میرے سنگ چلے جو، کردے جان نثار۔
4
چرخہ کا تتے پیار کی باتیں، کرتی تھیں سب سکھیاں،
مجھ سبھاگن سنگ جو بھٹکے، دشت و جبل یہ ویراں۔
5
جو بھی میرے سنگ چلے وہ، کرے نہ سکھ کی بات،
جن کا دل دو نیم وہ جھیلیں دشت کے سب آفات۔
6
من میں ملن کی خواہش ہے کب، بھٹکیں دشت بیاباں،
گھر میں بیٹھ کر کرتی ہیں سب، ساجن پہ جاں قرباں۔
7
اپنے گھر کو جاؤ سکھیو!، سب کے ہیں گھر بار،
بھٹکوں گی میں دشت و جبل میں، ملے نہ جب تک یار،
بڑا ہی ہے دشوار، "جتوں" سے پریت نبھانا۔
8
سب کے ہیں گھر بار، سب ہی لوٹ کے جائیں،
گر ہو من میں ہجر کا گھاؤ، چین سے بیٹھ نہ پائیں،
وہ ہی ڈھونڈنے جائیں، جن کے من میں پریت اگن ہو۔
9
سب کے ہیں گھر بار، تم سب گھر کو جاؤ،
چل نہ سکو گی "کیچ" کی جانب، عشق پہ حرف نہ لاؤ،
میرے سنگ نہ آؤ، میں جوگن بن کر بھٹکوں گی۔
10
انگ بھبھوت رمائے اور اب رنگے لباس یہ برہن،
روک نہ میری میاں! مجھ کو، بنونگی اب میں جوگن،
اس ساجن کے کارن، اب ڈالوں بالے کانوں میں۔
11
یار "عنایت"! "جانی" سے تو، باندھ لے پریت کا بندھن،
یار فقیری مشکل ہے اور، بڑی ہے راہ کٹھن،
اس میخانے کی مدرا سے اب، ہوگا اور چلن،
ایسا ہو بندھن، جو کبھی بھی ٹوٹ نہ پائے۔
12
مجھے رکھیل سمجھ کر مجھ کو، چھوڑ چلے دیور،
میں تو سیوا کر نہ پائی، آئے تھے میرے گھر،
گیت خوشی کے گاتی میں سب، سکھیوں سے مل کر،
جو بھی رسم دنیا ہے وہ، پوری کرتی پر،
مجھ میں تھا نہ ہنر، یار تو قول کا سچا تھا۔
13
کیا تھا یار وچن، مجھ سے جو "ونکار" میں،
پورا کر وہ سجن، آج تو نربل دکھیاسے۔
14
پورا کر جو تونے کیا تھا، ساجن سے اقرار،
پھر رکھ آس کرے گا پورا، قول وہ تیرا یار۔
15
کرے اگر اقرار ملن کا، تجھ سے تیرا ساجن،
پریت کا نام گر لیگی تو پھر، بھٹکیگی بَن بَن۔
16
قول ملن کا کیا ہے پی نے، چین سے تو مت سو،
کیا کر لیگی کرے نہ پورے، اپنے وعدے وہ!
17
لال لہو سا نیر بہا اب، دشت میں ہوگئی شام،
قاصد ہو کہ جس سے پوچھے، کہ راہ اور یار کا نام،
مشکل ہے ہر "گام"، پھر بھی چلے وہ یار کی جانب!
18
دوڑوں جان نہیں ہے، چلوں، یہ آبلہ پائی،
کرے مذاق نہ لوٹ آنے کا، کوئی سکھی، صحرائی،
دل پہ ہیبت چھائی، پربت نے دل چاک کیا ہے۔
19
آنکھوں سے تو اشک رواں تھے، پیروں میں تھے چھالے،
پھر بھی پی کو دعائیں دی تھیں، گُھٹے گُھٹے تھے نالے،
"تو ہے رہبر پیارے!" یہ ہی بات تھی لب پر۔
20
کیسی تان کے سوئی ہے، کون اسے سمجھائے،
سارے ساتھی چھوڑ چلے، پھر بھی نیند لبھائے۔
21
ہار گئے سمجھاتے اس کو، شہر بھنبھور کے باسی،
جس کا پریتم لے گئے جت وہ، کیسے لوٹ کے آتی۔
22
صحرا کو مت جا اے "سسی"!، سکھیوں نے سمجھایا،
لیکے اُڑا کر سوچ نے اس کو، پاس سجن پہنچایا۔
23
سکھیو لوٹ کے آنے کی تم، مت دو مجھ کو مت،
چل کر آریانی ساجن کو، ڈھونڈونگی البت،
ڈھونڈونگی سب عیب میں اپنے، روند کے پربت،
سکھیو! شریکت، کیسے کروں میں ان سے۔
24
جیتے جی نہ لوٹوں سکھیو!، راہ میں نکلے جان،
مرتے مرتے شاید پا لوں، قدموں کے میں نشان۔
وائي
تو جانے حال حبیب! میرا روگ پرانا سائیں!
پریت کا روگ لگا ہے۔
عشق کا مرض یہ مول لیا ہے، کارن تیرے حبیب،
خوشی دے تو صحت کی، تو دوا ہے دل کی پوچھے ہے طبیب،
پل پل روؤں اور کراہوں، یہ ہی میرا نصیب،
کاہل ہوں میں گن نہیں کوئی، منتا تو عیب، رقیب،
حاذق ہے تو اس کا، آئے تو اے رقیب عجیب،
کہے لطیف کہ بے گُن ہوں میں، کیسے آؤں قریب۔
پانچویں داستان
1
شہر بھنبھور سے چل کر جب میں، دشت میں بھٹکی ہر سو،
پہنچی کیچ کی بستی میں کہ، جہاں تھا وہ مہرو،
"ہرجا تو ہی تُو"، کس کس کو تو سولی دیگا؟
2
اپنے آپ میں ڈوب کے میں نے، دیکھا اپنا حال،
نہ تو دشت و جبل تھے نہ ہی، کیچی کا جنجال،
ہوگیا ختم ملال، پنہل آپ ہوئی میں۔
3
سکھا گئے تھے دیور جینا، دیا تھا درد ملال،
چھوڑا شہر بھنبھور تو ہوگئی، دکھ میں بھی خوشحال،
دور ہوا جنجال، پہنل آپ ہوئی میں۔
4
پنہل آپ ہوئی تو ٹوٹا، سارا شرم سسی کا،
چلے جو تنہا یار کو پانے، بھرم ہے پھر کب رہتا،
جو کرتی وندر میں سودا، وہ کرلیا اس نے یاں پر۔
5
پنہل آپ ہوئی رہا نہ، سسی کا سنگھار،
مَن عَرَفَ نَفسَہُ فَقَد عَرَفَ رَبَہ، سمجھ لے تو اے یار،
جو وندر میں بیوپار، وہ کر لیا اس نے یاں پر۔
6
پنہل آپ ہوئی پھر کیسی، سسی کی رعنائی،
خلق آدم علیٰ صورتہ، آواز یہی بس آئی،
جس کی تھی سودائی، وہ پایا نادانی میں
7
وہم و گمان نے مارا میں تو، خود ہی پنہل تھی ورنہ،
خود کو تج کر خود کو پایا، پنہل کو جب پہنچانا،
علم کا اب کیا کرنا، جس سے یار نہ ہو حاصل۔
8
لوٹ آئی تو طعنے دیں گے، ڈھونڈوں پربت پربت،
"ہوت بلوچ" کی باندی ہو میں، ان سے اور کیا نسبت،
الفراق اشد من الموت، میں پاؤں گی یار کی قربت،
دیکھوں یار کی صورت، جیتے جی اے سکھیو۔
9
اپنے ہوت پنہل بن، جینا ہے دشوار،
آدھی رات کو جاگ کر، چلے گئے اسوار،
روؤں زار قطار، دیکھ کے اُجڑا آنگن۔
10
ملتا ہے تب یار، جب دکھائے نہ آن،
ماراَیتُ شَیئاً اِلا وَراَیتُ اللہ فِیہِ، یہیں پہ خیمہ تان،
پورے ہوں ارمان، ہوت ملے تب سسی!
11
ہوت تیری آغوش میں ہے تو، بھٹکے بن جنگل،
وَفِی اَنفُسِکُم اَفَلَا تُبصِرُونَ، خود میں دیکھ لے سہنل،
ملتا ہے کب پنہل، آپنے آپ سے باہر۔
12
ہوت تیری آغوش میں ہے، سمجھ لے تو یہ بات،
وَنَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ، یار ہے تیرے ساتھ،
بی ہے پردہ ذات، تیرے اور پنہل کی بیچ۔
13
اپنے ہوت بلوچ کے کارن، چھان لیا سنسار،
اللہُ بِکُلِ شَیءِ مُحِیطُ، اس کے یہ آثار،
سب میں وہ ہے یار، اور نہیں بِن اس کے۔
14
جان بوجھ کے کیسے بیٹھوں، بن کر میں انجان،
من میں عشق کی آگ ہے سکھیو! جلے ہے پل پل جان،
اَلْعِشْقُ نَارٌ یُحْرَقُ مَا سِوَا الْمَحْبُوْبِ، جلتی ہوں ہر آن،
اس کو گئی پہچان، اور نہیں بِن اُس کے۔
15
سکھیو! آری جام ہے، سارا دشت وجود،
اپنے باطن میں ہی دیکھے، دشت و جبل موجود،
عشق سے تھی نابود، تو پایا راہ میں ہوت کو۔
16
چل تو اس کی اور کہ جس کے، عشق میں ہےپاگل،
نیند میں بھی اب یار کی خاطر، تڑپے ہے پل پل،
اَلِعشقُ حجِاب بَینَ العاشِقِ والَمعشُوقِ، پردہ رہے نہ اک پل،
وہ ہی ایک ہے پنہل، اس بن اور نہ کوئی۔
17
ان کو میں پہچان نہ پائی، میں تو تھی نادان،
دیور دے گئے درد اے سکھیو! جلتی ہوں ہر آن،
سلگے جن کی جان، وہ بھٹکیں دشت و جبل میں۔
18
میں تو تھی انجان، پرکھ نہ پائی یار،
کب میں اس کے ناز اٹھاتی، وہ تو تھا کوہیار،
جیون کا آزار، پل بھر کی وہ پیار کی باتیں۔
وائي
مشکل حل کر جاتا ہے، پریتم ساتھ نہ چھوڑے گا،
تھک کر بیٹھ گئے جو رہ میں، ان کا ساتھ نبھاتا ہے،
جن کی عریاں انگ ہیں اُن کے، ساجن عیب چھپاتا ہے۔
چھٹی داستان
1
درد فراق کا جام، دیا ہے دکھیارن کو،
پیار کی آگ جلائی من میں، جلے ہے جسم تمام،
لُوٹ لیا آرام، زلفِ یار نے لہرا کر۔
2
زُلفِ یار نے درد دیا ہے، جس کا کوئی نہ درماں،
وہ لہراتی زلفیں اور وہ، یار کا روئے تاباں۔
3
شہر بھنبھور میں ہم نے دیکھے، کالے کاکل کل،
بُرا ہے اُن کا حال کہ جن کو زُلف کرے ہے گھائل۔
4
خودداری سب ختم ہوئی ہے، ہائے وہ زُلفیں قاتل!
وہ لہراتی زلفیں سکھیو! کریں معذور کو گھائل۔
5
جینا ہے دشوار کہ میں ہوں، زُلفِ یار کی گھائل،
شہر بھنبھور میں کر گئیں گھائل، ہائے وہ زلفیں قاتل۔
6
جو بھی قتیل زُلف ہیں ان کو، کفن نہیں درکار،
پاکر شہید کا رتبہ وہ تو، جھومے ہے اے یار۔
7
ظلم نہ کر اب دکھیاروں پہ، ہاڑے جبل کے جام!
تو ہی سب کا سہارا سائیں، سب کا دل آرام،
مار نہ دکھیا برہن کو اب، کر نہ تلخ کلام،
من جا پریت کے ماروں سے تو، ختم ہو سب آلام،
تجھ سے پایا نام، اس کو چھوڑ نہ تنہا۔
8
اپنے سے کمزور کو کوئی، کیوں دکھلائے زور،
دکھیاروں پہ کر نہ جفائیں، میں برہن کمزور،
آجا میری اور، میں آؤنگی اک دن تیرے آنگن۔
9
اے پربت تو ظلم نہ ڈھا کہ، میں ہو دکھیا نار،
آریانی سے تعلق ہے میں، بھٹک رہی اِس کار۔
10
جس کے پیر تھے ریشم جیسے، پربت میں وہ پیادہ،
قابلِ دید تھی آبلہ پائی، زخم ہوئے تھے تازہ،
پھر بھی پربت روند رہی تھی، ہجر میں من تھا ماندہ،
جس سے بندھن باندھا، کاش کہ اس سے مل آؤں۔
11
ریشم سے وہ پائے نازک، اور وہ آبلہ پائی،
جسم و جاں سب لہو لہو اور، دل میں دردِ جدائی،
جن کی ہوں شیدائی، کیسے دشت کے پار گئے وہ۔
وائي
مجھ اندھی کے گھر آئیں گے، میرے ہوت پنہل اے سکھیو!
ڈھانپ کے دامن سے برہن کو، سنگ اپنے لے جائینگے،
وہ نہ سکھ کے ساتھ ہونگے، دکھ میں ساتھ نبھائینگے،
مجھ برہن کو گلے لگاکر، پریت سندیس سنائینگے،
میں تو خاک ہوں پیروں کی وہ، ساتھ مجھے لے جائینگے۔
ساتویں داستان
1
دیس سے ایسا دور نہیں ہے، تیرے یار کا محمل،
تھک کر راہ میں بیٹھ نہ جانا، ہجر کے مارے اے دل!
جس کی وندر ہے منزل،اللہ اسکو لے آ۔
2
جو بھی وندر کو جانا چاہیں، بیشک ہوں تیار،
جنہوں نے چھوڑی تیاری وہ، جائیں وہاں کس کار۔
3
یار کا دیس تو دور ہے لیکن، وہاں سے یار ہے دور،
اپنے ہوت پنہل کو پانے، چلے وہ مہجور،
وہ چلا ہے اُن کے حضور، میں جس کے کارن جیتی ہوں۔
4
خوش تھی ساجن سنگ پر شب کو، چلا گیا ساجن،
درد کے دھاگے میں وہ دلبر، پرو گیا مرا من،
اک بار پھر ہو ملن، اے موت ٹھہر تو تب تک۔
5
تھکے تھکے ہیں انگ میرے، میرا دل بھی ہے درماندہ،
من میں پیار کی زنجیریں وہ، یار ہے ڈال گیا،
ہم نے جسم اور جیئرا، یار کو سونپ دیا ہے۔
6
عمر بتائیں عشق میں اور، پوچھیں جو پنہل،
کون کمینی حسد کرے گی، ان کی پریت اٹل،
جینا یار سسپھل، جو عشق کی راہ میں جان گنوائیں۔
7
سپھل ہے تیرا جیون تونے، لی ہے یار کی راہ،
اسی کی رکھ آدھار اے سسئی! ہر پل نیر بہا،
اس کو ڈھونڈنے جا، تو پائے ہوت پنہل کو!
8
بیٹھیں تو کب پریتم پائیں، سوئیں تو کھوئیں یار،
جس نے ہجر کو سولی جانا، اُسے ملا دلدار،
دکھڑے یار ہزار، جو اپنائیں، وہ یار کو پائیں۔
9
بیٹھیں تو کب پائیں پریتم، سوئیں تو کھوئیں یار،
روتی جائیں راہوں پر جو، وہ پائیں کوہیار۔
10
تڑپ تڑپ کر ڈھونڈ رہی ہے، یار کے نقش پا،
چلی ہے من میں پریت بسا کے، ڈھونڈے گی ہرجا،
ٹکرا کر وہ دشت و جبل سے، ڈھونڈے راہِ وفا،
بھٹکے گر وہ سدا، نہیں برابر خاکِ پا کے۔
11
تڑپوں یا پھر بھٹکوں سکھیو، اپنے یار کے کارن،
درد فراق کا دے کر دیور، لے گئے میرا ساجن۔
12
تڑپ تو اس کے کارن، ڈھونڈ تو نقشِ یار،
ملے گا آخرکار، دشت میں تیرا ہوت پنہل۔
13
خود میں دیکھ آثار تو اسکے، سب سے پوچھ نہ سسئی،
مٹی کے کس ڈھیر میں سے، چھان تو دھول ابھی،
اس پر عمل کریگی تو، ملے گا تجھے خزانہ۔
14
تڑپے پر نہ آہ کرے ہے، غم میں پگھلی ہنستی،
کہے لطیف کہ نقش قدم کو، وہ ہے ڈھونڈتی پھرتی۔
15
آتشِ عشق کو ایسا بھڑکا، چھولے فلک کو شعلہ،
چھوڑ دے ساری دنیاداری، سب کچھ دے تو بِسرا،
جیون دے تو بِتا، نفی میں ہی اے سسی۔
16
کیسے خودداری سے سسئی! تو پائیگی یار،
خودداری دکھلائیگی تو ہوگا تن افگار،
خودداری کو وار، ہوت خودی سے کب ملتا ہے۔
17
ناوکِ عشق سے گھائل تھا، اس کا دل معصوم،
موت و حیات کی ساری راہیں، ہوگئیں پھر معدوم،
درد کی بادِ سموم، چلی وہ یار کو پانے۔
وائي
ساجن مہر تمام، بھٹکتی ہوں کوہساروں میں،
سنگ پیا کے جاؤں گی میں، اونٹ مہار کو تھام،
راہ کی دھول پڑی میرے مکھ پر، اڑے جو ہر اِک گام،
ہوت بنا بھنبھور میں میرا، کون ہے اور امام،
کیسے تیرا دامن چھوڑوں، من میں عشق مدام،
بندھی ہے تجھ سے سانس کی ڈوری، تو ہی دل آرام،
چلے تو پھر نہ رکے کہیں پر، کیا نہ کہیں آرام،
مجھ کو اپنی اور بلایا، ساجن مہر تمام،
پنہل بِن اب بھنبھور میں، کون میرا، کیا کام،
اُجری مانگ اور کاجل ڈھلکا، چھینا سکھ آرام،
کہے لطیف کہ ہجرِ یار کا، دُکھ ہے صبح و شام۔
آٹھویں داستان
1
بے بس، انجانی، لاوارث، یہ انجانے کوہسار،
کہے لطیف کہ یار کی خاطر، روؤں زار و قطار،
حب میں اپنے ہوت کے کارن، روئے میرا پیار،
رو رو کر میں یار رِجھاؤں، وہی تو ہے غم خوار،
بنوں میں باندی یار، سنگ مجھے لے جاؤ اگر تم۔
2
بے بس، انجانی، لاوارث، یہ راہیں انجان،
پردیسی سے پریت لگائی، مرنا تھا ہر آن،
تیرے لطف سےپار کروں یہ ، دشت و جبل ویران،
لے زادِ رہ نادان، یار کا وصل گر چاہے۔
3
بے بس، انجانی، لاوارث، میں ہوں نربل نار،
کیا کیا راہ میں خوف و خطر ہیں، تیری لی ہے سہار،
لوٹ کے آجا یار!، جان کہیں نہ راہ میں نکلے۔
4
بے بس، انجانی، لاوارث، میں کاہل ناداں،
سنگ چلے نہ اپنا کوئی، سوئے دشتِ ویراں،
اپنوں نے ہی دیر کرائی، بھٹک رہی ہوں یہاں،
ہر مشکل کر آساں، جسکی سچی پریت ہے سائیں۔
5
بے بس، انجانی، لاوارث، دکھوں نے توڑا دل،
کیسے چین سے بیٹھے گی وہ، درد فراق کی گھائل،
جلتی دھوپ میں جھلس گئی تو، دیکھا یار کا محمل،
ہوگی دور ہر مشکل اور بنیگی بن ٹھن دلہن۔
6
بے بس، انجانی، لاوارث، دل سے کر تو جتن،
تپتے دشت و جبل میں جل کر، ہو جا تو کندن،
وہموں نے تھا گھیرا مجھ کو، تھکا تھکا تھا تن،
ہوگئی جوں کندن، الفت کی راہ میں پک کر۔
7
بے بس، انجانی، لاوارث، پھر بھی لوٹ نہ آئے،
کہے لطیف کہ یار کی اور وہ، پل پل چلتی جائے،
تڑپ نیر بہائے، کیچی یار پکارے۔
8
عزرائیل نے سسی کو جب، خواب گراں سے جگایا،
جو سمجھی کہ شاید یار کا، قاصد کوئی آیا۔
9
منکر اور نکیر قبر میں، پرسش کو جب آئے،
چونک کے پوچھا کہاں ہے پنہل، اس کو سنگ نہ لائے،
کیا تم دیکھ کے آئے، کیچ کو جاتا میرے یار کو۔
10
روندے ان کے کارن پربت، بندھی ہے پریت کی ڈور،
راہوں کو گل رنگ کرے جب، تیرا تن کمزور،
کہے لطیف اُلانگ کے پربت، چل تو یار کی اور،
جت دکھلا گئے زور، جلدی تو ملے ساجن سے۔
11
مر گ و زیست کے بیچ کھڑی ہے، درد سے انگ نڈھال،
شہر بھنبھور سے کہہ نہ پائے، اپنے دل کا حال،
کہے لطیف کہ کیسے بھولے، یار کا قرب، وصال،
مہر سے آن سنبھال، کب تک تنہا ڈھونڈونگی میں۔
12
ہوت کو پوچھ نہ ہاڑے میں، تو جنگل کی لے راہ،
درد ہو تیرے سنگ تو پھر کیا، دشت بے برگ و گیاہ،
جس سے تیری چاہ، وہ تجھے ملے گا پربت میں۔
13
انگ تھکن سے چور ہیں پھر بھی، کر لے چوٹی سر،
جب جائے تو ہوت کی جانب، رہے نہ دشت کا ڈر،
صحرا سے تو گذر، تھک کر ریت میں دھنس نہ جائے۔
14
یہ راہیں، اونٹوں کے نشاں اور، دشت کے پیچ و خم،
کیا کیا جتن کیئے پانے کو، اس کے نقشِ قدم،
اے پربت! کیا تونے دیکھا، ناقوں کا دم خم،
ہوگئی جام کی محرم، تو جگ میں رتبہ پایا۔
15
کر اب پیہم کوشش، چھوڑ دے شہر بھنبھور،
دیکھ تو نقشِ پا ساجن کے، چل تو کوہ کی اور،
یار کا ٹھاؤں ٹھور، ڈھونڈنے سے پائے گی۔
16
لازم ہے کہ چلے سفر کو، تو پیاروں کی خاطر ،
تھک کر چھوڑ نہ دینا تو، اونٹوں کی راہگذر،
رھرو ہونگے رہبر، وہ یار کی راہ بتائینگے۔
وائي
ہوت سجن وہ پیارا، چلنے کو تیار سکھی ری!
سیج پلنگ سب چھوٹے مجھ سے، زہر ہے کھانا پینا،
یہیں کہیں پہ خیمہ زن ہے، میرا یار دلارا،
دکھیاروں کی جھولی بھردے، جو ہے سب سے نیارا،
یار پنہل کی باندی ہوں میں، روتی ہوں دن سارا،
نقش قدم اس یار پنہل کے ، ڈھونڈے من دکھیارا،
وہ پردیس سدھارے ساجن، جس کی پریت نے مارا،
لوٹ کے آجا ساجن پیارے، اندھوں کا تو ہی سہارا۔
نویں داستان
1
پوچھ نہ راہ کسی سے سسئی! مت بِسرا کوہیار،
جن کی نین میں پریت بسی ہو، وہ ہی پائیں یار۔
2
انجانے تھے، ڈھونڈ نہ پائے، دشت میں اپنی منزل،
جن کو رہبر مل جائے تو، کریں وہ منزل حاصل۔
3
آج بگولو! یوں نہ مٹاؤ، یار کے نقشِ پا،
صحرا میں یہ نقشِ پا ہی، میرے راہ نما،
ان کو یوں نہ مٹا، یہ ہی نقش ہیں رہبر میرے۔
4
بادِ سموم نے کل جو مٹائے، یار کے نقشِ پا،
یہ ہی تھا مقدر ڈھونڈوں، بھٹکوں، میں ہر جا،
چھانوں سب صحرا، اپنے ہوت پنہل کی خاطر۔
5
تھک کر بیٹھ نہ ناقوں کی، دیکھ تو اڑتی دھول،
ہو نہ اب مایوس اے سسئی!، چل تو خودی کو بھول۔
6
صبر سے مت بیٹھ اے سسی! ڈھونڈ نہ اب کوہسار،
خاک نہ چھان اب صحراؤں کی، بیٹھ نہ جا اے نار!
پریت کی راہ میں چلتےچلتے، خوشیاں دے تو بِسار،
دل سے ڈھونڈلے یار، تو منزل ہے دو گام۔
7
تھک کر بیٹھ گئی ہوں سائیں!، اب تو چلا نہ جائے،
کہنی کے بل رینگ رہی ہوں، تجھ سے من اٹکائے۔
8
تھک کر قدم اٹھایا تو بس، منزل تھی دو گام،
ایک ہی جست میں "پب" سے گذری، ہوگیا سفر تمام۔
9
سفر کریں سو کوس کا سب، اے نڈھال تو چل کچھ گام میں،
ہوگا سفر تمام، قدم تو تیز بڑھا دے۔
10
جانے کون سے دیس سے آیا، جگا گیا وہ بیری،
دے گیا درد کا پروانہ وہ، بری تھی قسمت میری۔
11
مشکل میں دن بیت رہے ہیں، اُجڑا ہار سنگھار،
بھٹکتے صحراؤں میں ٹوٹا، میرا دل ہر بار،
کہے لطیف کہ یار کی خاطر، مروں گی آخرکار،
سفر ہے کب دشوار، گر دردِ یار ہو رہبر۔
12
سب کو چھوڑ کے تنہا ہی میں، بھٹکوں گی کوہسار،
کروں گی یا سے دِل کی باتیں، وہی میرا غم خوار،
دِل سے دھوکر داغِ فرقت، ڈھونڈوں میں کوہیار،
تیرا درد اے یار! ہوا ہے راہ میں رہبر۔
13
ڈھونڈوں یار پنہل کو، تنہا اب کی بار،
تیز نُکیلے پتھر ہیں اور، دشت بھی ہے دشوار،
میں انجان ہو یار، تیرا درد بنا ہے رہبر۔
14
دل کی آنکھ سے ساجن دیکھا، اب کیسا آرام،
بھٹکے گی وہ دشت و جبل میں، گھائل جسم تمام،
پایا بلند مقام، عشق یار کی دولت سے۔
وائي
پہنچونگی میں پاس، دیکھن کارن دلبر کو،
اب تو لوٹ کے آجا ساجن، صحرا، خوف، ہراس،
میں باندی ہو اس ساجن کی، جس کی من میں آس،
پیاسی دھرتی جیسا تن ہے، یار بجھا جا پیاس،
اِس کی جھوٹی پریت سکھی! جو، جائے نہ پی کے پاس۔
دسویں داستان
1
دور نہ جا اب آجا ساجن! ڈھونڈ رہی ہوں راہیں،
کرتی ہوں فریاد میں سائیں، اٹھا اٹھا کر بانہیں،
آنسو اور یہ آہیں، اب ماریں گے اک دن۔
2
مجھ سے دور نہ جا، آجا پاس اے ساجن،
پھر بھی لوٹ نہ آئیگی گر، تھک بھی گئی یہ برہن،
مریگی دکھیارن، بن تیرے درشن اے سائیں۔
3
دور نہ جا اب پاس آجا تو، اے میرے ساجن،
اس کو آن کے زندہ کردے، مرتی ہے جو برہن،
چھوڑ نہ تو دکھیارن، جو پیادہ دشت میں بھٹک رہی ہے۔
4
دور نہ جا اب آجا ساجن، دردِ ہجر نہ دے،
عشق تو ہے نہنگ کہ، جسکو پاس ہو چھوڑ گئے۔
5
دور نہ جا اب آجا ساجن! دردِ ہجر نہ دے،
انگنا آکر پوچھے گر تو، موت مجھے نہ آئے۔
6
مجھ برہن کو بھول نہ جانا، ساجن تم اللہ،
تجھ کو یاد ہوں کوئی اور ہے دل میں درد اتھاہ۔
7
مجھ برہن کو بھول نا جانا، صبر نہیں پل بھر،
تیری راہیں تکتی ہوں تو، آنگن پیر تو دھر۔
8
کبھی نہیں میں بھولوں ساجن، کرنا شکر ادا،
تیری پریت میں ساجن سائیں، سب کچھ ہے بِسرا۔
9
کرونگی کیا میں سکھیو!، کر کے شکر ادا،
وہ آئے اب آنگن جس پر، میری جان فدا۔
10
صبر و شکر کا میں، ہوں دامن تھام کے بیٹھی،
دکھلا دے تو صورت ساجن، آکر پاس کبھی۔
11
صبر و شکر کا میں نے سکھیو! لیا ہے اب سہارا،
حال تو پوچھ لے اس برہن کا، آکر تو کوہیارا۔
12
ہوت بنا اس بیکل دل کو، ذرا نہیں آرام،
جس نے پریت کی ریت سکھائی، ملے وہ دل آرام۔
13
دل کو اب آرام نہیں ہے، کہاں ہے ہوت پنہل،
اس نے پریت سکھائی جو ہے، من بھاتا سہنل۔
14
دل کو اب آرام نہیں ہے، بعد تیرے اے یار،
پریت کی ریت سکھائی جس نے، ہے میرا وہ دلدار۔
وائي
دل ہے پل پل بیکل، تجھ بن میرے ساجن!
تیرے اونٹ چراؤنگی میں، گھوم کے صحرا جنگل،
اپنی جان تو وارونگی میں، کارن ہوت پنہل،
ماس چُنیںگے کاگا، اب تو، پریت میں ہوں پاگل،
اپنے دل کا حال سناؤں، مل جائے وہ سہنل،
کہے لطیف کہ آکر میرا، پوچھے گا وہ پنہل۔
گیارہویں داستان
1
آج سراپا گوش تو بن جا، کرتیں ہیں وہ بات،
خاموشی میں پرکھ سکے گا، ان کی یار صفات،
رہے تو ان کے ساتھ، تو سوزِ عشق جگائیں۔
2
سوزِ عشق ہو حاصل اب وہ، کہتے ہیں "آجا"،
اور نہ کچھ وہ کہنا سیکھے! کہیں گے خود کو بھلا،
رہ خاموش ذرا، سن تو دور ہو دوئی۔
3
سن باتیں تو دور ہو دوئی، خودی نہ ان کا بھائے،
دل سے باتیں سن پائے جو، مہر بلب یاں آئے۔
4
یار سراپا گوش تو بن اور، ہوجا مہر بلب،
خودداری و خود بینی پھر، رہے گی تجھ میں کب،
یہ ہی ان کو ڈھب، کہ ختم کریں خودداری کو۔
5
کبھی سراپا گوش کبھی ہو، لب پہ تیرے گفتار،
کبھی کٹاری بن کر اپنی، خودی پہ کر تو وار۔
6
اِن کی محفل میں خنجر ہیں، اور ہے قتلِ عام،
یار کی دید قصاص ہے سائیں! مرے ہیں جو راہ میں۔
7
کاٹ لے انکی شاخیں اے جٹ، جتنی ہیں درکار،
اور طرح کے پیڑ ملیں گے، وہاں پہ تجھ کو یار!
8
دھول اًٹی یہ آنکھیں کیسے، ڈھونڈیں نقشِ قدم،
دھول آنکھوں سے دھوئے میری، کون ایسا ہمدم؟
9
آنکھیں آری جام کی ہیں اب، مجھ اندھی کے ساتھ،
ان آنکھوں سے دیکھوں گی میں، وندر کے پیڑ اور پات۔
10
آنکھیں آری جام کی ہیں اب، مجھ اندھی کے سنگ،
آنکھوں کے یہ ڈھنگ، یار کی پیشانی دکھلائیں۔
11
سچے دل سے صدائیں دے اور، سچے دل سے چل،
سچی آگ میں جل، اور دل سے بہا تو آنسو۔
وائي
میرے درد کے درماں، لوٹ کے آجا ساجن پیارے!
مان لو سکھیو! پریت کا، درد ہے بیحد پنہاں،
بابل کا گھر چھوٹا مجھ سے، اب میں جاؤں کہاں،
سکھ روٹھے اب دکھ ہی دکھ ہے، درد ہی اب درماں،
شہر بھنبھور کے لوگ سکھی ری! بنائیں کیا کیا بتیاں،
کہے لطیف کوی اے سکھیو! تن من دھواں دھواں۔
ابیات متفرقہ
1
جگا کے پریت کا درد سکھی! اب، کہاں گیا کوہیار،
من میں ایسا عشق جگایا، جینا ہے دشوار،
پل بھر نہیں قرار، میں پل بھی سو نہیں پائی۔
وائي
سمجھی منزل پائی دیکھے، وندر کے جب اشجار،
جن کو اک دو گام تو سمجھی، دور ہیں وہ کوہسار،
میل نہ تھا گر من میں پھر کیوں، آئے وہ کوہیار،
یہ ہی سوچ کے آئے تھے کہ، دیں برہن کو مار،
پریت کے مارے بسیں واں جاکر، جہاں پہ ہیں کوہسار،
وندر بن میں بھید چھپا ہے، بتلائیں کب یار،
جتوں نے ڈالی ناقوں کو میں، موتی جڑی مہار،
کہے لطیف کہ اونٹ جھکائے، اونچے جاں کوہسار۔
2
انگ تھکن سے چور ہیں میرے، دکھے ہے جسم تمام،
ایسا یار نے درد دیا ہے، پل بھر نہیں آرام،
مانگوں دکھ آلام، جن سے دنیا بھاگے۔
3
صدا لگا کر مانگا تجھ سے، دردِ دل، کوہیار!
دھوکر نجس کو اجلا کردے، درد وہ دے اے یار!
4
پختہ سر ہوئی ہے اب تو، بھیس بکھارن اپنا،
کہے لطیف کہ لاج کو تج کر، گھوم تو صحرا صحرا،
آکر ہوت ملیگا، تجھ کو گھومتے صحرا میں۔
5
صدا سنی جو سسی نے ہم سمجھیں نیند کی لوری،
چلے نہ کوئی بنا بلائے، راہ کٹھن ہے گوری!
6
دیکھو کہ اغیار، دے گئے درد سسی کو،
اپنا بھی آزار، ڈال گئے اس برہن پر۔
7
یہ نہیں ایسی نار جو جھجھکے، دیکھ کے پربت ویراں،
"کھاہوڑی" کی صورت وہ تو، بھٹکے دشت و بیاباں۔
8
بیٹھ پل بھی نہ سکھ سے، ڈھونڈ ے دھوپ کڑی،
توئے ان سے رشتہ جوڑا جو پردیس کے باسی،
بھٹک اب گلی گلی، اور پوچھ تو اپنے پریتم کا۔
9
شہر بھنبھور میں کون ہے میرا، شہر ہوا انجان،
بدظن دیور چھوڑینگے کب، اس کا تھا امکان،
کہے لطیف کہ راہ دکھا دے، پربت ہیں ویران،
نکلیگی اب جان، مجھ کو چھوڑ نہ جا اے کامل!
10
گھیر گئے بیچاری کو، کیا کیا وہم و گمان،
چھوڑ نہ دینا مجھ ادنیٰ کو، اعلیٰ تیری شان،
توڑ کے اب تو سارے بندھن، دل سے چل ہر آن،
یہ راہیں ویراں، کریں گی تجھ کو کندن۔
وائي
سنگ سجن کے برہن، کریگی من کی باتیں سکھیو!
تڑپ کے آئی دوار پہ تیرے، باندھا پریت کا بندھن،
بھٹک بھٹک راہوں میں اب، دے گی جان یہ برہن،
دشت نے خودداری بسرائی، رہا نہ زعم اے ساجن!
چھن جائے نہ پریت کی دولت، یہ ہے بچاری نردھن،
نیارے کردے بھاگ اے سائیں، جاؤں میں یار کے آنگن۔
وائي
مجھے نہ کوئی روکے، میں جاؤں گی پیا کے پاس،
شہر بھنبھور کے بندھن توڑوں، شہر نہ آیا راس،
درشن کارن جتن کرے اور، جائے پیا کے پاس،
کون ہے شہر بھنبھور میں میرا، درد کی لی میراث،
مت پُھسلا کر روکو سکھیو! من میں ملن کی پیاس،
پیا ملن کو جاؤں گی میں، تھام کے اونٹ کراس،
مجھے نہ روکو جاؤں گی میں یار سجن کے پاس،
کہے لطیف کہ ہوت ملا ہے، پوری ہوگئی آس۔
وائي
ہانک کے مت لے جاؤ، ناقوں کو تم یار،
برہن عرض کرے ہے!
چلنے کی تیاری کرکے، مجھے نہ لاج دلاؤ،
اس برہن کا توہی سہارا، مجھ کو چھوڑ نہ جاؤ،
آن کے میرے آنگن میں تم، اپنے اونٹ جھکاؤ،
مجھ نادار کی شادی میں تم، شہنائی بجواؤ،
اللہ اپنے درشن سے اب، مجھے نہ تم ترساؤ،
شہر بھنبھور میں رہ جاؤ اور، صورت یار دکھاؤ،
ہم بھی حال سنائیں دل کا، تم بھی حال سناؤ،
روکو میرے ہوت پنہل کو، دولہا اسے بناؤ،
باراتی ہیں ہوت پنہل کے، کھانا خوب کھلاؤ،
سہرا باندھ کے آیا ہے وہ، دلہنیا کو لاؤ،
سکھیو ری، اسے دلہن بناکر، سیج پہ آن بٹھاؤ،
کہے لطیف کہ سارے مل کر، گُن ساجن کے گاؤ۔
وائي
بتلا کیچ کےقاصد! پوچھتی ہوں میں تجھ سے،
کیسے دیکھوں شہر یار!
میں نہ محل دو محلوں والی، انجانے کوہسار،
باندی بنوں گی تیری ساجن، تج کر ہار سنگھار،
بھانبھن گھر کی ناری ہوں میں، پڑھیں جو ورق ہزار،
رات ہوئی تو چھوڑ گیا اب، ڈھونڈوں وہ دلدار،
آدھی رات کو لاد گئے تو، ڈھونڈ اب اے نار!
چلی ہے اب تو ان کو پانے، گئے وہ رات سدھار،
یہیں کہیں سے گذرے ہوں گے، بھٹکوں جن کے کار،
چل تو ہوت پنہل کی جانب، اپنا آپ نکھار،
آگ میں جھونک دے چرخہ چل تو، بن کر اعلیٰ نار،
ساتھی کب کے لاد گئے ہیں، تو پوچھے اب کوہیار،
جنگل بن میں نیر بہاؤں، کیوں ہوں میں یاں یار!
وائي
کیسا رشتا ناتا، میرا ہوت بلوچوں سے،
تنہا ہوں میں حب میں، کون یہاں ہے میرا،
تنہائی اور دور سفر ہے، پاس نہیں ہے ناقہ،
مشکل راہیں پربت کی ہیں، اور نہیں ہے رستہ،
پب میں یار کا پوچھونگی میں، کرونگی آہ و بکا،
تیرے لعابِ دہن سے مہکے، برہن کا یہ سراپا،
دور نہ ہو نظروں سے یا رب! ہائے یار کسی کا،
وصل ہو اس کا ہر دم حاصل، ہجر نہ ہوئے خدایا!
پھر پوچھونگی عقل کی باتیں، آگ میں جھونک کے چرخہ۔
وائي
کوئی پیامی آئے، شاید یار پنہل کا،
آدھی رات کو اُٹھ کر برہن، پربت ڈھونڈنے جائے،
جیسے ساون بدرا برسے، پل پل نیر بہائے۔
وائي
دینا دعائیں سکھیو جب تم، کاتو اُجلے تار اے!
سب نے باندھا رخت سفر اور، چلنے کو تیار،
دیکھ مسافر خانہ ہے جگ، سارے گئے سدھار،
یاد کرینگے صلوات کو جب، قبر کا اندھکار،
پوچھنے آئینگے ملائک، کہیں گے ہم کباچار،
ناقص پر بھی نور کی بارش، ہوگی آخرکار،
ایک خدا اور احمد برحق، کروں میں یہ گفتار۔
وائي
کبھی نہ لب پر لاؤں گی میں، اپنے پی کی شکایت،
تعلق سے تو لوٹ نہ آیا، لوٹیں کروں میں منت،
کون پیا سے لاڈ کرے گی، کس کی ہے یہ ہمت،
کوئی نہ خالی دامن جائے، تو ہے صاحبِ رحمت،
کیا کیا منگتے دوار پہ آئے، سب نے پائی دولت۔
وائي
چھپی تھی کوئی بات، میرے یار کے من میں،
جو جان گیا جگ سارا،
پریت سے جگ میں شہرت پائی، چل تو یار کی باٹ،
وہ ہے راہ میں مری نہیں ہے، کب مار سکیں آفات،
یار کی راہ میں چلتے چلتے، کبھی نہ کھائی مات،
کیا وہ تھک کر بیٹھ گئی تھی، قاصد! بتلا بات۔
سُر معذوری
پہلی داستان
1
وہ ہی راہ میں تھک کر بیٹھیں، جن کی پریت ہو خام،
پتھر کو بھی ریشم جانیں، جن کو درد مدام،
سکھیاں پریت نہ کرنا جانیں، لیں کیوں پریت کا نام،
زخمی جسم تمام، نوچینگے سگ کوچہء یار کے۔
2
کوچہء یار کے سگ نوچیں گر، سسی! تیرا ماس،
سمجھ کہ تونے عزت پائی، پریت آئی ہے راس۔
3
پالے ہیں جو ہوت پنہل نے، گر وہ سگ غّرائیں،
جان کہ مر کر یار ملے گا، ہوں گی دور بلائیں۔
4
کوچہء یار کا سگ لپکا تو، چونک اُٹھی وہ نار،
جسم سمیٹ کے جب وہ لپکا، آنکھیں تھیں انگار،
سگ یہ وفا شعار، میرا سب غم ختم کریگا۔
5
ہم ہیں کہاں شکاری اے سگ! اور کہاں ہم چور،
ہم کو کیوں دہلاتا ہے تو، مچا مچا کے شور۔
6
کہے تو کوچہء یار کا کتا، ہم پسن و فا شعار،
پہلے بھونکیں پھر پوچھیں، اپنے اور اغیار۔
7
بھنگی سے مت قتل تو کروا، خود ہی قتل تُو کردے،
ہوگا کب برداشت یہ مجھ سے، مجھ کو وہ چھولے۔
8
کُتا ہے مردار کا طالب، ہم کتے کے کیڑے،
کان میں چھٹا ہے وہ کیڑا، جو کچھ بھی نہ چھوڑے۔
9
کتا ہڈیاں کھاتا ہے اور جوان مرد جگر کٹائے،
اَلدُنیا جِیفتہُ وَطالِبُھا کِلابُ، رکھ تو یاد اسے۔
10
سونگھ کے نقش پا پہچانیں، وہ مالک کا یار،
حکم اسی کا مانیں جو ہے، ان کا پالنہار،
بھولے سے بھی یارً!، ان پر وہ نہ بھونکیں۔
11
حکمِ مالک سے ہی لپکیں، سگانِ کوچہء یار،
دیکھ تو کیسے اعلیٰ سگ ہیں، کیسے وفا شعار،
اِن کو مت دھتکار، اِن کو مالک اکساتا ہے۔
12
بے شک حملہ آور ہوں اِس، دشت کے وحشی حیواں،
میرا کیا یہ کرلیں گے میرا، ہوت پنہل ہے نگہباں،
سب کو ہے معلوم کہ مجھ پر، یار کا سایہ داماں،
حملہ کرتے حیواں، گر قربِ یار نہ حاصل ہوتا۔
13
جن کی نسبت سے اس جا پر، ہوگئی مشکل آساں،
اسکا دامن تھام کے میں نے، پار کیئے ہیں بیاباں،
ایسوں کا سب ادب کریں گے، کیچ کے لوگ وہاں،
میں کم ذات تھی حیراں، میری نسبت ہے تجھ آقا سے۔
14
تیرے نام کی نسبت سے میرا، جگ میں ہوا ہے نام،
یوں تو بانبھن ذات تھی میری، لیکن تھی گمنام،
ہوا ہے سندھ میں نام، تیرے نام سے ہی اے سائیں!
وائي
پی کی مدحت، مدح کی ریت لطیف نہ جانے،
مدحت مجھ سے ہو نہ پائے، یہ مدد بھی اس کی صفت،
پڑھ پڑھ جھوموں، جھوم جھوم لوں، میں درسِ اُلفت،
حزن ہوت پنہل کا سکھیو! راحت ہی راحت۔
ہجرِ یار سے من پاتا ہے، اًنجانی فرحت۔
دوسری داستان
1
دکھیاروں کا غصہ کیا اور، بھوکے کیا مسکائیں،
جنکے انگ ہوں عریاں کیسے، اپنا بیاہ رچائیں۔
2
وہ عریانی اچھی جس سے، بھولیں بیاہ سنگھار،
عریاں ہوکر آؤ سب کہ، رہے نہ نیند خُمار۔
3
عریاں ہوکر آؤ سب اور، بھولو حرص و ہوا،
نین میں ہو نیند تو پھر کب، ملتا ہے وہ پیارا۔
4
عریاں ہوکر آؤ سب اور، چھوڑ دو ملبوسات،
وہ ہی یار کو پائے گی جو، کچھ نہ لے گی ساتھ۔
5
جس نے کچھ نہ ساتھ لیا بس، اس نے پایا یار،
بن ٹھن کر جو بیٹھ گئی وہ، پائے کب دلدار۔
6
اس کو کیسے وصل ہو حاصل، کرے جو ہار سنگھار،
اس کا حشر ہو "لیلا" جیسا، جس کو ہار سے پیار۔
7
ہونے کے اسباب سے سکھیو! دور ہے سہنا یار،
کچھ بھی اپنے سنگ نہ لیں جو، وہ پائیں دلدار۔
8
اپنے نفس پہ خنجر "لا" سے، کر تو وار پہ وار،
کوئی رہے نہ خواہش باقی، اپنا آپ بِسار،
سنبھل کے چل اے ناری! تو آساں ہو پھر چلنا۔
9
بوجھ بنا "ہاڑے" سے گذریں، تنہا ہو تیار،
جن کے سنگ ہونا کبھی وہ، پائیں نہ اپنا یار۔
10
بوجھ بنا ہاڑے سے گذریں، بھول جا ہار سگنھار،
کچھ بھی سنگ نہ لے تو اپنے "لا" سے ملیگا یار۔
11
بوجھ بنا ہاڑے سے گذریں، دوجی اپنے گاؤں،
نفی کو لیں جو سنگ تو ان کو، بلائیں لیکن ناؤں۔
12
بوجھ بنا ہاڑے سے گذریں، دوجی رینگتی آئیں،
پربت سے وہ محروم ہیں دکھ میں، جیون یار بِتائیں۔
13
کہیں نہیں آرام اسے جو، بھاری بھرکم نار،
پیچھے رہ گئی دھن والی اور، نردھن پائے یار۔
وائي
سجنی! چل ہر حال، یار ملے گا توہے،
ساجن کارن پیروں کو کیا مہندی سے تھا لال،
دشت میں یہ پیر ہوئے ہیں، آج لہو سے لال،
اپنے ان جتوں سے سسئی، چاہے گر تو وصال،
تو ڈھونڈ تو پب کی راہوں میں، ملیگا جو ہ حبال،
قافلہ آیا کیچ سے لایا، لاد کے اونٹ پہ مال،
بُو آئیگی ناقوں کی تو "پبُ" کی راہ سنبھال،
آڑے تیکھے، ترچھے پربت، چڑھنا جن پہ محال،
پیادہ رؤں کا پوچھے گا، ساجن سب احوال،
کہے لطیف ک اک دن ہوگا، اپنے پی کا وصال۔
تیسری داستان
1
ہاڑے اور چلی جب میں تو، کوسوں تھے کوہسار،
کیا کیا راہ میں دکھڑے جھیلے، سنگ نہ تھا کوہیار،
پربت روند کے میں نے ڈھونڈی، ہر اک راہ گذار،
یہ بھی اپنی قسمت ہے کہ،تیری راہ لی یار،
تیری ہے آدھار، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
2
کانپ اُٹھی وہ راہوں میں جب، یاد کیے اعمال،
ہانک کے لے گئے اونٹوں کو ، میں پیادہ پا نڈھال،
کہے لطیف کہ بن ناقے کے، جانا وہاں محال،
آگے دشت وبال، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
3
ہاڑے اور چلی ہوں اب تو، راہ میں دوں گی جان،
کہے لطیف کہ انگ تھکے اور، ہوگئی میں ہلکان،
کرے گا مہر سُبحان، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
4
ہاڑے اور چلی ہوں سائیں! راہ میں بھٹک نہ جاؤں،
چل چل کر ان سنگ ریزوں پر، چھلنی میرے پاؤں،
یار کا درشن پاؤں، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
5
چلے گئے وہ محرم کس سے، کہوں میں حالِ دل،
کہے لطیف کہ لاج کی ماری، دشت میں ہے گھائل،
کس قاصد سے پوچھوں منزل، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
6
سمیٹ لو اپنا سایہ تم اے پربت اور اشجار،
نیناں! روکوں آنسوں تو میں، دیکھوں نقشِ یار۔
7
دکھیارن کو راہ سجھاؤ، پربت کے اشجار!
تو بھی میری یہ بات سن لے شجر، اے میرے یار!
روندوں یہ کوہسار، تو شاید نکلے راہ ملن کی۔
8
دکھیاروں کو راہ سجھاؤ، راہوں کے اشجار!
یوں مت مجھ کو بھٹکاؤ تم، راہیں ہیں دشوار،
مجھ دکھیا کو دکھاؤ تم، سیدھی راہ گذار،
ملوا دو وہ یار، جُھلس نہ جاؤ آہوں سے۔
9
دکھیاروں کو راہ سجھاؤ، راہوں کے اشجار!،
آئیگا الزام کہ راہ میں، بھٹکا دی یہ نار،
اُترے بیراگن کے تن میں، دہشت کے سنگ و خار،
پیڑ یہ کانٹے دار، کرتی ہوں فریاد میں ان کی۔
10
لاکھ چبھیں راہوں میں کانٹے، اور نُکلیے خار،
پیر ہیں سارے زخمی سنگریزوں کا ہے آزار،
اُس ساجن کے کار، میں پنہوں نہ پاپوش۔
11
جن کو پیر ہوں پیارے وہ ہی، پہنینگی پاپوش،
چھوڑ دی ہر رسم سسی نے، رہا نہ اپنا ہوش۔
وائي
سکھیو تیر چھبا ہے، من میں یار سجن کا،
چبھن سے جینا مشکل ہے، پر چبھن یہ من کو بھائے،
تھامی اونٹ مہاریں جس دم، ڈھلے تھے شام کے سائے،
سج کر سیج پلنگ پر سوئی، صبح کو دکھڑے پائے،
رہ میں سنی آواز پنہل کی، وہ ہی راہ دکھائے،
یار کے کارن بھٹکوں تو دل، عجب سرور سا پائے،
"گنجے" پاس پہنچ کر میں نے، دعا کو ہاتھ اٹھائے،
سوئی تھی میں دشت میں ساجن، میری خبر کو آئے،
ناقوں کی آواز کی گونجیں، مجھ کو دشت سنائے،
شاید راہ میں تھام لے آکر، کرم وہ یوں فرمائے،
جس کے کارن بن بن بھٹکی، ملن کو شاید آئے،
میا! ساجن انگنا آئے، من میرا مسکائے۔
چوتھی داستان
1
مر کر جی، تو پائے گی تو، یار کا حسن و جمال
ہوگا تبھی وصال، یہ بات لگا لے دل سے۔
2
موت سے پہلے مرجائے تو، حسن پہ آئے نکھار،
جب تک جان میں جان ہے تب تک، چل تو سُوئے یار،
منالے وہ کوہیار، تو ملے تو ملک الموت سے۔
3
موت سے آئے نکھار اے سسی، ہستی تو ہے حجاب،
ہمت کر تو کھلے گا آخر، موت سے وصل کا باب۔
4
مر کر حاصل کر سندرتا، وصل میں کر نہ دیر،
رکھ نہ کوئی وہم و گمان اور، دل میں لا مت پھیر،
پائے نہ یار کا پیر، رینگتے رہنے میں راحت ہے۔
5
مر کر حاصل کر سندرتا، جینے سے کیا حاصل،
مر کر ہی پائیگی سسی، یار کے وصل کی منزل۔
6
موت سے پہلے ہی مر جا اب، جینے سے کیا حاصل،
راہ میں جاں سے گذر گئے جو، ان میں ہوجا شامل۔
7
مرے جو موت سے پہلے انکی، مر کر ہوئی نہ مات،
ہونگے وہ تو حیات، جیئے جیات سے پہلے۔
8
زندہ تھے جو حیات سے پہلے، سدا رہیں وہ حیات،
مرے جو موت سےپہلے، انہیں ہے کب پھر سے مرنا۔
9
دل میں ہوس ہو جینے کی تو، اونچا بہت جبل،
موت! میرے سنگ چل، تو چلوں میں تیرے پیچھے۔
10
سب سے تیرا ناتہ ہے اور، ہوجا دور حیات،
موت! چلوں میں سنگ تیرے اور، لوں میں تیری باٹ۔
11
عقل آئی جب سسی کو تو، موت نے کیا بیکار،
سسی تیری ایسی روش سے تیرا، لجایا کوہیار۔
12
یار سے پریت لگائی پر نہ، سیکھا پریت میں مرنا،
"موتوا" کی رمز نہ جانی، پھر کیا سر کٹواتا۔
وائي
دی کب اونٹوں نے آواز، میرا ساجن واپس لاؤ،
کام وہ کرنے کو کوئی اچھا ملے موہے اعزاز،
مہندی پھوٹی، اونٹ چرواؤں، سن لے عرض نیاز۔
پانچویں داستان
1
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں کے بل، پیار بھرا ہو دل،
اپنے آری جام پنہل سے، تیرا عشق ہو کامل،
جیون بھر اے غافل! "جام" سا اور نہ جان۔
2
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں سے اور، چل تو سر کے بل،
ہر حالت میں رہے اے سسی!، تیری پریت اٹل،
یار کی پریت ہی بنے سہارا، ملن کو من بیکل،
دیکھے لاکھ پنہل، پر جام سا اور نہ جان۔
3
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں سے، چل، پیشانی کے بل،
اور نہیں کوئی وسیلہ، درمیاں کوہیارل،
اس سا کوئی سہنل، کسی کو تو مت جان۔
4
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں کے بل، پرکھ کے رکھ تُو قدم،
تیز ترک تُو قدم بڑھا اور، چل نہ یوں تھم تھم،
لاکھ بھی ہوں ہمدم، جام سا اور نہ جان۔
5
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں کے بل، ہر سانس سے چل نادان،
تجھ سے ہوت ملے گا "حب" میں، رہبر ہے جو مہان،
جام سا اور نہ جان، جان میں جان ہے جب تک۔
6
وہ تو سُوئے یار رواں ہے، کوئی بھی ہو موسم!
پہنچی جب "ونکار" میں سسی، رہا نہ تب دم خم،
پوچھا ہر اک پنچھی سے کہ، کہاں ہے وہ بالم،
سب نے اس کو راہ بتائی، جہاں تھا وہ پریتم،
من جائے ہمدم، اور شاید لوٹ کے آئے۔
7
چاہے تیز تو چال چلے اور، چاہے چلے تھم تھم،
وہ ہی ہوکر رہے گا آخر، لوح پہ ہے جو رقم۔
8
وہ ہی ہوکر رہے گا آخر، جو تیرا مقدور،
جو بھی پریتم نے لکھا ہے وہ، پورا ہوگا ضرور۔
9
جتنے قسمت میں لکھے ہیں، بِتائینگے اتنے پل،
وہیں بتانے ہیں سب پل، آج یا پھر کل۔
10
جھلس کے راکھ ہوئی تھی رہ میں، اس کیچی کے کارن،
چھوڑ کے سارے حیلے، دشت کو، چلی وہ دکھیارن،
تھی تو نربل برہن، پھر بھی دشت کے کشٹ اُٹھائے۔
11
جان کے کشٹ اُٹھائے، بھٹکی وہ رنجور،
جُھلس کے راکھ ہوئی تھی رہ میں، انگ تھکن سے چور،
یہ ہی تھا مقدور، کہ وہ بھٹکے دشت و جبل میں۔
12
سفر نہیں یہ عام، آواز سنی نہیں جاتی،
کریگی گر فریاد کہیں گے تار ہوئی ہے پگلی۔
13
کہیں وہ بیشک پگلی مجھ کو، سنیں تو میری پکار،
بیشک آکر مہنے دیں، سارے ہی اغیار۔
14
طعنے دینگے لوگ اگر، مجھ کو کیا پروا،
جوشِ محبت میں جان دیگی، دیکھے نقشِ پیا۔
وائي
تھک کر بیٹھ نہ جا، ڈھونڈنے سے یار ملے گا،
جگ کی باتوں پر اے سسئی!، تو نہ کان لگا،
بات وہ ہی انمول ہے سجنی! کر گئے ہیں جو پیا،
ریشم سے تھے پائے نازک، تپتا تھا صحرا،
دیکھ تو معذوروں کی جانب، کرم تو فرما،
جتوں نے بات کہی، اس نے مار دیا،
وندر کی رہ میں کاندھا دینگے، میت کو وہ پیا۔
چھٹی داستان
1
لاکھ مجھے دیدار سے روکیں، دیکھوں روئے یار،
جب تک دیکھ نہ پاؤں سجن کو، تب تک کہاں قرار،
بھول گئی وہ وعدہ فردا، اب مانگو دیدار،
کل تک کہاں قرار، ہجر و وصل ہے تیرے ہاتھ میں۔
2
بھول گئی میں وعدہ فراد، اب مانگو دیدار،
یوں مت ترسا برہن کو اب، درد دکھاجا یار،
یا تو جان سے مار، یا پھر وصل ہو سائیں!
3
وصل یار ہو حاصل یا پھر، ہوجاؤں نابود،
آج جو میرے آنگن آئے، کروں میں یار سجود،
مٹ جائے یہ وجود، یا پھر درس دکھاجا۔
4
وصلِ یار ہو حاصل یا پھر، آجائے اب موت،
میرا پنہل ہوت، اک بار دکھا دے سائیں۔
5
آدھی کچی آدھی پکی، جلی ہے پریت میں تیری،
ایسی آگ جلا کہ جل کر، بنوں میں راکھ کی ڈھیری۔
6
بھول جا ہار سنگھار اے سسی! تج دے سیج سہاگ،
چھان لے دشت کی خاک، تو ملینگے یار کے نقشِ پا۔
7
جا تو دشت کی جانب اپنے، دکھڑے سمیٹ کے سارے،
دینگے ساری خبریں تجھ کو، دشت کے رہنے والے۔
8
سر پر دھر کر ہاتھ وہ ہر دن، بھٹکے ہے دکھیاری،
ایسی کب وہ جلی کہ جل کر، پھر سے وہ جی جاتی۔
9
ہار سنگھار سے آگے ہے، منزل وصل یار،
باندی بن اور ذرا نہ ڈر تُو، دیکھ کے یہ کوہسار،
پل بھر کا دیدار، غیر کے قرب مدام سے بہتر۔
10
ہوت پنہل کا درشن ہی ہے، تیرا ہار سنگھار،
غیر کے قربِ مدام سے افضل، پل بھر کا دیدار۔
11
کب رُکتا ہے وقت ہے اسسی! تیز بڑھا تو قدم،
دشت میں مرجا یار کی خاطر، راہ کے سہہ تو ستم،
منزل سب کی عدم، کر تو یار پہ جان فدا۔
12
وسعت دشت میں گونج اُٹھی ہے دُکھیا کی فریاد،
چاک ہو کوہ کا سینہ ایسے، رویا دل ناشاد،
ذی روح سب روتے ہیں ہر سو، یار پنہل کے بعد،
ہجر میں جو برباد، یہ ان کی آہ و بکا ہے۔
13
دیکھ کہ دشت میں روتے ہیں سب، اس دکھیا کے کارن،
اس کی موت پہ گریاں ہیں اب، دشت کے دیکھ ہرن،
"مار گئی دکھیارن"، یہ ہی کہتے ہیں اب سارے۔
14
دشت میں گونج رہی دکھیا کی، سن تو آہ و بکا،
تیر نظر سے مار کے اس کو، پھر وہ بچھڑ گیا،
جو پی سے قتل ہوا، وہ پی کی آغوش میں ہے۔
15
دیکھ کے اس دکھیا کو روئے، پر بت اور اشجار،
اپنی آہ و بکا سے سب کو، مار گئی ہے نار۔
16
وہ بھی ہوگئے گھائل جن میں، نہیں تھی جان ذرہ،
جس نے دیکھا دکھیارن کو، موت کی مانگی دعا۔
17
ایسے رو کر دیتی تھی وہ، قاصد کو پیغام،
سن کر اس کی باتیں قاصد، روتے تھے ہر گام۔
18
آری سے جوں پیڑ کو کاٹیں، درد کی تھی یوں کاٹ،
یار کا درد سہارا تھا اور، مشکل تھی ہر باٹ،
اس کے دکھ آفات، دیکھ کے روتے تھے رہرو۔
19
نالہء نے کی مانند وہ بھی، کرتی تھی فریاد،
نے کی صورت اپنے شجر کو، کرتی تھی وہ یاد۔
20
ہر موسم ہے قحط کا موسم، ساجن میگھ ملہار،
تو آئے تو انگنا آئے، ملن کا موسم یار۔
21
تیرے پاس ہے قحط کا موسم تیرا، ساجن میگھ ملہار،
لائے وہ سنگ بہار، بختاور ہے بلوچ بالک۔
وائي
لالن آ دفنا، لاش میری پربت میں،
مہکا مہکا ساجن پیارا، میلا تن میرا،
جہاں جہاں سے گذرا ساجن، مہک گئی وہ جا،
کامل سائیں! تو ہی آکر، میرا روگ مٹا،
آریانی اے یار پنہل تو، پل بھر یہاں بتا،
کہے لطیف کہ پربت میں تو، سر کا کر سودا۔
ساتویں داستان
1
اب تک یار سے مل نہیں پائی، بیت گئے کئی دن،
عبث وہ بیتی راتیں اور جو، دن بیتے گِن گِن۔
2
اب تک یار سے مل نہیں پائی، گذرے کئی ایام،
یار کو دیکھوں پھر ڈھل جائے، یہ جیون کی شام۔
3
اب تک یار سے مل نہیں پائی، اے سورج مت ڈھل،
ساجن سے سب کہنا تو یہ، کہے جو من بیکل،
کہنا ہوت پنہل! میں مری ہوں دشت کے ویرانوں میں۔
4
اب تک یار سے مل نہیں پائی، نکل رہی ہے جان،
جان بلب ہوں پھر بھی تیرے، ملن کا ہے ارمان،
نکلیں تب یہ پران، جب دیکھوں ہوت پنہل کو۔
5
اب تک یار سے مل نہیں پائی، بیتی عمر تمام،
بیٹھے بیٹھے وقت گنوایا، ہجر کے ہیں آلام،
ہوگئی عمر کی شام، یار کی اور جمی ہیں آنکھیں۔
6
اب تک یار سے مل نہیں پائی، بیت گیا جوبن،
کیا کیا راہ میں مشکل آئی، کیا کیا راہ کٹھن،
بڑی عمر میں کیسے بھٹکے، دشت میں یہ برہن،
بیت گیا سب جیون، اب لب پر آہ و بکا ہے۔
7
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آج کا دن بھی بیتا،
ہجر یار ہے سولی سکھیو! عشق نے مار دیا،
تیرا نام پیا، لے کر مری ہے رہ میں۔
8
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آیا عزرائیل،
موت بڑی ہی زورآور ہے، اب کیا قال و قیل،
بن کر موت دلیل، آئی، مرونگی یاس میں۔
9
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آخر آئی موت،
راہیں تکتے برسوں بیتے، پر نہ آیا "ہوت"،
ہو جاؤنگی فوت، میں تو یار کے ہجر میں۔
10
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آیا یومِ قیام،
جان نہیں ہے جسم میں سکھیو! نینن نیند حرام،
کر کے وہ قتلام، چلا گیا ہے ہوت پنہل۔
11
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، نوچینگے کرگس،
چڑھی تھی ہجر کی سولی پر اور، چلتا تھا نہ بس،
دشت میں تھی بے بس، یہ کرگس یہ ماس ہے میرا۔
12
لپک کے چڑہتی ہے پیڑوں پہ، دیکھ کے دھول وہ روئے،
کیسے سر ہو ہجر کا صحرا، ملن سجن سے ہوئے!
13
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، سر کی پیڑ کی چوٹی،
احسانمند تھی شجر کی جس نے، یار کی راہ دکھا دی۔
14
لپک کے پیڑوں پہ چڑہتی ہے، بچا کے ریشمی دامن،
جوں طاؤس پھلانگیں یوں تھی، جست لگاتی برہن۔
15
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، دیکھ تو اُسکا زور،
کون تھا اس کا، آدھی رات کو، چلی وہ یار کی اور،
اس کا وہ من مور، بول رہا تھا صحراؤں میں۔
16
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، ڈھونڈے بہت ہی دور،
دور دور تک گونج رہا ہے، اس کے ہجر کا درد۔
17
یہ آواز جو گونج رہی ہے، دور بہت ہے دور،
مشکل ہے واں پہنچے کوئی، کر کے دشت عبور،
18
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، کوئل کی آواز،
صدا کا سوز گداز، عشق کی یہ آواز ہے۔
19
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، طوطے کی چہکار،
عشق کی ہے یہ پکار، یہ ہے نعرہ نیہہ کا۔
20
صدا یوں گونجی صحرا میں کہ، جیسے روئے نار،
عورت کی آواز نہیں یہ، عشق کی ہے یہ پکار۔
21
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، کرلاتی ہے کونج،
یہ ہے عشق کی گونج، ابھری ہے جو جھیل کنارے۔
22
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، باجی ہے سارنگی،
عشق کی تھی آواز، ہم سمجھے، نار ہے کوئی روئی۔
وائي
میں یار پنہل پہ واری، کیچی کب ہیں میت کسی کے،
سن یار پنہل رے میرے، میں تیرے عشق کی ماری،
بھٹکتی ہے جو ویرانوں میں اسکو چھوڑ نہ آری،
سکھیو آری جام کی خاطر، میں بھٹکوں ماری ماری۔
سُر دیسی
پہلی داستان
1
مت جا مر جائوں گی ساجن!، اونٹ کی موڑ مہار،
اس برہن کے آنگن میں تُو، قدم تو دھر اکبار،
ہجر کا ہر دن یار! یومِ قیامت جانوں۔
2
یہ ناقے، یہ دیور، پربت، دیئے ہیں سب نے دکھ،
تیرے ملن کی آس میں، میں نے، ہر دکھ جانا سُکھ۔
3
یہ ناقے، یہ دیور، پربت، سب نے ڈھائے ستم،
ڈھونڈھوں ہوت کے نشقِ پا اور، رکھوں میں تیز قدم،
راہ کے رنج و الم، قسمت کا ہی کھیل ہے سارا۔
4
دور ہے آریانی، اے ناقے! ابھی سے مت تو کراہ،
جُھکا کر ہر اک ٹہنی کو تو، چرتا ہے سب راہ،
سب کچھ تجھے مباح، تجھ کو کیا الزام دے کوئی۔
5
ان جانے ان دیکھے ناقے، آئے جو تیرے آنگن،
تھام کے باگیں، ناقوں کی تو، روکتی ان کو برہن!
اپنی زُلف کی زنجیروں سے، باندھتی ایسے بندھن،
لے جاتے نہ ساجن، کبھی بھی تیرے دیور سسی!
6
ان جانے ان دیکھے ناقے، لائے تھے جو اسوار،
چھپاتی تو چابیاں اور، رہتی تو ہشیار،
چھوڑ نہ جاتا یار، اور دور فراق نہ آتا۔
7
ان جانے، ان دیکھے ناقے، تم نے دیکھے جب،
باندھتی بندھن ناقوں کو اور، روکتی ان کو اب،
سہتی ہے دکھ اب، دکھا کے خود اعتمادی۔
8
ان جانے ان دیکھے ناقے، آئے جو تیرے آنگن،
اپنی زُلف کی زنجیروں سے، باندھتی ایسے بندھن،
دشت کی راہ کٹھن، پھر کیوں دیکھنا پڑتی۔
9
اونٹ کے بدلے بیلوں پہ گر، آتے وہ اسوار،
رہ جاتے کچھ نقشِ پا اور، مل جاتے آثار،
سن کے آہٹ بیلوں کی میں، ہوجاتی بیدار،
لے بھی جاتے ہوت تو میں بھی، پہنچتی آخرکار،
پہنچ نہ پائی، تیز تھی ایسی، ناقوں کی رفتار،
ناقے اور اسوار، دکھا دے مولا پربت میں۔
10
جب ڈالیں پالان تو ناقے، دکھلاتے ہیں جوش،
جانے کیا تھا ناقوں کو کہ، اس دن تھے خاموش،
ہائے رے صد افسوس، وہ بھی شامل تھے سازش میں۔
11
برا تھا چاہا غیروں نے گر، بری نہ ہوتی قسمت،
اونٹوں اور اسواروں کی اب، کیا میں کروں شکایت،
یہ تھا امر مشییت، اس میں بھلا کیا مجھ کو چارہ۔
12
پریتم اپنے دیس کا ہو کیا، پردیسی سے پیار،
دو دن رہ کر اپنے دیس کو، وہ تو جائے سدھار،
بِن اپنے کوہیار، اب کیا شہر بھنبھور میں رہتا۔
13
روزِ ازل سے غیر تھے دیور، غیر ہی مجھ کو جانا،
میل تھا اُنکے من میں لیکن، میں نے بچھائے نیناں،
آنگن تھا سب ویراں، صبح جو اٹھ کے دیکھا۔
14
میں ہوں ان ناقوں کی ماری، ان کو لے جا دور،
اور کہیں لیجاکر ان پر، ڈال پلان حضور!
کر گئے یہ مہجور، اور لے گئے ہوت پنہل کو۔
15
جیئیں سدا یہ جت، جو جی کر ڈھائیں ستم،
تجھ بِن میرا کون سہارا، اور سے کیا نسبت،
تجھ سے رشتؔہ اللفت، یہ رشتہ ٹوٹ نہیں پانا۔
16
سسی پوچھتی رہتی تھی، جتوں کا تو ہر بار،
آئے آری جام کے تھے اونٹ تیرے دوار،
جڑی ہوئیں نکیلیں تھیں اور، جگمگ کرتے ھار،
عشق لگاکر نار! کیسے پھر تو چین سے سوئی۔
17
آئے ہیں یا پھر آئیں گے، اس کا رہے خیال،
تیرے ہوت کو لے جائیں گے، ہوگا ہجر و بال،
جائیں گے ہر حال، اور لے جائیں گے ہوت پنہل کو۔
18
یہاں دل میں حل ہوئی تھی، وہاں پے انکی بستی،
پیر بڑے تھے اونٹوں کے اور چال بہت تھی پیاری،
اونٹوں کی خاموشی، وہ بھلی پربت پربت۔
19
جتوں نے آگ جلائی دل میں، میں تو تھی انجان،
خود تو جا آرام سے بیٹھے، درد مجھے ہر آن۔
20
ہوتا گر معلوم جتوں سے تعلق کا انجام،
کیوں پھر ان سے پریت لگا کر، دیکھی دکھ آلام۔
21
آئے جو تھے اس بار، وہ پہلے کب دیکھے تھے،
میں تو رک گئی لیکن دیور چلنے کو تیار،
بل کھاتی گم ہوتی راہیں، ڈگر ڈگر دشوار،
یہ بہن مدد کا وقت ہے آجا، راہ دکھا کوہیار!
میں ہوں ادنیٰ نار، پہنچ اے پارس "پب" میں۔
22
جتوں نے کب نبھایا مجھ سے، دوستی کا رشتہ،
بچپن سے ہی بانہہ میں ڈالا، میں نے ہوت کا کنگنا،
دے کر مجھ کو طعنہ، وہ لے گئے میرے ہوت بلوچ کو۔
23
جائیں اپنے دیس کو، اونٹ اور میرے دیور،
راہ میں تیز رفتاری سے، کھائیں نہ وہ ٹھوکر۔
24
اُڑے نہ راہ میں دھول، پڑے نہ ہوت پنہل پر،
میرے یار سجن کا ناقہ، دھوپ میں ہو نہ ملول،
عشق کا کب یہ اصول، کہ ہوت مجھے تم چھوڑ چلے۔
25
دھوپ لگے نہ ناقوں کو اور، چلے نہ دشت میں لُو،
کمہلائے نہ راہ میں میرا، ہوت پنہل مہرو،
میرا یار ہے تو، ورنہ جت بہت ہیں جگ میں۔
26
سوانگ رچا کر دیور آئے، کر گئے مجھے نراس،
جنگل سارا مہک رہا ہے، یار کی ہے بو باس،
حیواں کھائے ماس، تو پنجر پہنچے پاس پنہل کے۔
27
ایک تو بیری ناقے، دوجے، دیور اور اسوار،
دشت کی لُو بھی بیرن جس نے، مٹائے سب آثار،
سورج بھی ہے بیری جو بھی، ڈوبا آخرکار،
دشت و جبل بھی بیری جن کی، راہیں ہیں دشوار،
چندا بھی ہے بیری جو نہ، اُبھرا اب کی بار،
بھٹک رہی تھی نار، جب آن چھپے پیڑوں میں پنچھی۔
وائي
ناقے اور دیور ، ان کا کیچ نگر، پریت نہ کوئی لگائے،
جب سوئی تو لاد چلے وہ، اپنے اونٹ سجائے،
خالی دیکھ ٹھکانے ان کے، نینن نیر بہائے،
دھوکہ دیکر لے گئے ساجن، کل تھے دیور آئے،
جو کرنا تھا کیا کہ وہ تھے، من میں میل چھپائے،
سکھیو شاہ لطیف کہے میرا، ساجن انگنا آئے۔
دوسری داستان
1
بھیگ چلی جب رات اور ٹپکی قطرہ شبنم،
تو کے در وہ لے گئے ساجن، بیری دیور اس وم،
ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِماَتُوْ عَدُوْنَ، اب ہے ہُو کا عالم،
ہجر کا درد و الم، دے کر چلے وہ "ہاڑے" کو۔
2
ساری سکھیاں مل کر آئیں، خوب جتایا پیار،
الًسّفًرقِطعًتُہ مِنً اًلنّاَرِ ، راہیں ہیں دشوار،
آگے پل صراط ہے ایسی، جیسے تیغ کی دھار،
کیسے پہنچے پار، جب ہو نفاق دل میں۔
3
جب روحیں تخلیق ہوئیں اور، صدائے کُن تھی آئی،
تب میثاقِ الست سے پہلے، میں نے پریت لگائی،
مَنْ طلَبَ شَیئاً وَ جَدَّ وَجَدَ ، علیؓ نے بات بتائی،
علیؓ کے اس فرمان سے سکھیو! چھٹی ہے دل کی کائی،
آیا جب پیغام پنہل کا، موت سے کب گھبرائی،
ختم ہو دورِ جدائی، دعا کرو کہ ملن ہو سکھیو!
4
اپنے "آری جام" بِنا اب، تاریکی ہے اتھاہ،
کیسے اپنے پریتم بِن اب، ملیگی روشن راہ،
دھودے دل سےمیل اے سائیں! کرم کی ڈال نگاہ،
مَن لا شَیخُ لَہُ فَشَیخُہُ الشیطانُ، ہوجائیں گمراہ،
چلی جو تنہا منزل پانے، پائی نہ سیدھی راہ،
بِلا شَیخِ مَن یَمِشی َفی الطِریقِ، ہوجاؤ آگاہ،
بھٹک گئی ہیں راہ، بہت سی ہوت بنا اے سکھیو!
5
بھاری بوجھ ویراں پربت، سائے نہ ہی اشجار،
کہے لطیف کہ ناقوں پر ہی اسکا دارو مدار،
پی چاہے تو مل جائیگی، سیدھی راہ گذار،
کہاں پہ وہ کوہیار، اور کہاں وہ اسکو ڈھوںڈ رہی ہے۔
6
خوب سِدھا کر ناقوں کو وہ، سیدھی راہ چلائیں،
چڑہیں جب اونچے ٹیلوں پر تو، اس وقت وہ نہ کراہیں،
سنگ ہو جب سردار تو رہ میں، ناقے تھک نہ پائیں،
کہے لطیف کہ لطف و کرم سے، پربت پار وہ جائیں،
ناقے کیوں گھبرائیں، ہوت کی جب ہے حمایت حاصل۔
7
جگا کہ اپنے ناقوں کو، چلے وہ ان کو لیکر ،
پہنچیں جب وہ پہاڑوں میں تو، بیٹھ نہ جائیں تھک کر،
کہے لطیف کہ ناقوں نے ہے، روندا دشت و بر،
ہوت ہے جب رہبر، تو کیونکر تھکیں وہ رہ میں۔
8
بھرتے تھے وہ خالی مشکیں، بھیگ چلی جب رات،
خاموشی سے اونٹ سجائے، بتلائی نہ بات،
اُس کو لے گئے ساتھ، دِھیر ہے جو انجانوں کی۔
9
ڈالیں پھر پلان، جلدی کریں تیاری،
کرتے ہیں وہ راز کی باتیں، روز بلوچی خان،
بول کے غیر زبان، وہ لے گئے میرے پریتم کو۔
10
ڈالیں پھر پلان، جلدی کریں تیاری،
کیچ شہر کی باتیں وہ تو، کرتے تھے ہر آن،
لیکن میری جان، وہ چلے ہیں کیچ کی جانب۔
11
نہ تو کریں جُگالی ناقے، نہ ہی کھائیں بور،
پل پل فکر ہے کیچ سفر کی، یہی وہ مذکور،
یہ ہی ہے مقدور، کہ دشت و جبل کو روندیں ناقے۔
12
پھونک رہی تھی ہاتھوں کو تھا، لو سے جھلسا تن،
ڈھونڈ رہی تھی ناقوں کو وہ، نقشِ پا برہن،
کہے لطیف کہ ناقے گذرے، نہیں تھی ذرا تھکن،
کریگی کون جتن، بِن سسی کے دشت و جبل میں۔
13
دوک دہل جاتے ہیں جس جا، "گورے" لیں نہ راہ،
جہاں نہ چل پائیں "چوسال" بھی، ڈالی وہاں نگاہ،
"پانچار" بھی پہنچ سکیں نہ، پہنچی وہاں نگاہ،
"نیش" بھی جس جا گھبراتے ہیں، ایسی مشکل راہ،
اعلیٰ اس کی چاہ، جو چلی ہے ایسی راہوں پر۔
14
پٹخ رہی تی پتھر سے، سسی اپنا سر،
پا گیا پیار کی منزل کو، اسکا دل مضطر،
مل گیا وہ دلبر، شکر ہے تیرا اللہ۔
وائي
ساجن انگنا آیا، دور ہوا دکھ سارا،
میں تو جی اُٹھی ہوں جگ میں،
پی سنگ ہونگی پیار کی باتیں، پی نے مکھ دکھلایا،
مہکا مہکا شہر ہے سارا، خوشبوئیں وہ لایا،
میں عاجز کیا آن دکھاؤں، سب کا تو ہی سہارا،
تھی ابھاگن سسی، یار نے بھاگ جگایا،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ساجن انگنا آیا۔
تیسری داستان
1
اللہ اے اسوار! ناقے مت لے جاؤ،
میرے اس دکھیارے من کو، تجھ بن کون سہار،
توڑ نہ دینا یار! مجھ سے پریت کا ناتہ۔
2
ناقے مت لے جاؤ ، اللہ اے اسوار!
اس باندھی کو سنگ لے جاؤ، بنا کے خدمتگار،
تیرے ہجر میں مرجائیگی، یہ برہن اے یار!
کہے گا کیا سنسار، گر راہ سے لوٹ میں آئی۔
3
کیسی جھلسی راہیں جن پر، سائے نہ ہی اشجار،
اپنے اُس "کیچی" کے کارن، جا تو دشت کے پار،
چل تو سوئے یار، لوٹ نہ آنا رہ سے۔
4
کیچ سے پہلے مری ہیں رہ میں، کیا جنہوں نے پیار،
راہیں ہیں بسیار، کیا جانیں کس راہ گئے وہ۔
5
کاش وہ آئیں آنگن، جن کو دیکھ کے من مُسکائے،
کسی طرح تو میں بھی دیکھوں، اپنے یار کا مسکن،
روند کے صحراؤں کو سنے یہ، یار کی باتیں برہن،
پاؤں یار کا درشن، تو "گُلبوُ" میں کہلاؤں۔
6
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، روشن تھی وہ رات،
چل کر روئے یار تو دیکھوں، مہکیں احساسات،
روند کے صحرا کیچ میں پہنچوں، رات ڈھلے پربھات،
لے جائیں گر ساتھ، تو "گُلبوُ" میں کہلاؤں۔
7
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، بھاگ میرے مسکائے،
انگ لگاؤں خاک قدم کی، وہ بھنبھور میں آئے،
سنگ اگر لے جائے، تو چنبیلی کہلاؤں۔
8
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، وہ جو سب کا جام،
دیکھتے ہی دلبر کو دل نے، پایا ہے آرام،
دھروں میں "ناتر" نام، گر سنگ مجھے لے جائیں۔
9
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، سب کا وہ سردار،
جھن جھن اونٹ کے گھنگرو باجیں، ریشم کی ہے مُہار،
سنگ لے جاؤ یار، تو "دولت" نام دھروں میں۔
10
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، جسکی نہیں مثال،
خوب سجے تھے ناقے ان کی، نکیلیں تھیں لال،
دیکھ تو ان کی چال، کیسی سندر ہے اے میا!
11
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، آیا سب کا خان،
زلفوں کی باگیں بنواؤن، سیؤن میں پالان،
جیسا ہے وہ جوان، ایسے سندر ساتھی ہیں۔
12
بالا پوش پہ جڑے ہیں موتی، ہیرے لاکھ ہزار،
ہوت کو جھک کر چھو رہے ہیں، راہوں کے اشجار،
اے رہرو! کیا تم نے دیکھے، راہوں میں اسرار،
"اونٹوں کی وہ قطار، کل گئی اور آج تو پوچھے"
13
آن جُھکائے مہمانوں نے، جھوک میں اپنے "مہری"،
حسنِ یار یوں جھپٹا دل پر، جھپٹے باز جوں بحری،
مارا تیر وہ قہری، نیند میں مجھ کو سکھیو!
14
چلے گئے کل کیچی سکھیو! اُٹھ کر آدھی رات،
جاگی تو تھا ویراں آنگن، رات ڈھلی پربھات،
ہجر کا درد وہ دے گئے دل کو، جت زور آور ذات،
رَفِیعُ الدَرَجاتِ، پنہل ملادے پاک پوتر۔
15
میں سمجھی تھی سدا رہینگے، پاس میرے ساجن،
چلے گئے وہ میدانوں میں، روندا دشت و بن،
سکھیو! جن کے کارن میں نے، کیا ہے سر کا سودا۔
16
میں سمجھی تھی سدا رہینگے پاس میرے مہمان،
رحم ذرا نہ آیا اُنکو، گئے نکال کے جان،
دے گئے درد فراق کا سکھیو! درد ہے اب ہر آن،
کر گئے جت جوان، کیا کیا ظلم اس برہن پر۔
17
ہوتا گر معلوم کہ یہ جت بھگائیںگے صحرا،
مارتی میں ان ناقوں کو، جلاتی سامان سارا۔
18
کس جانب مکران ہے سکھیو! کہاں ہے کیچ نگر،
کب دیکھا تھا شہر بھنبھور کارواں کا یہ منظر،
ایسا تیر چبھویا ہے کہ، تڑپے دل مضطر،
لے بھاگے دلبر، میں ان ناقوں کی ماری ہوں۔
19
کس جانب مکران ہے سکھیو! کہاں دوجا پار،
کہے لطیف کہ ناقوں کی ہے، اس کے ہاتھ مہار،
جگ کا جو سردار، ملا دے مجھ سے مولا!
20
عشق لے آیا دشت میں ورنہ، کون یہاں پہ آئے،
انکو ڈھونڈے پربت میں جاں، اس کا ہوت تھے لائے،
جو تھے رنج اُٹھائے، ختم ہوئے وہ پیا لوٹ کے آیا۔
21
ہوت کہاں وہ دیور میرے، بڑے ہی تھے ہوشیار،
نقشِ پا ناقوں کے ڈھونڈہوں، چھانوں سب کوہسار،
ہوگا تو مسمار، ورنہ راہ سے ہٹ جا پربت!
22
کیسی یہ پُر پیچ ہیں راہیں، اور ہیں پربت حائل،
جو ہیں حق کے حامل، ان کا پربت کیا کر لینگے۔
وائي
میرے یار سجن، پریت کی ماری برہن،
کب سمجھی تھی چھوڑ چلیگا،
گرم ہوائیں، آگ کی لپٹیں، جھلسے ہے سب تن،
تیری پیرت نے اس برہن کو، کیا نڈھال ہے ساجن!
برہ کے گیت تھی گاتی پھرتی، پربت ہو یا بن،
چھوڑے چلے تم، کیسے پہنچوں، دکھتا ہے سب تن،
ساون بھادوں برکھا جیسے، برسیں یوں نینن،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ملے وہ یار سجن۔
چوتھی داستان
1
لے گئے میرے پریتم کو وہ، ظالم دیور جام،
دیا تھا آن کے ہوت پنہل کو، آری کا پیغام،
سب نے کی تھی ایسی سازش، ڈالا تھا اک دام،
دھوکے سے وہ لے گئے سکھیو! ہوت وہ دل آرام،
ظلم کیئے ہر گام، جت تو محشر برپا کر گئے۔
2
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، دکھا گئے وہ زور،
ویراں ہے بھنبھور، برپا کر گئے محشر۔
3
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، میرے ظالم دیور،
برپا ہے اک محشر، گویا یومِ قیامت ہے۔
4
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، میرے ظالم دیور،
چرخہ کات نہ پاؤں سکھیو! بِن اپنے اس دلبر،
برپا کر گئے محشر، چھوڑ گئے مجھ دھوبن کو۔
5
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، جت تھے ایسے جابر،
کیسے ہو کوئی صابر، چھن جائے جب پریتم۔
6
جس کی ریش گھنی اور کالی، لے گئے میرا یار،
اور انگونگی ویراں پربت، یہ اونچے کوہسار،
راہیں ہیں دشوار، پر میں تو جتن کرونگی۔
7
کب سمجھی میں لیجائیں گے، ہوت کو آدھی رات،
جت زورآور ذات، ڈھاگئے ظلم اس برہن پر۔
8
شام میں کوئی فکر نہیں تھی، صبح کو دکھڑے پائے،
جتوں کی خاطر میں نے سکھیو، دُکھ میں دن ہیں بِتائے۔
9
شام کو کوئی فکر نہ کی، تھی صبح کو غم، ویرانی،
آدھی رات کو دیکھے کوئی، میری اشک فشانی،
جت وہ دشمن جانی، میا! سمجھ کو مار گئے ہیں۔
10
شام کو کوئی فکر نہ تھی اور صبح کو تھے آلام،
نین کو نیند کا عادی کرکے چلے گئے وہ جام،
دیکر درد مدام، چلے وہ آدھی رات کو۔
11
اٹھ کر آدھی رات کو، چلے وہ کیچ کی اور،
ڈالی پریت کی ڈور، اور من کو پریشان کرگئے۔
12
اللہ میرے انگنا آجا، ساجن! پل دو پل،
ہر جا ہر صورت میں تیرے، باندی ہوں سُہنل،
میرے اوگن عیب چھپائے، کاش کہ وہ نرمل،
کامل ہوت پنہل، لیجائیگا سنگ یہ دھوبن۔
13
دھوبی کے گھر پلی ہوں لیکن، ذات میری بانبھن،
مار گیا ہے اس برہن کو، تیرا حُسن سجن!
جب تک ہے جیون، تب تک ملن کی آس ہے۔
14
دھوبی کے گھر پل کر سکھیو! میں نے عمر گنوائی،
ان کے کارن درد سہا اور، پایا دردِ جدائی،
ہوت سے پریت لگائی، قسمت کا یہ کھیل تھا سارا۔
15
ہم ہیں ذات کے دھوبی اور ہیں پنہل کے خدمتگار،
ہوت سراپا مہک ہے لیکن، میں ہوں بدبودار،
کرے نہ ظاہر یار، کوئی کسی کے عیب کبھی۔
16
کہے جو باندی کو بھی بیبی، میں تو ہوں وہ نار،
مجھ برہن کے کار، بنا تھا دھوبی ہوت پنہل بھی۔
17
دھوتا تھا وہ گھاٹ پہ کپڑے، پریت میں پنہل جام،
آری جام نے بھیجا تھا تب، ہوت کو یہ پیغام،
یہ نہیں تیرا کام، کہ گھاٹ پہ کپڑے دھوئے۔
18
کیچ بھنبھور میں کون ہے اسکا، کوئی نہ رشتہ ناتہ،
ہوت کو کیا پرا برہن کی، اِسکا تڑپے جیئرا،
کب ہے کوئی پاتا، حلم بِنا اُس ہوت پنہل کو۔
19
کوئی نہیں ہے جگ میں میرا، کوئی نہیں غمخوار،
وہ بھی تیرے سنگ ہیں جن کو، دیتے ہیں دُھتکار،
میں بھی تو اُن جیسی ہی ہوں، سن میری سرکار،
کہے لطیف کہ دشت ہے گذری، ادنیٰ ذات کی نار،
پہنچی وہ نادار، تیرے پل پر دشت سے گذرے۔
وائي
لے مت ناقے مجھ سے، ہوئی ہے کون سی بھول،
اللہ موڑ مہار اے سائیں! کر تو عرض قبول،
رہ جائے جو رات یہاں تو خوشیوں کا ہو نزول،
جس نے پریت کا ناتہ جوڑا، اس کو کر نہ ملول،
اللہ کارن آن کے سائیں! دکھا جا چہرا پھول،
جھکا کے ٹہنی اونٹ چرالے، ہرے ہیں پیڑ ببول،
کہے لطیف کہ انگنا آجا، کرلے عرض قبول۔
پانچویں داستان
1
جیسے آہو بوئے مشک سے، دشت میں سر گرداں،
مرغِ ہما جوں فضا میں بھٹکے، نظروں سے ہو نہاں،
شاید درد ہجراں، اُس نے اُن سے کیا ہے حاصل۔
2
آہوئے دشت جو دیکھے سمجھی، یار کے ناقے آئے،
دیکھ تو کیسے پربت سسی کو عقلمند بنائے،
درد میں راہ سجھائے، ورنہ وہ ناداں بہت تھی۔
3
حب میں یار کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے، دیکھے دشت کے آہو،
چھوڑ گیا ہے پریتم پھر بھی، اُسی کو ڈھونڈھے ہر سُو،
بھول نہ جانا اب تو، اے دل! اس ہوت بلوچ کو۔
4
ملینگے راہ میں وحشی حیواں، دشت بہت ہے ویراں،
تیری آہ و بکا سے سسی! گونجے گا یہ بیاباں،
جن سے لاگے نیناں، وہ مولا اب تو ملادے۔
5
زادِ راہ جو ساتھ نہ لیں، ہوت انہی کا حامی،
آئیگا اس دشت و جبل میں، جھومتا میرا جانی،
ہونگی سنگ آریانی لحضے بھر میں پیار کی باتیں۔
6
دیکھے نقش جو ناقوں کے تو مسکائی وہ برہن،
آساں ہو گئی ویرانوں کی، ہر اک راہ کٹھن،
جن کے من میں پریت وہ جانیں، صحرا بھی گلشن،
من میں ہو جو لگن، تو "حب" میں یار ملیگا۔
7
زورآور بھی گبھرائیں واں، پہنچی نربل نار،
دشت جبل دشوار، عشق تو جانے آساں۔
8
خاک ہو وہ کوہسار، جو عشق کے آڑے آئیں،
پربت لاکھ ہزار، عشق میں میں روندونگی۔
9
راہِ یار میں آڑے آئے، یہ اونچے کوہسار،
"برفت" اور "بروہی" لے گئے، میرا وہ کوہیار،
روتی ہوں اے یار! کہ دیکھوں تیری صورت۔
10
راہِ یار میں آڑے آئے، یہ اونچے کوہسار،
ہاتھ اٹھاکر دعا کروں کہ، ملے جبل میں یار،
کل وہ کرم شعار، گیا، اسے تو ڈھونڈتی ہے اب۔
11
"کانبھو" "کارو" دونوں جبل، لگتے ہیں جوں بادل،
چھوڑیگی اب "پب" کو پیچھے، صبح صبح وہ نربل،
رہونگی نہ اک پل، مجھ کو ہے ہر حال میں جانا۔
12
بادل اور یہ کوہسار ہیں لگتے ایک فریم کے،
یہ سنگلاخ زمیں، بل کھاتی، ہر اک راہگذار،
ویراں دشت اور سخت سفر ہے، میں پیادہ نربل نار،
اس کو راہ دکھائے جو دشت میں ہے پریشان۔
وائي
یاد کرے ہے من، یاد ہے پل پل سید کی،
میں پاس پنہل کے جاؤنگی،
لب پر باتیں کیچ سفر کی، رہینگے کب اس آنگن،
من میں ملن کی آس ہے مولا، دکھادے یار کا درشن،
دشت و جبل کے رنج و الم سب، یار ہیں تیرے کارن،
وصل کا تونے عہد کیا تھا، پورا کر اب ساجن!
پریت کی ایسی اگن جلائی، سلگتا ہے اب تن من،
کام کریم کریگا پورے، گھبرائے کیوں یہ برہن،
کہے لطیف کہ آس بندھی ہے، کریگا یاد وہ ساجن۔
چھٹی داستان
1
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، مشکل ہے ہر گام،
پیار سے دی ہیں صدائیں ساجن! لب پر تیرا نام،
سُنی صدا ساجن نے اب، سسی خود کو تھام،
آہیں تیرا کام، سننا کام ہے ہوت بلوچ کا۔
2
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، قدم اُٹھانا مشکل،
چلا ہے کیچ کی اور سکھی ری! میرے یار کا محمل،
جہاں ہیں تیز نکیلے پتھر، پاؤں گئے میرے چھل،
پورے کر گئے اے دل! دیور اپنی بات۔
3
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، مشکل ہے ہر راہ،
بل کھاتی یہ "وندر" کی راہیں، کرینگی مجھے تباہ،
تو ہی اب اللہ، پہنچا "حاڑے" کے اُس پار۔
4
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، اور راہوں کے بل،
جسکے من میں پریت ہو وہ ہی، بھٹکے دشت و جبل،
پہنچا پار یہ نربل، کہے لطیف کہ اپنے کرم سے۔
5
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، راہیں ہیبت ناک،
لے گئے ناقے ہوت سجن کو، دے گئے درد فراق،
ہوت پوتر پاک! اب تو آجا اللہ کارن۔
6
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، بل کھاتی یہ راہیں،
جگر، کلیجہ، تن من، سب شعلہ عشق میں جلیو،
ناقوں کی وہ مہاریں، پکڑ چلے ہیں دور سفر کو۔
7
تیشہ پاس نہیں جو کاٹوں، کوہ بلند و پست،
پربت کی ہر اونچی چوٹی، جیسے فیلِ مست،
دل میں جو پیوست، وہ تیر نہ نکلے جیتے جی۔
8
مشکل پربت، دور سفر اور دشت و جبل ویران،
کیا کیا سیانے بھٹک گئے اور، حریف ہوئے حیران،
کہے لطیف کہ پیار بسا کر، پار کیا میدان،
آریانی وہ خان، رہبر ہو تو پھر ڈر کیسا؟
9
جنگل، پربت، دور سفر، ہائے یہ ریت کے ٹیلے،
آڑے ترچھے پربت ہیں اب، کروں یہاں کیا حیلے،
جس نے دکھڑے جھیلے، اس کو کیچ میں پہنچا سائیں!
10
مشکل پربت، دور سفر اور، کیا کیا ہیں کوہسار!
ناقے جب اورانگیں پربت، کریں وہ چیخ و پکار،
وہ کیوں روئیں جنہوں نے دیکھے، نقشِ پائے یار،
جندڑی سے ہی یار! جُڑے ہیں سارے رشتے۔
11
مشکل پربت، دور سفر جاں، مشکل ہر اونچائی،
کہے لطیف کہ رہ میں کیسے، حیواں ہیں صحرائی،
راہ میں جو گھبرائی، اس کی تو آدھار ہے سائیں۔
12
مشکل پربت، راہیں سخت، کراہ کے گذریں ناقے،
ان کی "وندر" میں راہ تکے وہ، جن سے پریت کے ناتے،
بھٹک گئی جو رہ میں اس کو، راہ دکھا کوہیارے،
تو آدھار ہے پیارے، جن کا کوئی نہیں ہے جگ میں۔
13
مشکل پربت، سخت سفر ہے، اور جھلستا صحرا،
اُلٹی سمت نہ تیتر بولے، جہاں سے گذرے پیارا،
برسی تھی تب بدرا، جب میرے جام نے جنم لیا تھا۔
14
مشکل پربت، سخت سفر اور، راہ میں باد و باراں،
"ہاڑا" ہیبت ناک ہے آگے، دشت جبل ہے ویراں،
تُو ہی حال کا پرساں، جہاں پہ اندھیارا ہے سائیں!
15
دل میں پیار سجاکر، سوئی، آنکھ جھپک نہ پائی،
جنکے پیار میں نیند اُڑی وہ، آئے تو نندیا آئی،
سو کر میں پچھتائی، پریت کریں تو پھر کیا سونا۔
16
تاریکی میں جھلمل موتی، میرا وہ کوہیارا،
روزِ محشر ساتھ نہ چھوڑے، ہوگا وہ ہی سہارا،
کریگا یاد وہ پیارا، اور دیگا مجھے صدائیں۔
وائي
میں جاؤنگی کوئے یار، دیکھونگی دلدار،
میں کیسے جیونگی یار بن،
اتنے دکھڑے سہہ کر یاں اب، رہنا ہے دشوار،
سارے شہر بھنبھور میں میرا، کوئی نہیں غمخوار،
میرے جام پنہل کے ساتھی، چلے گئے اس پار،
کہیں تو رات بِتا کر سکھیو! صبح کو ڈھونڈوں یار۔
وائي
بھٹکوں دشت و جبل، میں اپنے ہوت کے کارن،
اپنے ساجن کو میں ڈھونڈوں، ڈھونڈوں بن جنگل،
اب تو شہر بھنبھور میں سکھیو!، رہوں نہ میں اک پل!
مجھ میں اوگن عیب تھے ایسے، چھوڑ گیا پنہل،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، کارن ہوت کے چل۔
ساتویں داستان
1
یار پنہل نے ڈالا سکھیو ایسا پریت کا پیچ،
شہر بھنبور کے رشتے ناتے، ہوگئے سارے ہیچ،
کہے نہ کوئی لوٹ کے چل، راہیں ہیں پُر پیچ،
جس کا دیس ہے کیچ، اس سے جاں اٹکی ہے۔
2
سجا کے تب کیوں ناقوں کو وہ، لائے تھے اسوار،
بالا پوش پہ جڑے تھے "ٹونر"، چھم چھم کی جھنکار،
خوب نچا کر ناقوں کو وہ، لے گئے پربت پار،
تجھ بن بانبھن کے اس جگ میں، اور نہیں ہے سہار،
موڑ کے یار مہار، تو شاید لوٹ کے آئے۔
3
دیکھ تو دکھیارن پر کیا کیا، اس نے ڈھائے ستم،
ناوکِ عشق چبھا ہے دل میں، تڑپوں میں ہردم،
حال کے ہیں محرم، اب تو حیواں صحراؤں کے۔
4
ایسا کوئی سبب بنا کہ، بے بس ہوگئی برہن،
کیسے دشت کے پار میں پہنچوں، بِن تیرے اے ساجن!
تھام کے تیرا دامن، میں گذروں ہیبت ناک جبل سے۔
5
ایسا کوئی سبب بنا کہ، بے بس تھی بے چاری،
کیسے سیدھی راہ ملے گی، تجھ بِن میرے آری!
دکھ دے کوئی نیا اے آری!، جو مجھ کو راہ دکھا دے۔
6
کبھی تو اپنی مہر سے سائیں! بھیج کوئی پیغام،
تیرے ہجر نے اس برہن کا، کیا ہے کام تمام،
بے جاں میرے انگ ہوئے اور، نینن نیند حرام،
یہاں پل کا نہیں آرام، تُو چین سے وندر میں بیٹھا ہے۔
7
خوشبوؤں سے مہک اُٹھا تھا، سارا شہر بھنبھور،
کھڑے تھے وہ بازار میں کیچی، ان میں تھا چت چور،
لایا تھا اس اور، ناقے لاد کے خوشبوؤں سے۔
8
آئی لپٹیں خوشبوؤں کی، مہکی دھرتی ساری،
مہکا شہر کا کوچہ کوچہ، خوشبوئیں تھیں نیاری،
مہکی ہر اک ناری، اور مسکائیں سب باندیاں۔
9
آئی جب مہکار، دشت میں ہوت پنہل کی،
کیا ہے ہار سنگھار، درد ہوئے دکھ ہر داسی کے۔
10
آئی جب مہکار، سکھیو! ہوت پنہل کی،
میرے یار پنہل کی خوشبو، دینے لگے اشجار،
آیا کیچ سے یار، میری آس ہوئی ہے پوری۔
11
شہربھنبھور میں ڈیرے ڈالے، چلے گئے وہ ہمدم،
ویراں انکے آسن ہیں اور، ٹپک رہی ہے شبنم،
دے کر درد و الم، ناوکِ عشق چبھویا۔
12
جب سے ان سے ناتہ جوڑا، جنکا دور وطن،
کوہیارے نے درد دیا اور، دُکھتا ہے تن من،
تڑپے یہ برہن، تب سے ہی اے سکھیو!
13
کبھی یقین نہ کرنا سُن کر، کسی بلوچ کی بات،
کیوں نہ جاگی اسکی خاطر، سوئی کیوں اُس رات،
کبھی تو شاید آنگن آئیں، جت ہے جن کی ذات،
لے جاتے وہ ساتھ، بُرا شگون ہوا تھا شاید۔
14
کب تھا ان کا قصور، مجھ میں ہی تھے عیب،
میں انجان وہ جاننہار، دیس بھی انکا دور،
کیسے دامن تھام سکے گی، مجھ جیسی معذور،
جن کا تو ہے حضور! ان کو پیادہ ہی پہنچادے۔
15
کب تھی میں اس قابل کرتی، اس ساجن سے پیار،
لگا کے سوتی سینے سے میں، اپنا وہ کوہیار،
پھر کیسے لے جاتے دیور، میرا سہنل یار،
قسمت کا آزار، دوش نہ دے کوئی ہوت پنہل کو۔
16
بھول نہ جانا ساجن مجھ کو، تیری ہی ہے سہار،
اپنی مہر سے پار کرا دے، مشکل جو کوہسار،
آن پڑے جب مشکل تب تُو، آ جانا کوہیار!
تیرا نور ہی راہ دکھائے، چمکے راہگذار،
اپنے نور سے روشن کردے، دھرتی کا اندھکار،
سن آہیں سرکار! تو ہی اب اس برہن کی۔
وائي
غم کی ہے یلغار! انگ انگ میں پریت ہے تیری،
میرے نینن نیند بھری تھی، لاد گئے اسوار،
تجھ کو دل کا حال سناؤں، تیری یاد ہے یار!
تجھ بِن کیسا جینا ساجن! جیون ہے آزار،
تجھ سے ایسی پریت لگی جو ہوگی ختم نہ یار!
تیری یاد میں تڑپے جیئرا، آجا تو اک بار،
وہ ہی راہ لوں جہاں سے گذری، اونٹوں کی وہ قطار،
کیا کیا تیر چُبھے ہیں من میں، تیری پریت کے یار،
کاگا ماس بھی چننے آئے، دیکھ کہ حالتِ زار،
میں تنہا اور لاوارث ہوں، دے تو دلاسہ یار!
وائي
مار رہا ہے موہے تیرا درد فراق،
اس کا درد ہی مار رہا ہے، جس کا من مشتاق،
انگ انگ ہے چور تھکن سے، دشت ہیں ہیبت ناک۔
وائي
جو پربت کے پار گئے ہیں، میں انکی پریت کی ماری،
یار کو لے گئے سنگ جو میں اُن، ناقوں کی بلہاری،
پربت میں فریاد کروں اب، میں دُکھیا بے چاری،
دھوبی کے گھر پلی ہوں لیکن، میں ہوں بھانبھن ناری۔
وائي
میں تیری باندی، چھوڑ نہ مجھ کو جانی!
ان کا اس جگ میں، اور نہ کوئی ثانی،
لے چل سنگ کرونگی سیوا، بات نہ اس نے مانی،
سب کی باندی بنکر سائیں بھر بھر لاؤں پانی،
اس کو چھوڑ نہ تنہا جو ہے، تیری باندی جانی،
شاہ لطیف کہے ہے، آئیگا آریانی۔
سُر کوہیاری
پہلی داستان
1
کب جاگی تو یار کے کارن، سو کر رات گذاری،
جلدی چل تو یار کی جانب، سستی چھوڑ اے ناری!
جب تیرے مہمان تھے دیور، کرتی شب بیداری،
نیند تھی تجھ کو پیاری، جبھی تو بھٹک رہی ہے۔
2
پل بھر بھی تو جاگ نہ پائی، سوئی ساری رات،
پوچھا تب اسواروں کا جب، رات ڈھلی پربھات،
لے تو ان کی باٹ، تو شاید ان کی مہر ہو حاصل۔
3
پل کو بھی تو جاگ نہ پائی، ایسی سوئی غافل!
تب جاگی جب ہوت پنہل کا، دور سدھارا محمل،
بھاگ کے ڈھونڈ تو منزل، کسی سبب ہے مل جائیں وہ۔
4
تجھ سے اچھے ناقے تھے جو، سوئے نہیں پل بھر،
تو سوئی وہ لپک کے اٹھے، شب بھر تھے مضطر،
ڈھونڈ وہ راہ گذر، جہاں سے ناقے گذرے ہیں۔
5
اب تو چھوڑ دے سستی تونے، سو کر رات بتائی،
ناقے تو چپ چاپ چلے، اور اپنی منزل پائی،
دشت میں دے جو دہائی، نیند اکھیڑ دے آنکھوں سے۔
6
شام سے ہی وہ تان کے سوئیں, ذرا نہ لیں جو کروٹ،
آدھی رات کو سن نہ پائیں، ناقوں کی وہ آہٹ،
پائیں نہ یار کی چاہت، جن کو نیند ہے پیاری۔
7
بری تھی میری قسمت کہ میں سوئی سجا کے خواب،
کس کی خاطر شہر بھنبھور میں، رہے یہ دل بیتاب،
دے کر ہجر عذاب، چلے گئے اسوار۔
8
جو بھی پیر پسار کے سوئی، سسی! ساری رات،
اُن سے بچھڑے ساجن سائیں، چھوٹے یار کا ساتھ۔
9
شام سے پیر پسار کے سوئی، خود پر کیا ستم۔
در پر دوست کے کھڑی گر رہتی، سنتی آہٹ اس دم،
اصل میں آری جام کی سسی! تو تھی نا محرم،
ہوت تھا جب ہمدم، پھر کیسے تو سو پائی تھی۔
10
پیر پسار کے سوجائیں جو، اُن کی پریت ہے خام،
کیوں نہ تڑپی ہوت کی خاطر، کی نہ نیند حرام،
جو بھی سو کر رات بتائیں، ان کو دکھ آلام،
لیں کیوں یار کا نام، جو شام سے ہی سوجائیں۔
11
مانند مردہ سوگئی ملبوس، خوب کیا آرام،
چاروں اور ہی جاسوسوں نے، بچھار رکھے تھے دام،
خود کو دے الزام، کہ غفلت سے وہ یار گنوایا۔
12
سوگئی جلدی مانند مردہ، خوب کیا آرام،
جاگ کے رات بتاتی سسی! کرتی نیند حرام،
اب نہ دے الزام، سسی! ان اسواروں کو۔
13
تو بھی ان کی مانند سوئی، جنکی پریت ہو خام،
اس لیئے وہ یار گنوایا، دکھ اب ہر گام،
کیا تھا کیوں آرام، جب بنی تھی اِس کی باندی۔
وائي
بھاگ پہ کس کا زور، چھوڑ چلی بھنبھور، دوش نہ دو ساجن کو،
میں کیا جانوں ہار سنگھار، چھوڑ گیا چت چور،
جیسی بھی ہوں ساجن کی ہوں، جائوں سجن کی اور،
جس بھی پیڑ کی چھائوں میں بیٹھے، میرے من کا مور،
اس کی ٹہنی ٹہنی چوموں، جہاں تھا وہ چت چور،
یوں ہی قسمت میں لکھا تھا، چھوٹے شہر بھنبھور،
تیرے کرم سے مل جائے وہ، میرے من کا مور۔
دوسری داستان
1
ظلم نہ ڈھا اے ظالم پربت!، میں برہن بیچاری،
تن کو تو یوں کاٹ رہا ہے، کاٹتی ہے جوں آری،
قسمت کی ہوں ماری، ورنہ کیوں میں دشت میں بھٹکوں۔
2
تیرے ظلم سناؤں گی جب، ملے گا وہ ہمدم،
رات کو دیو کی مانند ہے تو، دن میں پیچ و خم،
مٹائے نقشِ قدم، تونے میرے ہوت پنہل کے۔
3
کچھ تو بتا اے پربت! کیا وہ، یہاں سے گذرا یار؟
تو نے جاتی دیکھی تھی کیا، اونٹوں کی وہ قطار؟
دیکھا تھا کوہیار، جو مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔
4
کچھ تو بتا اے پربت! کیا وہ یہاں سے گذرا یار؟
تیرے پاس سے گذری تھی کیا، اونٹوں کی وہ قطار؟
ایسی کروں میں پُکار، کہ سُن کر لوٹ کے آئے ہوت۔
5
ہوگا تیرا شکوہ جب وہ، ملیں گے میرے پیارے،
چھلنی پیروں کے تلوے ہیں، اور پڑے ہیں چھالے،
تجھ کو ان پر رحم نہ آیا، ہجر کے ہیں جو مارے،
سن فریاد "کوہیارے" !، پربت مجھ کو مار رہا ہے۔
6
پربت! ظلم نہ ڈھا کہ میں نے، بڑے سہے ہیں دکھ،
دکھ ہی دکھ اس دل نے پائے، یاد نہیں کوئی سُکھ۔
7
اُن کی دھیر بندھاتے ہیں کہ، جنکا من دکھیارا،
ان سے پیار سے بولا جائے، جن سے بچھڑے پیارا،
جن کا کوئی نہ چارہ، تو اُن کے پیر نہ چھلنی کر۔
8
درد کے مارے حال سنایا، کیسی کی نادانی،
دل کے درد کو اور بڑھایا، سنا کر پیار درد کہانی۔
9
اے پربت! آ دونوں روئیں، کریں اب آہ و بکا،
ایک ہی یار ملا تھا جگ میں، وہ بھی بچھڑ گیا،
کس سے کروں گلہ، قسمت کا یہ کھیل ہے سارا۔
10
پربت! تجھ کو حال سنانے، آتے ہیں دکھیارے،
تو ہی ان کی دھیر بندھا دے، جب آئیں ہجر کے مارے۔
11
پریت کے ماروں کی اے پربت! سدا ہیں آنکھیں نم،
روندیں دشت بیاباں اور یہ، جبل ہے زیر قدم،
مارے ہجر کا غم، ہجر میں ہی اب جاں نکلے گی۔
12
تجھ جیسے پربت پر خود کو، واروں میں ہر بار،
بیٹح کے تیرے سائے میں ہی، سستایا تھا یار۔
13
پربت اور برہن نے مل کر، جب کی تھی فریاد،
سب ذی روح آزردہ تھے اور، سب کے دل ناشاد،
14
ارض کی میخیں پربت ہیں اور، اُن کی میخ ہے یار،
اور کہاں ہے جگ میں سکھیو، اُس جیسا کوہیار۔
15
پربت اور وہ برہن مل کر، روتے ہیں اے یار،
بتلائیں نہ اور کسی کو، جو ہے دل میں پیار۔
16
آج بھی باہم مل کر روئے، پربت اور ہجر کی ماری،
من میں ایسی ہوک اُٹھے کہ، چلتی ہو جوں آری۔
17
کیسے تنہا ڈھونڈے کوئی، کوہ و دشت و بیاباں،
کیسے میرے سنگ چلیں گی، میری یہ سب سکھیاں،
باندی حال پریشاں، کر گئی پار جبل کو۔
18
دکھیاروں کا کیا کرلے گا، اے پربت تو تپ کر،
میرے انگ ہیں فولادی گر، سخت ہیں تیرے پتھر،
ہجر میرا مقدر، دوش نہیں ہے اور کسی کا۔
19
سارے سکھ کے ساتھی ہیں اور، کوئی نہ دکھ کا یار،
جو ہو دکھ کی ماری وہ ہی، ڈھونڈے گی کوہیار،
تیرا دکھ دلدار! بنا ہے راہ کا رہبر۔
وائي
جن کی ہوں داسی، وہ تو چھوڑ نہ جائی،
ساجن کو میں مناؤں، پیر دھروں چنری،
آس لیئے بیٹھی ہوں، راہ تکوں تیری،
شہر بھنبھور میں تجھ بن، پل پل ہے بھاری،
کرم کرے کریم تو، تو میں پاؤں تجھے، آری!
تیسری داستان
1
بیٹھ کے گھر کے پاس بہا اب، اشک اری میا!،
شہر اور شہر کے پیڑوں سے بھی، تعلق توڑ دیا،
دشت میں بھٹکیں جن کے دل میں، عشق کا ہو شعلہ،
ساجن چھوڑ نہ جا، تُو اس منزل پر دکھیا کو۔
2
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، ہوت میرے کوہیار،
اللہ اس دکھیا کی جانب، اونٹ کی موڑ مہار،
بنکر خدمتگار، میں کروں گی آریچوں کی سیوا۔
3
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، میں دکھیا کمزور،
چلوں گی تیرے سنگ اے ساجن، چھوڑ کے شہر بھنبھور.
4
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، میرے حاذق ساجن!
تیرے عشق کی آگ میں جل کر خاک ہوئی ہے برہن۔
5
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، تج دی ہے خودداری،
بھٹک گئیں جو خودداری سے، اُن کو تھام اے آری!
6
سوتے سوتے چونک اُٹھوں جب، آئے یاد کوہیار،
تیرے عشق کی ناوک سائیں! گئی جگر کے پار،
جینا ہے دشوار، ایسی عشق کی چوٹ کھائی ہے۔
7
پنہل کے پیکاں کی ہیں، نوکیں تیز اور تیکھی،
ناوکِ عشق سے تڑپ رہا ہے، میرا دل ناشاد،
پل پل میں ہوں تڑپتی، پر دل سے تیر نہ نکلے۔
8
جیسی بھی ہوں تیری ہی میں، باندی ہوں کوہیار!
کیسے تجھ کو ناز دکھائے، یہ برہن، دلدار!
تیرا عشق ہے روزِ ازل سے، تیری ہی لی سہار،
کہاں برابر جوتی کے ہے، یہ دکھیارن نار،
کیسے دوں میں بسار، اپنے کیچی جام کو سکھیو!
9
مردہ ہوں یا زندہ تیری، باندی ہوں کوہیار!
تیرے نام کے ناتے سے ہی، پہچانے سنسار،
چلی ہوں سوئے یار، گو اپنی عزت چھوڑ گیا وہ۔
10
میں تو روزِ ازل سے تیری، باندی ہوں اے یار!
تیرے نام کے بال گتائے، تو میری سرکار،
تو ہی اے دلدار! آن کے پوچھے گا اب پب میں۔
11
وہ جو کیچ کی باسی ہیں میں، ادنیٰ باندی یار،
کیسے اس کو بھول سکوں جو، دل میں ہے دلدار،
کسی کی یار کے دوار، کبھی نہ کم ہو عزت۔
وائي
کریں گے مہر پیا، سنگ مجھے لے جائیں گے،
دشت میں مجھ دکھیارن کو، دیں گے راہ دکھا،
لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ، پی نے فرمایا،
ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا، سچ ہے یہ فرمانا،
کہے لطیف کہ ایسا ہی ہے، میرا راہ نما۔
چوتھی داستان
1
نہ تو ذکر یار ہے کوئی، نہ کچھ خیر خبر،
رونگ کے سارے کوہ و صحرا، پب سے گئے وہ گذر،
دردِ ہجر وہ دے کر، چھوڑ گئے مجھ برہن کو۔
2
نہ تو خیر و خبر ہے کوئی، نہ کوئی ذکر یار،
جانے کب وہ روند گئے ہیں، پربت اور کوہسار،
ترے ہجر میں یار!، اب نکلے گی یہ جان۔
3
بھاڑ میں جھونکوں ہوت کا جانا، سہی نہ جائے جدائی،
پاس رہے گر ساجن پھر کیوں، کر دی میں کوہ پیمائی،
جس کی ہوں شیدائی، اسے دیکھوں ان آنکھوں سے۔
4
دشت میں چل نہ پاؤں میں اور، سہی نہ جائے جدائی،
مولا! ان کی راہ دکھا میں، جن کی ہوئی شیدائی،
اے رھرو! اے پربت! کوئی، کر دے راہ نمائی،
پایا دردِ جدائی، پل بھر کو بس آنکھ لگی تھی۔
5
بات کرو مت جانے کی اب، ہجر سہا نہ جائے،
رہ جائے وہ شہر بھنبھور میں، پل بھر یہاں بِتائے،
جو ٹوٹ کے تجھ کو چاہے، تو مار نہ اس دکھیا کو۔
6
جن کے ہجر کی ماری ہوں کیا، دیکھے وہ اسوار،
تن میں ذرہ بھی جان نہیں ہے، بِن تیرے کوہیار،
سہنا تھا دشوار، دردِ دل تب لب پر لائی۔
7
جن نے مجھ کو مارا اُس کی، رکھتی ہوں پہچان،
نینوں سے یوں تیر چلائے، تن من لہولہان،
تیرے بس میں جان، تجھ بِن کوئی نہ درماں۔
8
جس نے مجھ کو مارا سکھیو!، اُس کو گئی میں جان،
خون نہیں ہے رگوں میں اور اس، تن میں کب ہے جان،
ہوت میرا درمان، ہاتھوں سے دی ہے دوائے درد۔
9
پرتو یار پنہل کا، چھائوں کبھی ہے دھوپ،
اسکا قاتل روپ، کاٹ رہا ہے تن من۔
10
پرتو یار پنہل کا، جلے بجھے ہر گاہ،
پھیل گئی نظروں کے آگے، رنگا رنگی راہ،
چڑہے گا رنگ اتھاہ، پہلے زنگ اُتاریں گے۔
11
پرتو یار پنہل کا، جیسے جھلمل بادل،
روتی ہوں میں پل پل، اس کی راہ میں بیٹھی ہوں۔
12
پرتو یار پنہل کا، میرے دل کی راحت،
برا بھی دن ہو پھر بھی اسکو، جانوں اپنی صحت،
راحت بھری مصیبت، ہے میرے آری جام کی۔
وائي
مل جائے کوہیار، سکھی ری، جیون میں ایک بار!
اونچائی پر چڑھ نہ پاؤں، دل ماندہ ہے یار،
پہنچا پاس پنہل کے جو ہے، پیادہ سفر میں یار،
تیری باندی کی بھی باندی، میں ہوں اے سرکار!
کرم کریم کا ہوگا آن کے دفنائے گا یار۔
پانچویں داستان
1
ہوت پنہل بن دکھ ہی دکھ ہیں، دکھ ہیں اسباب،
موت ہی اب تو آجائے کیوں، ہجر کا سہوں عذاب،
درد سے دل بیتاب، اور درد نہ جانیں سکھیاں۔
2
تیرے بن یہ دکھڑے تیرے، جیون کا ہیں سہارا،
یار بلوچ نے دکھڑوں سے ہے، روشناس کرایا،
دیکھ کہ بِن کیا کیا ساجن، غم کی ہیں آفات،
مرضوں نے ہے مارا، وہ کیسے صحت پائے۔
3
جن کو ہجر کا غم ہو کیسے، پائیگی وہ آرام،
درد سے دل دو نیم ہے سکھیو! ہجر کے ہیں آلام،
جب سے گیا ہے جام، تب سے ہوں بیمار سکھی ری۔
4
تب سے ہوں بیمار کہ جب سے، چھوڑ گیا ہے جام،
کوہیارے کِس اور گئے ہیں، جو ہیں دل آرام،
کرتے ہیں آرام، کیچ میں سسی کے پیارے۔
5
ظاہر کردوں گر میں ذرا بھی، اپنی آتشِ پنہاں،
پھٹ جائیں یہ دشت و جبل اور، ذی روح ہوں حیراں،
جھلسیں دشت و بیاباں، اور ڈھانپ لے چہرہ سورج۔
6
ظاہر کروں گر میں ذرا بھی، اپنی آتشِ پنہاں،
پھٹ جائیں یہ دشت و جبل اور، ذی روح ہوں حیراں،
ٹوٹے کوہِ گراں، جبل بھی سب جل جائیں۔
7
حب کی اور جو چل نہ پائیں، ملادے ان کو یار،
مولا! اِن کو کیچ میں پہنچا، جنکے تن بیمار،
ہوت کو تو نہ بسار، چھوڑ نہ دے تو راہ پنہل کی۔
8
پل پل یاد میں کرتی ہوں میں اپنے یار قصور،
مجھ برہن کو چھوڑ نہ دینا، میرے جام حضور،
بھٹکیں جو مہجور، ان کو سیدھی راہ دکھا۔
9
سکھیاں آن کے کہتی ہیں کہ، من سے اسے بِسار،
میرا درد کیا سمجھیں گی وہ اُن کو سکھ سے پیار،
درد مجھے درکار، خوشیاں انکو مبارک ہوں۔
10
دل کا درد مٹانے کو تو، آ جاتی ہیں سکھیاں،
دل میں زخم ہجر نہیں ہے، ریا ہے انکا رونا،
کر کر یاد وہ جاناں، روتی ہیں کب دل سے۔
11
جن کے دل میں درد نہیں وہ، آن کریں کیوں ماتم،
دل میں دردِ یار نہیں ہے، جھوٹا اِنکا سب غم،
روٹھے جس سے پریتم، دل سے بین وہ کرتی ہیں۔
وائي
سنگ نہ وہ لے جائیں، پھر بھی اُن کی باندی ہوں میں،
مجھ جیسی کمزور کو کیونکر، ساجن زور دکھائیں،
اپنے دیس میں جاکر ساجن، مجھ کو نہ بِسرائیں،
شاید پریت کا امرت دھارا، مجھ کو بھی وہ پلائیں،
کبھی تو ساجن باندی کہہ کر، مجھ کو پاس بُلائیں،
محمل تو نہ روکیں ساجن، پیادہ چل نہ پائیں،
سکھیو! شاہ لیف کہے وہ، مجھ سے پریت نبھائیں۔
چھٹی داستان
1
کیسے روؤں سجن کے آگے، میں کیا جانوں یار!
آنسو بھیگے ہاتھ اُٹھائے، بھٹکتی ہوں دلدار۔
2
کیسے روؤں یار کے آگے، بجھی بجھی ہے آگ،
کیا کیا سنگ و خار ہیں رہ میں، دشت ہے ہیبت ناک،
جو ہیں سینہ چاک، انکی آہ سے گونجے پربت۔
3
کیسے روؤں یار کے آگے، جلن کا کیا اظہار،
چھپ چھپ آہیں بھرتی ہوں میں، آگ میں جل کر یار،
کرتے ہیں اظہار، کوہ کے باسی اور طرح سے۔
4
کیسے روؤں یار کے آگے، انجانی ہیں راہیں،
یار کی خاطر جھکا کے گردن، بھرتی ہوں میں آہیں۔
5
کیسے روؤں یار کے آگے، انجانی ہے راہ،
پل پل یار کا ماتم ہے اور، پل پل لب پر آہ،
دل میں درد اتھاہ، قسمت ہے کہ دشت میں بھٹکوں۔
6
کیسے روؤں یار کے آگے، میرا رونا جھوٹا،
سنی ہے میں نے ویرانوں میں، اور طرح کی آہ و بکا۔
7
ویرانوں کو گلشن جانیں، یار کے جو سودائی،
جا تو اِن کے پاس سکھی! جو حق کے ہیں شیدائی،
کب دیکھیں یکتائی، پھیر ہو جن کی آنکھوں میں۔
8
چھوڑ دے اب تُو دوئی کو تو، یکتائی کو پائے،
ٹیرھی آنکھیں اور کو دیکھیں، یہ نہ یار کو بھائے۔
9
ابھی تو ہے گمرا ہ ابھی ہے، سیدھی راہ سے غافل،
سیدھی راہ پہ چلے اگر تو، راہ دکھائے دل۔
10
لوٹ کے تو مت آنا سسی، دیکھ کہ پب کے پربت،
یار کی راہ میں دشت بچھا ہے، اب قالیں کی صورت،
11
ہائے یہ بادِ صر صر اور یہ،گرم دہکتا میداں،
جُھلس گئے ہیں نیناں، دشت کی گرم ہوا سے۔
وائي
من جائے وہ پیارا، کروں میں آہ و زاری،
کیسے رہونگی زندہ مجھ کو، دردِ ہجر نے مارا،
میرے یار سجن نے سکھیو! اونٹوں کو ہنکارا،
ساجن نے یوں ظلم ہے ڈھایا، چھایا ہے اندھیارا،
من زاری سے من جائے، شاید ساجن پیارا،
برہن بن کر ہولی کھیلوں، رنگوں بھیس میں سارا،
کہے لطیف کہ راہ تکے ہے، اسکا من بیچارا۔
وائي
ساجن مہر کرے، جس کی خاطر بن میں بھٹکوں،
میں تو اس ساجن کی باندی، پلی دنیا کہے،
سنگ اپنے لے جائے ساجن، ساتھ نہ وہ چھوڑے،
رو کر رنگونگی خون سے خون رنگے کپڑے،
آریانی کے عشق میں گھائل، پل پل وہ تڑپے،
عشق کا قہری تیر وہ ساجن، مار گیا موہے،
کہے لطیف کہ نالائق پر، کرم وہ فرماوے۔
سر حسینی
پہلی داستان
1
ٹھہر نہ، سورج ڈوب چلا ہے، چھوڑ دے اب تو سُستی،
شفق کھلے آکاش میں جب تو، دیکھے "کیچ" کی ہستی۔
2
ٹھہر نہ سورج چلا ہے، کرلے اب ہمت،
ابھی تو سورج سامنے ہے کر نہ تو غفلت،
ایسی کر عجلت، کہ پہنچے شام سے پہلے۔
3
ٹھہر نہ، سورج ڈوب چلا ہے، تیز بڑھا دے گام،
"ھاڑے" اور چلیں جو اُن کا، چلنا ہی ہے کام۔
4
دور سے دیکھے کالے پربت، سورج ڈوبا شام،
درد ہی زاد رہ سفر ہے، اس کا دیکھ خرام،
تیز بڑھاتی گام، چلی ہے وہ "ونکار" کو۔
5
اے سورج! مت ڈوب کے کر تو دیر مجھ معذور،
مروں میں پھر اور پہلے دیکھوں، نقشِ قدم پتھروں پر۔
6
کر میں کیا سکتی ہوں اب کچھ دور گیا کوہیار،
سورج ڈوب چلے گا اور میں، بھٹکوں گی کوہسار۔
7
بیٹھے بیٹھے سورج ڈوبا، اُس پربت کے پار،
اب تک اس سنگلاخ زمیں پر، ڈھونڈوں نقشِ یار،
دکھ سے ہو دو چار، اب تو ویراں پربت میں۔
8
میرے سنگ چلو نہ سکھیو!، آگے دشت، سراب،
دور سفر اور اُڑتی دھول، جہاں نہ قطرہء آب،
موت کے ہیں اسباب کہیں دعائے بد نہ، "ہوت" کو دو۔
9
سورج ڈوبا شام ہوئی یہ، رنگ شفق، اشجار،
ڈوب کے سورج نے اے میا! دیا ہے مجھ کو مار۔
10
پیڑوں پر سے دھوپ ڈھلی اور، شفق کے رنگ کھلے،
جس سے میرا جُڑا ہے رشتہ، وہ تو کیچ گئے۔
11
پتھر پر کب نقشِ قدم ہیں، کیا نہ یہاں پڑاؤ،
آخری بار وہ آئے تھے اور، خوب نبھایا چاؤ۔
12
سکھیو! دشت میں مرجاؤں گی، اپنے جت کے کارن،
بھٹکایا اس پربت میں اور، ویراں کر گئے جیون۔
13
جن پر جاں قربان کروں میں، آئے ہیں وہ صحرائی،
دور سے ہی پہچان گئی وہ، چال جو من کو بھائی،
جن کی میں سودائی، وہ آئے ہیں میرے سہارے۔
14
سنی ملن کی بات، یا یونہی بھٹک رہی ہے،
تیرے جیسے بھٹک گئیں جو، چلے تھیں یار کی باٹ،
جتوں کی یہ ہیں صفات، کہ ترس انہیں نہ آئے۔
وائي
گر دیکھا ہوتا حال، پربت میں مجھ دکھیاری کا،
ہائے یہ اونچے پربت جن پر، چڑہنا میرا محال،
دیا جہیز میں دکھیارن کو، دشت، جبل، جنجال،
کہتی تھی ہر پیڑ سے سن مجھ، دکھیا کے احوال،
اس کو گر میں ساتھ لے آئی، جو ہے لعلن لال،
پوجونگی ہر ایک شجر کو، چومونگی ہر ڈال،
دل کو کاٹ کے رکھ دیا ہے جڑ سے دیا نکال،
ایسے زخم کھلے ہیں جیسے، پھول انار کی لال،
پب کے پتھر منکے ہیں، جو بھیج گیا یار،
اس پہ میں قربان جیئے، وہ، میرا لعلن لال،
ہوتا گر معلوم مجھے ان، جتوں کے دل کا حال،
یار کے سنگ میں سیج پہ سوتی، گلے میں بانہیں ڈال،
کہے لطیف کہ آس ہے پوری، آیا حسن کمال۔
دوسری داستان
1
ایک تو دھرتی آگ ہے، ماں!، دوجی من میں پریت اگن،
دونوں اگن میں جل جل کر ڈھونڈ رہی ہے برہن۔
2
انگ انگ میں عشق کی اگنی، پریت میں من یہ جلے،
پریت جلن کیا جانے میا! کرتی ہے تو گلے،
آجا قریب تو میرے، تو بتاؤں کیا ہے درد ہجر کا۔
3
نینن سے یوں نیر بہیں کہ جیسے ساون برکھا،
میں سمجھی یہ عشق ہے، لیکن یہ ہے شعلہ۔
4
روح سے یار کے نقش مٹیں اور، یار کو گر بسراؤں،
تھل کے پپیہے کی صورت، مجھے لو لگے مرجاؤں۔
5
لگے مجھے تو، مجھے ہے عشق تارا،
جس سے روح کا رشتہ، وہ تو کیچ گیا۔
6
ٹپک رہے ہیں نین سے آنسو، جیسے خون کے قطرے،
مار کے اس برہن کو اب تم، کیچ کی اور چلے۔
7
چرخہ لے آ میا، وہاں سے جاں رکھا ہے،
جس کے کارن کاتا، وہ تو کیچ گیا۔
8
اب نہ کتوا پونی میا! میں ہوں اب بے کار،
پونی ڈال دے پانی میں اور، چرخے کو دے وار،
کیچ گیا کوہیار، جس کے کارن چرخہ کاتا۔
9
اب نہ کتوا پونی میا!، میں ہوں اب بے کار،
عشق نے جان نکالی تن سے، ڈھونڈلے اور کاتار،
10
آگ میں جھونکو چرخہ پونی، آسن اور یہ سکھیاں،
عشق میں جھونک گیا ہے میری جان، وہ ساجن سیاں۔
11
سب کے کہنے پر جب کاتا، تار نہ مجھ سے نکلا،
ایسے نینن سے آنسو ٹپکے، بھیگ چلا ہے تکلا۔
12
بھاڑ میں جائے ہوت پنہل اور، میا! اِس کی پریت،
میں نے مانی موت جب دیکھا، میں نے اپنا میت۔
13
بھاڑ میں جھونکوں ان کی بولی، ہوت اور وہ سارے جت،
مجھ کو تڑپا کر وہ خود تو، چھپے ہیں جا پربت۔
14
جوں جوں دھوپ ہو تیز وہ توں توں، تیز بڑھائے گام،
ہوت سے اس کی پریت ازل سے، ہوت ہی اس کا "جام"۔
15
توں توں تیز کرے وہ گام، جوں جوں بھیگے رات،
کرے نہ دوجی بات، ہوت پنہل کی بات ہے لب پر۔
16
نہ تو یوم حساب ہی آیا، نہ ہی دھوپ چڑھی،
ہر ایک چرخہ کاتنے والی، ناتہ توڑ چلی۔
17
جب تک جیئے تو جل، جلنے بن کیا حاصل،
ہر حالت میں چل، وقت کہاں آرام کا۔
18
ہر حالت میں چل، دھوپ ہو چاہے چھاؤں،
دھوپ گئی گر ڈھل، تو کیسے نقشِ یار ملیں گے۔
وائي
میرا ہار سنگھار، میرا حسن جمال ہے ساجن،
ساجن میرے گلے کا گہنہ، جھلمل کرتا ہار،
جن کی عریاں انگ ہیں اُن کو، ڈھانپے تیرا پیار،
تیری ایک نظر سے ساجن، پیاسا تن سرشار،
جھوم اُٹھے ہے تن میں میرا، جب جب ہو دیدار،
ہوت پنہل کے حسن سے سارا، جگمگ یہ کوہسار،
مہک اُٹھے ویرانے سارے، مہکی ہے "ونکار"،
دشت سے پھوٹی مہک اور مہکا سارا ہے سنسار،
میرے جیسے لاکھ کروڑوں، ساجن پر ہیں نثار،
تیری اعلیٰ شان میں تیری، باندی ہوں سرکار،
واری جاؤں گلی گلی پر، جہاں سے گذرے یار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ملا ہے وہ "من ٹھار"۔
تیسری داستان
1
بیٹھے بیٹھے یاد جو آئی، کوئی ادائے یار،
اُکھڑ گیا دل شہر بھنبھور سے، رہنا یاں دشوار۔
2
شہر بھنبھور کے لاؤ کے کارن، بچھڑ گیا کوہسار،
اب تو دکھ تکلیفوں سے، ڈھونڈوں میں کوہسار۔
3
چھوڑو شہر بھنبھور کو سکھیو، رہو نہ یاں ایک پل،
شہر نے کیا کیا درد دیا اور، ہوئی ہیں سکھیاں گھائل۔
4
اُٹھتا ہے اس شہر بھنبھور سے، دوزخ کا سا دھواں،
ڈھونڈ کے راہ کا رہبر ہوجا، دشت کی اور رواں۔
5
درد میں اب دن بیت رہے ہیں، اجڑا شہر بھنبھور،
ان کے ہجر میں تڑپ رہی ہوں، گئے جو کیچ کی اور،
میرے وہ چت چور، کیسے بھولوں لادگئے جو۔
6
شہر بھنبھور سے بہتر ہے اب، دشت کا یہ ویرانہ،
جس نے مجھ کو سکھلایا ہے، یوں تکلیف اُٹھانا۔
7
دشت کے ویراں وسعت سے تو، شہر بھنبھور تھا اچھا،
جہاں پہ سکھیو دیکھا میں نے، اپنے یار کا چہرہ۔
8
بھنبھور کی ناراں عورت نے ایک رشتہ کی خاطر،
اپنا یار گنوایا اسکو ڈھونڈ تو دشت میں جا کر۔
9
شہر بھنبھور تھا ناداں، کہ چلا نہ ہوت کے پیچھے،
شہر نے دل سے کب پہچانا، ہوت میرا گنوان،
جو بھی گئے پہچان، پایا انہوں نے ہوت پنہل کو۔
10
جس نے دل سے یار کو دیکھا، مانا اس کو رہبر،
تب بھی اس کی راہ نہ چھوڑی، چھپ گیا جب دلبر۔
11
برا تھا شہر بھنبھور، دھویا آن کے "آریانی" نے،
ختم کیے سب خوف خطر اور، چھٹی گھٹا گھنگھور،
سکھیوں نے کپڑے رنگوائے، کیا پنہل کو "پور"،
ہر دکھیا کمزور، گھونگھٹ کاڑا کے بیٹھی ہے۔
وائي
پربت میں دیکھیں، تازہ نقش پائے یار،
تیز ہوا اور ریت بگولے، پھر بھی نقش نہ مٹیں،
کستوری وہ دھول جہاں پہ، پریتم پیر دھریں،
اونٹ تو روند چلے پربت کو، ویراں یہ راہیں،
کہے لطیف کہ مجھ برہن پر ، وہ تو کرم کریں۔
چوتھی داستان
1
میری ذات کا علم ہوا تو، آئی ان کو لاج،
سکھیو، صبح سویرے مجھ کو، چھوڑ گئے وہ آج۔
2
ہوتی گر میں بلوچ کی باندی، چھوڑ نہ جاتا یار،
دکھ میں میرا ساتھی ہوتا، آن کو وہ کوہیار۔
3
سکھیو! ان کوہیاروں ، سے، ہوتا گر کوئی ناتا،
سنگ لے جاتا مجھ کو بھی اور، لادتے وقت بلایا۔
4
ان سے ناتہ ہوتا، کرتی، دکھ کا میں اظہار،
مجھ کو خود سے لاج آتی تھی، میں تھی دھوبن نار،
میری ذات کے کار، چھوڑ گئے اے میا!۔
5
صبح کو کی تیاری، روکے نہ رکے دیور،
چلے صبح کو آری، کیچ بسا تھا آنکھوں میں۔
6
رہتا کب وہ آری، گر بال بچھاتی راہوں میں،
کرلی یوں تیاری، شاید کوئی عیب تھا مجھ میں۔
7
تو تو ان کی سنگ نہ جاگی، اب کاہے کو روئے،
یہ کب ریت ہے پریت کی سسی! پریت کرے اور سوئے۔
8
کہاں گئے وہ ساتھی میرے، من کی تھی آدھار،
کس کے دوار پہ جاؤں میں اب، کسی کی رہی سہار۔
9
گئے جو وہاں سےلاد، کس نے میرے ساتھی دیکھے،
پل پل اُن کو یاد، آنکھیں خون کے آنسو روئیں۔
10
دیتی ہوں آوازیں، لیکن، دیتے نہیں جواب،
کبھی تو دوار پہ ناقے تھے جو، ہوگئے اب نایاب،
کیا کیا دیے عذاب، برے اس شہر بھنبھور نے۔
11
چلوں تو کیچ سے دور ہے ساجن، بیٹھوں تو ہے ساتھ،
اپنے اس کیچی کے کارن، بھٹکی میں ہیہات۔
وائي
بھٹک رہی کوہسار، وندر کے اشجار، ڈھونڈے پربت پربت،
میرے درد کے ساتھی ہیں یہ، دشت جبل کوہسار،
تیرے اونٹ چراؤں سائیں!، جہاں پہ سبزہ زار،
موتی جڑ کر خوب سجاؤں، اونٹوں کی میں مہار،
وہ تو سیدھی راہ نہ پوچھے چلے ہے سوئے یار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، انگنا آئے یار۔
وائي
میرے ہوت سجن، میں دشت میں دونگی جان،
چھوڑ کے شہر بھنبھور اے سائیں!، آئی میں تیرے آنگن،
برہ میں پل بھی بیت نہ پائے، تجھ بن اے ساجن،
دکھ ہی دکھ ہیں سائیں، میں دکھیا برہن،
پی کر تیری پریت کا پیالا، ہوگئی مست مگن،
تب تک موت نہ آئے جب تک، پاؤں تیرا درشن،
پل پل بھڑک رہی ہے من میں، تیری پریت اگن،
سنا تھا جب کہ لاد چلیں گے، تڑپی تب برہن،
آنکھ اُٹھا کہ دیکھ تو سائیں، کھل اُٹھے تن من،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، مہر کرے وہ ساجن۔
پانچویں داستان
1
گئے "بیلے" سے گذر کے ناقے، "مانبانی" کے پار،
لے گئے ہیں وہ کیچ کے باسی، میرا سوہنا یار،
ان کی تھی آدھار، جب تھے شہر بھنبھور میں۔
2
شہر بھنبھور میں آئے جب تو، اُن کی تھی آدھار،
دوجوں کی وہ راہ چلے اور، دور گئے کوہیار۔
3
لے جا سارے گہنے اپنے، توڑ دوں ہر کنگن،
جن کے سنگ ہیں پریتم وہ ہی بیٹھیں سیج پے بن ٹھن،
میا طعنے دیتی ہے، نہیں جانتی پریت اگن،
بھٹکا گئے بن بن، مجھ کو ہوت پنہل کے بھائی۔
4
لے جا یہ کم خواب کا بستر، سیج نہیں درکار،
جو کچھ دیا جہیز میں میا!، سب کچھ دوں گی وار،
ڈھونڈوں گی ونکار، میں اس یار کے نقشِ پا۔
5
سیج بنی سنگلاخ زمیں اور، پتھر کا بستر،
رات کو ساتھی حیواں تھے اور، ہیبت کا منظر،
تجھ کارن دلبر، دشت کو سیج میں جانوں۔
6
ہوت پنہل نے سسی کو دی، پریت کی اک سوغات،
سارے جگ میں ہی سسی کو، دکھائی تڑپ نے باٹ۔
7
اے ماں مسافروں سے کیا عشق کا تھا بیوپار،
ایک نظر میں پریت ہوئی جب، دیکھا وہ کوہیار،
لوٹ گئے دل یار، روک نہ مجھ کو اے میا!
8
پردیسی سے سسئی، تونے، کیسے کرلی پریت،
ناداں! تونے کوہیارل کو، کیوں گردانا میت،
سمجھی ہوگی جیت، عشق نہیں ہے کھیل اے سسی۔
9
شہر بھنبھور کے باسی میرا، چھپا سکے نہ اوگن،
ان کو آن کے بتلایا، ذات کی ہوں میں دھوبن،
جبھی ہوئے وہ بدظن، اور مجھ کو سوتا چھوڑ گئے۔
10
لحنِ حسینی کی ہر سُر نے، موہ دیا ہے من،
رات کو زخم وہ سہلائے اور، دن کو ڈھونڈے بن،
خوف ہے یہ ساجن!، کہ سدا کا ہجر نہ آئے۔
11
کب ہے وصل میں حاصل سکھیو! جو ہے فراق میں حاصل،
آنگن آئے وصل ہوا، اور دور وہ لے گئے محمل۔
12
آجا اب تُو فراق! کہ، وصل سے آئی دوری،
سِل گئے حسرت وصل کے گھاؤ،ہر حسرت ہوئی پوری۔
وائي
میرا حال پریشان، کوئی آن نہ مان، تجھ بن یار بلوچا!
دیکھتی کارن ناقوں کو، تڑپتی ہوں ہر آن،
ہنستا بستا شہر جوں صحرا ، گلی گلی ویران،
بھٹک رہی ہوں صحرا صحرا، تنہا اور حیران،
بین کروں دن رین ملن کو درشن کا دے دان،
آری جام کو عشق کا سکھیو! دل میں کاری بان،
اس پگلی کو دے گئے کیا کیا، دکھڑوں کا سامان،
کب پہنچوں گی کیچ کو کب ہوگا وہاں مکان،
شاہ لطیف کوی کا ساجن! تو ہی ہے اگوان۔
چھٹی داستان
1
جاگی من میں اُمنگ، آئے ہوت بھنبھور میں،
دیکھ کے ہوت کے سنگی ساتھی، جھوم اُٹھےمیرے انگ،
من میں عجب ترنگ، میرے دور ہوئے سب دکھڑے۔
2
درد دل نے آن دکھائی، یار کی راہ گذر،
درد ہوا رہبر، تو پی سنگ ملن ہوا۔
3
درد دل انمول سکھی ری! درد سا اور نہ دھن،
بھرلیں اب دامن، درد کے ہم بنجارے بن کر۔
4
سکھ خوشیاں سب وار کے سکھیو! کروں میں سر کا سودا،
سر دے کر گر درد ملے تو، سودا جانوں سستا۔
5
سکھ خوشیاں سب دے کر میں نے، لیا جو درد کا مال،
درد نے نقش یار دکھائے، درد کا یہ ہی مال۔
6
درد میں گھلتی جاتی ہوں، اے درد! بڑھا نہ کسک،
درد میں ایسے جان گھلی ہے، جوں پانی میں نمک۔
7
چھوڑ نہ دینا اے غم جوں چھوڑ گیا ہے یار،
بعد سجن کے تم ہی تو ہے، جسے سناؤں دل کا حال۔
8
دل میں درد ہی درد ہے سکھیو!، درد ہوا نہ کم،
چڑہے کنویں کا پانی جوں، دل میں یار کا غم۔
9
دل میں درد ہی درد ہے سکھیو، ذرا بھی کم نہیں ہوتا،
آب کو سیلاب کنویں کا، درد ہے آج یوں زیادہ۔
10
درد ذرا بھی کم نہیں ہوتا، شدت سے ہے بڑہتا،
درد اتھاہ ہے دل میں میرے اپنے یار ساجن کا،
کرے جو ختم حیا، ایسا درد دل دیا ہے۔
11
چپکے سے اس دل میں جمائے، درد نے آن کے ڈیرے،
کیونکر بتلاؤں کہ درد، سدا دل دمکے۔
12
اے درد میں ہوں عادی تیری، تو بدل نہ دینا خُو،
پل بھر کو بھی چھوڑ نہ دینا، میرے دل کو تو،
مل جائے مہرو، تب جانا تو اس دل سے۔
13
ایک ابھرے تو دوجا چمکے، طرح طرح کے غم،
عشق یار نے ہوش گنوائے، رہا نہ اب دم خم،
تیر نظر پریتم، مار گیا مجھ برہن کو۔
14
لگا ہے بان بلوچ کا، ناقوں کے ہیں ستم،
پھنس نہ جائے ناقے رہ میں، پڑے نہ شب کو شبنم،
ایک نظر پریتم! ٹھنڈک ہے آنکھوں کی۔
15
روک نہ اب اے میا! مجھ کو، لگا بلوچ کا بان،
کیچ تلک کی دھرتی رنگ دوں، تن ہو لہولہان،
کرینگے یہ ہلکان، پریت نے گھیر لیا ہے۔
16
دل میں درد جھلستا دشت، آگ ہوئی ہے دھرتی،
جلتے دشت میں جینے کی، امید نہیں اب باقی۔
17
شاید جگ سے لاد گئی ہے، ہر اک درد کی ماری،
کِس کو دل کا درد سناؤں، پوچھوں کہاں ہے آری۔
18
مل بیٹھیں جب درد کے مارے، کریں وہ تب ماتم،
اوروں کا جگ دکھلاوا، روئیں جن کو یار کا غم۔
19
کہاں ہے کوئی درد کی ماری، نہ ہی کریں ماتم،
مجھ کو ہی اب مار رہے ہیں، میرے درد و غم۔
20
بانٹ سکوں تو بانٹ لوں سکھیو! اپنے رنج و الم،
اور نہ جانیں، وہ ہی جانیں، جن کو یار کا غم۔
21
مُٹھی بھر غم ملے ہیں سب کو، میرے غم بسیار،
سر پر دھر کر درد کی گھٹڑی، صدائیں دو ہر دوار،
درد کا کاروبار، جو کرتے تھے وہ لاد گئے۔
22
کس کر باندھ کمر اے سسئی! کیچ بہت ہے دور،
راہ میں اے رنجور!، مر نہ جائے بھٹک بھٹک کر۔
23
کس کر پھر سے باندھ کمر، ہوجا اب تیار،
درد میں دشت نہ بھٹکیگی، بن تیرے کوئی نار۔
24
دکھ ہی حسن ہے سکھ کا فرمان، دکھ بناں سب سکھ،
دکھ ساجن کو آنگن لایا، اعلیٰ ہے یہ دکھ۔
وائي
جس سے پریت ہے میری، اس کوہیاری کی کوئی،
من میں بات چھپی ہے،
روند کے اونچے پربت میں تو، دیکھوں ساجن وہ ہی،
چلوں میں "ھاڑے" یار کے کارن، جس سا اور نہ کوئی،
پیغام اسے تو پہنچا راہرو جس سے پریت ہے میری،
ہوت چلیں اور میں بیٹھوں کیا پریت کی ریت ہے یہ ہی،
سسئی کے اس سر کو سائیں، لے جاتا وہاں تو لے،
اس کے قدموں میں دفنانا، جس سے پریت ہے موہے،
کہے لطیف ملادے ساجن، جس کے کارن روئی۔
ساتویں داستان
1
اپنے ہوت پنہل کو سکھیو، جو ڈھونڈیں وہ پائیں،
وہ ہی پہنچیں یار کے آنگن، اسے جو ڈھونڈنے جائیں۔
2
گر ہے من میں پریت تو ڈھونڈن، ورنہ کر نہ طلب،
یار کو ڈھونڈنے جاتے ہیں وہ، یار سے دور ہیں کب۔
3
یار کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، ملے نہ وہ کوہیار،
کہیں ملن سے ختم نہ ہو یہ، تڑپ طلب اور پیار۔
4
ڈھونڈوں اور نہ پاؤں ان کو، جو کل کے ساتھی تھے،
سمیٹ کے سارا سامان گئے وہ جانے کس مقصد سے۔
5
تجھ کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، سدا رہے تو دور،
پل بھی بیت نہ پائے تجھ بن، سدا ہو من رنجور۔
6
تجھ کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، تن کا ہو نہ ملن،
انگ انگ میں پیاس ہو تیری، سدا یہ تڑپے برہن۔
7
تجھ کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، مان لے عرض تو میری،
تیری پریت میں جاں نکلے اور، تڑپے درد کی ماری،
تجھ سے ملے بیچاری جب شام ڈھلے اور سورج ڈوبے۔
8
چھوڑ دیا پربت پہ چڑھنا، ہار دی میں نے ہمت،
من میں یار کی چاہت، ڈال گیا ہے درد کا دام۔
9
چھوڑ دیا پربت پہ چڑھنا، چلوں نہ اب اک گام،
تیرے ملن کی آس میں میں نے، سہے پربت کے آلام،
تو ہی اب جام، میں تو تھک کر بیٹھ گئی ہوں۔
10
تھک کر بیٹھ گئی ہوں ساجن!، اب تو آن کے تھام،
تھکی ہوئی کی پریت ہے تجھ سے، رینگتی ہوں اب ہر گام۔
11
کرے گی جو بھی پیار، میری طرح اِس ہوت پنہل سے،
روندے گی کوہسار، اور پیا ملن کو ترسے گی۔
12
کرے گی جو بھی پیار، میری طرح اس ہوت بلوچ سے،
روئیگی زار قطار، پل پل ہجر کی سولی ہوگی۔
13
کرے گی دل کی باتیں، جو بھی ہوت پنہل سے،
سدا ہی اُس کی آنکھیں، روئیں گی خون کے آنسو۔
وائي
کیسے لاڈ کروں اے یار! جت زور آور ذات،
جل جل بھٹی میں راکھ کی ڈھیری، اگنی تیرا پیار،
کیچ دھنی کے کارن میں تو، بن میں کروں پکار،
شام ڈھلی تو دھندلائے سب، نقشِ پائے یار،
تیری پریت کا پیاسا تن من، مانگے تیرا پیار،
ھانک کے لے گئے اونٹ سکھی اور، گئے برہن کو مار،
بھیگے نیناں بھٹک رہے ہیں، ڈھونڈیں تیرا دوار،
میرے نینن میں نیند بھری تھی، دور گیا دلدار،
دشت میں دیکھا دکھیاروں کو، روتے زارو قطار،
کہے لطیف کہ ہیرے کی ہے، دیکھی چمک اے یار۔
آٹھویں داستان
1
مرتی ہوں اے ماں کہ وہ تو، اُجڑا کرگئے آنگن،
مارے گی مجھ برہن کو اب، تیری ہوت! لگن،
چھوڑ گیا وہ ساجن، اب کیا جینا اس جگ میں۔
2
گئے اورانگ کے آنگن وہ تو، ہائے رے صد افسوس،
دیوانی کا دوست، ساتھی ہے ویرانے میں۔
3
گئے اورانگ کے آنگن اب تو، ان کو ڈھونڈنے چل،
پل نہ بیٹھ بھنبھور میں ملیگا پنہل،
چل تو دشت کو چل، تو ملن ہو اپنے پریتم کا۔
4
گئے اورانگ کے آنگن اب یہ، کرے گی دکھیا کیا،
آگ میں جھونکوں شہر کہ جس کو، ساجن چھوڑ گیا۔
5
چھوڑ کے اس دکھیا کو وہ تو، گئے اورانگ کے آنگن،
ہوت بلوچ تھے اونٹوں پر اور، پیادہ پا دکھیارن،
ہاتھ اُٹھا کر روتی ہے اور، رینگتی ہے یہ برہن،
ماتم ہے اے ساجن!، کوئی تو جاکر کہہ دے اس کو۔
6
اتنی جان پہچان تھی پر، چھوڑ گئے کوہیار،
تن کھورے کی مانند دہکے، من میں ہے انگار،
مثل جوئے ہار، دشت میں بہانے پڑگئے آنسو۔
7
توڑ کر گہرا ناتہ گئے، دیور دشمن جانی،
سکھیو! کیسے چھوڑ سکوں میں، اپنا وہ آریانی،
بھرتی رہی میں پانی، پر خدمت میری کام نہ آئی۔
8
ہوتا گر معلوم کہ مجھ سے، بچھڑیگا پنہل،
دھو دیتی قسمت کا لکھا، میں تو روزِ ازل،
سکھیو! دشت، جبل، پھر یوں نہ بھٹکنے پڑتے۔
9
اُٹھ تو اے برہن، چلے ہیں ہوت بلوچ،
ان سا اور سجن، تجھ کو کون ملے گا جگ میں۔
10
لپک کے ان کو لے آتی جب، چلے تھے تیرے خان،
جھیلتی کیوں تو دکھڑے اور کیوں، ہوتا غم ہر آن۔
11
جہاں پہ ٹولوں کی صورت میں الگ ہوئے تھے ناقے،
کیوں نہ اپنی جان فدا کی، تونے وہاں پہ جاکے۔
12
رما کی دھونی راہوں میں اب، ڈھونڈ تو اپنا میت،
گئے وہ پربت پار اے سسی!، توڑ نہ ان سے پریت۔
13
ٹوٹ کے الگ نہ ہو کہ سارے، جائیں گے پربت پار،
تنہا کہیں نہ رہ جائے اور ڈھونڈ نہ پائے قطار۔
14
ان کی اپنی بولی کی میں بات سمجھ نہ پائی،
سن کر انکی باتیں میں تو، اپنی بات ہی بھولی۔
15
جان سکی نہ بولی ان کی، بولی تھی کہ پہلیی،
کبھی بھی ان سے ایسا تعلق، رہے نہ پھر اے سہیلی!
16
آئے وہ "ونکار" سے آکر، بولے ایسی بولی،
سن کر بولی نیند اُڑی، میری ان آنکھوں کی۔
17
پوچھا ہے جب ہوت پنہل کا، پھر کیا جگ کے بندھن،
دین دھرم سب دور ہوئے، دیکھ آئے جو ساجن۔
18
چلو اور خوش رہو، تم دکھ نہ دیکھو مت کہیں،
جو ہے تمہارا رہبر تم پہچان کراؤ اس کی،
تم بھی کروں یوں نیکی، اور میں بھی ملوں ساجن سے۔
وائي
دشت میں چھوڑ نہ جانا، تیرا دامن تھام لیا ہے،
میں لاوارث اور ابھاگن، تم تو پریت نبھانا،
دشت و جبل میں مجھ دکھیا کو، ساجن چھوڑ نہ جانا،
اے اسوارو! دھیان سے میرے، ہوت کو واں لے جاناں،
میں نے تو گن گنوا دیئے ہیں، اپنے گن دکھلانا،
کبھی تو میرے آنگن میں، جوگی بن کر آنا،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، آنا لوٹ کے آنا۔
نویں داستان
1
خنجر کب ہے مارے مجھ کو، مارے درد نہاں،
درد کہ جس میں جی نہ پائیں، درد ہے بے درماں۔
2
کب خنجر نے مارا مجھ کو، مار گیا ہے درد،
جنہوں نے مارا کہاں گئے ہیں جت وہ دشت نورد۔
3
سکھیو! ایسے چیر دیا ہے، جتوں نے میرا دل،
سینا چاہوں زخم جگر پر، سینا ہے مشکل۔
4
آئیں شہر بھنبھور میں سکھیو! ایسے بلوچی خان،
جن کے سنگ رہیں تو جاگے، اندر کا انسان۔
5
بھول کے خوشیاں، رو تو اے دل!، کر تو اُسی کی بات،
چھوڑ گیا وہ یار پنہل بس، دو دن کا تھا ساتھ۔
6
پل پل آہ و بکا سے سکھیو! گونجے ہے آنگن،
دل بسمل اور ہجر جاناں، تڑپن اور جلن،
دشت کو ہوت، سجن! پگھلاؤں گی خون سے۔
7
رونے سے کیا حاصل سسئی!، آئے گا نہ سجن،
کیسے کیسے ستم کییئے ہیں، گھائل ہے تن من،
اب تو اللہ کارن، کبھی نہ کوئی دھوکہ دے۔
8
روؤں تو یہ کھیل ہے گویا، ہنسوں تو روئے دل،
دیکھ کے مسکائینگی اکھیاں، ہوت کی صورت جھلمل۔
9
کب یہ آنکھیں روئی تھیں جب، پریتم گئے تھے لاد،
یار کو جاتا دیکھتی رہ گئیں، کر نہ سکیں فریاد۔
10
پریت کے مارے نہ کوہیارون کے، چپ رہتے ہیں نین،
بن ساجن یہ نین ابھاگے، روتے ہیں دن رین۔
11
برس برس کر تھک گئے، روئیں خون کے آنسو نین،
اب بھی پب کی اور جمے ہیں، پل بھر نہیں ہے چین،
دوست نہیں یہ تین، کہ روک سکے نہ ساجن کو۔
12
برس برس کر برکھا نے، سب مٹائے نقش پا،
پھر بھی پوچھ رہی تھی برہن، دیس اپنے ساجن کا۔
13
جل کر راکھ ہوئی ہے برہن، اے نہ اور جلاؤ،
ذرا تو آگ بجھاؤ، ذرا تو مارو چھینٹا۔
14
چھاؤں میں بیٹھی پیڑوں کی اور، بہائے خون کے آنسو،
کب دیکھوں گی تیری صورت، کب آئے گا تو۔
15
جہاں پہ میرے ہوت بلوچ نے رکھے اپنے قدم،
تکتی ہوں ان نقشِ پا کو، میں تو بس ہر دم۔
16
اچھا ہے تو کہ مرجاؤں، لیتی ہیں سب نام،
باندی بن کر گھوموں میں تو پڑوس میں میرے جام۔
17
جان سے بس اک بار ہی مارو، دکھڑے ہوں سب ختم،
ہجر میں کیونکر جیتی ہوں میں، رِستا ہے ہر زخم۔
اضافی بیت
18
جیتی ہوں نہ مرتی ہوں، تیرے ہجر میں یار،
تیری یاد میں جاں نکلے اور، ختم ہو یہ آزار۔
19
مرجاتی تو کل اگر تو، ہوتا وصل یار،
موت بِنا کب کیا کسی نے، پریتم کا دیدار۔
20
آج مروں یا کل، مروں میں منزل پر،
خون ہو ساجن پر، تا کہ میرا سکھیو۔
21
مرجا بھٹک بھٹک کر پب میں پنہوں کارن،
سکھیوں میں ہو نام کہ، مری ہے پیار میں برہن۔
22
جس کے نین میں نیند ہو اس کا، کب ہے کیچی میت،
پہلے چڑھ تو سولی پر اور، پھر تو کرلے پریت۔
23
اے پربت تُو بتا کیا، چھوا تھا اس کا دامن،
غم سے زیادہ پنہل کے، روتے تھے نینن۔
24
چبھا تھا دل میں تیر، اس کیچی کے پیار کا،
درد کی تھی تصویر، لگا تھا تیر نشانے پر۔
25
کہا یہ ہر ایک رہرو نے ڈھونڈ لے کیچ ہے دور،
سمن کہ بات کو قدم بڑھائے، کرلے دشت عبور۔
26
اے رہرو، کیا تھا تونے، ان کا کوئی نشان،
کیا اس محمل میں تھا میرا، ہوت بلوچی خان۔
وائي
چھوڑ بھنبھور میں جاؤں گی، کب دور ہے دیس سجن کا،
بڑی کٹھن ہیں راہیں پھر بھی، اپنی منزل پاؤں گی،
اپنے یار پنہل کو میں تو، دشت میں ڈھونڈ کے لاؤں گی،
سکھیو ہمسر ان کی، میں بھی جب ہو جاؤںگی،
ملیگا ساجن سنگ اس کے، شکوے خوب کرونگی،
فریادیں فراق کی، سجن کو میں خوب سناؤں گی،
کہے لطیف وہ آئے گا، میں چھگی میں جا ملوںگی۔
دسویں داستان
1
لب پر آہ شیون اور وہ، پیار سے قدم اٹھائے،
کیسے گھونٹھٹ کاڑیگی جو، راہ سے لوٹ کے آئے۔
2
تیز بڑھا ہر گام اے سسئی!، پیچھے کو نہ پلٹ،
جس کے من میں پریت ہو وہ تو کاڑیگی گھونگھٹ۔
3
چھوڑ نہ آہ بکا اے سسئی!، دیتی رہ تو صدا،
شاید کوئی صورت نکلے، کرلے یاد پیا۔
4
یوں دے اس کو صدائیں سسی!، گونجے دشت اور بن،
تجھ سے دور ہے پھر بھی سن لے، صدا وہ تیرا ساجن۔
5
پیار کٹاری مار نے آیا، بن کر میری موت،
میری جان قربان ہو اس پر، سدا جیئے یہ ہوت۔
6
پوچھ رہی ہے قاصد سے اور، بیٹھی وقت گنوائے،
کیسے ہوگا وصل کہ جب تک، قدم نہ تیز بڑھائے۔
7
بیٹھ کے وقت گنوائے سسئی!، کیسی ہے یہ چاہ،
توڑ دے ایسے رشتے جوکہ، روکیں تیری راہ۔
8
وقت گنوائے اور کہے کہ اس سے تیرا رشتہ،
تیرا نہیں شناسا، وہ تو ہے بیگانہ سسئی۔
9
کیا جانیں یہ پڑوسی کیسے، روتے بیتی رات،
ایک نظر میں گھائل کر گئے، جت تھی جن کی ذات،
درد، الم، آفات، سنگ تھے راہ میں سسئی کے۔
10
کوئی پڑوس میں رویا تو پھر، زخم ہوئے سب تازہ،
تیرے پسینے سے دھوؤں گی، پریت کا زخم نیارہ،
تجھ پر اے کوہیارا، میری جان فدا ہے۔
11
من کو نہیں قرار کہ اب تو، کرتے ہیں تیاری،
لاد کے سارا ساماں اپنے، دیس چلے ہیں آری۔
12
کیا کیا اس نے جتن کیے تھے، کوہیارے کے کارن،
پوچھے ہر اک قاصد سے کہ، کہاں دیور، ساجن،
بھٹکتے دکھیارن، "لموں"، لسبیلے" سے گذری۔
13
اس دکھیاری برہن پر تو، کرنا مہر اے یار،
رادِ راہ بھی پاس نہیں ہے، تیری ہے آدھار،
آن کے اے کوہیار، دے تو دلاسہ دکھیارن کو۔
14
مہر کی ڈال نظر، اس دکھیا برہن پر،
میں تو تیری باندی ہوں، جاؤں گی اور کدھر،
تو چھاؤں چھپر، دے تو دلاسہ دکھیا کو۔
15
جُھلا کے جھولا ماں نے مجھ کو، دی تھی درد کی لوری،
ملے تھے سکھ اس کارن کہ میں، درد سے بھر لوں جھولی۔
16
دکھڑوں نے ہی پالا اب ہیں، درد و الم، آزار،
سکھ تھے کب میری قسمت میں اور، کب تھا صبر و اقرار،
جندڑی ہے یوں یار، جیسے درد کی بیل ہو کوئی۔
17
جنم لیا تو درد ملا اور، جوبن میں آزار،
قسمت میں تھے دونوں دکھڑے، سہنا میرے یار۔
18
مجھ سے پہلے درد و الم، ہوگئے ہیں تیار،
چلو تو ڈھونڈیں ان کو جو گئے، وندر کو ہیں کوہسار۔
19
پہنچی جب وہ "ہاڑے" میں تو، بیت چلی تھی رات،
ہوگئی جب پربھات، تو پوچھا یار کا ہر قاصد سے۔
20
کوئی تڑپ ہے اور نہ طلب ہے، نہ ہی وصل کی بات،
عشق نے چھوڑ دیا ہے جگ کو، کہاں وہ احساسات،
عشق تھا ان کے ساتھ، جو عاشق لاد گئے ہیں۔
21
جن کے من میں عشق ہے وہ ہی، پائیں درد کی دولت،
ڈھونڈ نہ اس کو باٹ پر، ملیگی گھر میں الفت۔
22
بندھا ہے عشق کا بندھن سائیں، ڈھونڈنے سے مل جاؤ،
ابھی آن کرو، جو کرنا موت کے بعد ہے۔
23
مت ہو تو مغموم، میں دور نہیں ہوں تجھ سے،
گو دکھنے میں ہیں دور، حد دونوں کی ایک ہے۔
24
دیکھا ہے گر ساجن، تو اسکی بات کرو،
اس ساجن کے کارن، کاٹتی ہوں میں رو رو راتیں۔
25
رنگ لیا تھا رات، چولا یار کے کارن،
بھیگ گیا پربھات، سکھیو!، سارا اشکوں سے۔
26
بیاہ کی رات خوشی سے سکھیاں، بانٹ رہی تھیں کپڑے،
میری ماں مجھے دے رہی تھی، پتھر تب پب کے۔
27
بیٹھے بیٹھے دل میں درد کی، سکھیو!، ٹیس اُٹھے،
جیئرا ایسے جلے، سانس بھی جیسے آگ ہو سکھیو!
28
کب وہ جتن کیے کہ جن سے، ملتا وہ کوہیار،
تیز قدم کب اُٹھے تھے تیرے، سُست تیری رفتار۔
وائي
اونٹ بھی روتے تھے سارے، دیکھ کر دکھ سسئی کا،
اونٹ جتوں نے خوب سجائے، جگمگ اونٹ کجاوے،
پیٹھ پہ چابک برس رہے تھے، کیسے لوٹ کے آتے،
باگ ہے ملک کے ہاتھوں میں، بے بس اونٹ بیچارے،
رات ڈھلی گونجیں آوازیں، گونجے پربت سارے،
تیری ذرا بھی پروا اب تو نہیں کرتے کوہیار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے، اب ملیں بھی وہ پیار۔
وائي
وہاں بڑھائے تیز قدم، جہاں پہ دیکھے نقشِ پا،
نقشِ پا پہچانے یوں تھا، نین میں پیار بسا،
ساجن اپنے دیس سدھارے، ڈھونڈے وہ اس جا،
جس نے دشت میں بھٹکایا وہ، ساجن ہے کس جا،
جہاں پہ پھل اور پھول ہیں وہ ہی، دیس ہے ساجن کا،
بھٹک بھٹک کر مرجاؤں گی، ساجن سب آجا،
چھوڑ گئے اس دکھیا کو اور، تھا دل میں میل بھرا،
کہے لطیف کہ دشت و جبل میں، مل گیا ہے وہ پیا۔
گیارہویں داستان
1
سکھیو!، پریت کی ریت یہ ہی کہ، دکھڑے ہوں ہر دم،
دشت کے رنج و الم، دے گئے مجھ کو دیور۔
2
کہے جو ان سے آری ویسا، کرتے نہیں وہ جت،
کیسے کیچ میں پہنچ سکوں گی، جب ان کی یہ حالت۔
3
بات نہ مانی آری کی وہ کچھ اور تھے من میں ٹھانے،
لپک کے نکلی شہر بھنبھور سے، دشت کی خاک اڑانے،
آئی تھی جان گوانے، اور سوئی وہ خاک کے سیج پر۔
4
اے پربت کی راہ! بتا یہاں رکا تھا ان کا محمل،
جن کے ہجر میں روتے روتے، خون ہوا ہے دل۔
5
یادِ یار یوں برس اس پر جوں ساون کے بادل،
ایسا عشق لگایا تھا کہ، تڑپ رہی تھی پل پل۔
6
سکھیو!، دیکھ لو کیچ، جو دیس ہے یار پنہل کا،
ڈالا پریت کا پیچ، اب تو ان کی یاد ہے پل پل۔
7
مری تو اس نے لاش اُٹھائی، جس کی تھی چاہت،
کیسے یار کی دید کو ترسی، برہن کی الفت،
لاش ملی آریانی کو، ڈھونڈ کے ہر پربت،
دفن ہوئی میت، اس کی یار کے قدموں میں۔
8
کچھ کو ان کی پریت نے مارا، جو تھے شاہ سوار،
مجھ کو تو ناقوں نے مارا، مارگئے اسوار،
عشق کرے جو نار، دیکھے گی وہ دکھڑے۔
9
جس کے نازک پیر ہیں سکھیو! وہ میرا پریتم،
آن کے تم بھی دیکھو سکھیو! اس کے نقشِ قدم،
کر گئے یار ستم، جت تو اس بیچاری پر۔
وائي
میرا جی اے جاناں! تجھ بن یہاں نہ لاگے،
میں کیسے بسراؤں، پریت بھرے وہ نیناں،
کیسے جی کو روکوں، دور ہیں جان کی پرساں،
جوڑوں ہاتھ فریاد کروں میں، کارن اپنے سیاں،
کہے لطیف ملوں ہوت سے، جو ہے میرا جاناں۔
وائي
ہوگئی میں بے بس بان بلوچ کا لاگا،
پب کی بل کھاتی راہوں میں، میرا وجود ہے بکھرا،
پھر بھی تڑپ ہے کیچی کی کہ جاؤں میں اس جا،
خود کو گنوانا نقشِ پا، نہ رہا کوئی کھٹکا،
پڑا ہے پالا اندھے جگ سے، بھاگ ہے میرا ایسا،
اتنے شہر بھنبھور میں، نہیں کوئی اب میرا،
شام کو ہی میں سوئی اور، درد ہجر کا آیا،
درد، مصیبت، دکھڑے، ہوا ان سے ہے رشتہ،
جس کو دیکھ کے جیتی ہوں کہیں وہ نہ دے بسرا،
مرونگی میں وصل کی خاطر ،جب تک ہوں زندہ،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ملن سجن سے ہوگا۔
وائي
میرے ہوت کو دیور، کب سمجھی تھی لے جائیں گے،
وہ آئے تھے آنگن میں، میں تو سمجھ نہ پائی،
مار کے اس برہن کو، چلے وہ دور سفر،
دیکھوں دیرے دوست کے، جہاں ہے میرا دلبر،
صبح صبح وہ لاد گئے اب، پوچھے راہ گذر،
روکتی میں اونٹوں کو، باندھ رسے کس کر،
ہجر یار میں سکھیو، من میں ہے محشر۔
بارہویں داستان
1
میری طرح گر ہوت کا سکھیاں، کر لیتیں دیدار،
مجھ کو کہتیں ڈھونڈ اور خود بھی ڈھونڈیں کوہسار۔
2
ہوت نہ دیکھا سکھیوں نے، ان کا ہے کیا دوش،
رہتا کب پھر ہوش، میری طرح وہ نیر بہاتیں۔
3
شاید اور طرح سے دیکھا، سکھیوں نے ساجن،
کر لیتیں درشن، میری طرح تو ہوش گنواتیں۔
4
شاید اور طرح سے دیکھی انہوں نے یار کی صورت،
صبح و شام کا ہوش نہ رہتا، جاگتی ایسی چاہت۔
5
دیکھتیں میرے اس ساجن کی، سکھیاں گر مسکان،
درد امڈتا تن من سے اور، تڑپتیں وہ ہر آن۔
6
کرلیتیں اس ہوت پنہل سے، سکھیاں گر اک بات،
روتیں آہیں بھر کر اور ہوتیں، صحرا کی آفات۔
7
میرے ہوت سے کر لیتی تو، میا! اگر اک بات،
جیون بھر تو بھول نہ پاتی، باتیں اور صفات۔
8
سدا رہے یہ روگ سکھی ری!، کبھی نہ صحت پاؤں،
پربت صحرا بھٹک بھٹک کر، نینن نیر بہاؤں۔
9
اے پربت، جو سہے ہیں دکھڑے، عیاں نہ ہوں بِن پریتم،
کیسے سکھ وہ سہہ پائیگی، دکھ جیسے ہے ہر دم،
تجھ سی کہاں میں ہمدم، تجھ سے ہے بس پریت کا ناتہ۔
10
اورون کا ہے حقیقی تعلق، میرا پریت کا ناتہ،
میرے من میں ساجن کی اک، بات ہے اب پوشیدہ،
ذرا سا پیار کا رشتہ، کب ہے حقیقی تعلق۔
11
پل پل کر پربت میں ماتم، بھول نہ آہ و بکا،
خون تیرا دل روئے سسی! چھپ چھپ نیر بہا،
ساجن تجھے ملیگا، صبر میں بڑی ہی طاقت ہے۔
12
ہائے چلے ہیں دور سفر کو، روٹھ کے میرے یار،
کیا برہن سے روٹھ چلے ہیں، کیچ کو ہیں تیار؟
اک پل بھی کوہیار، میں تو میا! بھول نہ پائی۔
13
آہ و بکا بھی کم ہوئی جو، کرنی تھی بیوہ،
پنہوں کو کس نے پایا، خون کے آنسو روئے۔
14
ہائے دور گئے ہیں، بہت دم میرے ساجن،
آکر میرے آنگن، کب کاگا بولیگا اے ماں۔
15
ماریگی خاموشی ہی اس کی،بہا نہ خون کے آنسو،
خودداری سے یار گنوایا، چھوڑ نہ ہمت تو۔
18
میں ہوں ٹیڑھی راہ پر، اوروں کی راہ ہے سیدھی،
جو بھی عشق کریگی، وہ پڑیگی مصیبت میں۔
19
مری ہے جو منزل پر، فکر ہو کیسی اسکو،
قتل کرو تم اسکو، تو ختم ہوں سب اندیشے۔
20
کس سے باندھا بندھن میرا، ہوت بلوچ کے،
اس میں پڑ گئی گانٹھ، جسے کوئی نہ کھول سکے۔
21
کیا جانے کہ ہوا ہے کیا اب، جاتی ہوں میں کہاں،
کاٹوں سارے انگ میں اب تو، کاٹوں انگلیاں،
اوروں کی خوشیاں، مجھ کو ہجرِ یار ملا ہے۔
22
سمجھی لمبا سفر کیا ہے کھڑی ہے ایسی جگہ پہ،
روزِ ازل سے پریت لگی ہے، اب تو موت ہی آئے۔
23
ایسی ویران راہ میں میا، دردِ یار تھا رہبر،
کوہیار کامل، درد نے مجھے دکھایا۔
24
اونچی نیچی دشت کی راہیں، ہوچھے راہ میں رہبر،
ان کو راہ میں رہزن گھیریں، سہا کریں جو سفر،
بڑا ہے خوف خط، رہبر بن نہ راہ ملیگی۔
25
ویراں راہ میں رہزن ہیں اور، پربت کا ہے سفر،
دور سفر کو جانے والے!، سنگ تو لے رہبر۔
26
بہت بلوچ ہیں جگ میں لیکن، سب کا وہ سردار،
لاوارث کا وارث بن کر، آئے گا انگنا یار،
جن کی نہیں سہار، ان کے سر پر ہاتھ دھرے گا۔
27
بہت بلوچ ہیں جگ میں میرا، آریانی ہے سہارا،
دل میں خوب سجایا میں نے، چُن کر ہوت وہ پیارا،
جب مالک ہوت دلارا، وہ کیسے لوٹ کے آئے۔
28
سب ہی اِس کو پگلی جانیں، جو ہو یار پہ قربان،
ہوت بِنا اب کون ہے ایسا، ڈھانپےے انگ جو عریاں،
جس نے دیکھا جاناں، وہ ہی جانے ہجر کا عالم۔
29
دور سے ناقے آتے دیکھے، شاید آیا ساجن،
بِن اس کے گر اور کو دیکھیں، اندھے ہوں یہ نینن۔
30
لوٹ کے آنا طعنہ سمجھیں، دیکھیں جو ساجن،
سر واریں وہ ہاپُے یار پہ، ان کا یہی چلن۔
31
راہ کے دکھ ہیں اعلیٰ جن پر، سکھ بھنبھور کے قربان،
تیرے سکھ کس کام کے میا!، اور تیری سب خوشیاں،
مانگے اپنا جاناں، میرا دل اے میا!
32
جت زور آور ذات سے اس کا، ایسا عشق ہوا،
ٹھکرائے گر جب کہے وہ، جت نے مان دیا۔
33
اچھا ہے کہ ہوت پنہل سے، ہوا ہے میرا پیار،
جس کے کارن کیچ میں پہنچی، دیکھا شہر یار۔
34
دشت سے میرا ناتہ ہے اب، کون چلے گی سنگ،
دیس ملیر کی مہندی سے میں، رنگوں گی اپنی انگ،
یہ ہی پریت کے ڈھنگ، کہ ڈھونڈیں جام پنہل کی چھاؤں۔
35
یہ ہی پریت کی ریت کہ اب تو، ان کو ڈھونڈنے جا،
تو سوئی تو لاد گئے، ناتے اور پیا۔
36
سنگ نہیں لے جاتے سکھیو!، مجھے وہ اپنے دیس،
ان سے بڑھ کر کروں گی خدمت، "گھگھرے" جن کا بھیس۔
37
ہوت بلوچ تھا کپڑے دھوتا، ایسی تھی تب شان،
اب تو ساتھ نہیں لے جاتے، دکھلاتے ہیں آن۔
38
کوہیارل کے کارن اب میں، ڈھونڈوں کون سی باٹ،
میں سمجھی کہ دشت میں وہ بھی، ہوگا میرے ساتھ۔
39
کوہیارل بھٹکائے، دشت و جبل کی مشکل راہیں،
ایسا دیس دکھائے، جو پہلے کبھی نہ دیکھا سکھیو!
40
پھٹا سا بھیس اُترا چہرہ، عشق کے یہ آثار،
دل میں ایسے گھاؤ سجائیں، جانے نہ سنسار،
شروع سے ہی اے یار! ہم نے درد سے ناتا جوڑا۔
41
سر سے ڈھلکی چنری میری، پھٹا پھٹا ہے بھیس۔
کیا ہے میرا شہر بھنبھور میں، یہ نہیں میرا دیس۔
42
دکھ سہنے کے کارن میں نے ہوت سے پریت لگائی،
اپنے ہنستے گاتے من میں، پریت کی آگ جلائی،
دیں گے دردِ جدائی تجھ کو کل صبح وہ۔
43
لے چل شہر سے باہر مجھ کو، کیچ کی راہ بتا،
شاید پھر نہ ملن ہو میا!، مجھ کو کر تو وداع۔
44
نکل کے شہر بھنبھور سے میں نے، دیں جب اسے صدائیں،
روند گئے تھے صحرا پربت، ویراں تھیں سب راہیں۔
45
بھٹک بھٹک کر پربت میں میرے، پیر میں پڑگئے چھالے،
من میں یار کی بات چھپی ہے، پریت کے لب پر نالے۔
46
لے نہ عشق کا نام اے سسی!، مشکل عشق کی راہیں،
برہ کا کر بیوپار ہو دل میں درد، لبوں پر آہیں۔
47
جس نے دیکھا اس نے یار کو، سمجھا اپنا گہنا،
جو پہچان نہ پائیں وہ کیا، قدر کریں گی بہنا۔
48
دل نہ چھوڑ کہ سکھ سے تیرا، بھر جائے گا دامن،
دیکھ کہ شوق سے تیرے انگنا، آیا تیرا ساجن۔
49
لحنِ حسینی میں بیبی نے، کی تھی آہ و بکا،
اس کے بعد ہی جگ نے جانا، قضیہ کرب و بلا۔
وائي
کیا کیا جتن کیے، دور وہ لاد گئے،
ہوت نہ لوٹے میرے،
روزِ ازل سے پریت کا بندھن، پریتم باندھ گئے،
قاصد بھیجے کیچ کو میں نے، پریتم تیرے لیے،
تیری پریت میں پنہل سائیں، دکھ ہیں نئے نئے،
جاتے صدائیں دی ساجن نے، ہم وہ سن نہ سکے،
سکھیو، شاہ لطیف کہے، وہ آریانی آئے۔
سُر لیلا چنیسر
پہلی داستان
1
داغ تیرے ہجر کا، مارے ہے معذور،
سائیں کی سوگند ہے، جا نہ مجھ سے دور،
آکر تیرے حضور، میں منکا آگ میں جھونکوں۔
2
آگ میں ڈالوں موتی اور میں، بھاڑ میں جھونکوں ہار،
لوٹ کے آئے یار، تو مان ملے مجھ میلی کو۔
3
آگ میں ڈالوں منکا، بھاڑ میں جھونک کے ہار،
کہے لطیف کہ بِن ساجن کے، دل کو کہاں قرار،
وہ حاسد اور زور آور ہے، جس سے تیرا پیار،
چاروں اور "چنیسر" کی، مچی ہے ہاہاکار،
موتی پر مت وار، پریتم نین کی ٹھنڈک ہے۔
4
دنیا ہے چالاک تو چنیسر چوگنے ہے زیادہ،
اس سے توڑ کے رشتہ، تو ہار کو ہاتھ لگائے!
5
موہ لیا من موتی نے، یہ کیسے ہیں اطوار،
بات بزدار ساجن سے کھویا ہے دلدار،
روٹھ گیا ہے یار، ہجر کا داغ ہے دل میں۔
6
موہ لیا من موتی نے اور، لیا لپک کے ہار،
لعل و گہر کے کارن جگ میں، لاکھوں ہوگئے خوار،
روٹھ گیا ہے یار، ہجر کا داغ ہے دل میں۔
7
من کو موہ گئے موتی کے، سندر نقش و نگار،
سوچا پاس رہے گا میرے سدا یہ سندر ہار،
ہوگئی میری ہار، جیت ہوئی، "کونرو" کی۔
8
نقلی موتی دیکھ کر کیسے ریجھا تیرا من ،
کانچ کے اس ٹکڑے کو تونے، جانا ایک رتن،
موتی کے کارن، کتنوں نے ہے یار گنوایا۔
9
یہ ہے گلے کا طوق، جس کو سمجھی ہار،
تجھ کو چھوڑ کے بنا چنیسر، کونرو کا ہے یار،
دل سے دے نہ اُتار، کسی کو اس کا ساجن۔
10
ہاتھوں میں تھے کنگن اور، نہ ہی گلے میں ہار،
نہ اکھین میں کاجل تھا اور، نہ ہی ہار سنگھار،
جام چنیسر یار، مجھ پر تھا تب مائل۔
11
کانوں میں تھی بالیاں اور، گلے میں جھلمل ہار،
کھن کھن کرتے سونے کنگن، کیا تھا ہار سنگھار،
جام چنیسر یار، روٹھ گیا تب مجھ سے۔
12
شاید مجھ سے جام چنیسر، پہلے ہی تھا بدظن،
چھوڑ گیا وہ ساجن، موتی بنا بہانا۔
13
جھکرو نے جب بات کہی تھی، لیلا! جام سے رو کر،
ہوا تھا تب ہی بدظن ساجن، تجھ کو ہوئی نہ خبر،
روٹھا جام چنیسر، ہار تو بس تھا بہانا۔
14
موتی بنا بہانا تجھ سے، جام تو تھا ناراض،
میری بات سنو ری سکھیو! کرو تم عرض و نیاز،
جام کے یہ انداز، توڑے سب کا مان۔
15
بیاہ کے بندھن والے دن ہی، بدلے ہوئے تھے تیور،
تب ہی جان گئی تھی دے گا، ہجر کا داغ یہ دلبر۔
16
کونرو، تیرے سنگ سوئے گی، بنے گی محل کی رانی،
تجھ سے یہ امید نہ تھی، میں تو تھی انجانی۔
17
بول نہ تو مجھ برہن سے، ساجن کڑوے بول،
رہوں میں تیرے قدموں میں، جیون بھر اے ڈھول!
18
لاد کے اپنا اونٹ، "لیلا" نیر بہائے،
کوئی اسے بتلائے، لیلا لاد چلی ہے۔
وائي
آنگن میں آ یار! چھوڑ دیا اب ہار،
مجھے لبھانے کو لائی تھی، وہ نو لکھا ہار،
دل للچایا، چھین لیا ہے، مجھ سے میرا یار،
میرے جو بھی عیب ہیں سائیں! سارے عیب بسار،
کیسے اب میں ناز کروں گی، آن کے تیرے دوار،
کہے لطیف کہ آئی ہوں میں، تیرے انگنا یار!
دوسری داستان
1
موتی دیکھ کے من للچایا، مار گیا تھا مان،
کہتی ہیں کہ بھولی ہے تو، سکھیاں اب ہر آن،
سب نے میرے دل کو جلایا، کیا کیا ہیں بہتان،
رہی نہ اب وہ آن، بھولیں سب اٹکھیلیاں۔
2
شاید سب سکھیوں نے، اوگن میرے دیکھے،
جبھی تو وہ سب آکے، ہنستی ہیں اب مجھ پر۔
3
پریتم کو میں پرکھ نہ پائی، یوں تو تھی ہشیار،
سوچا تھا کہ سندر لاگوں، گلے میں ڈالوں ہار،
لیکن پریتم کو کب بھاتا ہے، جھوٹا ہار سنگھار،
جانے جاننھار ، جو دل میں بھید چھپے ہیں۔
4
کہتی تھی میں سیج پہ بیٹھوں، پاؤں پیا کی چاہ،
لیکن واں باللہ، داسی کو ہی مان ملے۔
5
عقل نہیں درکار، عقل میں دکھ ہی دکھ ہے،
بھولے پن میں یار، کیا کیا مہر کرے ہے۔
6
جھول رہی تھی جھولوں میں اور، خود میں تھی میں مگن،
موتی کی تھی بات ذرا سی، ہوگئے پی بدظن،
بھر گیا دکھ سے دامن، اور روٹھ گیا وہ چنیسر۔
7
سب سکھیوں کے جھرمٹ میں تب، عجب تھی میری شان،
جس دم ہار کو ہاتھ لگایا، روٹھ گئی مسکان،
چھوڑ گیا گنوان ، دے گیا ہجر کا داغ وہ ساجن۔
8
تیرے راج میں جام چنیسر! کیا تھی میری شان،
طبل نقارے باج رہے تھے، کرتے تھے سب مان،
روٹھ گیا گنوان، دے گیا داغِ جدائی۔
9
تیرے راج میں جام چنیسر، عجب تھی میری شان،
قدم قدم پر نوکر تھے اور، در پر تھے دربان،
طبل نقارے باج رہے تھے، بڑی تھی آن اور بان،
روٹھ گیا گنوان دے گیا، ہجر کا داغ وہ ساجن۔
10
بیوہ ہونے کا ڈر کیسا، کیسا خوف سہاگن،
ان سے روٹھے ساجن، جو خودداری دکھلائیں۔
11
ایسے وصل سے کیا حاصل کہ، جس سے آئے غرور،
حاصل کر وہ ہجر کہ جس سے، ملے وہ آپ حضور۔
12
ذرا تو کر اب یاد اے لیلا! اپنے سارے لچھن،
دیا تھا طعنہ اپنے پی کو، اس سے کی ان بن،
کیا سوچے گا ساجن، تو یہ جان نہ پائی۔
13
کیسی بھول ہوئی کہ جام کو، دکھائی خودداری،
جان نہ پائی اس ساجن کو، جس کی تھی تو پیاری،
کونرو بنی دلاری، اور روٹھ گیا وہ ساجن۔
14
ساب سجن سے چھیڑ کے مت تو، ظاہر کر اوقات،
ساجن کو ناراض کیا اور، درد کی لی سوغات،
ہجر کی آئی رات، تیری خودداری کے کارن۔
15
مت دکھلانا مان کہ ساجن، بڑا ہے نکتہ دان،
تو ناداں انجان، ٹھوکر کہیں نہ کھائے۔
16
تو مت مان دکھا اے لیلا! عجب ہے وہ دل بند،
جس کو سمجھی تھی تو اپنا، وہ ہے غیرت مند،
اس کو کہاں پسند، بِن اس کو تو اور کو چاہے۔
17
وہ ہے چنیسر جام اسے تو، ہیٹی مت دکھلا،
وہ ہر بات پر صبر دکھائے، صبر سراپا اس کا،
عیب تیرے ڈھانپے گا، ڈال کے اپنا دامن۔
18
ہٹ دھرمی نہ دکھلا لیلا! وہ ہے چنیسر رائے،
ایسا ہے وہ جام کہ جس کو، کوئی نہ اپنا پائے،
ان کو بھی ٹکھرائے، جن کے ناز اُٹھاتا ہے وہ۔
19
اب نہ بنا بہانے اور تو، چھوڑ دے حیلے سارے،
ڈال کے پلو گردن میں تو، آجا پی کے دوارے،
من سے من جائے، تو کبھی نہ تجھ کو دور کریگا۔
20
منت سے گر نہ مانے تو رو کر اسے رِجھا،
اپنے پی کو منا، عجز و نیاز سے لیلا۔
21
مت سے گر یار نہ مانے، پھر بھی کر منت،
جام سراپا رحمت، رکھ تو آس اسی کی۔
وائي
پھر سے مہر کریں، میری آس بندھی ہے،
تیری یاد میں تڑپ تڑپ کر، موت سے جا نہ ملیں،
ہم جیسوں بِن جی لے گا تو، تجھ بِن ہم نہ جئیں،
تو ہی کہہ دے تجھ بِن کس سے، عرض و نیاز کریں،
کہے لطیف کہ مہر سے ساجن، انگنا پیر دھریں۔
تیسری داستان
1
ناز و ادا مت دکھلائے اس، جام کو کوئی نار،
جب پرکھا تو جان لیا کہ ، بڑی ہے وہ سرکار،
جس کا ہے دلدار، ان کو بھی ٹھکراتا ہے۔
2
ناز و ادا اس ساجن کو، کوئی بھی مت دکھائے،
خودبینی خودداری سکھیو، اسے کبھی نہ بھائے،
دوست کو بھی ٹھکرائے، ذرا سی بھی ہو بھول اگر۔
3
بنی ہیں آج سہاگنیں، گلے میں ڈالے ہار،
اپنے پی کو پانے کارن، کیا کیا کریں سنگھار،
وہ ہی پائیں پیار، چھوڑیں جو خودبینی کو۔
4
بنی ہیں آج سہاگنیں، پہن رکھے ہیں زیور،
بن ٹھن کر سب یوں آئی ہیں، جائیں گی پی کو پا کر،
جام تو اس کا دلبر ، جو تج دے خودداری کو۔
5
جھلمل گہنے جگمگ جگمگ ، ہر اک بنی سہاگن،
ہر اک سمجھی جام چنیسر، اسی کو دے گا درشن،
وہ آیا اُن کے آنگن، جو خود سے تھیں محجوب۔
6
لے کر اپنے عیب اے سائیں، آئی ہوں تیرے دوارے،
میں کمزور اک ناری ہوں تو، روٹھ نہ مجھ سے پیارے،
ڈھانپ دے عیب تو سارے، ڈال کے پلو اپنا۔
7
دیکھ تو اپنی شان اے سائیں! میں تو ہوں نادان،
ڈھانپے عیب تو سب کے، سب کو دے تو مان،
تو وہ جام مہان، جو ڈھانپے سب کے عیبوں کو۔
8
مجھ میں ذرا نہ گن اے سائیں! دیکھ نہ میرے لچھن،
مہر سے ڈھانپ اے ساجن! میرے عیب تو سارے۔
9
دھیر بندھا اس برہن کی اور، دے دلاسہ یار،
تو مالک میں چاہنے والی، باقی میں تیری طمعدار،
ڈھانپ لے اے دلدار! رکھ لے لاج تو جگ میں۔
10
کمتر ہوں میں جیسی بھی ہوں، مجھے تو مت دھتکار،
دھرتی کی میں خاک ہوئی ہوں، تیرے ہجر میں یار!
تو ہی اک دلدار، تیری بہت ہیں رانیاں۔
11
کیا کیا تیری رانیاں تو، ایک ہے میرا دولہا،
سدا سہاگ رہے گا تیرا، یوں نہ سمجھ اے لیلا!
کردے آنگن اُجلا، آن کے میرے پاس اے ساجن!
12
کیا کیا تیری رانیاں ہیں، سب کا دولہا تو،
کوئی سکھی نہ طعنہ دے اب، ڈال دے اپنا پلو،
میرا طوقِ گلُو، تیرا ہی دامن ہے سائیں۔
13
ہجر کا درد سہا نہ جائے، آجا میری اور،
تیری کیا کیا رانیاں، میرا نہ کوئی اور،
میں برہن کمزور، آجا میرے آنگن سائیں!
14
تڑپ نہ اب اے لیلا، اُٹھ اور، کردے اُجلا آنگن،
آئیں گے تیرے ساجن، سب کچھ کر قربان تو اس پر۔
15
تڑپ نہ اب اے لیلا! اُٹھ اور، کردے آنگن اُجلا،
دیکھ کہ پریتم تیرا، آج تیرے گھر آیا ہے۔
وائي
جیتے جی مل جائیں، کاش وہ ساجن میرے،
تیرے دامن کا سایہ ہو، سب ہوں دور بلائیں،
کرم تیرا ہوجائے تو ہم، ساجن سے مل جائیں،
پلکوں سے ہم دھول چنیں اور، قدموں کو چھو آئیں،
دور سے آتا دیکھ کے ساجن، کیا کیا گن گنوائیں،
دیکھ تو کیسے پریتم ہیں وہ، عیب نہ جو جتلائیں،
کہے لطیف کہ ساجن نے ہیں، سن لیں آج دعائیں۔
سُر مومل رانو
پہلی داستان
1
کل دیکھا اک جوگی سوامی، انگ بھبھوت بھکاری،
ماتھے پر تھا مُکٹ، گلے میں سجی تھی مالہا پیاری،
ایک نظر جو ڈاری، کر گیا دل کو گھایل۔
2
کل دیکھا اک جوگی سوامی، صورت ماہ منیر،
جوگی یار فقیر، جگا گیا ہے پیار۔
3
کل دیکھا اک جوگی سوامی، نکھری تھی جب دھوپ،
خون کے آنسو روئیں اکھیاں، دیکھ کے اس کا روپ،
مومل کا بہروپ، جو دیکھے لوٹنا مشکل ہو۔
4
کل دیکھا اک جوگی سوامی، دھول ملے تھے انگ،
سونے منکوں کی مالا تھی، سبز تھا شال کا رنگ،
کیا ہیں اس کے ڈھنگ، کیسی ہے وہ مومل؟
5
کل دیکھا اک جوگی سوامی، سارا انگ بھبھوت،
چھایا عجب سکوت، اس کی دید سے من میں۔