
عنوان | ملوڈیز آف شاھ عبداللطیف بھٹائی |
---|---|
شارح / محقق | آغا سليم |
ڇپائيندڙ | ثقافت کاتو، حڪومتِ سنڌ |
ڇپجڻ جي تاريخ | 2015-01-01 |
ايڊيشن | 2 |
سر کلیان
پہلی داستان
1
اول اللہ علیم، اعلیٰ عالم کا دھنی،
قادر اپنی قدرت سے، قائم اور قدیم،
والی، واحد، وحدہ، رازق رب رحیم،
مدحت کر اس سچے رب کی، کہہ تو حمد حکیم،
وہ والی وہ کریم، وہ جگ کے کام سنوارے۔
2
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہہ دے جب اک بار،
محمد(صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، پیار سے کر اقرار،
پھر کیوں غیر کے دوار، جا کر سر کو جھکائے۔
3
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہا جنہوں ئے یار!
محمد (صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، دل سے تھا اقرار،
پہنچے وہ سب پار، کبھی بھی مشکل گھاٹ نہ آیا۔
4
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہیں اور ہو ایمان،
محمد (صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، مانے قلب و زبان،
یہ فائق کا فرمان، وہ کبھی نہ مشکل گھاٹ گئے۔
5
راہ میں مشکل گھاٹ نہ آیا، ناؤ رہی سالم،
ایک سے مل کر ایک ہوئے ہیں، ایسے سارے عالم،
بن گئے وہ سب بالم، رب کے روزِ ازل سے۔
6
رب نے ان کو روزِ ازل سے، کیا سراپا نُور
لاخوف علیہم ولا ھُم یحزنون، کبھی نہیں رنجُور
عشق میں معمور ، کردیا رب نے روزِ ازل سے۔
7
وہ جو قتیلِ وحدت ہیں اور، لب پر الا اللہ،
جن کو عرفانِ حقیقت، جن کی طریقت راہ،
معرفت کی مہر ہے لب پر، ڈھونڈے دُور نگاہ،
سُکھ سے پل بھی آنکھ نہ جھپکیں، من میں درد اتھاہ،
ان کی عجب ہے چاہ، وہ کاٹیں سر کندھوں سے۔
8
وہ جو قتیل وحدت ہیں اور، الا اللہ کے بسمل،
کہا کہ "برحق محمدﷺٖ ہیں" اور ہو گئے دل سے قائل،
کہے لطیف کہ جس عاشق نے، پائی ہے یہ منزل،
وحدت سے گئے مل، تب رب نے اس کو دھو دیا۔
9
وہ جو قتیل وحدت ہیں اور الا اللہ کے بسمل،
کون ابھاگا ایسا ہو جو، چاہے نہ یہ منزل۔
10
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ ، سنا نہیں اے غافل!
باطن کی آواز سے بھی تُو، ہو سکا نہ قائل،
ہوں گے گواہ مقابل، روئے گا تو دن محشر کے۔
11
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، یہ ہی کر بیوپار،
یہی تیری منزل ہے اب، جیت ہو چاہے ہار،
کہیں گے خود سرکار، پی لے جام تو جنت کا۔
12
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، یہ ہے حق یکتائی،
منزل کبھی نہ پائی، دوئی میں جو الجھ گئے۔
13
سر ڈھونڈوں تو دھڑ نہ پاؤں، دھڑ پاؤں تو سر کہاں،
جیسے سرکنڈے کٹتے ہیں، کٹے ہیں ہاتھ اور انگلیاں،
تن من خون افشاں، وصل جنہیں وحدت کا۔
14
عاشق مت کہ اس کو، اور نہ کہ معشوق،
نہ ہی کالق اے ناداں! نہ ہی کہ مخلوق،
بتا نہ رمز سلوک، ناقص اور ناداں کو۔
15
وحدت سے ہی کثرت ہے اور، سب کثرت ہے وحدت،
حق تو حقیقی ایک ہے سائیں! چھوڑ تو سب غفلت،
ہر سُو پی کی نوبت، واللہ باج رہی ہے۔
16
خود ہی جل جلالہٰ، خود ہی جانِ جمال،
خود ہی صورت یار کی، خود ہی حسن کمال،
خود ہی پیر مرید بنے اور، خود ہی یار خیال،
سارا یہ احوال، اپنے آپ میں ڈوب کے پایا۔
17
خود ہی دیکھے خود کو، خود ہی ہے محبوب،
خود ہی خالقِ خوب، خود ہی اس کا طالب۔
18
یہ بھی وہ اور وہ بھی وہ، اِجل بھی وہ اللہ بھی وہ،
پریتم وہ اور جان بھی وہ، دشمن اور پناہ بھی وہ۔
19
ایک صدا ایک گونج، سننے میں ہیں دو
غور سے گر سُن لو، مخرج ان کا ایک ہے۔
20
ایک قصر در لاکھ، اور کروڑوں کھڑکیاں،
جدھر اُٹھے یہ آنکھ، ادھر ہے سندر روپ سجن کا۔
21
ساجن! کیا کیا روپ ہیں تیرے! درشن لاکھ ہزار،
جی جڑے ہیں جی سے سائیں! الگ الگ دیدار،
تیرے روپ ہزار، کیا کیا روپ ہیں دیکھوں۔
وائي
سبھی پریتم کو پوجیں،
اکھین پریت، رسیلی بتیاں، ایسے پی کو سب ہی پوجیں،
جو بھی میرے من میں ہے وہ، تو ہی جانے جاناں!
دو ہی بیت لطیف کوی کے، تیری صدا ہی سجناں!
دوسری داستان
1
دیکھی جب بیماری میری، پیا ہوئے رنجور،
سولی کو اورانگا میں نے، روگ ہوا سب دور۔
2
اندھے نیم حکیم بھلا کیوں، اور تو روگ بڑھائے،
روگ ہے میرے من میں پر تُو، دارو اور پلائے،
سولی سیج سہائے، موت تو پیا ملن کی۔
3
سولی نے ہے بُلایا، کون چلے گی ساتھ
ان سے رہا نہ جائے کریں جو، پیا ملن کی بات۔
4
جن کے من میں پریت ہے ان کو، سولی نے ہے بلایا
پیچھے قدم ہٹا نہ عاشق! گر ہے عشق کا دعویٰ،
کاٹ کے سر تو لے آ، پھر کر باتیں پیار کی
5
سولی روزِ ازل سے، عاشق کا سنگھار
لوٹ کے آنا طعنہ جانیں، سولی پر دیدار،
مرنے کا اقرار۔ ان کا روز ازل سے ہے۔
6
سولی روزِ ازل سے، عاشق کا سنگھار
پاؤں کبھی نہ ان کے لرزے، دیکھ کے بھالے دار،
آن چڑھائے یار! پریت انہیں سولی پر۔
7
سولی پہ یوں سجنا، کیوں کر ہیں مسرور
جب سے لاگے نیناں، تب سے سولی سیج ہے۔
8
سیج سمجھ کر سولی چڑھنا، یہ عشاق کا کام،
رُکیں نہ وہ اک گام، آئیں مقابل سولی کے۔
9
عاشق سولی پہ چڑھتے ہیں، دِن میں سو سو بار،
پریت کی ریت کو بھول نہ جانا، دیکھ کر نیزے دار،
تو دیکھ نہ پایا یار، پریت جہاں سے پھوٹی ہے۔
10
پہلے گھونپ لے خنجر، پھر کر بات پریت کی،
درد سجن کا صورت نغمہ، گونجے دل کے اندر،
انگاروں میں پک کر، پھر لے عشق کا نام۔
11
تیغ پہ کیا الزام، وہ ہے سجن کے ہاتھ میں،
سیکھ ادائیں محبوبوں کی، لرزے تیغ تمام،
دکھ ہی دکھ ہر گام، عاشق کو ہے پریتم کا۔
12
دستِ یار میں خنجر ہے وہ، تیز نہ ہونے پائے،
ہاتھ ذرا رُک جائے، یار کا پل بھر تن پہ۔
13
دستِ یار کے خنجر سے، کٹ کٹ جائے چام،
لے کے یار کا نام، عاشق انگ کٹائیں۔
14
پریت کی ریت جب سیکھی تو پھر، خنجر سے کیا ڈرنا،
پریتم نے جو درد دیا ہے، عام اسے مت کرنا
ہنس ہنس راز میں رکھنا، درد کی اس دولت کو۔
15
کاٹیں گردہ انگ تو آجا، ورنہ راہ لے اپنی،
یہ ہے ان کا دیس کہ جن کے، ہاتھوں میں ہے کٹاری۔
16
ایسے پی سے پریت لگی کہ، ہاتھ میں ہے خنجر
اُلفت کے میدان میں آئیں، کیسا خوف و خطر
آگے رکھ دوں سر، شاید کاٹ لے سجن۔
17
کچھ تو مقتل میں جا پہنچے، باقیوں کی ہے قطار،
تجھ کو قبول کریں گے ہو جا، مرنے کو تیار،
کیا تو دیکھ نہ پایا ان کے، سروں کے ہیں انبار،
سروں کا کاروبار، دیکھ کلال کے ہاٹ پہ ہے۔
18
مے پینا گر چاہے تو پھر، پاس کلال کے جا،
مے کے خُم کے پاس تو جاکر، کاسہ سر کو جھکا،
ایک ہی سانس میں گاڑھی مے کے، جام پہ جام چڑھا،
شہزوروں کے ہوش گنوائے، یہ ہے وہ مدرا،
بھاؤ بڑا سستا، سر دے کر گر مے مل جائے۔
19
جا کلال کے ہاٹ پہ ہے، مے کی خواہش گر،
کہے لطیف کہ سر کو کاٹ کے، مٹکے پاس تو دھر،
سر کا سودا کر، جام پہ جام تو پی کے۔
20
گر ہے مے کی خواہش تو پھر، کوچہ کلال میں جا،
مہیسر، کی مے کا ہر دم، وہاں ہے شور برپا،
رمز میں یہ سمجھا، کہ سر کے بدلے مے سستی ہے۔
21
گر ہے مے کی خواہش تو پھر، گھر کلال کے جا،
کاٹیں تیرا انگ انگ تو، مے کی ریت نبھا،
سودا ہے سستا۔ گر جام ملے جاں دے کر۔
22
مے کا کوئی مول نہیں ہے، مول ملے کب مدرا،
کہے لطیف سر کے کٹوانے کو، سر کو سجا کر لا،
یہ مقام ہے انکا جو مدھ شالا میں مرتے ہیں۔
23
عاشق عادی زہر کے ہیں اور، زہر سے ہیں مسرور،
کڑوا قاتل زہر جو دیکھیں، مستی میں ہوں چُور،
کہے لطیف کہ عشق یار میں، مٹتے ہیں وہ ضرور،
زخموں سے ہیں چُور، کبھی نہ زخم دکھائیں۔
24
کڑوی مے گر پی نہ پائے، مت لے مے کا نام،
جان رگوں سے کھینچے یہ مے، لرزاں جسم تمام،
چکھ لے کڑوا جام، سر دے کر تو پی لے گھونٹ۔
25
جو بس خواہش کرنا جانیں، لیں کیوں مے کا نام،
جُوں ہی کلال نے تیغ نکالی، لرزاں جسم تمام،
وہی چڑھائیں جام، جو سر کا سودا کر پائیں۔
26
سر جدا ہیں جسم سے اور، دیگ میں جسم تمام،
حق ہے اِن کا جام، سر جو سجا کے لائیں۔
27
انگ اُبلتی دیگ میں ہیں اور، کڑ کڑ کرے کڑھائی
زخموں کی رعنائی، دیکھ کے بھاگے بید۔
28
مدرا پینے آئیں اِن سے، سر مانگے ہے ساقی،
جن کی مدرا بھٹی، وہ کچھ اور ہی مانگیں۔
29
جو ہیں پریت کے مارے ان کو، کب ہے پیاری جان،
سجا کے سر وہ لے آتے ہیں، جان کریں قربان،
سر کا دے کر دان، بات کریں پھر عشق کی۔
30
جو ہیں پریت کے مارے ان کو، کب ہے پیاری جان،
یار کی ایک جھلک کی خاطر، لاکھوں سر قربان،
میرا جسم یہ جان، یار کی خاکِ پا پہ صدقے۔
31
سر کا صدقہ دے کر سائیں، پریتم گر مل جائے،
سستا سودا جان کر عاشق، سر اپنا کٹوائے،
قسمت جب بر آئے، تب ملتا ہے ساجن۔
32
مے انمول کے اک قطرے کی، آس شہادت ہے،
یہ بھی عبادت ہے، گر ناز سے ساجن دیکھے۔
وائي
پی کر مے کا جام، ساجن کو پہچان لیا،
عشق کے پیالے پی کر ہم نے، جانا بھید تمام،
انگ انگ میں پیار کی اگنی، سلگیں سب اندام،
جگ میں جینا دون دن کا ہے، دو دن کا ہے قیام،
کہے لطیف کہ تُو ہی تُو ہے، باقی تیرا نام۔
تیسری داستان
1
مجھ کو چھوڑ گیا ہے ساجن، پریت کا روگ لگا کر،
ایسا درد وہ دے گیا دل کو، میرا یار وہ دلبر،
کوئی نہ چارہ گر، میرے من کو بھائے۔
2
من کو اب نہ بھائے کوئی، پی بِن اور طبیب
وہ ہی یار حبیب، میرے حال کا ہادی ہے۔
3
ہادی ہُوا حبیب وہ میرا، راہ نمائے راحت،
پی نے روگ مٹایا سارا، قائم ہوگئی نسبت،
ہم نےپائی صحت، روگ سے تیرے ہاتھوں۔
4
اور طرح کا روگ لگے ہے، ہادی ہو جو حبیب،
ایسا روگ مِٹا نہ پائے، کوئی اور طبیب،
رہنما ہے رقیب، وہ ہی درد کا درماں ہے۔
5
جب وہ چارہ ساز ہُوا تو، دُور ہُوا آزار،
گاہے بول سے رس گھولے اور، گاہے قہر کا وار،
اس کو ہی وہ گھائل کردے، جس کا ہو وہ یار،
صاحب رب ستار، وہ ہی من کی بیتا جانے۔
6
پل پل جھن جھن باج رہے ہیں، رگ رگ تار رُباب،
میرے لب پر مہر لگی ہے، ساجن دے نہ جواب،
وہ جو میرے زخم کا مرہم، دل کو کرے کباب،
وہ ہی عین عذاب، وہی راحت روح کی ہے۔
7
وہ بھٹکائے راہ دکھائے، عجب ہے اس کی عادت،
جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت۔
8
کیا ہے درد کا کارن؟ پی نے چُھپ کر پوچھا،
درد کا درماں بخشا یار نے، مجھ کو پاس بلایا
"آخر العصر" پریتم نے فرمایا،
تب سے یہ من میرا، ترسے پی درشن کو۔
9
دور سے بیٹھا کیوں ترسے ہے، جا اس یار کے دوار،
ٹھکرایا سنسار، جس نے دیکھا دوار پیا کا۔
10
شیرینی سے شیریں تر ہے، میٹھا ہر ایک بول،
ساجن ہے انمول، چپ بھی پیار کی باتیں ہیں۔
11
شیرینی ہی شیرینی ہے، جو کچھ پریتم دے،
دل سے گر چکھ لے، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
12
جان بوجھ کے پی نے تجھ سے، باندھا درد کا رشتہ،
پریت کے درد کی باتیں پیارے!، غیر کو مت بتلا۔
13
جس کی چاہ میں تڑپ رہے ہو، وہ بھی تجھ کو چاہے،
فاذکرونی اذکرکم، پی کی بات سمجھ لے،
ایسا وہ پریتم ہے، شیرین لب اور ہاتھ میں خنجر۔
14
پریتم نے اک بار پکارا، مہر سے مجھ برہن کو،
بس اس ایک سخن کو، سکھیو! دل دُہراتا ہے۔
15
پیار سے پریتم نے پوچھا تھا، مجھ سے یہ اک بار،
" کیا میں تیرا رب نہیں ہوں؟"، میرا تھا اقرار،
درد کی تیز کٹار، تب سے دل میں اُتری ہے۔
16
پوچھ رہے ہیں یار، پی نے باندھا کدھر نشانہ،
عشق کے بھالے برس رہے ہیں، خود کو کریں نثار،
دیکھ کہ کیسی سج دھج سے وہ آئیں سوئے دار،
سر دیتے ہیں وار، مر مٹنا تو پیا ملن ہے۔
17
پاس بلا کر قتل کرے اور، پھر وہ پاس بلائے،
لاکھ گڑھے ہوں عشق کے بھالے، قدم لرز نہ پائے،
موت سے آنکھ ملائے، بھول کے علم و دانش کو۔
18
پی کا پاس بلانا بھی تو، گویا ہے دھتکار،
جس کو کوئی سمجھ نہ پائے، ایسا اس کا پیار،
آس اسی کی یار!، جو توڑ کے ناتہ جوڑے۔
19
قتل کرے تو مہر کرے اور، مہر سے قتل کرے وہ،
میری روح کی راحت ہے اور، میرا قاتل ہے وہ۔
20
قتل کرے اور مہر سے یہ پھر وہ، پاس بلائے یار،
ہر دور میں اس کی عادت ہے، عجب ہے اس کا پیار،
زخم وہ دے ہر بار، وہ ہی روح کی راحت ہے۔
21
پاس بلا کر گھائل کردے، ایسے ناز و ادا،
وہ ہی دار پر لٹکائے اور، جلائے روز پیا،
کریں برہ کا سودا، آجا تو بھی سودا کر لے۔
وائي
ہوگا درد کا کا درماں، میرا یار حبیب سکھی ری!
درد کا آکر کرے مداوہ، مہر سے میرا سجناں،
میرے انگناں آ کر دیکھا، میرا حال پریشاں،
مجھ روگی کا روگ مٹایا، آن کے میرے انگنا،
کہے لطیف کہ تجھ سا جگ میں، اور طبیب نہ جاناں!
سُر ایمن
پہلی داستان
1
تُو حبیب، تُو طبیب، تُو درد کی دوا
جانی! میرے جان کو ہے، روگ کیا لگا
تُو ہی دے شفا، صاحب! اہلِ دل کو۔
2
تُو حبیب، تُو طبیب، درد کا تُو ہی درماں،
میرے دل کی دوا ہیں، سائیں، تیری بتیاں،
روتی ہوں دن رتیاں، تجھ بِن اور نہ درماں۔
3
تُو حبیب، تُو طبیب، تُو دوائے کرب،
روگ بڑھائے اور اتارے، تُو ہادی، تُو رب،
کیسی بات عجب، کہ کام طبیب نہ آئیں۔
4
تُو حبیب تُو طبیب، درد کی تُو دوا،
ماندگی بھی تو ہی دے اور، تو ہی دے شفا،
حکم ہو جب تیرا، تب دوا اثر کرے ہے۔
5
کوئی طبیب کبھی جو آ کر، میرا درد مٹاتا ہے،
اس کو ختم کر جاتا ہے، آ کر میرا ساجن۔
6
ہاتھ اُٹھا کر تیر چلا دے، مجھ پر کر احسان،
مر کر پائہں مان، پریتم تیرے ہاتھوں۔
7
ہاتھ اٹھا کے تیر چلادے، مانگے دل یہ ہر دم،
آہ کروں تو جگ جانے ہے، صبر نہیں جانم،
کیا بتلائیں ہم، کہ ساجن نے مارا ہے۔
8
ہاتھ اٹھا کر تیر چلادے، کھینچ لے یار، کمان،
آن گروں آغوش میں تیری، اسی بہانے مان،
پورے ہوں ارمان، وصل تو ہو پل بھر کا۔
9
جس جا پریت کے تیر چَلائیں، میرے یار حبیب،
بھولیں بید طبیب، سارے علم و حکمت۔
10
مارے گر تو پیار سے، میرے یار حبیب،
پوچھوں کیوں میں طبیب، گھایل ہی پھرتی رہوں۔
11
تیر چڑھا کر ساجن نے، کھینچی آج کمان،
سسک رہی ہے جان، جس کو تیر لگا ہے۔
12
جن کے تن میں تیر چبھے ہیں، سسک رہے ہیں گھایل،
اُلفت کے مقتل میں اب تو، تڑپ رہے ہیں بسمل،
اپنے زخم کا آپ ہی مرہم، درد ہی ان کا حاصل،
ہو کر ان میں شامل، ان سنگ رات بِتائیں۔
13
چلو تو رات بِتا آئیں ہم، ایسے گھائل سنگ،
دل زخموں سے چھلنی ہے اور، دُکھتا ہے ہر انگ،
یہ ہیں ان کے ڈھنگ، چھپ کر زخم وہ سہلائیں۔
14
آج بھی اپنے آنگن میں، سسک رہے ہیں گھائل،
شام ہوئی تو بسمل، دھونے لگ گئے زخم۔
15
گھائل کے کوچے سے آئی ، کیسی یہ آواز،
شاید چارہ ساز، کھول کے دیکھ رہے ہیں گھاؤ۔
16
شاکر اپنے حال پر دائم، پریت کے سارے گھائل،
رواں ہیں سوئے منزل، تھک کر کبھی نہ بیٹھیں۔
17
جو ہیں پریت کے گھائل وہ تو، درد کی بات سنائیں،
کیسا روگ لگا ہے اُن کو، اور کو نہ بتلائیں،
آخر ڈھونڈ نکالیں، جو ہے انکے من میں۔
18
گھائل کا وہ درد نہ جانیں، سدا ہیں جو مسرور،
کروَٹ تک بھی لے نہ پائیں، درد سے یہ مہجور،
چُھپ کر یاد کریں پریتم کو، روئیں وہ رنجور،
یاد میں مہجور، رو رو رین بِتائیں۔
19
گھائل کا وہ درد نہ جانیں، درد سے جو انجان،
کیسے تڑپ رہے ہیں بسمل، سسک رہی ہے جان،
کہے لطیف کہ پریت لگی ہے، دردِ ہجر ہر آن،
جن کی پریت مہان، رو رو کر وہ رین بِتائیں۔
20
نیر بہائیں نینن سے جو، جھوٹی اِن کی پریت،
جگ دکھلاوا جھوٹ ہے یہ، کب یہ پریت کی ریت،
جن کے من میں میت، وہ کبھی نہ نیر بہائیں۔
وائي
بھولے بید بچارے، درد نہ جانیں دل کا،
چارہ سازو! لے جاؤ تم، اپنے نشتر سارے،
وہ ہی مہر کا مرہم دیں گے، دیں جو زخم نیارے،
جن کے ہجر کا درد ہے دل میں، وہ آئے آج دلارے۔
دوسری داستان
1
من کا روگ نہ جانے میرا، تو نہیں چارہ گر،
بھاڑ میں جھونک تو اپنا مرہم، اور یہ علم و ہنر،
بِن اپنے دلبر، جینا ہے بے بے کار۔
2
چارہ گر سے اُلجھیں روگی، کب مانیں اس کی بات،
دور ہوں سب آفات، مان لیں چارہ گر کی باتیں۔
3
چارہ گر سے الجھ رہے ہیں، پرہیز وہ کر نہ پائیں،
درد ہی سہتے جائیں، اسی لیے ہیں روگی۔
4
بیماروں کی حالت پر، ترس طبیب کو آئے،
سب کو وہ سمجھائے، بِن پرہیز کب بات بنے ہے۔
5
بیماروں نے صحت پائی، رہے طبیب کے ساتھ،
حیلے کر کر روگ مٹایا، ترس سے تھام کے ہاتھ۔
17
بید طبیب کی قدر نہ کی اور، سدا رہے بیمار،
بید نے جب سنبھالا ان کو، تو دور ہوا آزار۔
تیسری داستان
چوتھی داستان
13
موکھی مے فروش، اوچھی اس کی ذات
زہر پلا کر رات، مارا متاروں٭ کو!
(٭متارا: کرداروں کے نام)
24
یار کا پایا درشن، دوست میرے گھر آیا،
جس کو دیکھے جگ بیتے تھے، آج وہ آیا ساجن،
ہجر کے بعد اب ملن ہوا ہے، مولا لایا ساجن،
دور دیس میں یار بسا تھا، آج وہ آیا آنگن،
کہے لطیف کہ مہر سے سائیں، گھر آیا وہ ساجن۔
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
1
کوچہِ یار میں روز کا جانا، کب اچھا ہے یار،
دھیان سے قدم اٹھاتا آ تُو، اپنے یار کے دُوار،
اپنے پیار کا بھید چھپالے، جان نہ لیں اغیار،
پریتم آن کریں گے خود ہی، دُور تیرا آزار،
آنگن آئے یار تو کرنا راز کی باتیں!
وائي
یار سجن کا فراق، مجھ کو مار گیا ہے،
میرے سجن کے اور کئی ہیں، مجھ جیسے مشتاق،
ہر جا ہر سُو دھوم مچی ہے، ہر جا حُسن کی دھاک،
سرمہ جان کے اکھین ڈاروں، ان پیروں کی خاک،
کہے لطیف کہ ساجن میرا، سدا ہے سندر پاک.
سُر کھنبھات
پہلی داستان
1
کتنا ہے گنوان، کیا کیا گُن گِنوائوں،
عیب کبھی نہ جتلائے وہ، مہر بھری ہے شان،
میں پاپن نادان، مہر ہی مہر ہے پریتم۔
19
پریتم نے جب ناز و ادا سے، ڈالی ایک نظر،
سورج شاخیں جھک آئیں اور، کمہلایا قمر،
ماند ہوا ہر جوہر، دیکھ کے میرے پریتم کو۔
وائي
پی کو آپ مناؤں، تو رات آکر نہ بیتے،
شمع کی صورت جل کر، خود کو میں پگھلاؤں،
جوں جوگی کی دھونی، سلگ سلگ جل جاؤں،
اپنے میت کی پیت بھلا، اور کو کیا سمجھاؤں،
دکھ ہے پریت کا پل پل، دکھ میں گھل گھل جاؤں،
میں تو یار ہوں سید کا، پورنتا میں پاؤں،
پریت میں دکھ ہی دکھ ہے، دکھ میں رچ بس جاؤں،
ویرانوں میں چمکوں، پریت پیا کی پاؤں،
پریتم ہے جب ایسا، میں محشر میں مسکاؤں۔
دوسری داستان
سُر سری راگ
پہلی داستان
1
شاید پوچھے یار، لگا رہے یہ دھڑکا،
مانے اَمر جو اِس کا، رہے نہ خالی دامن۔
3
ہر پل رہے یہ دھیان، شاید پوچھے پریتم،
دھو کر میلے بادباں، چمکا لے اب ہمدم،
رہ ہشیار تُو ہر دم، اُترے گا تو پار اے مانجھی!
وائي
شکر بجا لاؤں میں کیسے، لاکھوں ہیں احسان،
حمد کر تو حکیم کی اور، کر عظمت تو بیان،
ظاہر باطن سب کچھ جانے، پائے جو اس سے گیان،
اس کی حمد و ثنا کو بھولے، کون ہے وہ نادان،
مَن کا منکا پھیرو سائیں!، پل پل اس کا دھیان،
اتنا درد بڑھا تو دل میں، ہو جائے ہلکان،
شاید اپنی مہر سے تجھ پہ، سائیں کرے احسان،
کھوٹ ہے جتنا دل میں دھولے، پالے سچا گیان،
صاحب کو بس سچ ہی بھائے، سچ کو تو پہچان،
سیس جھکانے والوں کا کب، کوئی کرے اپمان،
جو بھی اِس کے عشق میں جاگے، پالے نرالی شان،
یاد کرو تو یاد کرے وہ، فرمائے قرآن،
شکر کرو اللہ کا یارو، اور چھوڑو کفران،
سب کے عیب چھپائے ساجن، ایسا وہ گنوان،
اس سائیں کی حمد کرو تم، دل سے ہر ہر آن،
کیوں بیٹھا یوں وقت گنوائے، تائب ہو نادان،
لطف ہو لطیف کا تجھ پہ، پائے امن و امان۔
وائي
مجھ میں تو موجود، میں تو ہوں نادان
مہر ہو جب جب گمراہوں پہ، آن کریں وہ سجود،
بھید بقا کا پا گے، ہوگئے جو نابود،
پریت کے مارے اِن نینن کے، نین تیرے مسجود،
وہ ہی تیرے دوار پہ پہنچے، بھول گئے جو وجود۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
سُر سامونڈی
پہلی داستان
1
بیٹھ تُو نیا پاس، نیّا گھاٹ بندھی ہے،
کر کے تُجھے نراس، چلا نہ جائے مانجھی۔
2
پک کر ہو جا راس، گھاٹ بندھی ہے کشتی،
جلا کے دل میں اگنی، چلا نہ جائے ماجھی۔
وائي
کیسے جی بہلائوں، میرا من نہیں میرے بس میں۔
بادباں کو کھولا اس نے، نینن نیر بہاؤں،
بنجاروں سے پریت کا ناتہ، تڑپ تڑپ مرجاؤں،
دُکھ برہا کا دیمک جیسا، پل پل گھلتی جاؤں،
دکھ کی بیلیں لپٹیں تن کو، دکھ سے مکتی پاؤں
ہاتھ جوڑ اور پگ پگ چل کے، پی کے دوار میں جاؤں۔
دوسری داستان
تیسری داستان
17
دیپ جلے دیوالی کے، سفر کی ہے تیاری،
تھام کے چپو نیا کے وہ، کرے ہے آہ و زاری،
مرے گی یہ بے چاری، صبح کو دردِ ہجرے۔
سُر سوہنی
پہلی داستان
1
دریا نالے، تیز بہاؤ، کیسا تیز ہے دھارا،
عشق جہاں پہ موجیں مارے، وہاں بہاؤ نیارا،
جن کو عشق ہے گہرائی سے، سوچ کا ساگر گہرا،
ملادے ساجن، مولا! جس سے من اٹکا ہے۔
10
پنچھی آن چھپے پیڑوں میں، سورج ڈوبا، شام،
گونجی جب آذان چلی وہ، لے کر پی کا نام،
ڈھونڈے وہی مقام، جہاں ہے اس کا ساجن۔
وائي
دے تو کوئی جواب، میں دور ہوں کیوں ساجن سے،
پاپ سے اپنا آپ بچالے، پھر کیا طلب ثواب،
نہ وہ زہد ہے نہ وہ تقویٰ، نہ ہی رنگ رباب،
خود سے ہی خوبی ہو حاصل، لگا دے گر لعاب،
پاپ پوترتا ہوجائے، کرے جو مہر جناب،
خاک کے آگے ہیچ میں سارے، اطلس و کمخواب،
جل میں جھلمل دمک رہے ہیں، جیون کے یہ حباب،
چل ہادی کے سنگ اے سائیں، کھلے کرم کا باب،
من کے چور پہ ایسے جھپٹ تُو، جیسے یار! عقاب،
کھول دے دل کے دروازے اب، کر نہ پی سے حجاب،
جوں ادغام ہو اعرابوں کا، یوں ہو وصل جناب،
لب پہ مہر ہو دل میں اگنی، جل کر دل ہو کباب،
ملے گی اِس کو مئے طہورا، مانگے جو مئے ناب،
مرض عشق میں برہن نے، کب اچھے دیئے جواب۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
دسویں داستان
سُر سسئی آبری
پہلی داستان
1
اوّل و آخر جانا ہے، مجھے پنہل کے پاس،
میری پیہم کوشش کا تو، مولا! رکھیو پاس،
ہو پوری ملن کی آس، مجھ پہ کر احسان اے مالک۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
دسویں داستان
گیارہویں داستان
ابیات متفرقہ
سُر معذوری
پہلی داستان
1
وہ ہی راہ میں تھک کر بیٹھیں، جن کی پریت ہو خام،
پتھر کو بھی ریشم جانیں، جن کو درد مدام،
سکھیاں پریت نہ کرنا جانیں، لیں کیوں پریت کا نام،
زخمی جسم تمام، نوچینگے سگ کوچہء یار کے۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
1
مر کر جی، تو پائے گی تو، یار کا حسن و جمال
ہوگا تبھی وصال، یہ بات لگا لے دل سے۔
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
سُر دیسی
پہلی داستان
1
مت جا مر جائوں گی ساجن!، اونٹ کی موڑ مہار،
اس برہن کے آنگن میں تُو، قدم تو دھر اکبار،
ہجر جا ہر دن یار! یومِ قیامت جانوں۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
سُر کوہیاری
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
سر حسینی
پہلی داستان
2
ٹھہر نہ سورج چلا ہے، کرلے اب ہمت،
ابھی تو سورج سامنے ہے کر نہ تو غفلت،
ایسی کر عجلت، کہ پہنچے شام سے پہلے۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
دسویں داستان
گیارہویں داستان
بارہویں داستان
سُر لیلا چنیسر
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
سُر مومل رانو
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
1
شمع جلاتے شب، پو پھٹی پربھات،
تیری دید کو ےترسیں، نیناں، رانا! آجا اب،
تیری یار طلب، کاگ اڑاؤں کاک کے۔
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
سُر عمر ماروی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
دسویں داستان
گیارہویں داستان
ابیات متفرقہ
سُر کاموڈ
پہلی داستان
دوسری داستان
سُر گھاتُو
پہلی داستان
1
ماہر تو سب الجھ گئے اور، بھٹکے عاقل سارے،
مل کر گئے وہ مہران کنارے پہنچے،
بھول گئے بے چارے، اگلی پچھلی باتیں۔
وائي
لوٹ کے گھر نہ آئے، دور گئے منجھدار میں گھاتو،
نہنگ کو ایسے مارو یارو! اور کو پھر نہ ستائے،
جال کہاں کس جا ہے کشتی، کوئی تو کھوج لگائے،
کہے لطیف سنوری مانجھی!، ہر اک پار ہی جائے۔
سُر سورٹھ
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
سُر کیڈارو
پہلی داستان
1
آیا ماہ محرم، جاگا شہزادوں کا درد،
واللہ اعلم، جو چاہے سو آپ کرے۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
سُر سارنگ
پہلی داستان
1
کہے لطیف کہ دیکھ تو بادل، چھائی کالی بدرا،
ریوڑ، ہانک کے لے آئی، رم جھم برسی برکھا،
چھوڑ کے کٹیا میدانوں میں، لاؤ سامان سارا،
والی ہے جو سب کا، آس رکھو اس مولا کی۔
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
11
گرج چمک اور جھوم کے آئے، بدرا اب کی بار،
چم چم چمکے، گھن گھن گرجے، برسے میگھ ملہار،
جائیں استنبول کو بدرا، برسے مغرب پار،
چین دیس اور سمرقند پہ، برکھا کی یلغار،
برس رہے ہیں روم پہ بادل، کابل اور قندھار،
بھیگ چلے ہیں دہلی دکھن، بھیگ چلا گرنار،
جھوم کے جیسلمیر سے آئے، بیکانیر بکار،
بھیگا بھیگا "بھج" ہے سارا، "بھٹ" پہ بوند بہار،
ٹوٹ کے عمر کوٹ پہ برسی، ہر سو ہے ولہار،
میری سندھڑی پر بھی سائیں! رحمت ہو ہر بار،
دوست میرا دلدار، عالم سب آباد کرو.
سُر آسا
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
سُر رِپ
پہلی داستان
دوسری داستان
سُر کھاہوڑی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
سُر بروو
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
سُر رامکلی
پہلی داستان
دوسری داستان
تیسری داستان
چوتھی داستان
پانچویں داستان
چھٹی داستان
ساتویں داستان
آٹھویں داستان
نویں داستان
سُر کاپائتی
پہلی داستان
سُر پورب
پہلی داستان
دوسری داستان
سُر کارایل
پہلی داستان
1
بولی بول کے وحدت کی، دیکھو ہنس اُڑا،
اس مقام سے گذرا، جو کے پرندوں کی آزمائش کا۔