
عنوان | ملوڈیز آف شاھ عبداللطیف بھٹائی |
---|---|
شارح / محقق | آغا سليم |
ڇپائيندڙ | ثقافت کاتو، حڪومتِ سنڌ |
ڇپجڻ جي تاريخ | 2015-01-01 |
ايڊيشن | 2 |
سر کلیان
پہلی داستان
1
اول اللہ علیم، اعلیٰ عالم کا دھنی،
قادر اپنی قدرت سے، قائم اور قدیم،
والی، واحد، وحدہ، رازق رب رحیم،
مدحت کر اس سچے رب کی، کہہ تو حمد حکیم،
وہ والی وہ کریم، وہ جگ کے کام سنوارے۔
2
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہہ دے جب اک بار،
محمد(صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، پیار سے کر اقرار،
پھر کیوں غیر کے دوار، جا کر سر کو جھکائے۔
3
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہا جنہوں ئے یار!
محمد (صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، دل سے تھا اقرار،
پہنچے وہ سب پار، کبھی بھی مشکل گھاٹ نہ آیا۔
4
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، کہیں اور ہو ایمان،
محمد (صلعم) ہیں تخلیق کا باعث، مانے قلب و زبان،
یہ فائق کا فرمان، وہ کبھی نہ مشکل گھاٹ گئے۔
5
راہ میں مشکل گھاٹ نہ آیا، ناؤ رہی سالم،
ایک سے مل کر ایک ہوئے ہیں، ایسے سارے عالم،
بن گئے وہ سب بالم، رب کے روزِ ازل سے۔
6
رب نے ان کو روزِ ازل سے، کیا سراپا نُور
لاخوف علیہم ولا ھُم یحزنون، کبھی نہیں رنجُور
عشق میں معمور ، کردیا رب نے روزِ ازل سے۔
7
وہ جو قتیلِ وحدت ہیں اور، لب پر الا اللہ،
جن کو عرفانِ حقیقت، جن کی طریقت راہ،
معرفت کی مہر ہے لب پر، ڈھونڈے دُور نگاہ،
سُکھ سے پل بھی آنکھ نہ جھپکیں، من میں درد اتھاہ،
ان کی عجب ہے چاہ، وہ کاٹیں سر کندھوں سے۔
8
وہ جو قتیل وحدت ہیں اور، الا اللہ کے بسمل،
کہا کہ "برحق محمدﷺٖ ہیں" اور ہو گئے دل سے قائل،
کہے لطیف کہ جس عاشق نے، پائی ہے یہ منزل،
وحدت سے گئے مل، تب رب نے اس کو دھو دیا۔
9
وہ جو قتیل وحدت ہیں اور الا اللہ کے بسمل،
کون ابھاگا ایسا ہو جو، چاہے نہ یہ منزل۔
10
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ ، سنا نہیں اے غافل!
باطن کی آواز سے بھی تُو، ہو سکا نہ قائل،
ہوں گے گواہ مقابل، روئے گا تو دن محشر کے۔
11
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، یہ ہی کر بیوپار،
یہی تیری منزل ہے اب، جیت ہو چاہے ہار،
کہیں گے خود سرکار، پی لے جام تو جنت کا۔
12
وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ، یہ ہے حق یکتائی،
منزل کبھی نہ پائی، دوئی میں جو الجھ گئے۔
13
سر ڈھونڈوں تو دھڑ نہ پاؤں، دھڑ پاؤں تو سر کہاں،
جیسے سرکنڈے کٹتے ہیں، کٹے ہیں ہاتھ اور انگلیاں،
تن من خون افشاں، وصل جنہیں وحدت کا۔
14
عاشق مت کہ اس کو، اور نہ کہ معشوق،
نہ ہی کالق اے ناداں! نہ ہی کہ مخلوق،
بتا نہ رمز سلوک، ناقص اور ناداں کو۔
15
وحدت سے ہی کثرت ہے اور، سب کثرت ہے وحدت،
حق تو حقیقی ایک ہے سائیں! چھوڑ تو سب غفلت،
ہر سُو پی کی نوبت، واللہ باج رہی ہے۔
16
خود ہی جل جلالہٰ، خود ہی جانِ جمال،
خود ہی صورت یار کی، خود ہی حسن کمال،
خود ہی پیر مرید بنے اور، خود ہی یار خیال،
سارا یہ احوال، اپنے آپ میں ڈوب کے پایا۔
17
خود ہی دیکھے خود کو، خود ہی ہے محبوب،
خود ہی خالقِ خوب، خود ہی اس کا طالب۔
18
یہ بھی وہ اور وہ بھی وہ، اِجل بھی وہ اللہ بھی وہ،
پریتم وہ اور جان بھی وہ، دشمن اور پناہ بھی وہ۔
19
ایک صدا ایک گونج، سننے میں ہیں دو
غور سے گر سُن لو، مخرج ان کا ایک ہے۔
20
ایک قصر در لاکھ، اور کروڑوں کھڑکیاں،
جدھر اُٹھے یہ آنکھ، ادھر ہے سندر روپ سجن کا۔
21
ساجن! کیا کیا روپ ہیں تیرے! درشن لاکھ ہزار،
جی جڑے ہیں جی سے سائیں! الگ الگ دیدار،
تیرے روپ ہزار، کیا کیا روپ ہیں دیکھوں۔
وائي
سبھی پریتم کو پوجیں،
اکھین پریت، رسیلی بتیاں، ایسے پی کو سب ہی پوجیں،
جو بھی میرے من میں ہے وہ، تو ہی جانے جاناں!
دو ہی بیت لطیف کوی کے، تیری صدا ہی سجناں!
دوسری داستان
1
دیکھی جب بیماری میری، پیا ہوئے رنجور،
سولی کو اورانگا میں نے، روگ ہوا سب دور۔
2
اندھے نیم حکیم بھلا کیوں، اور تو روگ بڑھائے،
روگ ہے میرے من میں پر تُو، دارو اور پلائے،
سولی سیج سہائے، موت تو پیا ملن کی۔
3
سولی نے ہے بُلایا، کون چلے گی ساتھ
ان سے رہا نہ جائے کریں جو، پیا ملن کی بات۔
4
جن کے من میں پریت ہے ان کو، سولی نے ہے بلایا
پیچھے قدم ہٹا نہ عاشق! گر ہے عشق کا دعویٰ،
کاٹ کے سر تو لے آ، پھر کر باتیں پیار کی
5
سولی روزِ ازل سے، عاشق کا سنگھار
لوٹ کے آنا طعنہ جانیں، سولی پر دیدار،
مرنے کا اقرار۔ ان کا روز ازل سے ہے۔
6
سولی روزِ ازل سے، عاشق کا سنگھار
پاؤں کبھی نہ ان کے لرزے، دیکھ کے بھالے دار،
آن چڑھائے یار! پریت انہیں سولی پر۔
7
سولی پہ یوں سجنا، کیوں کر ہیں مسرور
جب سے لاگے نیناں، تب سے سولی سیج ہے۔
8
سیج سمجھ کر سولی چڑھنا، یہ عشاق کا کام،
رُکیں نہ وہ اک گام، آئیں مقابل سولی کے۔
9
عاشق سولی پہ چڑھتے ہیں، دِن میں سو سو بار،
پریت کی ریت کو بھول نہ جانا، دیکھ کر نیزے دار،
تو دیکھ نہ پایا یار، پریت جہاں سے پھوٹی ہے۔
10
پہلے گھونپ لے خنجر، پھر کر بات پریت کی،
درد سجن کا صورت نغمہ، گونجے دل کے اندر،
انگاروں میں پک کر، پھر لے عشق کا نام۔
11
تیغ پہ کیا الزام، وہ ہے سجن کے ہاتھ میں،
سیکھ ادائیں محبوبوں کی، لرزے تیغ تمام،
دکھ ہی دکھ ہر گام، عاشق کو ہے پریتم کا۔
12
دستِ یار میں خنجر ہے وہ، تیز نہ ہونے پائے،
ہاتھ ذرا رُک جائے، یار کا پل بھر تن پہ۔
13
دستِ یار کے خنجر سے، کٹ کٹ جائے چام،
لے کے یار کا نام، عاشق انگ کٹائیں۔
14
پریت کی ریت جب سیکھی تو پھر، خنجر سے کیا ڈرنا،
پریتم نے جو درد دیا ہے، عام اسے مت کرنا
ہنس ہنس راز میں رکھنا، درد کی اس دولت کو۔
15
کاٹیں گردہ انگ تو آجا، ورنہ راہ لے اپنی،
یہ ہے ان کا دیس کہ جن کے، ہاتھوں میں ہے کٹاری۔
16
ایسے پی سے پریت لگی کہ، ہاتھ میں ہے خنجر
اُلفت کے میدان میں آئیں، کیسا خوف و خطر
آگے رکھ دوں سر، شاید کاٹ لے سجن۔
17
کچھ تو مقتل میں جا پہنچے، باقیوں کی ہے قطار،
تجھ کو قبول کریں گے ہو جا، مرنے کو تیار،
کیا تو دیکھ نہ پایا ان کے، سروں کے ہیں انبار،
سروں کا کاروبار، دیکھ کلال کے ہاٹ پہ ہے۔
18
مے پینا گر چاہے تو پھر، پاس کلال کے جا،
مے کے خُم کے پاس تو جاکر، کاسہ سر کو جھکا،
ایک ہی سانس میں گاڑھی مے کے، جام پہ جام چڑھا،
شہزوروں کے ہوش گنوائے، یہ ہے وہ مدرا،
بھاؤ بڑا سستا، سر دے کر گر مے مل جائے۔
19
جا کلال کے ہاٹ پہ ہے، مے کی خواہش گر،
کہے لطیف کہ سر کو کاٹ کے، مٹکے پاس تو دھر،
سر کا سودا کر، جام پہ جام تو پی کے۔
20
گر ہے مے کی خواہش تو پھر، کوچہ کلال میں جا،
مہیسر، کی مے کا ہر دم، وہاں ہے شور برپا،
رمز میں یہ سمجھا، کہ سر کے بدلے مے سستی ہے۔
21
گر ہے مے کی خواہش تو پھر، گھر کلال کے جا،
کاٹیں تیرا انگ انگ تو، مے کی ریت نبھا،
سودا ہے سستا۔ گر جام ملے جاں دے کر۔
22
مے کا کوئی مول نہیں ہے، مول ملے کب مدرا،
کہے لطیف سر کے کٹوانے کو، سر کو سجا کر لا،
یہ مقام ہے انکا جو مدھ شالا میں مرتے ہیں۔
23
عاشق عادی زہر کے ہیں اور، زہر سے ہیں مسرور،
کڑوا قاتل زہر جو دیکھیں، مستی میں ہوں چُور،
کہے لطیف کہ عشق یار میں، مٹتے ہیں وہ ضرور،
زخموں سے ہیں چُور، کبھی نہ زخم دکھائیں۔
24
کڑوی مے گر پی نہ پائے، مت لے مے کا نام،
جان رگوں سے کھینچے یہ مے، لرزاں جسم تمام،
چکھ لے کڑوا جام، سر دے کر تو پی لے گھونٹ۔
25
جو بس خواہش کرنا جانیں، لیں کیوں مے کا نام،
جُوں ہی کلال نے تیغ نکالی، لرزاں جسم تمام،
وہی چڑھائیں جام، جو سر کا سودا کر پائیں۔
26
سر جدا ہیں جسم سے اور، دیگ میں جسم تمام،
حق ہے اِن کا جام، سر جو سجا کے لائیں۔
27
انگ اُبلتی دیگ میں ہیں اور، کڑ کڑ کرے کڑھائی
زخموں کی رعنائی، دیکھ کے بھاگے بید۔
28
مدرا پینے آئیں اِن سے، سر مانگے ہے ساقی،
جن کی مدرا بھٹی، وہ کچھ اور ہی مانگیں۔
29
جو ہیں پریت کے مارے ان کو، کب ہے پیاری جان،
سجا کے سر وہ لے آتے ہیں، جان کریں قربان،
سر کا دے کر دان، بات کریں پھر عشق کی۔
30
جو ہیں پریت کے مارے ان کو، کب ہے پیاری جان،
یار کی ایک جھلک کی خاطر، لاکھوں سر قربان،
میرا جسم یہ جان، یار کی خاکِ پا پہ صدقے۔
31
سر کا صدقہ دے کر سائیں، پریتم گر مل جائے،
سستا سودا جان کر عاشق، سر اپنا کٹوائے،
قسمت جب بر آئے، تب ملتا ہے ساجن۔
32
مے انمول کے اک قطرے کی، آس شہادت ہے،
یہ بھی عبادت ہے، گر ناز سے ساجن دیکھے۔
وائي
پی کر مے کا جام، ساجن کو پہچان لیا،
عشق کے پیالے پی کر ہم نے، جانا بھید تمام،
انگ انگ میں پیار کی اگنی، سلگیں سب اندام،
جگ میں جینا دون دن کا ہے، دو دن کا ہے قیام،
کہے لطیف کہ تُو ہی تُو ہے، باقی تیرا نام۔
تیسری داستان
1
مجھ کو چھوڑ گیا ہے ساجن، پریت کا روگ لگا کر،
ایسا درد وہ دے گیا دل کو، میرا یار وہ دلبر،
کوئی نہ چارہ گر، میرے من کو بھائے۔
2
من کو اب نہ بھائے کوئی، پی بِن اور طبیب
وہ ہی یار حبیب، میرے حال کا ہادی ہے۔
3
ہادی ہُوا حبیب وہ میرا، راہ نمائے راحت،
پی نے روگ مٹایا سارا، قائم ہوگئی نسبت،
ہم نےپائی صحت، روگ سے تیرے ہاتھوں۔
4
اور طرح کا روگ لگے ہے، ہادی ہو جو حبیب،
ایسا روگ مِٹا نہ پائے، کوئی اور طبیب،
رہنما ہے رقیب، وہ ہی درد کا درماں ہے۔
5
جب وہ چارہ ساز ہُوا تو، دُور ہُوا آزار،
گاہے بول سے رس گھولے اور، گاہے قہر کا وار،
اس کو ہی وہ گھائل کردے، جس کا ہو وہ یار،
صاحب رب ستار، وہ ہی من کی بیتا جانے۔
6
پل پل جھن جھن باج رہے ہیں، رگ رگ تار رُباب،
میرے لب پر مہر لگی ہے، ساجن دے نہ جواب،
وہ جو میرے زخم کا مرہم، دل کو کرے کباب،
وہ ہی عین عذاب، وہی راحت روح کی ہے۔
7
وہ بھٹکائے راہ دکھائے، عجب ہے اس کی عادت،
جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت۔
8
کیا ہے درد کا کارن؟ پی نے چُھپ کر پوچھا،
درد کا درماں بخشا یار نے، مجھ کو پاس بلایا
"آخر العصر" پریتم نے فرمایا،
تب سے یہ من میرا، ترسے پی درشن کو۔
9
دور سے بیٹھا کیوں ترسے ہے، جا اس یار کے دوار،
ٹھکرایا سنسار، جس نے دیکھا دوار پیا کا۔
10
شیرینی سے شیریں تر ہے، میٹھا ہر ایک بول،
ساجن ہے انمول، چپ بھی پیار کی باتیں ہیں۔
11
شیرینی ہی شیرینی ہے، جو کچھ پریتم دے،
دل سے گر چکھ لے، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
12
جان بوجھ کے پی نے تجھ سے، باندھا درد کا رشتہ،
پریت کے درد کی باتیں پیارے!، غیر کو مت بتلا۔
13
جس کی چاہ میں تڑپ رہے ہو، وہ بھی تجھ کو چاہے،
فاذکرونی اذکرکم، پی کی بات سمجھ لے،
ایسا وہ پریتم ہے، شیرین لب اور ہاتھ میں خنجر۔
14
پریتم نے اک بار پکارا، مہر سے مجھ برہن کو،
بس اس ایک سخن کو، سکھیو! دل دُہراتا ہے۔
15
پیار سے پریتم نے پوچھا تھا، مجھ سے یہ اک بار،
" کیا میں تیرا رب نہیں ہوں؟"، میرا تھا اقرار،
درد کی تیز کٹار، تب سے دل میں اُتری ہے۔
16
پوچھ رہے ہیں یار، پی نے باندھا کدھر نشانہ،
عشق کے بھالے برس رہے ہیں، خود کو کریں نثار،
دیکھ کہ کیسی سج دھج سے وہ آئیں سوئے دار،
سر دیتے ہیں وار، مر مٹنا تو پیا ملن ہے۔
17
پاس بلا کر قتل کرے اور، پھر وہ پاس بلائے،
لاکھ گڑھے ہوں عشق کے بھالے، قدم لرز نہ پائے،
موت سے آنکھ ملائے، بھول کے علم و دانش کو۔
18
پی کا پاس بلانا بھی تو، گویا ہے دھتکار،
جس کو کوئی سمجھ نہ پائے، ایسا اس کا پیار،
آس اسی کی یار!، جو توڑ کے ناتہ جوڑے۔
19
قتل کرے تو مہر کرے اور، مہر سے قتل کرے وہ،
میری روح کی راحت ہے اور، میرا قاتل ہے وہ۔
20
قتل کرے اور مہر سے یہ پھر وہ، پاس بلائے یار،
ہر دور میں اس کی عادت ہے، عجب ہے اس کا پیار،
زخم وہ دے ہر بار، وہ ہی روح کی راحت ہے۔
21
پاس بلا کر گھائل کردے، ایسے ناز و ادا،
وہ ہی دار پر لٹکائے اور، جلائے روز پیا،
کریں برہ کا سودا، آجا تو بھی سودا کر لے۔
وائي
ہوگا درد کا کا درماں، میرا یار حبیب سکھی ری!
درد کا آکر کرے مداوہ، مہر سے میرا سجناں،
میرے انگناں آ کر دیکھا، میرا حال پریشاں،
مجھ روگی کا روگ مٹایا، آن کے میرے انگنا،
کہے لطیف کہ تجھ سا جگ میں، اور طبیب نہ جاناں!
سُر ایمن
پہلی داستان
1
تُو حبیب، تُو طبیب، تُو درد کی دوا
جانی! میرے جان کو ہے، روگ کیا لگا
تُو ہی دے شفا، صاحب! اہلِ دل کو۔
2
تُو حبیب، تُو طبیب، درد کا تُو ہی درماں،
میرے دل کی دوا ہیں، سائیں، تیری بتیاں،
روتی ہوں دن رتیاں، تجھ بِن اور نہ درماں۔
3
تُو حبیب، تُو طبیب، تُو دوائے کرب،
روگ بڑھائے اور اتارے، تُو ہادی، تُو رب،
کیسی بات عجب، کہ کام طبیب نہ آئیں۔
4
تُو حبیب تُو طبیب، درد کی تُو دوا،
ماندگی بھی تو ہی دے اور، تو ہی دے شفا،
حکم ہو جب تیرا، تب دوا اثر کرے ہے۔
5
کوئی طبیب کبھی جو آ کر، میرا درد مٹاتا ہے،
اس کو ختم کر جاتا ہے، آ کر میرا ساجن۔
6
ہاتھ اُٹھا کر تیر چلا دے، مجھ پر کر احسان،
مر کر پائہں مان، پریتم تیرے ہاتھوں۔
7
ہاتھ اٹھا کے تیر چلادے، مانگے دل یہ ہر دم،
آہ کروں تو جگ جانے ہے، صبر نہیں جانم،
کیا بتلائیں ہم، کہ ساجن نے مارا ہے۔
8
ہاتھ اٹھا کر تیر چلادے، کھینچ لے یار، کمان،
آن گروں آغوش میں تیری، اسی بہانے مان،
پورے ہوں ارمان، وصل تو ہو پل بھر کا۔
9
جس جا پریت کے تیر چَلائیں، میرے یار حبیب،
بھولیں بید طبیب، سارے علم و حکمت۔
10
مارے گر تو پیار سے، میرے یار حبیب،
پوچھوں کیوں میں طبیب، گھایل ہی پھرتی رہوں۔
11
تیر چڑھا کر ساجن نے، کھینچی آج کمان،
سسک رہی ہے جان، جس کو تیر لگا ہے۔
12
جن کے تن میں تیر چبھے ہیں، سسک رہے ہیں گھایل،
اُلفت کے مقتل میں اب تو، تڑپ رہے ہیں بسمل،
اپنے زخم کا آپ ہی مرہم، درد ہی ان کا حاصل،
ہو کر ان میں شامل، ان سنگ رات بِتائیں۔
13
چلو تو رات بِتا آئیں ہم، ایسے گھائل سنگ،
دل زخموں سے چھلنی ہے اور، دُکھتا ہے ہر انگ،
یہ ہیں ان کے ڈھنگ، چھپ کر زخم وہ سہلائیں۔
14
آج بھی اپنے آنگن میں، سسک رہے ہیں گھائل،
شام ہوئی تو بسمل، دھونے لگ گئے زخم۔
15
گھائل کے کوچے سے آئی ، کیسی یہ آواز،
شاید چارہ ساز، کھول کے دیکھ رہے ہیں گھاؤ۔
16
شاکر اپنے حال پر دائم، پریت کے سارے گھائل،
رواں ہیں سوئے منزل، تھک کر کبھی نہ بیٹھیں۔
17
جو ہیں پریت کے گھائل وہ تو، درد کی بات سنائیں،
کیسا روگ لگا ہے اُن کو، اور کو نہ بتلائیں،
آخر ڈھونڈ نکالیں، جو ہے انکے من میں۔
18
گھائل کا وہ درد نہ جانیں، سدا ہیں جو مسرور،
کروَٹ تک بھی لے نہ پائیں، درد سے یہ مہجور،
چُھپ کر یاد کریں پریتم کو، روئیں وہ رنجور،
یاد میں مہجور، رو رو رین بِتائیں۔
19
گھائل کا وہ درد نہ جانیں، درد سے جو انجان،
کیسے تڑپ رہے ہیں بسمل، سسک رہی ہے جان،
کہے لطیف کہ پریت لگی ہے، دردِ ہجر ہر آن،
جن کی پریت مہان، رو رو کر وہ رین بِتائیں۔
20
نیر بہائیں نینن سے جو، جھوٹی اِن کی پریت،
جگ دکھلاوا جھوٹ ہے یہ، کب یہ پریت کی ریت،
جن کے من میں میت، وہ کبھی نہ نیر بہائیں۔
وائي
بھولے بید بچارے، درد نہ جانیں دل کا،
چارہ سازو! لے جاؤ تم، اپنے نشتر سارے،
وہ ہی مہر کا مرہم دیں گے، دیں جو زخم نیارے،
جن کے ہجر کا درد ہے دل میں، وہ آئے آج دلارے۔
دوسری داستان
1
من کا روگ نہ جانے میرا، تو نہیں چارہ گر،
بھاڑ میں جھونک تو اپنا مرہم، اور یہ علم و ہنر،
بِن اپنے دلبر، جینا ہے بے کار۔
وائي
میں ہوں پریت کی ماری، کبھی تو آ میرے انگنا،
دوش نہ دینا مرجائے گر، ہجر میں یہ بے چاری،
آن کے درد کا درماں کر دے تیرے میں بلہاری۔
2
چارہ گر سے اُلجھیں روگی، کب مانیں اس کی بات،
دور ہوں سب آفات، مان لیں چارہ گر کی باتیں۔
3
چارہ گر سے الجھ رہے ہیں، پرہیز وہ کر نہ پائیں،
درد ہی سہتے جائیں، اسی لیے ہیں روگی۔
4
بیماروں کی حالت پر، ترس طبیب کو آئے،
سب کو وہ سمجھائے، بِن پرہیز کب بات بنے ہے۔
5
بیماروں نے صحت پائی، رہے طبیب کے ساتھ،
حیلے کر کر روگ مٹایا، ترس سے تھام کے ہاتھ۔
7
تو نے کب پرہیز کیا، وہ کیا جو من کو بھایا،
کرتا گر پرہیز تو تیرا، روگ یہ سب مٹ جاتا۔
8
گر ہے من میں چاہ تو سیکھو، چوروں کے اطوار،
راتیں جاگیں، جشن منائیں، نینن نہیں خمار،
جو کچھ پائیں، اے چھپائیں، ایسے ہیں ہوشیار،
چاہے سولی پہ چڑھ جائیں، کریں نہ وہ اظھار،
جیون بھی دیں وار، راز نہ کھولیں دل کا۔
9
چارہ گر نے گھائل کو، گھر سے دیا نکال،
ہر اِک زخم کے ٹانکے ٹوٹے ، سارا تن بے حال،
اپنے دوست کے درشن سے ہی، دور ہو رنج و ملال،
پریتم آن سنبھال، بید ہوئے مایوس۔
10
گھر میں بید کے بیٹھے بیٹھے، انگنا آیا یار،
انگ انگ سے خوشیاں پھوٹیں، دل کو ملا قرار،
دور ہوا آزار، دیکھتے ہی دلبر کو۔
11
جس ساجن نے زخم دیئے ہیں، وہ ہی مرض شناس،
آن کے اس نے زخم سیئے تو، صحت آئی راس،
رہے جو ان کے پاس، تو روگ لگے نہ جی کو۔
12
ہائے طبیب! اس روگ نے مارا، تُو نے لی نہ خبر،
آئے گا جب دلبر ، تو کروں گی اس سے شکوہ۔
13
بید! صحت کی طلب نہیں اور، دوا نہیں درکار،
آئے شاید یار، مہر سے میرے آنگن۔
14
چارہ گر کے پاس رہو تو، کبھی نہ ہو بیمار،
کوئی نہ ہو آزار ، بدلے گر تو اپنی عادت۔
15
چارہ گر کے پاس رہے پھر، پالا کیوں آزار،
کرتے سر رایار، سر کا صحت کی خاطر۔
16
نیم حکیم نے مارا مجھ کو، ماہر بید نے پایا،
داغ داغ کے سارے تن کو، روگ کو اور بڑھایا۔
17
بید طبیب کی قدر نہ کی اور، سدا رہے بیمار،
بید نے جب سنبھالا ان کو، تو دور ہوا آزار۔
18
چارہ گر نے جتن کیے، پر درد ہوا نہ دور،
آپ ہی درد کا درماں دیں گے، چُھو کر تن رنجور،
پوچھیں جن کو حضور، تو روگ نہ ان کو لاگے۔
19
بیماروں نے مل کر آج، صحت کو ہے بلایا،
دور ہو جا اے روگ تو ہم سے، درماں آنگن آیا۔
تیسری داستان
1
دل میں اک کہرام ہے تیری، طلب میں مرے سجن،
سلگ رے ہیں انگ یوں بھڑکی، دل میں پریت اگن،
جلتا یہ تن من، یقین نہیں تو آن کے دیکھو۔
2
من میں اک کہرام ہے ساجن، طلب میں سلگیں پہلو،
تن سلگا تو پھیلی ہر سُو، جلتے ماس کی بو،
آ کر دیکھ لے تو، یقین نہیں گر پیارے۔
3
جیسے آگ ببول کی دہکے، دہک رہا ہے تن،
جل کر یار! کباب ہوا ہے، سارا تن اور من،
چارہ گر ساجن، اور نہ درماں کوئی۔
4
یار نے کہنی ٹیک کے، ایسا تیر چلایا،
پہلو میں پوست ہوا اور، تن کو پیر گیا،
پیٹھ میں اُترا، جگر کو چھیدا، قلب کے پار گیا،
بید طبیب بُھلایا، پی بِن اور نہ درماں۔
5
کھینچ کے ایسا تیر چلایا، لرزاں جسم تمام،
تن کو چیر کے قلب میں اُترا، چیر گیا ہے چام،
آیا کچھ آرام؟ پوچھو یار سجن سے۔
6
کھینچ کے ایسا تیر چلایا، یار نے دوجی بار،
سَن کرتا یوں تیر چلا کہ ، ہوا بدن کے پار،
قلب و جگر کو چیر کے سائیں! آر سے ہوگیا پار،
جینا ہے دشوار، تڑپوں تیر نہ نکلے۔
7
تیر چلانے کو ساجن نے کھینچی آج کمان،
سَن کرتا اک تیر چلا اور، زخمی جسم و جان،
تیر انداز مہان، ساجن یار ہے میرا۔
8
جلا جلا دہکائیں جو، من میں پیار کی اگنی،
جلتی سیخ کُھپی ہے تن میں، پریت نئی ہے سجنی،
یہ ہے دید کی کرنی، جلتی ہوں میں اگنی میں۔
9
پروانوں سے پوچھے کوئی، جل جانے کا حل،
آگ میں خوش خوش جھونکیں خود کو، جینا ہے جنجال،
کرلے نہیں نڈھال لگے ہیں ایسے عشق کے بھالے۔
10
پروانہ تب کہلائے جب، آگ ہو خاکستر،
اس آتش کے سوختہ ہیں سب، اے تو سوختہ کر،
بھید تُو اس کا پاکر، من کی آگ سے آگ بجھادے۔
11
پروانہ کہلاتا ہے تو، جان بوجھ کے جل،
جب تک جلتی آگ ہے باقی، جلنا جان اٹل،
جان لے آگ ہے جو دو پل ، جل جا بھید نہ بتلا۔
12
پروانہ کہلاتا ہے تو، لوٹ نہ دیکھ کے آگ،
پریتم کی مکھ جوت پر، جلے تو تیرا بھاگ،
جلنے سے ہے باک، کچی تیری پریت ہے۔
13
پروانوں نے موت کی ٹھانی، دیکھ کے روشن باٹی،
سانچ کی آنچ سے ذرا نہ جھجکے، جھوم کے جان جلادی،
خاک ہے اُڑتی پھرتی بیچارے پروانوں کی۔
14
دیکھ کے جلتی آگ کو، پرونے منڈلائے،
کھلے وہ واڑی پھول کی مانند ، دیکھ کے چلتے شعلے،
کیوں نہ خود کو جلائے، آ کر اس کھورے میں۔
15
تن تندور کی مانند دہکے، مار ذرا چھینٹا،
من میں عجز کی آگ جلا کر، اپنی جان جلا،
اپنے اندر منزل منزل، آگے بڑھتا جا،
کہے لطیف کہ پیار کی اگنی، اور کو مت دکھلا،
کہیں یہ دکھلاوا، وصل کے آرے آئے۔
16
کل عشاق کو جلتی بھٹی سے، جب کھینچ کے لائے،
ان کے من میں آتشِ وحدت، اور بھڑکتی جائے،
کبھی نہ بجھنے پائے، دلِ عشاق کی آتش۔
17
آگ جلا کر کندن کر دیں، لوہے کو جو یار،
ان کو خوب ہی پہچانے ہے، آہن گر ہشیار۔
18
آہن گر کی بھٹی میں ہیں، شعلے رقص کناں،
شعلئہ عشق کو بھڑکاتے ہیں، انگارے ہیں یہاں،
آہن گر نہ وہاں، جب تک لوہا پگھل نہ جائے۔
19
جائے نہ آگ کے پاس کبھی اور، آہن گر کہلائے،
شعلئہ عشق کی آگ ذرا بھی، تجھ سے سہی نہ جائے،
سب کو یہ بتلائے، کہ میں تو آہن گر ہوں۔
20
سر کو بنا کے سنداں پھر جا، آہن گر کے پاس،
کُوٹ کے کندن کر دیں شاید، تجھ کو رمز شناس۔
21
سر کو بنا کے سنداں سائیں! چوٹ پہ چوٹ جو کھائے،
تب ہوگا کندن جب تو، اپنا آپ گنوائے۔
22
دیکھ تو انگاروں کو کیسے، جلتے ہیں دو بار،
لکڑی جل کر کوئلہ ہو تو، لائے گھر لوہار،
جلتی آگ میں ڈار، ان کو راکھ کرے وہ۔
23
جَلا بجھائیں، بجھا جلائیں، مجھ کو میرے پیارے،
جلا رہے ہیں آہن گر کے، شعلے اور اَنگارے۔
24
دیکھو آج آئے ہیں، آہن گر وہ مہمان،
لائے ہیں سنداں، تیغ کو تیز کریں گے۔
25
آئے ہیں آہن گر، عجب ہیں اِن کے ڈھنگ،
اُترے گا سب زنگ، اور صاف کریں گے لوہا۔
26
زنگ اُترے اور لوہا پگھلے، لپکیں جس جا شعلے،
دیکھو سنداں لرز رہی ہے، ایسے پڑیں ہتھوڑے،
آج لگے ہیں میلے، آہن گر کے باٹ پر۔
27
سنداں سے مانوس ہیں اِن کا، دمک رہا ہے رنگ،
تیغ ہے اِن کی تیز کہ جس کو، کبھی نہ لاگے زنگ۔
وائي
جی بہلاؤ ، آس بندھاؤ، مجھ کو یہ بتلاؤ،
کب آئے گا ساجن یار،
میرے پیاسے تن کو یار نے، کردیا سرتار،
تیرے ایک اشارے سے، دور ہو سب آزار،
اپنی مہر سے اس پاپن کو، تو ہی پار اُتار،
پھیر کے منہ تو میری جانب، میری اور نہار،
کبھی تو مہر سے اِس سائل کو، پاس بلا اے یار!
چوتھی داستان
1
اک پیالے کے دو ہوں طالب، یہ نہیں عشق پرستی،
گِن کر جام پئیں وہ کیسے، پائیں قرب الستی،
حائل ہوگئی ہستی، وصل سے وہ محروم ہوئے۔
2
اک پیالے کے دو ہوں طالب، یہ نہیں عشق کی ریت،
گھل کر ایک سے ایک ہوئے، جب جاگی من میں پریت،
دوئی پہ پالی جیت، جب گھائل ہو گئے عشق میں۔
3
ایک پیالے کو دو ہوں طالب، عشق نہ مانگے آدھا،
جوں شاعر اور گائک میں ہے، شعر و غنا کا ناطہ۔
4
آنکھیں ادھر کو دیکھ رہی ہیں، جہاں دوئی کے قاتل،
زہر ملی جو مے پیتے ہیں، کر ان سے مے حاصل۔
5
آنکھیں ادھر کو دیکھ رہی ہیں، جہاں دوئی کے قاتل،
سر کا کوئی مول نہیں گر، قطرہ مے ہو حاصل۔
6
زہر کو مار کے شہد بنائیں، بیٹھ تو ان کے پاس،
ان کی رکھ تو آس، بھر بھر پیالے پی لے۔
7
مے نوشوں کو مت ترسا اور، مے کو کردے عام،
جام پہ جام پلا تو جائیں، جھومتے گام بگام،
میخانے کا نام، موکھی! ہو مے نوشوں میں۔
8
چُھپا نہ مے تو مے نوشوں سے، جام پہ جام پلا،
راہرؤں کو مدرا دے کر، ظرف تو پرکھ ذرا،
مے کا ایک قطرہ، بڑا ہی ہے انمول۔
9
ہچکی پر ہچکی ہے اور ہیں، لب پر زہر کے پیالے،
جام پہ جام پلادے ساقی! آئے ہیں متوالے،
خم کے طالب سارے، گھونٹ دو گھونٹ سے کیا بنتا ہے۔
10
موکھی نے تب مٹکے کھولے، چلی جب خنک ہوا،
مے کی مہک سے کھچ کر پیاسے، سروں کو آئے سجا۔
11
رات پڑی جو میخانے پر، شبنم قطرہ قطرہ،
ساقی! قطرہ قطرہ چُن کر، راہرؤں پر برسا،
نگر نگر میں بات چلے اور، دھوم مچے پھر ہرجا،
صبح پئیں جو مدرا، وہ آئیں گے مے خانے میں۔
12
آئیں گے مے خانے میں تو وہ، کریں گے خالی خُم،
بھر بھر دینا تم، اور بڑھے گی پیاس۔
13
موکھی مے فروش، اوچھی اس کی ذات
زہر پلا کر رات، مارا متاروں٭ کو!
(٭متارا: کرداروں کے نام)
14
زہر ملی مے دے کر تُونے متوالوں کو مارا،
موکھی، بن متوالوں کے اب کرے گی جی کر کیا؟
15
مر گئے مے کے متوالے سب، تو بھی جان سے جا،
موکھی! کس کو دکھلائے گی، اب تو جور و جفا۔
16
مے کب اِن کو مار سکی تھی، مار گیا اک بول،
بول نے رگ ریشے میں ان کے، زہر دیا تھا گھول،
متوالے انمول، مرگئے سن کر بات۔
17
ابھی بھی بھٹی میں پکتے ہیں، مدرا کے کچھ خُم،
بھول نہ جانا تم، موکھی! ان متوالوں کو۔
18
تیغ تنی تھی گردن پر اور، لب پر جام پہ جام،
خم کے خم وہ خالی کر گئے، مے نوشی تھی عام،
وہ کب تشنہ کام، جو پالیں حال و مستی۔
19
برا نہ چاہا موکھی نے اور، زہر کا تھا نہ اثر،
بس ایک گھونٹ کی خاطر چوما، میخانے کا در،
باتون سے گئے مر، ہیں قبریں پاس بھٹی کے۔
20
آج تو یار کلال سے جاکر، سر کا سودا کر،
ہاتھ میں خنجر لے کر سائیں، کاٹ لے اپنا سر،
موت سے کیسا ڈر، مول بڑا ہے مے کا۔
21
دیکھ کہ ہر اک پیالے میں ہے، طرح طرح کی مدرا،
یار کلال کی قدر ہوئی جب، مے کا کیف ہوا،
آج کلال کے پاس وہ سارے، سر کا دیں صدقہ،
چکھتے ہیں مدرا، سر کا سودا کر کے۔
22
زہر ملی مے پی کر جب یہ، جسم بنے انگار،
جن سنگ تونے مدرا پی تھی، گئے برس اے یار!
ملیں گے وہ میخوار، تجھ سے مے خانے میں۔
23
نیر بہاتے، جلائیں بھٹی، رینا جائے بیت،
اے دل! تو نے کیوں نہیں سیکھی، جو ہے کلال کی ریت۔
24
یار کا پایا درشن، دوست میرے گھر آیا،
جس کو دیکھے جگ بیتے تھے، آج وہ آیا ساجن،
ہجر کے بعد اب ملن ہوا ہے، مولا لایا ساجن،
دور دیس میں یار بسا تھا، آج وہ آیا آنگن،
کہے لطیف کہ مہر سے سائیں، گھر آیا وہ ساجن۔
پانچویں داستان
1
وہ ہی سچے صوفی تھے جو، دوئی سے بیگانے،
عشق کی بازی بھول نا پائے، ایسے تھے فرزانے،
مستی سے مستانے، پا گئے قرب اس ساجن کا۔
2
خلق میں یوں موجود ہے صوفی، جیسے جسم میں جان،
کبھی نہ ایسی بات کریں کہ، دوجا لے پہچان،
سمجھیں پاپ مہان، گر بھید سمجھ لے کوئی۔
3
دان بنے ہے دکھ کا کارن، بِن بِھکشا مسکائیں،
صوفی وہ کہلائیں، جن کی جھولی خالی۔
4
صوفی ہے لاکوفی اس کا، مسلک کیا مذہب،
اپنے من میں ہی محشر ہے، ظاہر سے کیا مطلب،
اِن کی ریت عجب، بیَری کو بھی راہ دکھائیں۔
5
صوفی نے ہی صاف کیا ہے، ورق وجود کا دھوکر،
تب دیکھا وہ دلبر، جب دُھل کر ہم صاف ہوئے۔
6
کیسے صوفی سنت بنے ہو، من میں آشا جال،
اپنی کلاہ اُچھال، پہلے جلتی آگ میں۔
7
کامل صوفی بن، پھر کر فکر کلاہ کی،
کہیں سے زہر کا پیالہ پی کر، ہو جا مست مگن،
ان کا یہ مسکن، مے سے جو مدہوش ہوئے۔
8
جسم میں جبار کا، خیمہ لگا مھدم،
تیرے لب پر ذکر جلی کا، ورد رہے ہر دم،
فکر سے تو فرقان میں سائیں! ڈونڈ اسمِ اعظم،
اس در پہ ہمدم، یہ موتی ہے انمول۔
9
یہ جگ سارا خود بینی کے، کیا کیا رنگ دکھائے،
کوئی سمجھ نہ پائے، کیسی یہ جادونگری ہے۔
10
چشمئہ حُسن کا جگ طالب، رومی نے فرمایا،
جس نے پایا بھید حسن کا، بات نہ لب پر لایا،
11
چشمئہ حُسن طالب ہے، رومی ہے یہ کہتا،
کہاں سے انسان آیا ہے، دیکھ یہ طلسم سارا۔
12
چشمئہ حُسن کا طالب ہے، رومی یہ بتلائے،
پردہ گر ہٹ جائے، تو خود میں دیکھیں ساجن۔
13
چشمئہ حسن کا جگ طالب ہے، رومی کہے یہ بات،
دیکھے تو وہ ذات، گر خودداری کو تج دے۔
14
چشمئہ حُسن کا جگ طالب ہے، رومی نے فرمایا،
جس نے سچ کے بھید کو پایا، اس نے کب بتلایا۔
15
حُسن کے بھید کے سب طالب ہیں، رومی یہ فرمائے،
توڑ فراق کے دروازے تو، خود میں اس کو پائے۔
16
ظاہر میں تو پاپی ٹھہرے، باطن چشمئہ عرفاں،
یار کے درس کا دل میں لاگا، آکر ایسا پیکاں،
من میں یار ہے پنہاں، پل پل وِرد ہے یار کا۔
17
دور کریں جو درد کا، دُکھ کا پڑہیں سبق،
فکر کی تختی ہاتھ میں لے کر، جھپکیں چُپ میں پلک،
پلٹیں وہ ہی ورق، جس میں دیکھیں ساجن کو۔
18
پہلی سطر بھی یاد نہیں ہے، سارا سبق بُھلایا،
میں تو پڑھ نہ پایا، یارو! ورق وصال کا۔
19
ورق وصال کا پڑھ کر دیکھا، میں نے جب سارا،
اس میں تو بس تُو ہی تُو ہے، ذکر نہ اور ذرا۔
20
سطر پڑھیں نہ وہ جس میں، الف ہے سب سے پہلے،
کاہے وہ ٹٹول رہے ہیں، ورق جو ہیں دوجے۔
21
جس میں الف کا حرف ہو ایسی، کریں سطر کا دھیان،
لا مقصود فی الدارین، ہے ساجن کا فرمان،
پایا ہے رحمان، سیدھی راہ ملی ہے۔
22
مل گئی سیدھی راہ ہے جن کو، پاگئے وہ رحمان،
اِن کو تو ہر آن، ملے بِدھائی ملن کی۔
23
پڑھ پڑھ بنتے ہو تم قاضی، علم سے کیا حاصل،
خودپرستی و خودداری نے، کب پائی منزل،
کیف سوزِ دل ، پوچھو عزازیل سے۔
24
عشق میں رتبہ کس کو یارو، عزازیل سا حاصل،
عشق تھا اس کا کامل، عشق میں ہی معتوب ہوا تھا۔
25
اپنی خاطر روزِ ازل جو، میں نے سبق پڑھا،
سب سے پہلے پہچانا تھا، نفس کا تب رشتہ،
روحوں کو عرفان تھا حاصل، اپنے ساجن کا،
دورِ ہجر کا آیا، ہستی ہو گئی حائل۔
26
سمجھیں تو اک لفظ بہت ہے، بات بڑی آسان،
یونہی بات بڑھاتے جائیں، کب سمجھیں نادان۔
27
پڑھ پڑھ کر وہ بنے ہیں عالم، سوز سے خالی دل،
جوں جوں پڑھیں کتابیں ان کو، پاپ ہوا حاصل۔
28
پڑھ تو درد کا سبق اے سائیں! جس سے منوا پگھلے،
یار، سجالے اپنے من میں، الف تو میم سے پہلے،
دھیان میں بات یہ رکھ لے، کہتا ہے جو شاہ لطیف۔
29
حرف تو پڑھ لے الف کا سائیں! دوجے ورق بِسار،
اپنے من کو اُجار، کیا کیا ورق پڑھے گا۔
30
ہر اک ورق جو اُلٹایا تو، پاپ نظر آیا،
علم سے کیا پایا، جب عمل سے ملا نہ ساجن۔
31
لام کے دامن میں رکھتا ہے، کاتب! الف کو جوں،
یار کو ہم نے یوں، سجا لیا ہے من میں۔
32
سیاہی کرے ہے ضائع اور تو، کرے ہے کاغذ کالے،
اسکے دور اشارے، لفظ جہاں تخلیق ہوئے۔
33
کہاں برابر پی درشن کے، چلّے کاٹنا یار،
کاتب کیوں ہے لگایا تونے، کاغذ کا انبار،
پلٹو ورق ہزار، سب میں ایک ہی لفظ ہے سائیں!
34
چلّے کاٹ تو مت کہ تیرا، تن کھڈی من حُجرہ،
کیوں نہ پوجے اس ساجن کو، جو موجود ہے ہر جا،
پرکھ کے دیکھ ذرا سا، تو سب میں دیکھے ساجن کو۔
35
وہ ہی ہے ہر جانب ہر سو، وہ ہی ہے ہر جا،
جو بھی احد سے غافل ہوگئے، ان کا کریں گے کیا،
من میں ہی پایا، یار کو انجانے میں۔
36
چلے ہیں یار سجن، میں کیسے روکوں من کو،
مجھ برہن کو بھول نہ جائے، جس کی میں دلہن،
ٹھکراؤں میں اور سہارے، میرا تو ساجن،
ماریں وہ، مرجاؤں میں اور، ٹکڑے ہو یہ تن،
موت قبول ہے مل جائے گر، میرا وہ ساجن۔
37
جوبن کے دن چار، یار کی باتیں بھول نہ جانا،
ان کو جگ کے طعنے جن کے، نینن نیند خمار،
جو سوئیں وہ کھوئیں پریتم، پائیں نہ پی کا پیار،
بات میری تم مانو سکھیو!، نندیا ہے آزار،
ان کو اپنا جانوں جاگیں، جو ساجن کے کار،
رات ڈھلے تو جھٹک کے نندیا، رِجھالو اپنا یار۔
چھٹی داستان
1
اِن کی شان تو داؤدی ہے، ہم مفلس نادار،
ساجن شاہ سوار، روندے خدمت گاروں کو۔
2
اس کی شان تو داؤدی ہے، ہم ٹھہرے نادان،
وہ دانا نکتہ دان، روندے خدمت گاروں کو۔
3
اے قابیل! آنکھوں میں تیری، کیا کیا کاری بان،
وار پہ وار کئے جاتے ہیں، ہر گھڑی ہر آن،
کیا ہے کیا کیا زیان، تونے ان نینن سے۔
4
اے قابیل، آنکھوں میں تیری کیا کیا تیکھے تیر،
ساجن، ان تیروں سے ہیں، سب گھائل تیرے فقیر،
مار نہ اور امیر! بس اک ناوک کافی ہے۔
5
اے قابیل، آنکھوں کے تیرے، تیر کریں ہیں گھائل،
کیسے کوئی جان سکے گا، کیا ہے دردِ بسمل،
پھر ہے قتل پہ مائل، تان لیا ہے تیر سجن نے۔
6
اے قابیل، آنکھوں سے کیسا، تیر چلایا تونے،
دوجا تیر تو تب چلائے، جب پہلا لگے نہ نشانے پر۔
7
تیر نظر جب تانے ساجن، سینہ سپر ہو جاؤ،
قلب و جگر پر ہنس ہنس یار کے، زخم ہر اک تم کھاؤ،
سولی پر چڑھ جاؤ، بن کر عاشق سائیں۔
8
جب وہ تانے تیر تو سائیں! سینہ تان لے اپنا،
پریتم کے ہر وار کو تونے، سینے پہ ہے سہنا،
پیچھے لوٹ نہ جانا، بن کر عاشق سائیں۔
9
تانے جب وہ تیر تو تب تُو، تان لے اپنا سینہ،
دل میں رکھ مت کینہ ، جب ہو کوچئہ یار میں جانا۔
10
تیر چڑھا کر چلے پر تُو، ساجن مار نہ موہے،
تیر لگے گا توہے، مجھ میں تُو ہی بسا ہے۔
11
ایسے بھی عشاق ہیں جن کا، کام ہے جان بچانا،
عاشق پہلے تیر سے ہی، ہوگئے یار نشانہ۔
12
پہلا تیر جہاں کھایا تھا، وہیں کھڑا ہوں ساجن،
دوجا تیر چلائے شاید، گھائل کر دے تن من۔
13
اُلفت کے میدان میں آ اور، بن جا یار نشانہ،
کہے لطیف کے تیروں سے پھر، ہوگا جان سے جانا،
حرف نہ لب پر لانا، پریتم روٹھ نہ جائیں۔
14
اُلفت کے میدان میں آئے، کریں گے جان نثار،
عشق کے ہر اک زخم کو جانیں، اپنا ہار سنگھار،
سر دیتے ہیں وار، ہم نے ایسے عاشق دیکھے۔
15
اُلفت کے میدان میں آکر، ہو جا نعرہ زن،
سر سولی دھڑ نیزے پر، لب پر مہر ہو ہمدم،
اُلفت ہے ناگن، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
16
اُلفت کے میدان میں آکر، سر کا چھوڑ خیال،
اپنے سر کو کاٹ کے پی کے، قدموں میں تو ڈال،
افعی عشق کا حال، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
17
اُلفت کے میدان میں پیارے، کیا پروا ہو سر کی،
بڑھ جائے گا تیرا رتبہ، چوم لے بڑھ کر سولی،
پریت ہے ناگن کیسی، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
18
وہم مٹا کر کود پڑو یہ، عشق کا ہے میدان،
تج دے ہر اک خواہش دل کی، کوئی نہ ہو ارمان،
عشق ہے ناگ سمان، پوچھو ڈسے ہوؤں سے۔
19
عشق تو ایسا کھیل نہیں کہ، کھیلیں طفل، جوان،
جسم کا جان سے رشتہ توڑے، اس کا رکھ تو دھیان،
عشق میں دے تو جان، سر نیزے پہ آویزاں کر۔
وائي
عشق مکمل، برھان پورن، میں پاپوں کی ماری پاپن،
سیج پر تڑپوں، آنکھ نہ جھپکوں، نیند کو ترسیں دکھیا نینن،
راتیں جاگیں، من میں پریتم، جن کو مارے تیرا درشن،
عقل کی راہیں اُلجھ گئی ہیں، عشق ہی آن دکھائے ساجن۔
ساتویں داستان
1
عاشق کے ہر ریشے میں، بسا ہوا ہے رب،
کیا جانیں کہ کب، آہیں بھرتے جاں نکلے گی۔
2
کب ان کو آرام، پل بھر چین نہیں ہے،
ہوگئے یار تمام، سن کر طعنہ ساجن کا۔
3
تیرے انگ تو سالم ہیں اور، عاشق ہیں معذور،
عاشق پل پل نیر بہائیں، جاکر پی کے حضور،
ان کا یہ دستور، کہ جئیں وہ یار کی خاطر۔
4
قطرۂ خون بھی گر ہے تن میں، مت کر عشق کا دعویٰ،
لب پر ٹھنڈی آہیں ہوں اور ، پیلا زرد ہو چہرہ،
کریں وہ سر کا سودا، دولت پاس نہیں ہے۔
5
تیرا تو خون بہہ نکلے گر، چھو جائے خاشاک،
کیسے یار کے وار سہے گا، کریں گے تن وہ چاک،
عشق کرے گا خاک! مت کر باتیں عشق کی۔
6
کیوں تو جگ سے چھپ کر دیکھے، اپنے من کا میت،
یار کے آنگن میں جاں دے دے، یہ ہی پریت کی ریت،
جھوٹی تیری پریت، کہ ہجر یار میں تو ہنس ہنس بولے۔
7
دونوں لفظ یہ ایک ہی جانو، پیار ہو یا ہو دار،
دونوں ہی میں رستہ تکنا، پل پل ہے دشوار،
موت ہے آخرکار، دونوں ہی کا حاصل۔
8
پریت کرو یا دیکھو کیسے، مضطر ہیں عشاق،
ان سے تو بس دور ہی اچھے، جن کو عشق سے باک۔
9
بیٹھ تو اس کی راہ میں جاکر، ہے تیرا ساجن،
گھبرا کر تو چھوڑ نہ دیجو، اپنے یار کا آنگن،
تجھ پر ایسی مہر کریں گے، ہوگی دور دُکھن،
خاک جئے گی برہن، تو تو ہم بن جی ہی لے گا۔
10
بیٹھ تو اس کی راہ میں جاکر، جو ہے تیرا دلبر،
تجھ پر لطف کرے گا ساجن، تیرے آنگن آکر،
ہوگا وہ ہی رہبر ، وہ ہی مہر کرے گا۔
11
اپنے سندر ساجن کا تو ، چھوڑ کبھی نا در،
خود ہی آکر پوچھیں گے وہ، تیری خیر خبر،
اعلیٰ وہ رہبر، سیدھی راہ دکھائے گا۔
12
جا تو یار کے کوچے میں اور، بیٹھ اسی کے دوار،
تج دے اپنی خودداری کو، اپنا آپ بِسار،
ہو پھر مائل یار، سرخرو رہے تو ہمیشہ۔
13
جا تو یار کے کوچے میں اور، بیٹھ تو اُس کے دوارے،
موکھی کے اس میخانے سے، منہ مت پھیر متوالے،
پی لے بھر بھر پیالے، وار کے اپنا سر اے سائیں!
14
جاکر بیٹھ تو راہ میں اس کی، جو ہے سندر ساجن،
میخانے سے مدرا دے کر، کروائیں گے درشن،
پھیر کبھی مت گردن، جا کر پاس پیا کے۔
وائي
ہم تو بھول نا پائیں، سندرتا اِس ساجن کی،
سولی پہ سر وار کے پھر ہم، یار کے دوار پہ جائیں،
ان کی پریت ہی سچی ہے جو، سر سولی چڑھوائیں،
پھر ہوں پریت کی باتیں پہلے، سر تو وار کے آئیں،
عقل ہے حیراں، عشق کے مارے، دار پہ سر کو سجائیں۔
آٹھویں داستان
1
کوچہِ یار میں روز کا جانا، کب اچھا ہے یار،
دھیان سے قدم اٹھاتا آ تُو، اپنے یار کے دُوار،
اپنے پیار کا بھید چھپالے، جان نہ لیں اغیار،
پریتم آن کریں گے خود ہی، دُور تیرا آزار،
آنگن آئے یار تو کرنا راز کی باتیں!
2
جب تک کوئی روگ نہیں ہے، یاد طبیب نہ آئے،
درد کوئی لگ جائے، تب ڈھونڈیں چارہ گر کو۔
3
جن کو پریت کا روگ لگے وہ ، روگ کو جانیں صحت ،
جن کو دردِ اُلفت ، وہ درد سے راحت پائیں۔
4
وہ ہی میرے درد کا درماں، جس نے درد دیا،
کہے لطیف کہ جو لکھا تھا، وہ ہی پی نے کیا،
اس کا لطف ہوا، تو آئیں دوائیں کام۔
5
ناقہ بن کر پانی پی لوں، بلائے گر وہ یار،
بِن بلائے چشمے پر تو، جانا ہے دشوار۔
6
انکہی بات عیاں نہیں ہوتی، کہی نہ سمجھے کوئی،
پرکھ سکے نہ لوگ اے سائیں، بات یہ سونے جیسی۔
7
الجھی بات عیاں نہیں ہوتی، کہی نہ سمجھے کوئی،
وہ ہی سونا پرکھ سکے گا، جس کی قسمت اچھی۔
8
جو بھی دیا دوست نے، میں نے وہ گن جانا،
پہلے مجھ کو پرکھا، پھر کی مہر کی باتیں۔
9
جو بھی دے وہ یار سجن تو، ہنس کر لے اے دل!
گر وہ توڑے پریت سمجھ لے، تجھ پر ہے مائل۔
10
توڑ نہ اس سے پریت کا ناطہ ، توڑے گر ساجن،
اِس کے اوگن گن ہی جانو، یہ ہی پریت چلن،
پَھیلا کر دامن، مانگ تو گنوانوں سے۔
11
صبر کریں سکھ پائیں، صبر نقیبِ رحمت،
غصہ وجہ زحمت، بات سمجھ لے ناداں!
12
صبر کریں سکھ پائیں، غصہ دکھ کا کارن،
فرق تجھے معلوم ہوگا، چھوڑے نہ صبر کا دامن۔
13
غصہ دکھ کا کارن، صبر تو کستوری،
سن لے بات حضوری، اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔
14
صبر میں جیت ہی جیت ہے اور، غیض و غضب ہے ہار،
چکھ کے دیکھ اے یار!، صبر کا پھل میٹھا ہے۔
15
اس کے نیارے بھاگ ہیں ، صابر تو سکھ پائے،
اس کا خالی دامن سائیں، غصہ جو دکھلائے۔
16
برا کہے جب کوئی تجھ کو، خود میں رہ تو مگن،
غیض و غضب سے کیا ملتا ہے، دکھ کا بنیں یہ کارن،
ان کا خالی دامن، جن کے من میں کینہ ہے۔
17
تجھ کو برا کہے جب کوئی، بس تو رہ خاموش،
موم کی صورت پگھلا دے تو، غیض و غضب اور جوش،
صبر کا پھل کر نوش، کینے سے کیا حاصل۔
18
کینے سے کیا حاصل ہے تو، بات سمجھ نادان!
ٹوٹے گی وہ کمان، جس کو زور سے کھینچو۔
19
تجھ کو برا کہے جب کوئی، کبھی نہ کچھ تم کہنا،
ہادی کی ہر بات کو تو، بنا گلے کا گہنا،
صبر سنگھار ہے بہنا! پا لے نفس پر قابو!
20
پلٹ کے کچھ مت کہہ ، سن کر کڑوے بول،
اپنے مورکھ من کو سمجھا، صبر بڑا انمول،
بول کو پہلے تول، تو پیار ملے ہر در سے۔
21
کہا سنا سب لوگوں کا تو، دل سے دے بِسرا،
آٹھوں پہر حلیمی کا ہی، خود کو درس سکھا،
جیون یار گزار دے اپنا، سر کو تو نہوڑا،
مفتی من میں بٹھا، پھر کیا حاجت ہو قاضی کی!
22
تجھ کو ٹوک کے سکھلائیں جو، ہر ایک کو "جی" کہنا،
پاس انہی کے رہنا، جیون بھر اے دل!
23
جن کی قربت روگ بڑھائے، ایسوں سے رہ دور،
جا تو ان کے حضور، جو تیرا روگ مٹائیں۔
24
جن کی قربت روح کی راحت، دل کا اُترے زنگ،
رہ ایسوں کے سنگ، جیون بھر اے دل!
وائي
یار سجن کا فراق، مجھ کو مار گیا ہے،
میرے سجن کے اور کئی ہیں، مجھ جیسے مشتاق،
ہر جا ہر سُو دھوم مچی ہے، ہر جا حُسن کی دھاک،
سرمہ جان کے اکھین ڈاروں، ان پیروں کی خاک،
کہے لطیف کہ ساجن میرا، سدا ہے سندر پاک.
سُر کھنبھات
پہلی داستان
1
کتنا ہے گنوان، کیا کیا گُن گِنوائوں،
عیب کبھی نہ جتلائے وہ، مہر بھری ہے شان،
میں پاپن نادان، مہر ہی مہر ہے پریتم۔
2
پیشانی میں دمک رہے ہیں، نیکی کے آثار،
تیری دید کو ترسیں نیناں، آ بھی جا اک بار،
سورج چندا یار! کب ہیں ہمسر تیرے۔
3
تو ہے وہ مہتاب جو دیکھے، چمک چمک کر ساجن،
پریتم سے تم سب کچھ کہیو، کہے جو رو رو برہن،
آئے وہ میرے آنگن، اور لوٹ کے پھر نہ جائے۔
4
دور کبھی نہ جائے مجھ سے، ساتھ سدا ہو ساجن،
روح میں میری نقش ہوئے ہیں، جس کے پیارے نینن،
اس کی باتیں جیون، اور جیون کی آس ہیں۔
5
سیدھی راہ اور چاند چڑھا ہے، کتنا دور سفر،
پی کی راہ پہ چلتے، دیکھ نہ تو مڑ کر،
ملا دے وہ دلبر، چال تو ایسی چل اے ناقے!
6
سیدھی راہ اور چاند چڑھا ہے، مجھ پر کر احسان،
چل چندن چرنے اے ناقے!، بات میری تو مان،
پی کی بات نہ غیر سے کہیو، اس کا رکھیو دھیان،
جلے رقیب کی جان، جھومتا چل تو پیا ملن ہو۔
7
سیدھی راہ اور چاند چڑھا ہے، پریت نئی پی دور،
چل رے میرے اونٹ چلا چل، میرے پی کے حضور،
دمک رہا ہے دھیان میں ساجن، وہ کیوں مجھ سے دور،
پہنچیں پی کے حضور، رات ڈھلے تو لوٹ کے آئیں۔
8
سیدھی راہ ہے، پونم رات، پریت نئی ہے چل!
ایسی چال دکھا کہ نکلیں، تیرے سب کس بَل،
رات نہ جائے ڈھل، پہنچا، دشمن جان نہ پائے۔
9
چمکا ہے پھر چاند گگن میں، اُجلی پونم رات،
میرے یار کے آنے کی تو، آج چلی ہے بات،
خوشیوں کی برسات، رقیب کے گھر میں ہوگا ماتم۔
10
چندا پونم رات کا، کرے گا جگمگ آج،
میرے پیا ہیں آنے والے، پورے ہوں گے کاج،
حُسن کا وہ سرتاج، بھیگی رات تو انگنا آیا۔
11
چندا پونم رات کا، لوگ تو دیکھ نہ پائیں،
سمجھیں رات اندھیری ہے، ہم ان کو کیا سمجھائیں۔
12
چندا پونم رات کا تو، کیا کیا کرے سنگھار،
کہاں برابر ایک جھلک کے، حیلے کرے ہزار،
تو چمکے لاکھوں بار، بس ایک جھلک پریتم کی!
13
سورج اُبھریں چار طرف اور، ہر سُو اُبھریں چاند،
ساجن بِن سب ماند، تاریکی ہی تاریکی ہے۔
14
کیسے میں ٹہراؤں چندا!، تجھے برابر پی کے،
تُو تو رات کو چمکے، پریتم تو ہر آن ہے روشن۔
15
دیکھوں تیری چاندنی تو، جلے میرا من،
انگ انگ خوشبو مہکائی، من میں پی کے لگن،
آیا نہ ساجن، مہکتے انگ مُرجھائے۔
16
شام سے ہی اے چندا تجھ کو، لاگے ایسی گرہن،
رات کی تاریکی میں مجھ کو، مل جائے وہ ساجن۔
17
چاہے ہو ناراض اے چندا، بات کہوں بے باک،
کہاں ہیں تجھ میں مرے سجن کے، نینن ستواں ناک۔
18
سچی بات کہوں اے چندا، بُرا اگر نہ لاگے،
کبھی ہلال کی صورت ہے پھر، بن مہتاب تو دمکے،
مکھ میں شعلہ لپکے، پر کہاں پریشانی پریتم کی۔
19
پریتم نے جب ناز و ادا سے، ڈالی ایک نظر،
سورج شاخیں جھک آئیں اور، کمہلایا قمر،
ماند ہوا ہر جوہر، دیکھ کے میرے پریتم کو۔
20
پی نے دکھلائی تھی صورت، بھیگ چلی جب رات،
مان ہوئے تھے تارے سارے، چاند ہوا تھا مات۔
21
اے ستارے صبح کے تو، صبح کو ہی ہے روشن،
نور سراپا ساجن، جگمگ جگمگ ہر پل۔
22
تارے! تیری جانب میں تو، دیکھتی ہوں اِس کارن،
وہیں ہے میرا ساجن، جس جانب تو اُبھرے۔
23
یہیں کہیں ہے میرا ساجن، اُس تارے کے پاس،
سر تاپا ہے مٹھاس، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
24
ڈال رہا ہے وہ جو تارا، پی پر روشن چھاؤں،
میٹھا پی کا ناؤں، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
25
چمک رہا ہے پی پر دیکھو، ٹم ٹم کرتا تارا،
ساجن شہد ہے سارا، ذرا نہیں کڑواہٹ۔
26
جیسے رات کو تارے چمکیں، مکھ پہ چمکیں تِل،
ملن ہو جب مشکل، ایسی رات نہ آئے۔
وائي
میرا من مہجور، ساجن کے بِن رہے تو کیسے،
پل بھر بھی سکون نہ پائے، میرا من یہ ملور،
ساجن نے پریت کے ماروں کو، درد دیا بھرپور،
پیدل تو میں پہنچ نہ پاؤں، دیس پیا کا دور،
مجھ کو چھوڑ کے میرا منوا، پہنچے پی کے حضور۔
وائي
ساجن انگنا آئے، جن کی یاد تھی پل پل،
ساجن میرا مشک و عنبر، خوشبوئیں وہ لائے،
میرا تن ہے جس کا پیاسا، من بھی اس کو چاہے،
اس ساجن کی سندرتا کی، بات کہی نہ جائے،
لطف لطیف ہوا ہے ایسا، پیا میرے گھر آئے۔
وائي
پی کو آپ مناؤں، تو رات آکر نہ بیتے،
شمع کی صورت جل کر، خود کو میں پگھلاؤں،
جوں جوگی کی دھونی، سلگ سلگ جل جاؤں،
اپنے میت کی پیت بھلا، اور کو کیا سمجھاؤں،
دکھ ہے پریت کا پل پل، دکھ میں گھل گھل جاؤں،
میں تو یار ہوں سید کا، پورنتا میں پاؤں،
پریت میں دکھ ہی دکھ ہے، دکھ میں رچ بس جاؤں،
ویرانوں میں چمکوں، پریت پیا کی پاؤں،
پریتم ہے جب ایسا، میں محشر میں مسکاؤں۔
دوسری داستان
1
اے چندا تو جونہی اُبھرے، دیکھیو میرا پریتم،
یاد سے کہیو میرے سجن سے، تو ہی حال کا محرم،
اور نہ کوئی ہمدم، آس لگی آنکھوں کو۔
2
اے چندا، تو جونہی اُبھرے، دیکھیو میرا ساجن،
یاد سے کہیو مرے سجن سے، کہتی ہے جو برہن،
ساجن، سارے جیون، آس لگی آنکھوں کو۔
3
اے چندا تو جونہی اُبھرے، ڈالیو پی پہ نگاہ،
مجھ عاجز کا حال سجن سے کہیو سب اللہ ،
دیکھ رہی ہوں راہ، آس لگی آنکھوں کو۔
4
اے چندا تو جونہی اُبھرے، ڈالیو پی پہ نظر،
میں ہوں نربل ناری کہیو، پی سے یہ جاکر،
تو ہی چھاؤں چھپر، آس لگی آنکھوں کو۔
5
اچھے چاند! تو میرے سجن کو دینا یہ پیغام،
اُبھر کے اس کے انگنا پہ تو، چھو لینا گلفام،
دھیرے لینا نام، چھو کر پیر پیا کے۔
6
میں جو دوں پیغام اے چندا! لے پَلُو میں باندھ،
کہنا حال حبیب سے میرا، سر نہوڑا کر چاند!
اور سبھی کچھ ماند، جگ کا تو ہی سہارا ہے۔
7
چاند! اُبھر کر دیکھ پیا کو، مجھ سے ہے وہ دور،
مشک رچے وہ جوڑے کھولے، سوئے سراپا نور،
بابل دے نہ ناقہ میں واں، جانے سے مجبور،
میں پہنچوں وہاں ضرور، ناقہ دے گر بابل موہے۔
8
ہجر یار میں مرجاؤں میں، پی گنوان ہے دور،
ناقہ دے نہ بابل موہے، میں نربل مجبور۔
9
ہوگا مدھر من، کب میرے اللہ!
پل پل مشتاقوں کے من میں، جلے ہے پریت اگن،
دور بسا ہے ساجن، کس سے من کی بات کہوں میں۔
10
دل نے پھر سے یاد کیا ہے، ہوگا کہاں وہ ساجن،
آن کے سیج پر کب بیٹھیگا، تو اے میرے لالن،
ہو اب تجھ سے ملن، اور کسے میں حال سناؤں۔
11
میرا ناقہ بیٹھ گیا ہے، ہر سو باد و باراں،
کیسے پلان میں ڈالوں یہ تو بن پلان ہے گریزاں۔
12
پلان میں ڈالوں کمان لیکن یہ، بن پلان نہیں اٹھنا،
ہے اس کی نگاہ اس جا، جہاں ہے اس کا گلہّ ۔
13
ناقہ پاس نہیں ہے کیسے، پہنچوں پی کے پاس،
کوئی تو لے جائے برہن کو، من میں ملن کی آس،
روئیں نین نراس، میں ہوں بے بس برہن۔
14
چھوڑ دے ساری سُستی ناقے، رکھ اب تیز قدم!
لے چل موہے پاس پیا کے، مل جائے پھر بالم،
گہرا ہجر کا غم، پیتا پڑے نہ تجھ پر۔
15
چھوڑ دے ساری سُستی ناقے!، تیز بڑھا تو گام،
جانا ہے اُس دیس مجھے، جہاں میرا گلفام،
چرے گا اب چندن ناقے!، گھاس سے اب کیا کام،
جب ہو رات کا دھام، تو پہنچا پاس پیا کے۔
16
تیز ذرا تو قدم بڑھا اور، چھوڑ دے مستی یار!
سیدھی راہ ہے پریتم کی، جان نہ تو دشوار،
مل جائے دلدار، رات ہی رات میں ناقے!
17
کیا ہے تیری نسل ذرا تو، خود کو تو پہچان،
بڑی ہی اعلیٰ نسل ہے تیری، اِس کا کر کچھ دھیان،
مجھ پر کر احسان، آج ملا دے پریتم سے۔
18
آن کے باندھا اونٹ وہاں کہ، کلیاں چن چن کھائے،
کیا ہے بد ذات یہ ناقہ، گھاس ہی اِس کو بھائے،
ہم تو سمجھ نہ پائے، ڈھنگ ذرا بھی ناقے کے۔
19
مان لے مجھ برہن کی بات تو، کروں میں تیری منت،
قلب ناپ نہ راہ کے فاصلے، لے جا وہاں ہر صورت،
کرلوں آج زیارت، میں اپنے اِس پریتم کی۔
20
گلے میں موتی مالا ہے اور، ہیروں جڑی مہار،
آ تیری گردن میں ڈالوں، میں ہیروں کا ہار،
رات ملا دے یار، چندن تجھے کھلاؤں گی میں۔
21
گردن میں یاقوت کے گانے، موتی جڑی مُہار،
چندن، تجھے کھلاتی جاؤں، آٹھ پہر میں یار!
جس سے میرا پیار، پہنچا پاس اسی کے۔
22
تیری گردن میں ڈالوں میں، اک سونے کی مہار،
چندن، ڈالی مہندی کی میں، تجھے کھلاؤں یار!
جس سے میرا پیار، پہنچا پاس اس پریتم کے۔
23
ساتھی کوئی نہ بھائے اِس کو، نہ کھائے گھاس،
ایسا عشق لگا مالک سے، اور نہیں کچھ راس،
مالک کے ہی پاس، رہے وہ مرتے دم تک
24
ناقہ گھاس نہ کھائے اور ہے، اپنوں سے بیزار،
کھایا ایسا عشق کا ناوک، جیون ہے آزار،
کرے ہے جان نثار، راہِ وفا کا راہی ہے وہ۔
25
بیٹھ کے گلے سنگ وہ کھائے، ڈالی خوشبو دار،
اے ماں، نہ دیکھ تو اسکی ظاہری رفتار،
دِل میں بسا ہے یار، ویسے اوروں جیسا ہے۔
26
بھورا اونٹ نہ کھائے کبھی بھی، ڈالی، کونپل، بور،
رات کو روند کے آیا ہے وہ، خوشبوئیں کافور،
کیسا ہے مسرور چندن چکھ کر آیا ہے۔
27
کل تک چال جو اونٹ کی تھی، آج نہیں وہ چال،
نہ تو گھاس ہی چرتا ہے وہ، نہ آئے چوپال،
زہریلی اک ڈال، شاید کھا کرآیا ہے۔
28
آج دکھائی ایسی مستی، غیر کے کھیت کو روندا،
علم ہوا جب مالک کو تو، اونٹ کو اِس نے گھیرا،
دور سے ہی دہقاں کو دیکھا، بھاگ سکا نہ ناقہ،
بھول گیا بے چارہ، اپنی ساری مستی۔
29
تونے جانے کتنی کھائیں، بیلیں خوشبودار،
زہر بھری بھی یار!، کھانا پڑے گی اک دن۔
30
تو اپنے اس ناقے کی، کس کر باندھ مہار،
برکھا رُت میں جب پھیلیں گی، بیلیں خوشبودار،
ہوگا پھر دشوار، اونٹ کا قابو رکھنا۔
31
کیا جانے کس اور سے وہ، کیا ہے چکھ کر آیا،
توڑ کے سارے بندھن وہ تو، پہنچے ہے اس جا۔
32
اس ناقے کو ڈالے میں نے، جانے کیا کیا بندھن،
پھر بھی بیلیں کھاتا ہے وہ، نیچی ڈال کے گردن،
مولا! اپنی مہر سے اس کا، اُجلا کر دے تن من،
سدھر چال چلن، کہے لطیف کہ لطف سے تیرے۔
33
چابک تھا یوں اونٹ کو مارا، چلے وہ سیدھی راہ،
سیدھی راہ کے سفر سے ناقہ، ہو جائے آگاہ۔
34
جب اے میرے ناقے تو، پہنچے گھاٹ کھنبھات،
میرے پیا کے آنے کو تو، سن لے شاید بات۔
35
جانے کتنی بار کہا تھا، کبھی نہ کھانا آک،
پر ناقہ زہریلی بیلیں، کھا جائے بے باک،
پھیل گئی ہے چندن خوشبو، مہک رہی ہے خاک،
ناقہ یہ چالاک، کرے پریشان مجھ کو۔
36
چھوڑ کُھلا مت ناقے کو، کردے پابہ رسن،
لاد دے ایسا بوجھ کہ اس کا، سدھرے چال چلن،
باندھ لے ایسا بندھن، کہ سیدھی راہ پر آجائے یہ۔
37
رسے باندھے پیروں میں اور، باندھی ہے زنجیر،
پھول ہی اس کے من کو بھائیں، سب کچھ اور حقیر،
کرے اب کون اسیر، ایسے سرکش ناقے کو۔
38
کس نے تجھ پر جادو ڈالا، کیوں ہے آج پریشاں،
آنکھوں پر ہے پٹی باندھی، لہو لہان ہے جاں،
کولہو میں ہے وواں، بھولا کیسے گلّے کو تو۔
39
میں نے اپنے من کو روکا، کیا کیا کیں تدبیریں،
پھر بھی پاس پیا کے پہنچا، توڑ کے سب زنجیریں۔
40
کیا کیا ڈالی زنجیریں اور، کیا کیا باندھے بندھن،
توڑ دیں ساری زنجیریں جب، آیا یاد وہ ساجن۔
41
چندن پاس نہ جائے ناقہ، کھائے نہ "کھٹن ہار"
خوشبوؤں کے پاس نہ بھٹکے، سر کھنڈ دیئے بسار،
"لانے" سے ہے پیار، اور کھا کر مست ہوا ہے۔
42
پیئے نہ اُجلا پانی ناقہ، نہ ہی چندن کھائے،
چھوڑ دیئے ہیں مشک و عنبر، خوشبو اُسے نہ بھائے،
"لانو" اسے لُبھائے، کیا جانے کس کارن۔
43
جس بگیا کی ڈالی، پانچ لاکھ میں پاؤ،
ناقے کو ہے چاؤ، کھائے اس بگیا سے۔
44
جس بگیا کا پتا پتا، مول انمول بکے،
جھکا کے ڈالی پھولوں کی، اسی کو وہ کھائے،
لاکھوں مول بکے، اس بیل کا سوکھا پتہ۔
46
جس کا کوئی مول نہیں ہے، مول لیا وہ ناقہ،
ناقہ من کو بھائے یہ ہے، سودا کیسا سستا۔
47
جس کا کوئی مول نہیں ہے، اس کو لے لے مول،
آج خرید لے اور تو اس کا، مول چُکا اور کھول،
ایسا ہے انمول، لے جائے گا پاس پیا کے۔
48
جس کا کوئی مول نہیں ہے، مول چُکا لے جا،
خوشبودار سی بیلیں اس کو، جاکر خوب کھلا،
کرے گا کب پروا، لے جائے گا پاس پیا کے۔
وائي
کروں میں پی سے بتیاں، پورے ہوں ارمان اے میا!
بِن پریتم کے بیت گئیں جو، خاک ہوں وہ سب رتیاں،
پی سنگ باتوں میں جو بیتیں، وہ انمول ہیں گھڑیاں،
دیکھن کارن اپنے پی کو، ڈھونڈ رہی ہیں اکھیاں،
کہے لطیف کہ بھیگی رات تو، جاگا دردِ ہجراں۔
وائي
مرےمن میں آس ہی آس، آس سے پریتم کب ملتا ہے،
کالی رات میں پل پل روئیں، جب جب نین نراس،
سولی پر جو چڑھنا جانے، پریت انہی کو راس،
کیسے لطیف وہ ہر پل روئیں، یار نہ جن کے پاس۔
وائي
چاہے دھکارے، پڑی ہوں تیرے دوارے،
تو مجھ کو چاہ نہ پھر بھی، میرے بھاگ نیارے،
در در بھٹکے دیکھا، تو ہی ہے ہرجا پیارے۔
سُر سری راگ
پہلی داستان
1
شاید پوچھے یار، لگا رہے یہ دھڑکا،
مانے اَمر جو اِس کا، رہے نہ خالی دامن۔
2
دل میں رہے یہ دھڑکا، شاید پوچھے ساجن،
پھیلا اپنا دامن، بن کر یار! بھکاری۔
3
ہر پل رہے یہ دھیان، شاید پوچھے پریتم،
دھو کر میلے بادباں، چمکا لے اب ہمدم،
رہ ہشیار تُو ہر دم، اُترے گا تو پار اے مانجھی!
4
پل پل رہے یہ دھڑکا، شاید پوچھے یار،
مت کر کانچ کا سودا اور نہ، جھوٹ کا کاروبار،
سچ کا کر بیوپار، سچ کا بن سوداگر۔
5
لگا رہا ہے یہ دھڑکا، شاید پوچھے یار،
کُھرچ کے اپنے دل سے، سارا جھوٹ اُتار،
تب اُترے گا یار!، خوف و خطر اِس پار کا۔
6
پوچھ نہ بیٹھے یار، ہر پل رہے خیال،
مانجھی رکھ نظر میں، مال جو ہے اُس پار،
کشتی خوب سنوار، سونپ دے پھر رہبر کو۔
7
کانچ کمایا، کر نہ پایا، ہیروں کا بیوپار،
چھوڑ کے اچھا مال لگایا، شیشے کا انبار،
تجھ پہ ہے آدھار، دیکھ تو کیسا حال ہے میرا۔
8
خوب کمایا جھوٹ، توڑے عہد خدا سے،
تن پاپوں سے چُور ہے، خود کو دی یوں چُھوٹ،
میرے سب کرتوت، تجھے تو ہیں معلوم۔
9
خوب کمایا کانچ، کر لے یاد خدا کو،
دھو دے دھوکہ دل سے، یار کو بھائے سانچ،
من میں بڑھتی جائے تیرے، پل پل عشق کی آنچ،
اعمالوں کو جانچ، تو سودا ہوگا ستھرا۔
10
سودا ہے جو ستھرا سائیں!، وہ پلو میں ڈار،
چلے نہ بس برہن کا، میں ہوں بے بس نار،
تیری راہ نمائی بِن میں، کیسے اُتروں پار،
مہر سے پار اُتار، لہر لہر ہے بپھرا ساگر۔
11
لہر لہر ہے بپھرا ساگر، ملتا نہیں کنارا،
ہیبت ناک جزیرے، بیڑے، بچ جائیں خدایا،
میرے اس بیڑے کا اللہ، تو ہی سہارا،
طغیانی کا دھارا! بیڑا پار لگا دے۔
12
اُجلے اُجلے بادباں، عاج جڑے پتوار،
لاد کے کشتی سارے ساتھی، چلے ہیں اب اس پار،
تجھ سے ہے آدھار، سائیں! بنجاروں کی۔
13
ڈھلے ڈھلائے بادباں، ماہر کھیوں ہار،
سارے ساتھی چلے سفر کو، چلے ہیں اب اس پار،
تجھ سے ہے آدھار، بیڑے پار لگا دے۔
14
آن پڑی کشتی میں، پانی کی اک بوند،
ایسی لگی پھپھوند، سب مال ہوا بے کار۔
15
آن پڑا کشتی میں، پانی کا اک قطرہ،
اِن کو روتے دیکھا، جن کا مال ہوا بے کار۔
وائي
شکر بجا لاؤں میں کیسے، لاکھوں ہیں احسان،
حمد کر تو حکیم کی اور، کر عظمت تو بیان،
ظاہر باطن سب کچھ جانے، پائے جو اس سے گیان،
اس کی حمد و ثنا کو بھولے، کون ہے وہ نادان،
مَن کا منکا پھیرو سائیں!، پل پل اس کا دھیان،
اتنا درد بڑھا تو دل میں، ہو جائے ہلکان،
شاید اپنی مہر سے تجھ پہ، سائیں کرے احسان،
کھوٹ ہے جتنا دل میں دھولے، پالے سچا گیان،
صاحب کو بس سچ ہی بھائے، سچ کو تو پہچان،
سیس جھکانے والوں کا کب، کوئی کرے اپمان،
جو بھی اِس کے عشق میں جاگے، پالے نرالی شان،
یاد کرو تو یاد کرے وہ، فرمائے قرآن،
شکر کرو اللہ کا یارو، اور چھوڑو کفران،
سب کے عیب چھپائے ساجن، ایسا وہ گنوان،
اس سائیں کی حمد کرو تم، دل سے ہر ہر آن،
کیوں بیٹھا یوں وقت گنوائے، تائب ہو نادان،
لطف ہو لطیف کا تجھ پہ، پائے امن و امان۔
وائي
مجھ میں تو موجود، میں تو ہوں نادان
مہر ہو جب جب گمراہوں پہ، آن کریں وہ سجود،
بھید بقا کا پا گے، ہوگئے جو نابود،
پریت کے مارے اِن نینن کے، نین تیرے مسجود،
وہ ہی تیرے دوار پہ پہنچے، بھول گئے جو وجود۔
دوسری داستان
1
تیری مہر و وفا سے قائم، سارے موجودات،
کہے لطیف کہ لطف و کرم کی، کتنی ہے بہتات،
فضل سے تو ملے نجات، عدل سے کب مل سکتی ہے۔
2
کریں جو حمد سُبحان، جاگ کے ساری رات،
کہے لطیف کہ اِن کی مٹی، پا لیتی ہے مان،
لاکھوں کریں ہر آن، آ کر انہیں سلام۔
3
سیوا کر تو ساگر کی، جہاں نہ جل کا کال،
مانجھی! بیچ بھنور میں کیا کیا، چھپے ہیں مانک، لعل،
تھوڑا بھی ہو مال، تو بھر جائے گی کشتی۔
4
بھری ہے اِن کی نیا، چھان چکے جو ساگر،
کیسے کیسے موتی لائے، وہ ساگر کے خوگر،
کہے لطیف کہ لعل چھپے تھے، لہر لہر کے اندر،
لائے وہ ایسے گوہر، جن کا مول نہ کوئی۔
5
پوجیں جو سبحان، لہر لڑے نہ اُن سے،
توبہ کی تاثیر سے سارے، پار کیے طوفان،
کیا توکل پر جب تکیہ، گھاٹ ہوئے آسان،
ماہر کشتی بان، ہوا ہے ان کا رہبر۔
6
سودا ان کا صاحب سے ہے ، جاگیں جو ہر آن،
عبدیت سے کشتی بھر کر، نکلے یار جوان،
پل بھر میں بلوان، پار گئے ساگر کے۔
7
عبدیت سے کشتی بھر کر، کرتے ہیں جو سودا،
موتی ہیں عرفان کے سارے، سودا سارا سچا،
"التائبُ مِنَ الذنّبِ" ، اِس کا ملا منافع،
اُن کے صدقے مولا! مجھ کو پار اُتار۔
8
سوچ سمجھ کر جو کرتے ہیں، سچ کا کاروبار،
اِن کو خوشخبری دیتا ہے، سب کا پالنہار،
سب اُترے ہیں پار، مہر ہوئی مولا کی۔
9
وصف یہی غواصوں کا ہے، ساگر چھان کے آئیں،
ڈوب کے گہرے ساگر میں وہ، کیا کیا موتی لائیں،
پھر جو موتی پائیں، وہ آن کے بانٹیں سب میں۔
10
اُترے گہرے ساگر میں وہ، ایسے تھے غواص،
بھنور بھنور کی لہر لہر بھی، آگئی ان کو راس،
لائے ہیں الماس، چھان کے گہرا ساگر۔
11
اُترے گہرے ساگر میں جو، پہنے کانچ نقاب،
سیپ سیپ سے موتی لائے، چھان کے گہرا آب،
موتی وہ نایاب، دیکھیں گے آنکھوں سے۔
12
گھاٹ بڑا دشوار، میری ناؤ سہے نہ موج،
خوب لگایا کشتی میں، عیبوں کا انبار،
کیا کیا میرے ہیں سائیں، جن کا نہیں شمار،
مہر سے پار اُتار، تو ہی بپھرے ساگر سے۔
13
سر پر ساگر گرج رہا ہے، بھول نہ اے نادان!
سکھیوں کو جب جاتا دیکھے، کر تب موت کا دھیان،
دیکھ تو ہر انسان، چلا ہے دوجے پار کو۔
14
آٹھوں پہر گرداب کا، اِس پر خوف ہے طاری،
کیسے کہے بے چاری، کہ ناؤ گھاٹ لگے گی۔
15
بندہ جانے کیا کیا سوچے، صاحب کام سنوارے،
گہرے بپھرے ساگر میں وہ، کشتی پار لگائے،
آساں گھاٹ پہ لائے، وہ ہی ساری کشتیاں۔
16
ایک بات تو بندہ سوچے، دوجی سوچے صاحب،
بیچ بھنور سے گھاٹ پہ لائے، مہر کرے جب وہ رب،
ایسا کرے وہ سبب، کہ ڈوبتی نیا پار لگے۔
17
بندہ جانے کیا کیا سوچے، اِس کی اور ہی قدرت،
خود ہی بیچ بھنور میں لائے، خود ہی کرے وہ رحمت،
کیا کیا کریں مدحت، وہ سب کشتی پار لگائے۔
18
بندہ جانے کیا کیا سوچے، اس کے کام نیارے،
خود ہی بیچ بھنور میں لائے، خود ہی پار اُتارے،
کشتی گھاٹ پہ لائے، جو پہنچ نہ پائی گھاٹ پر۔
19
ایک بات تو بندہ سوچے، دوجی وہ جبار،
بھنور بھنور سے آپ بچائے، اس پر ہے آدھار،
بھرے جہاز جواہر والے، تیریں بِن پتوار،
ٹوٹی ناؤ، ثابت بیڑے، پہنچیں گے سب پار،
شہر مدینہ جس جا سائیں، سوہنا محمد ﷺ یار،
مہر سے تو ستار، سب کی کشتی گھاٹ لگا دے۔
وائي
منزل کر آسان، مانگون امن امان، تیری مہر کنارا جانوں،
اوگن کیا گنواؤن اپنے ، بے حد ہیں عصیان،
قبر کی کوئی خبر نہیں ہے، ذرا نہیں ہے دھیان،
تو ہی آکر راہ دکھا دے، مورکھ سب انسان،
سن لے تو فریاد ہماری، اے سچے سبحان!
دیکھے میرے پاپوں کو تو، شرمائے شیطان،
ایسا میرا حال ہوا کہ، حیراں ہیں حیوان،
تو ہی ناؤ، تو ہی کنارا، تو ہی کشتی بان،
ناؤ نہ ڈوبے بیچ بھنور میں، رحمت ہو رحمان،
ڈوبتی نیا پار لگائے، یہ ہی تیری شان،
منگتا مانگے بھیک تجھی سے، مہر کا دے تو دان،
کیا کیا یار غلاموں پہ ہیں، مولا کے احسان،
میں اندھا بھی بھیڑ میں بیٹھا، مانگوں تجھ سے دان،
جو آواز لگائے آکر، اس کا رکھے مان،
تجھ داتا سے بھوکے ننگے، پائیں اونچی شان،
مجھ کو بھول نہ جانا سائیں! میں در کا دربان،
تو ہی محشر میں رکھے گا، سائیں! میرا مان،
ہم گمراہوں کی بخشش کو، کردینا آسان،
کہے لطیف کہ سن لینا تو، فریادیں سلطان۔
تیسری داستان
1
ہوا چلی جب اُتر کی، اس آس اٹھائے لنگر،
ٹوٹیں نہ پتوار اے سائیں! ان کے بیچ بھنور،
چلے ہیں سوداگر، مال سے کشتی بھر کر۔
2
مانگے ہے کستوری اور ہے، نمک کا کاروبار،
تیری کشتی لہر کی زد میں مت جھوٹ کا کر بیوپار،
بھول منافع یار!، اور سنبھال لے مال تو اپنا۔
3
مال کا ڈھیر لگے ہیں لیکن، کاہل ہیں بنجارے،
مشکل سے ہی بچ سکیں کچھ، سودا صبح بیچارے،
آنکھ جھپکتے پیارے! کچھ نے بیچ دیا سب مال۔
4
کبھی بھی ہو نہ پرانا تو وہ، سودے میں لے مال،
دیس بدیس میں قدر ہو ایسا، مال ناؤ میں ڈال،
ہوجائے خوشحال، پہنچ کے دوجے پار اے مانجھی!
5
ساگر سے لے آئے ہیں وہ، کچھ کچھ خبریں رہبر،
لیکن کب وہ بتلاتے ہیں، کیا کیا وہاں بھنور۔
6
کشتی تیری مہر کی ہو اور، لدا ہو وصل کا مال،
آسان کر دی لہر لہر اور، چلے ہے بادِ شمال،
تو ہو جب رکھپال، تو پھر کیا منت مانجھی کی۔
7
لاد نہ اس پر مال، تیری ناؤ پرانی،
دیکھ تلے میں چھید ہوئے اور، ناؤ میں آیا پانی،
یہ گھڑی تو بیتی، سوچ تو مانجھی کل کا۔
8
کیا کیا چھید ہوئے نیا میں، ناؤ میں پانی یار!
ٹوٹ گئی ہر نیا ڈوری ٹوٹ گئے پتوار،
وہ جب کھیون ہار، تو پہنچے نیا پار بھنور کے۔
9
کر تو مرمت کشتی کی پھر، کھینچ لے مانجھی لنگر،
سجا کے نیا لے جا پھر تو، جہاں گہرا ساگر،
کھول رسے لے جا مانجھی، نیا بیچ سمندر،
پھر کیا خوف و خطر، ڈولے نیا بیچ بھنور میں۔
10
کر تو مرمت کشتی کی اور، کر لے اب تیاری،
ہر پل گہرے ساگر کا، خوف ہو دل پر طاری،
آج یا کل یہ کشتی، گزرے گی بپھری لہروں سے۔
11
جو کانوں سے سن رکھے تھے، دیکھے آج بھنور،
کہے لطیف کہ نینن نیند تھی، بھولے تھے ساگر،
تیری غفلت سے ہی نیا، پہنچی بیچ بھنور،
ٹوٹی نیا کو ساگر میں، تو ہی بچا رہبر!
مجھ نربل کی نیا پر تو، مہر کی ڈال نظر،
پہنچوں "پربندر"، تیرے سنگ میں سید!
12
اور جہاز ہیں جانے والے، تو بھی اُٹھا اب لنگر،
سنگ لے سارا ساز و سامان، جا پھر بیچ سمندر،
تجھ کو بپھرا ساگر، دیتا ہے آوازیں۔
13
دیکھ کہ کیسے ساگر میں یہ نیا ڈوب کے تیرے،
ٹوٹ گئی ہے ہر اک ڈوری، خستہ حال پھریرے،
جانے رہبر کہاں گئے ہیں، اب ہیں فرنگی گھیرے،
مانجھی تیری کشتی میں اب، چوروں کے ڈیرے،
جہاں ڈوبیں بیڑے، وہاں پہ تو ہی سہارا۔
14
ڈال دے نیا ساگر میں، سنگ لے زادِ راہ،
تجھ سے بپھری لہر لڑے گی، رکھنا تیز نگاہ،
بھنور جہاں اتھاہ، غفلت اس جا لے جائے گی۔
15
ڈالا بنجاروں نے، ناؤ میں غیر کا مال،
لہر لڑی تو نیا ٹوٹی، مال ہوا پامال،
رہے نہ خوف و ملال، جاگ کے پار کرو جب ساگر۔
16
راس نہ آئیں دونوں باتیں، نیند اور دوجا پار،
ٹیک لگائے بیٹھا ہے اور، نینن نیند خمار،
دینا ہوگا یار! کل تو یہاں حساب۔
17
ایسا تیز بہاؤ ہے کہ، ٹھہر نہ پائیں لنگر،
کھیچ سکیں نہ بیڑے، مانجھی زور لگا کر،
روکیں روک نہ پائیں، نیا بیچ سمندر،
ہیبت ناک ہے ساگر، رہبر بتلاتے ہیں۔
18
اس سید کے ساتھ بنا کب، کام بنے گا یار!
خوب سجا لے کشتی اپنی، اب تو کھیون ہار،
لحظہ لحظہ کشتی پر ہے، لہروں کی یلغار،
لہر کرے گی وار، گر عمل کیے نہ اچھے۔
19
بھچ رہے ہیں خبریں جن کو، ساگر کی پہچان،
اپنے اپنے سنگ لیا ہے، سفر کا سب سامان،
کہے لطیف کہ تیری مہر سے، پار کیے طوفان،
یاد جنہیں سبحان، وہ عدن کے پار گئے ہیں۔
20
گھاٹ پہ خوف و ہراس، چین سے بیٹھ نہ مانجھی،
جیسے کوئی دہی بلوئے، بھنور ہیں گھاٹ کے پاس،
یہ دکھڑے یہ یاس، آنکھ جھپک نہ پل کو۔
21
چین سے سب سوئے ہیں، رہبر کا ہے سہارا،
سو جاؤ کہ ساحل پر ہے، خوف نہ کوئی خطرہ،
سید کا سہارا، تو پہنچیں گے سب پار۔
وائي
چلنے کو تیار ہیں سکھیاں، چلے کو تیار،
ڈالا سامان کشتی میں، ہیں چلنے کو تیار،
تیرے نینن نیند بھری ہے،
اُٹھا لیے ہیں سب نے لنگر، چلے ہیں اب اُس پار،
سب کو گہرا گھاٹ پکارے، اب ہے تیری بار،
سو کر رات بِتائی پھر بھی، نینن نیند خمار،
شاید دن نہ پائے مانجھی، ساگر کی للکار،
وقت ہے اب بھی تائب ہو جا، بھول نہ اپنا یار،
لمبی تان کے سو مت مانجھی، آگے ہے منجدھار،
سائیں سچ کا سوداگر ہے، جھوٹ تیرا بیوپار،
کیسا بپھرا بپھرا ساگر، گرج رہا منجدھار،
مشکیزے بِن چلی ہوں سائیں!، تو ہی کھیون ہار،
شرک و شک کے گردابوں سے، سائیں! پار اُتار،
شرک و شک کے گردابوں سے، سائیں! پار اُتار،
کُل نَفسِ ذَائقتہ الموت، کر کچھ سوچ بچار،
باز کی صورت جھپٹ کے اک دن، کرے گی موت شکار،
یِومَ یَفرُّ المرءُ من اَخیہ ، کوئی نہ ہوگا یار،
چھوٹ گیا ہے بجرہ سائیں، تو ہی کھیون بار،
مال لٹائے اِس دنیا میں، تو نے لاکھ ہزار،
یار کے نام پہ دان دیا جو، سچا وہ بیوپار،
کیا کیا آن لگائے گھر میں، دولت کے انبار،
فرمایا ہے احمد پی نے، دنیا ہے مردار،
کچھ تو نروھن کو بھی دیتے اِس ساجن کے کار،
شوہر کے بھی نافرماں جو، دولت ہے وہ نار،
جیون رین بسیرا سجنی، جھوٹا ہے سنسار،
کیسے بھول رہی ہے ناداں، قبر کا وہ اندھکار۔
چوتھی داستان
1
سب کو سیدھی راہ دکھائے، کسی کو نہ بھٹکائے،
جو اپاہج ہیں ان سب کو، سائیں تو اپنائے۔
2
سونپ دے اب سبحان کو، اپنے کام تمام،
سر تسلیم سے خم کر اپنا، دل سے دھو اوھام،
پورے ہوں گے کام، وہ جب مہر کرے گا۔
3
اچھوں سے تو کرتا ہی ہے، ہر کوئی اچھائی،
بد سے کرے بھلائی، تجھ بِن اور نہ کوئی۔
4
نیک کرے اچھائی اور بد، کرتا ہے برائی،
جس کی جو خُو بھائی!، وہ خُو وہ دِکھلائے۔
5
لاد کے ساماں ناقے پر، وہ ناداروں کو بلائے،
یہ وصف میرے ساجن کا، کہ سب کو سنگ لے جائے۔
6
قدر تو جانے بیمے کی تو، کرے نہ اور بیوپار،
ان سے سیکھ جو کرتے ہیں، سچ کا کاروبار،
جن سے لائے یار، موتی عجز و نیاز سے۔
7
دے مت بے قدروں کو، یہ موتی انمول،
قدر جو جانیں موتی کی تو، اِن سے موتی تول،
کھولیں جھوٹ کا پول، سچ کے وہ بیوپاری۔
8
پرکھ جو پائیں کنچن، ایسے ڈھونڈ تو ماہر،
جس میں نہیں جواہر، کبھی نہ کر وہ سودا۔
9
پرکھ جو پائیں کنچن، ایسے ڈھونڈ تو ماہر،
کریں جو ضایع جواہر، انکے لیئے اندھیرا ہے۔
10
لاد گئے جب ماہر، کنچن! تو بھی لاد کے جا،
تجھ میں کھوٹ ملائیں گے اور ، مول نہ ہوگا تیرا۔
11
سچے موتی لٹاتے ہیں، قدر ہے کانچ کی آج،
آتی ہے اب لاج، سچ بھرا ہے دامن میں۔
12
پرکھیں اور تراشیں ہیرے، گئے وہ ماہر لاد،
سیسے کی بھی قدر نہیں ہے، اب تو ان کے بعد،
آہن گر آباد، آج ہیں ان کے باٹ پر۔
13
پرکھیں اور تراشیں ہیرے، جائیں نہ ایسے ماہر،
پرکھیں خوردبینی سے جو، موتی مزاج کے نادر،
اب بِن ایسے ماہر، موتی پرکھے جاتے ہیں۔
14
کچھ صراف ہیں جگ میں ایسے، ماہر جو کہلائیں،
بھینچ کے مٹھی میں ہم موتی، ان کے پاس لے جائیں،
کہے لطیف کہ موتی کا وہ، کیسے مول چکائیں،
موتی پرکھ وہ پائیں، یا کھوٹ ملائیں سونے میں؟
15
نادانی سے کر ڈالے ہیں، موتی کے دو ٹکڑے،
اٹھالے روتے روتے، موتی کے ٹکڑوں کو۔
16
نادانی سے توڑ دیا ہے، تونے یہ الماس،
اب یہ ٹکڑے لے کر، جا صراف کے پاس۔
17
پڑے پڑے پیٹی ٹوٹا، گوری ہاتھوں ہیرا،
جب تک تھا یہ ثابت تب تک ، لاکھوں مول تھا اُس کا،
جب سے ہے یہ ٹوٹا، تب سے تو انمول ہوا ہے۔
18
جس جا ہیرے موتی ہیں، تاک میں وہاں لُٹیرے،
ان کے بھاگ نیارے ہیں جو، بچا کے لائے ہیرے۔
19
ظاہر چور کہے کہ دیکھو، میں موجود یہاں،
کیسے اس کو پکڑ سکیں جو، چور ہے دل میں نہاں۔
وائي
جاگو، سکھیو، جاگو، پریت نہ ہم بِسرائیں،
کیوں ٹھہریں پنگھٹ پر، پیا ملن کو جائیں،
جگمگ پریتم اپنا، پروانے بن جائیں،
بپتا سب تن من کی، ساجن کو بتلائیں،
گرجے موت سروں پر، جوں گھنگھور گھٹائیں،
موت اچانک جھپٹے، کیسے یہ بِسرائیں،
تاریکی ہے آگے! زادِ راہ لے جائیں،
ساتھ قبر کا توشہ، خالی ہاتھ نہ جائیں،
دل کے بھید وہ جانے، کیسے عیب چھپائیں،
جو گذرے ہے وجود پہ، اس سے چھپا نہ پائیں،
جو ڈرتے ہیں، پی سے، اور سے ڈر نہ پائیں،
وہ سدا ہیں سکھ سے سائیں! رب کے دوار جو جائیں۔
سُر سامونڈی
پہلی داستان
1
بیٹھ تُو نیا پاس، نیّا گھاٹ بندھی ہے،
کر کے تُجھے نراس، چلا نہ جائے مانجھی۔
2
پک کر ہو جا راس، گھاٹ بندھی ہے کشتی،
جلا کے دل میں اگنی، چلا نہ جائے ماجھی۔
3
بیٹھ تو نیا پاس، آج ہیں ڈالے لنگر،
تُو تو تھم تھم چلے ری گوری! چلے وہ بیچ سمندر،
جن کا دیس ہے ساگر، کیوں نہ ان کے سنگ گئی۔
4
آنا ہے تو آ، پکڑ لے آج پتوار،
چلی ہے تیز ہوا، وقت کہاں تیاری کا۔
5
جلدی سے تو آ، اُٹھ نہ جائیں لنگر،
جن کا دیس ہے ساگر، کھول نہ دیں وہ پھریرے۔
6
اُٹھا لیے مستول، گئے وہ کھیون ہار،
بندر اور بزار، ویراں بن بنجاروں کے۔
7
گھاٹ سے میرا من، نہیں دھکیلا جاتا،
گنوں سے وہ ساجن، من کو باندھ گیا ہے۔
8
یہی تو جوبن ملن کے دن تھے پیا چلا پردیس،
روؤں، روکوں، رُکے نہ ساجن، ساگر اس کا دیس،
چُبھو کے ہجر کے نیش، چلا وہ لیکر ناؤ۔
9
نا تو باتیں بنجاروں کی ہیں، نہ وہ گھاٹ پر ناؤ،
پھر سے تازہ ہوگئے سکھیو!، دل میں پریت کے گھاؤ،
بنجاروں کا چاؤ، مارے گا اب موہے۔
10
چلے وہ لے کر ناؤ مانجھی، مجھ کو چھوڑ کنارے،
جگ بیتے پر لوٹ نہ آئے، میرے وہ بنجارے،
مروں گی ہجر کے مارے، بچھڑ گیا ہے ساجن۔
11
لے کر اپنی ناؤ مانجھی، پہنچے جب منجدھار،
گھیر لیا ساگر نے کی پھر، موجوں نے یلغار،
وہاں پہ پہنچے یار، جہاں پر کوئی انت نہیں ہے۔
12
گہرے ساگر اور گئے جب، مانجھی ناؤ کھیتے،
اے میاّ ، وہ میرے مانجھی، کب ہیں لوٹ سکے،
شاید گھیر گئے، بھنور ہیں ان کو ساگر کے۔
13
گہرے ساگر اور گئے جو، ان کے بول نے مارا،
پریتم ہے بنجارہ، پریت نے درد دیا ہے۔
14
کیا جانے کب لوٹ کے آئیں، آج گئے بنجارے،
بیچ سمندر میں ساجن کے، چمک رہے ہیں پھریرے،
مارے گی اب موہے، بنجاروں کی پریت اے میاّ!
15
ناؤ کھیتے چلے جہاں سے، وہاں پہ لوٹ کے آئیں،
ایسی چلیں ہوائیں، کشتی گھاٹ پہ لاگے۔
16
بنجاروں کی یاد میں اب تک، کھڑی ہوں گھاٹ کنارے،
مار رہی ہیں پیارے!، تیرے پیار کی باتیں۔
17
بنجاروں کی یاد میں میاّ، تڑپ رہا ہے تن،
جانے کتنے دن بیتے ہیں، لوٹ سکا نہ ساجن۔
18
بنجاروں کی پریت میں، دکھ ہی دکھ ہے میاّ!
چھوڑ گیا وہ کھویا، ہجر کی آگ میں جلتا۔
19
کاش! بُھلا پائے اے ساجن، سارا بنج بیوپار،
کل آئے تھے یار، پھر پردیس چلے ہو۔
20
بر بہاتے نیا روکی، تھام لیا پتوار،
بُھولے سب بیوپار، ساجن! جو سیکھا ہے۔
21
بنجارے کی نیا روکی، تھام لیا پتوار،
رات بتا دے سنگ اے ساجن!، مت جا ساگر پار،
دکھیا کر کے یار! دور دیس مت جاؤ۔
22
شاید عشق تھا نربل تب ہی، چھوڑ گیا بنجارہ،
کرتی جتن تو میری خاطر، شاید وہ رک جاتا،
کاش کہ باندھا ہوتا خود کو نیاّ ڈوری سے۔
23
بنجاروں سے پریت سکھی ری، کبھی کرے نہ کوء،
اس دم منوا روء، جب اُٹھ جاتے ہیں لنگر۔
24
آن کے مشکل گھاٹ لگے جو، من ہے ایسی نیا،
کبھی نہ آن کے پوچھا، مہر سے میرے ساجن نے۔
25
جس کی پریت میں تڑپے جیئرا، چلا وہ بیچ سمندر،
بول رے کاگا!، کب آئے گا، ساجن میرا اب گھر،
کس کارن وہ دلبر، پردیس میں جا بسا ہے۔
26
کاگا بول اَٹریا پر، کب آئے گا مانجھی،
کیا کیا منت مانی، کہ ساجن لوٹ کے آئے۔
27
ٹہنی ٹہنی بور لگا ہے، چلے ہے خنک ہوا،
ساجن لوٹ کے آ، کیا کیا منت مانگی۔
28
کونپلیں، سرخ شگوفے پھوٹے، پھوٹے ہیں سرکنڈے،
ساجن! تم کیوں بھولے، کہ ملن کی رت آئی ہے۔
29
اب کے میرے انگنا، آئے جو میرا ساجن،
کروں میں من کی بتیاں، بانہیں ڈال گلےمیں۔
30
روٹھ روٹھ من جاؤں میاّ!، ساجن لوٹ کر آئے،
کیوں پردیس سہائے، پاس میرے تم رہے نہ ساجن۔
31
ساجن بن سردی سے، لرزاں جسم تمام،
پیت نہ ہو بدنام، چھیڑ نہ مجھ کو میاّ!
32
ابھی ابھی آئے بنجارے، پھر سے کریں تیاری،
میں برہا کی ماری، اب تڑپوں گی برہا میں۔
33
ٹوٹتے من کو تھام لو سکھیو!، کہو کہ پی آیا ہے،
منوا ٹوٹ گرا ہے، ٹوٹ گرے جوں برج قلعے کا۔
34
چل تو چل کر دیکھیں اے دل!، اپنے پی کا گھر،
چل کر ہم چومیں، دہلیز سجن کے گھر کی۔
35
آن کھڑی ہوں گھاٹ پر، من میں آس لیے،
گھاٹ پہ چھوڑ کے موہے، بھول نہ جائے ساجن۔
36
پتلی کمر، ستواں ناک اور کجراری سی اکھیاں،
ایسے سندر سیاں، کسی نے دیکھے ساگر میں۔
37
چاھ سے جس کی راہ تکی تھی، یہی تو ہے وہ ساجن،
آکر میرے من کی سکھیو!، کرے گا دور دُکھن۔
38
جھلمل کرتے دیکھ پھریرے، حد نظر تک ساگر،
اے میاّ! سج دھج کر میرے، آئے ہیں سوداگر،
کل سے کاگا آکر، دیتا تھا سندیسہ۔
وائي
لوں ساجن کی راہ، سکھیاں روکیں، روک نہ پائیں،
آیا جوڑنے والام کہیں ہم خوش آمدید وَللہ،
ٹوٹے من کو جوڑے سکھیو!، اِس کی ایک نگاہ،
سکھیوں نے بھی دُکھ پایا ہے، سب کے لب پہ آہ،
شاید ساجن سے مل جائے، کوئی خوشبو، چاہ،
جب تک جان ہے، دشت و جبل میں، ڈھونڈھے اسے نگاہ،
روک نہ مجھ کو میاّ! میرے، من میں پریت اتھاہ۔
وائي
مانجھی اُترے پار، میں کھڑی ہوں گھاٹ پہ یار، میں بادباں پہچانوں،
میں منت مان کھڑی ہوں، کب آئے کھیون ہار،
دکھ کی آگ میں جھونک کے مجھ کو، دور گیا ہے یار،
من میں آس بندھی ہے، وہ آئے کھیون ہار۔
وائي
کیسے جی بہلائوں، میرا من نہیں میرے بس میں۔
بادباں کو کھولا اس نے، نینن نیر بہاؤں،
بنجاروں سے پریت کا ناتہ، تڑپ تڑپ مرجاؤں،
دُکھ برہا کا دیمک جیسا، پل پل گھلتی جاؤں،
دکھ کی بیلیں لپٹیں تن کو، دکھ سے مکتی پاؤں
ہاتھ جوڑ اور پگ پگ چل کے، پی کے دوار میں جاؤں۔
دوسری داستان
1
پھر باتیں ہیں دور سفر کی، باندھیں رختِ سفر،
سر میں سودا ساگر کا ہے، ان کو آٹھ پہر۔
2
پھر باتین ہیں دور سفر کی، چلنے کو تیار،
میں ہوں گھاٹ کنارے سکھیو، وہ تھامے پتوار،
بنجاروں کا پیار، مارے گا اب موہے۔
3
پھر باتیں ہیں دور سفر کی، چلے ہیں پھر بنجارے،
چلنے کو تیار ہیں مانجھی، روؤں گھاٹ کنارے،
کب تک روک سکوں گی اِن کو، ساگر جنہیں پکارے،
کھول پھریرے سارے، ساگر اور چلے ہیں۔
4
پل پل جن کی یاد ستائے، مجھے نہ وہ بِسر آئے،
پریت کے تانے بانے میں، جڑا ہے من جس سے۔
5
دمک رہا ہے دھیان میں سکھیو!، بنجارہ ساجن،
جس سے اٹکا من، بھول نہ جائے مجھ کو۔
6
گھاٹ گھاٹ پر دھوم مچی ہے، مانجھی لوٹ کر آئے،
سن کر بنجاروں کی باتیں، میرا من مسکائے۔
7
کھولی نیا ڈوری، تھام لیے ہیں چپو،
اِن کو مشکل گھاٹ ہے جانا، پھرا ساگر ہر سُو،
بنجارہ وہ مہرو، جانے کب صورت دکھائے۔
8
چلی ہوا جب اُتر کی تو، بادبان کو کھولا،
کس کر رسے نیا کے وہ، ساگر اور چلا،
تڑپے ہے جیئرا، وہ جو ساگر اور چلے ہیں۔
9
چلی ہوا تو چلے مسافر، برکھا رت میں آئیں،
بھاڑ میں جھونکوں ہیرے موتی، اپنے سنگ جو لائیں،
وہ تو جشن منائیں، جن کے لوٹ کے آئے مانجھی۔
10
ساجن انگنا آجائے تو، سکھیوں! میں مسکاؤں،
اپنے اِس انمول پیا پہ، میں ہیرے موتی ہاروں۔
11
چلی ہوا پھر اُتر کی، لگا ہے دل کو دھڑکا،
چمکاتے ہیں نیا، کرتے ہیں تیاری۔
12
دیکھ سفینوں کے ساگر میں، پھڑ پھڑ کریں پھریرے،
جن کی راہ میں تکتی ہوں وہ، آئیں ساجن میرے۔
13
بیچ سمندر بادباں، دیکھ کر بولی برہن،
شاید میرا ساجن، ارماں ہے لوٹ کے آیا۔
14
سیتے تھے کل بادبان، بیٹھے گھاٹ کنارے،
آج سجا کر اپنی نیا، چلے سفر کو سارے،
بنجاروں نے بیچ بھنور میں کھولے دیکھ، پھریرے،
موجوں سے وہ گزرے، لطف سے لطیف کہے۔
15
سیتے تھے کل بادباں، مانجھی گھاٹ کنارے،
پوچھ کے حال وہ موسم کا پھر، ساگر اور سدھارے،
پہنچے پار وہ سارے، راہ میں مشکل گھاٹ نہ آیا۔
16
طرح طرح کے گھاٹ جہاں پر، ملے نہ مال کا مول،
فقیری کے بھیس میں سائیں، مول ملے بِن تول۔
17
برہن پوچھے ہر اک سے کیا، راہ میں دیکھے مانجھی،
کاش وہ لوٹ کے جلدی آئیں، ملن کی آس ہے جن کی۔
18
بنجاروں کی بیویاں، پوجتی ہیں ساگر،
کستوری کے نذرانے، دیتی ہیں ساگر پر۔
19
جس ساجن کے کارن پوجے، ساگر کے پوجاری،
ساجن لوٹ کے آیا میری، آس ہوئی ہے پوری۔
20
جھلمل کریں پھریرے سکھیو! نظر نہ آئیں بادباں،
جن کے پیار لوٹ آئے ہیں، مسکائیں وہ سکھیاں۔
21
دیکھ پھریرے پھڑک رہے ہیں، پرچم پھر لہرائے،
گھاٹ گھاٹ جو گھومے مانجھی، آج وہ لوٹ کے آئے۔
22
پیڑوں میں جو دھاگے باندھے، جل پر دیپ جلائے،
اللہ! لوٹ کے آئے مانجھی، میری آس بندھی ہے۔
23
جو نہ پوجے گہرا ساگر، جل پر دیپ جلاکے،
کیوں امید کرے ملنے کی، بنجارے ساجن سے۔
وائي
جاؤں گی ساجن کے دوارے، راہ نہ روکو سکھیو!
وہ تو ساگر پار گئے ہیں، کھڑی ہوں گھاٹ کنارے،
ان کی یاد میں مرجاؤں گی، وہ پردیس سدھارے،
کب سے تڑپیں برہا میں یہ، تیرے ہجر کے مارے،
تجھ بن کیسے جی پاؤں گی، یار میرے کوہیارے!
وائي
سجا کے اپنا ناقہ، کیوں نہ ساجن سنگ گئی،
کتی دُھل کر اُجلی ہو گئیں، دھویا میل ہے سارا،
مت بِسرا اس پریتم کو تو، اس کو ڈھونڈنے جا،
آج تو اس کو ڈھونڈ رہی ہے، کل جو لاد گیا،
آج ہے پہنا چولا وہ جو، کل تھا کاڑھ لیا،
کون سنے فریاد تیری بِن، پریتم کے بتلا؟
وائي
پی ہے بنجارہ، میں جاؤں گی پاس پیا کے،
بادباں مت کھول اے پیارے!، ناؤ ذرا ٹھہرا،
سُونا کر گئے گھاٹ گھاٹ کو، سُونا جگ سارا،
چرخے سے اب کرے ہے باتیں، من یہ دکھیارا،
کسی طرح بھی جاؤنگی میں جہاں بھی ہے بنجارہ،
نیا کھیتے دور گیا وہ ذرا دیر نہ ٹھہرا۔
تیسری داستان
1
گھاٹ بہت ہی دور، چلوں تو شاید پہنچوں،
جھولی خالی، کہے لے جاؤں، اپنے پی کے حضور،
لے چل مانجھی! ملوں پیا سے، میں برہن مجبور،
روتی ہے مہجور، تیرے دوار پے مانجھی۔
2
جھولی خالی، کوئی بھی مانجھی، چلا نہ لے کر ساتھ،
کھڑے کھڑے ساگر کے کنارے، ہر سو چھائی رات،
ناؤ لگی تب گھاٹ، مہر ہوئی جب ساجن کی۔
3
مانگ تانگ کے پورت کی ہے، دور تھا کھیون ہار،
ہائے ٹھٹھرتی راتیں، پالا، تنہا برہن نار،
سکھیوں سنگ دلدار، دیکھ کے ہوک اُتھے ہے۔
4
مجھ کو چھوڑ وہ گھاٹ کنارے، چلے سکی ری! سُن،
پریتم مہر سراپا ہے پر، مجھ میں ہیں اوگن۔
5
مجھ کو چھوڑا گھاٹ کنارے، دور چلا دلدار،
پریتم مہر سراپا ہے پر، مجھ میں عیب ہزار۔
6
مجھ کو چھوڑا گھاٹ کنارے، چلا وہ لے کر نیا،
پریتم مہر سراپا ہے پر، مجھ میں عیب تھے میا۔
7
مجھ کو چھوڑا گھاٹ کنارے، پریتم دور چلا،
رکھ کر رب کی آس چلا میں، پل پل کروں دعا،
آس تری مولا! مانجھی، لوٹ کے آئیں۔
8
سکھیو! شام ڈھلے ہی ان کو، ساگر آیا یاد،
کریں گے پھر تیاری اور وہ، چَلیں گے یاں سے دلا۔
9
ساگر کھیتے دریا کو وہ لوٹے کھیون ہار،
سیم و زر کا سودا کیا ہے، کریں وہ اور بیوپار،
موتی اِس مہران کے سائیں! ان کو ہیں درکار،
بڑے ہیں ساہوکار، لنکا لُوٹ کے آئے۔
10
لب پر لنکا لنکا ہے، لنکا اور ہے منزل،
کنچن کارن چین نہیں ہے، کریں گے کنچن حاصل،
صبح سویرے بنجاروں نے، چھوڑ دیا ہے ساحل،
پائیں اپنی منزل، جو گہرے ساگر اور گئے۔
11
بنجاروں نے کھول دیئے، پھر سے صبح پھریرے،
لہراتے وہ بادبان، دیکھ کے جیئرا روئے،
مارے گا اب موہے، اے میا!، درد فراق کا۔
12
صبح سویرے بنجارے نے، بادبان پھر کھولا،
کہے ہے سید بنجاروں نے، پتواروں کو تولا۔
13
روک لے بنجارے کو اب تو، بنجارے کی میا!
بارہ ماہ بدیس رہا ہے، پھر وہ آج چلا۔
14
بنجارے سے بیاہ نہ ہوتا، اچھی تھی بِن بیاہی،
چلا وہ دور سفر کو میا!، چلی ہے جب پروائی۔
15
کیوں باندھا تھا پَلو میا!، بنجارے کے ساتھ،
کرتا ہے بنجارہ پل پل، دور سفر کی بات۔
16
چلا ہے پھر پردیس سکھی ری!، چلا ہے بیچ سمندر،
مجھ کو مار دیا ہے، درد فراق کا دے کر۔
17
دیپ جلے دیوالی کے، سفر کی ہے تیاری،
تھام کے چپو نیا کے وہ، کرے ہے آہ و زاری،
مرے گی یہ بے چاری، صبح کو دردِ ہجرے۔
18
دیپ جلے دیوالی کے اب، سفر کی ہے تیاری،
چلی ہوا پھر اُتر کی اور، آئی سفر کی باری،
سن برہا کی ماری! کرتے ہیں پردیس کی باتیں۔
وائي
آن کے دیکھو عشق میں سکھیو، تڑپے ہے جیئرا،
دے کر درد اس برہن کو وہ ساجن چھوڑ گیا،
عشق کی اگنی میں سکھیو، مجھ کو جھونک دیا،
کشٹ اٹھاؤں، ڈھونڈوں ساجن، مجھ سے دور گیا،
ہنستی ہو تم کیا جانو کہ یہ درد ہے کیسا،
چلو تو سکھیو، شاید پاؤ، نشاں تم منزل کا،
ایسے برسیں نین کہ جیسے، بادل ساون برکھا۔
وائي
دشت میں ہوگا دور، ہر اک دکھ برہن کا،
جس کو دیکھوں جانوں، قاصد ہے ساجن کا،
زور آور وہ ہستی، کیا کیا دکھ برہن کا،
جنگل جنگل ڈھونڈوں، اندھیارا ہے بن کا،
دیکھے “کیچ” کے پیڑ، دور ہوا دکھ تن کا۔
سُر سوہنی
پہلی داستان
1
دریا نالے، تیز بہاؤ، کیسا تیز ہے دھارا،
عشق جہاں پہ موجیں مارے، وہاں بہاؤ نیارا،
جن کو عشق ہے گہرائی سے، سوچ کا ساگر گہرا،
ملادے ساجن، مولا! جس سے من اٹکا ہے۔
2
گھاٹ کنارا بھینسیں اور یہ، لہروں کی یلغار،
سندرتا اس ساجن کی ہے، میرا روپ سنگھار،
جن کے من میں یار، وہ پہنچیں پار اک پل میں۔
3
اور بہت ہیں دریا نالے، آگے تیز ہے دھارا،
گھر میں بیٹھ کے کرتی ہو تم سکھیو! پریت کا دعویٰ،
ایک جھلک جو دیکھو تم وہ، میرا ساجن پیارا،
چلو سب سوئے دریا، مجھے نہ پھر تم روکو۔
4
دیکھیں گر اک بار، سکھیاں صورت ساجن کی،
اپنے پی سنگ سیج پر سونا، ہوجائے دشوار،
جاؤ سوئے یار، مجھ سے پہلے گھڑے اُٹھاکر۔
5
دیکھی ہے اک بار، جنہوں نے صورت ساجن کی،
اپنے پی سنگ سو نہ پائیں، کھویا صبر و قرار،
چلیں وہ سب منجدھار، گھڑوں بنا ہی سکھیاں۔
6
میری طرح جب تم بھی دیکھو، سکھیو! ساجن یار،
پی سنگ سکھ سے سو نہ پاؤ، پی کو بھی دو وار،
جاؤ دریا پار، مجھ سے پہلے گھڑے اُٹھاکر۔
7
جو کچھ دیکھا میں نے، سکھیوں نے جو دیکھا،
گھر ، بر، وار دیا، چین سے بیٹھ نہ پائیں۔
8
گھڑے اُٹھا کر گھاٹ پر آئیں، چلی ہیں سب اُس پار،
ہر اک کہے کہ سوہنیہوں میں، جاؤں میں پاس میہار،
ڈوبے گی ہر نار، کل کو گہرے دریا میں۔
9
گھاٹ کنارے کھڑی ہیں سکھیاں، ساجن نام پُکاریں،
کچھ کو اپنی جان ہے پیاری، کچھ تو خود کو واریں،
ساجن وہ ہی پائیں، جو کود پڑیں دریا میں۔
10
پنچھی آن چھپے پیڑوں میں، سورج ڈوبا، شام،
گونجی جب آذان چلی وہ، لے کر پی کا نام،
ڈھونڈے وہی مقام، جہاں ہے اس کا ساجن۔
11
دیکھ کے پیچ و خم دریا کے، اتری لے کے گھڑا،
جان کروں قربان پیا پر، وصل کا یہ دعویٰ،
پار انہیں پہنچا، وعدہ وصل ہے ساجن سے۔
12
دیکھ کے پیچ و خم دریا کے، ہوگئی دریا واصل،
وَاِمّا مَن خَافَ مَقَامَ رَبّ، کرلی پار یہ منزل،
جن کے من میں پریت بسی ہو، ان کو کیسی مشکل،
شب کو وصل ہو حاصل، ان کو پہنچا پار اے سائیں۔
13
عزم ہے دل میں گھڑا اُٹھائے، چلی وہ دریا پار،
تن لہروں میں ڈال رہا ہے، من ہے پاس میہار،
پریت کا ہے منجدھار، میں ڈولوں پریت بھنور میں۔
14
سنگ گھڑے کے تیر رہی تھی، ڈبوتی دونوں بانہیں،
ڈوبتے بیچ بھنور میں دی تھیں، پریتم کو آوازیں،
نہنگ میں بپھری موجیں، تو ہی آکر بچالے اے ساجن!
15
گھڑا لیے وہ چلی ملن کو، لے کر رب کا نام،
مچھلیوں کے منہ میں ہے اب، اِس کا جسم تمام،
بکھرے بال اور ٹوٹے گہنے، بھنور بھنور کا دام،
منہ مارا تھا مچھلی نے اور، کاٹ لیا تھا چام،
پریت کا یہ انجام، کہ وہ تھی نہنگ کے منہ میں۔
16
اسی گھڑے پہ تیر کے میں تھی، پہنچی پاس میہار،
کیسے اِسکو ہاتھ سے چھوڑوں، اس پر جان نثار۔
17
گھڑا رہے نہ باقی بیشک، رہے نہ ہار سنگھار،
طالبِ المولیٰ مًذکر، اِسکی لی ہے سہار،
پریتم ہے میہار، جھوٹا ڈم کا ناطہ ہے۔
18
گھڑا رہا نہ باقی تو کیا، بیشک ٹوٹیں زیور،
طالبُ المولیٰ مُذکرّ ، اب کیا خوف و خطر،
من میں تو ہے میہر، کیسے لوٹ کے آؤں۔
19
گھڑا رہا نہ باقی تو کیا، گھڑا تو تھا رکاوٹ،
ساز کی صورت باج رہی ہے، جسم و روح میں چاہت،
بس میہار کی قربت، اور ثواب نہ مانگوں۔
20
گھڑا رہا نہ باقی تو کیا، پھر بھی تیر اے دل!
نینن کو رکھ اپنے بس میں، رہ نہ پل بھر غافل،
لہر لہر ہے ساحل، پی نے راہ دکھائی۔
21
گھڑا رہا نہ باقی پھر بھی، سوہنی ہو نہ نراس،
لَاتَقَنَطُواَ مِن رَّحمتِ اللہ، اِس کی رکھ تو آس،
من میں ملن کی پیاس، تو دیکھے گی میہار۔
22
گھڑا رہا نہ سوہنی باقی، ہوگئے ختم وسیلے،
جان رہی نہ جسم میں باقی، اور رہے نہ حیلے،
ہار سنگھار رسیلے، بھولی سب وحدت میں۔
23
گھڑا رہا نہ سوہنی باقی، ختم ہوئے اسباب،
تب ہی زیرِ آب، سنی صدائیں ساجن کی۔
24
ڈوبی سنگ سہاروں کے جب، پہنچی بیچ بھنور،
آیا پوچھنے سوہنی کو، بھنور میں تب میہر۔
25
خود کو لے نہ ساتھ، بھول جا اور سہارے،
جا پریتم کے دوارے، بسا کے دل میں پریت۔
26
خود کو لے نہ ساتھ، بھول جا اور سہارے،
پریت ہی پہنچائے گی، تجھ کو پاس کنارے،
من میں پیت اُجیارے، تو پہنچے گی تب پار۔
27
خود کو لے نہ ساتھ، بھول جا اور سہارے،
چل تو بیچ بھنور میں، من میں پریت بسالے،
جا تو پاس پیا کے، سجا کے من میں پریت۔
28
خود کو لے نہ ساتھ، لے نہ اور سہار،
وہ پائیں میہار، جن کا رہبر عشق بنے۔
29
خود کو لے نہ ساتھ ، وسیلوں کو چھوڑ،
کچے گھڑے کو توڑ، پریت کا لے سہارا۔
30
عشق سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، جگ میں اور سہار،
جن کی جھوٹی پریت ہے سجنی!، کھڑی وہ اِس پار،
دریا کو جو نالا سمجھیں، گھڑا ہو کیوں درکار،
سچی پریت ہی پہنچاتی ہے، دریا کے اس پار،
من میں ہو میہار، تو بھنور، لہر بھی روک نہ پائے۔
31
یاد جنہیں میہار ہے اُن کو، یاد کرے میہار،
گھڑا بھی جانیں بار، جن کا عشق اٹل ہے۔
32
جن کا عشق اٹل ہے وہ تو، گھڑے بنا ہی تیریں،
وہ لہروں پہ ٹہلیں، جن کے من میں پریت بسی ہو۔
33
بجرہ کیوں وہ مانگیں جن کے، من میں پریت اتھاہ،
پوچھے وہ ملاح، جب جائے میہار سے ملنے۔
34
سوہنی ساھڑ ایک ہے، وہ ساحل وہ دریا،
بوجھ لے بھید یہ سارا، بھید میں بھید چھپا ہے۔
وائي
دے تو کوئی جواب، میں دور ہوں کیوں ساجن سے،
پاپ سے اپنا آپ بچالے، پھر کیا طلب ثواب،
نہ وہ زہد ہے نہ وہ تقویٰ، نہ ہی رنگ رباب،
خود سے ہی خوبی ہو حاصل، لگا دے گر لعاب،
پاپ پوترتا ہوجائے، کرے جو مہر جناب،
خاک کے آگے ہیچ میں سارے، اطلس و کمخواب،
جل میں جھلمل دمک رہے ہیں، جیون کے یہ حباب،
چل ہادی کے سنگ اے سائیں، کھلے کرم کا باب،
من کے چور پہ ایسے جھپٹ تُو، جیسے یار! عقاب،
کھول دے دل کے دروازے اب، کر نہ پی سے حجاب،
جوں ادغام ہو اعرابوں کا، یوں ہو وصل جناب،
لب پہ مہر ہو دل میں اگنی، جل کر دل ہو کباب،
ملے گی اِس کو مئے طہورا، مانگے جو مئے ناب،
مرض عشق میں برہن نے، کب اچھے دیئے جواب۔
دوسری داستان
1
قہری لہریں، شور، طلاطم، نہنگ جہاں گرداب،
کود پڑی دریا میں سوہنی، چڑھی تھی موجِ آب،
دریا تھا پایاب، مہر ہوئی جب پی کی۔
2
بپھری لہریں، بھنور، طلاطم، دریا ہیبت ناک،
کود گئی دریا میں سوہنی، ذرا نہیں تھی باک،
دریا دہشت ناک، کر گئی مہر سے پار۔
3
دہشت ناک ہے چڑہتا دریا، ہیبت ناک ہے شور،
لہروں بیچ وہ ٹوٹا آخر، گھڑا جو تھا کمزور،
لے جائے اُس اور، ساجن سنگ ہے بیچ بھنور میں۔
4
دریا دہشت ناک بھنور، لہروں میں "سیسار"،
کیسے کیسے نہنگ چھپے تھے، ہیبت ناک ہزار،
تجھ بِن ساجن کون سہارا، میں ہوں نربل نار،
تو ہی اے ستار، پہنچ اب بیچ بھنور میں۔
5
دریا دہشت ناک طلاطم، بھنور ہیں ہیبت ناک،
پیڑ اُکھڑ کر ایسے تیریں، تیریں جوں خاشاک،
دیکھ کے دہشت دریا کی، کانپ اُٹھیں پیراک،
لہریں ہیں سفاک، تو ہی پہنچا پار اے سائیں!
6
دریا دہشت ناک طلاطم، اوپر بھنور کا شور،
جھپٹ رہے ہیں نہنگ اے سائیں! لہروں کا ہے زور،
اب تو مہر سے آجا ساجن!، مجھ برہن کی اور،
اندھیارا گھنگھور، تو ہی تھام لے ہاتھ۔
7
دہشت کیسی دریا میں ہے، لہر بھنور کا شور،
ساجن! میں تو سہہ نہ پاؤں، اِن لہروں کا زور،
میں برہن کمزور، تو ہی سُن فریاد اے سائیں!
8
کیسی دہشت دریا میں ہے، موجیں پیچاں باہم،
تیرے حضور کا دھڑکا سائیں!، لگا ہے دل کو پیہم،
شاید میری پریت سے ہی اب، طوفان جائیںگے تھم،
پار لگا دے پریتم، تو بس اپنی ہی مہر سے۔
9
دریا دہشت ناک بھنور، موجوں کی طغیانی،
ڈوب گئے ہیں پیڑ، جزیرے، لہریں ہیں طوفانی،
پھسلن گہرا پانی، یہاں سے پار لگا دے۔
10
دریا دہشت ناک بھنور، لہروں کی یلغار،
شاد ساجن سُن پائے اب، میری چیخ و پکار،
مہر کرو میہار! تو لہر لڑے نہ مجھ سے۔
11
کیسی دہشت ہے دریا میں، نہنگ کریں یلغار،
ناپ سکیں نہ گہرائی جو، مانجھی ہیں ہشیار،
ایسے ہیں گھڑیال چھپے جو، کر دیتے ہیں وار،
بیڑے ڈوبیں، نکل نہ پائیں، پہچنا ہے دشوار،
نام و نشان تک کھو بیٹھے ہیں، بیڑے پائیدار،
وہ پھر لوٹ کے کب آئے جو، گئے ہیں اِس منجدھار،
اِن کو پہنچا پار، جو تیر نہ پائیں سائیں!
12
شور طلاطم، طغیانی اور، لہروں کی یلغار،
جن کے سنگ تھے مشکیزے وہ، ہوئے پریشان یار،
پار کیا منجدھار، جو اصل سے پیراک تھے۔
وائي
اپنے سچے ساجن کو ہی، رہبر میں جانوں،
وہ یار کی راہ دکھائے!
تو ہو سنگ تو بیچ بھنور بھی، ساحل ہی سمجھوں،
تیرے وصل کی آس میں سائیں! جیون بھی تج دوں۔
تیسری داستان
1
بن سوچے منجدھار میں جانا، یہ عشاق کا کام،
کیا کیا طعنے "ڈم" دیتا ہے، مجھ کو صبح و شام،
عقل و شرم تمام، پریت نے ہیں بسرائے۔
2
بن سوچے دریا میں اُتریں، آسان گھاٹ نہ دیکھیں،
جن کی پریت ہو ساجن سے وہ، کیسے چین سے بیٹھیں،
گھر لیا ہے وہموں نے اور، بھنور یہ بپھری لہریں،
بھنور بھی آساں سمجھیں، جن کے دل میں درد سجن کا۔
3
جس بھی گھاٹ سے اُترے تو وہ، گھاٹ نہیں دشوار،
آساں گھاٹ تو وہ ہی ڈھونڈیں، جن کا جھوٹا پیار،
ڈم کے پاس تو جسم ہو لیکن، من ہو پاس میہار،
آساں ہے منجدھار، جن کے من میں پریت بسی ہو۔
4
جہاں سے اُترے گھاٹ وہی ہے، آساں ہے وہ مقام،
آساں گھاٹ تو وہی ڈھونڈیں، جن کی پریت ہو خام،
جن کے دل میں پریت بسی ہو، آساں گھاٹ تمام،
دریا ہے اک گام، جب ہو دل میں درد ہجر کا۔
5
جس بھی گھاٹ سے اتریگی وہ، ہوجائیگا آساں،
سالم پہنچی دریا میں وہ، ذرا نہیں تھی ترساں،
پی کے عکس سے جھلمل جھلمل، دمک رہے تھے نیناں،
تھا حق کا اس پر باراں، حق کی تھی وہ طالب۔
6
اِس کو روزِ ازل سے ہی، حق ہی حق تھا پیارا،
مانجھی سنگ نہ ناؤ نہ ہی تھا، کوئی اور سہارا،
پانی کب تھا گہرا، وہ سمجھی منجدھار میں ہے۔
7
اس کو روزِ ازل سے ہی، عشق ہوا تھا حاصل،
میں گلے کا ہار حبیب کا، جسکے تھی نہ قابل،
پائی تھی وہ منزل، سب کا جہاں سہارا۔
8
سوہنی! اب تو چھوڑ دے، سارا حرص و ہوا،
جھوٹی ہے جو ساجن بِن، کرے ہے ناز و ادا،
غیروں میں دن نہ بِتا، کر نہ ایسی بھول۔
9
سب میں بس اک سوہنی کو ہی، حاصل تھی تعظیم،
قرب تھا حاصل الف کا اور، بسا تھا من میں میم،
ایسی تھی وہ حلیم، کہ پایا پیار میہار کا۔
10
سوہنی پڑھ تو شریعت کا، اچھی طرح سبق،
رکھ ادراک طریقت کا، جان لے سارا حق،
عاشق پڑھیں ورق، معرفت کا روزِ ازل سے۔
11
جن کو صبر نصیب ہے، اُن کے آنگن میں آرام،
وصل یار جو حاصل ہو تو، کریں نہ اس کو عام،
جن کو عشق مدام، وہ تو بِنا سہارا تیریں۔
12
روک سکے نہ طعنے ڈر کے، ختم ہوئی نہ آس،
دیکھ دہشت دریا کی، سوہنی تھی نہ نراس،
کالی رینا، چلی ملن کو، من میں ملن کی پیاس،
ندی رات اوماس، وہ وعدہ کی تھی پوری۔
13
ندی نالے روک سکے نہ، دریا تھا آساں،
جس کی کوکھ سے جنم لیا تھا، مسکائی وہ ماں،
پی کو دیکھیں سکھیاں، تو پل بھی رُک نا پائیں۔
14
نہ تو سردی روک سکی نہ، دریا کی دہشت،
کیسے اُس کو روک سکے گی، ڈم کی کوئی رکاوٹ،
چاہے پی کی قربت، من میں آگ ہے عشق کی۔
15
سردی، پالا، باد و باراں، بپھری موجیں طوفاں،
پیا ملن کی پیاس ہے من میں، کیسے ہو وہ گریزاں،
پی سے ملن کا پیماں، کیسے توڑ سکے گی۔
16
ٹھنڈی رات اور بادل بارش، چلی وہ دریا پار،
چلو تو چل کر دیکھیں سوہنی، کر جانے جو پیار،
من میں بس میہار، دن ہو چاہے رات۔
17
سب اُتریں دریا میں ہو جب ساون رت اور برکی،
یہ اترے اس موسم میں، جب سردی اور تھا پالا،
اُتری اُلفت کے دریا میں، سوہنی عشق سراپا،
ظالم ہے یہ دریا، جو مارے پریت کے ماروں کو۔
18
بجرے! آج بتاؤں تجھے میں، اپنی پریت کا حال،
سکھ پاتی ہوں دریا میں اور، ساحل گھاٹ وبال،
سرما کو میں ساون جانوں، پیارا ہے پاتال،
جانیں وہ ہر حال، اس پار ہو جن کا ساجن!
19
زور نہ دکھلا، دینا ہوگا، دریا! تجھے حساب،
سدا نہ ہوگی رُت ساون کی، تھمے گا جب سیلاب،
بھنور یہ موجِ آب، ہوجائیں گے ختم یہ سارے۔
20
سوکھ جائے اے دریا! ختم ہو سب سیلاب،
تجھ میں جنگل اُگ آئے اور، ذرا رہے نہ آب،
پریت سے جو بے تاب، تونے اُن کو غرق کیا ہے۔
21
بھنور نہ کر تو شور، کر نہ تنے پہ وار،
رنگ چڑھا جو پریتم کا وہ، کیسے دوں میں اُتار،
جاؤں میں پاس میہار، تُو جتنا چاہے زور دکھائے۔
22
تیری فکر کروں کہ اپنی، بجرے! تو یہ بتلا؟
میرے ساجن کی جانب سے، کوئی خبر تو لایا،
تو منجدھار چلا، مجھ کو ساجن پاس ہے جانا۔
23
جن کے من میں میہر یار کی، سُلگے پریت اگن،
ان کو سوئے دریا لائے، ان کے دل کی لگن،
جن کا میہر ساجن، ان کو سیدھی راہ ہے دریا۔
وائي
مدت سے میہار یار، میں ہوں بیچ بھنور میں،
بیچ بھنور اور مشکل گھاٹ، تو ہی پار اُتار،
دم دے ساتھ دن بیت رہے ہیں، تجھ بِن اے دلدار،
بپھری موجیں، بھنور چنگھاڑیں، لہر لہر منجدھار،
کچا گھڑا اور کوئی نہ ساتھی، چلی ہے وہ اُس پار،
تو ہی لے آ اب مشکیزہ، تو ہی پار اُتار،
میں ہوں گھاٹ کنارے کیسے، پہنچوں پاس میہار،
ٹلیوں کی آواز سنوں تو، تڑپ اُٹھے من یار!
لہر لہر ہے طغیانی اب، تیری ہے آدھار،
چیر کے بپھری موجیں میں تو، جاؤں گی پاس میہار،
داخل ہوئی تو بحری حیواں، بے بس ہوگئے یار۔
چوتھی داستان
1
گونج اُٹھیں جب ٹلیاں، لرزا جسم تمام،
ٹلیوں نے جو پریت جگائی، کروں وہ کیسے عام،
جس سے عشق مدام، وہ دوست دلاسے دیتا ہے۔
2
چاروں اور اب باج رہی ہیں، تیری ٹلیاں یار!
نیند سے میں بیدار ہوئی، سُن لی جب جھنکار،
چھینا صبر قرار، چین نہیں پل بھر کا۔
3
ٹلیوں نے یوں پریت جگائی، آئے نہ اب آرام،
دن میں دس دس بار سجن کا، لیتی ہوں میں نام،
ڈالا پریت کا دام، جو جیتے جی نہ ٹوٹے گا۔
4
کالی رات اور سیاہ بھنور، موجوں کی پھنکار،
دریا دہشت ناک کا دھڑکا، لہروں کی چنگھاڑ،
سوہنی چلے ہے پیا ملن کو، موجیں اور اندھکار،
پہنی جب منجدھار، تو ٹلیوں نے اسے راہ دکھائی۔
5
ٹلیوں کی آواز سُنی تو، جھوما جسم تمام،
اپنے پی کے درشن کو وہ، ہوگئی بے آرام،
ہوگئی نیند حرام، جب یاد پیا کی آئی۔
6
یادِ یار سے ہی زندہ ہوں، کیسا وصل ملن،
تن من میں اب اُمڈ رہی ہے، تیری پریت سجن،
من جس کا مسکن، اِس یار کو دور نہ جانوں۔
7
چونک اُٹھی میں سُن کر، ٹلیوں کی جھنکار،
جاگا درد فراق کا، درد بنا آزار،
جہاں پہ وہ میہار، میں جاؤں گی اس جا سکھیو!
8
ٹلیوں کی آواز سکھی ری!، گونجی جب اُس پار،
درد نے دل میں کروٹ لی اور، آئی یادِ یار،
اپنے یار کی پریت کی سکھیو! آئی پھر مہکار،
دیکھوں اب میہار، جاکر پار میں دریا کے۔
9
چونک کے جاگی نندیا سے، گونجی جب جھنکار،
پھر سے تازہ زخم ہوئے جب، آیا یاد میہار،
جاؤں یار کے دوار، مجھ پر اب یہ لازم ہے۔
10
کس جانب ہیں بھینسیں اور یہ، کہاں پہ گونجیں ٹلیاں!،
جہاں پہ بھی میہار ہے ان کا، بھینسیں جائیں وہاں۔
11
کس جا گونجیں ٹلیاں، کہاں پہ ہے میہار؟
کس جا دھونی یار کی، کہاں ہے دوجا پار؟
کس کی خاطر یار! میں نے غوطے کھائے؟
12
آن کے سوہنی بھینسوں سے، کہے ہے دل کا حال،
دیکھا وہ مہیوال، جس سے پریت ہے میری۔
13
نیر بہا کر نینن سے، کہے ہے دل کا حال،
گھر تو ہے جنجال، کیسے ڈم سنگ جیون بیتے۔
14
بیٹھی نیر بہائے، وہ بھینسوں کے پاس،
میں تو انگ ملوں گی وہ جو، تم کھاؤ گی گھاس،
من میں جاگے آس، جن سنوں آواز تمہاری۔
15
وہیں پہ لوٹ کے آئیں بھینسیں، جہاں چری تھی گھاس،
اور کہیں وہ جا نہ پائیں، جائیں میہر کے پاس۔
16
چکھا تھا یار کے ہاتھوں سے، پریت کی مے کا جام،
چکھ کر مے مستانی ہوگئی، ہوگئی تشنہ کام،
کہاں تھا اب آرام، پریت کا تیر لگا تھا۔
17
سوہنی نے میہار کے ہاتھوں، پیا تھا پریت کا پیالہ،
من میں جاگی پیاس ملن کی، ہوگیا من متوالا،
پل بھی نہیں گوارا، اب تو بِن میہار کے۔
18
سدا جئے میہار، سدا بسے چوپال،
بھینسوں کے اس مالک کا، بیکا ہو نہ بال،
میرا ہے وہ جمال، پر جگ دیتا ہے طعنے۔
19
بھینسیں اُس میہار کی، جیئیں اور رہیں سلامت،
بندھی رہیں سب کھونٹوں سے اور، دیکھ کے ہووے راحت،
دیکھ کے جنکی صورت، میں گئی تھی پاس میہار کے۔
20
بھینسیں اِس میہار کی، سدا رہیں خوشحال،
اِن کی نسل ہو دُگنی تگنی، بھرا ہو سب چوپال،
جنگل گونجے ٹلیوں سے، جھن جھن کرتی چال،
رہے وہ ماہیوال، آن کے پاس پڑوس میں۔
21
بھر کر پیٹ اب جھولتی آئیں، بھینسیں، دیکھ قطار،
صدا سنی ہے صاحب کی، اب چلنے کو تیار،
ہوگا ساتھ میہار، تو پہنچیں گی سب پار۔
22
بھر کر پیٹ وہ تیرتی آئیں، پہنچیں آن کنارے،
مالک کے وہ سہارے، پہنچیں گی سب پار۔
23
بھر کر پیٹ وہ تیرتی آئیں، پہنچی ہیں منجدھار،
میہر کے آواز سنیں گی، اٹھائیں گی گردن یار،
جائینگی سب اس پار، امن کے پہنچائیگا ساجن۔
24
بھر کر پیٹ وہ آئی ہیں، پہنچیں پنگھٹ پاس،
صدا سنیں گی صاحب کی تو، بندھے گی من میں آس،
آئے گا اِن کو راس، کل کو پار کنارا۔
وائي
مجھے نہ کوئی روکے، اپنے آپ کو دیکھے، میں ہوں عشق بھنور میں،
جاؤں گی پاس پیا کے، کوئی مجھے کیوں ٹوکے،
کالی رات اور بیچ بھنور، سوہنی پار چلے،
دیکھ کے دھوتی یار کی، میرا من سُلگے۔
پانچویں داستان
1
حدِ نظر تک دریا، موجیں، اور کنارا دور،
جہاں پہ لہریں وار کریں وہ، چلی وہاں مہجور،
کانپ اُٹھی جب یاد آئے سب، اپنے پاپ قصور،
ہو تیری مہر حضور! تو لہر لڑے نہ اس سے۔
2
حدِ نظر تک دریا، موجیں، اور ہے دور کنارا،
کانپ اُٹھے جب دیکھے کوئی، ہیبت ناک نظارا،
دونوں جگ کے مالک! میرا، تجھ بن کون سہارا،
مہر کرے وہ پیارا، تو لہر لڑے نہ اس سے۔
3
جن کے من میں پیار ہے اُن کو، دریا کا کیا ڈر،
پار کریں ہر حال میں وہ تو، موجیں اور بھنور،
جاتی ہیں وہ پیا ملن کو، وار کے جان نڈر،
من میں پریت اگر، تو پار اتارے پریتم۔
4
کود پڑیں جو دریا میں، ہوگئی اُن کی جیت،
تو بھی داخل دریا ہوجا، گر ہے سچی پریت،
پائے گی پھر وہ میت، جو پار تجھے پہنچائے گا۔
5
جن سکھیوں نے نینن میں، سجا لیا میہار،
وہ تو بن مشکیزے کے ہی، پہنچیں دریا پار،
لہریں اور منجدھار، ڈبو سکے نہ اُن کو۔
6
رات کو آئے یاد، سکھ میہار کے سارے،
وہ ہی سب اس پار گئے ہیں، جو ہیں اُس کے پیارے،
دیکھوں میں نظارے، اپنے یار میہار کے۔
7
رات ڈھلی تو سینے سے، نکل گیا یہ دل،
جوشِ عشق میں دریا تیرے، میرا دل بسمل،
دیکھا یار کا محمل، جب بھیگ چلی تھی رات۔
8
دل کی لگن جس اور ہے، بہے اُدھر کو دھارا،
عشق جا تیز بہاؤ اُدھر کو، روک سکے نہ کنارا،
ملا دے میہر پیارا، کہے لطیف کے لہروں میں۔
9
روکوں روک نہ پاؤں خود کو، اُمڈ رہا ہے پیار،
چلوں کہ من میں گرج رہا ہے، پریت کا اک منجدھار،
جن کے من میں یار، اُن پر جانا لازم ہے۔
10
حدِ نظر سے دور ہے پریتم، دور نہیں ہے پریت،
بِن دریا کے میت، کیسے کوئی پائے۔
11
کیا کیجئے کہ اب بھینسوں نے، بدل دیئے ہیں ڈیرے،
پوچھ رہی ہے ہر اک سے وہ، کھڑی ہے آن کنارے،
پریت کی ماری ساحل پر، اب تو کھڑی پکارے،
تیرا ٹھکانا اے پیارے! اب تو قریب آ جائے۔
12
اب تو ڈم کا خوف نہیں ہے، ذرا بھی اس کو یار!
پانی میں یہ اپنا بھگوئے کیسے، کیونکہ ہار سنگھار،
تیرے لیئے میہار، بھنور چیر کے آنا ہے۔
13
روز ہی دے میہار کے مجھ کو، ڈم رہ رہ کے طعنے،
پھیلاتی ہوں دامن تاکہ، لوں دامن میں میہنے،
جتنے چاہے دے لے، طعنے اس ساجن کے۔
14
جب سوئے جاگ سارا، جاگیں میری اکھیاں،
اس پل میری سکھیو مجھ کو، آئے یاد وہ جاناں،
ملتا ہے گر طعنہ، تو اسکو فخر میں جانوں۔
15
ڈوبی بیچ بھنور میں، جبھی ہوا ہے نام،
کتنے دن وہ جیتی، موت ہی تھا انجام،
مستی چڑھ گئی پریت کی، پی کر عشق کا جام،
کہے لطیف کہ عشقِ یار میں، گھائل جسم تمام،
موت ہی تھا انجام، پر مر کر امر ہوئی ہے۔
16
کرتے ہیں سرگوشیاں، رات کو جب گرداب،
یاد آئے تب سکھیو! دریا موجِ آب،
کبھی نہ ہوں سیراب، جن کو پریت کی پیاس ہے۔
17
کیسے میلی ہو وہ مچھلی، جس کا مسکن جل،
پانی کی ہے پیاس وہ مانگے، پانی ہی ہر پل۔
18
کیسا ڈم اور کہاں کی سوہنی، کیسا یہ منجدھار،
قسمت کا یہ کھیل تھا ورنہ، کیوں جاتی اُس پار،
رات، بھنور، اندھکار، قسمت کا ہے کھیل سکھی ری!
19
ڈوب بھی جاؤں تو کیا پروا، چلوں تو میں اِس پار،
آن کنارے اشک بہائے، شاید وہ میہار،
جی اٹھوں میں یار، پھر سے پریت کے کارن۔
20
لہر لہر ہے لالی، مہک رہا ہے جل،
رنگ و بو کا طوفاں ہے، خوشبو کے بادل،
ڈوب گئی تھی کل، پریت کی ماری سوہنی۔
21
جو کچھ دیکھا دریا میں، کہہ دینا سب کل،
بھیگ نہ جائے دامن، موجیں مارے جل،
دھیان میں رکھ سہنل، تو پہنچے گی اُس پار۔
22
وہموں نے اب گھیر لیا ہے، جاؤں میں اب کس پار،
گر ساحل پہ رک جاؤں تو، جھوٹا ہوگا پیار،
طعنے دیں گی ساری سکھیاں، جاؤں گی گر منجدھار،
ملن کا ہے اقرار، اور ہے جگ کی رسوائی۔
23
یہ دکھڑوں کی گھٹڑی، پی کی ہے سوغات،
مل جائے گر ساجن تو، دور ہوں سب آفات،
غم سے دلا نجات، ملا دے میہر مولا۔
وائي
نینوں کے بل چلئے، چلئے، ری! چلئے،
بات پیا کے بھید کی، ہو محرم تو کہیے،
پریت کی اگنی من میں، چھپ چھپ کر ہی جلئے،
سارے جگ سے چھپا کے، اپنے دکھ کو رکھیئے۔
چھٹی داستان
1
روزِ ازل سے بھی پہلے تھا، پی کا ہار سنگھار،
نہ تو کن فیکوں کا عالم، نہ ہی روپ نکھار ،
ابھی تو تھے ناپید ملائک، پی سے تھا تب پیار،
تب سے ہی میہار، بسا تھا اِس کے من میں۔
2
روزِ ازل سے بھی پہلے تھا، سوہنی کا سنگھار،
نہ تو کن فیکوں کا عالم، نہ ہی روپ نکھار،
مُسکا کر میہار، اس نے اپنایا تھا۔
3
جب تھا دن میثاق کا، چلی تھی وہ منجدھار،
"الست بربکُم قالو بلیٰ"، یاد تھا وہ اقرار،
جو دیکھی راہگذار، اب سب کو بتلاتی ہے۔
4
سُنی تھی جب سب روحوں نے، وہ آوازِ الست،
عہد کیا تھا میہر سے تب، پائی تھی اُلفت،
ڈوبنا تھی قسمت، کیسے ٹل سکتی تھی۔
5
الست کا سب روحوں کو، ہوا تھا جب فرمان،
کہہ کر بلیٰقلب سے، لیا تھا میں نے مان،
تب سے عشقِ میہار میں، من ہے یہ مستان،
چین نہیں اک آن، حق ہے یہ کہ ملوں سجن سے۔
6
روحوں کو جب حکم ملا اور، گونجی الست صدا،
تب سے ہی اِس ساجن سے، ہوا تھا عشق میرا،
یہ ہی تھا مقصود بھنور میں، جائے ٹوٹ گھڑا،
عہد کیا پورا، پہنچ کے بیچ بھنور میں۔
7
روحوں سے جب ساجن نے، الست تھا فرمایا،
تب سے اس میہار کا، دل میں عشق سمایا،
رب نے تھا جو چاہا، اسکی بھنور میں ہوئی تعمیل۔
8
جب دیا تھا فائق نے، روحوں کو فرمان،
پریت ہوئی میہار سے، سکھیو ری! اس آن،
گھڑا رہا نہ باقی یہ بھی، وہاں کا تھا فرمان،
جی سے لیا ہے مان، حکم اپنے ہادی کا۔
9
سنی تھی جب روحوں نے، الست کی یار صدا،
تب سے ہی سوہنی کا، پی سے عشق ہوا،
ہادی نے جو کہا، اس کی بھنور میں ہوئی تعمیل۔
10
الست کی جب آواز آئی تھی، کیے تھے جب اقرار،
پی کی اور جو جاتی تھی وہ، دیکھی تھی راہ گذار،
لیکن وحدت کی وادی میں، آئے تھے چند ہی یار،
لہریں لاکھ ہزار، دیکھ کے بھولے دریا کو۔
11
سلگ رہی ہوں سکھیو! تن من ہے بے تاب،
پیتی ہوں پر تَنِ پیاسا ہے، کیسے ہو سیراب،
ساگر، سیلِ آب، پیئے نہ پیاس بجھے۔
12
سلگ رہی ہوں سکھیو، سلگتی ہوں سب رات،
بھول جا دوئی کو تو سوہنی، ساجن کی کر بات،
ہجر کی ہیں آفات، اور پونجی پاس نہیں ہے۔
13
کالی رات اور کچا گھڑا ہے، کیسا ہے اندھیارا،
چاند کا نام و نشاں نہیں ہے، مچل رہا ہے دریا،
آدھی رات کو پیار سجن کا، اسکو کھینچ ہے لایا،
کون بھنور میں آتا ہے یہ حکم خدائی سکھیو۔
14
کالی رات اور کچا گھڑا، سنگ نہیں ہے بجرا،
کیسے دیر لگائے اس کا، پی ہے میہر پیارا،
بھنور بنے ہے کنارا، اُلفت ہو جو من میں۔
15
کالی رات اور کچا گھڑا ہے، برس رہی ہے برکھا،
شیر کی مانند گرجے دریا، کھوجانے کا دھڑکا،
جان کا دوں اب صدقہ، ٹوٹ نہ جائے پریت۔
16
ڈول رہی ہے بیچ بھنور میں، نہ ہی آر نہ پار،
پریتم ہی تو ساحل ہے، باقی سب منجدھار،
کیسی سوچ بچار، جو ڈوبیں ان پر کرم کرے ہے۔
17
ڈول رہی ہے بیچ بھنور میں، نہ ہی آر نہ پار،
گھڑ پرکھ نہ پائی وہ جو، ٹوٹا آخرکار،
تو ہی پار اُتار، اب تو میرے مولا۔
18
کیا کیا تھے پیراک کہ جن کو، دریا نے ہے ڈبویا،
لیکن سوہنی نے تو خود میں، دریا کو تھا سمویا،
پٹخ رہا ہے دریا، ماتھا آج کناروں پر۔
19
لاکھوں دریا شور مچائیں، ریت نہ بدلے برہن،
کیسے دریا توڑ سکیں گے، جو ہے پریت کا بندھن۔
20
سنگ نہ لے تو سوہنی اپنے، پریتم کا مشکیزہ،
کہیں گے کل کو پی تجھ سے کہ، ہم نے پار اُتارا۔
21
ڈوب جا لیکن پریتم سے، مت لے تُو مشکیزہ،
وصلِ یار کی خاطر تیر تو، جہاں بہاؤ ہے اُلٹا،
اس جانب تو جا، جہاں نہیں ہے کوئی بستی۔
22
ساحل کی خواہش میں، جو بھی ڈوب گیا،
ان کو آن ملا، ساجن دونوں کناروں پر۔
23
ساجن اِن کا سہارا ہے جو، ڈوبے ساحل پر،
اپنے کاندھوں پر بٹھلاکے، کرے گا پار بھنور،
جن کا دور سفر، وہ یہیں پہ منزل پائیں۔
24
ساحل کی خواہش میں تو بھی، ڈوب جا اے سوہنی!
کاہے کو تو بجرہ ڈھونڈے، بِن بجرے چل سجنی!
نہ تو اب ہے سوہنی، نہ ہی صدا ہےساجن کی۔
25
ان کو مت ابیات سمجھ یہ، ہیں آیاتِ قرآن،
دھیان سے گر تو پڑھ لے تو ہو، پریتم کا عرفان۔
وائي
پی کو نہ بِسرائے، وہ ہے پریت کی ماری،
جس کے دل میں درد سجن کا، چین سے بیٹھ نہ پائے،
ڈم کے سنگ ہے جینا مشکل، ان را سے مجھے وہ مارے،
ٹلیوں کی آواز نے دیکھو، اس کے ہوش گنوائے،
بن جنگل اور صحرا دریا، صدا اسی کی آئے،
بے کل من میں آس بندھی ہے، آس میں عمر بتائے۔
ساتویں داستان
1
وہ آیا نہ گھاٹ پہ پھر بھی، من ہے ملن کو بے کل،
شور مچا ہے دریا میں اور، ہجر میں من ہے گھائل،
موج چڑھی ہے چاہت کی میں، ملن کو تڑپوں پل پل،
دریا پار کے جنگل میں، میں دیکھوں نور کی مشعل،
لہروں کی ہے ہلچل، گھڑا یہ ٹوٹ نہ جائے۔
2
تو ہی ڈبوئے، پار اُتارے، اور کا جھوٹا دعویٰ،
بیچ بھنور میں مجھ برہن کا، جانے حال تو سارا،
یہ دریا کا دھارا، کچے گھڑے کی لاج تو رکھیو!
3
منڈلا رہے تھے پنچھی، تیر رہی تھی لاش،
تجہیز و تکفین کو آئے، پنچھی اڑ کر پاس،
بڑھی ملن کی پیاس، جب آئے پاس ملائک۔
4
دیتا ہے ملاحوں کو، میہر آج صدائیں،
آؤ تو ڈالیں جال اب اسکی، لاش کو ڈھونڈ نکالیں،
دریا چھان کے آئیں، تو ملن ہو شاید سوہنی سے۔
5
میہر اب ملاحوں سے، کرتا ہے یہ سوال،
آؤ تو اسکی لاش کو ڈھونڈیں، ڈال دو اپنے جال،
چھان لیں سب پاتال، شاید ملن ہو سوہنی سے۔
6
دیتا ہے ملاحوں کو، میہر آج صدا،
اپنی اپنی لے آؤ تم، کشتی اور مشکیزہ،
ڈوبی جو اس جا، چلو تو اس کی لاش کو ڈھونڈیں۔
7
ساحل کے سرکنڈے تھام کے، وہ ہے آہیں بھرتا،
کیونکر میری سوہنی کو اے دریا تونے ڈبویا؟
قیامت کے دن اے دریا! میں کرونگا تیری شکایت۔
8
بھنور جہاں ہیں قہری جس جا، ٹوٹ گرے ہے کنارا،
گہرائی کو کیا ناپینگے، جنکے پاس ہے بجرہ،
ساحل پر ہی لرز رہے ہیں، بغل میں ہے مشکیزہ،
جس کا گھاٹ ہے گہرا، کیوں اُترےواں دریا میں۔
9
دریا! پار اتر جائیں گے، بیشک دکھلا زور،
رب کے نام کا بجرہ لے اور، چل تو پی کی اور،
تیرینگے کمزور، جن پر اس کی رحمت ہے۔
10
آتی ہیں آوازیں، آجا اب اِس پار،
دریا کی بپھری موجیں، اور بھنور منجدھار،
جن کو رب کی سہار، وہ کیسے ڈوب سکینگے۔
11
آتی ہیں آوازیں، آجا دیر نہ کر،
کچا گھڑا اور بپھری موجیں، قہری ہیں یہ بھنور،
سچ ہو ساتھ اگر، تو کوئی بھی ڈوب نہ پائے۔
12
سوہنی! تو اس ساھڑ کی، پریت کی لاج نبھانا،
بھول کے سارے اندیشوں کو، دل سے وہم مٹانا،
اپنے دل کے آئینے میں، پی کا روپ سجانا،
راہ اسی پہ چلنا، تو پائے گی پی کا درشن۔
13
سوہنی! تو اس ساجن کی، رکھنا پریت کی لاج،
سارے وہم گمانوں کو، مٹادے دل سے آج،
ملے گا وہ سرتاج، بھولے گر تو غیر کو۔
14
وہ ہی ایک سہارا میرا، جس سے پریت ہے میری،
باندھی پریت کی ڈوری، پی نے من نیا کو۔
15
دیکھے جھولتے پیڑ تو، آئی تیری یاد،
منوا بہل نہ پایا میرا، چراوہے کے بعد،
پل پل تیری یاد، باندھ لیا من نیا کو۔
وائي
جی اٹھے یہ جیئرا، پریتم یاد کریں گر موہے،
سو سو بار میں ڈم کو واروں، ساجن پر اے میّا!
ہیرے موتی واروں اُس پر، وہ انمول ہے ہیرا،
کہے لطیف کہ آئے ساجن، جی اٹھے یہ جیئرا۔
آٹھویں داستان
1
ساحل کے سرکنڈے کو جب، تھامے ڈوبنے والا،
کہے لطیف کہ سرکنڈا یوں، اپنی لاج ہے رکھتا،
یا تو ڈوبنے والے کو وہ، ساحل پر ہے لاتا،
یا پھر ساتھ ہے چلتا، جڑ سے اُکھڑ کر بیچ بھنور میں۔
2
جب کمزور سے سرکنڈے کو، ڈوبتا تھامنے آئے،
کہے لطیف کہ سرکنڈا یوں، اپنی لاج نبھائے،
چھٹ جائے گر ہاتھ کسی کا، لرز لرز رہ جائے،
ساحل پر لے آئے، یا پھر ساتھ چلے وہ بھنور میں۔
3
جب ہیں ساحل پر سرکنڈے، ہوجا تو تیار،
ہاتھ تھمادے پریتم کو کر، اوروں کو اِنکار،
سُن سکی نہ پکار، کیا تو لہر بھنور کی۔
4
کہتے ہیں کہ قہری ہے، دریا کا منجدھار،
کہے لطیف کہ کرینگی لہریں، کچے گھڑے پہ وار،
اُنکو پار اُتار، جو تیریں کچے گھڑے سے۔
5
ہوجا اب تیار، تو ہے امانت ساجن کی،
بڑے بڑے پیراک تھے جن کو، لہریں تھی دیوار،
روک دیا لہروں نے ان کو، مان لی سب نے ہار،
پیڑ کا تنہ یار، مہران میں تیر نہ پائے۔
6
لے آئی کمہار سے جاکر، کچا گھڑا وہ نار،
کیا وہ سن نہ پائی تھی، لہروں کی پھنکار،
لاکھوں ڈوبے لہروں میں، نگل گیا اندھکار،
اُن کو پار اُتار، جو کچے گھڑے سے تیریں۔
7
کچے گھڑے کے سنگ چلی وہ، پکا گھڑا نہ پوچھا،
اُلجھ رہی تھی لہروں سے اور، من میں تھا وہ پیا،
دل پر عشق کا قبضہ، وہ کیسے عشق پے قابو پائے۔
8
کچے گھڑے کے سنگ چلی ہے، وہ سوئے منجدھار،
پکا گھڑا نہ پوچھیں جن کو، عشق کی ہے آدھار،
کہے لطیف کہ عشق والوں کو، کب ہے کچھ درکار،
گھاٹ گھاٹ دشوار، جن میں خودداری ہے۔
9
چھوڑا ساتھ گھڑے نے، بری تھی میری قسمت،
بیچ بھنور میں ٹوٹ گیا جب، لہریں بنیں مصیبت،
سونپ دیا ہے خود کو میں نے، اے دریا کی وسعت!
مانگوں اس کی قربت، جو ہے میرا سہارا۔
10
گھڑے کے نقش و نگار، دیکھ کے دل للچایا،
کچے گھڑے پہ دل آیا اور، کی نہ سوچ بچار،
اس لیئے اے یار، دیر ہوئی دریا میں۔
11
گھڑے کے نقش و نگار، دیکھ کے وہ للچائی،
نقش گھڑے کے مٹ گئے سارے، لہر اُبھر کر آئی،
من میں تھا بس جوش ملن کا، گھڑ ا پرکھ نہ پائی،
بیچ بھنور میں آئی، تو جانا گھڑا کچا تھا۔
12
کچے گھڑے کی کیا پروا، پی کی رہے نظر،
ڈم کے قریب کو پاپ میں جانوں، پریتم ہے میہر،
طوفاں ہو کہ بھنور، میں جاؤں گی پاس سجن کے۔
13
کچا گھڑا تھا مٹی کا، وہ ہی آیا کام،
پکا گھڑا تو وہ ہی پوچھیں، جن کو سُکھ آرام۔
14
جب کمہار نے گھڑے بنائے، بھٹی کی تیار،
آیا تب ہی حصے میں یہ، کچا گھڑا اے یار!
15
کب تک دیتا ساتھ، آخر ٹوٹ گیا،
اُلجھی لہر لہر سے، ہوگئے شل اعضائی،
گھیر لیا لہروں نے، دریا چڑھ آیا،
آنکھوں سے دیکھا، لہر لہر میں ملک الموت۔
16
کب تک دیتا ساتھ، ٹوٹ گیا بے مہر،
بن کر موت اُبھر آئی تھی، دریا کی ہر لہر،
وہ ہی کرے اب مہر، جو حال میرا جانے ہے۔
17
کچا گھڑا تو سہہ نہ پایا، لہروں کی ہلچل،
تن تو تھکن سے چور تھا سارا، انگ ہوئے تھے شل،
بھنور نہ جائیں نگل، پہنچ اب بیچ بھنور میں۔
18
دیکھے نقش گھڑے کے تو، للچایا تب من،
لہروں نے تھا شور مچایا، "ڈوب چلی برہن"،
ہیرا تھی وہ دلہن، کچا گھڑا لے ڈوبا۔
19
پکا گھڑا لے ساتھ، پھر ہوجا تیار،
لوٹا دے تو کمہار کو، کچا گھڑا اے نار،
سن لے بات وہ دھیان سے، کہے جو فائق یار،
ورنہ یہ منجدھار، تجھ کو لے ڈوبے گا۔
20
بدلے یوں حالات کہ ہوگئیں، بانہیں میری شل،
پہلے تاریکی میں جاتی تھی، میں تو پاس سہنل۔
21
شل ہوگئی ہیں باہیں، جسم ہوا ہے نڈھال،
اُبھری ہیں یوں لہریں ہر سو، لہروں کا ہے جال،
حال سے ہوں بے حال، پہنچ تو بیچ بھنور میں۔
22
من تو ہے اب ماندہ، انگ انگ ہے چور،
کر اب مہر منجدھار میں، تو ہی میرے حضور!
میں ناداں معذور، پہنچ تو بیچ بھنور میں۔
23
آجا اب منجدھار میں، چھوٹ گیا ہے کنارا،
تجھ بِن کوئی نہیں ہے، بھنور میں اور سہارا،
جن کا کوئی نہ چارہ، ان کو میہر پار لگائے۔
24
بھنور سے تیری مہر بچائے، اور نہ آئیں کام،
بیچ بھنور میں تجھ بن دوجے، ہوتے ہیں ناکام،
لہر نے ڈالا دام، تو ہی پار لگا دے میہر۔
وائي
پل پل یاد ہے یار، میں جاؤں گی اس پار،
تم سن لو سب اے سکھیو!
جاگ نہ پائے پریت کا بیری، جانا ہو دشوار،
وہاں ملا دے یار کہ جس جا، بھینسوں کی ہے قطار،
من میں باج رہی ہیں ٹلیاں، گونج رہی جھنکار،
وصل کبھی بھی ختم نہ ہو، سُن میری دعا ستار!
پریت کے طعنے دیتا ہے جگ، گھر گھر ہے گفتار،
بیچ بھنور ہے اور نہنگ ہیں، میہر! پار اُتار۔
نویں داستان
1
بحر و بر اور ڈالی ڈالی، ایک صدا مستور،
سبھی ہیں لائق سولی کے، سب میں ایک ہی نور،
ہر اک ہے منصور، کس کس کو تو سولی دے گا۔
2
سب میں ایک ہی پریتم ہے، سب میں وہی حضور،
ہر اک ہے منصور، کس کس کو تو سولی دے گا۔
3
ایک ہے آب کی صورت لیکن، لہریں لاکھ ہزار،
ساگر کی گہرائی کا، چھوڑ دے تو اب بچار،
جہاں بے حد عشق ہے، وہاں ہر خواہش بیکار،
ڈھونڈ نہ گھاٹ اے نار، تو مجھ کو ملے گا وہ ساجن۔
4
مرجا پاس میہار کے، لوٹ کے پھر نہ آ،
ساجن کا جو رنگ چڑھا ہے، ڈم کو مت دکھلا۔
5
کہے اگر اک بار، لوٹ کے جا مت سوہنی!
بیٹھوں پاس میں دھونی کے اور، جیون دوں میں گذار،
اوڑہوں دوجی بار، کبھی نہ رنگیں چُنری۔
6
نہ بھی کہے میہار، پھر بھی لوٹ نہ آؤں،
بیٹھوں پاس میں دھونی کے اور، جیون دوں میں وار،
صورت نہ کی حسن نے، ہے چھینا صبر و قرار،
بعدِ وصل فراق کا، سوجھے ہے آزار،
اسی لیئے تو یار، میں واپس لوٹ کے آئی ہوں۔
7
وعدہ وصل ہو محشر کا تو، جانوں وصل قریب،
شاید اس سے آگے ہوگا، یار کا وصل نصیب۔
8
کیا معلوم تھا بن جانا ہے، دریا کا نخچیر،
یہ ہی میری قسمت تھی، کرتی کیا تدبیر،
ایک تو تھی تقدیر، اور دوجا عشق بنا تھا کارن۔
9
یہ ہی میری قسمت تھی، کس کو دوں الزام،
کیا کوئی تدبیر کرے اور، کیا کوئی آئے کام،
یہی ہوا انجام، کس سے میں فریاد کروں۔
10
دیتی ہیں سب سکھیاں، مجھ کو پل پل طعنے!
حالِ دل تو سُن لیتا تُو، اے دریا دیوانے۔
11
سُن کر طعنے تیر رہی ہوں، ذرا نہیں پروا،
لے آیا ہے بیچ بھنور میں، دیوانہ دریا،
قسمت کا لکھا، لے آیا ہے لہروں میں۔
12
تیروں تو ہے جان کا خطرہ، لوٹ آنا دشوار،
دل میں تڑپ ہے پیا ملن کی، پل کو نہیں قرار،
یاد آئے جب پاپ تو چھایا، آنکھوں میں اندھکار،
پریتم ہے اُس پار، اب کیسے لوٹ کے جاؤں۔
13
نہ تو عشق کی حد ہے کوئی، نہ ہی درد کا ساحل،
ناپ سکے نہ عشق کو کوئی، عشق ہی عشق کی منزل۔
14
عشق کی حد نہ انت ہے کوئی، سن اور ہو تیار،
جس کا انت آغاز نہیں ہے، ایسا وہ میہار۔
15
جوں جوں تیروں دریا میں، توں توں بڑھے ہے پیار،
تو ہی جوت ہے نینن کی، تو ہی روح میں یار،
تجھ کو دریا پار، تکتے جگ بیتے ہیں۔
16
کاٹ کے رکھ دیتی ہے، تیری پریت اے ساجن!
باندھا ایسا بندھن، کہ جکڑ گئے ہیں انگ یہ سارے۔
17
تیری پریت کا انت نہیں ہے، دل میں پریت اتھاہ،
بھڑک کے باہر آجاتی ہے، جلائے تیری چاہ،
کاٹ دیا وَاللہ، بِن خنجر کے ساجن نے۔
18
پریت کا کوئی انت نہیں ہے، اُبل رہی ہے پریت،
تیری پریت میں میت! ڈوبے دل کے کنارے۔
19
کچھ ہمت سے تیراتی ہوں، اور کچھ مدد ہے تیری،
راہ میں رکاوٹ میری، آئے نہ میرے ساجن۔
20
کر تو دردِ دل اور ملا دے بچھڑا دلبر،
دونوں جگ میں بس اک تو ہے، ایسا طاقتور،
تن میں جنکے طلب ہے کر مہر تو ان پر،
کاگا انگنا آکر، کب ملن بدھائی دے گا۔
21
بن دیکھے دن بیتے، کیسا ہے اب وہ میت،
چھلک رہی ہے پریت، اب تو ان نینن سے۔
22
بِن دیکھے دن بیتے، کیسے ہیں اب ساجن،
ٹوٹ رہا ہے تن من، درد کی بیلیں لپٹیں۔
23
بن دیکھے دن بیتے، کیا ہے اس کا حال،
جانے کتنے سورج اُبھرے، بیتے ماہ و سال،
جس کا حسن جمال، بن دیکھے اک پل نہ بیتے۔
24
گھر نہ بر نہ اور ہے کچھ، اک من میں ہے میہار،
شام سے ہی اس پی کے کارن، کیے ہوں سنگھار،
کس طرح اس پار، آکر تجھے میں دیکھوں۔
وائي
سنبھل کے پاؤن رکھنا، گھاٹ میں پانی گہرا،
کھڑے، کھبے، کیچڑ، پھسلن، نظریں نیچی رکھنا،
آنکھیں گر ہوں اوپر، تو ہے راہ میں ٹھوکر کھانا،
گھاٹ بہت ہیں مشکل، یہ ہے ملاحوں کا کہنا،
جو بھی جائے پریتم پائے، چین سے بیٹھ نہ بہنا!
توڑ کے جگ کے رشتے ناتے، پریت کی ریت نبھانا،
دیکھ بھال کے گھڑا اُٹھالے، تجھ کو پار ہے جانا،
پاس پیا کے جانا ہوگا، اور سے یہ مت کہنا،
توڑ دے ڈم سے تعلق تجھ کو، پاس میہار ہے جانا،
صدا تو سن لے ساجن کی، دریا سے مت ڈرنا،
پریت اگر ہو من میں پھر کیا، مشکل پار اُترنا،
ڈوب بھی جائے پھر بھی پی کا، دامن تھامے رکھنا،
پریتم پاس بلائیں گے جب، سج دھج کے تو چلنا۔
دسویں داستان
1
سوہنی بِن اس ساجن کے، میلا تیرا سراپا،
کریگا وہ ہی اُجلا، جو ہے بھینسوں کا چرواہا۔
2
سوہنی اس ساجن بِن، ساری ہے ناپاک،
تجھ کو دھوکر اجلا کر دے، جا اس کے اوطاق،
کریں گے تجھ کو پاک، پیئں جو اُجلا دودھ۔
3
سوہنی! اس ساجن بِن، میلا تیرا تن،
دریا کی ان لہروں سے کب، دھلے گا یہ تن من،
پاس ہو جب ساجن، تو دُھل کر اجلی ہوجائے۔
4
سوہنی! اس ساھڑ بِن، بدصورت بدحال،
ایسا روگ لگا ہے، جیون ہے جنجال،
بِن اس کے حسن و جمال، بھرتی ہے وہ آہیں۔
5
بِن اپنے اس ساجن کے، جیون ہے آزار،
روگ تھی ڈم کی قربت، صحت بس میہار،
اس کے روگ کا درماں، پریتم کا دیدار،
دیکھے گر میہار، تو پائے گی صحت سوہنی!
6
مت جا تو دریا پر سوہنی، دریا میں ہے بھنور،
کیا لینا ہے دریا سے، ہیبت ناک ہے منظر،
ڈم وہ تیرا شوہر، پوچھ نہ لے سکھیوں سے۔
7
پوچھ لیا گر سکھیو سے تو، مجھے کرے گا کیا،
وہ ہی اس منجدھار میں جائیں، جن کے من میں پیا،
میں نے وار دیا، سب کچھ اپنے میہر پر۔
8
ڈم کو میری پریت نہ بھائے، ہوتا ہے ناراض،
پریتم آکے سمجھا اس کو، اپنی پریت کا راز۔
9
جب تک جسم میں جان تھی، چین سے بیٹھ نہ پائی،
پی کی تھی سودائی، مری ملن کی آس میں۔
10
جب تک جسم میں جان تھی، چین سے بیٹھ نہ پائی،
ڈولتی پہنچی پاس سجن کے، مر کر پریت نبھائی۔
11
بجھ جائے اب چاند کی مشعل، سدا ہو رات اوماس،
دیکھوں اور نہ بن ساجن کے، من میں ہے یہ آس۔
12
کیوں تو رات کی تاریکی میں، پیا ملن کو جائے،
جا تو دن کے اُجیارے میں، من میں پریت بسائے۔
13
کون ڈبوتا سوہنی کو، ڈبو گیا دریا،
نینن میں بس عکس پیا کا، تھا جھلمل کرتا۔
14
ساجن تو تھا ساحل پر، آیا تھامنے ہاتھ،
کب تک دیتا ساتھ ،کچا گھڑا منجدھار میں۔
15
ریت کے ذرّے، بال ہیں جتنے، اور برکھا کی بوندیں،
مجھ پر تیرے احساں سائیں! اس سے زیادہ ہیں۔
16
میکے اور سسرال میں، کہاں تھے یہ سکھ جانا!
کیا کیا کئے ہیں احساں، تونے اپنا کر اے سائیں!
وائي
کہاں ہے میرا یار، کھنچے ہے من اس پار، نینن پریت لگائی،
وہ جو سارے جگ کا داتا، اسی کی ہے آدھار،
دھونی یار میہار کی جیسے، دیپ جلے اس پار،
یاد میں اپنے ساجن کی وہ، روئے زار قطار،
تیرا دامن تھام لیا ہے، محشر تک اے یار،
میرا پیر ہے حضرت میراں، سب کی ہے آدھار۔
وائي
در پر دی ہے صدا، اور دوار نہ جانوں،
سب پر تیری نوازش سائیں! سب پر تیری سخا،
سارے اپاہج دوار پہ آئیں، سب کا تو داتا۔
وائي
میرا من بے بس، تیری دید کو تڑپے ترسے،
تن سنگھار کو ترس رہا ہے، چلے نہ میرا بس،
یار میہار کی بات بِنا ہیں، سب باتیں بے رس،
تو ہی آکر درد مٹادے، تو ہی بندھا ڈھارس،
سکھ نا مانگوں دکھ ہی دے جا، عجب ہے دکھ میں رس۔
وائي
الھڑ تھی وہ جان نہ پائی، پریت کو سمجھی کھیل،
اندھی تھی وہ اُلوہیت میں، یار کو دیکھ نہ پائی،
کیسے اس کویاد رہے گی، اُس کی یاد بُھلائی،
یار سے توڑ کے پریت کا ناتا، غیر کی ہے شیدائی۔
وائي
رینا بیتی جائی، بِن دیکھے ساجن کو،
اتنے پاس تھے ساجن تیرے، تجھ پہ نیند کے سائے۔
وائي
ہر آس میری بھر آئی، ہوئیں ساری مرادیں پوری،
کہاں ہے اور کسی میں، اس جیسی رعنائی،
بات کریں تو کھل اُٹھے من، سنیں تو من شیدائی،
اس کے دوار پہ بیٹھ تو جاکر، اسکی کر تو بڑائی،
حمد کروں میں اسکی لیکن، اس کو سمجھ نہ پائی،
اتنے اس کے احساں ہیں کہ، رحمت ہے برسائی،
تو ہے جس تعریف کے قابل، وہ میں کر نہ پائی،
جس کو تو بس چھو بھی لے وہ، ہو جائے شیدائی،
اُس کے تن میں پیاس ہے جو بھی، تجھ کو دیکھ کے آئی،
لب پر مہر مناسب ہے پر، روئے دل سودائی۔
سُر سسئی آبری
پہلی داستان
1
اوّل و آخر جانا ہے، مجھے پنہل کے پاس،
میری پیہم کوشش کا تو، مولا! رکھیو پاس،
ہو پوری ملن کی آس، مجھ پہ کر احسان اے مالک۔
2
روتی اور رُلاتی ہے وہ، درد سے چُور ہے تن،
نظریں تو اس اور جمی ہیں، جہاں ہے اس کا ساجن،
کہے لطیف کہ یار کی صورت، دل میں ہے جلوہ فگن،
مری ہے رہ میں برہن، پریت کی ریت نبھاکر۔
3
ہجرِ یار میں خاک ہوئی پر، ملن کو ہے بے تاب،
پی لی پریت پنہل کی لیکن، ہوئی نہ وہ سیراب،
پریت وہ چشمہ آب، جو اور بڑھائے پیاس۔
4
جس نے حسن کا جلوہ دیکھا، جرعہئہ حسن پیا،
وصلِ یار کی طلب بڑھی اور، دردِ ہجر بڑھا،
اُنکو پیاس سدا، گو کہ ہیں وہ بیچ بحر میں۔
5
جن کے من میں پریت پیا کی، پیا سے ہیں وہ سدا،
تو بھی پی کر پریت کے پیالے، پیاس سے پیاس بڑھا،
پنہل آپ پلا، تو پیاس سے پیاس بجھاؤں۔
6
پریت میں جن کا من ہے جیسے، کوئی چھلکتا جام،
کبھی نہ ان کی پیاس بجھے ہے، دل میں آگ مدام،
منزلِ عشق سراب ہے سکھیو!، پیاس یہاں ہر گام،
پیاس ہی پیاس مدام، گوکہ ہیں وہ بیچ بحر میں۔
7
سدا ہیں بحر عشق میں وہ، پیاس سے ہیں بے تاب،
کبھی نہ حاصل منزل ہو اور، وصلِ یار سراب،
دریا، موجِ آب، اور پیاس سے نکلے جان۔
8
ہوت پنہل کی خاطر سسئی، کرلے قبول سراب،
جو بھی دشت میں آب کو ڈھونڈے، اس کو ڈھونڈے آب۔
9
پانی پر ہیں مسکن لیکن، پھر بھی سدا کی پیاس،
ڈھونڈیں پر نہ پائیں جو ہے، شہ رگ سے بھی پاس،
سدا رہے وہ نراس، خود کو جان نہ پائے۔
10
یار سے پریت لگائی لیکن، سمجھ نہ پائی ناداں،
اس سے پریت کا ناتا جوڑ کے، کر دیا آپ عیاں،
خود کو کر کے قرباں، پریت لگائی آری سے۔
11
بادِ سموم کے جھونکوں سے تب، جھلس گیا تھا جہاں،
آئی صدا افلاک سے ایسی، مانگی سب نے اماں،
چیخ اٹھا ہر ذی روح اک دم، ہر اک تھا حیراں،
غم سے نکلی جان سبھی کی، مرگئے سب حیواں،
چلا جو یار پنہل تو سب کی، نکلی جسم سے جاں،
پربت اور انساں، روئے پنہل کی خاطر۔
12
بنا لے عجز کو رہبر، ڈھونڈلے نقشِ پا،
چل تو کیچ کی جانب، اپنا آپ بھلا،
تج دے خود بینی کو، من میں پریت بسا،
راہ میں عزازیل سے، اپنا آپ بچا،
من میں یاس بسا، تو پائے گی امید۔
13
تج دے خودداری کو، عجز کو کر رہبر،
راہ میں جو دکھ جھیلے، کبھی نہ ظاہر کر،
من میں پریت بسا کے، پربت سے تو گذر،
آساں ہیں سب دشت، من میں پریت ہو گر،
تج دی خودی کو گر، تو اجر ملے ہے اسکا۔
14
اب بھنبھور میں کیا رہنا، "ہاڑے" کو مت جا،
جھوٹ سے اپنا آپ بچالے، سچی بات چھپا،
پریت میں جاں نہ جلا، مت بسرا تو دکھڑے۔
15
خوشیوں سے مت کھیل، دکھڑوں سے مت ڈر،
بھٹک نہ پربت پربت، چھوڑ نہ اپنا گھر،
یوں بے موت نہ مر، نہ ہی جی اب سسی!
16
خوشیاں آئیں نہ راس، دکھڑوں سے نہیں خوف،
اک پل کو بھی رک نہ پائے، جائے نہ پی کے پاس،
آس کبھی ہے نراس، جیتی ہے دونوں کے بیچ۔
وائي
چھلک رہا ہے پیار، تن من میں اے یار!
دور کہیں جوں ٹلیاں باجیں، یاد کی یوں جھنکار،
تیری دید کی پیاسی اکھیاں، درس دکھا جا یار!
کیسے پریت کو بھول گئے اور، بھولے قول و قرار،
شہر بھنبھور ہے زندان جیسے، تجھ بِن اے "کوہیار"!
مجھ کو چھوڑ کے مت جا ساجن! تجھ بن کون سہار،
تیرے ہجر میں پت جھڑ جانوں، یہ رُت میگھ ملہار،
جوں جوں دوائے دل کی ہم نے، اور بڑھا آزار،
لاکر دے تو علیل کو، دوائے دل دے یار،
کوی لطیف کو یاد ستائے، تیری ہی ہر بار۔
دوسری داستان
1
دیکھ کے راہ کے ویراں پربت، تو ہمت مت ہار،
جس جس راہ سے گذرے ہیں وہ، ڈھونڈ وہ راہگذار،
منزل منزل آگ جلاتے، گئے ہیں وہ اسوار،
بڑا ہی ہے گنوان کوہیارل، اسی کی رکھ آدھار،
دور نہیں ہے یار، بسا ہے وہ تیرے نینن میں۔
2
جگ سے ناتہ توڑ کے جو بھی، جوڑے پی سے ناتہ،
عقلِ کُل اور حسنِ کُل کو، وہ ہی ہے پاتا۔
3
شاید یار نے یاد کیا ہے، جہاں پہ ہے "ونکار"
اسی لئے تو تیز ہوئی ہے، میری اب رفتار،
تیری مہر سے یار!، میں آخر پہنچی "کیچ" کو۔
4
انجانی ونکار کی راہیں، پربت کا یہ سفر،
کہے لطیف ویرانوں میں لے تو خیر خبر،
ویران ڈگر ڈگر، چھوڑ نہ دنیا کی راہوں میں۔
5
ان دیکھا ان جانا دیس، انجانے اشجار،
خنجر بِن طعنوں سے کاٹا، دشت نے تن، کوہیار!
پیارا ہے وہ یار، اس کارن میں بھٹک رہی ہوں۔
6
انجانی ونکار کی راہیں، پانی نہیں ہے پاس،
دشت کی تیکھی تپش سے ہے، من میں چھایا خوف و ہراس،
آگ اگلتا سورج، میرا، جھلس رہا ہے ماس،
وہاں تو آجا پاس، جہاں ہوں تنہا ویرانوں میں۔
7
انجانے اشجار ہیں ہر سو، ہیبت ناک ہے منظر،
کہے لطیف کہ دور سفر اور، مشکل راہگذر،
مشکل ہو نہ سفر، پہلی منزل آساں کردے!
8
اونچے انجانے اشجار یہ، عود و بید کا جنگل،
آگ ہوئی ہے ساری دھرتی، تپتے دشت و جبل،
یہ راہوں کے بل، دشت میں کیسے ڈھونڈوں ساجن۔
9
اونچے انجانے اشجار یہ، جہاں پہ ناگ ہیں نیلے،
کہے لطیف وہاں ملن کے، کئے ہیں کیا کیا حیلے،
جہاں نہ اور وسیلے، وہاں پہ پہنچ اے سائیں!
10
پہلے کب دیکھے تھے میں نے، انجانے اشجار،
مہر کہاں تھی انسانوں میں، ہر سو تھا اندھکار،
دکھ پانے کو یار!، تجھ سے پریت لگائی۔
وائي
دور دیس سدھارے، زور آور وہ ہوت کے پیارے،
کہاں ہیں یار پنہل کے سنگی، ڈھونڈے دوارے دوارے،
قاصد! تونے جاتے دیکھے، کیچی سب سے نیارے،
اونٹ سجائے، گھنگھرو باندھے، چھم چھم چھمکارے،
لے جائیں گے سنگ کہ جن کی، اعلیٰ ذات ہے پیارے،
سکھیو! شاہ لطیف کہے وہ، آئے ہیں میرے دوارے۔
تیسری داستان
1
پیچھے چھوڑ کے یار کو اب وہ، بھٹکی دشت و جبل،
بنی تھی اس کی دلہن اب تو، اس کارن ہے بے کل،
کیسی بھول ہوئی کہ ڈھونڈا، بن میں ہوت پنہل،
ہاڑے اور نہ چل، پوچھ جنہوں نے یہاں پہ پایا۔
2
ان سے پوچھ جنہوں نے خود میں، دیکھے پی کے نشان،
تجھ میں یار نہاں، ڈھونڈلے خود میں یار کو۔
3
جہاں تو سمجھی یار بسا ہے، وہاں نہیں وہ یار،
کیوں تو سوئے دشت چلی ہے، تجھ میں ہی "ونکار"،
خود میں ڈھونڈ کوہیار، خود سے پوچھ پتا پریتم کا۔
4
اپنے پنہل یار پہ سسی! سب کچھ کردے قرباں،
ڈھونڈ نہ اسکو پربت میں یہ، دل ہے شہر جاناں۔
5
دل ہی شہر جاناں ہے اب لوٹ تو اپنی اور،
تونے پربت، پربت میں کیوں، ڈال رکھا ہے شور۔
6
بھول کے دوجے دوارے سسی، خود میں ڈھونڈ وہ یار،
جسکے کارن کشٹ اٹھائے، تجھ میں ہے کوہیار۔
7
جس کو سنگ لئے تو گھومے، اس کو ڈھونڈ نہ ناداں!
کس نے دشت و جبل میں پایا، اپنا دلبر جاناں،
تجھ میں یار ہے پنہاں، خود میں پالے پریتم۔
8
وہ تو تجھ میں پنہاں ہے تو، جس کو ڈھونڈ ے دور،
جھانک کے دیکھ دریچہ دل سے، تجھ میں وہ مستور،
تجھ میں اس کا ظہور، تجھ میں دیرہ دوست کا ہے۔
9
ڈھونڈ یہاں پہ ہوت پنہل کو، کیوں جائے "ونکار"،
تجھ کو چھوڑ، لطیف کہے کب، چھپا وہ دوجے پار،
پریت نِبھا اس پیارل سے اور، ہوجا اب تیار،
خود میں دیکھ وہ یار، تجھ میں دیرہ دوست کا ہے۔
10
جھوٹی ہیں جو کیچ کو جائیں، یہاں نہ ڈھونڈیں یار،
جن کا عشق ہے یار پنہل سے، دیں وہ کیچ بِسار۔
11
کر نہ دور سفر کی باتیں، لے تو دل کی راہ،
قاصد بن کر بھٹک بھٹک کر، کب پائیگی راہ۔
12
نہ کر دور سفر کی باتیں، لے تو راہِ دل،
پربت میں کب راہ ملیگی، خود میں پا منزل۔
13
لے تو دل کی راہ اے سسی، بھول جا دشت جبل،
"آریانی" انمول ہے تجھ میں، تجھ میں "کوہیارل"۔
14
لے تو دل کی راہ اے سسی، بھول جا سارے پربت،
ہم نے خود میں پریتم پایا، خود میں یار کی صورت۔
15
لے تو دل کی راہ اے سسی، تج دے خودداری کو،
جس نے خودداری دکھلائی، پا نہ سکی پریتم وہ۔
16
آج میں پوچھوں تجھ سے کیسے، ڈھونڈے گی کوہیار،
بے خود ہوکر چل صحرا میں، اپنا آپ بِسار،
جب تک ملے نہ یار، بندھا ہو پریت کا بندھن۔
17
پریت سدا ہو قائم، توڑ نہ پریت کا بندھن،
جیسے جُڑواں سنگ ہوں ایسے، سنگ تیرے ہے ساجن۔
18
پریت سدا ہو قائم، توڑ نہ پریت کا بندھن،
ذرہ سی کستوری سے مہکا، سسی! اپنا تن من۔
وائي
سوکر یار گنوایا، کیا کروں، کت جاؤں،
سوئی تو وہ چھوڑ چلے اور، جاگی تو دکھ پایا،
کھا پی کر پھر ڈھونڈا ساجن، کیسے وقت گنوایا،
مجھے بھی سکھیو راز بتاؤ، ہوت نے جو بتلایا۔
چوتھی داستان
1
کب وہ "وندر" کو جائیں جن کے، من میں نہیں ہے پیار،
جو بس خواہش کرنا جانیں، بیٹھ گئیں تھک ہار۔
2
سب ہی یار کو پانا چاہیں، خود کو دیں آرام،
دشت کے کشٹ اٹھانا سکھیو!، سب کا نہیں ہے کام،
جھیلیں دکھ آلام، وہ ہی میرے سنگ چلیں۔
3
اتنا آساں کیچ نہیں کہ، جائے وہاں ہر نار،
وہ ہی میرے سنگ چلے جو، کردے جان نثار۔
4
چرخہ کا تتے پیار کی باتیں، کرتی تھیں سب سکھیاں،
مجھ سبھاگن سنگ جو بھٹکے، دشت و جبل یہ ویراں۔
5
جو بھی میرے سنگ چلے وہ، کرے نہ سکھ کی بات،
جن کا دل دو نیم وہ جھیلیں دشت کے سب آفات۔
6
من میں ملن کی خواہش ہے کب، بھٹکیں دشت بیاباں،
گھر میں بیٹھ کر کرتی ہیں سب، ساجن پہ جاں قرباں۔
7
اپنے گھر کو جاؤ سکھیو!، سب کے ہیں گھر بار،
بھٹکوں گی میں دشت و جبل میں، ملے نہ جب تک یار،
بڑا ہی ہے دشوار، "جتوں" سے پریت نبھانا۔
8
سب کے ہیں گھر بار، سب ہی لوٹ کے جائیں،
گر ہو من میں ہجر کا گھاؤ، چین سے بیٹھ نہ پائیں،
وہ ہی ڈھونڈنے جائیں، جن کے من میں پریت اگن ہو۔
9
سب کے ہیں گھر بار، تم سب گھر کو جاؤ،
چل نہ سکو گی "کیچ" کی جانب، عشق پہ حرف نہ لاؤ،
میرے سنگ نہ آؤ، میں جوگن بن کر بھٹکوں گی۔
10
انگ بھبھوت رمائے اور اب رنگے لباس یہ برہن،
روک نہ میری میاں! مجھ کو، بنونگی اب میں جوگن،
اس ساجن کے کارن، اب ڈالوں بالے کانوں میں۔
11
یار "عنایت"! "جانی" سے تو، باندھ لے پریت کا بندھن،
یار فقیری مشکل ہے اور، بڑی ہے راہ کٹھن،
اس میخانے کی مدرا سے اب، ہوگا اور چلن،
ایسا ہو بندھن، جو کبھی بھی ٹوٹ نہ پائے۔
12
مجھے رکھیل سمجھ کر مجھ کو، چھوڑ چلے دیور،
میں تو سیوا کر نہ پائی، آئے تھے میرے گھر،
گیت خوشی کے گاتی میں سب، سکھیوں سے مل کر،
جو بھی رسم دنیا ہے وہ، پوری کرتی پر،
مجھ میں تھا نہ ہنر، یار تو قول کا سچا تھا۔
13
کیا تھا یار وچن، مجھ سے جو "ونکار" میں،
پورا کر وہ سجن، آج تو نربل دکھیاسے۔
14
پورا کر جو تونے کیا تھا، ساجن سے اقرار،
پھر رکھ آس کرے گا پورا، قول وہ تیرا یار۔
15
کرے اگر اقرار ملن کا، تجھ سے تیرا ساجن،
پریت کا نام گر لیگی تو پھر، بھٹکیگی بَن بَن۔
16
قول ملن کا کیا ہے پی نے، چین سے تو مت سو،
کیا کر لیگی کرے نہ پورے، اپنے وعدے وہ!
17
لال لہو سا نیر بہا اب، دشت میں ہوگئی شام،
قاصد ہو کہ جس سے پوچھے، کہ راہ اور یار کا نام،
مشکل ہے ہر "گام"، پھر بھی چلے وہ یار کی جانب!
18
دوڑوں جان نہیں ہے، چلوں، یہ آبلہ پائی،
کرے مذاق نہ لوٹ آنے کا، کوئی سکھی، صحرائی،
دل پہ ہیبت چھائی، پربت نے دل چاک کیا ہے۔
19
آنکھوں سے تو اشک رواں تھے، پیروں میں تھے چھالے،
پھر بھی پی کو دعائیں دی تھیں، گُھٹے گُھٹے تھے نالے،
"تو ہے رہبر پیارے!" یہ ہی بات تھی لب پر۔
20
کیسی تان کے سوئی ہے، کون اسے سمجھائے،
سارے ساتھی چھوڑ چلے، پھر بھی نیند لبھائے۔
21
ہار گئے سمجھاتے اس کو، شہر بھنبھور کے باسی،
جس کا پریتم لے گئے جت وہ، کیسے لوٹ کے آتی۔
22
صحرا کو مت جا اے "سسی"!، سکھیوں نے سمجھایا،
لیکے اُڑا کر سوچ نے اس کو، پاس سجن پہنچایا۔
23
سکھیو لوٹ کے آنے کی تم، مت دو مجھ کو مت،
چل کر آریانی ساجن کو، ڈھونڈونگی البت،
ڈھونڈونگی سب عیب میں اپنے، روند کے پربت،
سکھیو! شریکت، کیسے کروں میں ان سے۔
24
جیتے جی نہ لوٹوں سکھیو!، راہ میں نکلے جان،
مرتے مرتے شاید پا لوں، قدموں کے میں نشان۔
وائي
تو جانے حال حبیب! میرا روگ پرانا سائیں!
پریت کا روگ لگا ہے۔
عشق کا مرض یہ مول لیا ہے، کارن تیرے حبیب،
خوشی دے تو صحت کی، تو دوا ہے دل کی پوچھے ہے طبیب،
پل پل روؤں اور کراہوں، یہ ہی میرا نصیب،
کاہل ہوں میں گن نہیں کوئی، منتا تو عیب، رقیب،
حاذق ہے تو اس کا، آئے تو اے رقیب عجیب،
کہے لطیف کہ بے گُن ہوں میں، کیسے آؤں قریب۔
پانچویں داستان
1
شہر بھنبھور سے چل کر جب میں، دشت میں بھٹکی ہر سو،
پہنچی کیچ کی بستی میں کہ، جہاں تھا وہ مہرو،
"ہرجا تو ہی تُو"، کس کس کو تو سولی دیگا؟
2
اپنے آپ میں ڈوب کے میں نے، دیکھا اپنا حال،
نہ تو دشت و جبل تھے نہ ہی، کیچی کا جنجال،
ہوگیا ختم ملال، پنہل آپ ہوئی میں۔
3
سکھا گئے تھے دیور جینا، دیا تھا درد ملال،
چھوڑا شہر بھنبھور تو ہوگئی، دکھ میں بھی خوشحال،
دور ہوا جنجال، پہنل آپ ہوئی میں۔
4
پنہل آپ ہوئی تو ٹوٹا، سارا شرم سسی کا،
چلے جو تنہا یار کو پانے، بھرم ہے پھر کب رہتا،
جو کرتی وندر میں سودا، وہ کرلیا اس نے یاں پر۔
5
پنہل آپ ہوئی رہا نہ، سسی کا سنگھار،
مَن عَرَفَ نَفسَہُ فَقَد عَرَفَ رَبَہ، سمجھ لے تو اے یار،
جو وندر میں بیوپار، وہ کر لیا اس نے یاں پر۔
6
پنہل آپ ہوئی پھر کیسی، سسی کی رعنائی،
خلق آدم علیٰ صورتہ، آواز یہی بس آئی،
جس کی تھی سودائی، وہ پایا نادانی میں
7
وہم و گمان نے مارا میں تو، خود ہی پنہل تھی ورنہ،
خود کو تج کر خود کو پایا، پنہل کو جب پہنچانا،
علم کا اب کیا کرنا، جس سے یار نہ ہو حاصل۔
8
لوٹ آئی تو طعنے دیں گے، ڈھونڈوں پربت پربت،
"ہوت بلوچ" کی باندی ہو میں، ان سے اور کیا نسبت،
الفراق اشد من الموت، میں پاؤں گی یار کی قربت،
دیکھوں یار کی صورت، جیتے جی اے سکھیو۔
9
اپنے ہوت پنہل بن، جینا ہے دشوار،
آدھی رات کو جاگ کر، چلے گئے اسوار،
روؤں زار قطار، دیکھ کے اُجڑا آنگن۔
10
ملتا ہے تب یار، جب دکھائے نہ آن،
ماراَیتُ شَیئاً اِلا وَراَیتُ اللہ فِیہِ، یہیں پہ خیمہ تان،
پورے ہوں ارمان، ہوت ملے تب سسی!
11
ہوت تیری آغوش میں ہے تو، بھٹکے بن جنگل،
وَفِی اَنفُسِکُم اَفَلَا تُبصِرُونَ، خود میں دیکھ لے سہنل،
ملتا ہے کب پنہل، آپنے آپ سے باہر۔
12
ہوت تیری آغوش میں ہے، سمجھ لے تو یہ بات،
وَنَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ، یار ہے تیرے ساتھ،
بی ہے پردہ ذات، تیرے اور پنہل کی بیچ۔
13
اپنے ہوت بلوچ کے کارن، چھان لیا سنسار،
اللہُ بِکُلِ شَیءِ مُحِیطُ، اس کے یہ آثار،
سب میں وہ ہے یار، اور نہیں بِن اس کے۔
14
جان بوجھ کے کیسے بیٹھوں، بن کر میں انجان،
من میں عشق کی آگ ہے سکھیو! جلے ہے پل پل جان،
اَلْعِشْقُ نَارٌ یُحْرَقُ مَا سِوَا الْمَحْبُوْبِ، جلتی ہوں ہر آن،
اس کو گئی پہچان، اور نہیں بِن اُس کے۔
15
سکھیو! آری جام ہے، سارا دشت وجود،
اپنے باطن میں ہی دیکھے، دشت و جبل موجود،
عشق سے تھی نابود، تو پایا راہ میں ہوت کو۔
16
چل تو اس کی اور کہ جس کے، عشق میں ہےپاگل،
نیند میں بھی اب یار کی خاطر، تڑپے ہے پل پل،
اَلِعشقُ حجِاب بَینَ العاشِقِ والَمعشُوقِ، پردہ رہے نہ اک پل،
وہ ہی ایک ہے پنہل، اس بن اور نہ کوئی۔
17
ان کو میں پہچان نہ پائی، میں تو تھی نادان،
دیور دے گئے درد اے سکھیو! جلتی ہوں ہر آن،
سلگے جن کی جان، وہ بھٹکیں دشت و جبل میں۔
18
میں تو تھی انجان، پرکھ نہ پائی یار،
کب میں اس کے ناز اٹھاتی، وہ تو تھا کوہیار،
جیون کا آزار، پل بھر کی وہ پیار کی باتیں۔
وائي
مشکل حل کر جاتا ہے، پریتم ساتھ نہ چھوڑے گا،
تھک کر بیٹھ گئے جو رہ میں، ان کا ساتھ نبھاتا ہے،
جن کی عریاں انگ ہیں اُن کے، ساجن عیب چھپاتا ہے۔
چھٹی داستان
1
درد فراق کا جام، دیا ہے دکھیارن کو،
پیار کی آگ جلائی من میں، جلے ہے جسم تمام،
لُوٹ لیا آرام، زلفِ یار نے لہرا کر۔
2
زُلفِ یار نے درد دیا ہے، جس کا کوئی نہ درماں،
وہ لہراتی زلفیں اور وہ، یار کا روئے تاباں۔
3
شہر بھنبھور میں ہم نے دیکھے، کالے کاکل کل،
بُرا ہے اُن کا حال کہ جن کو زُلف کرے ہے گھائل۔
4
خودداری سب ختم ہوئی ہے، ہائے وہ زُلفیں قاتل!
وہ لہراتی زلفیں سکھیو! کریں معذور کو گھائل۔
5
جینا ہے دشوار کہ میں ہوں، زُلفِ یار کی گھائل،
شہر بھنبھور میں کر گئیں گھائل، ہائے وہ زلفیں قاتل۔
6
جو بھی قتیل زُلف ہیں ان کو، کفن نہیں درکار،
پاکر شہید کا رتبہ وہ تو، جھومے ہے اے یار۔
7
ظلم نہ کر اب دکھیاروں پہ، ہاڑے جبل کے جام!
تو ہی سب کا سہارا سائیں، سب کا دل آرام،
مار نہ دکھیا برہن کو اب، کر نہ تلخ کلام،
من جا پریت کے ماروں سے تو، ختم ہو سب آلام،
تجھ سے پایا نام، اس کو چھوڑ نہ تنہا۔
8
اپنے سے کمزور کو کوئی، کیوں دکھلائے زور،
دکھیاروں پہ کر نہ جفائیں، میں برہن کمزور،
آجا میری اور، میں آؤنگی اک دن تیرے آنگن۔
9
اے پربت تو ظلم نہ ڈھا کہ، میں ہو دکھیا نار،
آریانی سے تعلق ہے میں، بھٹک رہی اِس کار۔
10
جس کے پیر تھے ریشم جیسے، پربت میں وہ پیادہ،
قابلِ دید تھی آبلہ پائی، زخم ہوئے تھے تازہ،
پھر بھی پربت روند رہی تھی، ہجر میں من تھا ماندہ،
جس سے بندھن باندھا، کاش کہ اس سے مل آؤں۔
11
ریشم سے وہ پائے نازک، اور وہ آبلہ پائی،
جسم و جاں سب لہو لہو اور، دل میں دردِ جدائی،
جن کی ہوں شیدائی، کیسے دشت کے پار گئے وہ۔
وائي
مجھ اندھی کے گھر آئیں گے، میرے ہوت پنہل اے سکھیو!
ڈھانپ کے دامن سے برہن کو، سنگ اپنے لے جائینگے،
وہ نہ سکھ کے ساتھ ہونگے، دکھ میں ساتھ نبھائینگے،
مجھ برہن کو گلے لگاکر، پریت سندیس سنائینگے،
میں تو خاک ہوں پیروں کی وہ، ساتھ مجھے لے جائینگے۔
ساتویں داستان
1
دیس سے ایسا دور نہیں ہے، تیرے یار کا محمل،
تھک کر راہ میں بیٹھ نہ جانا، ہجر کے مارے اے دل!
جس کی وندر ہے منزل،اللہ اسکو لے آ۔
2
جو بھی وندر کو جانا چاہیں، بیشک ہوں تیار،
جنہوں نے چھوڑی تیاری وہ، جائیں وہاں کس کار۔
3
یار کا دیس تو دور ہے لیکن، وہاں سے یار ہے دور،
اپنے ہوت پنہل کو پانے، چلے وہ مہجور،
وہ چلا ہے اُن کے حضور، میں جس کے کارن جیتی ہوں۔
4
خوش تھی ساجن سنگ پر شب کو، چلا گیا ساجن،
درد کے دھاگے میں وہ دلبر، پرو گیا مرا من،
اک بار پھر ہو ملن، اے موت ٹھہر تو تب تک۔
5
تھکے تھکے ہیں انگ میرے، میرا دل بھی ہے درماندہ،
من میں پیار کی زنجیریں وہ، یار ہے ڈال گیا،
ہم نے جسم اور جیئرا، یار کو سونپ دیا ہے۔
6
عمر بتائیں عشق میں اور، پوچھیں جو پنہل،
کون کمینی حسد کرے گی، ان کی پریت اٹل،
جینا یار سسپھل، جو عشق کی راہ میں جان گنوائیں۔
7
سپھل ہے تیرا جیون تونے، لی ہے یار کی راہ،
اسی کی رکھ آدھار اے سسئی! ہر پل نیر بہا،
اس کو ڈھونڈنے جا، تو پائے ہوت پنہل کو!
8
بیٹھیں تو کب پریتم پائیں، سوئیں تو کھوئیں یار،
جس نے ہجر کو سولی جانا، اُسے ملا دلدار،
دکھڑے یار ہزار، جو اپنائیں، وہ یار کو پائیں۔
9
بیٹھیں تو کب پائیں پریتم، سوئیں تو کھوئیں یار،
روتی جائیں راہوں پر جو، وہ پائیں کوہیار۔
10
تڑپ تڑپ کر ڈھونڈ رہی ہے، یار کے نقش پا،
چلی ہے من میں پریت بسا کے، ڈھونڈے گی ہرجا،
ٹکرا کر وہ دشت و جبل سے، ڈھونڈے راہِ وفا،
بھٹکے گر وہ سدا، نہیں برابر خاکِ پا کے۔
11
تڑپوں یا پھر بھٹکوں سکھیو، اپنے یار کے کارن،
درد فراق کا دے کر دیور، لے گئے میرا ساجن۔
12
تڑپ تو اس کے کارن، ڈھونڈ تو نقشِ یار،
ملے گا آخرکار، دشت میں تیرا ہوت پنہل۔
13
خود میں دیکھ آثار تو اسکے، سب سے پوچھ نہ سسئی،
مٹی کے کس ڈھیر میں سے، چھان تو دھول ابھی،
اس پر عمل کریگی تو، ملے گا تجھے خزانہ۔
14
تڑپے پر نہ آہ کرے ہے، غم میں پگھلی ہنستی،
کہے لطیف کہ نقش قدم کو، وہ ہے ڈھونڈتی پھرتی۔
15
آتشِ عشق کو ایسا بھڑکا، چھولے فلک کو شعلہ،
چھوڑ دے ساری دنیاداری، سب کچھ دے تو بِسرا،
جیون دے تو بِتا، نفی میں ہی اے سسی۔
16
کیسے خودداری سے سسئی! تو پائیگی یار،
خودداری دکھلائیگی تو ہوگا تن افگار،
خودداری کو وار، ہوت خودی سے کب ملتا ہے۔
17
ناوکِ عشق سے گھائل تھا، اس کا دل معصوم،
موت و حیات کی ساری راہیں، ہوگئیں پھر معدوم،
درد کی بادِ سموم، چلی وہ یار کو پانے۔
وائي
ساجن مہر تمام، بھٹکتی ہوں کوہساروں میں،
سنگ پیا کے جاؤں گی میں، اونٹ مہار کو تھام،
راہ کی دھول پڑی میرے مکھ پر، اڑے جو ہر اِک گام،
ہوت بنا بھنبھور میں میرا، کون ہے اور امام،
کیسے تیرا دامن چھوڑوں، من میں عشق مدام،
بندھی ہے تجھ سے سانس کی ڈوری، تو ہی دل آرام،
چلے تو پھر نہ رکے کہیں پر، کیا نہ کہیں آرام،
مجھ کو اپنی اور بلایا، ساجن مہر تمام،
پنہل بِن اب بھنبھور میں، کون میرا، کیا کام،
اُجری مانگ اور کاجل ڈھلکا، چھینا سکھ آرام،
کہے لطیف کہ ہجرِ یار کا، دُکھ ہے صبح و شام۔
آٹھویں داستان
1
بے بس، انجانی، لاوارث، یہ انجانے کوہسار،
کہے لطیف کہ یار کی خاطر، روؤں زار و قطار،
حب میں اپنے ہوت کے کارن، روئے میرا پیار،
رو رو کر میں یار رِجھاؤں، وہی تو ہے غم خوار،
بنوں میں باندی یار، سنگ مجھے لے جاؤ اگر تم۔
2
بے بس، انجانی، لاوارث، یہ راہیں انجان،
پردیسی سے پریت لگائی، مرنا تھا ہر آن،
تیرے لطف سےپار کروں یہ ، دشت و جبل ویران،
لے زادِ رہ نادان، یار کا وصل گر چاہے۔
3
بے بس، انجانی، لاوارث، میں ہوں نربل نار،
کیا کیا راہ میں خوف و خطر ہیں، تیری لی ہے سہار،
لوٹ کے آجا یار!، جان کہیں نہ راہ میں نکلے۔
4
بے بس، انجانی، لاوارث، میں کاہل ناداں،
سنگ چلے نہ اپنا کوئی، سوئے دشتِ ویراں،
اپنوں نے ہی دیر کرائی، بھٹک رہی ہوں یہاں،
ہر مشکل کر آساں، جسکی سچی پریت ہے سائیں۔
5
بے بس، انجانی، لاوارث، دکھوں نے توڑا دل،
کیسے چین سے بیٹھے گی وہ، درد فراق کی گھائل،
جلتی دھوپ میں جھلس گئی تو، دیکھا یار کا محمل،
ہوگی دور ہر مشکل اور بنیگی بن ٹھن دلہن۔
6
بے بس، انجانی، لاوارث، دل سے کر تو جتن،
تپتے دشت و جبل میں جل کر، ہو جا تو کندن،
وہموں نے تھا گھیرا مجھ کو، تھکا تھکا تھا تن،
ہوگئی جوں کندن، الفت کی راہ میں پک کر۔
7
بے بس، انجانی، لاوارث، پھر بھی لوٹ نہ آئے،
کہے لطیف کہ یار کی اور وہ، پل پل چلتی جائے،
تڑپ نیر بہائے، کیچی یار پکارے۔
8
عزرائیل نے سسی کو جب، خواب گراں سے جگایا،
جو سمجھی کہ شاید یار کا، قاصد کوئی آیا۔
9
منکر اور نکیر قبر میں، پرسش کو جب آئے،
چونک کے پوچھا کہاں ہے پنہل، اس کو سنگ نہ لائے،
کیا تم دیکھ کے آئے، کیچ کو جاتا میرے یار کو۔
10
روندے ان کے کارن پربت، بندھی ہے پریت کی ڈور،
راہوں کو گل رنگ کرے جب، تیرا تن کمزور،
کہے لطیف اُلانگ کے پربت، چل تو یار کی اور،
جت دکھلا گئے زور، جلدی تو ملے ساجن سے۔
11
مر گ و زیست کے بیچ کھڑی ہے، درد سے انگ نڈھال،
شہر بھنبھور سے کہہ نہ پائے، اپنے دل کا حال،
کہے لطیف کہ کیسے بھولے، یار کا قرب، وصال،
مہر سے آن سنبھال، کب تک تنہا ڈھونڈونگی میں۔
12
ہوت کو پوچھ نہ ہاڑے میں، تو جنگل کی لے راہ،
درد ہو تیرے سنگ تو پھر کیا، دشت بے برگ و گیاہ،
جس سے تیری چاہ، وہ تجھے ملے گا پربت میں۔
13
انگ تھکن سے چور ہیں پھر بھی، کر لے چوٹی سر،
جب جائے تو ہوت کی جانب، رہے نہ دشت کا ڈر،
صحرا سے تو گذر، تھک کر ریت میں دھنس نہ جائے۔
14
یہ راہیں، اونٹوں کے نشاں اور، دشت کے پیچ و خم،
کیا کیا جتن کیئے پانے کو، اس کے نقشِ قدم،
اے پربت! کیا تونے دیکھا، ناقوں کا دم خم،
ہوگئی جام کی محرم، تو جگ میں رتبہ پایا۔
15
کر اب پیہم کوشش، چھوڑ دے شہر بھنبھور،
دیکھ تو نقشِ پا ساجن کے، چل تو کوہ کی اور،
یار کا ٹھاؤں ٹھور، ڈھونڈنے سے پائے گی۔
16
لازم ہے کہ چلے سفر کو، تو پیاروں کی خاطر ،
تھک کر چھوڑ نہ دینا تو، اونٹوں کی راہگذر،
رھرو ہونگے رہبر، وہ یار کی راہ بتائینگے۔
وائي
ہوت سجن وہ پیارا، چلنے کو تیار سکھی ری!
سیج پلنگ سب چھوٹے مجھ سے، زہر ہے کھانا پینا،
یہیں کہیں پہ خیمہ زن ہے، میرا یار دلارا،
دکھیاروں کی جھولی بھردے، جو ہے سب سے نیارا،
یار پنہل کی باندی ہوں میں، روتی ہوں دن سارا،
نقش قدم اس یار پنہل کے ، ڈھونڈے من دکھیارا،
وہ پردیس سدھارے ساجن، جس کی پریت نے مارا،
لوٹ کے آجا ساجن پیارے، اندھوں کا تو ہی سہارا۔
نویں داستان
1
پوچھ نہ راہ کسی سے سسئی! مت بِسرا کوہیار،
جن کی نین میں پریت بسی ہو، وہ ہی پائیں یار۔
2
انجانے تھے، ڈھونڈ نہ پائے، دشت میں اپنی منزل،
جن کو رہبر مل جائے تو، کریں وہ منزل حاصل۔
3
آج بگولو! یوں نہ مٹاؤ، یار کے نقشِ پا،
صحرا میں یہ نقشِ پا ہی، میرے راہ نما،
ان کو یوں نہ مٹا، یہ ہی نقش ہیں رہبر میرے۔
4
بادِ سموم نے کل جو مٹائے، یار کے نقشِ پا،
یہ ہی تھا مقدر ڈھونڈوں، بھٹکوں، میں ہر جا،
چھانوں سب صحرا، اپنے ہوت پنہل کی خاطر۔
5
تھک کر بیٹھ نہ ناقوں کی، دیکھ تو اڑتی دھول،
ہو نہ اب مایوس اے سسئی!، چل تو خودی کو بھول۔
6
صبر سے مت بیٹھ اے سسی! ڈھونڈ نہ اب کوہسار،
خاک نہ چھان اب صحراؤں کی، بیٹھ نہ جا اے نار!
پریت کی راہ میں چلتےچلتے، خوشیاں دے تو بِسار،
دل سے ڈھونڈلے یار، تو منزل ہے دو گام۔
7
تھک کر بیٹھ گئی ہوں سائیں!، اب تو چلا نہ جائے،
کہنی کے بل رینگ رہی ہوں، تجھ سے من اٹکائے۔
8
تھک کر قدم اٹھایا تو بس، منزل تھی دو گام،
ایک ہی جست میں "پب" سے گذری، ہوگیا سفر تمام۔
9
سفر کریں سو کوس کا سب، اے نڈھال تو چل کچھ گام میں،
ہوگا سفر تمام، قدم تو تیز بڑھا دے۔
10
جانے کون سے دیس سے آیا، جگا گیا وہ بیری،
دے گیا درد کا پروانہ وہ، بری تھی قسمت میری۔
11
مشکل میں دن بیت رہے ہیں، اُجڑا ہار سنگھار،
بھٹکتے صحراؤں میں ٹوٹا، میرا دل ہر بار،
کہے لطیف کہ یار کی خاطر، مروں گی آخرکار،
سفر ہے کب دشوار، گر دردِ یار ہو رہبر۔
12
سب کو چھوڑ کے تنہا ہی میں، بھٹکوں گی کوہسار،
کروں گی یا سے دِل کی باتیں، وہی میرا غم خوار،
دِل سے دھوکر داغِ فرقت، ڈھونڈوں میں کوہیار،
تیرا درد اے یار! ہوا ہے راہ میں رہبر۔
13
ڈھونڈوں یار پنہل کو، تنہا اب کی بار،
تیز نُکیلے پتھر ہیں اور، دشت بھی ہے دشوار،
میں انجان ہو یار، تیرا درد بنا ہے رہبر۔
14
دل کی آنکھ سے ساجن دیکھا، اب کیسا آرام،
بھٹکے گی وہ دشت و جبل میں، گھائل جسم تمام،
پایا بلند مقام، عشق یار کی دولت سے۔
وائي
پہنچونگی میں پاس، دیکھن کارن دلبر کو،
اب تو لوٹ کے آجا ساجن، صحرا، خوف، ہراس،
میں باندی ہو اس ساجن کی، جس کی من میں آس،
پیاسی دھرتی جیسا تن ہے، یار بجھا جا پیاس،
اِس کی جھوٹی پریت سکھی! جو، جائے نہ پی کے پاس۔
دسویں داستان
1
دور نہ جا اب آجا ساجن! ڈھونڈ رہی ہوں راہیں،
کرتی ہوں فریاد میں سائیں، اٹھا اٹھا کر بانہیں،
آنسو اور یہ آہیں، اب ماریں گے اک دن۔
2
مجھ سے دور نہ جا، آجا پاس اے ساجن،
پھر بھی لوٹ نہ آئیگی گر، تھک بھی گئی یہ برہن،
مریگی دکھیارن، بن تیرے درشن اے سائیں۔
3
دور نہ جا اب پاس آجا تو، اے میرے ساجن،
اس کو آن کے زندہ کردے، مرتی ہے جو برہن،
چھوڑ نہ تو دکھیارن، جو پیادہ دشت میں بھٹک رہی ہے۔
4
دور نہ جا اب آجا ساجن، دردِ ہجر نہ دے،
عشق تو ہے نہنگ کہ، جسکو پاس ہو چھوڑ گئے۔
5
دور نہ جا اب آجا ساجن! دردِ ہجر نہ دے،
انگنا آکر پوچھے گر تو، موت مجھے نہ آئے۔
6
مجھ برہن کو بھول نہ جانا، ساجن تم اللہ،
تجھ کو یاد ہوں کوئی اور ہے دل میں درد اتھاہ۔
7
مجھ برہن کو بھول نا جانا، صبر نہیں پل بھر،
تیری راہیں تکتی ہوں تو، آنگن پیر تو دھر۔
8
کبھی نہیں میں بھولوں ساجن، کرنا شکر ادا،
تیری پریت میں ساجن سائیں، سب کچھ ہے بِسرا۔
9
کرونگی کیا میں سکھیو!، کر کے شکر ادا،
وہ آئے اب آنگن جس پر، میری جان فدا۔
10
صبر و شکر کا میں، ہوں دامن تھام کے بیٹھی،
دکھلا دے تو صورت ساجن، آکر پاس کبھی۔
11
صبر و شکر کا میں نے سکھیو! لیا ہے اب سہارا،
حال تو پوچھ لے اس برہن کا، آکر تو کوہیارا۔
12
ہوت بنا اس بیکل دل کو، ذرا نہیں آرام،
جس نے پریت کی ریت سکھائی، ملے وہ دل آرام۔
13
دل کو اب آرام نہیں ہے، کہاں ہے ہوت پنہل،
اس نے پریت سکھائی جو ہے، من بھاتا سہنل۔
14
دل کو اب آرام نہیں ہے، بعد تیرے اے یار،
پریت کی ریت سکھائی جس نے، ہے میرا وہ دلدار۔
وائي
دل ہے پل پل بیکل، تجھ بن میرے ساجن!
تیرے اونٹ چراؤنگی میں، گھوم کے صحرا جنگل،
اپنی جان تو وارونگی میں، کارن ہوت پنہل،
ماس چُنیںگے کاگا، اب تو، پریت میں ہوں پاگل،
اپنے دل کا حال سناؤں، مل جائے وہ سہنل،
کہے لطیف کہ آکر میرا، پوچھے گا وہ پنہل۔
گیارہویں داستان
1
آج سراپا گوش تو بن جا، کرتیں ہیں وہ بات،
خاموشی میں پرکھ سکے گا، ان کی یار صفات،
رہے تو ان کے ساتھ، تو سوزِ عشق جگائیں۔
2
سوزِ عشق ہو حاصل اب وہ، کہتے ہیں "آجا"،
اور نہ کچھ وہ کہنا سیکھے! کہیں گے خود کو بھلا،
رہ خاموش ذرا، سن تو دور ہو دوئی۔
3
سن باتیں تو دور ہو دوئی، خودی نہ ان کا بھائے،
دل سے باتیں سن پائے جو، مہر بلب یاں آئے۔
4
یار سراپا گوش تو بن اور، ہوجا مہر بلب،
خودداری و خود بینی پھر، رہے گی تجھ میں کب،
یہ ہی ان کو ڈھب، کہ ختم کریں خودداری کو۔
5
کبھی سراپا گوش کبھی ہو، لب پہ تیرے گفتار،
کبھی کٹاری بن کر اپنی، خودی پہ کر تو وار۔
6
اِن کی محفل میں خنجر ہیں، اور ہے قتلِ عام،
یار کی دید قصاص ہے سائیں! مرے ہیں جو راہ میں۔
7
کاٹ لے انکی شاخیں اے جٹ، جتنی ہیں درکار،
اور طرح کے پیڑ ملیں گے، وہاں پہ تجھ کو یار!
8
دھول اًٹی یہ آنکھیں کیسے، ڈھونڈیں نقشِ قدم،
دھول آنکھوں سے دھوئے میری، کون ایسا ہمدم؟
9
آنکھیں آری جام کی ہیں اب، مجھ اندھی کے ساتھ،
ان آنکھوں سے دیکھوں گی میں، وندر کے پیڑ اور پات۔
10
آنکھیں آری جام کی ہیں اب، مجھ اندھی کے سنگ،
آنکھوں کے یہ ڈھنگ، یار کی پیشانی دکھلائیں۔
11
سچے دل سے صدائیں دے اور، سچے دل سے چل،
سچی آگ میں جل، اور دل سے بہا تو آنسو۔
وائي
میرے درد کے درماں، لوٹ کے آجا ساجن پیارے!
مان لو سکھیو! پریت کا، درد ہے بیحد پنہاں،
بابل کا گھر چھوٹا مجھ سے، اب میں جاؤں کہاں،
سکھ روٹھے اب دکھ ہی دکھ ہے، درد ہی اب درماں،
شہر بھنبھور کے لوگ سکھی ری! بنائیں کیا کیا بتیاں،
کہے لطیف کوی اے سکھیو! تن من دھواں دھواں۔
ابیات متفرقہ
1
جگا کے پریت کا درد سکھی! اب، کہاں گیا کوہیار،
من میں ایسا عشق جگایا، جینا ہے دشوار،
پل بھر نہیں قرار، میں پل بھی سو نہیں پائی۔
وائي
سمجھی منزل پائی دیکھے، وندر کے جب اشجار،
جن کو اک دو گام تو سمجھی، دور ہیں وہ کوہسار،
میل نہ تھا گر من میں پھر کیوں، آئے وہ کوہیار،
یہ ہی سوچ کے آئے تھے کہ، دیں برہن کو مار،
پریت کے مارے بسیں واں جاکر، جہاں پہ ہیں کوہسار،
وندر بن میں بھید چھپا ہے، بتلائیں کب یار،
جتوں نے ڈالی ناقوں کو میں، موتی جڑی مہار،
کہے لطیف کہ اونٹ جھکائے، اونچے جاں کوہسار۔
2
انگ تھکن سے چور ہیں میرے، دکھے ہے جسم تمام،
ایسا یار نے درد دیا ہے، پل بھر نہیں آرام،
مانگوں دکھ آلام، جن سے دنیا بھاگے۔
3
صدا لگا کر مانگا تجھ سے، دردِ دل، کوہیار!
دھوکر نجس کو اجلا کردے، درد وہ دے اے یار!
4
پختہ سر ہوئی ہے اب تو، بھیس بکھارن اپنا،
کہے لطیف کہ لاج کو تج کر، گھوم تو صحرا صحرا،
آکر ہوت ملیگا، تجھ کو گھومتے صحرا میں۔
5
صدا سنی جو سسی نے ہم سمجھیں نیند کی لوری،
چلے نہ کوئی بنا بلائے، راہ کٹھن ہے گوری!
6
دیکھو کہ اغیار، دے گئے درد سسی کو،
اپنا بھی آزار، ڈال گئے اس برہن پر۔
7
یہ نہیں ایسی نار جو جھجھکے، دیکھ کے پربت ویراں،
"کھاہوڑی" کی صورت وہ تو، بھٹکے دشت و بیاباں۔
8
بیٹھ پل بھی نہ سکھ سے، ڈھونڈ ے دھوپ کڑی،
توئے ان سے رشتہ جوڑا جو پردیس کے باسی،
بھٹک اب گلی گلی، اور پوچھ تو اپنے پریتم کا۔
9
شہر بھنبھور میں کون ہے میرا، شہر ہوا انجان،
بدظن دیور چھوڑینگے کب، اس کا تھا امکان،
کہے لطیف کہ راہ دکھا دے، پربت ہیں ویران،
نکلیگی اب جان، مجھ کو چھوڑ نہ جا اے کامل!
10
گھیر گئے بیچاری کو، کیا کیا وہم و گمان،
چھوڑ نہ دینا مجھ ادنیٰ کو، اعلیٰ تیری شان،
توڑ کے اب تو سارے بندھن، دل سے چل ہر آن،
یہ راہیں ویراں، کریں گی تجھ کو کندن۔
وائي
سنگ سجن کے برہن، کریگی من کی باتیں سکھیو!
تڑپ کے آئی دوار پہ تیرے، باندھا پریت کا بندھن،
بھٹک بھٹک راہوں میں اب، دے گی جان یہ برہن،
دشت نے خودداری بسرائی، رہا نہ زعم اے ساجن!
چھن جائے نہ پریت کی دولت، یہ ہے بچاری نردھن،
نیارے کردے بھاگ اے سائیں، جاؤں میں یار کے آنگن۔
وائي
مجھے نہ کوئی روکے، میں جاؤں گی پیا کے پاس،
شہر بھنبھور کے بندھن توڑوں، شہر نہ آیا راس،
درشن کارن جتن کرے اور، جائے پیا کے پاس،
کون ہے شہر بھنبھور میں میرا، درد کی لی میراث،
مت پُھسلا کر روکو سکھیو! من میں ملن کی پیاس،
پیا ملن کو جاؤں گی میں، تھام کے اونٹ کراس،
مجھے نہ روکو جاؤں گی میں یار سجن کے پاس،
کہے لطیف کہ ہوت ملا ہے، پوری ہوگئی آس۔
وائي
ہانک کے مت لے جاؤ، ناقوں کو تم یار،
برہن عرض کرے ہے!
چلنے کی تیاری کرکے، مجھے نہ لاج دلاؤ،
اس برہن کا توہی سہارا، مجھ کو چھوڑ نہ جاؤ،
آن کے میرے آنگن میں تم، اپنے اونٹ جھکاؤ،
مجھ نادار کی شادی میں تم، شہنائی بجواؤ،
اللہ اپنے درشن سے اب، مجھے نہ تم ترساؤ،
شہر بھنبھور میں رہ جاؤ اور، صورت یار دکھاؤ،
ہم بھی حال سنائیں دل کا، تم بھی حال سناؤ،
روکو میرے ہوت پنہل کو، دولہا اسے بناؤ،
باراتی ہیں ہوت پنہل کے، کھانا خوب کھلاؤ،
سہرا باندھ کے آیا ہے وہ، دلہنیا کو لاؤ،
سکھیو ری، اسے دلہن بناکر، سیج پہ آن بٹھاؤ،
کہے لطیف کہ سارے مل کر، گُن ساجن کے گاؤ۔
وائي
بتلا کیچ کےقاصد! پوچھتی ہوں میں تجھ سے،
کیسے دیکھوں شہر یار!
میں نہ محل دو محلوں والی، انجانے کوہسار،
باندی بنوں گی تیری ساجن، تج کر ہار سنگھار،
بھانبھن گھر کی ناری ہوں میں، پڑھیں جو ورق ہزار،
رات ہوئی تو چھوڑ گیا اب، ڈھونڈوں وہ دلدار،
آدھی رات کو لاد گئے تو، ڈھونڈ اب اے نار!
چلی ہے اب تو ان کو پانے، گئے وہ رات سدھار،
یہیں کہیں سے گذرے ہوں گے، بھٹکوں جن کے کار،
چل تو ہوت پنہل کی جانب، اپنا آپ نکھار،
آگ میں جھونک دے چرخہ چل تو، بن کر اعلیٰ نار،
ساتھی کب کے لاد گئے ہیں، تو پوچھے اب کوہیار،
جنگل بن میں نیر بہاؤں، کیوں ہوں میں یاں یار!
وائي
کیسا رشتا ناتا، میرا ہوت بلوچوں سے،
تنہا ہوں میں حب میں، کون یہاں ہے میرا،
تنہائی اور دور سفر ہے، پاس نہیں ہے ناقہ،
مشکل راہیں پربت کی ہیں، اور نہیں ہے رستہ،
پب میں یار کا پوچھونگی میں، کرونگی آہ و بکا،
تیرے لعابِ دہن سے مہکے، برہن کا یہ سراپا،
دور نہ ہو نظروں سے یا رب! ہائے یار کسی کا،
وصل ہو اس کا ہر دم حاصل، ہجر نہ ہوئے خدایا!
پھر پوچھونگی عقل کی باتیں، آگ میں جھونک کے چرخہ۔
وائي
کوئی پیامی آئے، شاید یار پنہل کا،
آدھی رات کو اُٹھ کر برہن، پربت ڈھونڈنے جائے،
جیسے ساون بدرا برسے، پل پل نیر بہائے۔
وائي
دینا دعائیں سکھیو جب تم، کاتو اُجلے تار اے!
سب نے باندھا رخت سفر اور، چلنے کو تیار،
دیکھ مسافر خانہ ہے جگ، سارے گئے سدھار،
یاد کرینگے صلوات کو جب، قبر کا اندھکار،
پوچھنے آئینگے ملائک، کہیں گے ہم کباچار،
ناقص پر بھی نور کی بارش، ہوگی آخرکار،
ایک خدا اور احمد برحق، کروں میں یہ گفتار۔
وائي
کبھی نہ لب پر لاؤں گی میں، اپنے پی کی شکایت،
تعلق سے تو لوٹ نہ آیا، لوٹیں کروں میں منت،
کون پیا سے لاڈ کرے گی، کس کی ہے یہ ہمت،
کوئی نہ خالی دامن جائے، تو ہے صاحبِ رحمت،
کیا کیا منگتے دوار پہ آئے، سب نے پائی دولت۔
وائي
چھپی تھی کوئی بات، میرے یار کے من میں،
جو جان گیا جگ سارا،
پریت سے جگ میں شہرت پائی، چل تو یار کی باٹ،
وہ ہے راہ میں مری نہیں ہے، کب مار سکیں آفات،
یار کی راہ میں چلتے چلتے، کبھی نہ کھائی مات،
کیا وہ تھک کر بیٹھ گئی تھی، قاصد! بتلا بات۔
سُر معذوری
پہلی داستان
1
وہ ہی راہ میں تھک کر بیٹھیں، جن کی پریت ہو خام،
پتھر کو بھی ریشم جانیں، جن کو درد مدام،
سکھیاں پریت نہ کرنا جانیں، لیں کیوں پریت کا نام،
زخمی جسم تمام، نوچینگے سگ کوچہء یار کے۔
2
کوچہء یار کے سگ نوچیں گر، سسی! تیرا ماس،
سمجھ کہ تونے عزت پائی، پریت آئی ہے راس۔
3
پالے ہیں جو ہوت پنہل نے، گر وہ سگ غّرائیں،
جان کہ مر کر یار ملے گا، ہوں گی دور بلائیں۔
4
کوچہء یار کا سگ لپکا تو، چونک اُٹھی وہ نار،
جسم سمیٹ کے جب وہ لپکا، آنکھیں تھیں انگار،
سگ یہ وفا شعار، میرا سب غم ختم کریگا۔
5
ہم ہیں کہاں شکاری اے سگ! اور کہاں ہم چور،
ہم کو کیوں دہلاتا ہے تو، مچا مچا کے شور۔
6
کہے تو کوچہء یار کا کتا، ہم پسن و فا شعار،
پہلے بھونکیں پھر پوچھیں، اپنے اور اغیار۔
7
بھنگی سے مت قتل تو کروا، خود ہی قتل تُو کردے،
ہوگا کب برداشت یہ مجھ سے، مجھ کو وہ چھولے۔
8
کُتا ہے مردار کا طالب، ہم کتے کے کیڑے،
کان میں چھٹا ہے وہ کیڑا، جو کچھ بھی نہ چھوڑے۔
9
کتا ہڈیاں کھاتا ہے اور جوان مرد جگر کٹائے،
اَلدُنیا جِیفتہُ وَطالِبُھا کِلابُ، رکھ تو یاد اسے۔
10
سونگھ کے نقش پا پہچانیں، وہ مالک کا یار،
حکم اسی کا مانیں جو ہے، ان کا پالنہار،
بھولے سے بھی یارً!، ان پر وہ نہ بھونکیں۔
11
حکمِ مالک سے ہی لپکیں، سگانِ کوچہء یار،
دیکھ تو کیسے اعلیٰ سگ ہیں، کیسے وفا شعار،
اِن کو مت دھتکار، اِن کو مالک اکساتا ہے۔
12
بے شک حملہ آور ہوں اِس، دشت کے وحشی حیواں،
میرا کیا یہ کرلیں گے میرا، ہوت پنہل ہے نگہباں،
سب کو ہے معلوم کہ مجھ پر، یار کا سایہ داماں،
حملہ کرتے حیواں، گر قربِ یار نہ حاصل ہوتا۔
13
جن کی نسبت سے اس جا پر، ہوگئی مشکل آساں،
اسکا دامن تھام کے میں نے، پار کیئے ہیں بیاباں،
ایسوں کا سب ادب کریں گے، کیچ کے لوگ وہاں،
میں کم ذات تھی حیراں، میری نسبت ہے تجھ آقا سے۔
14
تیرے نام کی نسبت سے میرا، جگ میں ہوا ہے نام،
یوں تو بانبھن ذات تھی میری، لیکن تھی گمنام،
ہوا ہے سندھ میں نام، تیرے نام سے ہی اے سائیں!
وائي
پی کی مدحت، مدح کی ریت لطیف نہ جانے،
مدحت مجھ سے ہو نہ پائے، یہ مدد بھی اس کی صفت،
پڑھ پڑھ جھوموں، جھوم جھوم لوں، میں درسِ اُلفت،
حزن ہوت پنہل کا سکھیو! راحت ہی راحت۔
ہجرِ یار سے من پاتا ہے، اًنجانی فرحت۔
دوسری داستان
1
دکھیاروں کا غصہ کیا اور، بھوکے کیا مسکائیں،
جنکے انگ ہوں عریاں کیسے، اپنا بیاہ رچائیں۔
2
وہ عریانی اچھی جس سے، بھولیں بیاہ سنگھار،
عریاں ہوکر آؤ سب کہ، رہے نہ نیند خُمار۔
3
عریاں ہوکر آؤ سب اور، بھولو حرص و ہوا،
نین میں ہو نیند تو پھر کب، ملتا ہے وہ پیارا۔
4
عریاں ہوکر آؤ سب اور، چھوڑ دو ملبوسات،
وہ ہی یار کو پائے گی جو، کچھ نہ لے گی ساتھ۔
5
جس نے کچھ نہ ساتھ لیا بس، اس نے پایا یار،
بن ٹھن کر جو بیٹھ گئی وہ، پائے کب دلدار۔
6
اس کو کیسے وصل ہو حاصل، کرے جو ہار سنگھار،
اس کا حشر ہو "لیلا" جیسا، جس کو ہار سے پیار۔
7
ہونے کے اسباب سے سکھیو! دور ہے سہنا یار،
کچھ بھی اپنے سنگ نہ لیں جو، وہ پائیں دلدار۔
8
اپنے نفس پہ خنجر "لا" سے، کر تو وار پہ وار،
کوئی رہے نہ خواہش باقی، اپنا آپ بِسار،
سنبھل کے چل اے ناری! تو آساں ہو پھر چلنا۔
9
بوجھ بنا "ہاڑے" سے گذریں، تنہا ہو تیار،
جن کے سنگ ہونا کبھی وہ، پائیں نہ اپنا یار۔
10
بوجھ بنا ہاڑے سے گذریں، بھول جا ہار سگنھار،
کچھ بھی سنگ نہ لے تو اپنے "لا" سے ملیگا یار۔
11
بوجھ بنا ہاڑے سے گذریں، دوجی اپنے گاؤں،
نفی کو لیں جو سنگ تو ان کو، بلائیں لیکن ناؤں۔
12
بوجھ بنا ہاڑے سے گذریں، دوجی رینگتی آئیں،
پربت سے وہ محروم ہیں دکھ میں، جیون یار بِتائیں۔
13
کہیں نہیں آرام اسے جو، بھاری بھرکم نار،
پیچھے رہ گئی دھن والی اور، نردھن پائے یار۔
وائي
سجنی! چل ہر حال، یار ملے گا توہے،
ساجن کارن پیروں کو کیا مہندی سے تھا لال،
دشت میں یہ پیر ہوئے ہیں، آج لہو سے لال،
اپنے ان جتوں سے سسئی، چاہے گر تو وصال،
تو ڈھونڈ تو پب کی راہوں میں، ملیگا جو ہ حبال،
قافلہ آیا کیچ سے لایا، لاد کے اونٹ پہ مال،
بُو آئیگی ناقوں کی تو "پبُ" کی راہ سنبھال،
آڑے تیکھے، ترچھے پربت، چڑھنا جن پہ محال،
پیادہ رؤں کا پوچھے گا، ساجن سب احوال،
کہے لطیف ک اک دن ہوگا، اپنے پی کا وصال۔
تیسری داستان
1
ہاڑے اور چلی جب میں تو، کوسوں تھے کوہسار،
کیا کیا راہ میں دکھڑے جھیلے، سنگ نہ تھا کوہیار،
پربت روند کے میں نے ڈھونڈی، ہر اک راہ گذار،
یہ بھی اپنی قسمت ہے کہ،تیری راہ لی یار،
تیری ہے آدھار، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
2
کانپ اُٹھی وہ راہوں میں جب، یاد کیے اعمال،
ہانک کے لے گئے اونٹوں کو ، میں پیادہ پا نڈھال،
کہے لطیف کہ بن ناقے کے، جانا وہاں محال،
آگے دشت وبال، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
3
ہاڑے اور چلی ہوں اب تو، راہ میں دوں گی جان،
کہے لطیف کہ انگ تھکے اور، ہوگئی میں ہلکان،
کرے گا مہر سُبحان، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
4
ہاڑے اور چلی ہوں سائیں! راہ میں بھٹک نہ جاؤں،
چل چل کر ان سنگ ریزوں پر، چھلنی میرے پاؤں،
یار کا درشن پاؤں، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
5
چلے گئے وہ محرم کس سے، کہوں میں حالِ دل،
کہے لطیف کہ لاج کی ماری، دشت میں ہے گھائل،
کس قاصد سے پوچھوں منزل، مجھ سے یہاں رہا نہ جائے۔
6
سمیٹ لو اپنا سایہ تم اے پربت اور اشجار،
نیناں! روکوں آنسوں تو میں، دیکھوں نقشِ یار۔
7
دکھیارن کو راہ سجھاؤ، پربت کے اشجار!
تو بھی میری یہ بات سن لے شجر، اے میرے یار!
روندوں یہ کوہسار، تو شاید نکلے راہ ملن کی۔
8
دکھیاروں کو راہ سجھاؤ، راہوں کے اشجار!
یوں مت مجھ کو بھٹکاؤ تم، راہیں ہیں دشوار،
مجھ دکھیا کو دکھاؤ تم، سیدھی راہ گذار،
ملوا دو وہ یار، جُھلس نہ جاؤ آہوں سے۔
9
دکھیاروں کو راہ سجھاؤ، راہوں کے اشجار!،
آئیگا الزام کہ راہ میں، بھٹکا دی یہ نار،
اُترے بیراگن کے تن میں، دہشت کے سنگ و خار،
پیڑ یہ کانٹے دار، کرتی ہوں فریاد میں ان کی۔
10
لاکھ چبھیں راہوں میں کانٹے، اور نُکلیے خار،
پیر ہیں سارے زخمی سنگریزوں کا ہے آزار،
اُس ساجن کے کار، میں پنہوں نہ پاپوش۔
11
جن کو پیر ہوں پیارے وہ ہی، پہنینگی پاپوش،
چھوڑ دی ہر رسم سسی نے، رہا نہ اپنا ہوش۔
وائي
سکھیو تیر چھبا ہے، من میں یار سجن کا،
چبھن سے جینا مشکل ہے، پر چبھن یہ من کو بھائے،
تھامی اونٹ مہاریں جس دم، ڈھلے تھے شام کے سائے،
سج کر سیج پلنگ پر سوئی، صبح کو دکھڑے پائے،
رہ میں سنی آواز پنہل کی، وہ ہی راہ دکھائے،
یار کے کارن بھٹکوں تو دل، عجب سرور سا پائے،
"گنجے" پاس پہنچ کر میں نے، دعا کو ہاتھ اٹھائے،
سوئی تھی میں دشت میں ساجن، میری خبر کو آئے،
ناقوں کی آواز کی گونجیں، مجھ کو دشت سنائے،
شاید راہ میں تھام لے آکر، کرم وہ یوں فرمائے،
جس کے کارن بن بن بھٹکی، ملن کو شاید آئے،
میا! ساجن انگنا آئے، من میرا مسکائے۔
چوتھی داستان
1
مر کر جی، تو پائے گی تو، یار کا حسن و جمال
ہوگا تبھی وصال، یہ بات لگا لے دل سے۔
2
موت سے پہلے مرجائے تو، حسن پہ آئے نکھار،
جب تک جان میں جان ہے تب تک، چل تو سُوئے یار،
منالے وہ کوہیار، تو ملے تو ملک الموت سے۔
3
موت سے آئے نکھار اے سسی، ہستی تو ہے حجاب،
ہمت کر تو کھلے گا آخر، موت سے وصل کا باب۔
4
مر کر حاصل کر سندرتا، وصل میں کر نہ دیر،
رکھ نہ کوئی وہم و گمان اور، دل میں لا مت پھیر،
پائے نہ یار کا پیر، رینگتے رہنے میں راحت ہے۔
5
مر کر حاصل کر سندرتا، جینے سے کیا حاصل،
مر کر ہی پائیگی سسی، یار کے وصل کی منزل۔
6
موت سے پہلے ہی مر جا اب، جینے سے کیا حاصل،
راہ میں جاں سے گذر گئے جو، ان میں ہوجا شامل۔
7
مرے جو موت سے پہلے انکی، مر کر ہوئی نہ مات،
ہونگے وہ تو حیات، جیئے جیات سے پہلے۔
8
زندہ تھے جو حیات سے پہلے، سدا رہیں وہ حیات،
مرے جو موت سےپہلے، انہیں ہے کب پھر سے مرنا۔
9
دل میں ہوس ہو جینے کی تو، اونچا بہت جبل،
موت! میرے سنگ چل، تو چلوں میں تیرے پیچھے۔
10
سب سے تیرا ناتہ ہے اور، ہوجا دور حیات،
موت! چلوں میں سنگ تیرے اور، لوں میں تیری باٹ۔
11
عقل آئی جب سسی کو تو، موت نے کیا بیکار،
سسی تیری ایسی روش سے تیرا، لجایا کوہیار۔
12
یار سے پریت لگائی پر نہ، سیکھا پریت میں مرنا،
"موتوا" کی رمز نہ جانی، پھر کیا سر کٹواتا۔
وائي
دی کب اونٹوں نے آواز، میرا ساجن واپس لاؤ،
کام وہ کرنے کو کوئی اچھا ملے موہے اعزاز،
مہندی پھوٹی، اونٹ چرواؤں، سن لے عرض نیاز۔
پانچویں داستان
1
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں کے بل، پیار بھرا ہو دل،
اپنے آری جام پنہل سے، تیرا عشق ہو کامل،
جیون بھر اے غافل! "جام" سا اور نہ جان۔
2
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں سے اور، چل تو سر کے بل،
ہر حالت میں رہے اے سسی!، تیری پریت اٹل،
یار کی پریت ہی بنے سہارا، ملن کو من بیکل،
دیکھے لاکھ پنہل، پر جام سا اور نہ جان۔
3
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں سے، چل، پیشانی کے بل،
اور نہیں کوئی وسیلہ، درمیاں کوہیارل،
اس سا کوئی سہنل، کسی کو تو مت جان۔
4
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں کے بل، پرکھ کے رکھ تُو قدم،
تیز ترک تُو قدم بڑھا اور، چل نہ یوں تھم تھم،
لاکھ بھی ہوں ہمدم، جام سا اور نہ جان۔
5
رینگ تو گھٹنوں ہاتھوں کے بل، ہر سانس سے چل نادان،
تجھ سے ہوت ملے گا "حب" میں، رہبر ہے جو مہان،
جام سا اور نہ جان، جان میں جان ہے جب تک۔
6
وہ تو سُوئے یار رواں ہے، کوئی بھی ہو موسم!
پہنچی جب "ونکار" میں سسی، رہا نہ تب دم خم،
پوچھا ہر اک پنچھی سے کہ، کہاں ہے وہ بالم،
سب نے اس کو راہ بتائی، جہاں تھا وہ پریتم،
من جائے ہمدم، اور شاید لوٹ کے آئے۔
7
چاہے تیز تو چال چلے اور، چاہے چلے تھم تھم،
وہ ہی ہوکر رہے گا آخر، لوح پہ ہے جو رقم۔
8
وہ ہی ہوکر رہے گا آخر، جو تیرا مقدور،
جو بھی پریتم نے لکھا ہے وہ، پورا ہوگا ضرور۔
9
جتنے قسمت میں لکھے ہیں، بِتائینگے اتنے پل،
وہیں بتانے ہیں سب پل، آج یا پھر کل۔
10
جھلس کے راکھ ہوئی تھی رہ میں، اس کیچی کے کارن،
چھوڑ کے سارے حیلے، دشت کو، چلی وہ دکھیارن،
تھی تو نربل برہن، پھر بھی دشت کے کشٹ اُٹھائے۔
11
جان کے کشٹ اُٹھائے، بھٹکی وہ رنجور،
جُھلس کے راکھ ہوئی تھی رہ میں، انگ تھکن سے چور،
یہ ہی تھا مقدور، کہ وہ بھٹکے دشت و جبل میں۔
12
سفر نہیں یہ عام، آواز سنی نہیں جاتی،
کریگی گر فریاد کہیں گے تار ہوئی ہے پگلی۔
13
کہیں وہ بیشک پگلی مجھ کو، سنیں تو میری پکار،
بیشک آکر مہنے دیں، سارے ہی اغیار۔
14
طعنے دینگے لوگ اگر، مجھ کو کیا پروا،
جوشِ محبت میں جان دیگی، دیکھے نقشِ پیا۔
وائي
تھک کر بیٹھ نہ جا، ڈھونڈنے سے یار ملے گا،
جگ کی باتوں پر اے سسئی!، تو نہ کان لگا،
بات وہ ہی انمول ہے سجنی! کر گئے ہیں جو پیا،
ریشم سے تھے پائے نازک، تپتا تھا صحرا،
دیکھ تو معذوروں کی جانب، کرم تو فرما،
جتوں نے بات کہی، اس نے مار دیا،
وندر کی رہ میں کاندھا دینگے، میت کو وہ پیا۔
چھٹی داستان
1
لاکھ مجھے دیدار سے روکیں، دیکھوں روئے یار،
جب تک دیکھ نہ پاؤں سجن کو، تب تک کہاں قرار،
بھول گئی وہ وعدہ فردا، اب مانگو دیدار،
کل تک کہاں قرار، ہجر و وصل ہے تیرے ہاتھ میں۔
2
بھول گئی میں وعدہ فراد، اب مانگو دیدار،
یوں مت ترسا برہن کو اب، درد دکھاجا یار،
یا تو جان سے مار، یا پھر وصل ہو سائیں!
3
وصل یار ہو حاصل یا پھر، ہوجاؤں نابود،
آج جو میرے آنگن آئے، کروں میں یار سجود،
مٹ جائے یہ وجود، یا پھر درس دکھاجا۔
4
وصلِ یار ہو حاصل یا پھر، آجائے اب موت،
میرا پنہل ہوت، اک بار دکھا دے سائیں۔
5
آدھی کچی آدھی پکی، جلی ہے پریت میں تیری،
ایسی آگ جلا کہ جل کر، بنوں میں راکھ کی ڈھیری۔
6
بھول جا ہار سنگھار اے سسی! تج دے سیج سہاگ،
چھان لے دشت کی خاک، تو ملینگے یار کے نقشِ پا۔
7
جا تو دشت کی جانب اپنے، دکھڑے سمیٹ کے سارے،
دینگے ساری خبریں تجھ کو، دشت کے رہنے والے۔
8
سر پر دھر کر ہاتھ وہ ہر دن، بھٹکے ہے دکھیاری،
ایسی کب وہ جلی کہ جل کر، پھر سے وہ جی جاتی۔
9
ہار سنگھار سے آگے ہے، منزل وصل یار،
باندی بن اور ذرا نہ ڈر تُو، دیکھ کے یہ کوہسار،
پل بھر کا دیدار، غیر کے قرب مدام سے بہتر۔
10
ہوت پنہل کا درشن ہی ہے، تیرا ہار سنگھار،
غیر کے قربِ مدام سے افضل، پل بھر کا دیدار۔
11
کب رُکتا ہے وقت ہے اسسی! تیز بڑھا تو قدم،
دشت میں مرجا یار کی خاطر، راہ کے سہہ تو ستم،
منزل سب کی عدم، کر تو یار پہ جان فدا۔
12
وسعت دشت میں گونج اُٹھی ہے دُکھیا کی فریاد،
چاک ہو کوہ کا سینہ ایسے، رویا دل ناشاد،
ذی روح سب روتے ہیں ہر سو، یار پنہل کے بعد،
ہجر میں جو برباد، یہ ان کی آہ و بکا ہے۔
13
دیکھ کہ دشت میں روتے ہیں سب، اس دکھیا کے کارن،
اس کی موت پہ گریاں ہیں اب، دشت کے دیکھ ہرن،
"مار گئی دکھیارن"، یہ ہی کہتے ہیں اب سارے۔
14
دشت میں گونج رہی دکھیا کی، سن تو آہ و بکا،
تیر نظر سے مار کے اس کو، پھر وہ بچھڑ گیا،
جو پی سے قتل ہوا، وہ پی کی آغوش میں ہے۔
15
دیکھ کے اس دکھیا کو روئے، پر بت اور اشجار،
اپنی آہ و بکا سے سب کو، مار گئی ہے نار۔
16
وہ بھی ہوگئے گھائل جن میں، نہیں تھی جان ذرہ،
جس نے دیکھا دکھیارن کو، موت کی مانگی دعا۔
17
ایسے رو کر دیتی تھی وہ، قاصد کو پیغام،
سن کر اس کی باتیں قاصد، روتے تھے ہر گام۔
18
آری سے جوں پیڑ کو کاٹیں، درد کی تھی یوں کاٹ،
یار کا درد سہارا تھا اور، مشکل تھی ہر باٹ،
اس کے دکھ آفات، دیکھ کے روتے تھے رہرو۔
19
نالہء نے کی مانند وہ بھی، کرتی تھی فریاد،
نے کی صورت اپنے شجر کو، کرتی تھی وہ یاد۔
20
ہر موسم ہے قحط کا موسم، ساجن میگھ ملہار،
تو آئے تو انگنا آئے، ملن کا موسم یار۔
21
تیرے پاس ہے قحط کا موسم تیرا، ساجن میگھ ملہار،
لائے وہ سنگ بہار، بختاور ہے بلوچ بالک۔
وائي
لالن آ دفنا، لاش میری پربت میں،
مہکا مہکا ساجن پیارا، میلا تن میرا،
جہاں جہاں سے گذرا ساجن، مہک گئی وہ جا،
کامل سائیں! تو ہی آکر، میرا روگ مٹا،
آریانی اے یار پنہل تو، پل بھر یہاں بتا،
کہے لطیف کہ پربت میں تو، سر کا کر سودا۔
ساتویں داستان
1
اب تک یار سے مل نہیں پائی، بیت گئے کئی دن،
عبث وہ بیتی راتیں اور جو، دن بیتے گِن گِن۔
2
اب تک یار سے مل نہیں پائی، گذرے کئی ایام،
یار کو دیکھوں پھر ڈھل جائے، یہ جیون کی شام۔
3
اب تک یار سے مل نہیں پائی، اے سورج مت ڈھل،
ساجن سے سب کہنا تو یہ، کہے جو من بیکل،
کہنا ہوت پنہل! میں مری ہوں دشت کے ویرانوں میں۔
4
اب تک یار سے مل نہیں پائی، نکل رہی ہے جان،
جان بلب ہوں پھر بھی تیرے، ملن کا ہے ارمان،
نکلیں تب یہ پران، جب دیکھوں ہوت پنہل کو۔
5
اب تک یار سے مل نہیں پائی، بیتی عمر تمام،
بیٹھے بیٹھے وقت گنوایا، ہجر کے ہیں آلام،
ہوگئی عمر کی شام، یار کی اور جمی ہیں آنکھیں۔
6
اب تک یار سے مل نہیں پائی، بیت گیا جوبن،
کیا کیا راہ میں مشکل آئی، کیا کیا راہ کٹھن،
بڑی عمر میں کیسے بھٹکے، دشت میں یہ برہن،
بیت گیا سب جیون، اب لب پر آہ و بکا ہے۔
7
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آج کا دن بھی بیتا،
ہجر یار ہے سولی سکھیو! عشق نے مار دیا،
تیرا نام پیا، لے کر مری ہے رہ میں۔
8
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آیا عزرائیل،
موت بڑی ہی زورآور ہے، اب کیا قال و قیل،
بن کر موت دلیل، آئی، مرونگی یاس میں۔
9
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آخر آئی موت،
راہیں تکتے برسوں بیتے، پر نہ آیا "ہوت"،
ہو جاؤنگی فوت، میں تو یار کے ہجر میں۔
10
اب تک یار سے مل نہیں پائی، آیا یومِ قیام،
جان نہیں ہے جسم میں سکھیو! نینن نیند حرام،
کر کے وہ قتلام، چلا گیا ہے ہوت پنہل۔
11
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، نوچینگے کرگس،
چڑھی تھی ہجر کی سولی پر اور، چلتا تھا نہ بس،
دشت میں تھی بے بس، یہ کرگس یہ ماس ہے میرا۔
12
لپک کے چڑہتی ہے پیڑوں پہ، دیکھ کے دھول وہ روئے،
کیسے سر ہو ہجر کا صحرا، ملن سجن سے ہوئے!
13
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، سر کی پیڑ کی چوٹی،
احسانمند تھی شجر کی جس نے، یار کی راہ دکھا دی۔
14
لپک کے پیڑوں پہ چڑہتی ہے، بچا کے ریشمی دامن،
جوں طاؤس پھلانگیں یوں تھی، جست لگاتی برہن۔
15
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، دیکھ تو اُسکا زور،
کون تھا اس کا، آدھی رات کو، چلی وہ یار کی اور،
اس کا وہ من مور، بول رہا تھا صحراؤں میں۔
16
لپک کے پیڑوں پر چڑہتی ہے، ڈھونڈے بہت ہی دور،
دور دور تک گونج رہا ہے، اس کے ہجر کا درد۔
17
یہ آواز جو گونج رہی ہے، دور بہت ہے دور،
مشکل ہے واں پہنچے کوئی، کر کے دشت عبور،
18
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، کوئل کی آواز،
صدا کا سوز گداز، عشق کی یہ آواز ہے۔
19
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، طوطے کی چہکار،
عشق کی ہے یہ پکار، یہ ہے نعرہ نیہہ کا۔
20
صدا یوں گونجی صحرا میں کہ، جیسے روئے نار،
عورت کی آواز نہیں یہ، عشق کی ہے یہ پکار۔
21
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، کرلاتی ہے کونج،
یہ ہے عشق کی گونج، ابھری ہے جو جھیل کنارے۔
22
صدا یوں گونجی صحرا میں جوں، باجی ہے سارنگی،
عشق کی تھی آواز، ہم سمجھے، نار ہے کوئی روئی۔
وائي
میں یار پنہل پہ واری، کیچی کب ہیں میت کسی کے،
سن یار پنہل رے میرے، میں تیرے عشق کی ماری،
بھٹکتی ہے جو ویرانوں میں اسکو چھوڑ نہ آری،
سکھیو آری جام کی خاطر، میں بھٹکوں ماری ماری۔
سُر دیسی
پہلی داستان
1
مت جا مر جائوں گی ساجن!، اونٹ کی موڑ مہار،
اس برہن کے آنگن میں تُو، قدم تو دھر اکبار،
ہجر کا ہر دن یار! یومِ قیامت جانوں۔
2
یہ ناقے، یہ دیور، پربت، دیئے ہیں سب نے دکھ،
تیرے ملن کی آس میں، میں نے، ہر دکھ جانا سُکھ۔
3
یہ ناقے، یہ دیور، پربت، سب نے ڈھائے ستم،
ڈھونڈھوں ہوت کے نشقِ پا اور، رکھوں میں تیز قدم،
راہ کے رنج و الم، قسمت کا ہی کھیل ہے سارا۔
4
دور ہے آریانی، اے ناقے! ابھی سے مت تو کراہ،
جُھکا کر ہر اک ٹہنی کو تو، چرتا ہے سب راہ،
سب کچھ تجھے مباح، تجھ کو کیا الزام دے کوئی۔
5
ان جانے ان دیکھے ناقے، آئے جو تیرے آنگن،
تھام کے باگیں، ناقوں کی تو، روکتی ان کو برہن!
اپنی زُلف کی زنجیروں سے، باندھتی ایسے بندھن،
لے جاتے نہ ساجن، کبھی بھی تیرے دیور سسی!
6
ان جانے ان دیکھے ناقے، لائے تھے جو اسوار،
چھپاتی تو چابیاں اور، رہتی تو ہشیار،
چھوڑ نہ جاتا یار، اور دور فراق نہ آتا۔
7
ان جانے، ان دیکھے ناقے، تم نے دیکھے جب،
باندھتی بندھن ناقوں کو اور، روکتی ان کو اب،
سہتی ہے دکھ اب، دکھا کے خود اعتمادی۔
8
ان جانے ان دیکھے ناقے، آئے جو تیرے آنگن،
اپنی زُلف کی زنجیروں سے، باندھتی ایسے بندھن،
دشت کی راہ کٹھن، پھر کیوں دیکھنا پڑتی۔
9
اونٹ کے بدلے بیلوں پہ گر، آتے وہ اسوار،
رہ جاتے کچھ نقشِ پا اور، مل جاتے آثار،
سن کے آہٹ بیلوں کی میں، ہوجاتی بیدار،
لے بھی جاتے ہوت تو میں بھی، پہنچتی آخرکار،
پہنچ نہ پائی، تیز تھی ایسی، ناقوں کی رفتار،
ناقے اور اسوار، دکھا دے مولا پربت میں۔
10
جب ڈالیں پالان تو ناقے، دکھلاتے ہیں جوش،
جانے کیا تھا ناقوں کو کہ، اس دن تھے خاموش،
ہائے رے صد افسوس، وہ بھی شامل تھے سازش میں۔
11
برا تھا چاہا غیروں نے گر، بری نہ ہوتی قسمت،
اونٹوں اور اسواروں کی اب، کیا میں کروں شکایت،
یہ تھا امر مشییت، اس میں بھلا کیا مجھ کو چارہ۔
12
پریتم اپنے دیس کا ہو کیا، پردیسی سے پیار،
دو دن رہ کر اپنے دیس کو، وہ تو جائے سدھار،
بِن اپنے کوہیار، اب کیا شہر بھنبھور میں رہتا۔
13
روزِ ازل سے غیر تھے دیور، غیر ہی مجھ کو جانا،
میل تھا اُنکے من میں لیکن، میں نے بچھائے نیناں،
آنگن تھا سب ویراں، صبح جو اٹھ کے دیکھا۔
14
میں ہوں ان ناقوں کی ماری، ان کو لے جا دور،
اور کہیں لیجاکر ان پر، ڈال پلان حضور!
کر گئے یہ مہجور، اور لے گئے ہوت پنہل کو۔
15
جیئیں سدا یہ جت، جو جی کر ڈھائیں ستم،
تجھ بِن میرا کون سہارا، اور سے کیا نسبت،
تجھ سے رشتؔہ اللفت، یہ رشتہ ٹوٹ نہیں پانا۔
16
سسی پوچھتی رہتی تھی، جتوں کا تو ہر بار،
آئے آری جام کے تھے اونٹ تیرے دوار،
جڑی ہوئیں نکیلیں تھیں اور، جگمگ کرتے ھار،
عشق لگاکر نار! کیسے پھر تو چین سے سوئی۔
17
آئے ہیں یا پھر آئیں گے، اس کا رہے خیال،
تیرے ہوت کو لے جائیں گے، ہوگا ہجر و بال،
جائیں گے ہر حال، اور لے جائیں گے ہوت پنہل کو۔
18
یہاں دل میں حل ہوئی تھی، وہاں پے انکی بستی،
پیر بڑے تھے اونٹوں کے اور چال بہت تھی پیاری،
اونٹوں کی خاموشی، وہ بھلی پربت پربت۔
19
جتوں نے آگ جلائی دل میں، میں تو تھی انجان،
خود تو جا آرام سے بیٹھے، درد مجھے ہر آن۔
20
ہوتا گر معلوم جتوں سے تعلق کا انجام،
کیوں پھر ان سے پریت لگا کر، دیکھی دکھ آلام۔
21
آئے جو تھے اس بار، وہ پہلے کب دیکھے تھے،
میں تو رک گئی لیکن دیور چلنے کو تیار،
بل کھاتی گم ہوتی راہیں، ڈگر ڈگر دشوار،
یہ بہن مدد کا وقت ہے آجا، راہ دکھا کوہیار!
میں ہوں ادنیٰ نار، پہنچ اے پارس "پب" میں۔
22
جتوں نے کب نبھایا مجھ سے، دوستی کا رشتہ،
بچپن سے ہی بانہہ میں ڈالا، میں نے ہوت کا کنگنا،
دے کر مجھ کو طعنہ، وہ لے گئے میرے ہوت بلوچ کو۔
23
جائیں اپنے دیس کو، اونٹ اور میرے دیور،
راہ میں تیز رفتاری سے، کھائیں نہ وہ ٹھوکر۔
24
اُڑے نہ راہ میں دھول، پڑے نہ ہوت پنہل پر،
میرے یار سجن کا ناقہ، دھوپ میں ہو نہ ملول،
عشق کا کب یہ اصول، کہ ہوت مجھے تم چھوڑ چلے۔
25
دھوپ لگے نہ ناقوں کو اور، چلے نہ دشت میں لُو،
کمہلائے نہ راہ میں میرا، ہوت پنہل مہرو،
میرا یار ہے تو، ورنہ جت بہت ہیں جگ میں۔
26
سوانگ رچا کر دیور آئے، کر گئے مجھے نراس،
جنگل سارا مہک رہا ہے، یار کی ہے بو باس،
حیواں کھائے ماس، تو پنجر پہنچے پاس پنہل کے۔
27
ایک تو بیری ناقے، دوجے، دیور اور اسوار،
دشت کی لُو بھی بیرن جس نے، مٹائے سب آثار،
سورج بھی ہے بیری جو بھی، ڈوبا آخرکار،
دشت و جبل بھی بیری جن کی، راہیں ہیں دشوار،
چندا بھی ہے بیری جو نہ، اُبھرا اب کی بار،
بھٹک رہی تھی نار، جب آن چھپے پیڑوں میں پنچھی۔
وائي
ناقے اور دیور ، ان کا کیچ نگر، پریت نہ کوئی لگائے،
جب سوئی تو لاد چلے وہ، اپنے اونٹ سجائے،
خالی دیکھ ٹھکانے ان کے، نینن نیر بہائے،
دھوکہ دیکر لے گئے ساجن، کل تھے دیور آئے،
جو کرنا تھا کیا کہ وہ تھے، من میں میل چھپائے،
سکھیو شاہ لطیف کہے میرا، ساجن انگنا آئے۔
دوسری داستان
1
بھیگ چلی جب رات اور ٹپکی قطرہ شبنم،
تو کے در وہ لے گئے ساجن، بیری دیور اس وم،
ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِماَتُوْ عَدُوْنَ، اب ہے ہُو کا عالم،
ہجر کا درد و الم، دے کر چلے وہ "ہاڑے" کو۔
2
ساری سکھیاں مل کر آئیں، خوب جتایا پیار،
الًسّفًرقِطعًتُہ مِنً اًلنّاَرِ ، راہیں ہیں دشوار،
آگے پل صراط ہے ایسی، جیسے تیغ کی دھار،
کیسے پہنچے پار، جب ہو نفاق دل میں۔
3
جب روحیں تخلیق ہوئیں اور، صدائے کُن تھی آئی،
تب میثاقِ الست سے پہلے، میں نے پریت لگائی،
مَنْ طلَبَ شَیئاً وَ جَدَّ وَجَدَ ، علیؓ نے بات بتائی،
علیؓ کے اس فرمان سے سکھیو! چھٹی ہے دل کی کائی،
آیا جب پیغام پنہل کا، موت سے کب گھبرائی،
ختم ہو دورِ جدائی، دعا کرو کہ ملن ہو سکھیو!
4
اپنے "آری جام" بِنا اب، تاریکی ہے اتھاہ،
کیسے اپنے پریتم بِن اب، ملیگی روشن راہ،
دھودے دل سےمیل اے سائیں! کرم کی ڈال نگاہ،
مَن لا شَیخُ لَہُ فَشَیخُہُ الشیطانُ، ہوجائیں گمراہ،
چلی جو تنہا منزل پانے، پائی نہ سیدھی راہ،
بِلا شَیخِ مَن یَمِشی َفی الطِریقِ، ہوجاؤ آگاہ،
بھٹک گئی ہیں راہ، بہت سی ہوت بنا اے سکھیو!
5
بھاری بوجھ ویراں پربت، سائے نہ ہی اشجار،
کہے لطیف کہ ناقوں پر ہی اسکا دارو مدار،
پی چاہے تو مل جائیگی، سیدھی راہ گذار،
کہاں پہ وہ کوہیار، اور کہاں وہ اسکو ڈھوںڈ رہی ہے۔
6
خوب سِدھا کر ناقوں کو وہ، سیدھی راہ چلائیں،
چڑہیں جب اونچے ٹیلوں پر تو، اس وقت وہ نہ کراہیں،
سنگ ہو جب سردار تو رہ میں، ناقے تھک نہ پائیں،
کہے لطیف کہ لطف و کرم سے، پربت پار وہ جائیں،
ناقے کیوں گھبرائیں، ہوت کی جب ہے حمایت حاصل۔
7
جگا کہ اپنے ناقوں کو، چلے وہ ان کو لیکر ،
پہنچیں جب وہ پہاڑوں میں تو، بیٹھ نہ جائیں تھک کر،
کہے لطیف کہ ناقوں نے ہے، روندا دشت و بر،
ہوت ہے جب رہبر، تو کیونکر تھکیں وہ رہ میں۔
8
بھرتے تھے وہ خالی مشکیں، بھیگ چلی جب رات،
خاموشی سے اونٹ سجائے، بتلائی نہ بات،
اُس کو لے گئے ساتھ، دِھیر ہے جو انجانوں کی۔
9
ڈالیں پھر پلان، جلدی کریں تیاری،
کرتے ہیں وہ راز کی باتیں، روز بلوچی خان،
بول کے غیر زبان، وہ لے گئے میرے پریتم کو۔
10
ڈالیں پھر پلان، جلدی کریں تیاری،
کیچ شہر کی باتیں وہ تو، کرتے تھے ہر آن،
لیکن میری جان، وہ چلے ہیں کیچ کی جانب۔
11
نہ تو کریں جُگالی ناقے، نہ ہی کھائیں بور،
پل پل فکر ہے کیچ سفر کی، یہی وہ مذکور،
یہ ہی ہے مقدور، کہ دشت و جبل کو روندیں ناقے۔
12
پھونک رہی تھی ہاتھوں کو تھا، لو سے جھلسا تن،
ڈھونڈ رہی تھی ناقوں کو وہ، نقشِ پا برہن،
کہے لطیف کہ ناقے گذرے، نہیں تھی ذرا تھکن،
کریگی کون جتن، بِن سسی کے دشت و جبل میں۔
13
دوک دہل جاتے ہیں جس جا، "گورے" لیں نہ راہ،
جہاں نہ چل پائیں "چوسال" بھی، ڈالی وہاں نگاہ،
"پانچار" بھی پہنچ سکیں نہ، پہنچی وہاں نگاہ،
"نیش" بھی جس جا گھبراتے ہیں، ایسی مشکل راہ،
اعلیٰ اس کی چاہ، جو چلی ہے ایسی راہوں پر۔
14
پٹخ رہی تی پتھر سے، سسی اپنا سر،
پا گیا پیار کی منزل کو، اسکا دل مضطر،
مل گیا وہ دلبر، شکر ہے تیرا اللہ۔
وائي
ساجن انگنا آیا، دور ہوا دکھ سارا،
میں تو جی اُٹھی ہوں جگ میں،
پی سنگ ہونگی پیار کی باتیں، پی نے مکھ دکھلایا،
مہکا مہکا شہر ہے سارا، خوشبوئیں وہ لایا،
میں عاجز کیا آن دکھاؤں، سب کا تو ہی سہارا،
تھی ابھاگن سسی، یار نے بھاگ جگایا،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ساجن انگنا آیا۔
تیسری داستان
1
اللہ اے اسوار! ناقے مت لے جاؤ،
میرے اس دکھیارے من کو، تجھ بن کون سہار،
توڑ نہ دینا یار! مجھ سے پریت کا ناتہ۔
2
ناقے مت لے جاؤ ، اللہ اے اسوار!
اس باندھی کو سنگ لے جاؤ، بنا کے خدمتگار،
تیرے ہجر میں مرجائیگی، یہ برہن اے یار!
کہے گا کیا سنسار، گر راہ سے لوٹ میں آئی۔
3
کیسی جھلسی راہیں جن پر، سائے نہ ہی اشجار،
اپنے اُس "کیچی" کے کارن، جا تو دشت کے پار،
چل تو سوئے یار، لوٹ نہ آنا رہ سے۔
4
کیچ سے پہلے مری ہیں رہ میں، کیا جنہوں نے پیار،
راہیں ہیں بسیار، کیا جانیں کس راہ گئے وہ۔
5
کاش وہ آئیں آنگن، جن کو دیکھ کے من مُسکائے،
کسی طرح تو میں بھی دیکھوں، اپنے یار کا مسکن،
روند کے صحراؤں کو سنے یہ، یار کی باتیں برہن،
پاؤں یار کا درشن، تو "گُلبوُ" میں کہلاؤں۔
6
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، روشن تھی وہ رات،
چل کر روئے یار تو دیکھوں، مہکیں احساسات،
روند کے صحرا کیچ میں پہنچوں، رات ڈھلے پربھات،
لے جائیں گر ساتھ، تو "گُلبوُ" میں کہلاؤں۔
7
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، بھاگ میرے مسکائے،
انگ لگاؤں خاک قدم کی، وہ بھنبھور میں آئے،
سنگ اگر لے جائے، تو چنبیلی کہلاؤں۔
8
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، وہ جو سب کا جام،
دیکھتے ہی دلبر کو دل نے، پایا ہے آرام،
دھروں میں "ناتر" نام، گر سنگ مجھے لے جائیں۔
9
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، سب کا وہ سردار،
جھن جھن اونٹ کے گھنگرو باجیں، ریشم کی ہے مُہار،
سنگ لے جاؤ یار، تو "دولت" نام دھروں میں۔
10
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، جسکی نہیں مثال،
خوب سجے تھے ناقے ان کی، نکیلیں تھیں لال،
دیکھ تو ان کی چال، کیسی سندر ہے اے میا!
11
کیچ سے چل کر قافلہ آیا، آیا سب کا خان،
زلفوں کی باگیں بنواؤن، سیؤن میں پالان،
جیسا ہے وہ جوان، ایسے سندر ساتھی ہیں۔
12
بالا پوش پہ جڑے ہیں موتی، ہیرے لاکھ ہزار،
ہوت کو جھک کر چھو رہے ہیں، راہوں کے اشجار،
اے رہرو! کیا تم نے دیکھے، راہوں میں اسرار،
"اونٹوں کی وہ قطار، کل گئی اور آج تو پوچھے"
13
آن جُھکائے مہمانوں نے، جھوک میں اپنے "مہری"،
حسنِ یار یوں جھپٹا دل پر، جھپٹے باز جوں بحری،
مارا تیر وہ قہری، نیند میں مجھ کو سکھیو!
14
چلے گئے کل کیچی سکھیو! اُٹھ کر آدھی رات،
جاگی تو تھا ویراں آنگن، رات ڈھلی پربھات،
ہجر کا درد وہ دے گئے دل کو، جت زور آور ذات،
رَفِیعُ الدَرَجاتِ، پنہل ملادے پاک پوتر۔
15
میں سمجھی تھی سدا رہینگے، پاس میرے ساجن،
چلے گئے وہ میدانوں میں، روندا دشت و بن،
سکھیو! جن کے کارن میں نے، کیا ہے سر کا سودا۔
16
میں سمجھی تھی سدا رہینگے پاس میرے مہمان،
رحم ذرا نہ آیا اُنکو، گئے نکال کے جان،
دے گئے درد فراق کا سکھیو! درد ہے اب ہر آن،
کر گئے جت جوان، کیا کیا ظلم اس برہن پر۔
17
ہوتا گر معلوم کہ یہ جت بھگائیںگے صحرا،
مارتی میں ان ناقوں کو، جلاتی سامان سارا۔
18
کس جانب مکران ہے سکھیو! کہاں ہے کیچ نگر،
کب دیکھا تھا شہر بھنبھور کارواں کا یہ منظر،
ایسا تیر چبھویا ہے کہ، تڑپے دل مضطر،
لے بھاگے دلبر، میں ان ناقوں کی ماری ہوں۔
19
کس جانب مکران ہے سکھیو! کہاں دوجا پار،
کہے لطیف کہ ناقوں کی ہے، اس کے ہاتھ مہار،
جگ کا جو سردار، ملا دے مجھ سے مولا!
20
عشق لے آیا دشت میں ورنہ، کون یہاں پہ آئے،
انکو ڈھونڈے پربت میں جاں، اس کا ہوت تھے لائے،
جو تھے رنج اُٹھائے، ختم ہوئے وہ پیا لوٹ کے آیا۔
21
ہوت کہاں وہ دیور میرے، بڑے ہی تھے ہوشیار،
نقشِ پا ناقوں کے ڈھونڈہوں، چھانوں سب کوہسار،
ہوگا تو مسمار، ورنہ راہ سے ہٹ جا پربت!
22
کیسی یہ پُر پیچ ہیں راہیں، اور ہیں پربت حائل،
جو ہیں حق کے حامل، ان کا پربت کیا کر لینگے۔
وائي
میرے یار سجن، پریت کی ماری برہن،
کب سمجھی تھی چھوڑ چلیگا،
گرم ہوائیں، آگ کی لپٹیں، جھلسے ہے سب تن،
تیری پیرت نے اس برہن کو، کیا نڈھال ہے ساجن!
برہ کے گیت تھی گاتی پھرتی، پربت ہو یا بن،
چھوڑے چلے تم، کیسے پہنچوں، دکھتا ہے سب تن،
ساون بھادوں برکھا جیسے، برسیں یوں نینن،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ملے وہ یار سجن۔
چوتھی داستان
1
لے گئے میرے پریتم کو وہ، ظالم دیور جام،
دیا تھا آن کے ہوت پنہل کو، آری کا پیغام،
سب نے کی تھی ایسی سازش، ڈالا تھا اک دام،
دھوکے سے وہ لے گئے سکھیو! ہوت وہ دل آرام،
ظلم کیئے ہر گام، جت تو محشر برپا کر گئے۔
2
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، دکھا گئے وہ زور،
ویراں ہے بھنبھور، برپا کر گئے محشر۔
3
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، میرے ظالم دیور،
برپا ہے اک محشر، گویا یومِ قیامت ہے۔
4
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، میرے ظالم دیور،
چرخہ کات نہ پاؤں سکھیو! بِن اپنے اس دلبر،
برپا کر گئے محشر، چھوڑ گئے مجھ دھوبن کو۔
5
لے گئے میرے ہوت پنہل کو، جت تھے ایسے جابر،
کیسے ہو کوئی صابر، چھن جائے جب پریتم۔
6
جس کی ریش گھنی اور کالی، لے گئے میرا یار،
اور انگونگی ویراں پربت، یہ اونچے کوہسار،
راہیں ہیں دشوار، پر میں تو جتن کرونگی۔
7
کب سمجھی میں لیجائیں گے، ہوت کو آدھی رات،
جت زورآور ذات، ڈھاگئے ظلم اس برہن پر۔
8
شام میں کوئی فکر نہیں تھی، صبح کو دکھڑے پائے،
جتوں کی خاطر میں نے سکھیو، دُکھ میں دن ہیں بِتائے۔
9
شام کو کوئی فکر نہ کی، تھی صبح کو غم، ویرانی،
آدھی رات کو دیکھے کوئی، میری اشک فشانی،
جت وہ دشمن جانی، میا! سمجھ کو مار گئے ہیں۔
10
شام کو کوئی فکر نہ تھی اور صبح کو تھے آلام،
نین کو نیند کا عادی کرکے چلے گئے وہ جام،
دیکر درد مدام، چلے وہ آدھی رات کو۔
11
اٹھ کر آدھی رات کو، چلے وہ کیچ کی اور،
ڈالی پریت کی ڈور، اور من کو پریشان کرگئے۔
12
اللہ میرے انگنا آجا، ساجن! پل دو پل،
ہر جا ہر صورت میں تیرے، باندی ہوں سُہنل،
میرے اوگن عیب چھپائے، کاش کہ وہ نرمل،
کامل ہوت پنہل، لیجائیگا سنگ یہ دھوبن۔
13
دھوبی کے گھر پلی ہوں لیکن، ذات میری بانبھن،
مار گیا ہے اس برہن کو، تیرا حُسن سجن!
جب تک ہے جیون، تب تک ملن کی آس ہے۔
14
دھوبی کے گھر پل کر سکھیو! میں نے عمر گنوائی،
ان کے کارن درد سہا اور، پایا دردِ جدائی،
ہوت سے پریت لگائی، قسمت کا یہ کھیل تھا سارا۔
15
ہم ہیں ذات کے دھوبی اور ہیں پنہل کے خدمتگار،
ہوت سراپا مہک ہے لیکن، میں ہوں بدبودار،
کرے نہ ظاہر یار، کوئی کسی کے عیب کبھی۔
16
کہے جو باندی کو بھی بیبی، میں تو ہوں وہ نار،
مجھ برہن کے کار، بنا تھا دھوبی ہوت پنہل بھی۔
17
دھوتا تھا وہ گھاٹ پہ کپڑے، پریت میں پنہل جام،
آری جام نے بھیجا تھا تب، ہوت کو یہ پیغام،
یہ نہیں تیرا کام، کہ گھاٹ پہ کپڑے دھوئے۔
18
کیچ بھنبھور میں کون ہے اسکا، کوئی نہ رشتہ ناتہ،
ہوت کو کیا پرا برہن کی، اِسکا تڑپے جیئرا،
کب ہے کوئی پاتا، حلم بِنا اُس ہوت پنہل کو۔
19
کوئی نہیں ہے جگ میں میرا، کوئی نہیں غمخوار،
وہ بھی تیرے سنگ ہیں جن کو، دیتے ہیں دُھتکار،
میں بھی تو اُن جیسی ہی ہوں، سن میری سرکار،
کہے لطیف کہ دشت ہے گذری، ادنیٰ ذات کی نار،
پہنچی وہ نادار، تیرے پل پر دشت سے گذرے۔
وائي
لے مت ناقے مجھ سے، ہوئی ہے کون سی بھول،
اللہ موڑ مہار اے سائیں! کر تو عرض قبول،
رہ جائے جو رات یہاں تو خوشیوں کا ہو نزول،
جس نے پریت کا ناتہ جوڑا، اس کو کر نہ ملول،
اللہ کارن آن کے سائیں! دکھا جا چہرا پھول،
جھکا کے ٹہنی اونٹ چرالے، ہرے ہیں پیڑ ببول،
کہے لطیف کہ انگنا آجا، کرلے عرض قبول۔
پانچویں داستان
1
جیسے آہو بوئے مشک سے، دشت میں سر گرداں،
مرغِ ہما جوں فضا میں بھٹکے، نظروں سے ہو نہاں،
شاید درد ہجراں، اُس نے اُن سے کیا ہے حاصل۔
2
آہوئے دشت جو دیکھے سمجھی، یار کے ناقے آئے،
دیکھ تو کیسے پربت سسی کو عقلمند بنائے،
درد میں راہ سجھائے، ورنہ وہ ناداں بہت تھی۔
3
حب میں یار کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے، دیکھے دشت کے آہو،
چھوڑ گیا ہے پریتم پھر بھی، اُسی کو ڈھونڈھے ہر سُو،
بھول نہ جانا اب تو، اے دل! اس ہوت بلوچ کو۔
4
ملینگے راہ میں وحشی حیواں، دشت بہت ہے ویراں،
تیری آہ و بکا سے سسی! گونجے گا یہ بیاباں،
جن سے لاگے نیناں، وہ مولا اب تو ملادے۔
5
زادِ راہ جو ساتھ نہ لیں، ہوت انہی کا حامی،
آئیگا اس دشت و جبل میں، جھومتا میرا جانی،
ہونگی سنگ آریانی لحضے بھر میں پیار کی باتیں۔
6
دیکھے نقش جو ناقوں کے تو مسکائی وہ برہن،
آساں ہو گئی ویرانوں کی، ہر اک راہ کٹھن،
جن کے من میں پریت وہ جانیں، صحرا بھی گلشن،
من میں ہو جو لگن، تو "حب" میں یار ملیگا۔
7
زورآور بھی گبھرائیں واں، پہنچی نربل نار،
دشت جبل دشوار، عشق تو جانے آساں۔
8
خاک ہو وہ کوہسار، جو عشق کے آڑے آئیں،
پربت لاکھ ہزار، عشق میں میں روندونگی۔
9
راہِ یار میں آڑے آئے، یہ اونچے کوہسار،
"برفت" اور "بروہی" لے گئے، میرا وہ کوہیار،
روتی ہوں اے یار! کہ دیکھوں تیری صورت۔
10
راہِ یار میں آڑے آئے، یہ اونچے کوہسار،
ہاتھ اٹھاکر دعا کروں کہ، ملے جبل میں یار،
کل وہ کرم شعار، گیا، اسے تو ڈھونڈتی ہے اب۔
11
"کانبھو" "کارو" دونوں جبل، لگتے ہیں جوں بادل،
چھوڑیگی اب "پب" کو پیچھے، صبح صبح وہ نربل،
رہونگی نہ اک پل، مجھ کو ہے ہر حال میں جانا۔
12
بادل اور یہ کوہسار ہیں لگتے ایک فریم کے،
یہ سنگلاخ زمیں، بل کھاتی، ہر اک راہگذار،
ویراں دشت اور سخت سفر ہے، میں پیادہ نربل نار،
اس کو راہ دکھائے جو دشت میں ہے پریشان۔
وائي
یاد کرے ہے من، یاد ہے پل پل سید کی،
میں پاس پنہل کے جاؤنگی،
لب پر باتیں کیچ سفر کی، رہینگے کب اس آنگن،
من میں ملن کی آس ہے مولا، دکھادے یار کا درشن،
دشت و جبل کے رنج و الم سب، یار ہیں تیرے کارن،
وصل کا تونے عہد کیا تھا، پورا کر اب ساجن!
پریت کی ایسی اگن جلائی، سلگتا ہے اب تن من،
کام کریم کریگا پورے، گھبرائے کیوں یہ برہن،
کہے لطیف کہ آس بندھی ہے، کریگا یاد وہ ساجن۔
چھٹی داستان
1
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، مشکل ہے ہر گام،
پیار سے دی ہیں صدائیں ساجن! لب پر تیرا نام،
سُنی صدا ساجن نے اب، سسی خود کو تھام،
آہیں تیرا کام، سننا کام ہے ہوت بلوچ کا۔
2
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، قدم اُٹھانا مشکل،
چلا ہے کیچ کی اور سکھی ری! میرے یار کا محمل،
جہاں ہیں تیز نکیلے پتھر، پاؤں گئے میرے چھل،
پورے کر گئے اے دل! دیور اپنی بات۔
3
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، مشکل ہے ہر راہ،
بل کھاتی یہ "وندر" کی راہیں، کرینگی مجھے تباہ،
تو ہی اب اللہ، پہنچا "حاڑے" کے اُس پار۔
4
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، اور راہوں کے بل،
جسکے من میں پریت ہو وہ ہی، بھٹکے دشت و جبل،
پہنچا پار یہ نربل، کہے لطیف کہ اپنے کرم سے۔
5
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، راہیں ہیبت ناک،
لے گئے ناقے ہوت سجن کو، دے گئے درد فراق،
ہوت پوتر پاک! اب تو آجا اللہ کارن۔
6
جہاں ہیں آڑے ترچھے پتھر، بل کھاتی یہ راہیں،
جگر، کلیجہ، تن من، سب شعلہ عشق میں جلیو،
ناقوں کی وہ مہاریں، پکڑ چلے ہیں دور سفر کو۔
7
تیشہ پاس نہیں جو کاٹوں، کوہ بلند و پست،
پربت کی ہر اونچی چوٹی، جیسے فیلِ مست،
دل میں جو پیوست، وہ تیر نہ نکلے جیتے جی۔
8
مشکل پربت، دور سفر اور دشت و جبل ویران،
کیا کیا سیانے بھٹک گئے اور، حریف ہوئے حیران،
کہے لطیف کہ پیار بسا کر، پار کیا میدان،
آریانی وہ خان، رہبر ہو تو پھر ڈر کیسا؟
9
جنگل، پربت، دور سفر، ہائے یہ ریت کے ٹیلے،
آڑے ترچھے پربت ہیں اب، کروں یہاں کیا حیلے،
جس نے دکھڑے جھیلے، اس کو کیچ میں پہنچا سائیں!
10
مشکل پربت، دور سفر اور، کیا کیا ہیں کوہسار!
ناقے جب اورانگیں پربت، کریں وہ چیخ و پکار،
وہ کیوں روئیں جنہوں نے دیکھے، نقشِ پائے یار،
جندڑی سے ہی یار! جُڑے ہیں سارے رشتے۔
11
مشکل پربت، دور سفر جاں، مشکل ہر اونچائی،
کہے لطیف کہ رہ میں کیسے، حیواں ہیں صحرائی،
راہ میں جو گھبرائی، اس کی تو آدھار ہے سائیں۔
12
مشکل پربت، راہیں سخت، کراہ کے گذریں ناقے،
ان کی "وندر" میں راہ تکے وہ، جن سے پریت کے ناتے،
بھٹک گئی جو رہ میں اس کو، راہ دکھا کوہیارے،
تو آدھار ہے پیارے، جن کا کوئی نہیں ہے جگ میں۔
13
مشکل پربت، سخت سفر ہے، اور جھلستا صحرا،
اُلٹی سمت نہ تیتر بولے، جہاں سے گذرے پیارا،
برسی تھی تب بدرا، جب میرے جام نے جنم لیا تھا۔
14
مشکل پربت، سخت سفر اور، راہ میں باد و باراں،
"ہاڑا" ہیبت ناک ہے آگے، دشت جبل ہے ویراں،
تُو ہی حال کا پرساں، جہاں پہ اندھیارا ہے سائیں!
15
دل میں پیار سجاکر، سوئی، آنکھ جھپک نہ پائی،
جنکے پیار میں نیند اُڑی وہ، آئے تو نندیا آئی،
سو کر میں پچھتائی، پریت کریں تو پھر کیا سونا۔
16
تاریکی میں جھلمل موتی، میرا وہ کوہیارا،
روزِ محشر ساتھ نہ چھوڑے، ہوگا وہ ہی سہارا،
کریگا یاد وہ پیارا، اور دیگا مجھے صدائیں۔
وائي
میں جاؤنگی کوئے یار، دیکھونگی دلدار،
میں کیسے جیونگی یار بن،
اتنے دکھڑے سہہ کر یاں اب، رہنا ہے دشوار،
سارے شہر بھنبھور میں میرا، کوئی نہیں غمخوار،
میرے جام پنہل کے ساتھی، چلے گئے اس پار،
کہیں تو رات بِتا کر سکھیو! صبح کو ڈھونڈوں یار۔
وائي
بھٹکوں دشت و جبل، میں اپنے ہوت کے کارن،
اپنے ساجن کو میں ڈھونڈوں، ڈھونڈوں بن جنگل،
اب تو شہر بھنبھور میں سکھیو!، رہوں نہ میں اک پل!
مجھ میں اوگن عیب تھے ایسے، چھوڑ گیا پنہل،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، کارن ہوت کے چل۔
ساتویں داستان
1
یار پنہل نے ڈالا سکھیو ایسا پریت کا پیچ،
شہر بھنبور کے رشتے ناتے، ہوگئے سارے ہیچ،
کہے نہ کوئی لوٹ کے چل، راہیں ہیں پُر پیچ،
جس کا دیس ہے کیچ، اس سے جاں اٹکی ہے۔
2
سجا کے تب کیوں ناقوں کو وہ، لائے تھے اسوار،
بالا پوش پہ جڑے تھے "ٹونر"، چھم چھم کی جھنکار،
خوب نچا کر ناقوں کو وہ، لے گئے پربت پار،
تجھ بن بانبھن کے اس جگ میں، اور نہیں ہے سہار،
موڑ کے یار مہار، تو شاید لوٹ کے آئے۔
3
دیکھ تو دکھیارن پر کیا کیا، اس نے ڈھائے ستم،
ناوکِ عشق چبھا ہے دل میں، تڑپوں میں ہردم،
حال کے ہیں محرم، اب تو حیواں صحراؤں کے۔
4
ایسا کوئی سبب بنا کہ، بے بس ہوگئی برہن،
کیسے دشت کے پار میں پہنچوں، بِن تیرے اے ساجن!
تھام کے تیرا دامن، میں گذروں ہیبت ناک جبل سے۔
5
ایسا کوئی سبب بنا کہ، بے بس تھی بے چاری،
کیسے سیدھی راہ ملے گی، تجھ بِن میرے آری!
دکھ دے کوئی نیا اے آری!، جو مجھ کو راہ دکھا دے۔
6
کبھی تو اپنی مہر سے سائیں! بھیج کوئی پیغام،
تیرے ہجر نے اس برہن کا، کیا ہے کام تمام،
بے جاں میرے انگ ہوئے اور، نینن نیند حرام،
یہاں پل کا نہیں آرام، تُو چین سے وندر میں بیٹھا ہے۔
7
خوشبوؤں سے مہک اُٹھا تھا، سارا شہر بھنبھور،
کھڑے تھے وہ بازار میں کیچی، ان میں تھا چت چور،
لایا تھا اس اور، ناقے لاد کے خوشبوؤں سے۔
8
آئی لپٹیں خوشبوؤں کی، مہکی دھرتی ساری،
مہکا شہر کا کوچہ کوچہ، خوشبوئیں تھیں نیاری،
مہکی ہر اک ناری، اور مسکائیں سب باندیاں۔
9
آئی جب مہکار، دشت میں ہوت پنہل کی،
کیا ہے ہار سنگھار، درد ہوئے دکھ ہر داسی کے۔
10
آئی جب مہکار، سکھیو! ہوت پنہل کی،
میرے یار پنہل کی خوشبو، دینے لگے اشجار،
آیا کیچ سے یار، میری آس ہوئی ہے پوری۔
11
شہربھنبھور میں ڈیرے ڈالے، چلے گئے وہ ہمدم،
ویراں انکے آسن ہیں اور، ٹپک رہی ہے شبنم،
دے کر درد و الم، ناوکِ عشق چبھویا۔
12
جب سے ان سے ناتہ جوڑا، جنکا دور وطن،
کوہیارے نے درد دیا اور، دُکھتا ہے تن من،
تڑپے یہ برہن، تب سے ہی اے سکھیو!
13
کبھی یقین نہ کرنا سُن کر، کسی بلوچ کی بات،
کیوں نہ جاگی اسکی خاطر، سوئی کیوں اُس رات،
کبھی تو شاید آنگن آئیں، جت ہے جن کی ذات،
لے جاتے وہ ساتھ، بُرا شگون ہوا تھا شاید۔
14
کب تھا ان کا قصور، مجھ میں ہی تھے عیب،
میں انجان وہ جاننہار، دیس بھی انکا دور،
کیسے دامن تھام سکے گی، مجھ جیسی معذور،
جن کا تو ہے حضور! ان کو پیادہ ہی پہنچادے۔
15
کب تھی میں اس قابل کرتی، اس ساجن سے پیار،
لگا کے سوتی سینے سے میں، اپنا وہ کوہیار،
پھر کیسے لے جاتے دیور، میرا سہنل یار،
قسمت کا آزار، دوش نہ دے کوئی ہوت پنہل کو۔
16
بھول نہ جانا ساجن مجھ کو، تیری ہی ہے سہار،
اپنی مہر سے پار کرا دے، مشکل جو کوہسار،
آن پڑے جب مشکل تب تُو، آ جانا کوہیار!
تیرا نور ہی راہ دکھائے، چمکے راہگذار،
اپنے نور سے روشن کردے، دھرتی کا اندھکار،
سن آہیں سرکار! تو ہی اب اس برہن کی۔
وائي
غم کی ہے یلغار! انگ انگ میں پریت ہے تیری،
میرے نینن نیند بھری تھی، لاد گئے اسوار،
تجھ کو دل کا حال سناؤں، تیری یاد ہے یار!
تجھ بِن کیسا جینا ساجن! جیون ہے آزار،
تجھ سے ایسی پریت لگی جو ہوگی ختم نہ یار!
تیری یاد میں تڑپے جیئرا، آجا تو اک بار،
وہ ہی راہ لوں جہاں سے گذری، اونٹوں کی وہ قطار،
کیا کیا تیر چُبھے ہیں من میں، تیری پریت کے یار،
کاگا ماس بھی چننے آئے، دیکھ کہ حالتِ زار،
میں تنہا اور لاوارث ہوں، دے تو دلاسہ یار!
وائي
مار رہا ہے موہے تیرا درد فراق،
اس کا درد ہی مار رہا ہے، جس کا من مشتاق،
انگ انگ ہے چور تھکن سے، دشت ہیں ہیبت ناک۔
وائي
جو پربت کے پار گئے ہیں، میں انکی پریت کی ماری،
یار کو لے گئے سنگ جو میں اُن، ناقوں کی بلہاری،
پربت میں فریاد کروں اب، میں دُکھیا بے چاری،
دھوبی کے گھر پلی ہوں لیکن، میں ہوں بھانبھن ناری۔
وائي
میں تیری باندی، چھوڑ نہ مجھ کو جانی!
ان کا اس جگ میں، اور نہ کوئی ثانی،
لے چل سنگ کرونگی سیوا، بات نہ اس نے مانی،
سب کی باندی بنکر سائیں بھر بھر لاؤں پانی،
اس کو چھوڑ نہ تنہا جو ہے، تیری باندی جانی،
شاہ لطیف کہے ہے، آئیگا آریانی۔
سُر کوہیاری
پہلی داستان
1
کب جاگی تو یار کے کارن، سو کر رات گذاری،
جلدی چل تو یار کی جانب، سستی چھوڑ اے ناری!
جب تیرے مہمان تھے دیور، کرتی شب بیداری،
نیند تھی تجھ کو پیاری، جبھی تو بھٹک رہی ہے۔
2
پل بھر بھی تو جاگ نہ پائی، سوئی ساری رات،
پوچھا تب اسواروں کا جب، رات ڈھلی پربھات،
لے تو ان کی باٹ، تو شاید ان کی مہر ہو حاصل۔
3
پل کو بھی تو جاگ نہ پائی، ایسی سوئی غافل!
تب جاگی جب ہوت پنہل کا، دور سدھارا محمل،
بھاگ کے ڈھونڈ تو منزل، کسی سبب ہے مل جائیں وہ۔
4
تجھ سے اچھے ناقے تھے جو، سوئے نہیں پل بھر،
تو سوئی وہ لپک کے اٹھے، شب بھر تھے مضطر،
ڈھونڈ وہ راہ گذر، جہاں سے ناقے گذرے ہیں۔
5
اب تو چھوڑ دے سستی تونے، سو کر رات بتائی،
ناقے تو چپ چاپ چلے، اور اپنی منزل پائی،
دشت میں دے جو دہائی، نیند اکھیڑ دے آنکھوں سے۔
6
شام سے ہی وہ تان کے سوئیں, ذرا نہ لیں جو کروٹ،
آدھی رات کو سن نہ پائیں، ناقوں کی وہ آہٹ،
پائیں نہ یار کی چاہت، جن کو نیند ہے پیاری۔
7
بری تھی میری قسمت کہ میں سوئی سجا کے خواب،
کس کی خاطر شہر بھنبھور میں، رہے یہ دل بیتاب،
دے کر ہجر عذاب، چلے گئے اسوار۔
8
جو بھی پیر پسار کے سوئی، سسی! ساری رات،
اُن سے بچھڑے ساجن سائیں، چھوٹے یار کا ساتھ۔
9
شام سے پیر پسار کے سوئی، خود پر کیا ستم۔
در پر دوست کے کھڑی گر رہتی، سنتی آہٹ اس دم،
اصل میں آری جام کی سسی! تو تھی نا محرم،
ہوت تھا جب ہمدم، پھر کیسے تو سو پائی تھی۔
10
پیر پسار کے سوجائیں جو، اُن کی پریت ہے خام،
کیوں نہ تڑپی ہوت کی خاطر، کی نہ نیند حرام،
جو بھی سو کر رات بتائیں، ان کو دکھ آلام،
لیں کیوں یار کا نام، جو شام سے ہی سوجائیں۔
11
مانند مردہ سوگئی ملبوس، خوب کیا آرام،
چاروں اور ہی جاسوسوں نے، بچھار رکھے تھے دام،
خود کو دے الزام، کہ غفلت سے وہ یار گنوایا۔
12
سوگئی جلدی مانند مردہ، خوب کیا آرام،
جاگ کے رات بتاتی سسی! کرتی نیند حرام،
اب نہ دے الزام، سسی! ان اسواروں کو۔
13
تو بھی ان کی مانند سوئی، جنکی پریت ہو خام،
اس لیئے وہ یار گنوایا، دکھ اب ہر گام،
کیا تھا کیوں آرام، جب بنی تھی اِس کی باندی۔
وائي
بھاگ پہ کس کا زور، چھوڑ چلی بھنبھور، دوش نہ دو ساجن کو،
میں کیا جانوں ہار سنگھار، چھوڑ گیا چت چور،
جیسی بھی ہوں ساجن کی ہوں، جائوں سجن کی اور،
جس بھی پیڑ کی چھائوں میں بیٹھے، میرے من کا مور،
اس کی ٹہنی ٹہنی چوموں، جہاں تھا وہ چت چور،
یوں ہی قسمت میں لکھا تھا، چھوٹے شہر بھنبھور،
تیرے کرم سے مل جائے وہ، میرے من کا مور۔
دوسری داستان
1
ظلم نہ ڈھا اے ظالم پربت!، میں برہن بیچاری،
تن کو تو یوں کاٹ رہا ہے، کاٹتی ہے جوں آری،
قسمت کی ہوں ماری، ورنہ کیوں میں دشت میں بھٹکوں۔
2
تیرے ظلم سناؤں گی جب، ملے گا وہ ہمدم،
رات کو دیو کی مانند ہے تو، دن میں پیچ و خم،
مٹائے نقشِ قدم، تونے میرے ہوت پنہل کے۔
3
کچھ تو بتا اے پربت! کیا وہ، یہاں سے گذرا یار؟
تو نے جاتی دیکھی تھی کیا، اونٹوں کی وہ قطار؟
دیکھا تھا کوہیار، جو مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔
4
کچھ تو بتا اے پربت! کیا وہ یہاں سے گذرا یار؟
تیرے پاس سے گذری تھی کیا، اونٹوں کی وہ قطار؟
ایسی کروں میں پُکار، کہ سُن کر لوٹ کے آئے ہوت۔
5
ہوگا تیرا شکوہ جب وہ، ملیں گے میرے پیارے،
چھلنی پیروں کے تلوے ہیں، اور پڑے ہیں چھالے،
تجھ کو ان پر رحم نہ آیا، ہجر کے ہیں جو مارے،
سن فریاد "کوہیارے" !، پربت مجھ کو مار رہا ہے۔
6
پربت! ظلم نہ ڈھا کہ میں نے، بڑے سہے ہیں دکھ،
دکھ ہی دکھ اس دل نے پائے، یاد نہیں کوئی سُکھ۔
7
اُن کی دھیر بندھاتے ہیں کہ، جنکا من دکھیارا،
ان سے پیار سے بولا جائے، جن سے بچھڑے پیارا،
جن کا کوئی نہ چارہ، تو اُن کے پیر نہ چھلنی کر۔
8
درد کے مارے حال سنایا، کیسی کی نادانی،
دل کے درد کو اور بڑھایا، سنا کر پیار درد کہانی۔
9
اے پربت! آ دونوں روئیں، کریں اب آہ و بکا،
ایک ہی یار ملا تھا جگ میں، وہ بھی بچھڑ گیا،
کس سے کروں گلہ، قسمت کا یہ کھیل ہے سارا۔
10
پربت! تجھ کو حال سنانے، آتے ہیں دکھیارے،
تو ہی ان کی دھیر بندھا دے، جب آئیں ہجر کے مارے۔
11
پریت کے ماروں کی اے پربت! سدا ہیں آنکھیں نم،
روندیں دشت بیاباں اور یہ، جبل ہے زیر قدم،
مارے ہجر کا غم، ہجر میں ہی اب جاں نکلے گی۔
12
تجھ جیسے پربت پر خود کو، واروں میں ہر بار،
بیٹح کے تیرے سائے میں ہی، سستایا تھا یار۔
13
پربت اور برہن نے مل کر، جب کی تھی فریاد،
سب ذی روح آزردہ تھے اور، سب کے دل ناشاد،
14
ارض کی میخیں پربت ہیں اور، اُن کی میخ ہے یار،
اور کہاں ہے جگ میں سکھیو، اُس جیسا کوہیار۔
15
پربت اور وہ برہن مل کر، روتے ہیں اے یار،
بتلائیں نہ اور کسی کو، جو ہے دل میں پیار۔
16
آج بھی باہم مل کر روئے، پربت اور ہجر کی ماری،
من میں ایسی ہوک اُٹھے کہ، چلتی ہو جوں آری۔
17
کیسے تنہا ڈھونڈے کوئی، کوہ و دشت و بیاباں،
کیسے میرے سنگ چلیں گی، میری یہ سب سکھیاں،
باندی حال پریشاں، کر گئی پار جبل کو۔
18
دکھیاروں کا کیا کرلے گا، اے پربت تو تپ کر،
میرے انگ ہیں فولادی گر، سخت ہیں تیرے پتھر،
ہجر میرا مقدر، دوش نہیں ہے اور کسی کا۔
19
سارے سکھ کے ساتھی ہیں اور، کوئی نہ دکھ کا یار،
جو ہو دکھ کی ماری وہ ہی، ڈھونڈے گی کوہیار،
تیرا دکھ دلدار! بنا ہے راہ کا رہبر۔
وائي
جن کی ہوں داسی، وہ تو چھوڑ نہ جائی،
ساجن کو میں مناؤں، پیر دھروں چنری،
آس لیئے بیٹھی ہوں، راہ تکوں تیری،
شہر بھنبھور میں تجھ بن، پل پل ہے بھاری،
کرم کرے کریم تو، تو میں پاؤں تجھے، آری!
تیسری داستان
1
بیٹھ کے گھر کے پاس بہا اب، اشک اری میا!،
شہر اور شہر کے پیڑوں سے بھی، تعلق توڑ دیا،
دشت میں بھٹکیں جن کے دل میں، عشق کا ہو شعلہ،
ساجن چھوڑ نہ جا، تُو اس منزل پر دکھیا کو۔
2
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، ہوت میرے کوہیار،
اللہ اس دکھیا کی جانب، اونٹ کی موڑ مہار،
بنکر خدمتگار، میں کروں گی آریچوں کی سیوا۔
3
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، میں دکھیا کمزور،
چلوں گی تیرے سنگ اے ساجن، چھوڑ کے شہر بھنبھور.
4
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، میرے حاذق ساجن!
تیرے عشق کی آگ میں جل کر خاک ہوئی ہے برہن۔
5
مجھ کو چھوڑ نہ دشت و جبل میں، تج دی ہے خودداری،
بھٹک گئیں جو خودداری سے، اُن کو تھام اے آری!
6
سوتے سوتے چونک اُٹھوں جب، آئے یاد کوہیار،
تیرے عشق کی ناوک سائیں! گئی جگر کے پار،
جینا ہے دشوار، ایسی عشق کی چوٹ کھائی ہے۔
7
پنہل کے پیکاں کی ہیں، نوکیں تیز اور تیکھی،
ناوکِ عشق سے تڑپ رہا ہے، میرا دل ناشاد،
پل پل میں ہوں تڑپتی، پر دل سے تیر نہ نکلے۔
8
جیسی بھی ہوں تیری ہی میں، باندی ہوں کوہیار!
کیسے تجھ کو ناز دکھائے، یہ برہن، دلدار!
تیرا عشق ہے روزِ ازل سے، تیری ہی لی سہار،
کہاں برابر جوتی کے ہے، یہ دکھیارن نار،
کیسے دوں میں بسار، اپنے کیچی جام کو سکھیو!
9
مردہ ہوں یا زندہ تیری، باندی ہوں کوہیار!
تیرے نام کے ناتے سے ہی، پہچانے سنسار،
چلی ہوں سوئے یار، گو اپنی عزت چھوڑ گیا وہ۔
10
میں تو روزِ ازل سے تیری، باندی ہوں اے یار!
تیرے نام کے بال گتائے، تو میری سرکار،
تو ہی اے دلدار! آن کے پوچھے گا اب پب میں۔
11
وہ جو کیچ کی باسی ہیں میں، ادنیٰ باندی یار،
کیسے اس کو بھول سکوں جو، دل میں ہے دلدار،
کسی کی یار کے دوار، کبھی نہ کم ہو عزت۔
وائي
کریں گے مہر پیا، سنگ مجھے لے جائیں گے،
دشت میں مجھ دکھیارن کو، دیں گے راہ دکھا،
لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ، پی نے فرمایا،
ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا، سچ ہے یہ فرمانا،
کہے لطیف کہ ایسا ہی ہے، میرا راہ نما۔
چوتھی داستان
1
نہ تو ذکر یار ہے کوئی، نہ کچھ خیر خبر،
رونگ کے سارے کوہ و صحرا، پب سے گئے وہ گذر،
دردِ ہجر وہ دے کر، چھوڑ گئے مجھ برہن کو۔
2
نہ تو خیر و خبر ہے کوئی، نہ کوئی ذکر یار،
جانے کب وہ روند گئے ہیں، پربت اور کوہسار،
ترے ہجر میں یار!، اب نکلے گی یہ جان۔
3
بھاڑ میں جھونکوں ہوت کا جانا، سہی نہ جائے جدائی،
پاس رہے گر ساجن پھر کیوں، کر دی میں کوہ پیمائی،
جس کی ہوں شیدائی، اسے دیکھوں ان آنکھوں سے۔
4
دشت میں چل نہ پاؤں میں اور، سہی نہ جائے جدائی،
مولا! ان کی راہ دکھا میں، جن کی ہوئی شیدائی،
اے رھرو! اے پربت! کوئی، کر دے راہ نمائی،
پایا دردِ جدائی، پل بھر کو بس آنکھ لگی تھی۔
5
بات کرو مت جانے کی اب، ہجر سہا نہ جائے،
رہ جائے وہ شہر بھنبھور میں، پل بھر یہاں بِتائے،
جو ٹوٹ کے تجھ کو چاہے، تو مار نہ اس دکھیا کو۔
6
جن کے ہجر کی ماری ہوں کیا، دیکھے وہ اسوار،
تن میں ذرہ بھی جان نہیں ہے، بِن تیرے کوہیار،
سہنا تھا دشوار، دردِ دل تب لب پر لائی۔
7
جن نے مجھ کو مارا اُس کی، رکھتی ہوں پہچان،
نینوں سے یوں تیر چلائے، تن من لہولہان،
تیرے بس میں جان، تجھ بِن کوئی نہ درماں۔
8
جس نے مجھ کو مارا سکھیو!، اُس کو گئی میں جان،
خون نہیں ہے رگوں میں اور اس، تن میں کب ہے جان،
ہوت میرا درمان، ہاتھوں سے دی ہے دوائے درد۔
9
پرتو یار پنہل کا، چھائوں کبھی ہے دھوپ،
اسکا قاتل روپ، کاٹ رہا ہے تن من۔
10
پرتو یار پنہل کا، جلے بجھے ہر گاہ،
پھیل گئی نظروں کے آگے، رنگا رنگی راہ،
چڑہے گا رنگ اتھاہ، پہلے زنگ اُتاریں گے۔
11
پرتو یار پنہل کا، جیسے جھلمل بادل،
روتی ہوں میں پل پل، اس کی راہ میں بیٹھی ہوں۔
12
پرتو یار پنہل کا، میرے دل کی راحت،
برا بھی دن ہو پھر بھی اسکو، جانوں اپنی صحت،
راحت بھری مصیبت، ہے میرے آری جام کی۔
وائي
مل جائے کوہیار، سکھی ری، جیون میں ایک بار!
اونچائی پر چڑھ نہ پاؤں، دل ماندہ ہے یار،
پہنچا پاس پنہل کے جو ہے، پیادہ سفر میں یار،
تیری باندی کی بھی باندی، میں ہوں اے سرکار!
کرم کریم کا ہوگا آن کے دفنائے گا یار۔
پانچویں داستان
1
ہوت پنہل بن دکھ ہی دکھ ہیں، دکھ ہیں اسباب،
موت ہی اب تو آجائے کیوں، ہجر کا سہوں عذاب،
درد سے دل بیتاب، اور درد نہ جانیں سکھیاں۔
2
تیرے بن یہ دکھڑے تیرے، جیون کا ہیں سہارا،
یار بلوچ نے دکھڑوں سے ہے، روشناس کرایا،
دیکھ کہ بِن کیا کیا ساجن، غم کی ہیں آفات،
مرضوں نے ہے مارا، وہ کیسے صحت پائے۔
3
جن کو ہجر کا غم ہو کیسے، پائیگی وہ آرام،
درد سے دل دو نیم ہے سکھیو! ہجر کے ہیں آلام،
جب سے گیا ہے جام، تب سے ہوں بیمار سکھی ری۔
4
تب سے ہوں بیمار کہ جب سے، چھوڑ گیا ہے جام،
کوہیارے کِس اور گئے ہیں، جو ہیں دل آرام،
کرتے ہیں آرام، کیچ میں سسی کے پیارے۔
5
ظاہر کردوں گر میں ذرا بھی، اپنی آتشِ پنہاں،
پھٹ جائیں یہ دشت و جبل اور، ذی روح ہوں حیراں،
جھلسیں دشت و بیاباں، اور ڈھانپ لے چہرہ سورج۔
6
ظاہر کروں گر میں ذرا بھی، اپنی آتشِ پنہاں،
پھٹ جائیں یہ دشت و جبل اور، ذی روح ہوں حیراں،
ٹوٹے کوہِ گراں، جبل بھی سب جل جائیں۔
7
حب کی اور جو چل نہ پائیں، ملادے ان کو یار،
مولا! اِن کو کیچ میں پہنچا، جنکے تن بیمار،
ہوت کو تو نہ بسار، چھوڑ نہ دے تو راہ پنہل کی۔
8
پل پل یاد میں کرتی ہوں میں اپنے یار قصور،
مجھ برہن کو چھوڑ نہ دینا، میرے جام حضور،
بھٹکیں جو مہجور، ان کو سیدھی راہ دکھا۔
9
سکھیاں آن کے کہتی ہیں کہ، من سے اسے بِسار،
میرا درد کیا سمجھیں گی وہ اُن کو سکھ سے پیار،
درد مجھے درکار، خوشیاں انکو مبارک ہوں۔
10
دل کا درد مٹانے کو تو، آ جاتی ہیں سکھیاں،
دل میں زخم ہجر نہیں ہے، ریا ہے انکا رونا،
کر کر یاد وہ جاناں، روتی ہیں کب دل سے۔
11
جن کے دل میں درد نہیں وہ، آن کریں کیوں ماتم،
دل میں دردِ یار نہیں ہے، جھوٹا اِنکا سب غم،
روٹھے جس سے پریتم، دل سے بین وہ کرتی ہیں۔
وائي
سنگ نہ وہ لے جائیں، پھر بھی اُن کی باندی ہوں میں،
مجھ جیسی کمزور کو کیونکر، ساجن زور دکھائیں،
اپنے دیس میں جاکر ساجن، مجھ کو نہ بِسرائیں،
شاید پریت کا امرت دھارا، مجھ کو بھی وہ پلائیں،
کبھی تو ساجن باندی کہہ کر، مجھ کو پاس بُلائیں،
محمل تو نہ روکیں ساجن، پیادہ چل نہ پائیں،
سکھیو! شاہ لیف کہے وہ، مجھ سے پریت نبھائیں۔
چھٹی داستان
1
کیسے روؤں سجن کے آگے، میں کیا جانوں یار!
آنسو بھیگے ہاتھ اُٹھائے، بھٹکتی ہوں دلدار۔
2
کیسے روؤں یار کے آگے، بجھی بجھی ہے آگ،
کیا کیا سنگ و خار ہیں رہ میں، دشت ہے ہیبت ناک،
جو ہیں سینہ چاک، انکی آہ سے گونجے پربت۔
3
کیسے روؤں یار کے آگے، جلن کا کیا اظہار،
چھپ چھپ آہیں بھرتی ہوں میں، آگ میں جل کر یار،
کرتے ہیں اظہار، کوہ کے باسی اور طرح سے۔
4
کیسے روؤں یار کے آگے، انجانی ہیں راہیں،
یار کی خاطر جھکا کے گردن، بھرتی ہوں میں آہیں۔
5
کیسے روؤں یار کے آگے، انجانی ہے راہ،
پل پل یار کا ماتم ہے اور، پل پل لب پر آہ،
دل میں درد اتھاہ، قسمت ہے کہ دشت میں بھٹکوں۔
6
کیسے روؤں یار کے آگے، میرا رونا جھوٹا،
سنی ہے میں نے ویرانوں میں، اور طرح کی آہ و بکا۔
7
ویرانوں کو گلشن جانیں، یار کے جو سودائی،
جا تو اِن کے پاس سکھی! جو حق کے ہیں شیدائی،
کب دیکھیں یکتائی، پھیر ہو جن کی آنکھوں میں۔
8
چھوڑ دے اب تُو دوئی کو تو، یکتائی کو پائے،
ٹیرھی آنکھیں اور کو دیکھیں، یہ نہ یار کو بھائے۔
9
ابھی تو ہے گمرا ہ ابھی ہے، سیدھی راہ سے غافل،
سیدھی راہ پہ چلے اگر تو، راہ دکھائے دل۔
10
لوٹ کے تو مت آنا سسی، دیکھ کہ پب کے پربت،
یار کی راہ میں دشت بچھا ہے، اب قالیں کی صورت،
11
ہائے یہ بادِ صر صر اور یہ،گرم دہکتا میداں،
جُھلس گئے ہیں نیناں، دشت کی گرم ہوا سے۔
وائي
من جائے وہ پیارا، کروں میں آہ و زاری،
کیسے رہونگی زندہ مجھ کو، دردِ ہجر نے مارا،
میرے یار سجن نے سکھیو! اونٹوں کو ہنکارا،
ساجن نے یوں ظلم ہے ڈھایا، چھایا ہے اندھیارا،
من زاری سے من جائے، شاید ساجن پیارا،
برہن بن کر ہولی کھیلوں، رنگوں بھیس میں سارا،
کہے لطیف کہ راہ تکے ہے، اسکا من بیچارا۔
وائي
ساجن مہر کرے، جس کی خاطر بن میں بھٹکوں،
میں تو اس ساجن کی باندی، پلی دنیا کہے،
سنگ اپنے لے جائے ساجن، ساتھ نہ وہ چھوڑے،
رو کر رنگونگی خون سے خون رنگے کپڑے،
آریانی کے عشق میں گھائل، پل پل وہ تڑپے،
عشق کا قہری تیر وہ ساجن، مار گیا موہے،
کہے لطیف کہ نالائق پر، کرم وہ فرماوے۔
سر حسینی
پہلی داستان
1
ٹھہر نہ، سورج ڈوب چلا ہے، چھوڑ دے اب تو سُستی،
شفق کھلے آکاش میں جب تو، دیکھے "کیچ" کی ہستی۔
2
ٹھہر نہ سورج چلا ہے، کرلے اب ہمت،
ابھی تو سورج سامنے ہے کر نہ تو غفلت،
ایسی کر عجلت، کہ پہنچے شام سے پہلے۔
3
ٹھہر نہ، سورج ڈوب چلا ہے، تیز بڑھا دے گام،
"ھاڑے" اور چلیں جو اُن کا، چلنا ہی ہے کام۔
4
دور سے دیکھے کالے پربت، سورج ڈوبا شام،
درد ہی زاد رہ سفر ہے، اس کا دیکھ خرام،
تیز بڑھاتی گام، چلی ہے وہ "ونکار" کو۔
5
اے سورج! مت ڈوب کے کر تو دیر مجھ معذور،
مروں میں پھر اور پہلے دیکھوں، نقشِ قدم پتھروں پر۔
6
کر میں کیا سکتی ہوں اب کچھ دور گیا کوہیار،
سورج ڈوب چلے گا اور میں، بھٹکوں گی کوہسار۔
7
بیٹھے بیٹھے سورج ڈوبا، اُس پربت کے پار،
اب تک اس سنگلاخ زمیں پر، ڈھونڈوں نقشِ یار،
دکھ سے ہو دو چار، اب تو ویراں پربت میں۔
8
میرے سنگ چلو نہ سکھیو!، آگے دشت، سراب،
دور سفر اور اُڑتی دھول، جہاں نہ قطرہء آب،
موت کے ہیں اسباب کہیں دعائے بد نہ، "ہوت" کو دو۔
9
سورج ڈوبا شام ہوئی یہ، رنگ شفق، اشجار،
ڈوب کے سورج نے اے میا! دیا ہے مجھ کو مار۔
10
پیڑوں پر سے دھوپ ڈھلی اور، شفق کے رنگ کھلے،
جس سے میرا جُڑا ہے رشتہ، وہ تو کیچ گئے۔
11
پتھر پر کب نقشِ قدم ہیں، کیا نہ یہاں پڑاؤ،
آخری بار وہ آئے تھے اور، خوب نبھایا چاؤ۔
12
سکھیو! دشت میں مرجاؤں گی، اپنے جت کے کارن،
بھٹکایا اس پربت میں اور، ویراں کر گئے جیون۔
13
جن پر جاں قربان کروں میں، آئے ہیں وہ صحرائی،
دور سے ہی پہچان گئی وہ، چال جو من کو بھائی،
جن کی میں سودائی، وہ آئے ہیں میرے سہارے۔
14
سنی ملن کی بات، یا یونہی بھٹک رہی ہے،
تیرے جیسے بھٹک گئیں جو، چلے تھیں یار کی باٹ،
جتوں کی یہ ہیں صفات، کہ ترس انہیں نہ آئے۔
وائي
گر دیکھا ہوتا حال، پربت میں مجھ دکھیاری کا،
ہائے یہ اونچے پربت جن پر، چڑہنا میرا محال،
دیا جہیز میں دکھیارن کو، دشت، جبل، جنجال،
کہتی تھی ہر پیڑ سے سن مجھ، دکھیا کے احوال،
اس کو گر میں ساتھ لے آئی، جو ہے لعلن لال،
پوجونگی ہر ایک شجر کو، چومونگی ہر ڈال،
دل کو کاٹ کے رکھ دیا ہے جڑ سے دیا نکال،
ایسے زخم کھلے ہیں جیسے، پھول انار کی لال،
پب کے پتھر منکے ہیں، جو بھیج گیا یار،
اس پہ میں قربان جیئے، وہ، میرا لعلن لال،
ہوتا گر معلوم مجھے ان، جتوں کے دل کا حال،
یار کے سنگ میں سیج پہ سوتی، گلے میں بانہیں ڈال،
کہے لطیف کہ آس ہے پوری، آیا حسن کمال۔
دوسری داستان
1
ایک تو دھرتی آگ ہے، ماں!، دوجی من میں پریت اگن،
دونوں اگن میں جل جل کر ڈھونڈ رہی ہے برہن۔
2
انگ انگ میں عشق کی اگنی، پریت میں من یہ جلے،
پریت جلن کیا جانے میا! کرتی ہے تو گلے،
آجا قریب تو میرے، تو بتاؤں کیا ہے درد ہجر کا۔
3
نینن سے یوں نیر بہیں کہ جیسے ساون برکھا،
میں سمجھی یہ عشق ہے، لیکن یہ ہے شعلہ۔
4
روح سے یار کے نقش مٹیں اور، یار کو گر بسراؤں،
تھل کے پپیہے کی صورت، مجھے لو لگے مرجاؤں۔
5
لگے مجھے تو، مجھے ہے عشق تارا،
جس سے روح کا رشتہ، وہ تو کیچ گیا۔
6
ٹپک رہے ہیں نین سے آنسو، جیسے خون کے قطرے،
مار کے اس برہن کو اب تم، کیچ کی اور چلے۔
7
چرخہ لے آ میا، وہاں سے جاں رکھا ہے،
جس کے کارن کاتا، وہ تو کیچ گیا۔
8
اب نہ کتوا پونی میا! میں ہوں اب بے کار،
پونی ڈال دے پانی میں اور، چرخے کو دے وار،
کیچ گیا کوہیار، جس کے کارن چرخہ کاتا۔
9
اب نہ کتوا پونی میا!، میں ہوں اب بے کار،
عشق نے جان نکالی تن سے، ڈھونڈلے اور کاتار،
10
آگ میں جھونکو چرخہ پونی، آسن اور یہ سکھیاں،
عشق میں جھونک گیا ہے میری جان، وہ ساجن سیاں۔
11
سب کے کہنے پر جب کاتا، تار نہ مجھ سے نکلا،
ایسے نینن سے آنسو ٹپکے، بھیگ چلا ہے تکلا۔
12
بھاڑ میں جائے ہوت پنہل اور، میا! اِس کی پریت،
میں نے مانی موت جب دیکھا، میں نے اپنا میت۔
13
بھاڑ میں جھونکوں ان کی بولی، ہوت اور وہ سارے جت،
مجھ کو تڑپا کر وہ خود تو، چھپے ہیں جا پربت۔
14
جوں جوں دھوپ ہو تیز وہ توں توں، تیز بڑھائے گام،
ہوت سے اس کی پریت ازل سے، ہوت ہی اس کا "جام"۔
15
توں توں تیز کرے وہ گام، جوں جوں بھیگے رات،
کرے نہ دوجی بات، ہوت پنہل کی بات ہے لب پر۔
16
نہ تو یوم حساب ہی آیا، نہ ہی دھوپ چڑھی،
ہر ایک چرخہ کاتنے والی، ناتہ توڑ چلی۔
17
جب تک جیئے تو جل، جلنے بن کیا حاصل،
ہر حالت میں چل، وقت کہاں آرام کا۔
18
ہر حالت میں چل، دھوپ ہو چاہے چھاؤں،
دھوپ گئی گر ڈھل، تو کیسے نقشِ یار ملیں گے۔
وائي
میرا ہار سنگھار، میرا حسن جمال ہے ساجن،
ساجن میرے گلے کا گہنہ، جھلمل کرتا ہار،
جن کی عریاں انگ ہیں اُن کو، ڈھانپے تیرا پیار،
تیری ایک نظر سے ساجن، پیاسا تن سرشار،
جھوم اُٹھے ہے تن میں میرا، جب جب ہو دیدار،
ہوت پنہل کے حسن سے سارا، جگمگ یہ کوہسار،
مہک اُٹھے ویرانے سارے، مہکی ہے "ونکار"،
دشت سے پھوٹی مہک اور مہکا سارا ہے سنسار،
میرے جیسے لاکھ کروڑوں، ساجن پر ہیں نثار،
تیری اعلیٰ شان میں تیری، باندی ہوں سرکار،
واری جاؤں گلی گلی پر، جہاں سے گذرے یار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ملا ہے وہ "من ٹھار"۔
تیسری داستان
1
بیٹھے بیٹھے یاد جو آئی، کوئی ادائے یار،
اُکھڑ گیا دل شہر بھنبھور سے، رہنا یاں دشوار۔
2
شہر بھنبھور کے لاؤ کے کارن، بچھڑ گیا کوہسار،
اب تو دکھ تکلیفوں سے، ڈھونڈوں میں کوہسار۔
3
چھوڑو شہر بھنبھور کو سکھیو، رہو نہ یاں ایک پل،
شہر نے کیا کیا درد دیا اور، ہوئی ہیں سکھیاں گھائل۔
4
اُٹھتا ہے اس شہر بھنبھور سے، دوزخ کا سا دھواں،
ڈھونڈ کے راہ کا رہبر ہوجا، دشت کی اور رواں۔
5
درد میں اب دن بیت رہے ہیں، اجڑا شہر بھنبھور،
ان کے ہجر میں تڑپ رہی ہوں، گئے جو کیچ کی اور،
میرے وہ چت چور، کیسے بھولوں لادگئے جو۔
6
شہر بھنبھور سے بہتر ہے اب، دشت کا یہ ویرانہ،
جس نے مجھ کو سکھلایا ہے، یوں تکلیف اُٹھانا۔
7
دشت کے ویراں وسعت سے تو، شہر بھنبھور تھا اچھا،
جہاں پہ سکھیو دیکھا میں نے، اپنے یار کا چہرہ۔
8
بھنبھور کی ناراں عورت نے ایک رشتہ کی خاطر،
اپنا یار گنوایا اسکو ڈھونڈ تو دشت میں جا کر۔
9
شہر بھنبھور تھا ناداں، کہ چلا نہ ہوت کے پیچھے،
شہر نے دل سے کب پہچانا، ہوت میرا گنوان،
جو بھی گئے پہچان، پایا انہوں نے ہوت پنہل کو۔
10
جس نے دل سے یار کو دیکھا، مانا اس کو رہبر،
تب بھی اس کی راہ نہ چھوڑی، چھپ گیا جب دلبر۔
11
برا تھا شہر بھنبھور، دھویا آن کے "آریانی" نے،
ختم کیے سب خوف خطر اور، چھٹی گھٹا گھنگھور،
سکھیوں نے کپڑے رنگوائے، کیا پنہل کو "پور"،
ہر دکھیا کمزور، گھونگھٹ کاڑا کے بیٹھی ہے۔
وائي
پربت میں دیکھیں، تازہ نقش پائے یار،
تیز ہوا اور ریت بگولے، پھر بھی نقش نہ مٹیں،
کستوری وہ دھول جہاں پہ، پریتم پیر دھریں،
اونٹ تو روند چلے پربت کو، ویراں یہ راہیں،
کہے لطیف کہ مجھ برہن پر ، وہ تو کرم کریں۔
چوتھی داستان
1
میری ذات کا علم ہوا تو، آئی ان کو لاج،
سکھیو، صبح سویرے مجھ کو، چھوڑ گئے وہ آج۔
2
ہوتی گر میں بلوچ کی باندی، چھوڑ نہ جاتا یار،
دکھ میں میرا ساتھی ہوتا، آن کو وہ کوہیار۔
3
سکھیو! ان کوہیاروں ، سے، ہوتا گر کوئی ناتا،
سنگ لے جاتا مجھ کو بھی اور، لادتے وقت بلایا۔
4
ان سے ناتہ ہوتا، کرتی، دکھ کا میں اظہار،
مجھ کو خود سے لاج آتی تھی، میں تھی دھوبن نار،
میری ذات کے کار، چھوڑ گئے اے میا!۔
5
صبح کو کی تیاری، روکے نہ رکے دیور،
چلے صبح کو آری، کیچ بسا تھا آنکھوں میں۔
6
رہتا کب وہ آری، گر بال بچھاتی راہوں میں،
کرلی یوں تیاری، شاید کوئی عیب تھا مجھ میں۔
7
تو تو ان کی سنگ نہ جاگی، اب کاہے کو روئے،
یہ کب ریت ہے پریت کی سسی! پریت کرے اور سوئے۔
8
کہاں گئے وہ ساتھی میرے، من کی تھی آدھار،
کس کے دوار پہ جاؤں میں اب، کسی کی رہی سہار۔
9
گئے جو وہاں سےلاد، کس نے میرے ساتھی دیکھے،
پل پل اُن کو یاد، آنکھیں خون کے آنسو روئیں۔
10
دیتی ہوں آوازیں، لیکن، دیتے نہیں جواب،
کبھی تو دوار پہ ناقے تھے جو، ہوگئے اب نایاب،
کیا کیا دیے عذاب، برے اس شہر بھنبھور نے۔
11
چلوں تو کیچ سے دور ہے ساجن، بیٹھوں تو ہے ساتھ،
اپنے اس کیچی کے کارن، بھٹکی میں ہیہات۔
وائي
بھٹک رہی کوہسار، وندر کے اشجار، ڈھونڈے پربت پربت،
میرے درد کے ساتھی ہیں یہ، دشت جبل کوہسار،
تیرے اونٹ چراؤں سائیں!، جہاں پہ سبزہ زار،
موتی جڑ کر خوب سجاؤں، اونٹوں کی میں مہار،
وہ تو سیدھی راہ نہ پوچھے چلے ہے سوئے یار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، انگنا آئے یار۔
وائي
میرے ہوت سجن، میں دشت میں دونگی جان،
چھوڑ کے شہر بھنبھور اے سائیں!، آئی میں تیرے آنگن،
برہ میں پل بھی بیت نہ پائے، تجھ بن اے ساجن،
دکھ ہی دکھ ہیں سائیں، میں دکھیا برہن،
پی کر تیری پریت کا پیالا، ہوگئی مست مگن،
تب تک موت نہ آئے جب تک، پاؤں تیرا درشن،
پل پل بھڑک رہی ہے من میں، تیری پریت اگن،
سنا تھا جب کہ لاد چلیں گے، تڑپی تب برہن،
آنکھ اُٹھا کہ دیکھ تو سائیں، کھل اُٹھے تن من،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، مہر کرے وہ ساجن۔
پانچویں داستان
1
گئے "بیلے" سے گذر کے ناقے، "مانبانی" کے پار،
لے گئے ہیں وہ کیچ کے باسی، میرا سوہنا یار،
ان کی تھی آدھار، جب تھے شہر بھنبھور میں۔
2
شہر بھنبھور میں آئے جب تو، اُن کی تھی آدھار،
دوجوں کی وہ راہ چلے اور، دور گئے کوہیار۔
3
لے جا سارے گہنے اپنے، توڑ دوں ہر کنگن،
جن کے سنگ ہیں پریتم وہ ہی بیٹھیں سیج پے بن ٹھن،
میا طعنے دیتی ہے، نہیں جانتی پریت اگن،
بھٹکا گئے بن بن، مجھ کو ہوت پنہل کے بھائی۔
4
لے جا یہ کم خواب کا بستر، سیج نہیں درکار،
جو کچھ دیا جہیز میں میا!، سب کچھ دوں گی وار،
ڈھونڈوں گی ونکار، میں اس یار کے نقشِ پا۔
5
سیج بنی سنگلاخ زمیں اور، پتھر کا بستر،
رات کو ساتھی حیواں تھے اور، ہیبت کا منظر،
تجھ کارن دلبر، دشت کو سیج میں جانوں۔
6
ہوت پنہل نے سسی کو دی، پریت کی اک سوغات،
سارے جگ میں ہی سسی کو، دکھائی تڑپ نے باٹ۔
7
اے ماں مسافروں سے کیا عشق کا تھا بیوپار،
ایک نظر میں پریت ہوئی جب، دیکھا وہ کوہیار،
لوٹ گئے دل یار، روک نہ مجھ کو اے میا!
8
پردیسی سے سسئی، تونے، کیسے کرلی پریت،
ناداں! تونے کوہیارل کو، کیوں گردانا میت،
سمجھی ہوگی جیت، عشق نہیں ہے کھیل اے سسی۔
9
شہر بھنبھور کے باسی میرا، چھپا سکے نہ اوگن،
ان کو آن کے بتلایا، ذات کی ہوں میں دھوبن،
جبھی ہوئے وہ بدظن، اور مجھ کو سوتا چھوڑ گئے۔
10
لحنِ حسینی کی ہر سُر نے، موہ دیا ہے من،
رات کو زخم وہ سہلائے اور، دن کو ڈھونڈے بن،
خوف ہے یہ ساجن!، کہ سدا کا ہجر نہ آئے۔
11
کب ہے وصل میں حاصل سکھیو! جو ہے فراق میں حاصل،
آنگن آئے وصل ہوا، اور دور وہ لے گئے محمل۔
12
آجا اب تُو فراق! کہ، وصل سے آئی دوری،
سِل گئے حسرت وصل کے گھاؤ،ہر حسرت ہوئی پوری۔
وائي
میرا حال پریشان، کوئی آن نہ مان، تجھ بن یار بلوچا!
دیکھتی کارن ناقوں کو، تڑپتی ہوں ہر آن،
ہنستا بستا شہر جوں صحرا ، گلی گلی ویران،
بھٹک رہی ہوں صحرا صحرا، تنہا اور حیران،
بین کروں دن رین ملن کو درشن کا دے دان،
آری جام کو عشق کا سکھیو! دل میں کاری بان،
اس پگلی کو دے گئے کیا کیا، دکھڑوں کا سامان،
کب پہنچوں گی کیچ کو کب ہوگا وہاں مکان،
شاہ لطیف کوی کا ساجن! تو ہی ہے اگوان۔
چھٹی داستان
1
جاگی من میں اُمنگ، آئے ہوت بھنبھور میں،
دیکھ کے ہوت کے سنگی ساتھی، جھوم اُٹھےمیرے انگ،
من میں عجب ترنگ، میرے دور ہوئے سب دکھڑے۔
2
درد دل نے آن دکھائی، یار کی راہ گذر،
درد ہوا رہبر، تو پی سنگ ملن ہوا۔
3
درد دل انمول سکھی ری! درد سا اور نہ دھن،
بھرلیں اب دامن، درد کے ہم بنجارے بن کر۔
4
سکھ خوشیاں سب وار کے سکھیو! کروں میں سر کا سودا،
سر دے کر گر درد ملے تو، سودا جانوں سستا۔
5
سکھ خوشیاں سب دے کر میں نے، لیا جو درد کا مال،
درد نے نقش یار دکھائے، درد کا یہ ہی مال۔
6
درد میں گھلتی جاتی ہوں، اے درد! بڑھا نہ کسک،
درد میں ایسے جان گھلی ہے، جوں پانی میں نمک۔
7
چھوڑ نہ دینا اے غم جوں چھوڑ گیا ہے یار،
بعد سجن کے تم ہی تو ہے، جسے سناؤں دل کا حال۔
8
دل میں درد ہی درد ہے سکھیو!، درد ہوا نہ کم،
چڑہے کنویں کا پانی جوں، دل میں یار کا غم۔
9
دل میں درد ہی درد ہے سکھیو، ذرا بھی کم نہیں ہوتا،
آب کو سیلاب کنویں کا، درد ہے آج یوں زیادہ۔
10
درد ذرا بھی کم نہیں ہوتا، شدت سے ہے بڑہتا،
درد اتھاہ ہے دل میں میرے اپنے یار ساجن کا،
کرے جو ختم حیا، ایسا درد دل دیا ہے۔
11
چپکے سے اس دل میں جمائے، درد نے آن کے ڈیرے،
کیونکر بتلاؤں کہ درد، سدا دل دمکے۔
12
اے درد میں ہوں عادی تیری، تو بدل نہ دینا خُو،
پل بھر کو بھی چھوڑ نہ دینا، میرے دل کو تو،
مل جائے مہرو، تب جانا تو اس دل سے۔
13
ایک ابھرے تو دوجا چمکے، طرح طرح کے غم،
عشق یار نے ہوش گنوائے، رہا نہ اب دم خم،
تیر نظر پریتم، مار گیا مجھ برہن کو۔
14
لگا ہے بان بلوچ کا، ناقوں کے ہیں ستم،
پھنس نہ جائے ناقے رہ میں، پڑے نہ شب کو شبنم،
ایک نظر پریتم! ٹھنڈک ہے آنکھوں کی۔
15
روک نہ اب اے میا! مجھ کو، لگا بلوچ کا بان،
کیچ تلک کی دھرتی رنگ دوں، تن ہو لہولہان،
کرینگے یہ ہلکان، پریت نے گھیر لیا ہے۔
16
دل میں درد جھلستا دشت، آگ ہوئی ہے دھرتی،
جلتے دشت میں جینے کی، امید نہیں اب باقی۔
17
شاید جگ سے لاد گئی ہے، ہر اک درد کی ماری،
کِس کو دل کا درد سناؤں، پوچھوں کہاں ہے آری۔
18
مل بیٹھیں جب درد کے مارے، کریں وہ تب ماتم،
اوروں کا جگ دکھلاوا، روئیں جن کو یار کا غم۔
19
کہاں ہے کوئی درد کی ماری، نہ ہی کریں ماتم،
مجھ کو ہی اب مار رہے ہیں، میرے درد و غم۔
20
بانٹ سکوں تو بانٹ لوں سکھیو! اپنے رنج و الم،
اور نہ جانیں، وہ ہی جانیں، جن کو یار کا غم۔
21
مُٹھی بھر غم ملے ہیں سب کو، میرے غم بسیار،
سر پر دھر کر درد کی گھٹڑی، صدائیں دو ہر دوار،
درد کا کاروبار، جو کرتے تھے وہ لاد گئے۔
22
کس کر باندھ کمر اے سسئی! کیچ بہت ہے دور،
راہ میں اے رنجور!، مر نہ جائے بھٹک بھٹک کر۔
23
کس کر پھر سے باندھ کمر، ہوجا اب تیار،
درد میں دشت نہ بھٹکیگی، بن تیرے کوئی نار۔
24
دکھ ہی حسن ہے سکھ کا فرمان، دکھ بناں سب سکھ،
دکھ ساجن کو آنگن لایا، اعلیٰ ہے یہ دکھ۔
وائي
جس سے پریت ہے میری، اس کوہیاری کی کوئی،
من میں بات چھپی ہے،
روند کے اونچے پربت میں تو، دیکھوں ساجن وہ ہی،
چلوں میں "ھاڑے" یار کے کارن، جس سا اور نہ کوئی،
پیغام اسے تو پہنچا راہرو جس سے پریت ہے میری،
ہوت چلیں اور میں بیٹھوں کیا پریت کی ریت ہے یہ ہی،
سسئی کے اس سر کو سائیں، لے جاتا وہاں تو لے،
اس کے قدموں میں دفنانا، جس سے پریت ہے موہے،
کہے لطیف ملادے ساجن، جس کے کارن روئی۔
ساتویں داستان
1
اپنے ہوت پنہل کو سکھیو، جو ڈھونڈیں وہ پائیں،
وہ ہی پہنچیں یار کے آنگن، اسے جو ڈھونڈنے جائیں۔
2
گر ہے من میں پریت تو ڈھونڈن، ورنہ کر نہ طلب،
یار کو ڈھونڈنے جاتے ہیں وہ، یار سے دور ہیں کب۔
3
یار کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، ملے نہ وہ کوہیار،
کہیں ملن سے ختم نہ ہو یہ، تڑپ طلب اور پیار۔
4
ڈھونڈوں اور نہ پاؤں ان کو، جو کل کے ساتھی تھے،
سمیٹ کے سارا سامان گئے وہ جانے کس مقصد سے۔
5
تجھ کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، سدا رہے تو دور،
پل بھی بیت نہ پائے تجھ بن، سدا ہو من رنجور۔
6
تجھ کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، تن کا ہو نہ ملن،
انگ انگ میں پیاس ہو تیری، سدا یہ تڑپے برہن۔
7
تجھ کو ڈھونڈوں اور نہ پاؤں، مان لے عرض تو میری،
تیری پریت میں جاں نکلے اور، تڑپے درد کی ماری،
تجھ سے ملے بیچاری جب شام ڈھلے اور سورج ڈوبے۔
8
چھوڑ دیا پربت پہ چڑھنا، ہار دی میں نے ہمت،
من میں یار کی چاہت، ڈال گیا ہے درد کا دام۔
9
چھوڑ دیا پربت پہ چڑھنا، چلوں نہ اب اک گام،
تیرے ملن کی آس میں میں نے، سہے پربت کے آلام،
تو ہی اب جام، میں تو تھک کر بیٹھ گئی ہوں۔
10
تھک کر بیٹھ گئی ہوں ساجن!، اب تو آن کے تھام،
تھکی ہوئی کی پریت ہے تجھ سے، رینگتی ہوں اب ہر گام۔
11
کرے گی جو بھی پیار، میری طرح اِس ہوت پنہل سے،
روندے گی کوہسار، اور پیا ملن کو ترسے گی۔
12
کرے گی جو بھی پیار، میری طرح اس ہوت بلوچ سے،
روئیگی زار قطار، پل پل ہجر کی سولی ہوگی۔
13
کرے گی دل کی باتیں، جو بھی ہوت پنہل سے،
سدا ہی اُس کی آنکھیں، روئیں گی خون کے آنسو۔
وائي
کیسے لاڈ کروں اے یار! جت زور آور ذات،
جل جل بھٹی میں راکھ کی ڈھیری، اگنی تیرا پیار،
کیچ دھنی کے کارن میں تو، بن میں کروں پکار،
شام ڈھلی تو دھندلائے سب، نقشِ پائے یار،
تیری پریت کا پیاسا تن من، مانگے تیرا پیار،
ھانک کے لے گئے اونٹ سکھی اور، گئے برہن کو مار،
بھیگے نیناں بھٹک رہے ہیں، ڈھونڈیں تیرا دوار،
میرے نینن میں نیند بھری تھی، دور گیا دلدار،
دشت میں دیکھا دکھیاروں کو، روتے زارو قطار،
کہے لطیف کہ ہیرے کی ہے، دیکھی چمک اے یار۔
آٹھویں داستان
1
مرتی ہوں اے ماں کہ وہ تو، اُجڑا کرگئے آنگن،
مارے گی مجھ برہن کو اب، تیری ہوت! لگن،
چھوڑ گیا وہ ساجن، اب کیا جینا اس جگ میں۔
2
گئے اورانگ کے آنگن وہ تو، ہائے رے صد افسوس،
دیوانی کا دوست، ساتھی ہے ویرانے میں۔
3
گئے اورانگ کے آنگن اب تو، ان کو ڈھونڈنے چل،
پل نہ بیٹھ بھنبھور میں ملیگا پنہل،
چل تو دشت کو چل، تو ملن ہو اپنے پریتم کا۔
4
گئے اورانگ کے آنگن اب یہ، کرے گی دکھیا کیا،
آگ میں جھونکوں شہر کہ جس کو، ساجن چھوڑ گیا۔
5
چھوڑ کے اس دکھیا کو وہ تو، گئے اورانگ کے آنگن،
ہوت بلوچ تھے اونٹوں پر اور، پیادہ پا دکھیارن،
ہاتھ اُٹھا کر روتی ہے اور، رینگتی ہے یہ برہن،
ماتم ہے اے ساجن!، کوئی تو جاکر کہہ دے اس کو۔
6
اتنی جان پہچان تھی پر، چھوڑ گئے کوہیار،
تن کھورے کی مانند دہکے، من میں ہے انگار،
مثل جوئے ہار، دشت میں بہانے پڑگئے آنسو۔
7
توڑ کر گہرا ناتہ گئے، دیور دشمن جانی،
سکھیو! کیسے چھوڑ سکوں میں، اپنا وہ آریانی،
بھرتی رہی میں پانی، پر خدمت میری کام نہ آئی۔
8
ہوتا گر معلوم کہ مجھ سے، بچھڑیگا پنہل،
دھو دیتی قسمت کا لکھا، میں تو روزِ ازل،
سکھیو! دشت، جبل، پھر یوں نہ بھٹکنے پڑتے۔
9
اُٹھ تو اے برہن، چلے ہیں ہوت بلوچ،
ان سا اور سجن، تجھ کو کون ملے گا جگ میں۔
10
لپک کے ان کو لے آتی جب، چلے تھے تیرے خان،
جھیلتی کیوں تو دکھڑے اور کیوں، ہوتا غم ہر آن۔
11
جہاں پہ ٹولوں کی صورت میں الگ ہوئے تھے ناقے،
کیوں نہ اپنی جان فدا کی، تونے وہاں پہ جاکے۔
12
رما کی دھونی راہوں میں اب، ڈھونڈ تو اپنا میت،
گئے وہ پربت پار اے سسی!، توڑ نہ ان سے پریت۔
13
ٹوٹ کے الگ نہ ہو کہ سارے، جائیں گے پربت پار،
تنہا کہیں نہ رہ جائے اور ڈھونڈ نہ پائے قطار۔
14
ان کی اپنی بولی کی میں بات سمجھ نہ پائی،
سن کر انکی باتیں میں تو، اپنی بات ہی بھولی۔
15
جان سکی نہ بولی ان کی، بولی تھی کہ پہلیی،
کبھی بھی ان سے ایسا تعلق، رہے نہ پھر اے سہیلی!
16
آئے وہ "ونکار" سے آکر، بولے ایسی بولی،
سن کر بولی نیند اُڑی، میری ان آنکھوں کی۔
17
پوچھا ہے جب ہوت پنہل کا، پھر کیا جگ کے بندھن،
دین دھرم سب دور ہوئے، دیکھ آئے جو ساجن۔
18
چلو اور خوش رہو، تم دکھ نہ دیکھو مت کہیں،
جو ہے تمہارا رہبر تم پہچان کراؤ اس کی،
تم بھی کروں یوں نیکی، اور میں بھی ملوں ساجن سے۔
وائي
دشت میں چھوڑ نہ جانا، تیرا دامن تھام لیا ہے،
میں لاوارث اور ابھاگن، تم تو پریت نبھانا،
دشت و جبل میں مجھ دکھیا کو، ساجن چھوڑ نہ جانا،
اے اسوارو! دھیان سے میرے، ہوت کو واں لے جاناں،
میں نے تو گن گنوا دیئے ہیں، اپنے گن دکھلانا،
کبھی تو میرے آنگن میں، جوگی بن کر آنا،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، آنا لوٹ کے آنا۔
نویں داستان
1
خنجر کب ہے مارے مجھ کو، مارے درد نہاں،
درد کہ جس میں جی نہ پائیں، درد ہے بے درماں۔
2
کب خنجر نے مارا مجھ کو، مار گیا ہے درد،
جنہوں نے مارا کہاں گئے ہیں جت وہ دشت نورد۔
3
سکھیو! ایسے چیر دیا ہے، جتوں نے میرا دل،
سینا چاہوں زخم جگر پر، سینا ہے مشکل۔
4
آئیں شہر بھنبھور میں سکھیو! ایسے بلوچی خان،
جن کے سنگ رہیں تو جاگے، اندر کا انسان۔
5
بھول کے خوشیاں، رو تو اے دل!، کر تو اُسی کی بات،
چھوڑ گیا وہ یار پنہل بس، دو دن کا تھا ساتھ۔
6
پل پل آہ و بکا سے سکھیو! گونجے ہے آنگن،
دل بسمل اور ہجر جاناں، تڑپن اور جلن،
دشت کو ہوت، سجن! پگھلاؤں گی خون سے۔
7
رونے سے کیا حاصل سسئی!، آئے گا نہ سجن،
کیسے کیسے ستم کییئے ہیں، گھائل ہے تن من،
اب تو اللہ کارن، کبھی نہ کوئی دھوکہ دے۔
8
روؤں تو یہ کھیل ہے گویا، ہنسوں تو روئے دل،
دیکھ کے مسکائینگی اکھیاں، ہوت کی صورت جھلمل۔
9
کب یہ آنکھیں روئی تھیں جب، پریتم گئے تھے لاد،
یار کو جاتا دیکھتی رہ گئیں، کر نہ سکیں فریاد۔
10
پریت کے مارے نہ کوہیارون کے، چپ رہتے ہیں نین،
بن ساجن یہ نین ابھاگے، روتے ہیں دن رین۔
11
برس برس کر تھک گئے، روئیں خون کے آنسو نین،
اب بھی پب کی اور جمے ہیں، پل بھر نہیں ہے چین،
دوست نہیں یہ تین، کہ روک سکے نہ ساجن کو۔
12
برس برس کر برکھا نے، سب مٹائے نقش پا،
پھر بھی پوچھ رہی تھی برہن، دیس اپنے ساجن کا۔
13
جل کر راکھ ہوئی ہے برہن، اے نہ اور جلاؤ،
ذرا تو آگ بجھاؤ، ذرا تو مارو چھینٹا۔
14
چھاؤں میں بیٹھی پیڑوں کی اور، بہائے خون کے آنسو،
کب دیکھوں گی تیری صورت، کب آئے گا تو۔
15
جہاں پہ میرے ہوت بلوچ نے رکھے اپنے قدم،
تکتی ہوں ان نقشِ پا کو، میں تو بس ہر دم۔
16
اچھا ہے تو کہ مرجاؤں، لیتی ہیں سب نام،
باندی بن کر گھوموں میں تو پڑوس میں میرے جام۔
17
جان سے بس اک بار ہی مارو، دکھڑے ہوں سب ختم،
ہجر میں کیونکر جیتی ہوں میں، رِستا ہے ہر زخم۔
اضافی بیت
18
جیتی ہوں نہ مرتی ہوں، تیرے ہجر میں یار،
تیری یاد میں جاں نکلے اور، ختم ہو یہ آزار۔
19
مرجاتی تو کل اگر تو، ہوتا وصل یار،
موت بِنا کب کیا کسی نے، پریتم کا دیدار۔
20
آج مروں یا کل، مروں میں منزل پر،
خون ہو ساجن پر، تا کہ میرا سکھیو۔
21
مرجا بھٹک بھٹک کر پب میں پنہوں کارن،
سکھیوں میں ہو نام کہ، مری ہے پیار میں برہن۔
22
جس کے نین میں نیند ہو اس کا، کب ہے کیچی میت،
پہلے چڑھ تو سولی پر اور، پھر تو کرلے پریت۔
23
اے پربت تُو بتا کیا، چھوا تھا اس کا دامن،
غم سے زیادہ پنہل کے، روتے تھے نینن۔
24
چبھا تھا دل میں تیر، اس کیچی کے پیار کا،
درد کی تھی تصویر، لگا تھا تیر نشانے پر۔
25
کہا یہ ہر ایک رہرو نے ڈھونڈ لے کیچ ہے دور،
سمن کہ بات کو قدم بڑھائے، کرلے دشت عبور۔
26
اے رہرو، کیا تھا تونے، ان کا کوئی نشان،
کیا اس محمل میں تھا میرا، ہوت بلوچی خان۔
وائي
چھوڑ بھنبھور میں جاؤں گی، کب دور ہے دیس سجن کا،
بڑی کٹھن ہیں راہیں پھر بھی، اپنی منزل پاؤں گی،
اپنے یار پنہل کو میں تو، دشت میں ڈھونڈ کے لاؤں گی،
سکھیو ہمسر ان کی، میں بھی جب ہو جاؤںگی،
ملیگا ساجن سنگ اس کے، شکوے خوب کرونگی،
فریادیں فراق کی، سجن کو میں خوب سناؤں گی،
کہے لطیف وہ آئے گا، میں چھگی میں جا ملوںگی۔
دسویں داستان
1
لب پر آہ شیون اور وہ، پیار سے قدم اٹھائے،
کیسے گھونٹھٹ کاڑیگی جو، راہ سے لوٹ کے آئے۔
2
تیز بڑھا ہر گام اے سسئی!، پیچھے کو نہ پلٹ،
جس کے من میں پریت ہو وہ تو کاڑیگی گھونگھٹ۔
3
چھوڑ نہ آہ بکا اے سسئی!، دیتی رہ تو صدا،
شاید کوئی صورت نکلے، کرلے یاد پیا۔
4
یوں دے اس کو صدائیں سسی!، گونجے دشت اور بن،
تجھ سے دور ہے پھر بھی سن لے، صدا وہ تیرا ساجن۔
5
پیار کٹاری مار نے آیا، بن کر میری موت،
میری جان قربان ہو اس پر، سدا جیئے یہ ہوت۔
6
پوچھ رہی ہے قاصد سے اور، بیٹھی وقت گنوائے،
کیسے ہوگا وصل کہ جب تک، قدم نہ تیز بڑھائے۔
7
بیٹھ کے وقت گنوائے سسئی!، کیسی ہے یہ چاہ،
توڑ دے ایسے رشتے جوکہ، روکیں تیری راہ۔
8
وقت گنوائے اور کہے کہ اس سے تیرا رشتہ،
تیرا نہیں شناسا، وہ تو ہے بیگانہ سسئی۔
9
کیا جانیں یہ پڑوسی کیسے، روتے بیتی رات،
ایک نظر میں گھائل کر گئے، جت تھی جن کی ذات،
درد، الم، آفات، سنگ تھے راہ میں سسئی کے۔
10
کوئی پڑوس میں رویا تو پھر، زخم ہوئے سب تازہ،
تیرے پسینے سے دھوؤں گی، پریت کا زخم نیارہ،
تجھ پر اے کوہیارا، میری جان فدا ہے۔
11
من کو نہیں قرار کہ اب تو، کرتے ہیں تیاری،
لاد کے سارا ساماں اپنے، دیس چلے ہیں آری۔
12
کیا کیا اس نے جتن کیے تھے، کوہیارے کے کارن،
پوچھے ہر اک قاصد سے کہ، کہاں دیور، ساجن،
بھٹکتے دکھیارن، "لموں"، لسبیلے" سے گذری۔
13
اس دکھیاری برہن پر تو، کرنا مہر اے یار،
رادِ راہ بھی پاس نہیں ہے، تیری ہے آدھار،
آن کے اے کوہیار، دے تو دلاسہ دکھیارن کو۔
14
مہر کی ڈال نظر، اس دکھیا برہن پر،
میں تو تیری باندی ہوں، جاؤں گی اور کدھر،
تو چھاؤں چھپر، دے تو دلاسہ دکھیا کو۔
15
جُھلا کے جھولا ماں نے مجھ کو، دی تھی درد کی لوری،
ملے تھے سکھ اس کارن کہ میں، درد سے بھر لوں جھولی۔
16
دکھڑوں نے ہی پالا اب ہیں، درد و الم، آزار،
سکھ تھے کب میری قسمت میں اور، کب تھا صبر و اقرار،
جندڑی ہے یوں یار، جیسے درد کی بیل ہو کوئی۔
17
جنم لیا تو درد ملا اور، جوبن میں آزار،
قسمت میں تھے دونوں دکھڑے، سہنا میرے یار۔
18
مجھ سے پہلے درد و الم، ہوگئے ہیں تیار،
چلو تو ڈھونڈیں ان کو جو گئے، وندر کو ہیں کوہسار۔
19
پہنچی جب وہ "ہاڑے" میں تو، بیت چلی تھی رات،
ہوگئی جب پربھات، تو پوچھا یار کا ہر قاصد سے۔
20
کوئی تڑپ ہے اور نہ طلب ہے، نہ ہی وصل کی بات،
عشق نے چھوڑ دیا ہے جگ کو، کہاں وہ احساسات،
عشق تھا ان کے ساتھ، جو عاشق لاد گئے ہیں۔
21
جن کے من میں عشق ہے وہ ہی، پائیں درد کی دولت،
ڈھونڈ نہ اس کو باٹ پر، ملیگی گھر میں الفت۔
22
بندھا ہے عشق کا بندھن سائیں، ڈھونڈنے سے مل جاؤ،
ابھی آن کرو، جو کرنا موت کے بعد ہے۔
23
مت ہو تو مغموم، میں دور نہیں ہوں تجھ سے،
گو دکھنے میں ہیں دور، حد دونوں کی ایک ہے۔
24
دیکھا ہے گر ساجن، تو اسکی بات کرو،
اس ساجن کے کارن، کاٹتی ہوں میں رو رو راتیں۔
25
رنگ لیا تھا رات، چولا یار کے کارن،
بھیگ گیا پربھات، سکھیو!، سارا اشکوں سے۔
26
بیاہ کی رات خوشی سے سکھیاں، بانٹ رہی تھیں کپڑے،
میری ماں مجھے دے رہی تھی، پتھر تب پب کے۔
27
بیٹھے بیٹھے دل میں درد کی، سکھیو!، ٹیس اُٹھے،
جیئرا ایسے جلے، سانس بھی جیسے آگ ہو سکھیو!
28
کب وہ جتن کیے کہ جن سے، ملتا وہ کوہیار،
تیز قدم کب اُٹھے تھے تیرے، سُست تیری رفتار۔
وائي
اونٹ بھی روتے تھے سارے، دیکھ کر دکھ سسئی کا،
اونٹ جتوں نے خوب سجائے، جگمگ اونٹ کجاوے،
پیٹھ پہ چابک برس رہے تھے، کیسے لوٹ کے آتے،
باگ ہے ملک کے ہاتھوں میں، بے بس اونٹ بیچارے،
رات ڈھلی گونجیں آوازیں، گونجے پربت سارے،
تیری ذرا بھی پروا اب تو نہیں کرتے کوہیار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے، اب ملیں بھی وہ پیار۔
وائي
وہاں بڑھائے تیز قدم، جہاں پہ دیکھے نقشِ پا،
نقشِ پا پہچانے یوں تھا، نین میں پیار بسا،
ساجن اپنے دیس سدھارے، ڈھونڈے وہ اس جا،
جس نے دشت میں بھٹکایا وہ، ساجن ہے کس جا،
جہاں پہ پھل اور پھول ہیں وہ ہی، دیس ہے ساجن کا،
بھٹک بھٹک کر مرجاؤں گی، ساجن سب آجا،
چھوڑ گئے اس دکھیا کو اور، تھا دل میں میل بھرا،
کہے لطیف کہ دشت و جبل میں، مل گیا ہے وہ پیا۔
گیارہویں داستان
1
سکھیو!، پریت کی ریت یہ ہی کہ، دکھڑے ہوں ہر دم،
دشت کے رنج و الم، دے گئے مجھ کو دیور۔
2
کہے جو ان سے آری ویسا، کرتے نہیں وہ جت،
کیسے کیچ میں پہنچ سکوں گی، جب ان کی یہ حالت۔
3
بات نہ مانی آری کی وہ کچھ اور تھے من میں ٹھانے،
لپک کے نکلی شہر بھنبھور سے، دشت کی خاک اڑانے،
آئی تھی جان گوانے، اور سوئی وہ خاک کے سیج پر۔
4
اے پربت کی راہ! بتا یہاں رکا تھا ان کا محمل،
جن کے ہجر میں روتے روتے، خون ہوا ہے دل۔
5
یادِ یار یوں برس اس پر جوں ساون کے بادل،
ایسا عشق لگایا تھا کہ، تڑپ رہی تھی پل پل۔
6
سکھیو!، دیکھ لو کیچ، جو دیس ہے یار پنہل کا،
ڈالا پریت کا پیچ، اب تو ان کی یاد ہے پل پل۔
7
مری تو اس نے لاش اُٹھائی، جس کی تھی چاہت،
کیسے یار کی دید کو ترسی، برہن کی الفت،
لاش ملی آریانی کو، ڈھونڈ کے ہر پربت،
دفن ہوئی میت، اس کی یار کے قدموں میں۔
8
کچھ کو ان کی پریت نے مارا، جو تھے شاہ سوار،
مجھ کو تو ناقوں نے مارا، مارگئے اسوار،
عشق کرے جو نار، دیکھے گی وہ دکھڑے۔
9
جس کے نازک پیر ہیں سکھیو! وہ میرا پریتم،
آن کے تم بھی دیکھو سکھیو! اس کے نقشِ قدم،
کر گئے یار ستم، جت تو اس بیچاری پر۔
وائي
میرا جی اے جاناں! تجھ بن یہاں نہ لاگے،
میں کیسے بسراؤں، پریت بھرے وہ نیناں،
کیسے جی کو روکوں، دور ہیں جان کی پرساں،
جوڑوں ہاتھ فریاد کروں میں، کارن اپنے سیاں،
کہے لطیف ملوں ہوت سے، جو ہے میرا جاناں۔
وائي
ہوگئی میں بے بس بان بلوچ کا لاگا،
پب کی بل کھاتی راہوں میں، میرا وجود ہے بکھرا،
پھر بھی تڑپ ہے کیچی کی کہ جاؤں میں اس جا،
خود کو گنوانا نقشِ پا، نہ رہا کوئی کھٹکا،
پڑا ہے پالا اندھے جگ سے، بھاگ ہے میرا ایسا،
اتنے شہر بھنبھور میں، نہیں کوئی اب میرا،
شام کو ہی میں سوئی اور، درد ہجر کا آیا،
درد، مصیبت، دکھڑے، ہوا ان سے ہے رشتہ،
جس کو دیکھ کے جیتی ہوں کہیں وہ نہ دے بسرا،
مرونگی میں وصل کی خاطر ،جب تک ہوں زندہ،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، ملن سجن سے ہوگا۔
وائي
میرے ہوت کو دیور، کب سمجھی تھی لے جائیں گے،
وہ آئے تھے آنگن میں، میں تو سمجھ نہ پائی،
مار کے اس برہن کو، چلے وہ دور سفر،
دیکھوں دیرے دوست کے، جہاں ہے میرا دلبر،
صبح صبح وہ لاد گئے اب، پوچھے راہ گذر،
روکتی میں اونٹوں کو، باندھ رسے کس کر،
ہجر یار میں سکھیو، من میں ہے محشر۔
بارہویں داستان
1
میری طرح گر ہوت کا سکھیاں، کر لیتیں دیدار،
مجھ کو کہتیں ڈھونڈ اور خود بھی ڈھونڈیں کوہسار۔
2
ہوت نہ دیکھا سکھیوں نے، ان کا ہے کیا دوش،
رہتا کب پھر ہوش، میری طرح وہ نیر بہاتیں۔
3
شاید اور طرح سے دیکھا، سکھیوں نے ساجن،
کر لیتیں درشن، میری طرح تو ہوش گنواتیں۔
4
شاید اور طرح سے دیکھی انہوں نے یار کی صورت،
صبح و شام کا ہوش نہ رہتا، جاگتی ایسی چاہت۔
5
دیکھتیں میرے اس ساجن کی، سکھیاں گر مسکان،
درد امڈتا تن من سے اور، تڑپتیں وہ ہر آن۔
6
کرلیتیں اس ہوت پنہل سے، سکھیاں گر اک بات،
روتیں آہیں بھر کر اور ہوتیں، صحرا کی آفات۔
7
میرے ہوت سے کر لیتی تو، میا! اگر اک بات،
جیون بھر تو بھول نہ پاتی، باتیں اور صفات۔
8
سدا رہے یہ روگ سکھی ری!، کبھی نہ صحت پاؤں،
پربت صحرا بھٹک بھٹک کر، نینن نیر بہاؤں۔
9
اے پربت، جو سہے ہیں دکھڑے، عیاں نہ ہوں بِن پریتم،
کیسے سکھ وہ سہہ پائیگی، دکھ جیسے ہے ہر دم،
تجھ سی کہاں میں ہمدم، تجھ سے ہے بس پریت کا ناتہ۔
10
اورون کا ہے حقیقی تعلق، میرا پریت کا ناتہ،
میرے من میں ساجن کی اک، بات ہے اب پوشیدہ،
ذرا سا پیار کا رشتہ، کب ہے حقیقی تعلق۔
11
پل پل کر پربت میں ماتم، بھول نہ آہ و بکا،
خون تیرا دل روئے سسی! چھپ چھپ نیر بہا،
ساجن تجھے ملیگا، صبر میں بڑی ہی طاقت ہے۔
12
ہائے چلے ہیں دور سفر کو، روٹھ کے میرے یار،
کیا برہن سے روٹھ چلے ہیں، کیچ کو ہیں تیار؟
اک پل بھی کوہیار، میں تو میا! بھول نہ پائی۔
13
آہ و بکا بھی کم ہوئی جو، کرنی تھی بیوہ،
پنہوں کو کس نے پایا، خون کے آنسو روئے۔
14
ہائے دور گئے ہیں، بہت دم میرے ساجن،
آکر میرے آنگن، کب کاگا بولیگا اے ماں۔
15
ماریگی خاموشی ہی اس کی،بہا نہ خون کے آنسو،
خودداری سے یار گنوایا، چھوڑ نہ ہمت تو۔
18
میں ہوں ٹیڑھی راہ پر، اوروں کی راہ ہے سیدھی،
جو بھی عشق کریگی، وہ پڑیگی مصیبت میں۔
19
مری ہے جو منزل پر، فکر ہو کیسی اسکو،
قتل کرو تم اسکو، تو ختم ہوں سب اندیشے۔
20
کس سے باندھا بندھن میرا، ہوت بلوچ کے،
اس میں پڑ گئی گانٹھ، جسے کوئی نہ کھول سکے۔
21
کیا جانے کہ ہوا ہے کیا اب، جاتی ہوں میں کہاں،
کاٹوں سارے انگ میں اب تو، کاٹوں انگلیاں،
اوروں کی خوشیاں، مجھ کو ہجرِ یار ملا ہے۔
22
سمجھی لمبا سفر کیا ہے کھڑی ہے ایسی جگہ پہ،
روزِ ازل سے پریت لگی ہے، اب تو موت ہی آئے۔
23
ایسی ویران راہ میں میا، دردِ یار تھا رہبر،
کوہیار کامل، درد نے مجھے دکھایا۔
24
اونچی نیچی دشت کی راہیں، ہوچھے راہ میں رہبر،
ان کو راہ میں رہزن گھیریں، سہا کریں جو سفر،
بڑا ہے خوف خط، رہبر بن نہ راہ ملیگی۔
25
ویراں راہ میں رہزن ہیں اور، پربت کا ہے سفر،
دور سفر کو جانے والے!، سنگ تو لے رہبر۔
26
بہت بلوچ ہیں جگ میں لیکن، سب کا وہ سردار،
لاوارث کا وارث بن کر، آئے گا انگنا یار،
جن کی نہیں سہار، ان کے سر پر ہاتھ دھرے گا۔
27
بہت بلوچ ہیں جگ میں میرا، آریانی ہے سہارا،
دل میں خوب سجایا میں نے، چُن کر ہوت وہ پیارا،
جب مالک ہوت دلارا، وہ کیسے لوٹ کے آئے۔
28
سب ہی اِس کو پگلی جانیں، جو ہو یار پہ قربان،
ہوت بِنا اب کون ہے ایسا، ڈھانپےے انگ جو عریاں،
جس نے دیکھا جاناں، وہ ہی جانے ہجر کا عالم۔
29
دور سے ناقے آتے دیکھے، شاید آیا ساجن،
بِن اس کے گر اور کو دیکھیں، اندھے ہوں یہ نینن۔
30
لوٹ کے آنا طعنہ سمجھیں، دیکھیں جو ساجن،
سر واریں وہ ہاپُے یار پہ، ان کا یہی چلن۔
31
راہ کے دکھ ہیں اعلیٰ جن پر، سکھ بھنبھور کے قربان،
تیرے سکھ کس کام کے میا!، اور تیری سب خوشیاں،
مانگے اپنا جاناں، میرا دل اے میا!
32
جت زور آور ذات سے اس کا، ایسا عشق ہوا،
ٹھکرائے گر جب کہے وہ، جت نے مان دیا۔
33
اچھا ہے کہ ہوت پنہل سے، ہوا ہے میرا پیار،
جس کے کارن کیچ میں پہنچی، دیکھا شہر یار۔
34
دشت سے میرا ناتہ ہے اب، کون چلے گی سنگ،
دیس ملیر کی مہندی سے میں، رنگوں گی اپنی انگ،
یہ ہی پریت کے ڈھنگ، کہ ڈھونڈیں جام پنہل کی چھاؤں۔
35
یہ ہی پریت کی ریت کہ اب تو، ان کو ڈھونڈنے جا،
تو سوئی تو لاد گئے، ناتے اور پیا۔
36
سنگ نہیں لے جاتے سکھیو!، مجھے وہ اپنے دیس،
ان سے بڑھ کر کروں گی خدمت، "گھگھرے" جن کا بھیس۔
37
ہوت بلوچ تھا کپڑے دھوتا، ایسی تھی تب شان،
اب تو ساتھ نہیں لے جاتے، دکھلاتے ہیں آن۔
38
کوہیارل کے کارن اب میں، ڈھونڈوں کون سی باٹ،
میں سمجھی کہ دشت میں وہ بھی، ہوگا میرے ساتھ۔
39
کوہیارل بھٹکائے، دشت و جبل کی مشکل راہیں،
ایسا دیس دکھائے، جو پہلے کبھی نہ دیکھا سکھیو!
40
پھٹا سا بھیس اُترا چہرہ، عشق کے یہ آثار،
دل میں ایسے گھاؤ سجائیں، جانے نہ سنسار،
شروع سے ہی اے یار! ہم نے درد سے ناتا جوڑا۔
41
سر سے ڈھلکی چنری میری، پھٹا پھٹا ہے بھیس۔
کیا ہے میرا شہر بھنبھور میں، یہ نہیں میرا دیس۔
42
دکھ سہنے کے کارن میں نے ہوت سے پریت لگائی،
اپنے ہنستے گاتے من میں، پریت کی آگ جلائی،
دیں گے دردِ جدائی تجھ کو کل صبح وہ۔
43
لے چل شہر سے باہر مجھ کو، کیچ کی راہ بتا،
شاید پھر نہ ملن ہو میا!، مجھ کو کر تو وداع۔
44
نکل کے شہر بھنبھور سے میں نے، دیں جب اسے صدائیں،
روند گئے تھے صحرا پربت، ویراں تھیں سب راہیں۔
45
بھٹک بھٹک کر پربت میں میرے، پیر میں پڑگئے چھالے،
من میں یار کی بات چھپی ہے، پریت کے لب پر نالے۔
46
لے نہ عشق کا نام اے سسی!، مشکل عشق کی راہیں،
برہ کا کر بیوپار ہو دل میں درد، لبوں پر آہیں۔
47
جس نے دیکھا اس نے یار کو، سمجھا اپنا گہنا،
جو پہچان نہ پائیں وہ کیا، قدر کریں گی بہنا۔
48
دل نہ چھوڑ کہ سکھ سے تیرا، بھر جائے گا دامن،
دیکھ کہ شوق سے تیرے انگنا، آیا تیرا ساجن۔
49
لحنِ حسینی میں بیبی نے، کی تھی آہ و بکا،
اس کے بعد ہی جگ نے جانا، قضیہ کرب و بلا۔
وائي
کیا کیا جتن کیے، دور وہ لاد گئے،
ہوت نہ لوٹے میرے،
روزِ ازل سے پریت کا بندھن، پریتم باندھ گئے،
قاصد بھیجے کیچ کو میں نے، پریتم تیرے لیے،
تیری پریت میں پنہل سائیں، دکھ ہیں نئے نئے،
جاتے صدائیں دی ساجن نے، ہم وہ سن نہ سکے،
سکھیو، شاہ لطیف کہے، وہ آریانی آئے۔
سُر لیلا چنیسر
پہلی داستان
1
داغ تیرے ہجر کا، مارے ہے معذور،
سائیں کی سوگند ہے، جا نہ مجھ سے دور،
آکر تیرے حضور، میں منکا آگ میں جھونکوں۔
2
آگ میں ڈالوں موتی اور میں، بھاڑ میں جھونکوں ہار،
لوٹ کے آئے یار، تو مان ملے مجھ میلی کو۔
3
آگ میں ڈالوں منکا، بھاڑ میں جھونک کے ہار،
کہے لطیف کہ بِن ساجن کے، دل کو کہاں قرار،
وہ حاسد اور زور آور ہے، جس سے تیرا پیار،
چاروں اور "چنیسر" کی، مچی ہے ہاہاکار،
موتی پر مت وار، پریتم نین کی ٹھنڈک ہے۔
4
دنیا ہے چالاک تو چنیسر چوگنے ہے زیادہ،
اس سے توڑ کے رشتہ، تو ہار کو ہاتھ لگائے!
5
موہ لیا من موتی نے، یہ کیسے ہیں اطوار،
بات بزدار ساجن سے کھویا ہے دلدار،
روٹھ گیا ہے یار، ہجر کا داغ ہے دل میں۔
6
موہ لیا من موتی نے اور، لیا لپک کے ہار،
لعل و گہر کے کارن جگ میں، لاکھوں ہوگئے خوار،
روٹھ گیا ہے یار، ہجر کا داغ ہے دل میں۔
7
من کو موہ گئے موتی کے، سندر نقش و نگار،
سوچا پاس رہے گا میرے سدا یہ سندر ہار،
ہوگئی میری ہار، جیت ہوئی، "کونرو" کی۔
8
نقلی موتی دیکھ کر کیسے ریجھا تیرا من ،
کانچ کے اس ٹکڑے کو تونے، جانا ایک رتن،
موتی کے کارن، کتنوں نے ہے یار گنوایا۔
9
یہ ہے گلے کا طوق، جس کو سمجھی ہار،
تجھ کو چھوڑ کے بنا چنیسر، کونرو کا ہے یار،
دل سے دے نہ اُتار، کسی کو اس کا ساجن۔
10
ہاتھوں میں تھے کنگن اور، نہ ہی گلے میں ہار،
نہ اکھین میں کاجل تھا اور، نہ ہی ہار سنگھار،
جام چنیسر یار، مجھ پر تھا تب مائل۔
11
کانوں میں تھی بالیاں اور، گلے میں جھلمل ہار،
کھن کھن کرتے سونے کنگن، کیا تھا ہار سنگھار،
جام چنیسر یار، روٹھ گیا تب مجھ سے۔
12
شاید مجھ سے جام چنیسر، پہلے ہی تھا بدظن،
چھوڑ گیا وہ ساجن، موتی بنا بہانا۔
13
جھکرو نے جب بات کہی تھی، لیلا! جام سے رو کر،
ہوا تھا تب ہی بدظن ساجن، تجھ کو ہوئی نہ خبر،
روٹھا جام چنیسر، ہار تو بس تھا بہانا۔
14
موتی بنا بہانا تجھ سے، جام تو تھا ناراض،
میری بات سنو ری سکھیو! کرو تم عرض و نیاز،
جام کے یہ انداز، توڑے سب کا مان۔
15
بیاہ کے بندھن والے دن ہی، بدلے ہوئے تھے تیور،
تب ہی جان گئی تھی دے گا، ہجر کا داغ یہ دلبر۔
16
کونرو، تیرے سنگ سوئے گی، بنے گی محل کی رانی،
تجھ سے یہ امید نہ تھی، میں تو تھی انجانی۔
17
بول نہ تو مجھ برہن سے، ساجن کڑوے بول،
رہوں میں تیرے قدموں میں، جیون بھر اے ڈھول!
18
لاد کے اپنا اونٹ، "لیلا" نیر بہائے،
کوئی اسے بتلائے، لیلا لاد چلی ہے۔
وائي
آنگن میں آ یار! چھوڑ دیا اب ہار،
مجھے لبھانے کو لائی تھی، وہ نو لکھا ہار،
دل للچایا، چھین لیا ہے، مجھ سے میرا یار،
میرے جو بھی عیب ہیں سائیں! سارے عیب بسار،
کیسے اب میں ناز کروں گی، آن کے تیرے دوار،
کہے لطیف کہ آئی ہوں میں، تیرے انگنا یار!
دوسری داستان
1
موتی دیکھ کے من للچایا، مار گیا تھا مان،
کہتی ہیں کہ بھولی ہے تو، سکھیاں اب ہر آن،
سب نے میرے دل کو جلایا، کیا کیا ہیں بہتان،
رہی نہ اب وہ آن، بھولیں سب اٹکھیلیاں۔
2
شاید سب سکھیوں نے، اوگن میرے دیکھے،
جبھی تو وہ سب آکے، ہنستی ہیں اب مجھ پر۔
3
پریتم کو میں پرکھ نہ پائی، یوں تو تھی ہشیار،
سوچا تھا کہ سندر لاگوں، گلے میں ڈالوں ہار،
لیکن پریتم کو کب بھاتا ہے، جھوٹا ہار سنگھار،
جانے جاننھار ، جو دل میں بھید چھپے ہیں۔
4
کہتی تھی میں سیج پہ بیٹھوں، پاؤں پیا کی چاہ،
لیکن واں باللہ، داسی کو ہی مان ملے۔
5
عقل نہیں درکار، عقل میں دکھ ہی دکھ ہے،
بھولے پن میں یار، کیا کیا مہر کرے ہے۔
6
جھول رہی تھی جھولوں میں اور، خود میں تھی میں مگن،
موتی کی تھی بات ذرا سی، ہوگئے پی بدظن،
بھر گیا دکھ سے دامن، اور روٹھ گیا وہ چنیسر۔
7
سب سکھیوں کے جھرمٹ میں تب، عجب تھی میری شان،
جس دم ہار کو ہاتھ لگایا، روٹھ گئی مسکان،
چھوڑ گیا گنوان ، دے گیا ہجر کا داغ وہ ساجن۔
8
تیرے راج میں جام چنیسر! کیا تھی میری شان،
طبل نقارے باج رہے تھے، کرتے تھے سب مان،
روٹھ گیا گنوان، دے گیا داغِ جدائی۔
9
تیرے راج میں جام چنیسر، عجب تھی میری شان،
قدم قدم پر نوکر تھے اور، در پر تھے دربان،
طبل نقارے باج رہے تھے، بڑی تھی آن اور بان،
روٹھ گیا گنوان دے گیا، ہجر کا داغ وہ ساجن۔
10
بیوہ ہونے کا ڈر کیسا، کیسا خوف سہاگن،
ان سے روٹھے ساجن، جو خودداری دکھلائیں۔
11
ایسے وصل سے کیا حاصل کہ، جس سے آئے غرور،
حاصل کر وہ ہجر کہ جس سے، ملے وہ آپ حضور۔
12
ذرا تو کر اب یاد اے لیلا! اپنے سارے لچھن،
دیا تھا طعنہ اپنے پی کو، اس سے کی ان بن،
کیا سوچے گا ساجن، تو یہ جان نہ پائی۔
13
کیسی بھول ہوئی کہ جام کو، دکھائی خودداری،
جان نہ پائی اس ساجن کو، جس کی تھی تو پیاری،
کونرو بنی دلاری، اور روٹھ گیا وہ ساجن۔
14
ساب سجن سے چھیڑ کے مت تو، ظاہر کر اوقات،
ساجن کو ناراض کیا اور، درد کی لی سوغات،
ہجر کی آئی رات، تیری خودداری کے کارن۔
15
مت دکھلانا مان کہ ساجن، بڑا ہے نکتہ دان،
تو ناداں انجان، ٹھوکر کہیں نہ کھائے۔
16
تو مت مان دکھا اے لیلا! عجب ہے وہ دل بند،
جس کو سمجھی تھی تو اپنا، وہ ہے غیرت مند،
اس کو کہاں پسند، بِن اس کو تو اور کو چاہے۔
17
وہ ہے چنیسر جام اسے تو، ہیٹی مت دکھلا،
وہ ہر بات پر صبر دکھائے، صبر سراپا اس کا،
عیب تیرے ڈھانپے گا، ڈال کے اپنا دامن۔
18
ہٹ دھرمی نہ دکھلا لیلا! وہ ہے چنیسر رائے،
ایسا ہے وہ جام کہ جس کو، کوئی نہ اپنا پائے،
ان کو بھی ٹکھرائے، جن کے ناز اُٹھاتا ہے وہ۔
19
اب نہ بنا بہانے اور تو، چھوڑ دے حیلے سارے،
ڈال کے پلو گردن میں تو، آجا پی کے دوارے،
من سے من جائے، تو کبھی نہ تجھ کو دور کریگا۔
20
منت سے گر نہ مانے تو رو کر اسے رِجھا،
اپنے پی کو منا، عجز و نیاز سے لیلا۔
21
مت سے گر یار نہ مانے، پھر بھی کر منت،
جام سراپا رحمت، رکھ تو آس اسی کی۔
وائي
پھر سے مہر کریں، میری آس بندھی ہے،
تیری یاد میں تڑپ تڑپ کر، موت سے جا نہ ملیں،
ہم جیسوں بِن جی لے گا تو، تجھ بِن ہم نہ جئیں،
تو ہی کہہ دے تجھ بِن کس سے، عرض و نیاز کریں،
کہے لطیف کہ مہر سے ساجن، انگنا پیر دھریں۔
تیسری داستان
1
ناز و ادا مت دکھلائے اس، جام کو کوئی نار،
جب پرکھا تو جان لیا کہ ، بڑی ہے وہ سرکار،
جس کا ہے دلدار، ان کو بھی ٹھکراتا ہے۔
2
ناز و ادا اس ساجن کو، کوئی بھی مت دکھائے،
خودبینی خودداری سکھیو، اسے کبھی نہ بھائے،
دوست کو بھی ٹھکرائے، ذرا سی بھی ہو بھول اگر۔
3
بنی ہیں آج سہاگنیں، گلے میں ڈالے ہار،
اپنے پی کو پانے کارن، کیا کیا کریں سنگھار،
وہ ہی پائیں پیار، چھوڑیں جو خودبینی کو۔
4
بنی ہیں آج سہاگنیں، پہن رکھے ہیں زیور،
بن ٹھن کر سب یوں آئی ہیں، جائیں گی پی کو پا کر،
جام تو اس کا دلبر ، جو تج دے خودداری کو۔
5
جھلمل گہنے جگمگ جگمگ ، ہر اک بنی سہاگن،
ہر اک سمجھی جام چنیسر، اسی کو دے گا درشن،
وہ آیا اُن کے آنگن، جو خود سے تھیں محجوب۔
6
لے کر اپنے عیب اے سائیں، آئی ہوں تیرے دوارے،
میں کمزور اک ناری ہوں تو، روٹھ نہ مجھ سے پیارے،
ڈھانپ دے عیب تو سارے، ڈال کے پلو اپنا۔
7
دیکھ تو اپنی شان اے سائیں! میں تو ہوں نادان،
ڈھانپے عیب تو سب کے، سب کو دے تو مان،
تو وہ جام مہان، جو ڈھانپے سب کے عیبوں کو۔
8
مجھ میں ذرا نہ گن اے سائیں! دیکھ نہ میرے لچھن،
مہر سے ڈھانپ اے ساجن! میرے عیب تو سارے۔
9
دھیر بندھا اس برہن کی اور، دے دلاسہ یار،
تو مالک میں چاہنے والی، باقی میں تیری طمعدار،
ڈھانپ لے اے دلدار! رکھ لے لاج تو جگ میں۔
10
کمتر ہوں میں جیسی بھی ہوں، مجھے تو مت دھتکار،
دھرتی کی میں خاک ہوئی ہوں، تیرے ہجر میں یار!
تو ہی اک دلدار، تیری بہت ہیں رانیاں۔
11
کیا کیا تیری رانیاں تو، ایک ہے میرا دولہا،
سدا سہاگ رہے گا تیرا، یوں نہ سمجھ اے لیلا!
کردے آنگن اُجلا، آن کے میرے پاس اے ساجن!
12
کیا کیا تیری رانیاں ہیں، سب کا دولہا تو،
کوئی سکھی نہ طعنہ دے اب، ڈال دے اپنا پلو،
میرا طوقِ گلُو، تیرا ہی دامن ہے سائیں۔
13
ہجر کا درد سہا نہ جائے، آجا میری اور،
تیری کیا کیا رانیاں، میرا نہ کوئی اور،
میں برہن کمزور، آجا میرے آنگن سائیں!
14
تڑپ نہ اب اے لیلا، اُٹھ اور، کردے اُجلا آنگن،
آئیں گے تیرے ساجن، سب کچھ کر قربان تو اس پر۔
15
تڑپ نہ اب اے لیلا! اُٹھ اور، کردے آنگن اُجلا،
دیکھ کہ پریتم تیرا، آج تیرے گھر آیا ہے۔
وائي
جیتے جی مل جائیں، کاش وہ ساجن میرے،
تیرے دامن کا سایہ ہو، سب ہوں دور بلائیں،
کرم تیرا ہوجائے تو ہم، ساجن سے مل جائیں،
پلکوں سے ہم دھول چنیں اور، قدموں کو چھو آئیں،
دور سے آتا دیکھ کے ساجن، کیا کیا گن گنوائیں،
دیکھ تو کیسے پریتم ہیں وہ، عیب نہ جو جتلائیں،
کہے لطیف کہ ساجن نے ہیں، سن لیں آج دعائیں۔
سُر مومل رانو
پہلی داستان
1
کل دیکھا اک جوگی سوامی، انگ بھبھوت بھکاری،
ماتھے پر تھا مُکٹ، گلے میں سجی تھی مالہا پیاری،
ایک نظر جو ڈاری، کر گیا دل کو گھایل۔
2
کل دیکھا اک جوگی سوامی، صورت ماہ منیر،
جوگی یار فقیر، جگا گیا ہے پیار۔
3
کل دیکھا اک جوگی سوامی، نکھری تھی جب دھوپ،
خون کے آنسو روئیں اکھیاں، دیکھ کے اس کا روپ،
مومل کا بہروپ، جو دیکھے لوٹنا مشکل ہو۔
4
کل دیکھا اک جوگی سوامی، دھول ملے تھے انگ،
سونے منکوں کی مالا تھی، سبز تھا شال کا رنگ،
کیا ہیں اس کے ڈھنگ، کیسی ہے وہ مومل؟
5
کل دیکھا اک جوگی سوامی، سارا انگ بھبھوت،
چھایا عجب سکوت، اس کی دید سے من میں۔
6
بات چلی جب مومل کی تو، عجب تھا اس کا حال،
کاک محل کا کیف چڑھا اور، بھیگے اس کے گال،
دیکھا حسن و جمال، مہکے گھاؤ پرانے۔
7
سورج دہکے جس طرح، دہکے روشن رو،
رچی ہوئی تھی مشک کی گدڑی میں خوشبو،
دکھا گیا وہ جو، جہاں سے رچ کر لال ہوا تھا۔
8
سورج دہکے جس طرح، دہکے روشن رنگ،
دیکھوں دیکھ نہ پاؤں اس کے، جگمگ کرتے انگ،
کس سے رچ کر لال ہوا ہے، چڑھا ہے کیسا رنگ؟
من میں پریت اُمنگ، چھلکے پیار وجود سے۔
9
تن تھا کندن کی طرح اور، عشق کا اس پر جڑاؤ،
جلنے کارن جنم لیا تھا، روشن سلکھ الاؤ،
کھایا کیا کیا گھاؤ، دیکھیں "کاک" کنواریاں۔
وائي
خود کو کر تیار، کب کاک کو جانا ہوگا،
جانے کتنے راہی روند کے، گئے یہ راہ گذار،
جس سے پوچھو یہ ہی کہے پھر، لوٹ نہ آئے یار،
ساجن کا سندیس ہے آیا، ہوجا اب تیار،
حکم ہو جب اس ساجن کا تب، کون کرے انکار،
کہے لطیف کہ سکھیو ری! میں، چلی ہوں ساجن دوار۔
دوسری داستان
1
جوگی کہہ احوال، کیسی ہیں وہ کنواریاں،
جن کو دیکھ کے نینن، سے تو، نیر بہائے لال،
کیسا حسن جمال، جوگی دیکھ کے آئے ہو۔
2
گُجری کے نینوں میں، عشق کی تیکھی تبریں،
مارے وہ شہزادوں کو ہے، کاری قہری ضربیں،
شہزادوں کی قبریں، دیکھو کاک کے ساحل پر۔
3
جوگی جو ہیں مہان، ناگ کریں قابو میں،
ان کو مارے بان، گُجری نین جھکا کر۔
4
مومل کے نینوں میں، عشق کے ہیں الماس،
عام ہو چاہے خاص، ہوجائیں سب گھائل۔
5
مومل کے نینوں میں، عشق کے تیکھے تیر،
حاکم جو بلوان، کہلائیں، بڑے بڑے بل بیر،
ایک نظر شمشیر، ہوجائیں سب گھائل۔
6
مومل مارے میر، بڑے بڑے بلوان،
اس کی سندرتا کو ترسیں، کیا کیا پنڈت پیر،
مومل مارے تیر، شاہوں شہزوروں کو۔
7
جوگی نے آج جگا کر، دکھائی مشکل راہ،
"لڈانہ" میں پنپ رہا ہے، یارو! عشق اتھاہ،
لہریں ماریں چاہ، جو جائے سو پائے۔
8
چلو کاک کی اور چلیں جاں، موجیں مارے پریت،
ہر اک دیکھے میت، کوئی روک نہ ٹوک ہے۔
9
چلو کاک کی اور چلیں جاں، پنپ رہا ہے پیار،
ہر ایک دیکھے یار، وہاں پہ دن نہ رات ہے۔
10
چلو کاک کی اور چلیں سب، جہاں اُبلتی دیگیں،
چلو تو ہم بھی دیکھیں، پریت کا واں پر رنگ چڑھے ہے۔
11
اس کارن تھا تجھ کو پالا، چلے تو کاک کی اور،
دھیان سے رکھ تو پیر اے ناقہ! کب ہے تو کمزور،
صبح یا شام کو یہ مقابل، ہوگی وہ چت چور،
رانا کا ہے زور، کہ چرے کنول تو کاک کے۔
12
جہاں انگور ہے، سرکھنڈ شاخیں، چندن، نیل کمل،
بھنورے نہ منڈلائے جن پر، کنول کھلے شیتل،
اونٹ رے! کاک کو چل، دیکھیں کنول، کنواریاں۔
13
ناقہ ہے نربل، تیز ہے اس کی چال،
جیسے پنچھی اُڑ کر پہنچے، پہنچیں کاک محل،
دھیمی چال نہ چل، اعلیٰ نسل ہے تیری۔
14
کاک کنارے پیڑ کھڑے ہیں، ان سے اونٹ گذر،
لوٹ کے پھر نہ آئے، پہنچے، جو بھی کاک کے اندر،
جو بھی گئے ادھر، بھول گئے سب رشتے ناتے۔
15
چڑھے وہ چاروں یار، ماہر تھے جو شکاری،
سوڈھے نے کچھ سوچ کے پھینکی، تال میں ایک سپاری،
پھر تو چلے وہ کاک محل کو، جہاں تھی مومل پیاری،
آگے گئے وہ شکاری، روند کے پھول کنول کے۔
وائي
رانا جو راجپوت، مومل وہ پائیں گے،
عالم، پیر ، فقیر، امیر، سارے جاں دے دینگے،
مان کے حکم خدا کا آکر، یاں سے لاد چلیں گے،
کلمے کی آواز میں تجھ کو، اپنے دھول دھریں گے،
آس بندھی ہے موت گھڑی کو، آساں آپ کریں گے،
مشکل آن پڑے گی، جس دم، مرسل آپ آئیں گے،
میں ہوں یار بھکاری پھر بھی، مرشد مان کریں گے،
کل نفس ذائقتہ الموت، بات یہ کب سمجھیں گے،
جو لکھا ہے پورا ہوگا، کچھ بھی یار کریں گے،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، فضل وہ فرمائیں گے۔
تیسری داستان
1
جیسے پھول گلاب کے، ایسا ان کا بھیس،
جوڑے خوشبو میں رچے، مہکے مہکے کیس،
کہے لطیف کہ دیکھ کے صورت، لاگیں عشق کے نیش،
دیکھ کے سندر بھیس، حیرت میں ہیں سارے۔
2
جیسے پان کے پات، ایسی سبز ہیں شالیں،
تن ہیں خوشبو میں بسے، خوشبو کی برسات،
جوڑے چندن میں رچے، مہکیں احساسات،
کان میں جھمکے بالیاں، کیا کیا ان کی صفات،
کہے لطیف سجائیں خود کو، رنگین ملبوسات،
جاگے احساسات، پریت ہوئی سوڈھل سے۔
3
کُندن تن کنواریاں، کھیلیں چاندی سنگ،
آنگن خوشبو میں بسے، مہکیں سیج پلنگ،
عطر انڈیل کے دھوئے سب نے، اُجلے اُجلے انگ،
ایک ہجومِ عاشقاں، دیکھ کے رہ گیا دنگ،
عاشق عاشق بیراگی ہے، جوگی کا ہے سنگ،
چڑھا عشق کا رنگ ، آئیں گے اب کاک پر۔
4
کاک ندی کے گھاٹ پر وہ، رچ کر ہوگئے لال،
مستی چڑھ گئی عشق کی جب، پی لی مئے جمال،
لوٹے جب وہ کاک محل سے، عجب تھا ان کا حال،
ہوگا کبھی وصال، جوگی بیراگی ہوئے۔
5
کاک ندی کے گھاٹ پر، چاہیں لب اب وہ وصال،
کل پیا تھا کاک کا پانی، نیر بہائیں لال،
ایسے وہ سرمست ہوئے کہ، کل کا نہیں خیال،
جیسے "ماموئی" تھے ویسا، اب تھا اِن کا حال،
دیکھا حسن جمال، جس میں رچ کر لال ہوئے۔
6
رچ کر لال ہوئے وہ ایسے ماند پڑے نہ لالی،
کیسے اُترے گا بھٹی میں، رنگ جو ہے ہالاری،
چاہے دھوئے دھوبی، رنگ کبھی نہ اُترے۔
7
دھوتی ہیں جس گھاٹ پر، چندن مہکی زُلفیں،
بھنورے سمجھے پھول ہیں، تال میں آن پڑیں،
دیکھ کے "راول" روئیں، مہک سے پریت بھنور کی۔
8
جہاں لُبھایا شہزادوں کو، جوڑے مہکا کر،
کہے لطیف کہ اب تو وہ جا، بنی ہے پریت نگر،
پیار کی ایک نظر ، مار گئی مومل کو۔
9
گھاؤ دیئے گوری نے کیا کیا، اب تو خود ہے گھائل،
مار گیا سوڈھل، پریت کا کاری بان۔
10
جگ میں رانا جیسا سندر، دیکھا اور نہ کوئی،
آج سہاگ کی رانا نے ہے، مہندی آن لگائی،
اب تو ہے یکتائی ہر جا اب ہے رانا۔
11
رانا جیسا اور نہ کوئی، سب کی وہ سندرتا،
کہے لطیف کہ سب کے دل سے، اس نے زنگ اُتارا،
وہ ہی سکھ پُھلتا، ہرجا اب ہے رانا۔
12
کیا کیا سوڈھے جگ میں دیکھے، کوئی نہ رانا جیسا،
ڈال کمان میں رانا نے یوں، پریت کا تیر جو مارا،
بڑے بڑے ودوان وہ پنڈت، بھول گئے سب دعویٰ،
وہ ہی ہے اب ہر جا، بِن اس کے اب اور نہ کوئی۔
13
کاک کو چھوڑ اس کونے پہ، خود سے گئے وہ گذر،
سوڈھل کو پہچان گئیں جب، دیکھا ایک نظر،
مومل رہی ادھر، ہرجا اب ہے رانا۔
14
کاک کو چھوڑا اس کونے پہ، خود سے گئے وہ گذر،
کریگی اب کیا ناتر، لُڈانہ کو روند چلے وہ۔
15
کاک محل کی بھول بھلیاں، سب سے گئے نکل،
گوری موہ سکی نہ ان کو، لاکھ دکھائے چھل،
سندر جیسی مومل، لاکھوں چھوڑ چلے لاہوتی۔
16
مومل جیسی لاکھوں سندر، چھوڑ چلے لاہوتی،
وہ جو کاک محل کی مالک، آج سبھی ہیں روتی،
بات سبھی نے سمجھی، رنگ دیا سوڈھل نے۔
17
کاک تو روک سکی نہ ان کو، روک سکا نہ مال،
رنگ دیا ہر اک گوری کو، دکھا کے حسن کمال،
توڑ گئے سب جال، حسن، ناز و ادا کے۔
18
چاہے نہیں ہے باگ میں، مومل! پیا ملن،
لوٹ نہ، پائیگی اس راہ پہ، نشانِ پار سجن،
طعنے کو جان تو بندھن، ملے اشک نہ بہا تو رانا کارن۔
19
پیا ملن ہو، پیا کو پاؤں، گر یہ نہیں نصیب،
طعنہ ترا حبیب، میں تو بندھن جانوں۔
20
تو ہے میرا طعنہ اور میں، طعنے سنگ ہوں تیری،
میں نے وہ کچھ پایا جو کب، پا سکا ہے کوئی۔
21
سن کر طعنہ تیرا سائیں، روٹھ گئی مسکان،
بہت سے آئے پر سوڈھل نے، دھوئے وہم و گمان،
کاک میں مارا بان، اب تو آجا پریتم!
22
نہر لہو کی جان نہ اس کو، سرخ یہ ندیا کاک،
اس کا پانی پاک، شربت ہے یہ پریت کا۔
وائي
مجھے کبھی نہ بھولے، یار اے میرے "میندھرے"!
طعنہ تیری پریت کا رانا!، سارا جگ ہی دے،
بولی تھی میں غیر سے اور تم، مجھ سے روٹھ گئے۔
چوتھی داستان
1
شمع جلاتے شب، پو پھٹی پربھات،
تیری دید کو ےترسیں، نیناں، رانا! آجا اب،
تیری یار طلب، کاگ اڑاؤں کاک کے۔
2
جاگ بِتائی رین، مان ہوئے سب تارے،
تیری راہیں تکتے تکتے، تھکے نہ میرے نین،
روتے گذری رین، پھوٹیں سورج شاخیں۔
3
خوشبوؤں کے دیئے جلائے، میں نے ساری رات،
میرا ڈھولا رہ گیا ڈھٹ میں، جانے کیا ہے بات،
میرے رانا! انگنا آکر، غم سے دلا نجات،
کاگا سے کی بات، اُڑ کے پی کو لے آ۔
4
دیپ جلاتے رات، باٹی گئی ہے جل،
موڑ لے اونٹ کی باگ اے رانا، مان لے میری بات،
پو پھٹی پربھات، روتے رین بِتائی۔
5
تارے لیں انگڑائیاں، ماند ہوا ہر تارا،
گھڑی ملن کی بیت گئی پر، رانا رات نہ آیا،
بھاڑ جائے رات کہ جس میں، سنگ نہ ہو وہ پیارا،
ڈھٹ ہے اس کو بھایا، درد ہجر کا دے کر۔
6
محل ہے سارا سُونا سُونا، "سوڈھا" نہیں ہے سنگ،
رانا! تجھ بِن پھیکا لاگے، موہے ہر اک رنگ،
ہجر کی راتیں، درد فراق سے، چور ہیں سارے انگ،
کب ہوگا تو سنگ، پوچھوں ہر راہی سے۔
7
تجھے تو معلوم اے رانا، میرا حال یہ سارا،
روزِ ازل سے میرے من کا، ساجن! تو ہی سہارا،
نندیا چین بِسارا، تیرا پتہ میں سب سے پوچھوں۔
8
ڈھاٹی بہت سے آئیں جائیں، تجھ سے پریت کا بندھن،
ایسی تو نے انگ لگائی، مہندی یار سجن!
تیرا ہی اب درشن، بِسرائیں نہ نین یہ میرے۔
9
رانا نے کل رات بتائی، بھید کی ایسی بات،
اس بِن پل بھی بیت نہ پائے، نینن میں برسات،
دکھ سے ملے نجات، شاید لوٹ کے آئے۔
10
بھید بتایا سوڈھل نے جب، سویا تھا جگ سارا،
کھولوں بھید ذرا سا، سکھ سے سو نہ پاؤ سکھیو!
11
میں تو پل پل دیکھ رہی ہوں ساجن، تیری راہیں،
تیری میٹھی باتوں کی اب، روح میں ہیں ریکھائیں،
تیری یار ادائیں، من سے لپٹ گئی ہیں۔
12
رانا! روح کی راحت ہے تو، مالک اس دھرتی کا،
ترس رہی ہیں محبوبائیں، تیرے ملن کو سوڈھا!
تھام لے تو ہی، آجا، کامل! کاک کے مالک۔
وائي
ساجن موڑ مہار، میں نے روتے رات بِتائی،
چھوٹ گیا گھر گھاٹ اے ساجن، چھوٹا ہار سنگھار،
سب سکھیوں کے طعنے سائیں، سہتی ہوں ہر بار،
سکھ سہاگ کا پاؤں گر وہ، من جائے اک بار،
کہے لطیف کہ آس بندھی ہے، مولا، ملائے یار۔
پانچویں داستان
1
پریت جو کی ہے زورآور سے، موڑے کیوں گردن،
راہ تو لے اس پریتم کی اور، پریت بھرا ہو من،
کہے لطیف کہ سب کی خاطر، بیٹھ نہ تو بن ٹھن،
کرے گی یاد سجن، حشر کے دن اے مومل!
2
سیدھی راہ چلی چل! پھیر نہ تو گردن،
بڑی ہے راہ کٹھن، ٹھوکر کہیں نہ کھائے۔
3
سیدھی راہ چلی چل! پھیر نہ تو گردن،
کریں گے یار دفن، آج یا کل اس دھرتی میں۔
4
پیروں کی یہ خاک، اس میں دفن ہے پریتم،
خاک میں ملتے دیکھے ہم نے، زورآور بے باک،
ہوگی اوپر خاک، کرلے جو کچھ کرنا ہے۔
5
لاد چلے ہیں میرے ساجن، چلے ہیں وہ پردیس،
سب کے خیر اندیش، دکھ نہ دیا کسی کو۔
6
پریت کو سمجھا کھیل ہے تونے، غیر سے جوڑا ناتا،
غیر سے تیرا رشتہ ناتا، کیسے پی کو بھاتا،
تو ڑ کے ایک سے ناتا، تو پچھتائے گی مومل!
7
مجھ سے روٹھ نہ ساجن سائیں! اونٹ یہاں لے آ،
موڑ مہار اس ناقے کی اور، کاک کنارے آ،
عیبوں سے شرمندہ ہیں جو، ان کو سنبھالنے آ،
خوشبو آن لگا، سوڈھا! میں سکھ پاؤں۔
8
مجھ سے روٹھ نہ ساجن، ہانک کے لے آ اونٹ،
تجھ بِن سیج نہ بھائے موہے، اُجڑا اُجڑا آنگن،
آن لگا تو چندن، سوڈھاٍ میں سکھ پاؤں۔
9
روٹھ نہ مجھ سے ساجن سائیں سوڈھل! جانہ دور،
دردِ ہجر نے مارا موہے، ساجن ہوں مہجور،
وصل کہاں، میں دیکھ کے جی لوں، تیرے حسن کا نور،
تیرے یار حضور، آئی ہوں سکھ پانے۔
10
روٹھ نہ مجھ سے میرے رانا، چھوڑ دے یہ عادت،
بھول جا میرے عیب تو سارے، مجھ پہ کر رحمت،
کہاں ہے اور کسی میں ساجن، تجھ جیسی وجاہت،
من کو دے راحت، ڈھانپ لے اوگن میرے۔
11
روٹھ نہ مجھ سے میرے ساجن! چھوڑ دے یہ انداز،
آن مٹادے عیب تو میرے، تو ہی چارہ ساز،
میرے اوگن ڈھانپ دے آکر، اے میرے ہمراز،
دے معافی، ملے اعزاز، سوڈھا! میں سکھ پاؤں۔
12
سلگ رہی ہے کاک اے رانا! سلگ رہی ہے جان،
مجھ پر گذرا شک تھا ساج! بیری وہم و گمان،
دکھ میں ہوں حیران، جلدی آجا ساجن!
13
سُلگ رہی ہے کاک اے رانا! محل میں لاگی آگ،
سوڈھا! تیری پریت میں میرا، جیون ہے بیراگ،
موڑ لے اونٹ کی باگ، دل میں دکھ ہیں کیا کیا۔
14
سُلگ رہی ہے کاک اے رانا! سُلگیں رنگ رتول،
تیرے ہجر میں ساجن سائیں! من میں آئیں ہول،
کیے تھے جو بھی قول، ان کو پورا کر اے پریتم!
15
سُلگ رہے ہیں محل دو محلے، سلگ رہی ہے کاک،
تجھ بِن آنگن آنگن سائیں! اُڑتی ہے اب خاک،
جو ہیں سینہ چاک، ان کو مار نہ ناز سے۔
16
تن من دھن قربان کروں میں، واروں یار "لڈانہ"،
جس نے واری جان تو اس سے، روٹھ نہ جا اے رانا!،
ناز نہ اب دکھلانا، سوڈھا!، پریت کی ماری کو۔
وائي
دور دیس کیوں بھائے، کوئی ساجن کو سمجھائے، مہر کرے وہ مجھ پر،
دور دیس میں محل دو محلے، کاہے کو بنوائے،
سندیسے اس آس پہ بھیجے، شاید تو آجائے،
کروں میں منت ہر دم تیری، ترس کبھی تو آئے،
برکھا رت کی جھڑی لگی ہے، بیٹھی نیر بہائے،
تن من تجھ پہ واروں ساجن!، پاس اگر تو آئے،
کہے لطیف بدیس سے پریتم، انگنا میں آجائے۔
چھٹی داستان
1
نہ ہی سنگی، نہ ہی ساتھی، نہ وارث، نہ پیارا،
تیرے بعد اے ساجن مجھے، دکھڑوں نے ہے گھیرا،
تو سندیس یہ میرا، لے جا قاصد پاس پیا کے۔
2
یاد سے دے سندیس پیا کو، جا پیا کے پاس،
تیرے ہجر میں مرتی ہوں میں، من میں ملن کی پیاس،
توڑ نہ میری آس، ہانک کے اونٹ کو لے آ۔
3
آ برہن کے آنگن سائیں!، تو تو ہے گنوان،
تجھ بِن محل یہ ویراں لاگے، ہر پل تیرا دھیان،
چھوڑ دے اور گمان، آجا میرے اَنگنا۔
4
میرے اَنگنا آجا ساجن، من جا میرے پیارے،
پل بھی دور رہا نہ جائے، کیوں ہے دور دلارے!
زخم دے آن کے نیارے، درد مٹے میرے من کا۔
5
رحم بھرے نینن سے دیکھ تو، درد ہجر ہو کم،
تیری میٹھی باتوں کو من، ترسے ہے ہر دم،
آکر اے ہمدم، دیکھ تو اُجڑی سیج ہماری۔
6
اُجڑی سیج سہاگ کی، آن کے دیکھ تو رانا!
اس بستر کو دیکھ کے تڑپوں، جس پر سویا جانا،
ایک کٹھور زمانہ، دوجا تو نہ آیا۔
7
آئے اگر وہ لوٹ کے، میرا لالن لال،
سب کچھ اس پہ واروں جو ہے، جانے میرا حال،
رانا بِن میں اور نہ مانگون، وہ ہے جان و مال،
کرتی ہوں عرض سوال، دل و جان سے سوڈھا۔
8
تیری یاد میں روتے روتے، نین ہوئے بے نور،
درشن کارن ترسیں نیناں، جا بسے تم دور،
کیسے ہوں مسرور، جو ہیں ہجر کی سولی پر۔
9
رانا جیسا اور نہ کوئی، لاکھوں کاک میں آئیں،
اس کو دیکھن کارن، اکھیاں، ہائے! سلگتی جائیں،
کیسے وہ مسکائیں، جو ہیں ہجر کی سولی پر۔
10
مومل ہر پل میندھرے کو بیٹھی یاد کرے،
اونٹ کو خوشبودار مہکتی، بیلیں آن کھلائے،
کبھی تو شاید میرا ساجن، میرے انگنا آئے،
ساجن درس دکھائے، کروں میں راز کی باتیں۔
11
من میں درد فراق کی ساجن، سلگ رہی ہے اگنی،
تیری پیار بھری باتوں کو، مومل یاد ہے کرتی،
طعنہ دے ہر سجنی، آ تو من جائیں اے ساجن!
12
سوڈھا! ہر پل یاد کروں میں، تیری میٹھی باتیں،
جانے کتنے سورج اُبھرے، ڈھلی ہیں کتنی راتیں،
مہر کی برساتیں، آن کے ڈھانپ لے عیب تو میرے۔
13
کبھی جو میرے انگنا آکر، ساجن ہو مہمان،
سوڈھل سائیں! آگ میں ڈالوں، اپنی دانش گیان،
بھاڑ میں جھونکوں یار خودی کو، اپنا سارا مان،
میکہ گھر اور جان ساجن! تجھ پر واروں۔
14
گونج رہا تھا آنگن، پیار بھری باتوں سے،
دیکھ کے اُجڑے آسن، منوا تڑپن لاگے۔
15
جن کے سنگ تھا چرخہ کاتا، جانے گئیں وہ کہاں،
ڈھونڈ رہی ہیں اکھیاں، ان کو کاک کنارے۔
16
تو ڈھاٹی ہے، ڈھٹ کا مالک، ڈھولا! ڈھٹ ہے تیرا،
ڈال ترازو میں جو تولوں، پلڑا بھاری ڈھٹ کا،
ڈال تو آن کے ڈیرا، اور دل کا زنگ اتار دے۔
17
اب تو یہیں پہ ڈیرا ڈال ساجن، کاک کنارے،
آن کے تو پہچان انہیں جو، باسی کاک محل کے،
اک دن، ہاتھ تو مل کے، پچھتائے گا پیارے۔
ساتویں داستان
1
ڈھٹ تو جا نہ ڈھول!، کاک کو داغ لگا کر،
میرے لیے ہے روزِ ازل سے، بندھن تیرا بول،
تیری یاد میں تڑپ تڑپ کر، روؤں بیچ رتول،
من میں آئیں وہ، کچھ نہیں بھاتا من کو۔
2
کتنے حسین لگیں ہوتے جو، کاک محل کے شائق،
چھوڑ گئے وہ لُڈانا، کے جو تھے کاک کے لائق،
جو سوئے سکھ سے فائق، وہ شاید لوٹ نہ آئیں۔
3
لُڈانا سے لاد چلے وہ، لوٹ کے پھر نہ آئے،
مار گئے مومل کو وہ، سب حیلے چھوڑ گئے،
وہاں پہ جاکر سوئے، چھوڑ دیا ہے آنا جانا۔
4
چھوڑ نہ آنا جانا سوامی، توڑ نہ رشتے ناتے،
تب تک دل ہے بس میں جب تک، جوگی تو یہاں ہے۔
5
جسم سے جان نکال کر، سوڈھا لے گیا ساتھ،
رانا! یاد کروں میں تیری، پیار بھری ہر بات،
تو ہی میرا ناتھ، تجھ بِن اور نہ بھائے۔
6
سکھیو! مجھ پہ اس ساجن نے، کیا کیا ہیں ڈھائے،
اب تو چرخا کات نہ پاؤں، کاک نہ موہے بھائے،
کوئی نہ اب جچ پائے سوڈھے بِن نینن میں ۔
7
سکھیو ری! اس سوڈھل نے کیا کیا کیے ستم،
ٹوٹ گیا دل کاک کنارے، پل پل رنج و الم،
لگتا ہے دل میرا، سینے سے نکل گیا ہے۔
8
سکھیو! میرے سوڈھل نے، ستم کیے کیا کیا،
کانپ رہا ہے تن برہن کا، کاٹ دیا جیئرا،
لگتا ہے تو دل میرا، سینے سے نکل گیا ہے۔
9
کیا جانوں کس کارن سوڈھل، تم نے منہ پھیرا،
آکر کاک میں محل میں ساجن!، میرا درد مِٹا،
بن تیرے سوڈھا، کس کو چھب دکھلاؤں۔
10
دیکھ کے ویران گھر کو ساجن، پل پل تڑپے من،
خاک اُڑے ایوانوں میں اور، ویراں ہے آنگن،
سیج سہاگ کی خاک ہوئی ہے، بِن تیرے ساجن!
مرجھائے جو پھول کھلے تھے، کل میرے آنگن،
تجھ بِن اے ساجن، کس کو چھب دکھلاؤں۔
11
بخش دے میرے عیب گناہ اب، آجا میرے آنگن،
تیری اور بھی محبوبائیں، میرا ایک تو ساجن۔
12
آکر لوٹ گئے تم ساجن!، کیسا ہےیہ ستم،
یار! جگاتے، میں سمجھاتی، کیسے تھے ہمدم،
کیوں روٹھے تم پریتم!، سچ تو جانا ہوتا۔
13
جگ کی ہے جو ریت ، وہ ریت نہیں سوڈھے کی،
اشک بہیں گالوں پر، یوں روکے نہ وہ کبھی بھی۔
14
قسمت سے وہ لوٹی وہاں سے، جہاں جانے کو سب ترسیں،
ان کا بھی کیا جینا جو، اک کاغذ سہارے آئیں۔
15
میرے من میں اس پریتم نے، ڈالی پریت کی ڈوری،
نیا جوں کنارے باندھیں، من کی نیا باندھی،
ہر پل ہوں اب روتی، جینا زہر ہوا ہے۔
16
کاک کے باغ نہ بھائیں من کو، ویراں ہیں نظارے،
کچھ نہ بھائے مجھ برہن کو، تجھ بِن ساجن پیارے،
باندھی ناؤ کنارے، میرے ڈولتے من کی۔
17
سکھیو بن سوڈھے کے اب تو، بھائے نہ یہ لُڈانہ،
کیا کیا مجھ پر ظلم کیے ہیں، تونے روٹھ کے رانا،
کاک میں اب کیا جینا، چھوڑ دے کاک کو اے دل۔
وائي
کیاں کروں کہاں جاؤں، چھوڑ دیا ساجن نے،
تم روٹھے ہو جان گئے ہیں، اپنے اور بیگانے،
بیری میری سکھیاں مجھ کو، دیتی ہیں اب طعنے،
میں قدموں میں بال بچھاؤں، آئے وہ اپنانے،
تیرے اونٹ کو کنول کھلاؤں، آجا درس دکھانے،
کہے لطیف کہ آئے گا وہ، ساجن مجھ سے ملنے۔
آٹھویں داستان
1
کچھ نہ سوچا، کچھ نہ سمجھا، خود پر ظلم کیے،
جو بھی پاپ کیے تھے سارے، میرے سامنے آئے۔
2
میں نے خود پر ظلم کیے اور، کچھ سوچا نہ سمجھا،
جو بھی پاپ کیا تھا آخر، میرے سامنے آیا۔
3
کچھ نہ سوچا کچھ نہ سمجھا، ظلم کیے جو خود پر،
سامنے آئے پاپ وہ سارے، آئینہ بن کر۔
4
دیکھ کے میرے عیب اور اوگن، یار رہا خاموش،
آیا مجھ کو ہوش، اور سیدھی راہ لی میں نے۔
5
ساجن تیرے صبر نے مجھ کو، ایسی راہ دکھائی،
دُھلے ہیں سارے عیب اے سائیں، کھوئی منزل پائی۔
6
اس لیے تھا پلو تھاما، ڈھانپے عیب تو سارے،
ڈھانپ لے میرے عیبوں کو، کر نہ ظاہر پیارے۔
7
پَلو سے تھا پَلو باندھا، اسی لیے اے ساجن!
حسرت تھی کہ ناتا جوڑ کے بنوں میں تیری دلہن،
ڈھانپ لیتے ہیں اوگن، ڈالا پلو پناہ کا۔
8
تیرے عشق کی آگ میں ساجن، جل کا سانچ ہوئی،
مجھ میں عیب ہزاروں سائیں، گُن نہیں ہے کوئی،
ڈھانپ مجھے اب تو ہی، مجھ میں اوگن عیب بہت ہیں۔
9
ڈھانپ لیا ہے ساجن نے، عریاں تھا ہر انگ،
چڑھا ہے تیرا رنگ، میں بدلی بن کر برسی۔
10
ڈھانپ لیا ہہے ساجن نے، عریاں انگ تھے میرے،
اس نے عیب چھپائے، میں بدلی بن کر برسی۔
11
چیتھڑے سے ڈھانپا میں تو بدلی بن کر برسی،
میں گھونگھٹ میں مُسکائی، چھب دکھلاتی ہوں ساجن کو۔
12
ساجن سائیں صبر یہ تیرا، محبوبوں کی ہے شرم،
رکھیں ہم اس کا بھرم، صبر سے تو سمجھائے۔
13
سوڈھا صبر یہ تیرا، سب کو سبق سکھائے،
میرا نصیب تھا ہائے، میں تو سیکھ نہ پائی۔
14
تیرے صبر نے ساجن سائیں، کیا مجھے انسان،
پایا تیرا نشان، اپنے پاپوں عیبوں میں۔
15
تیرے صبر سے ساجن سائیں یہ نصیحت پائی،
خون کے آنسوں روئی، میں تیرے سامنے آؤنگی۔
16
دیکھ کے تیرے صبر کو سب کی، عقل ٹکھانے آئی،
خاموشی انمول ہے تیری، چپ بھی ہے گویائی۔
17
تیرا صبر اے ساجن سائیں، بے عقل کو رکھے باز،
صبر کا یہ اعجاز، کہ تائب ہوئی میں ساجن۔
18
دیکھ کے اپنے عیب اور اوگن، سب کو لاج ہے آئی،
میرے عیبوں نے ہی مجھ کو، سیدھی راہ دکھائی۔
19
عقل کے آئینے میں اپنی، صورت دیکھیں جب،
ساجن شرم سے تب، تڑپیں لاج دلاریاں۔
20
ایسے لوگ بھی دیکھے سکھیو! جن کو لاج نہ باک،
ان کو لاج نہ آئے اِن کی، کٹ جائے گر ناک۔
21
اِن کو شرم کہاں آتی ہے، کٹ بھی جائے ناک،
بے شرم بے باک، کوئی انہیں کیا سمجھائے۔
22
شرم نہیں ہے آنکھوں میں اور، نہ ہی لاج حیا،
کٹ جائے گر ناک تو پھر بھی، اِن کو کیا پروا،
مفلس رہنا اچھا، بھرم اگر رہ جائے۔
وائي
آ رانا! رہ رات، چندن اونٹ چراؤں،
گونج رہی ہے من میں رانا، تیری ہر اک بات،
راہ تکوں وہ آئے شاید، بھیگ چلے جب رات،
یاد کروں میں توہے ساجن، ہر پل تیری بات،
سکھیو! شاہ لطیف کہے، رانا دے گا دات۔
نویں داستان
1
میرے رانا کی محفل سے، آیا ایک سوامی،
سوامی صورت جگمگ دمکے، جیسے پورن ماشی،
دور ہوئی مایوسی، جوگی کی مکھ جوت سے۔
2
میرے رانا کی محفل سے، آیا ایک سوامی،
مہک اُٹھی ہے خوشبوؤں سے، دیس بدیس کی دھرتی،
سچا وہ سنیاسی، آیا پریتم دیس سے ہے۔
3
دیکھ کہ رانا نے بھیجا ہے، پاس تیرے اسوار،
لُڈانہ سے آنے والے کا، اب تو پالے پیار،
اونٹ پہ چڑھ کے یار، کل آئے گا کاک کنارے۔
4
اونٹ کی باگ کو موڑ کے آئے، مہر کرے اللہ،
مومل خوشبو سے مہکائے، کاک کی ہر ایک راہ،
رانا! تری چاہ، ڈھانپے سارے ڈھٹ کو۔
5
سن نیا سندیس ہے آیا، رانا کا کل رات،
کہے لطیف کہ اس رانا سے، پائی ہے سوغات،
کوئی نہ پوچھے ذات، جو آئے سو پائے ساجن۔
6
کس جانب میں جاؤں، روشن ایک زمانہ،
اپنے اندر کاک محل ہے، پریت کا شہر پرانا،
ہر سو ہے وہ رانا، رانا بِن اب اور نہ کوئی۔
7
کس جانب میں جاؤں، روشن سب سنسار،
اپنے اندر کاک محل ہے، اند ر باغ بہار،
ہر سو ہے دلدار، ہر سو رانا رانا۔
وائي
کاک کنارے آکر، جانے اونٹ نے کیا چکھا ہے،
دیکھ کہ کیسا خوش ہے جگ میں، ذرا نہیں ہے ڈر،
لُڈانا سے مستی پائی، لالی میں رچ کر،
سرخ مہکتی بیلیں کھائیں، گردن نہوڑا کر،
سارا گلہ مہک رہا ہے، کاک ہے یہ اثر،
تو ڈھاٹی ہے، ڈھٹ کا مالک، تو ہی ہے رہبر،
مومل عرض و نیاز کرے ہے، دوار تیرے آکر،
کہے لطیف کہ آجا ساجن، پیر محل میں دھر۔
سُر عمر ماروی
پہلی داستان
1
الست بربکم۔۔۔ آئی جب یہ صدا،
قالوا بلیٰ قلب سے، تب تھا میں نے کہا،
کیا تھا تب وعدہ، میں نے "ماروؤں" سے۔
2
جب سے کن فیکون تب سے، پریت میں جکڑا من،
کاہے پریت کے ماروں کو یوں، کیا ہے پا بہ رسن،
کیوں ڈالے بندھن، اے سومرا سردار!
3
روحیں جب تخلیق ہوئیں اور ، صدائے کُن تھی آئی،
جب ہم سنگ تھے سارے اور تھی بس یکتائی،
تب سے پریت لگائی، تب سے ہے پہچان۔
4
جب فیکون سے پہلے، آئی صدائے کُن،
بچھی جب تعظیم میں، دھرتی یہ بن ٹھن،
بندھا تھا میر ا من، تب سے مارو سنگ۔
5
جب نہ کُن فیکون تھی، نہ ہی گونج صدا،
تب سے اس ساجن سے تعلق میرا ہوا،
تب مارو دیکھا، تب سے ملاقات ہوئی ہے۔
6
جب نہ کُن فیکون تھی، نہ ہی جسم اور ماس،
نہ تھا عبد و عابد نہ ہی، آدم کی بو با،
پریت آئی تب راس، تب سے ہے پہچان اے ساجن۔
7
جب نہ کُن فیکون تھی، نہ روشن مہتاب،
نہ تو فکر گناہ کی تھی اور، نہ ہی غرض ثواب،
یکتائی ہی یکتائی تھی، اور نہ تھے اسباب،
یار کے راز کا راز تھے ہم بھی، تھا نہ کوئی حجاب،
تب سے ہوں بے تاب، تب سے ہے پہچان سجن سے۔
8
کیوں آئی قید میں، لائی ہے تقدیر،
قسمت مجھ کو لے آئی اور، ہوگئی میں تو اسیر،
روئے من پنہواروں کو اب، کون بندھائے دھیر،
کھول دے تو زنجیر، تو ملوں میں ماروؤں سے۔
9
کیوں آئی یوں قید میں برے تھے مرے نصیب،
وصل ہوا اس یار کا جو ہے، شہ رگ سے بھی قریب،
ملے گا کب وہ حبیب، ٹوٹیں گے کب بندھن۔
10
یہ ہے قیدالماء یہاں تو، جینا ہے مشکل،
جسم یہاں ہے قید میں لیکن، وہاں ہے انکا دل،
مارو جائیں مل، کرم ہو جب قادر کا۔
11
رہنا تھا اس قید میں، یہی تھی میری قسمت،
"جف القلم بما ھُو کائنُ"، یہ لکھ دی گئی عبارت،
جن سے میری الفت، وہ ہیں دیس ملیر میں۔
12
کب ہے قیدالماء سان، کوئی اور قفس،
"جف القلم بما ھُو کائنُ"، چلے نہ کوئی بس،
آجائے جب ترس، تو ملے آزادی چراہوں کو۔
13
مارد بِن اس قید میں، جینا ہے دشوار،
بکت العینان فی ھوک دما، جاؤں میں اک بار،
اٹکا من اس پار، جس جا جنم لیا تھا۔
14
آگ میں جھونکوں محل دو محلے، خاک ہوں قصروایوں،
کل شی یرجح الا اصلہ، ہائے وہ میرے دہقال،
دیکھیں دیس یہ اکھیاں، میں کھوئی منزل پاؤں۔
وائي
ان کی یاد ستائے، جو رہیں وہاں جہاں برکھا برسے،
توہی آن کے توڑ زنجیریں، قید سہی نہ جائے،
کیا کیا قید میں گھاؤ لگائے، کیا کیا ستم ہے ڈھائے،
جاؤں دیس ملیر کو سکھیو!، موت وہیں پہ آئے،
لاج رہے اس لوئی کی جب، مارو وہ اپنائے،
مرجاؤں تو دیس کی مٹی، میں کوئی دفنائے۔
دوسری داستان
1
اب قاصد نہ نامہ کوئی، آیا نہ پیغام،
نہ تو دیس سے بھائی آیا، نہ نامہ میرے نام،
قید کے ہیں ایام، کون سندیسہ لائے۔
2
اب سندیس نہ نامہ بر اور، نہ ہی ملن کا خواب،
کب بھیجا ہے مارو نے، خط کا کوئی جواب،
ہوگا ختم عتاب، ہمیر نے جانے کیا سوچا ہے۔
3
مارؤں کے دیس سے، آئے جن نامہ بر،
تو مہک اُٹھیں محلوں کے، یہ دیوار و در،
جھاڑوں دھول میں پیروں کی، چمکے راہ گذر،
سائیں کی سوگند ہے تجھ کو، اب تو دیر نہ کر،
رہوں یاں پل بھر، محل میں دم گھٹتا ہے۔
4
لے جائے پیغام جو میرا، ایسا قاصد آئے،
میں تو اس کی باندی ہوں، چاہے نہ وہ اپنائے،
آج لکھوں سندیس پیا کو، قلم تو کوئی لائے،
اکھر مٹتا جائے، ٹپ ٹپ ٹپکیں آنسو۔
5
قسمت نے در نیم کہا دل، کیسے ہو یہ لکھنا،
جو ہیں وصل کے مارے ان کو، دکھ ہی دکھ ہے سہنا،
نیر بہائیں نیناں، بات سمجھ نہ آئے۔
6
کیوں نہ ان کے ہجر میں روئے، ہائے دل ناشاد،
مجھ کو دے کر ہجر کی سولی، کل تو گئے وہ لاد،
اب میں ان کے بعد ، کیسے جیئونگی سکھیو!
7
وہیں پہ مارو ڈیرے ڈالیں، جہاں پہ سبزہ زار،
لاکھ اُتاری لوئی سے، سکھیوں نے اس بار،
ختم کر آزار، تو میں بھی چراؤں ریوڑ۔
8
سارے تھر میں جگہ جگہ پر، بنا لیے ہیں گاؤں،
جیتے ہیں سب تیرے سہارے، لے کر تیرا ناؤں،
ان کے پاس میں جاؤں، رکھ، لاج میں لوئی کی۔
9
لوئی لیروں لیر ہوئی جو، مارو نے پہنائی،
میں نے ادن نہ کاتا مجھ سے، دور ہیں سب صحرائی،
لوئی پہن کے آئی، اس کی لاج تو رکھیو۔
10
لگے ہیں کیا کیا پیوند میری، چاک ہوئی ہے شال،
بالوں کو نہ سنواروں، اُلجھے رہیں یہ بال،
جاکر دیکھوں مکھ مارو کا، نہیں اور کوئی خیال،
جیسا بھی ہے حال، میں جاؤں دیس ملیر کو۔
11
لگے ہیں کیا کیا پیوند میری، شال ہوئی ہے چاک،
جیسا بھی ہے حال میں دیکھوں، صحرا کے خاشاک،
رکھا شال کو پاک، تھی ہمارے سہارے پر۔
12
لگا رہی ہے پیوند، نبھا رہی ہے پیار،
سیتی ہے وہ ادھڑی ادھڑی، اپنی لوئی لال،
"بڑی تھی وہ ننگپال" کہیں یہ شاید مارو۔
وائي
ڈھونڈ رہی ہوں قاصد جو سندیس وہاں لے جائے، جہاں ہیں میری مارو اَلا،
اونچے محلوں میں مارئی، روئے اور رُلائے،
روک کے ہر اک قاصد کو وہ، سندیسہ بھجوائے،
بات کرے پنہواروں کو تو روح بھی اسکی روئے،
جہاں ہیں میکے والے واں سے، کوئی قاصد تو آئے،
تو ہی نگہبان عمر ہے انکا، جو تیری پناہ میں آئے۔
تیسری داستان
1
کبھی نہ ریشم پہنے کوئی، دوشیزہ پنہوار،
لاکھ میں جب وہ شال رنگیں تو، حسن کا عجب نکھار،
کہاں برابر اون کے ہیں، یہ اطلس اور زرتار،
ریشم اور کمخواب یہ سارے، شال پہ دوں میں وار،
کیسے دوں گی اُتار، جو دی ہے میکے والوں نے۔
2
عمر کبھی نہ پہنوں گی میں ریشم کا یہ لباس،
ریشم اور زرتار کی تاریں، کیسے آئیں راس،
اُجلی لوئی اوڑھ کے جاؤں، میں مارو کے پاس،
من میں ملن کی پیاس، پل پل ہے پریتم کی۔
3
مارو نے جو دھاگے باندھے، ہر دھاگہ زرتار،
ہیچ ہیں سارا سونا چاندی، دولت کے انبار،
لوئی میرا سنگھار، جو دی ہے میکے والوں نے۔
4
مارو نے جو دھاگے باندھے، ہر دھاگہ زرتار،
ریشم سے نہ للچا مجھ کو، میں صحرائی نار،
سب کچھ دوں میں وار، اس شال کے اک اک دھاگے پر۔
5
کیسے ہار سنگھار کروں گی، مارو میرا سنگھار،
کر نہ سنگھار کی باتیں مجھ کو، مارو کی ہے سہار۔
6
اوڑھ کے لوئی مارو کی میں، بنی تھی تب دلہن،
سوت کے دھاگے ہیں زرتار، ہر دھاگہ ہے بندھن،
عمر یہ دکھیارن، تیرا ریشم کیسے پہنیگی۔
7
پہنوںگی نہ ریشم جب تک، جسم میں جان ہے ساجن!
کیسے سر سے شال اُتاروں، دو دن کا ہے جیون،
شال کی لاج دکھیارن، رکھے گی مرتے دم تک۔
8
جن سکھیوں کی بانہوں میں، کھنکیں کانچ کے کنگن،
ان کی دید کو ترسیں نیناں، تڑپے میرا تن من،
کہاں برابر جُھگیوں کے ہیں، جھلمل کرتے آنگن،
ریت پہ دکھیارن، نبھائے مرتے دم تک۔
9
بانہوں میں ہیں کانچ کے کنگن، یہ ہی ان کا سنگھار،
ایسے ہار سنگھار سے تو شرمائے دوجی تار۔
10
جیسے کوئی ماتم میں ہو، کبھی پہنیں سونا،
فاقے فرحت سکھیوں سنگ، اور ان سنگ بھوکا رہنا۔
11
زر کے بدلے پیارے بدلیں، یہ نہیں اِن کی ریت،
آن کے اب تو عمرکوٹ میں، کروں میں کیسے کریت،
ان جُھگیوں کی پریت، میں محل سے نہ بدلوں گی۔
12
جس کو داغ لگا وہ کیسے، پہنے اُجلا بھیس،
پل پل جس کے ور کو سائیں!، طعنے دے سب دیس،
کرے جو لوئی پیش، وہ ستی کیوں کہلائے۔
13
ور تو ٹھٹھرے پالوں میں اور، گرم ہو میرا بستر،
ایسی بات نہ کر، عمر! کہ سکھیاں دیں مجھے طعنے۔
14
بر تو بھٹکے ویرانوں میں، محل یہ سیج پلنگ،
بھاڑ میں جائے شربت تیرا، رہوں میں بھوکی مارو سنگ۔
15
اعلیٰ ہیں وہ کنواریاں کہ، جن کا ستر بیاباں،
پتوں کی پوشاک بنائیں، ڈھانپیں انگ وہ عریاں،
لپیٹ کے جنگل بیلیں گھومیں، جنگل اور خیاباں،
داج دیا ہے بیاباں، مجھ کو ماروؤں نے۔
16
پیاس بجھائیں جوہڑ سے وہ، پشمینہ پوشاک،
بیٹھیں ریت کے ٹیلوں پر، اِن کی یہی اوطاق،
خود سے بھی بیگانے ہیں، مارو سینہ چاک،
قدموں کی ہیں خاک، اور نہ دکھ دے ان کو۔
17
بیٹھک اور چوپال وہاں ہیں، جہاں ہیں جھنڈ گھنیرے،
بھر بھر کردیں پیاسوں کو وہ، ٹھنڈے آب کٹورے،
ان کو دکھ ہیں گھیرے، میں ان کی امانت ہوں اے سائیں۔
18
یہاں تو جشن عید ہے لیکن، وہاں مچا ہے ماتم،
بھول گئے ہیں عید کو مارو، سب کی آنکھ ہے پرنم،
پل پل درد کا موسم، دکھ نے اِن کو مار دیا ہے۔
19
میرا پریتم سبزہ زار میں، ریوڑ لایا ہوگا،
ملوں گی برکھا رت میں میں تو، کر آئی ہوں وعدہ۔
20
ساجن سبزہ زار میں ہے اور، قید یہاں تنہائی،
میرے دیس میں طرح طرح کی، گھاس ہے اُگ آئی،
میں وہاں پہنچ جب پائی، تو مارو سنگ میں کرونگی باتیں۔
21
ساجن تو اس دیس بسا ہے، قید یہاں تنہائی،
ماروؤں کی یاد میں، قید میں میں مرجھائی،
تیری ان زنجیروں سے کمزوری ہے آئی،
وہ جو تھی مارو کی دلہن، اس کو بھول نہ پائی،
عہد جو واں کر آئی، کرے گی وہ تو پورا۔
وائي
میلی کملی میں مارو سے، میں نے بیاہ رچایا،
اون کے دھاگے سونے کنگن، میں سب کچھ پایا،
زر اطلس کمخواب محل میں، مارو کملی لایا،
طرح طرح کا ساگ وہاں کا، انکو لگے ہے اچھا انوکھی ہے،
کیسے کھجوریں کھاؤں مجھ کو، صحرا کا اناج ہے بھایا،
کیا کیا ہیں پکوان یہاں پر، ساگ وہاں کا بھایا،
جور و ستم سے دور دیس سے، عمر! تو مجھ کو لایا۔
چوتھی داستان
1
زلفیں دھوئے نہ مارئی، اپنوں کی ہے یاد،
دیس سے وہ پردیس میں آئی، ہجر میں ناشاد،
پل پل یاد ہے پائر کی، لب پر ہے فریاد،
کیسے روتا دل بہلے گا، ان پیاروں کے بعد،
جلدی کر آزاد، تو جاؤں پاس میں اپنوں کے۔
2
زلفیں دھوئے نہ مارئی، پل پل یاد ملیر،
داغ دھلیں جب دیس میں جاؤں، سن لے بات ہمیر،
بندھے گی سب کی دھیر، گر مائی دیس کو جائے۔
3
زلفیں دھوئے نہ مارئی، روٹھ گئی مسکان،
عدل کا وہ مانگ رہی ہے، عمر سے پل پل دان،
ظلم تیرا زندان، دے گا حساب تو اک دن۔
4
زلفیں دھوئے نہ مارئی، الجھ گئے ہیں بال،
یاد کرے وہ اپنوں کو اب، جیون ہے جنجال،
جاؤں گی میں ہر حال، رہوں گی نہ میں محلوں میں۔
5
زلفیں دھوئے نہ مارئی، محل سے مارو دور،
الجھے الجھے بال ہیں اُس کے، مارو بِن مہجور،
مارو من کا سرور، کیسے رہے گی قید میں سائیں!
6
زلفیں دھوئے نہ مارئی، قید کی ہیں آفات،
عمر کے تو انصاف کی اُس نے، سن رکھی ہے بات،
دلوا دے تو نجات، میرا پی نہ ملنے آیا۔
7
محل میں من ہے ماندہ اس کا، مکھڑا ہے مغموم،
الجھے بال نہ سلجھائے وہ، دکھڑوں کا ہے ہجوم،
تن جکڑا ہے زنجیروں میں، خوشبوئیں معدوم،
مارئی سی مظلوم، کیسے مسکائے گی سائیں!
8
تکتی ہے وہ ملیر کی جانب، روئے زار و قطار،
محل کے سکھ کو سولی جانوں، سن لے اے سردار،
ظلم سے دل نہ جیت سکے گا، مارو سے اقرار،
کیا صبر قرار، مارو نے من جیت لیا ہے۔
9
تکتی ہے وہ ملیر کی جانب، کھڑی ہے آج اُداس،
لوئی دی جو ماروؤں نے، اُس کا رکھے ہے پاس،
دکھتا ہے اب ماس، کس کر باندھ نہ زنجیریں۔
10
چڑھ کر کوٹ کے برجوں پر وہ، دیکھے سوئے ملیر،
دیکھ دیکھ کر دیس کی جانب، نین بہائے نیر،
لب پر ہے فریاد اے سائیں! کون بندھائے دھیر،
فکر ہے دامن گیر، کہ کیوں قاصد نہ آیا۔
11
کبھی جو کوئی قاصد آئے، بھولوں قید، ستم،
مجھ کو بھول گئے ہیں شاید، مارو میرے ہمدم۔
12
اور تو خوش ہیں قید میں لیکن، ہمیں نہیں آرام،
ہجر کی تیغ چلی ہے تن میں، دُکھے ہے جسم تمام۔
13
کپڑے لیروں لیر ہوئے ہیں، ہائے رے! جن کے کارن،
کبھی نہ آن کے پوچھا مجھ کو، شاید ہوئے ہیں بدظن،
قید ہوں شاہی محلوں میں اور، مشکل ہے اب جیون،
پریت نے مارا ساجن! قید تو مار سکی نہ مجھ کو۔
14
قید تو مار سکی نہ مجھ کو، مار گیا ہے پیار،
حال میرا کب پوچھیں گے اب میا وہ اک بار،
آئیں میرے پنہوار، ملن کو جیئرا ترسے۔
15
پل پل تڑپے دکھیا جیئرا، یاد آئیں پنہوار،
دیس کی پریت نے مارا مجھ کو، یاد ہے مارو یار،
اور نہیں درکار، میں جاؤں پاس پنہواروں کے۔
16
جاؤں گی دیس ملیر کو میں، دونگی محل تیاگ،
دیس میں اپنی سکھیوں سنگ، چنونگی ڈتھ اور ساگ،
جاگیں گے جب بھاگ، تو جاؤں گی پاس پیا کے۔
17
جانوں جاگے بھاگ اگر تو، قرب نصیب ہو یار،
جب جب دیکھوں پی کو لاگے، دیکھا پہلی بار۔
18
کیسے بھول سکوں گی سائیں!، پیارے وہ پنہوار،
جن کی پریت کا تیر ہوا ہے، میرے دل کے پار،
چبھی ہے من میں درد کی میخیں، مارو میرا یار،
جھگیاں وہ پنہوار دیکھے دن بیتے ہیں۔
وائي
سر سے تو نہ اُتار، عمر! یہ میری شال،
اپنے دیس کے گھاس پہ سائیں!، سب کچھ دوں میں وار،
اور کو کیسے اپناؤں میں، مارو میرا یار،
وہ جو جنگل بن کا باسی، اسی سے میرا پیار۔
پانچویں داستان
1
کھوئی سب سندرتا سائیں!، کھویا حسن نکھار،
کچھ تو طعنے دیتی ہیں کچھ، دیں گی آخرکار،
زنجیریں تو اُتار، تو رہوں نہ محل میں پل بھر۔
2
کھوئی سب سندرتا سائیں! میلا ہے اب مُکھڑا،
سندرتا بن جا نہ پائیں، جانا ہے جس جا۔
3
کھویا حسن جو لاثانی تھا، کھوئی سب سندرتا،
دل میں سلگے درد سجن کا، اور میلا ہے اب مُکھڑا۔
4
تیرے محل میں آکر میں نے، سب سندرتا کھوئی،
کیسے داغ دھلے گا میں تو، محل میں میلی ہوئی۔
5
میں نے سارا حسن گنوایا، کھویا دیکھ کمال،
کیسے دیس کو جاؤں گی میں، برا ہے میرا حال،
کھویا ہوا جمال، ملے تو جاؤں پاس پیا کے۔
6
حسن گنوایا، دیس کو جانا، اب تو ہے دشوار،
سندرتا بِن کیسے اپنا، دیکھوں وہ پنہوار،
7
حسن گنوا کر ساجن کو میں صورت کیا دکھلاؤں،
مارو کو جو پسند تھا چہرہ، اب وہ کہاں سے لاؤں۔
8
میں نے سارا حسن گنوایا، ہوگئی یہاں اَسیر،
یہاں پہ مجھ پہ بیتیں اور دور ہے دیس ملیر۔
9
میں نے سارا حسن گنوایا، کرے گا کون قبول،
سنگ مارو کے سہاگ اب کیسا مکھ پر جمی ہے دھول۔
10
جن کا دیس ملیر ہے ان کے، اُجلے اُجلے مُکھڑے،
ان کا اُتم بھاگ ہے جن کو، پریتم آپ نوازے،
بھاگ برے تھے میرے، مجھ کو حسن نے مارا۔
11
ایک ہی قادر اور نہیں کوئی، ابھاگ بھی دین ہے اسکی،
قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ، بات کرے کیا کون،
بھاگ ابھاگ دونوں مارئی ایک ہی جانے۔
وائي
رہ کر دیس ملیر کیا کچھ کیا نادانی میں،
میرے ہاتھوں سرزد ہوگئے کیا کیا گناہ صغیر،
رہ کر پاس پنہواروں کے، کیئے گناہ کبیر،
تو ہی دے دلاسہ مولا، اسے جو ہے دلگیر،
اپنا سایہ قائم رکھ مجھ پر میرے پیر،
ٹھنڈی بیلیں کرز کے پیر ہے سبزہ زار ملیر۔
چھٹی داستان
1
جیسی آئی ویسی ہی گر، جاؤں میں ان کے آنگن،
سمجھوں گی کہ صحراؤں میں، رم جھم برسا ساون،
اب تو سکھیاں طعنے دیں گی، روگ بنے گا جیون،
گری ہوں پی کی نظروں سے اور، میلا ہے اب دامن،
کیسے اُٹھے گی گردن، وہاں پہ پی کے آگے۔
2
جیسی آئی ویسی ہی گر، جاؤں پیا کے پاس،
سبزہ زار میں ریوڑ ہانکوں، من میں یہی ہے آس،
دامن پر جو داغ لگے ہیں، دھل جائیں وہ کاش!
سکھیاں ہوں سب پاس، جب رم جھم برکھا برسے۔
3
کروں گی اب کیا جی کر، قید میں ہوں محتاج،
آنکھیں دیکھیں دیس کی جانب، خود سے آئے لاج،
دوش کسے دوں آج، قسمت قید میں لائی۔
4
پیدا ہوتے ہی مرجاتی، پا لیتی میں نہ جنم،
میرے جنم سے پنہواروں پر، کیا کیا ہوئے ستم۔
5
پی کر زہر کا پیالا، اپنا منہ تو چھپالے،
تاکہ خود میں سے نہ سمجھیں تجھے وہ صحرا والے،
غیر تمند دُلارے، کیوں خود کو ان میں سے سمجھے۔
6
اُجلا دامن میلا کرلوں، یوں نہ کہہ تو امیر،
کچھ دن کی یہ بات ہے، ساری، جاؤں گی میں تو اَخیر،
جاؤں جب دیس ملیر، تو جُھکے نہ میری گردن۔
7
یہ بھی کیسا جینا ہے اب، آگ میں جھونکوں جیون،
اُجلے ہیں سب دیس کے باسی، میرا میلا دامن،
کس منہ سے اب ساجن! آؤں گی پاس میں تیرے۔
8
پیدا ہوتے ہی مرجاتی، مجھ سا برا نہ کوئی،
جس نے آکر عمرکوٹ میں، میلی کردی لوئی،
جو مارو کارن روئی، وہ محل میں کیوں مسکائے۔
9
واللہ ہوں زنداں میں اب، دھوؤں میں میلی شال،
کون ہمیر سے بات کرے گا، کس کی ہے یہ مجال،
مولا! اس کے من میں تو ہی، مہر اب ایسی ڈال،
مل جائے ننگپال، جگ کا ہے جو سہارا۔
10
یوں نہ ہو کہ قید میں رہتے، گھٹ جائے یہ دم،
جسم تو ہے زنجیروں میں اور، آنکھیں ہیں پرنم،
پھر لوں راہِ عدم، پہلے پہنچوں دیس ملیر۔
11
آخر کیوں ہوں زنداں میں، میرا قصور کیا ہے،
مجھے بھی طعنے مل رہے اور گردن میں ہیں کڑے،
مروں اگر میں یہاں پر تو کرنا دفن وطن میں۔
12
دیس ملیر کی یاد میں سائیں، جسم سے نکلے جان،
لاش رہے نہ زندان میں تو، اس کا رکھنا دھیان،
پردیسن کو پاس پیا کے، پہنچانا اس آن،
دیس کی مٹی میں دفنا کر، رکھنا میرا مان،
پورے ہوں جب پران، تو لاش لے جانا دیس میں۔
13
دیس کی یاد میں گھٹ گھٹ کر یہ، رُک جائے گر سانس،
میری میت لے جانا، تم، ماروؤں کے پاس،
دیس کی مٹی سے مل جائے گا، مر کر میرا ماس،
پوری ہو یہ آس، تو مر کر جی اُٹھوں میں۔
14
دیس کی یاد میں روتے روتے، گھٹ جائے گر دم،
میت دیس میں لے جانا تم، جہاں میرے ہمدم،
میرے لاش کو آئے میسر، بیلوں کی خوشبو،
جانوں گی اس دم، کہ مر کر جی اُٹھی ہوں۔
15
پڑے ہیں طوق گلے میں سائیں، جکڑی ہے زنجیر،
پیروں میں بھی زنجیریں ہیں، محل میں ہوں اسیر،
محل میں کیا کیا مخبر ہیں، کی ہے کیا تقصیر،
مرضی سے میں یہاں نہیں ہوں، جبر سےمیں ہوں یہاں ،
جس کا دیس ملیر، وہ مارو حال تو پوچھے آکر۔
16
مرضی سے میں یہاں نہیں جبر سے میں ہوں یہاں،
شال کو کس کر کمر سے باندھوں در کھول باس یہاں،
اپنے دیس میں خوش ہیں میری ساری سکھیاں،
وہاں پے اعلیٰ اون ہے اور ادنیٰ اون یہاں،
کھاؤں ملیر کے میٹھے میوے جب میں جاؤں وہاں،
صورت دکھاؤ یہاں اور مدد کو آجائیں دیس کے باسی۔
17
مرضی سے میں یہاں نہیں ہوں قید میں، چلے نہ کوئی بس،
پڑی ہیں ہاتھوں میں زنجیریں، ہوگئی میں بے بس،
زنجیریں یہ قفس، جکڑے ہیں اب انگ۔
18
من میں پریت کی زنجیریں اور، پڑے ہیں ہاتھ "کڑول"،
پل پل ان کی یاد ستائے، ڈھاٹی ہیں وہ ڈھول،
کیا تھا ان سے قول کہ محل میں میں نہ رہوں گی۔
19
گلے میں میرے زنجیریں ہیں، جھکی ہے میرے گردن،
تیرے خوف کے کارن سائیں! سوکھ گیا ہے سب تن،
بدلوں میں نہ چلن، کرو دعا اب سکھیو!۔
20
اُجلی اون کی میری لوئی، رکھوں میں اس کی لاج،
لوئی لیروں لیر سیئوں میں، ہوگئی جو تاراج،
کر تو مجھ پر مہر عمر اب، تیرا ہی ہے راج،
جاؤں ملیر میں آج، برکھا سکھیوں سنگ بِتاؤن۔
21
عہد کیا ہے سکھیوں سے کہ، برکھا سنگ بِتائیں،
ملوں اگر میں سکھیوں سے تو، داغ یہ سب دھل جائیں۔
وائي
مر کر بھول نہ پائے گی، وہ مٹی دیس ملیر کی،
برکھا رُت ساون کی وہ تو، ساجن سنگ بِتائے گی،
مجھ کو صحرا اپنالے گا، لاش اگر واں جائے گی،
وہ جہ کملی اوڑھ کے آئی، اس کی لاج نبھائے گی۔
ساتویں داستان
1
برکھا رت کی ہوا چلی اور مسکائے پنہوار،
کہے لطیف کہ یاد ہے مجھ کو، چوپائے مال،
گھر اپنا دلدار، بنایا ہوگا پاس ٹیلوں کے۔
2
رت آئی ہے برکھا کی اور، مسکائے پنہوار،
رت بدلی تو خوشی سے اُچھلے، بچھڑے تھے بیمار،
اون کرتی ہیں سکھیاں خوش ہے وہ اک تار،
پاس پیا ہے، کھل کھل جائیں، کاتیں اون کے تار،
کہ اون کتر کرلائیں سکھیاں، بھیڑوں کی ہے قطار،
دیکھ کہ ہر سو "پائر" میں اب، اون کے ہیں انبار،
اُجلی اُجلی "پائر" کی ہیں، شالیں دھاری دار،
مانگے ہے ہجر نار اب مارئی نے ملیر میں۔
3
صحرائی سب مُسکاتے ہیں، رم جھم برسا بادل،
دیس ملیر کی یاد میں پل پل، ملن کو ہوں بے کل،
طرح طرح کے پھول کھلے ہیں، ہرے بھرے جنگل،
سکھیاں چن چن لے آتی ہیں، طرح طرح کے پھل،
شہد، پھلوں کا بور، مہک اور، جنگل میں منگل،
رہوں نہ یاں اک پل، میں جاؤں دیس ملیر۔
4
ڈھونڈ ڈھونڈ کے "ڈتھ" لے آئیں، آن کے روز پکائیں،
ڈھیر لگائیں، "ساؤں" کے اور، دھوپ میں خوب سکھائیں،
لے آتے ہیں "لنب" کہیں سے، چاول جان کے کھائیں،
"آراڑا" جو پکائیں، تو اور طعام نہ بھائے۔
5
سدا سے ہیں وہ سکھ سے سائیں، سدا سے ہیں خوشحال،
توڑ توڑ کر لے آتے ہیں، وہ "ڈنوروں" کی ڈال،
جنگل جن کا مال، سدا رہیں خوشحال۔
6
خوش ہوتے ہیں مل جائے جب، ذرا سی بھی خوراک،
صحرا صحرا بھٹکیں مارو، تن پر جمی ہے خاک،
ہیں تو دامن چاک، پر بڑے ہیں غیرتمند۔
7
کوئی روک نہ ٹوک ہے، اور نہ ہے محصول،
چن چن کر وہ لے آتے ہیں، طرح طرح کے پھول،
مہکے دیس کی دھول، مارو تو انمول ہے۔
8
دھرے ہیں سر پر ٹوکرے اور، بھیگی ساری کھال،
دھول جمی ہے پیروں پر وہ، حال سے ہیں بے حال،
دیکھوں ان کی چال، تو دور سے ہی پہچانوں۔
9
جُھکی جُھکی وہ ڈالیاں، یاد آتی ہیں آج،
سنگ ہو وہ سرتاج، تو چنوں میں پیلو ڈالی سے۔
10
پکے ہیں پیلوں پیڑوں پر، باڑ نہ چوکیدار،
کھلے ہیں سب کے آنگن، در ہے نہ دیوار،
میدانی میں گھر کیوں تو محل میں لائے پنہوار،
سانگیں کا آزار، کھول دے انکی زنجیریں۔
11
فصیلیں اور محل دو محلے، یہ در اور یہ بام،
تن جائیں کمخواب کے خیمے، یہی ہے ترا مقام،
کب وہ تیرا پوچھنے آئے، ان سے رکھ نہ کام،
کون ہے کہرام "پنسی" پہ پلنے والوں میں۔
12
ایک باریک سوئی نے سی دی، مارو سنگ یہ ہستی،
صحرا کی وہ گھاس، "گولاڑے"، ان کی یاد ہے ڈستی،
جسم یہاں ہے لیکن منوا، بھٹکے صحرا بستی،
روح وہاں ہے ریتی، پنجر یہاں ہے محل میں۔
13
مارو سنگ سیئا ہے اک، باریک سوئی نے من،
لگائے ایسے حلم کے ٹانکے، سیئا ہے سارا تن،
کیسے کان چھدوائے برہن بن سوئی ماروؤں کی۔
14
کہاں برابر سوئی کے ہے، جگ کی کوئی شاہی،
ڈھانپے عریانی وہ سب کی، خود ہے عریاں ساری،
کئی جنم میں پیاری! سمجھے گی اوصاف سوئی کے۔
وائي
روتے دی ہے بِتا، میں نے رات عمر،
کیا اور بھی ہیں قید میں، یا میں ہوں اک تنہا،
عمر تیری قید میں، دیئے موسم دیتے بتا،
ایک تو قید ہے عمر کی، دوسرا مارو دور بسا،
عمر تیری قید میں ہے جو اس پر ظلم نہ ڈھا۔
آٹھویں داستان
1
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، یاد ہیں وہ ہر آن،
عہد الست سے پہلے ہی تھی، ان سے مری پہچان،
لم یلد ولم یولد، مارئی کا ایمان،
نکلے گی اب جان، اِن کے ہجر میں سائیں!
2
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، فرقت میں بے تاب،
چشمہ مہر سے سیر ہوئی تھی، پی کر پریت کا آب،
صحرا کے وہ گھر گھروندے، پل پل ان کے خواب،
جہاں بھی بڑے برسے آب، وہ جائیں وہاں پہ لادکر۔
3
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، بِسرے نہ وہ ساجن،
لیس کمثلہ شیءِ، کیسے پائیں درشن،
نفی میں اس کا مسکن، کیسے ملن ہو ساجن سے۔
4
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، کہاں پہ ڈیرے ڈالے،
جنگلی پھل وہ ڈال ڈال سے، چن چن لائیں سارے،
بیٹھ کے اِن کے آنگن میں، کھاؤں میں پھل وہ نیارے،
توڑ کے بندھن سارے، میں جاؤں گی دیس ملیر۔
5
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، پل پل ان کو یاد،
کہے لطیف کہ مولا نے اب، سن لی ہے فریاد،
کر برہن کو شاد، تو دکھا دے دیس ملیر۔
6
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، دُکھتا ہے یہ سریر،
کس جانب وہ لاد گئے ہیں، جن کا دیس ملیر،
پوچ رہی ہوں پیر، مل جائے وہ مارو۔
7
مارو دھیان میں دمک رہے ہیں، یاد سے روح ہے روشن،
برسی برکھا لاد گئے وہ، اور بنائے مسکن،
وہی بلوائیں مل کر سکھیاں، دھوپ یاد کروں وہ آنگن،
یاد کرے ہے برہن، سکھیاں اور وہ پنگھٹ۔
8
شام ڈھلے تو پیاسے ریوڑ، پنگھٹ اور کو آئیں،
صحرا سے ڈتھ چن کر سکھیاں، گھروں میں ڈھیر لگائیں،
"یہ منظر یاد جو آئیں، تو ہوک اُٹھے میرے من میں۔
9
کنواں وہ کھودیں صحراؤں میں، سکھیاں ریوڑ لائیں،
رات ڈھلے تو ساری سکھیاں، پانی بھرنے آئیں،
کھن کھن کر تو ڈول کنویں میں، سکھیاں کھل کھل جائیں،
درد کو اور بڑھائیں، دیس ملیر کی یاد میں۔
10
رات ڈھلے تو آئیں سکھیاں، کنویں میں پانی جھلمل،
جو بھی سستی کرے وہ کیسے، کرے گی پانی حاصل،
سکھیو! میں کمینی کاہل، اٹھاکے لائے پنگھٹ سے۔
11
سن لی جب یہ ظلم کی بات تو، سکھیاں بھولیں پنگھٹ،
"ماریچی" نہ محل میں آئی، یہی ہے ان کی سیرت،
رہ جاتی مری عزت، گر پہلے ہی مرجاتی۔
12
صبح سویرے پنگھٹ پر اب، کہاں ہیں ویسے جھرمٹ،
لپٹ کے سوئیں ساجن سے وہ، سب پر ہے گھبراہٹ،
ویراں ہیں سب پنگھٹ، اور خالی ڈول ہیں سارے۔
13
کوئی اک پیاسی سہم سہم کر، آتی ہے پنگھٹ پر،
ریوڑ ہانک کے لے جاتی ہے، اپنی پیاس بجھا کر۔
14
اب چرخے کی گونج نہ ریوڑ، پنگھٹ ہیں سب ویراں،
حوض بھی سارے خالی خالی، ہے پرہول سمان،
چان کن بھی سب نظروں سے غائب، گئے ہیں جانے کہاں،
لے کر سارا سامان، لاد گئے ہیں ملیر سے سارے۔
15
کہاں وہ پانی بھرنے والے، کہاں وہ رسے ڈول،
ان کے دکھڑے یاد کروں تو، آئیں دل کو ہول،
ان کے میٹھے بول، دل میں گونج رہے ہیں۔
16
ڈول اور رسے، کنویں اور پنگھٹ، تھوہر اور وہ تھر،
ریوڑ چرواتے، چرواہے، سبزہ، راہ گذر،
کیسے لیں گے خبر، جو الجھ گئے ہیں دکھڑوں میں۔
17
کس کو دل کا درد سناؤں، میں دکھیا مجبور،
پل پل جن کی یاد ستائے، وہ مارو ہیں دور،
مارو وہ رنجور، چھوڑ گئے ہیں پنگھٹ۔
18
مجھ کو دہرا درد دیا ہے، تونے محل میں لاکر،
محل میں تیرا ظلم سہوں اور، طعنے دے سب تھر۔
وائي
روٹھیں نا پنہوار، ڈھولا مارو مجھ سے،
مجھ میں کیا کیا عیب ہیں، ساجن! تو ستار،
ڈال دے اپنا دامن، ڈھانپ لے عیب اے یار،
برسا میگھ ملیر پر، پنگھٹ پر جھنکار،
جھولی میں بھرکے لائی، اپنے عیب اے یار!
نویں داستان
1
جہاں پہ بوندا باندی ہو وہ، وہیں پہ ڈالیں ڈیرے،
ان کو کیا معلوم کہ کیسے، قید و بند ہیں میرے،
شاید ہیں بسرائے، مصروف ہیں اپنے کاموں میں۔
2
برسی برکھا ویرانوں میں، اگی ملیر میں گھاس،
ان کی دید کو ترسیں نیناں، من میں ملن کی پیاس،
دیس کی جل سے پیاس بجھاؤں، یہی ہے من میں آس،
گھونٹ بھی آئے راس، تو بھرے گھڑے سے بہتر ہے۔
3
غلے کے اب تو ڈھیر لگے ہیں، مارو سب مسکائیں،
دیکھ سنہرے خوشے سکھیاں، گھر میں بیٹھ نہ پائیں،
بھرتی ہوں میں آہیں، محل میں دم گھٹتا ہے۔
4
خوش اس موسم میں مارو، ریوڑ اور گھر بار،
اُتریں ریوڑ ڈھلوانوں سے، میداں سبزہ زار،
جھڑی لگی ہے اب نینن میں یاد آئیں پنہوار،
"تاڑے" کی چہکار، آجا برکھا برسے گی اب۔
5
خوش ہیں اس موسم میں مارو، کھائر ہے خوشحال،
جنگلی پھل وہ چن کر لائیں، بھر بھر لائیں تھال،
میں بھی صحرا کی عصمت ہوں، اِن کو ہے یہ خیال؟
کہے لطیف کہ تیرے سر سے، کبھی نہ اترے شال،
ختم ہے اب جنجال، آجا برکھا برسے گی اب۔
6
خوش ہیں اس موسم میں مارو، بنائیں گھر کی باڑ،
جل تھل ہے اب پیاسا صحرا، برکھا کی بوچھاڑ،
سکھیاں، کھائر میں مسکائیں، قید کا یاں آزار،
"کھاٹو بنو" کی بہار، آجا برکھا برسے گی اب۔
7
خوش ہیں اس موسم میں مارو، بدل گئی تقدیر،
تڑپ رہی ہوں میں زنداں میں، جھنک رہی زنجیر،
مسکایا ہے ملیر، آجا برکھا برسے گی اب۔
8
خوش ہیں اس موسم مین مارو، "جیائے" میں ڈالے ڈیرے،
ریوڑ کو "لنب" گھاس کھلائیں، "واگھیوں" کے ہیں پھیرے،
"کیٹائے" کو ہیں چلے، آجا برکھا برسے گی اب۔
9
ویڑیجھپ کو اب چلے ہیں مارو، "کھاروڑی" سے لادا،
کہے لطیف کہ میرے پریتم، ابھی ابھی تھے اس جا،
دیکھ کے اِن کے ویراں آسن، نین سے برسے برکھا،
کون یہاں ہے میرا، کس سے دل کا حال کہوں میں۔
10
لاد چلیں وہ لیکر جھگیاں، ان کی یہ پہچان،
مارو وہ گنوان، تھر کو چھوڑ چلے ہیں۔
11
کچھ دن یہاں بِتا کے مارو، چھوڑ چلے ہیں تھر،
کبھی نہ بھیجا مارؤں نے، کوئی سندس پیمبر،
چلے ہیں دور سفر، جن سنگ جنم گذارا۔
12
جہاں پہ ریوڑ وہیں پہ سوئیں، ہاتھ پہ رکھ کر سر،
پل پل نیناں نیر بہائیں، پل پل یاد ہے تھر،
پائر کا ہے سفر، مجھ سے دور گئے ہیں۔
13
جہاں جہاں وہ مل کر بیٹھیں، لگ جائیں منڈل،
تب سے نیناں نیر بہائیں، جب سے ہیں اوجھل،
دکھڑے ہیں پل پل، ان کو دیکھے دن بیتے ہیں۔
14
پل پل روئیں نیناں میرے، مارو ہوگئے دور،
کوئی تو دیس سے قاصد آئے، منوا ہو مسرور،
بے بس میں مجبور، کب جاؤں گی دیس ملیر۔
وائي
پاس پیا کے جاؤں، عمر! میں پاس پیا کے جاؤں،
سکھیو سنگ میں صحراؤں میں، "سنگر" چُن چُن لاؤں،
دیس کے برکھا جل سے سکھیو! کملی میں دھلواؤں،
عمر! دیس ملیر کا کوڈر خوب میں کھاؤں،
گولاڑوں کا بیج میں تو اچھل کے توڑ کے لاؤں،
گھر سے کو کڑ بیج لیجا میں سکھیوں سنگ پکاؤں،
میں پائر اور کسی سے، مالوندھا تو میں کھاؤں،
جنگلی پھل محصول میں دوں میں، تھر کی ریت نبھاؤں۔
دسویں داستان
1
دیس میں برکھا برسی ہے، ملی ہے آج بدھائی،
دور ہوئے ہیں دیس کے دکھڑے، خوش ہے ہر صحرائی،
اب تو عمر نے ماروؤں سے، صلح کی بات بڑھائی،
عزت اب تو پائیگی اب ہمیر کے ہاتھوں۔
2
جس کو جڑ سے کاٹ دیا اس، پیڑ کی سوکھی ڈار،
اس سوکھی ڈار کو کیا معلوم، وہاں برکھا کی ہے بہار۔
3
کوئی نہ قاصد آیا جس سے، پوچھوں دیس کا حال،
رات کہ بجلی چمکی برسی، برکھا سوئے شمال۔
4
دیس ملیر سے قاصد آیا، لایا یہ پیغام،
مر نہ جانا قید میں بھول نہ پی کا نام،
قید کے یہ آلام، کچھ دن اور ہیں باقی۔
5
کچھ دن کی اب قید ہے باقی، سر پر رہے یہ شال،
مارو عصمت پرور ہیں اور، اِن کی نہیں مثال،
نہیں برابر محمل کے دن پائر ہے ننگپال۔
6
تجھ کو یاد کریں وہ سکھیاں، سچ ہے جن کا سنگھار،
ہیچ سمجھ تو اس سونے کو، اے صحرائی نار!
7
جن کا سانچ سنگھار وہ سکھیاں، کرتی ہیں اب یاد،
جن کے ست اور عصمت کی، دشمن بھی دیں داد۔
8
چُھولوں اس کے پیر جو آیا، دیس سے نامہ بر،
اس کو دل کا حال سناؤں، میں تو رو رو کر،
رہوں نہ یاں پل بھر، میں پہنچوں دیس ملیر۔
9
دیس سے قاصد آیا ہے اور، دیتا ہے یہ طعنہ،
سج کر بیٹھ نہ سیج پہ تو، پہن نہ کوئی گہنا،
کہے لطیف کہ لوئی کو تو، کبھی نہ میلا کرنا،
کہا ہے سب سکھیوں نے اپنے، گھر کی عزت رکھنا،
پل بھر یہاں ہے رہنا، جائے گی تھر تو جلدی۔
10
کیوں روٹھیں گی مجھ سے میرے، اپنے دیس کی سکھیاں،
ہار سنگھار سب اُجڑا ہے اور، حال ہوا ہے پریشان،
دل میں دیس ملیر بسا ہے، نیند نہیں ہے نیناں،
دیکھیں آن کے سکھیاں، کیسے تھر کی ریت نبھاتیں۔
11
ستی! تیری عصمت ابھی نہیں ہے کامل،
دل ہی دل میں جل کر، تڑپ جوں تڑپے بسمل،
عزت ہوگی حاصل، تجھ کو تیرے دیس میں۔
12
کیسے رہوں میں محلوں میں میری، عزت دار ہیں سکھیاں،
سیپ تو ساگر میں ہے لیکن، پیئے وہ قطرہ نیساں،
سیپ سکھی! جوں بوند کو ترسے، دید کو ترسیں اکھیاں،
خوش ہوں گی تب سکھیاں، جب جاؤں گی دیس ملیر!
13
جیسے سیپ سمندر میں، مانگے قطرہ نیساں،
ڈار سے بچھڑی گونج جوں تڑپے، فرقت میں ہوں پریشاں،
محل میں قید و بند، سلاسل، کیے وہاں پر پیماں،
رہتی یہاں نہ پل بھر ، گر قید میں میں نہ ہوتی۔
14
سیپ سمندر میں رہ کر بھی، رکھے بوند کی آس،
پل پل مانگے برکھا بوندیں، ساگر آئے نہ راس،
ساگر میں بھی پیاس، جبھی تو پنپے موتی۔
15
سیپ سے سیکھو سکھیو! تم بھی پریت کی ریت،
بوند سے ایسی پریت، کہ جل میں بھی ہے پیاسی۔
16
سیپ سے سیکھو پریت، پیئے نہ بحر کا آب،
بوند کو ہے بے تاب، جل میں بھی ہے پیاسی۔
17
پہلے دن ہی محل کو دیکھ کے، میں تو ہوئی اداس،
واحد برسا برسائیں مجھے ہیں پیاس،
جس کی من میں آس، وہ ملیا دیس ملیر میں۔
18
جو دن میں نے یہاں بِتائے، رہ کر دیس سے دور،
ان کا دیس ملیر میں سکھیاں، طعنے دیں گی ضرور،
جاکر ان کے حضور، میں دھولوں دھول محل کی۔
وائي
بندھا ہے پریت کا بندھن، میرا ماروؤں سے،
اُجلے دودھ کٹورے چھلکیں، سنگ ہو مارو ساجن،
ریت میں ان کے نقش پا کو، ڈھونڈتے گذرے جیون،
پل بھر میں تو رہ نہ پاؤں، مل جائے گر ساجن،
ملن بِدھائی دوں سکھیوں کو، جاؤں جب اُن کے آنگن،
کیسے سر سے شال اُتاروں، دو دن کا ہے جیون۔
گیارہویں داستان
1
دیس ملیر سے مارو میرے آنگن آیا،
ظلم ظالم کا ٹوٹا میرے حمایتی آئے ہیں۔
2
سکھی رہے وہ قاصد جس کے، تن پردیس کی دھول،
دیس کو جاؤں چرخہ کاتوں، محل میں من ہے ملول،
دھول بھی جانوں پھول، میں تو دیس ملیر کی۔
3
کہاں تھی ان پر برکھا برسی، کہاں تھی ان کی منزل،
قاصد ان کی باتیں کر میں، جن کی پریت کی گھائل،
جس اُٹھے یہ دل جو مان کو ترس رہا ہے۔
4
دیس ملیر پہ برسی شاید برکھا میرے بعد،
تکتی برس کل دیس کی جانب، کل کیا مارو کو یاد۔
5
کیا یہ سچ ہے نامر بر کہ، دیس پہ برسی برکھا،
بہت دنوں سے "پُسی" کی خاطر وہ گھومیں صحرا صحرا۔
6
بیحد تڑپ ہے اور بہت ہے برسی، برکھا اب کی بار،
دیس کی جانب تکتے تکتے، بہے ہے نین سے دھار،
ملیں گے کب پنہوار، کب محلوں سے نکلوں گی۔
7
جب جب مانگیں دعائیں، تب تب، ان پر برسا پانی،
مرضی اپنے مولا کی ہے، سب نے دل سے مانی،
حکم ہوا ربانی، تو لوٹے دیس ملیر کو۔
8
کیسے اچھے دن تھے جب کہ، محل میں تھی میں اسیر،
قید میں رہ کر برسایا تھا، میں نے نین سے نیر،
یار کے وصل کو ترس رہی تھی، ملن کو تھی دلگیر،
پڑی تھی جب زنجیر، تو پریت ہوئی تھی اُجلی۔
9
عمر! دیس ملیر کا، ڈرمی آج ملا پیغام،
کھڑے کھڑے میں ماروؤں کا مجھے پیغام ملا،
مجھ پر کرم ہوا، کہ ٹوٹ گئی زنجیریں۔
وائي
مارو جام کو پایا، لاج رکھی کملی کی،
بچا کے اپنی عصمت اس نے مارو کا بھی پوچھا،
محل میں بھی وہ تھر کا باسی، مارو ہی یاد آیا،
جھونپڑیوں کی پریت کی خاطر ، محلوں کو ٹھکرادیا،
سکھیوں سنگ ملیر میں جاکر، "سنگر" چن چن کھایا،
مارو باس ملیر میں، کھانوں کا لطف اُٹھایا،
وہاں پہ میں شاہ لطیف کی رکھتا لاج خدایا۔
ابیات متفرقہ
1
وہ ہی بنیں لُٹیرے جب، بندھی ہو جن کی دھیر،
کیسے تھر میں رہ پائینگے، مارو یار فقیر۔
2
وہ ہی بنیں لُٹیرے جب، جیئیں جن کے سہارے،
کیسے اب رہ پائینگے، مارو یار بچارے۔
3
قید میں قسمت لے آئی ہے، میرا دیس ملیر،
جاکر پی کے سنگ پیئوں گی، پائر کا میں پنیر،
کیا ہے ظلم امیر، لے آئے اس قید میں۔
4
مارو بِن اس محل میں میں نے، کیا کیا سہی ملامت،
کوئی مارو پاس پہنچائے تو یہ من پائے راحت،
رنج و الم کی حکایت، سناؤں میں ماروؤں کو۔
5
جو بھی میرے دن بیتے ہیں، اپنے پی کے حضور،
ان کی یاد میں تڑپ رہا ہے، میرا من مہجور،
تیرا ہاتھ نہ تھاموں گی میں، گو کہ ہوں مجبور،
شب بھر سر پر شال رہے وہ، آئیں گے صبح ضرور،
جاؤں نہ در سے دور، جو مارو جام ملیر کا ہے۔
6
بیحد یاد ستاتی ہے برہن کمزور،
لائق مجھے قید میں رکھ کر رکھا نہ اپنا راز۔
7
سدیس ملیر کی سکھیوں نے، کہلا بھیجی بات،
تونے اس محل میں جاکر، بددلیں ہیں عادات،
بھول گئی ہیہات! تو مارو اور ملیر کو۔
8
من میں تڑپ اور لب پر آئیں، محل کے قید و بند،
روئے اور رُلائے سب کو، کچھ نہ آئے پسند،
تیری ہے سوگند، مولیٰ ملادے مارو سے۔
9
جیسے بھی ہیں میرے مارو، میں نے کیے قبول،
چنتی ہوں گی ساری سکھیاں، صحرا کے پھل پھول،
کب ہوگی دعا قبول، کب گرینگی دیواریں۔
10
مارو پاس ملیر میں، میں خود کو دھو کے مروں،
پانی کی باری پوری کرکے، واپس میں لوٹی،
تو احسان تیرا مانوں، میں سکھی کے سنگ۔
11
جیون بیتے دیس میں، سدا ہو مارو پاس،
مارو وفا شناس، چھوٹے پیر آنکھوں میں۔
12
مارو نہیں ہیں میلے ہیں وہ، اُجلے میرے ہمدم،
صبح صبح ٹیلوں پہ گھر میں، دیکھ ان کے نقش قدم،
ان پر ڈھا نہ ستم، عیاں ہیں ان کے نقش قدم۔
13
جانا نہیں ہے شادی پر دھوؤں میلی شال،
فرقت کا ہے ملال، کیسے اُجلا بھیس میں پہنوں۔
14
جن کے نین ملیر کی جانب، تکتے ہیں دن رین،
پائیں نہ پل کو چین، ان کو تو کیا کر پائے گا۔
15
کسی اور کو میں نہ اپناؤں، مرا پریتم ہے صحرائی،
گو کہ اس کا میلا بھیس ہے، میں اسکی ہوں سودائی۔
16
میلا منہ نہ دھؤنگی من سومرا سردار،
محل میں دھویا "مُکھڑا" کل کو، کہے گا مارو یار۔
17
چیر کے سارا چام، نمک بھی گر تو چھڑکے،
میں نے کبھی بھی نہیں کیا، ایسا ویسا کام،
مارو سنگ مدام، جڑا ہے میرا جیئرا۔
18
ماروؤں کے دیس پر، چمکی ہے پھر بجلی،
ان کی یاد میں روتے روتے، رات بیت چلی،
جو ہے قید میں تیری، اسے اور نہ طعنے دلوا۔
19
جہاں ہیں ٹیلے گھروندے، وہاں پہ کوندی بجلی،
سارا پائر بھیگ گیا ہے، ٹوٹ کے برکھا برسی،
مارو سے آس ملن کی، وہ جلے بغیر مر نہ جائیں۔
20
ریت کے ٹیلوں پر ڈیرے ہیں، چمک رہی ہے بجلی،
بادل دیکھ کے من بہلایا، روتے رات بھی بیتی،
جس کی لوئی اجلی، مارو اس کو چاہے۔
21
میدانوں پہ بجلی مہکی، بجلی کی چم چم،
رِستا ہے ہر زخم جدائی، یار کا غم ہے ہر دم،
مارو لاد چلے جب آیا، پھر برکھا کا موسم،
مارو ریوڑ اور ہمدم، کاش کہ دیکھوں اک دن۔
22
بجلی سے سج دھج کے آیا، پھر برکھا کا موسم،
دیس کی یاد میں بے کل نیناں، نیر بہائیں ہردم،
پوچھیں گر وہ ہمدم، تو بھولوں سارے دکھڑے۔
23
جہاں طرح طرح کی روٹی ، اور طرح طرح کے پھل،
کیوں نہ مسکائیں سب سکھیاں، سنگ ہے جب سہنل،
سکھیوں سنگ میں "مک" چنوں گی، گھوم کے بن جنگل،
چھٹیں گے غم کے بادل، ملیں گے وہ صحرائی۔
24
اب تو دیس ملیر میں سائیں، گدرائے ہیں پھل،
اس سے ملن کی آس ہے جس بِن، بیت نہ پائے پل،
شال نہ جائے ڈھل، قول کیا ہے مارو سے۔
25
قاصد! میرے مارو کو، یاد سے یاد دلانا،
تیرے سنگ جو دن بیتے ہیں، وہ دن بھول نہ جانا،
محل کے قید و بند ہیں مارو!، کبھی ادھر تم آنا،
"ماندھانی" بھجوانا، تو چکھوں میں صبح سویرے۔
26
قاصد ! رو کر کہنا میرے، پریتم سے یہ بات،
ایسے دل میں درد ہے مارو! تھر میں جوں برسات،
تو ہی دلا نجات، کہ دکھتا ہے تن من۔
27
قاصد! کہہ دینا ساجن سے ، جب جب برکھا برسے،
دینا سب سکھیوں کو میری، یاد سے تم سندیسے،
میں تو کنیز ہوں تم سب کی، سن کے ملن کو ترسے،
آئے ملیر وہ کیسے، کیا کیا جتن میں کرتی ہوں۔
28
قاصد! کہنا پریتم سے، یاد سے تم یہ بات،
جکڑ لیا ہے زنجیروں نے، قید کی ہیں آفات،
آکر تھام لے ہاتھ، دکھڑوں میں دن بیت رہے ہیں۔
29
قاصد! یاد سے پریتم کو، دینا یہ پیغام،
کہنا ان سکھیوں سے، یاد ہوں جن کے نام،
پھیل گئی ہیں مہکتی بیلیں، پنیر ہیں سبز ہر گام،
سکھیاں چُن چُن لے آئی ہیں، اناج کے سب اقسام،
توڑ سکوں یہ تمام، رنجیریں تو ملوں ماروؤں سے۔
31
عریاں سارے انگ ہیں، مارو ہم صحرائی،
ڈھانپے تھر عریانی، تھر کو نعمت جانیں۔
32
جب تک تھے وہ پاس، آتے تھے پیغام،
چلے گئے وہ ملیر کو، کیا نہ یہاں قیام،
اب کیا دوں الزام، میں اِن ماروؤں کو۔
33
لاد چلی ہیں "کھائر" کو، میرے پیارے،
لے کر سارا ساز و سامان، وہ تھر کی اور چلے،
خود تو لاد گئے نیکیاں اصلی چھوڑ گئے ہیں۔
34
جوں "گنڈھیر" میں گانٹھیں ہیں یوں، دل میں چاہ کی گرہیں،
جن میں گُن ہی گُن ہیں مارو، وہ تو تھر میں بسیں،
دکھ میں رہ بیتیں، بِن ان کے اے ہمیر!
35
جوں "گنڈھیر" میں گانٹھیں ایسی، من میں چاہ کی گرہیں،
دیکھ ہمیر نے ڈالی ہیں دل میں درد کی زنجیریں،
مارو گرہیں کھولیں، جب جاؤں میں دیس ملیر ۔
36
وہ صحرائی صحرا میں ہیں، جن کو ترسے جیئرا،
یاد ہیں وہاں کے گھر گھروندے، ساون رت کی برکھا،
ہے ہجر میں دل تڑپتا درد ہے ماروؤں کا۔
37
ہو آباد وہ بستی، جہاں تھے وہ آباد،
آکے پھر وہ بسائیں اور ہوجائیں پھر شاد۔
38
مجھ پر جو احسان، ہجر میں کیئے مارو نے،
عمر! نے گنوں کی خاطر ، کیسے شال لے اُڑے۔
39
سن کر اپنے دیس کی باتیں، مارئی ہوگئی شاد،
جان گئی ہوں ساری باتیں، سن لے اے صیاد!
کرتی ہیں سب یاد، بہنیں میری سکھیاں۔
40
سن لیں دیس کی پھر تو، ٹوٹ گئی زنجیر،
بندھی ہے اب تو دھیر، دور ہوا اندوہ دل کا۔
41
روزِ ازل سے ہی تھا، عمر کا دامن پاک،
اسی لیے تو کر نہ پایا، میری لوئی چاک۔
42
چھوڑ گئے ہیں تھر کو، مارو وہ گنوان،
مارو بن جینے کا، مجھ پہ ہے بہتان۔
43
اب تو اللہ کارن، کر نہ جور و ستم،
تب سے ہوں میں گھائل جب سے، محل میں دھرا قدم،
یاد آئیں وہ ہردم، بھول سکوں نہ ماروؤں کو۔
44
اب نہ درد آہیں، بھر، اور نہ بہا اب نیر،
اُتر گئے طوق گلے کے، ٹوٹ گئی اب زنجیر،
جائے گی دیس ملیر، اور ملے گی سنگھاروں سے۔
45
نہ تو رو دم ہیں مجھ نہ اب اشک کا آزار،
کٹ جائیں گے مشکل دن بھی، تو ہمت مت ہار،
دکھ کے بعد تو سکھ ہی سکھ ہیں، دکھ سکھ کا سنگھار،
ٹوٹ گئی ہیں زنجیریں اب، دیکھے گی پنہوار،
ٹوٹیں گے یہ حصار، جلادے سب زنجیریں۔
46
نیر بہا مت نینن سے، چھوڑ دے بھرنا آہیں،
جگ سوئے تو ہاتھ اُٹھاکر، رب سے مانگ دعائیں،
دیکھ اس دیس کی راہیں، جہاں بنی تھی دلہن۔
47
اب کیا رونا آہیں بھرنا، اب کاہے کا ماتم،
دیس دلارے آئے ہیں، جیئیں سدا جو جم جم،
مولا ملائیگا بالم، برسے گی جب برکھا۔
48
کیسے سر سے اُترے گی وہ، لوئی جو اوڑھ کے آئی،
شال نے ڈھانپے انگ میرے، میں دوشیزہ صحرائی،
خاک بنایا بستر کوئی چیز نہ من کو بھائی،
جو عہد وہاں کر آئی، وہ عہد کروں گی پورا۔
49
پھر سے ان کے ہجر کے سائیں، ہوگئے ہیں زخم ہرے،
ماروؤں کی یاد کے دل میں، لگے ہوئے ہیں ڈیرے،
اِن کے ہجر میں میرے، انگ ہوئے ہیں گھائل۔
50
پھر سے زخم ہوئے ہیں تازہ، یاد آئے ہیں ہمدم،
ملن کو قید میں ترس ترس کے، نکل نہ جائے دم،
پھر ہے ان کی یاد کہ جو ہیں، صحرا کے محرم،
فرقت کا ہے غم، کب جاؤں گی ان کے آنگن۔
وائي
مارو کا من میرا ہے، میرا من مارو کا،
میرا من اے سومرا، بیشک رہے یہ میلا،
دھویا منہ محلوں میں مارو طعنہ دیگا،
اشکوں کی یہ دھار لے جاؤں گی پاس پیا۔
سُر کاموڈ
پہلی داستان
1
میں گندری تو سمہ سائیں، مجھ میں عیب ہزار،
دیکھ کے سندر رانیاں تو، چھوڑ نہ دینا یار!
2
میں گندری تو سمہ سائیں، لاکھوں عیب ہیں یار!
دیکھ کے منہ مت موڑیو، مچھلی بو سرکار۔
3
میں گندری تو سمہ سائیں! مجھ میں عیب کروڑ،
دیکھ کے داغ تو مچلی کے، مجھے نہ دینا چھوڑ۔
4
میں گندری تو سمہ سائیں، مجھ میں عیب ہزار،
مجھ سے منہ مت موڑیو، میں ہوں مچھیرن نار۔
5
تو اُجلا میں گندری سائیں! لاکھوں ہیں اوگن،
تجھ کو تو معلوم ہیں سارے، میرے عیب سجن!
"جام!" اللہ کارن، مجھ سے منہ مت موڑیو۔
6
تو تو گھاٹ کا مالک ہے اور، میں ہوں میلی مچھیرن،
تجھ سے ہی منسوب ہوں مجھ کو، چھوڑ نہ دینا ساجن۔
7
تو تو گھاٹ کا مالک ہے، میں مفلس اور نادار،
بخش دے سب محصول کہ میں ہوں تیرے قریب اے یار!
8
مچھلی سب کی پونجی ہے اور، مچھلی ہی خوراک،
"جام" نے اِن سے رشتہ جوڑا، جو ہیں سینہ چاک،
جو ہیں گویا خاک، تو ہی نگہبان ان کا ہے۔
9
جال، پرانی ناؤ کے مالک، مچھلی کے ہیں ڈھیر،
در پر "جام تماچی" کے وہ، آئیں صبح سویر،
مچھلی سے ہیں سیر، "جام" نے ان سے رشتہ جوڑا۔
10
مچھلی کے ہیں ٹوکرے اور، بدبو بھرے ہیں چھاج،
پلو بھی جب چھوجائے تو، سب کو آئے لاج،
جام تماچی آج، ان کو آن نوازے۔
11
کالی میلی، عیبوں ماری، ذرا نہیں سندر،
بیچیں بیچ بازار میں لاکر ٹوکرے بھر بھر،
جام ہے وہ رہبر، جو اِن کے ناز اُٹھائے۔
12
جال، مچھلی کے ٹوکرے، مچھلی سے ہے پیار،
گھر ہیں گھاٹ کنارے ہر سو، بدبو کے انبار،
پانی میں ہی پل کر سائیں! جیون دیں وہ گذار،
جام ہے وہ پالنہار جو محافظ ان کی ناؤ کا ہے۔
13
جڑیں کنول کی جھولی میں ہیں پتوں کی پوشاک،
ان کا ہے مہمان تماچی، جو ہیں سینہ چاک۔
14
جڑیں کنول کی جھولی میں اور پتوں کی پوشاک،
جام نے جھیل انعام میں دی، یہ جو سینہ چاک۔
15
جڑیں کنول کی جھولی میں اور سروں پر چھاج،
لے آتی ہیں وہ یہ سب، جام کی خاطر آج۔
16
آج ہیں محرم جام کے، کل تک تھے محروم،
میلی ہر اک مچھیرن کی، محلوں میں ہے دھوم،
آج رہے ہیں جھوم، کیا کیا دان ملا ہے۔
17
مچھلی مارے اور نہ کھائے نہ ہی مچھلی پالے،
جان کی چھاج کنویں میں ڈالا وہ اب یہ نہ کام کرے،
وہ ہی انداز دکھائے، جو ہیں راتوں کے۔
18
بیچے نہ اب مچھلی، اس نے، چھوڑ دیئے یہ کام،
چھوڑ دیئے "نوری" نے سارے، تول، ترازو، دام،
بنی ہے اب گلفام، پلی ہے جیسے محلوں میں۔
19
عجز و ادب سے نوری نے، پیش کیا جو کنول،
حاضر تھیں جو رانیاں وہ، رہ گئیں کھاکر بل،
نوری بھیس بدل، بیٹھی راجا سنگ۔
20
ذرا نہیں مغرور مچھیرن، نوری دل آرام،
ناز بھرے نینوں سے اس نے، رجھا لیا ہے جام،
عجز کا ڈال کے دام، جیتا جام تماچی۔
21
دیکھ کہ نوری آج، سرتاپا ہے نیاز،
موہ لیا ہے جام کو، عجز کا ہے اعجاز،
تاسب اعزاز کھڑی ہیں اس کے پیچھے۔
22
ہاتھوں میں بو مچھلی کی اور، کرتی ہے سنگھار،
روزِ ازل سے جام کے دل میں، نوری سے تھا پیار،
کھولے سب اسرار، جام نے اب نوری پر۔
23
دیکھیں جب عادات تو اس کو، کون کہے "مہانی"،
محل کی ہر اک رانی سے بھی، سندر تھی وہ رانی،
روزِ ازل سے رانی تھی وہ، کون تھا اس کا ثانی،
صورت جب پہچانی، تو دھاگہ باندھا بانہہ میں۔
24
کینجھر جھیل میں کون بھلا تھی، نوری جیسی سُندر،
جام نے سب کچھ معاف کیا ہے، اب اس کو کیا ڈر،
جھولا آپ جھولا کر، پنکھا جام جھلے ہے۔
25
گھاٹ تماچی کا ہے، گھاٹ کا مالک جام،
آن کے بیٹھ اب گھاٹ پہ کر، مدحت صبح و شام،
تجھ کو وہ گلفام، ملے گا گھاٹ کنارے۔
26
بھاڑ میں جائیں رانیاں جو، دکھلاتی ہیں شان،
اعلیٰ ہیں وہ مچھیرنیں جن کی تماچی ہیں جان،
موتی رات مہان، جو نوری نے پایا ہے راتوں سے۔
وائي
اس نے ہیرا پایا، بینر کے ملاحوں میں،
اس پر جب تک، نوری سکھیوں میں مُسکائے،
تب تک مہر ہے، جام کا اس پر سایا،
ختم ہوئی بدبو، خود کو خوشبو میں نہلایا،
دیکھ اپاہج در پر آئے، سخا سے ان کو نوازا،
دیکھ سخا کہ سب منگتو نے، ایک سا رتبہ پایا،
موسمی پھل کی مانند دہن، گیتویں میں بانٹا،
دہن دولت جنتا میں بانٹے، جام سخی کہلایا،
مچھلی کی کھلی دکان پہ چھلکے، یوں فقیروں میں لٹایا،
سونا دیکر منگتوں کو، چاندی کا کھیل دکھایا،
ہیرے جواہر بانٹے سب میں وہ جو سنگ تھا لایا،
نوری نے بھی باٹ پر دیکھو، دہن ہے خوب لٹایا،
کہے لطیف کہ نوری نے ہے، کیسا موتی پایا۔
دوسری داستان
1
جگ جگ جیوے میرے سائیں، یہاں سے اب مت جا،
توہی میرے نین کی ٹھنڈک، ڈال یہیں پر ڈیرا،
جام! ذرا رہ جا، کچھ دن گھاٹ کنارے۔
2
کینجھر جھیل کنارے، کچھ دن تو رہ جا،
میری شان بڑھا، میلے ملاحوں میں۔
3
جھلمل جھیل کا نیلا پانی، پیڑ کیے ہیں سایا،
جھیل میں نیا ڈول رہی ہے، رہ گیا دور کنارا،
ڈولے جوں گہوارہ، کینجھر خنک ہوا میں۔
4
جھلمل جھیل کا نیلا پانی، کھلے ہیں پھول کنول،
مہکے جھیل کا جل، بہار کا موسم آیا۔
5
آئیں جام رجھائیں رانیاں، کر کر ہار سنگھار،
کرے ہے جام شکار، ملاحوں کے سنگ۔
6
چپو تھاما نوری نے اور، جام نے تھاما جال،
کرتے رہے وہ شکار، دونوں کینجھر جھیل میں۔
7
کی نوری پر مہر جب اس نے، کہلایا وہ جام،
سنگ بٹھایا نوری کو تو، پایا ہے یہ نام،
کل کو خاص و عام، بات کریں ہر گھاٹ پر۔
8
جام سے پہلے جنم لیا، نوری جان نہ پائی،
نہ رہ کس ماتم میں جانیں، نہ میں مسکائی،
انہیں نہ بھائی، جام ہی ان کا سہارا ہے۔
9
جنم لیا نہ جام نے اور، نہ ہی جنم دیا،
اونچی نیچی ذات نہ دیکھی، سب کو اپنایا،
لم یلد ولم یولد، وصف ہے یہ اسکا،
کبر اور کبریا، تخت تماچی جام کا۔
10
آنگن آنگن دھوم مچی ہے، جام تماچی آیا،
ملاحوں کا بچہ بچہ گھاٹ پہ ہے مسکایا،
جیوے جام خدایا! سب محصول ہیں معاف کیئے۔
11
آج سجالو آنگن آنگن، جام تماچی آیا،
دل سے دھولو دھول دکھوں کی، آنگن ہے چمکایا،
جام نے ڈالا سایا، کینجھر کو آرام ملا ہے۔
12
تھا نوری کی نینن میں، جانے کیسا جادو،
نظر کے تیر سے جام کا تن تھا سارا، عشق ہے پورا کروانا،
جام تماچی مھرو، مچھلی مارے جھیل کنارے۔
وائي
وہ "گندری" کیوں کہلائے، وہ ہے محل کی رانی،
سمہ کے سہاگ کا اب تو، نوری سیس گُتائے،
جام تماچی جال اُٹھائے، پریت یہ دن دکھلائے،
جن کو کوئی نہ پاس بِٹھائے، پاس وہ جام کے آئے،
سارے جگ پر مہر ہوئی ہے، نوری جام رجھائے۔
سُر گھاتُو
پہلی داستان
1
ماہر تو سب الجھ گئے اور، بھٹکے عاقل سارے،
مل کر گئے وہ مہران کنارے پہنچے،
بھول گئے بے چارے، اگلی پچھلی باتیں۔
2
رات پڑی جب شبنم ان کی، بھیگ گئی دستار،
ٹوٹ چلی ہے ناؤ اب تو، چھوٹ گئے پتوار،
لوٹ آنا دشوار، گئے جو "کلاچی" کو۔
3
کیسا قہر "کلاچ" میں ہے جو، جائے لوٹ نہ آئے،
کوئی نہ آن بتائے، کہ جالی پھنسے تجھے کہاں۔
4
بھالے لے کر سنگ گئے تھے، کل تو وہ بلوان،
لوٹ نہ آئے میرے ماہی، دھڑکا ہے ہر آن،
"گھاتو" وہ گنوان پھنسے ہے بیچ بھنور میں۔
5
اب تو جال ہے اور نہ ناؤ، نہیں کچھ اور آثار،
لوٹ کے پھر نہ آئے مانجھی، گئے تھے جو منجدھار۔
6
مچھلی مار کے لے آتے ہیں، آج بھی یار مچھیرے،
دل میں ہوک سے اُٹھی ہے اب، دیکھ کے ویراں ڈیرے،
دنیا چھوڑ گئے، گئے وہ گہرے ساگر میں۔
7
گئے تھے کل وہ "کلاچی" کو، ساگر کیا عبور،
پل پل ان کی یاد میں میا!، منوا ہے رنجور،
گئے ساگر میں دور، کر کے دکھیا من کو۔
8
سر پر آگ اُگلتا سورج، کھڑی ہوں گھاٹ کنارے،
کیا جانے کیوں دیر لگائی، کہاں گئے وہ پیارے،
مانجھی میرے سہارے، ناؤ نہ واپس لائے۔
9
جس سے پریتم روٹھے اس سے، روٹے ہے جگ سارا،
سارے ہی اس دوار پہ جائیں، جس کے سنگ ہو پیارا۔
10
جہاں تھے گھاتوؤں کے ڈیرے، وہاں ہے اُڑتی دھول،
اب تو نہ وہ گھاتو ہیں اور، نہ ہی ہے اب محصول۔
11
نہ مچھلی کے چھلکے ہیں اور نہ ہیں وہ بو باس،
مچھلی کے تھے ڈھیر لگے اور، گھاتو تھے خوش باش،
دیکھ کے گھاٹ اداس، سب جاتے ہیں لوٹ۔
12
قرض پہ آج یہ لی ہے مچھلی، گھاتو لوٹ کے آئیں،
قرض پہ مچھلی دینے والے، مجھے نہ آن ستائیں،
دور دیس جب جائیں، قدر ہوئی ہے تب پیاروں کی۔
13
مچھلی مار کے لے آتے ہیں، اب کے گئے ہیں دور،
ساٹی دیکھ لے ویراں گھاٹ کو، ہوتے ہیں رنجور۔
14
تیری جالی کی مانند تھی، ان کی سندر چال،
ایسا شوق تھا کلاچی کا، رہتے تھے بے حال۔
15
ڈھونڈے لئے گہرائی میں اور ناپ آئے گہرائی،
آتے ہیں، ہیں کتنے خوش سب مانجھی۔
16
جاتے ہو ساگر کو اب تو، رنگ لو اپنے جال،
کوئی نہیں کسی کا واں پر، کوئی نہ پوچھے حال۔
17
جانے نہ گہرے ساگر میں ننگ تو نہیں اُتار،
ساگر میں گر جانا ہے تو مضبوط ہوں جال،
ساگر کے بھی ہے آگے، یہ تو ہیں تالاب۔
وائي
لوٹ کے گھر نہ آئے، دور گئے منجھدار میں گھاتو،
نہنگ کو ایسے مارو یارو! اور کو پھر نہ ستائے،
جال کہاں کس جا ہے کشتی، کوئی تو کھوج لگائے،
کہے لطیف سنوری مانجھی!، ہر اک پار ہی جائے۔
سُر سورٹھ
پہلی داستان
1
کرکے آس وہ رب کی، چلا وہاں سے آج،
خوب سجایا گائک نے، اپنا ساز "کھماج"،
دور سے ڈولی آتی دیکھی، دیکھا "رائے ڈیاچ"،
دل ہی دل میں دعائیں مانگی، "توہی رکھیو لاج"،
میرے مولا! آج، راجا ریجھے راگ پر۔
2
دور دیس سے چل کر گائک، آیا آج یہاں،
منگتا جہاں تہاں، سر کی بھیک ہی مانگے۔
3
دور دیس سے چل کر گائک، آج یہاں پر آیا،
خواہش مال و زر کی نہیں ہے سر مانگے ہے منگتا،
صبر نہیں پل بھر کا، کاٹ لے سر اب گائک!
4
دور دیس سے چل کر میں ہوں، تیرے در پر آیا،
اونچا ہے تو عرش پہ سائیں!، میں دھرتی کا ذرہ،
مانگے ہے سر منگتا، کیسے تجھے رجھاؤں راجا!
5
دور دیس سے چل کر راجا، پہنچا ہوں میں آج،
صبح تلک گر دیر لگے تو، کر اب پورا کاج،
میری بات لگالے دل سے، سورٹھ کے سرتاج!
اس کو خوش کر آج، جو دشمن دیس سے آیا ہے۔
6
دور دیس سے آیا ہوں میں، سن کر تیری شان،
مانگوں میں کس منہ سے، ٹھہرا جو نادان،
ایسا دے اب دان، کہ ترک ہو طمع تمام۔
7
سرما میں تو رہوں نہ سالم، گرمی کرے گُداز،
مجھے امان میں اپنی رکھیو، سائل! چھیڑ کے اپنا ساز،
تجھ سے کہوں وہ راز، خالص ہے جو خلیل کا۔
8
سرما میں تو رہوں نہ سالم گرمی، سردی نہ رساں،
مجھ کو اپنی مائی میں رکھیو، اور نہ مانگوں رائی،
راجا کھاکر پان اپنے رنگ میں رنگ دے۔
9
تیرے در پر آیا ہوں میں من میں ہے اک آس،
جلتی آگ سے مجھے بچالے، کر نہ مجھے نراس،
آئے چمن وہ راس، جہاں پر خلد عدن ہے۔
10
تیرے در پر آیا ہوں میں، دیکھ تو میرا حال،
سن لے عرض علیل کی راجا، سن لے میرا سوال،
تیرے آنگن بول رہا ہے، راجا! ایک قوال،
مہر کا تو مال، امن کی دولت دے دے۔
11
چھوڑ کے دوجے دروازے میں، تیرے در پر آیا،
ہر پل سائل صدا لگائے، راجا سن لے! صدا،
مانگے سر یہ مانگتا، دوجا دان نہ مانگے۔
12
چھوڑ کے دوجے دروازے میں، آیا تیرے دوار،
سن لے صدا سُروں کی اب تو، دل سے اے کرتار!
کہتے ہیں جو تار، تجھے تو وہ معلوم ہے سائیں!
وائي
راجا رائے ڈیاچ، سر پر سُر کو وار دیا،
کیا کیا سندر رانی چھوڑی، چھوڑ دیا سب راج،
قبول ہو اللہ کے در پر ہوگئے پورے کاج،
مانگا سر منگتے نے اپنا، چھیڑ کے ساز کھماج،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، راجا پورن آج۔
دوسری داستان
1
جھونا گڑھ کے شہر میں پھر اک، آیا موسیقار،
آن کے اس گائک نے سائیں، ایسے چھیڑے تار،
سُر کی آنچ سے سلگ اُٹھا پر، سب کا سب گرنار،
تڑپ اُٹھے سب شہر کے باسی، تار کی سن جھنکار،
کہیں یوں سُر اور تار، کہ قاتل ہے یہ منگتا۔
2
پاس قلعے کے بیٹھ کے اس نے، گایا ساری رات،
موتی برسے جیسے برکھا، پر نہ بڑھایا ہاتھ،
میراثی تھی ذات، جبھی تو مان ملا تھا۔
3
سوچ کے پھر اس سائل نے، عجز سے چھیڑی تار،
راجا رنگ محل میں اپنے، سُروں سے تھا سرشار،
مہر سے پھر تو رنگ محل میں، بلوایا گن کار،
راجا، موسیقار، دونوں مل کر ایک ہوئے۔
4
بیجل نے پھر چھیڑی، عجز سروں کی یوں گت،
جاگی "ڈیاچ" کے من میں، سر سنگیت کی چاہت،
بھید بتایا "بیجل" نے، دیکھ کے اچھی ساعت،
"احمد ہوں میں میم بنا" ہر سُر کی تھی صورت،
اب تو تھی وحدت، کچھ ہی جان سکے تھے۔
5
چند ہی ایسے لوگ تھے جن کو، بات سمجھ میں آئی،
وہ ہی بھید یہ جان سکے تھے، جن میں تھی بینائی،
الانسان کہ یہ داتا سرہ، بات تھی یوں فرمائی،
اب تو ہے یکتائی، راجا راگی ایک ہوئے۔
6
راجا رنگ محل کا باسی، خاک نشیں ہے راگی،
سن لی محل میں راجا نے، چھیڑ ی تان کچھ ایسی،
جہاں تلک نہ پہنچا کوئی، پہنچ وہاں ہے اس کی،
"اعلیٰ نسل کے گھوڑے دو اور، بھر دو جھولی خالی"
سَر کا ہے یہ سوالی، اور نہ مانگے منگتا۔
7
راجا جب راضی ہو، خوب دیا تب دان،
واپس دے کر گائک نے، اور لگائی تان،
دولت کی کچھ کمی نہیں ہے، سن لے اے سلطان،
کارن رب رحمان، کاٹ کے سر دے اپنا۔
8
سر کا کرکے دھیان، چلا یہاں سے گائک،
دھن دولت اور ہیرے موتی، لٹاتا ہے وہ مانک،
توہی ہے وہ لائق، جس نے "نہ" کہنا نہ سیکھا۔
9
میں نے دامن پھیلا کر، دان کبھی نہ مانگا،
اصطبل میں بندھے ہیں گھوڑے، جن کی نسل ہے اعلیٰ،
نہیں کسی انعام کی خاطر، میں نے ساز ہے چھیڑا،
مانگوں سر یہ تیرا، سر کا ہوں میں سوالی۔
10
تو ہے گر میراثی منگتے، وہ ہی میری میراث،
آن کے میرے پاس، کہہ تو ارث اسی ہے۔
11
بیجل آج بتا دے، مجھ کو تو یہ بات!
آیا تو گرنار میں، سُروں کی کی برسات،
اب چاہیے سوغات، یا دور سفر ہے تیرا۔
12
دور سفر نہ میرا اور نہ، لوں گا میں سوغات،
آیا ہوں گرنار میں میرے، من میں ہے اک بات،
من کا بھید سمجھ لے راجا، جاؤں نہ خالی ہاتھ،
دیکھ میرے حالات، دور دیس سے آیا ہوں۔
13
نہ تو دان سے راضی ہے یہ، نہ ہی مانگے مال،
دان نہ مانگے منگتا اور وہ کہے نہ دل کا حال،
ہر پل یہی خیال، کہ قرب ملے داتا کا۔
14
اور کرےنہ بات، سر مانگے ہر پل،
مفلس ہوں یا راجا، سب کے موت اٹل،
سب کے سیس نوائے، سب کا انت اجل،
آج خالق یا کل، دھرے گا تو سب کو دھول میں۔
15
پھر نے آئے در پر، لوٹ کے مانگن ہار،
آٹھوں پہر اجل کی، کرے ہے تو گفتار،
خاک میں تونے یار ! کیا کیا تاج گرائے۔
وائي
تیرے سُر اور تار، میرے من کو موہ گئے،
آئے تھے گرنار میں تم، چھیڑ کے اپنے تار،
گر تو سر کا دان نہ مانگے، میرے "چارن یار،
تیری جھولی میں بھردوں میں، ہیرے لاکھ ہزار،
الا! شاہ لطیف کہے، سر میں دیکھوں یار۔
تیسری داستان
1
بھیگی رات تو بیجل نے تب، ایسی چھیڑی تان،
سن کر جس کو محل میں اپنے، خوش ہوا سلطان،
"آجائے اب تو پاس میرے، گائک اے گنوان۔"
کہے لطیف کہ لاکھوں سر بھی تجھ پہ ہیں قربان،
سر تو ہے مہمان، آ تو تجھ کو کاٹ کے دوں۔
2
چل تو اب محل میں گائک، ڈولی ہے تیار،
راجا رنگ محل میں تجھ کو، بلوائے ہے یار!
کرے گا وہ اقرار، تجھ سے سر دینے کا۔
3
محل میں آیا گائک، لے کر اپنا ساز،
سر میں ہونگی صدائیں سر کی، باجیں گے پھر تار،
سر بِن اب سلطان کے وہ تو، مانگے گا نہ یار،
روئے گا گرنار، محل میں ہوگا ماتم۔
4
لے کر اپنا ساز سرندہ آیا مانگن ہار،
ایسا اس نے ساز بجایا، ٹوٹی ہر دیوار،
شہر میں ہر سو گائک کی، مچی ہے ہاہاکار،
محل میں آکر راجا سے سَر ، مانگا آخرکار،
روئے گا گرنار، گرے گا محل یہ سارا۔
5
راگی راجا بیچ رہا نہ، کوئی اور وسیلہ،
بات جو تھی سائل کے من میں سر کی وہی صدا،
پھیلی بات وہ ہرجا، جو تھی گائک کے من میں۔
6
تجھ کو کہوں جُہار، دن میں دس دس بار،
جس سر کا ہے مول نہ کوئی، وہ سر مانگے یار،
سر داروں سو بار، کام تیرے گر آئے۔
7
ڈالی چاروں اور، میں نے ایک نظر،
دھیان میں رکھ کر دیکھے، راجاؤں کے در،
سر پر دے جو سر، تجھ بِن اور نہ کوئی۔
8
جس کا دمدہ کر آنے ہو ہونارہ نہ دان،
اور نہ ہوتا پاس میرے، دینے کا سامان،
کرتے تم بدنام، دیس دیس میں گائک۔
9
تجھ پر سَر قربان، یہ سر تیرے صدقے،
کاش وہ دیتا دان، جو ہوتا تیرے لائق۔
10
تجھ پر سر قربان، یہ سر تیرے صدقے،
سر میں کیا رکھا ہے گائک، لے اب سر نادان،
دیر نہ کر نادان! کر لے وعدہ پورا۔
11
کہاں برابر سُر، تیرے ساز اور سر کے،
دیتا ہوں یہ حقیر سر خالی ہاتھ نہ جائے،
سر تو کمتر ہے، لاج آئے سر دیتے۔
12
ڈالوں جب پلڑے میں، سر میں کئی ہزار،
وہ ہی پلڑا بھاری جس میں، تیرے ساز کے تار،
سر میں کیا ہے یار! مانگ کچھ اور اے منگتے!
13
گائک! اگر کندھوں پہ میرے، سر ہوں کئی ہزار،
ہر اک سر سو بار، تیرے سر کی خاطر کاٹوں۔
14
جگ میں کوئی بھی دے نہ پایا، ایسا دے تو دان،
ہوگا تیرا مان، گائک گنوانوں میں۔
15
سر دینے میں سکھ ہے سائیں! دان ہے مشکل کام،
ایسا دے تو دان، جس کا رشتہ تار سے۔
16
ایسا دے تو دان اے راجا، جس کا تار سے رشتہ،
ابھی ابھی میں آیا ہوں، مجھ کو نہ تو لوٹا۔
17
بھرا تھا خالی دامن، مکھ پر تھی مسکان،
گائک سر اب حاضر ہے، پھر لینا تن دان،
جب فانی جسم و جان، سر دینے میں ہی بقا ہے۔
18
ساز کو رکھ کر کاندھوں پر وہ، محل میں آیا راگی،
کہے لطیف کہ گائک نے پھر، سر کی صدا لگائی،
راجا پھر راضی ہوا ایسی سخا دکھلائی،
اس کی ماں مسکائی، کہ بیٹے نے سر وار دیا ہے۔
وائي
تجھ کو دوں گا اے یار! اپنے سر کا منگتے!
جھونا گڑھ کی جانب جائیں، ہم تو بن کر یار،
سر نہ دوں تو سارے جگ میں، گائک کرے گا خوار،
چارن! میرے پاس جو سر ہوں، ایسے کئی ہزار،
کاٹ لوں تیرے سُر کی خاطر، ہر ایک سر ہر بار،
لاج مروں میں دان میں دیتے، سر اپنا بے کار،
سکھیو! شاہ لطیف کہے ہے عشق بچھائے تار۔
چوتھی داستان
1
بھید بنا یوں رنگ محل میں، آتے ہیں کب راگی،
نور تجلی نور کی، آنکھوں نے جب دیکھی،
خیمے میں کھنگھار کے، پھیلی نور تجلی،
راگی پہ جب دان کی بارش، چاروں اور سے برسی،
سب نے بات یہ سمجھی، مان گئے راگی کو۔
2
اچھا ہی آئے منگتے! سمجھ گئے ہم راز،
ہم نے تو وہ بات سمجھ لی، کہے جو تیرا ساز،
دان جو دوں میں یار! کرلے اسے قبول۔
3
دل کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں، تیرے ساز کے تار،
حیرت ہے کہ اثر نہیں ہے، تیرے دل پر یار،
رات دیا تھا مار، مجھ کو تیرے ساز نے۔
4
ساز کی یہ آواز نہیں ہے، گونج رہا ہے راز،
کیا جانیں یہ دنیا والے، اس کو سمجھیں ساز،
جھپٹ کے جوں شہباز، پا لے جو ہے پانا۔
5
ہم نے کیا قبول، کہیں جو سُر اور تان،
سر تو وار دیا ہے گائک، مانگ کچھ اور اب دان،
خاک ہے جسم و جان، سر کاٹا تو کچھ نہیں۔
6
مانگ لے اور بھی منگتے، وار دیا ہے سر،
کہاں برابر سر کے، سورٹھ اور یہ گھر،
راز کی بات کروں میں تجھ سے آجا پاس تو پل بھر،
کاٹ کے دوں یہ سر، یا جسم بھی دوں یہ دان میں۔
7
بیجل نے پھر ساز بجاکر، چھیڑی ایسی تان،
سر دینا آسان، وہ کچھ اور ہی مانگے۔
8
اے رند! تو اپنے راز کو بنادے میرا راز،
موت کی اب آواز، گونج رہی ہے ساز۔
9
کاٹ کے سر خوش ہولے، پھر نہ آن نہ گا،
یہ سر چیز ہے کیا، سارا ملک کریں قربان۔
10
تینوں مل کر ایک ہوئے، سر ، کٹاری، تار،
سر کا ایسا مول نہیں کہ کاٹے مانگن ہار،
اچھا ہے کہ یار! مانگا ہے سر مجھ سے۔
11
سسکا ایک ایک سُر، ساز بجا لاہوتی،
چھیڑا ساز حضور میں، پارس تھا وہ راگی،
دیکھ کے "رائے ڈیاچ" کو، ظاہر ہوا وہ ذاتی،
اور نکال کے "کاتی"، کاٹ لیا سر "ڈیاچ" کا۔
12
گل گرنار کا مرجھایا ہے، روئیں خاص و عام،
روئیں سورٹھ، رانیاں، روئے شہر تمام،
سر سجائیں، دیں راگی کو، لے اب سر کو تھام،
محل میں ہے کہرام، راجا لاد گیا جب رات۔
13
کوڑی مول نہیں ہے جس کا، ایسا دان دیا،
گائک پچھتایا، لے کر سر کا دان۔
14
اصلی دان دیا نہ اس نے، مجھ کو ترسایا،
واپس سر لایا، آن رکھا قدموں پر۔
15
سکھ سورٹھ کی موت ہوئی، لاد چلا کھنگھار،
جب نہ راگ نہ روپ تھا، نہ ہی سر نہ تار،
لاکر سر تب یار!، دیا تھا، "رائے ڈیاچ" کو۔
16
سکھ سورٹھ کی موت ہوئی، لاد چلا کھنگھار،
وہ ہی روپ تھا راگ وہی، باج اُٹھے تھے تار،
دھرتی کے اس پار، راضی تھا تب راجا۔
وائي
الوداع اے الوداع، جانی کیا جدا، سورٹھ یاد کرے،
گا اب راگ طریقت کا، بھول تو سر سارے،
سورٹھ سکھیاں سسک رہی ہیں، چلا وہ راجا رے،
اپنا سر میں سجا کے دوں گا، سر تو مہکارے،
من تو رشتے ناتے بھولا، لاگیں سر پیارے،
دیکھ یہ کیسا راگی ہے، جو بلوانوں کو مارے،
سر میں ملے صدا ساجن کی، جس نے مارا رے۔
سُر کیڈارو
پہلی داستان
1
آیا ماہ محرم، جاگا شہزادوں کا درد،
واللہ اعلم، جو چاہے سو آپ کرے۔
2
جاگا شہزادوں کا درد، آیا ماہ محرم،
مکہ، شہر مدینہ رویا، ہر اک راہ ہے پرنم،
بے پرواہ احکم، جو ایسے حکم چلائے۔
3
لوٹ کے آیا ماہ محرم، آئے نہ وہ امام،
یثرب کے وہ جام، مولا! اب تو ملادے۔
4
پھر سے آیا ماہ محرم، آئے نہیں وہ امیر،
یثرب کے وہ میر مولا! دکھادے۔
5
چلے ہیں میر مدینے سے اور، ہوئے ہیں خیمہ زن،
ہر اک کو سندیس دیا اور، لب پر تھا یہ سخن،
پڑے گا اب تو رن، ہوگی جنگ جوانوں کی۔
6
چلے ہیں میر مدینے سے اب، دیکھنا ان کے ڈھنگ،
چلے ہیں سرکش گھوڑے ان کے، لیکر ان کو سنگ،
جس جا رات بتائی اس کے، بدل گئے سب رنگ،
تھکن سے چور تھے انگ، ہائے رے ان بلوانوں کے۔
7
چلے وہ میر مدینے سے اور، لوٹ کے پھر نہ آئے،
رنگ دے اے رنگریز مجھے اب، کالا بھیس سہائے،
جو میر لاد گئے، من ان کے ہجر کی ماری ہوں۔
8
سختی کب تھی شہادت، کی، ملن کی تھی یہ بات،
کچھ بھی یزید نہ کرسکتا تھا، عشق کی تھیں یہ صفات،
عشق کی تھی برسات، جو برسی آلِ علی پر۔
9
سختی کب تھی شہادت کی، یہ تھا میگھ ملہار،
زرہ یزید کی خبر نہ تھی، یہ عشق کے تھے آثار،
ازل سے تھا اقرار، ان سے شہادت کا۔
10
سختی تھی جو شہادت کی وہ تھا میگھ ملہار،
کچھ بھی یزید نہ کرسکتا تھا عشق کے تھے آثار،
مرنے کا اقرار، تھا ان سے روزِ ازل سے۔
11
سختی کب تھی شہادت کی یہ، یار کے تھے انداز،
سمجھیں گے وہ راز، جو ہیں کامل عارف۔
وائي
مومنوں کے میر پھر چلے یثرب،
احمد پی کی اور چلے ہیں، چندا سورج یار!
جگ مگ کرتے تارے ڈوبے، بِن ان کے اندھکار۔
دوسری داستان
1
ڈوبا چاند تو یثرب سے، چلے وہ جنگ جوان،
باجے طبل اور نیزے چمکے، چمکے تیر کمان،
علی کے پوت مہان، کریں گے قہری جنگ۔
2
ڈوبا چاند تو مدینے سے، چلے بہادر دولہے،
ان کے سنگ تھے تیر میر، تلواریں اور نیزے،
جنگ جوان کرینگے پورے توڑ۔
3
ڈوبا چاند تو مدینے سے بہادر جام چلے،
انکے سنگ تھے تیر، تلواریں اور نیزے،
معصوم پوت علی کے، کرینگے جنگ تلواروں سے۔
4
کرب و بلا کے میدان میں وہ ، ہوگئے خیمہ زن،
دیکھ تو کیسے شہزادوں کی، گئی یزید سے ٹھن،
پڑا غضب کا رن، لوٹ کے پیچھے کوئی نہ آیا۔
5
کامل کرب و بلا میں آئے، اہل بیت دلارے،
مصری تیغ سے بلوانوں نے، بیری کتنے مارے،
ایسے پوت جیالے، تھے وہ بی بی زہرہ کے۔
6
کامل کرب و بلا میں آئے، سید زادے شیر،
مصری تیغ سے سروں کے سب نے، لگادیئے پھر ڈھیر،
کانپ اُٹھے تھے دلیر، دیکھ کے میر حسین کا حملہ۔
7
کامل کرب و بلا میں آئے، کیسے جنگ جوان،
کانپ کے اُٹھے یہ ارض و سما اور، تھرایا یہ جہاں،
یہ تھی جنگ مہان، یا عشق کا تھا نظارہ۔
8
کامل کرب و بلا میں آئے، رکھا آن قدم،
اہل بیت نے خیموں میں پھر، کی یہ صلاح باہم!
کیس قضاب ماتم کہ حسین نے پائی شہادت۔
9
کامل کرب و بلا میں آئے، یثرب کے وہ امیر،
آن مقابِل دشمن کے پھر، خوب چلائے تیر،
یہ ہی تھی تقدیر، ان کی روزِ ازل سے۔
10
جو ہیں لاڈلے ان کو قتل کرائے،
اپنے پیاروں کے تن پر وہ، کیا کیا زخم سجائے،
کیا بے پرواہ ہے سائیں، کیسے حکم چلائے،
کوئی اسرار چھپا ہے سائیں بے پرواہ ہے۔
وائي
مچی ہے چیخ و پکار، گئے حسین سدھار،
عرش پہ اک کہرام مچا ہے،
آن ہوئے تھے کرب و بلا میں خیمہ زن دلدار،
دیکھ تو کیسے پوری کرگئے، رب کی رضا اے یار!
کرب و بلا آئے کرنے اپنی جان نثار،
دکھ کے کالے بادل چھائے، ہر سو ہے اندھکار،
دیکھ کے ان کے دکھڑے روئے، نبی بھی زار و قطار،
فلک، ملائک، دھرتی روئی، عرش بھی رویا یار!
تیسری داستان
1
کل دیکھی تھی کس نے واں پہ، جنگ ان بلوانوں کی،
رنگ گئے تھے ہاتھیوں کے، تھی سب دھرتی،
لی وہ راہ تھی، جس میں جان کو خطرہ۔
2
اس بدلی کی چھاؤں میں ان کو، لڑتا چھوڑ میں آئی،
ران کے نیچے سرکش گھوڑے، تیغ تھی خوب سجائی،
ان سے پریت لگائی، جو لوٹ کے آنا طعنہ سمجھیں۔
3
تیغیں چمکانے کو اب تو، آئے ہیں صیقل گر،
کل لدی ہیں ہاتھوں، جنگ نہ روکیں پل بھر،
آئے ہیں دیکھ دلاور، میداں میں سر دینے کو۔
4
وار کریں، ہر ایک کا پوچھیں یہ بہادر ان کے ڈھنگ،
ذرا بھی وہ فرق نہ طلبی، پل بھی رکے نہ جنگ۔
5
کوندیں تیغیں آن ملے جب، سر کے سوداگر،
نعرے اور انیاء تیز کے برپا تھا محشر،
کٹ کے ناچے سر، ہر سر چیخ و پکار ہے۔
6
دائیں بھی ہیں وہ نعرہ زن اور، بائیں بھی ہیں بلوان،
طبل، نقارے باج رہے ہیں، گونجے سب میدان،
دولہا بنے جوان، لگائی خون کی مہندی۔
7
دولہے، گھوڑے دنیا میں جیتے ہیں دن چار،
یا قلعوں میں ہوتے ہیں یا پھر، رن میں جان دیں وار۔
8
سجایا گھوڑے کو دولہا نے، چلے پھر سب اسوار،
اپنی اور بُلائے ان کو، شیر خدا اے یار!
ٹلنا ہے دشوار، قسمت کے لکھے کا۔
9
میداں میں مجروحوں کو جب، خیموں میں لے آئیں،
جن کی مانگیں اُجڑ رہی ہوں، رو رو دھول اُڑائیں،
روئیں اور رُلائیں، ہر سو اک کہرام مچا ہے۔
10
پہن کے سرخ سہاگ کا جوڑا، بن تو دولہا آج،
جہاں پہ بھالے برس رہے وہاں، بیری کرتا راج،
ڈر کیسا سرتاج! موت سے بیاہ رچالے۔
11
یوں نہ کہو کہ بھاگ کے آیا، ماردر سے میرا ساجن،
زخم سجے ہوں چہرے پہ اور، ہنس ہنس سینکے برہن،
جھک جائے گی گردن، گر پیٹھ میں ہوں زخم اے ساجن!
12
لوٹ کے آئے میداں میں تم، لاج مجھ کو آئے،
جن کے اونچے سر پر وہ، دیتی ہیں اب طعنے۔
13
لوٹ کے آئے میداں سے تم، مجھ کو آئے لاج،
جن کے سر اونچے ہیں وہ دیتی ہیں طعنے آج۔
14
جن کے سر اونچے وہ کرتی ہیں چیخ و پکار،
مر کر ہم کو اُجلا کر گیا، جس سے اپنا پیار۔
15
مرجائے تو لوٹ نہ آئے، روؤں میں تیرے کارن،
صدیوں تک کے طعنے ہوں گے، دو دن کا ہے جیون۔
وائي
دیکھ علی! تیری آل پہ اب تو، مشکل آن پڑی،
موت بچھوڑا جیون بھر کا، مشکل ہجر گھڑی،
پتھر چن کر بیبی نے ہے ان کی دیکھ تکے ہے راہ کھڑی،
جن کی راہ تکے ہے ان پر، مشکل آن پڑی۔
چوتھی داستان
1
ایسی چلی ہوا اور ایسی، اوس پڑی پربھات،
علی شیر کے بیٹے تھے اور، رن کی کالی رات۔
2
کر نہ جنگ تو آلِ علی سے، سن لے بات یزید،
خوشی نصیب نہ ہوگی تجھ کو، حسین کو جس کی نوید۔
3
جس جس نے کی جنگ، آلِ علی سے کل،
افسوس ان کے حال پر، وہ جو یزید سے گئے مل۔
4
آج بھی آلِ علی سے، کرتے ہیں جو جنگ،
ہیں وہ یزید کے، رہ نہ ان کے سنگ۔
5
کوفی بھی تھے یزید کے ساتھی، کیسا تھا یہ اندھیر،
دولہا کو میدان میں لاکر، سب نے لیا تھا گھیر،
بیری، دیکھ اندھیر، آپ نے پائی شہادت۔
6
سب نے خط لکھ بھیجے تھے کہ، آئیے اب اللہ،
ہم نے آپ کی بیعت کرلی، آپ ہمارے شاہ،
کوفے کی لیں راہ، تو تخت و تاج ہو قدموں میں۔
7
قطرہ آب کو ترسایا تھا، کیسا یہ بیداد،
کرب و بلا میں کرتے تھے وہ، شاہ علی کو یاد،
تو ہی کر امداد آ میر محمد عربی۔
8
رات ڈھلی تو کرب و بلا سے، اُڑ کر آیا پنچھی،
روضہ پاک کے پاس وہ بیٹھ کے، بولا تھا یہ بولی،
پہنچو محمدؐ جلدی، پڑا غضب کا رن ہے۔
9
رات ڈھلی تو صبح کا پنچھی آیا صبح سویرے،
بولی بولا بیٹھ گئے پاس وہ روضے کے،
پڑا غضب کا رن، اب پہنچو میر محمدؐ عربی۔
10
رات ڈھلی تو کرب و بلا سے، پنچھی آیا کل،
خون میں لت پت شہزادے ہیں انگ ہوئے گھائل،
آگئی ان کو اَجل، جو میر حسین کے ساتھی تھے۔
11
کرب و بلا میں گونجی، صدائیں شہزادوں کی،
بارش لوہے کی برسی، جو ہیں راہ کے شہزادے۔
وائي
رن میں چلا تھا دن، رن میں رہے امام،
جا نانا کی اور اے کونج! کہہ تو میرا سلام،
مولا! برکھا برساؤ اب، بیری ہیں ہر گام۔
پانچویں داستان
1
حسن حسین کے سنگ نہیں جو جان نثار کرتے،
دوجا جگ وہ منزل ہے جہاں، جانا آخر کار،
تجھے تو وار پہ وار کرنے جبھی تو تم اے یزید!
2
حسن حسین کے سنگ جو ہوتے چھڑی تھی جب یہ جنگ،
شمع رخ پہ یوں جل جاتے، جلتا ہو جوں پتنگ،
پروانوں کے ڈھنگ، کب ہیں اور کسی میں۔
3
جنگ میں لڑنے والے سرفروش نہیں ہوتے،
میدان میں وہ ہیں اُترے جو لوٹ کے آنا طعنہ سمجھیں۔
4
جنگ میں پہنچے ذرہ تو سمجھو، اس کو جان ہے پیاری،
سمجھ کریں ہیں جینے کو ابھی ہے خواہش تان،
جنگ کا جو میدان، رہ فروخت مانگے جنگ۔
5
جیت اگر تو جنگ میں چاہے، سارے وہم بسار،
بھالے مار اور بھڑ جا، لے تو سینے پہ سب وار،
بیری پہ یلغار، کر تو مان تو پائے۔
6
دیکھو کیسے چل کر آیا، "حر" مردانہ ہار،
تیرا مکھ ہے شمع اور میں ہوں، پروانہ سرکار!
تیرے نانا راضی ہوں بس، یہ ہے مجھے درکار،
کردوں جان نثار، اے دولہا میں تو تجھ پر۔
7
روزِ ازل سے ہی پائی تھی، حر نے سیدھی راہ،
کرب و بلا میں چل کر آیا، بیری کے ہمراہ،
کہہ اُٹھا کہ واروں خود کو، دیکھا جب ناگاہ،
لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا، یہ ہے میری چاہ،
عشق کی رسم و راہ، دے کر جان نبھائی اس نے۔
8
خون رنگی تھی ریش مبارک، دانت جوں پھول انار،
رن میں ماہ منیر کی صورت، رخشندہ دستار،
تھی خاموش وہ بیبی جن کے محمد تھے غم خوار،
یوں جو سردے وار، تو اس کی عظمت گائیں۔
9
خون رنگی تھی ریش مبارک، دانت جڑ سے تھے موتی،
دمک رہی تھی پیشانی جوں، چمکے چندا جوتی،
اللہ نورالسموات والارض، دمک رہی تھی دھرتی،
نشانی سجدہ، پیشانی پر جیسے نور تجلی،
سہلاتے تھے زخم علی اور، دھرتی بھی تھی روتی،
معاف خطائیں کردیں ان کے خون کے بدلے۔
10
قدم تھے خون میں دلدل کے اور سرخ تھی کرب و بلا،
شیر مصروف تھا تیغ زن میں، سورج کا مسکانا۔
11
تلواریں تھے کمر سے باندھے، سر پہ تھی دستار،
خوب بڑوں کی ریت نبھائی، ایسی کی یلغار۔
وائي
آئے نہیں وہ امام، جن کی اعلیٰ ذات،
آؤ کریں اب ماتم،
ختم ہوا تھا دانہ پانی، برسی نہ برسات،
دس دن بیت چلے تھے رن میں، بیتی آخری رات،
دلدل کو آراستہ کرکے، تھام لی آپ نے راس،
لاد چلا ہے شہزادہ اب، سیج نہ آئی راس۔
چھٹی داستان
1
سن شہزادےجنگجو، تو اس طرح سے جی،
چھبولی نوکیں تلواروں کی، اس تلوار کا پی،
کرگس ہیں جو بھوکی، ان کی بن خوراک۔
2
کبھی نہ سیج پلنگ سے اُترے، پیر تھے جن کے پاک،
کٹ کر گرے وہ گھوڑوں سے اور، سجی بنی تب خاک،
ہائے بنے خوراک، وہ پربت کے کرگس کی۔
3
پریت پر جوں ریوڑ ایسے، ٹیلوں پر کرگس،
ملے بہادر لڑیں اور دوڑیں تب جینے کی تھی ہوس،
بیواہیں بے بس کرینگی جمعا کالا رنگ وہ کیسا۔
4
کرگس کہیں نہیں ٹکتے، ہیں وہ جنگ کے رسیا،
حسن حسین یہ آز کو، کریں بیاہ کی رسم ادا،
کھولیں چرخ سے جوڑا جن کے سر دستار بندھی ہے۔
5
کرگس بن ہیں ڈھونڈتی ہیں سدا خوراک وہ اپنی،
پوچھتی ہیں وہ اک درجے کے ہے جانے جنگ کب ہوگی،
ہیں بلوانوں کی کھائی بزدل کے وہ فریب نہ جائیں۔
6
کرگس ایسے سرکش ہیں کہ، اور نہ کھائیں ماس،
جس کے سر دستار بندھی ہو، اس کی ڈھونڈے لاش۔
7
یہ نیناں مت کھا اے کرگس، بسا ہے ان میں پیار،
دیکھ کہ کیسے لیٹا ہے اب، خاک پہ وہ دلدار،
جس کے نازک تن پر جڑے ہیں گھاؤ حرار،
کہا کو لے ستار، ماں نے اپنا پوتا سجاکر۔
8
تجھ کو روگ لگے اے کرگس! جھڑیں یہ بال و پر،
پھولوں کی برکھائیں کرتی، تو شہزادوں پر۔
9
صحراؤں کے سارے کرگس، ماس کو تھے حیران،
خوش تھے جب وہ جوان ہوئے تھے، زور آور بلوان،
کریں گے جنگ جوان، پڑے گا اب تو رن۔
10
جنگ بِنا کب شہزادوں کو، آتا ہے آرام،
اس دم سب نے جان فدا کی، آئے تھے جب وہ امام،
یجاھدون فی سبیل اللہ، اور کریں نہ کام،
حوریں گل اندام، باندھیں سہرے شہزادوں کو۔
11
سدا سے ہی شہ زور تھے سارے، جنگ کو ہیں تیار،
سنگ تھے بھائی اور بھتیجے، سنگ تھے جانی یار،
دیکھ تو کیسے دشمن سے وہ، جیت گئے سردار،
حوریں ڈالیں ہار، سہرے یار شہیدوں کو۔
12
پہنچے جنت میں تو پایا، تھا فردوس مقام،
فنا فی اللہ ہوکر ہوگئے ایک ایک گلفام،
مولا کر احسان، دکھا دے صورت انکی خاطر۔
13
اہل بیت کی جنگ کو جب یہ، جان گیا تھا جہان،
جیسے غول ہوں پنچھی کے یوں، اُڑ کر آئے بان،
رکھی انہوں نے شان، اپنے آبا و اجداد کی۔
14
اہل بیت کی خاطر سائیں، روئے سب کے دل،
سارے ذی روح اور ملک بھی، ہوگئے اس میں شامل،
پر پھیلا کر پنچھی چیخے، لاد چلے جب کامل،
فتح ہو ان کو حاصل، یہ جو شہزادے ہیں۔
15
اہل بیت کی خاطر سائیں، روئے نہ جس کا دل،
کبھی نہ ہوگی حاصل، ان کو رب کی خوشنودی۔
وائي
آؤ کریں ماتم اے سائیں! آؤ کریں ماتم،
کیوں نہ خون کے آنسو روئیں، آنکھیں ہوں پرنم،
جو کچھ ان پر بیتی وہ، پہلے سے تھی رقم۔
سُر سارنگ
پہلی داستان
1
کہے لطیف کہ دیکھ تو بادل، چھائی کالی بدرا،
ریوڑ، ہانک کے لے آئی، رم جھم برسی برکھا،
چھوڑ کے کٹیا میدانوں میں، لاؤ سامان سارا،
والی ہے جو سب کا، آس رکھو اس مولا کی۔
2
کہے لطیف کہ دیکھ گھٹائیں، اللہ لایا بادل،
سبزہ زار ہیں میدان ہیں جل تھل،
مولا کی یہ مہر کی ہر سو، گھاس اُگی ہے نرمل،
سانگی تھے جو بے کل، ٹوٹ کے ان پر بادل برسا۔
3
بادل! پی درشن سے سُندر، نہیں ہیں تیرے انگ،
کہے لطیف کہ بن پریتم کے، کوئی نہ بھائے رنگ،
سج دھج ہے سارنگ، جانی آیا جگ میں۔
4
جانی آیا جگ میں من کو ملا قرار،
دھل گئے دل کے دکھڑے سائیں، کرم ہے اے یار،
آج ہوا دیدار، اپنے سہنل یار کا۔
5
پھر اُتر کی اور سکھی ری! بادل گہر کر آئے،
ساون رت میں لوٹ کے آیا، بادل مینہ برسائے،
دکھیارے کا کہے لطیف، دکھ سارا مٹ جائے،
ایسا جل برسائے، کہ پیاس بجھے پیاسوں کی۔
6
پھر اُتر کی اور آئے، برسنے کو بادل،
برکھا برسی راہوں پر، جگ سارا ہے جل تھل،
آئے کبھی نہ وہ پل، کہ پیا بدیس کو جائیں۔
7
پھر اُتر کی اور سکھی ری، "تاڑے" کے چہکار،
ہل اپنا ہاری نے تھاما، خوش ہوئے سنگھار،
آج پھر میرا یار، ہے برسنے کو آیا۔
8
پھر اُتر کی اور سے آئی، جھوم کے بدلی کالی،
رم جھم رم جھم بوندیں برسیں، کھل کھل جائے ڈالی،
ریوڑ تھے سب بھوکے پیاسے، ہر سو اب ہریالی،
بھر کر پیٹ اب خالی، ریوڑ دوڑتے آئے۔
9
پھر اُتر کی اور سکھی ری! آج بدریا چھائی،
ساون رت کی بجلی دیکھو، چمک کے بدرا لائی،
ملن کی رت ہے آئی، لوٹ کے آجا ساجن رے۔
10
پھر اُتر سے آئے، بادل، جیسے کالے کیس،
رُت ساون کی آئی دیکھو! پہن کے بدرا بھیس،
پریتم تھے پردیس، برکھا رت میں آن ملے ہیں۔
11
پھر اُتر کی اور سے، اللہ بادل لایا،
بارہ برس جو بیت چلے تو، ساون برسن آیا،
ایسا مینہ برسایا، کہ سکھ سے سوئے سانگی۔
12
پھر آکاش کو تکتی ہیں یہ آنکھیں نہیں نراس،
بادل دیکھ کے من میں جاگی، پیا ملن کی آس،
آس ہے من میں مل جائے، اے دھرتی کی پیاس،
ساجن جب ہو پاس، تو ہر رت میگھ ملہار ہے۔
13
پھر اُتر کی اور سکھی ری! چھائی بدلی کالی،
روضہ پاک رسول پہ، گرج گرج کے برسی،
چمک چمک کے بجلی، آئے تو دور ہوں دکھڑے۔
14
پھر اُتر کی اور سکھی ری! جھومے مست سحاب،
لہر لہر تالاب، چیخ گئی تھی پیاسی دھرتی۔
15
پھر اُتر کی اور سے بادل، گرج گرج کر آیا،
بھر دیں ساری تال تلیاں، ایسا مینہ برسایا،
ہر سو کستوری کی خوشبو، ایسا رنگ جمایا،
جھوم کے مینہ برسایا، روضہ پاک رسول پر۔
16
روضہ پاک رسول پر، بجلی چکمن لاگی،
بھر گیا سارا سوکھا "نارا"، ایک نظر جو ڈالی،
اب تو سائیں! پیاس بجھادے یہ دھرتی ہے پیاسی،
پی نے آج دکھا دی، اپنی نرمل صورت۔
17
آج دکھائی ساجن نے، اپنی صورت نرمل،
دل سے اترا زنگ سکھی ری! دل میں خوش ہے ہرپل،
میرا من تھا، بیکل، درشن پیاس بجھی ہے۔
18
بادل آئے، بجلی چمکی، سارنگ کرے سنگھار،
پیاس بجھائی لاکھوں کی جب، برسے میگھ ملہار،
کعبہ پہ اے یار! چھائے ہیں بادل۔
19
برس برس کر برسے بدرا، رُت آئی ہے برکھا کی،
دودھ تھنوں میں اُترا جو بھی، دودھ نہیں تھی دیتی!
رُت آئی ہے اب ایسی، کہ خوش رہیں گے ریوڑ۔
20
بادل! گر تو برسے، جیسے میرے نین،
پھر نہ پائے چین، برسے تو دن رات۔
21
زلفیں جیسے کالے بادل، اکھیاں میگھ ملہار،
جیسے سندر میگھ ہیں سائیں! ایسا سندر یار،
آنکھ اُٹھا دلدار، مُسکا تو دکھ دور ہوں۔
22
ساون ہو یا اور کوئی رُت، پل پل برسیں نین،
یاد کروں اس پریتم کو، پل بھی نہیں ہے چین،
روئیں وہ دن رین، جن سے بچھڑے ساجن۔
23
بجلی چمکی غلے کے ہیں ہر گھر میں ڈھیر لگے،
دیکھ روش اس پریتم کی اب، ختم ہوئے سب دکھڑے،
شام سے برکھا برسے، ٹوٹ کے برہ کے ماروں پر۔
24
برکھا ہجر کے ماروں پر، ٹوٹ کے برسی آج،
بھاگ ذخیرہ کرنے والے، آنگن بھرے اناج۔
25
آنگن گھوڑے، باہر، ریوڑ، جھلمل جھمکے کُٹیا،
پریتم سنگ میں سیج پہ سوؤں، چھم چھم برسے برکھا،
سنگ میرے وہ پیارا، ملن کے دن ہوں سارے۔
26
میداں صحرا جل تھل جل تھل، جل تھل اج ترائی،
صبح ہوئی تو دہی بلونے کی، آواز ہے آئی،
ہاتھ بھرے ہیں ماکھن سے یہ، برکھا کی سجنائی،
ہنستی گاتی، سجنی دودھ بھی دوہِ کے آئی،
ہر ناری مُسکائی، خوش ہیں اپنے گھروں میں۔
27
میداں، صحرا بھیگ چلے ہیں بھیگا جیسلمیر،
آج سکھی! بادل نے تھر میں، آن رکھا ہے پیر،
مسکائی وہ برہن جس سے خوشیوں کو تھا بیر،
کریں خوشی سے سیر، سکھ سے ہیں سنگھار نیں۔
28
میداں، صحرا بادل برسا، بھر دی "کچھ" کنار،
ساجن بھئی تو برسن لاگا، کھل کر بادل یار،
دیس ہوا گلزار، رب نے دکھڑے دور کیے۔
29
سارنگ! ہم سے پیاسوں کو، کبھی تو یاد کرو،
پیارے دیس میں ارزانی ہو، خالی تال بھرو،
رم جھم تم برسو، پیاس بجھے پیاسوں کی۔
30
سب ہی یاد کریں سارنگ کو، پیاسے پنچھی انسان،
"آڑی" "تاڑے" ترس رہے ہیں، کب ہو بادو باراں،
پیاسی سیپ سمندر میں ہے، پل پل بوند کو حیراں،
بھردے تال تلیاں، تو خوش ہوں سب چرواہے۔
31
پریتم بیچ نہ ریوڑ، یہی ہمارا مال،
بھوکے پیاسے ریوڑ کو تو، ساجن آن سنبھال،
ریوڑ لے کر چل اب سائیں!، ہر سو ہے ملہار،
کے آئے جھوم کے آئے بہار، اے ساجن ہمارے آنگن۔
32
رُت ساون کی لوٹ کے آئی، ساجن لوٹ نہ آیا،
گرج رہا ہے دھیان میں سکھیو! آیا دیکھ وہ آیا،
نم ہے ساری پیاسی دھرتی، ہادی برکھا لایا،
مینہ جو برسایا، یوں نہ سمجھو تھم جائے گا۔
33
دیکھ سجا کے سارنگ کو، بجلی چمکی آج،
برسیں چھاج کے چھاج، بھر گئے سارے تال۔
34
دیکھ سجا کے سارنگ کو، بجلی چمکن لاگی،
جھوم اُٹھی میں دیکھ کے بادل، کڑ کڑ کرتی بجلی،
میل دلوں کی اُتری، دیکھ کے گاتے بادل۔
وائي
مشکل کو آسان کریں گے، سید وہ سردار،
سجدے میں ساجن سے سائیں، منت آپ کریں گے،
احمد اپنی اُمت خاطر، کیا کیا جتن کریں گے،
صور اسرافیل سے سائیں!، ارض و سما لرزیں گے،
مسکائیں گے میر محمدؐ، مومن آن ملیں گے،
پاپوں مارے بھاگ کے سارے، کملے کو تھامیں گے،
بخشیں گے سب گناہ ہمارے، ہم بھی مان کریں گے۔
دوسری داستان
1
جیسے لاکھ کا رنگ، شفق کھلی بدرا میں،
جیسے رنگ چنریا چمکیں، چمکے بادل انگ،
"بھٹ" پر ہے سارنگ بھر دی جھیل "کراڑ"۔
2
جھوم جھوم کر "بھٹ" پر آئیں آج گھٹائیں کالی،
جیسے "کھٹن ہار" کھلیں یوں، کھل کھل جائے بجلی،
صحرا صحرا پھول کھلے ہیں، ہر سو خوشبو بکھری،
میدانوں پر برسی، بھر دی جھیل "کراڑ"۔
3
جھوم کے جھیل کراڑ پر برسی، ریت ہوئی ہے نم،
کیسے ہے گنواں بدریا، برسے ہے رم جھم،
"ماکانی" سے لوٹ کے آئی، "پب" پر گئی ہے تھم،
اس کا ہوا کرم، دیکھ "چکھی" پر "چیہا" پھوٹا۔
4
دیکھ "چکھی" پر چیہا پھوٹا، "گڑنگ" پر پھول کھلے،
تال تلیاں بھر کر بادل، چلا ہے ہڈکٹ سے،
ٹوٹ کے بادل برسے، باغ بہار ہے صحرا۔
5
بادل کے برجوں میں چمکے، آج رسیلے رنگ،
کیا کیا ساز سرندے باجے، باج رہے ہیں چنگ،
مینائیں سارنگ، اُلٹ دی ہیں "پدام" پر۔
6
مینہ بھی وہ ہی نینہہ بھی وہ ہی، دونوں ایک سے اکھر،
برسن کا جب بھیس کریں تو، چیخیں آہیں بھر بھر،
میں تو بدلی بن کر، برسوں جو آئیں۔
7
بادل یاد دلائے ساجن، برہن گھل گھل جائے،
بائے ری سکھیو! بِن پریتم یہ کٹیا بہہ نہ جائے،
کس کو دوشی ٹھہرائے گی، کٹیا جو گر جائے،
لوٹ کے وارث آئے، ڈھانپ دے آکر برہن کو۔
8
گرج گرج کر بادل آئے، کرے وہ پی کو یاد،
خوف سے برہن کانپ اُٹھے ہے، گرج چمک کے بعد،
کون سنے فریاد، بن تیرے اے ساجن!
وائي
ہووے راکھ قریب، میں جاؤں سجن کے دوار،
جیسے جیسے دنیا روکے، پریتم آئے قریب،
پریت کے پایل باندھ کے تیرے دوار حبیب۔
تیسری داستان
1
ہاتھی حیرت سے دیکھے ہے، میرے پی کی چال،
لال گلاب بھی شرمائے ہے، ہونٹ پیا کے لال،
چندا، بجلی چمک کے دیکھیں، روشن حسن جمال،
کہے لطیف کہ دیکھن کارن، دونوں ہیں بے حال،
خوشبو رنگ، گلال، ساجن سنگ ہے لایا۔
2
ساون رُت کے ساز بجے ہیں، جھن جھن جھن جل تھل،
بھرے ہیں سارے تال سکھی ری! ریوڑ ہیں چنچل،
آج پروئے ہار دلہنیا، کل تک تھی بے کل،
برکھا کی رت ہے ساتھ میں لائی، طرح طرح کے پھل،
برکھا رت اور بادل ختم ہوں دکھ کے دن اے مولیٰ۔
3
ساون رُت کے ساز چھڑے سن، "تاڑے" کی چہکار،
ہاری کھیت کی اور چلے ہیں، ہل کاندھوں پہ ڈار،
بادل میرا یار، آج برسنے آیا۔
4
ساون رُت کے ساز چھڑے ہیں، بادل سرنے آیا،
ماکھن کی بہتات ہوئی اور، غلہ ہوگیا سستا،
کلمہ پاک سے دھویا، زنگ دلوں کا سرا سکھیو!
5
بھیگا "رائیک" "لوتڑی" بھی، آض ہوئی سیراب،
چیخ گئی تھی دھرتی اب ہے، لہر لہر تالاب،
لایا بے حد آب، بادل بھیجے پی نے۔
6
اب مت لاد کے چل اے ساجن! گھیر کے آئے بادل،
بجلی چمکی، بدرا کے اب، نین سے برسے جل،
میدانوں کو چل، تو وہاں بنائیں کُٹیا۔
7
ساون، ملن کی رت ہے لایا، اب تو آجا پریتم،
برسیں نیناں چھم چھم، تیری یاد میں ساجن۔
8
بیت چلی ہے رُت ساون کی، اور بھی برسی برکھا،
دل کا حال سناتے آخر، بدرا لایا مولا۔
9
جیسے جھوم کے بادل آئے، جھوم کے ساجن آیا،
ان کے پاس آ برسا، جو تھے شجر کے مارے۔
10
سردی سہی نہ جائے سائیں! مانگوں گرم میں شال،
بدرا میرا حال سنادے، اسے جو لالن لال،
ساجن آن سنبھال، ٹھٹھر رہی ہے برہن۔
11
ساجن! تجھ بن ٹھنڈی ہوائیں، ٹھٹھر رہا ہے تن،
گرم لحاف میں بِن تیرے، ٹھٹھر رہی برہن،
آس بندھی ہے ساجن، آئیگا جب رات ڈھلے گی۔
وائي
اکھیاں میگھ ملہار ، صورت نے جگ موہ لیا ہے،
مُطلب کی پیشانی سے، نور کا تھا اظہار،
فیل نے سجدہ جسے کیا تھا، مُطلب وہ سردار،
آپ وجود میں جس دم آئے، کانپ اُٹھے کفار،
عرش بریں پر قدم دھرا تو، سامنے تھا دلدار،
احمد پی پر رحمت کی ہے، جس کا انت نہ پار،
قادر جس کی قسمیں کھائے، احمدؐ سے ہے پیار،
ترسی اکھیاں بدرا دیکھیں، مسکائیں "سنگھار"،
رم جھم رحمت برسن لاگی، کرم ہوا دلدار۔
چوتھی داستان
1
بادل اب ساجن کی صورت، گرجے "جھوک" کی اور،
بدلتا رنگ دھرتی کا، چھائی گھٹا گھنگھور،
"لس" پر برکھا شور، اکھیوں جل برسائے۔
2
کھلی "کھنبھات" پہ بجلی اور اب، چلی ہے سرد ہوا،
ریوڑ ہانک کے باہر لاؤ، سبزہ ہے ہرجا،
پیاس بجھی ہے سنگھاروں کی، پیاسا تھا صحرا،
یوں برسی ہے بدرا، کہ صحرا بھیگ چلا ہے۔
3
آج لجاتا سورج اُبھرا، دھندلی دھوپ سجائی،
چمک چمک کر بجلی دیکھو، سکھ سندیسہ لائی،
اے دل نہ دے تو دمان، ملیں گے اب تو ساجن۔
4
ڈھٹ سے ڈھلی تو لہراتی وہ، چلی ہے تھر کی اور،
برس برس کی تال بھرے ہے، آج گھٹا گھنگھور۔
5
بل کھاتے لہراتے بادل، "ڈھٹ" سے لوٹ کے آئے،
پیاسے سوکھے میدان سارے بادل نے ہیں بھگوئے،
بجلی نہ برسائے، بادل سامارو پر۔
6
ڈھٹ سے چھٹ کر جھوم کے بادل، چھائے ہیں "کامارے"،
"پران" پر گرجے، کھل کر برسے، چلے ہیں "سامارے"،
دیکھو بدرا کالے، بجلی کا ہیں بھیس سکھی!
7
ڈھٹ سے آئے میدانوں میں، وادی وادی سبزہ،
سورج چاند بھی ماند ہوئے جب، دیکھا ساجن میرا،
آج وہ آنگن آیا، جو من میں بسا ہوا ہے۔
8
ڈھٹ سے چلے ہیں سن بادل کی، دھیمی دھیمی آہٹ،
پی کی خاطر آج سجالی، اپنے گھر کی چوکھٹ،
رات نے بدلی کروٹ، تو پریتم انگنا آئے۔
9
ڈھٹسے لہرا کے میداں کو، آئے بدرا آج،
ان پر کیا کرم ہوا جو، کل تک تھیں محتاج،
سنگھاروں کی لاج، تو ہی رکھیو مولا!
10
صبح سانس لیا بادل نے، برس کے ساری رات،
گر ہو من میں پریت تو ہووے، باطن میں برسات،
رات ہو یا پربھات، برسے بادل ہر دم۔
11
گرج چمک اور جھوم کے آئے، بدرا اب کی بار،
چم چم چمکے، گھن گھن گرجے، برسے میگھ ملہار،
جائیں استنبول کو بدرا، برسے مغرب پار،
چین دیس اور سمرقند پہ، برکھا کی یلغار،
برس رہے ہیں روم پہ بادل، کابل اور قندھار،
بھیگ چلے ہیں دہلی دکھن، بھیگ چلا گرنار،
جھوم کے جیسلمیر سے آئے، بیکانیر بکار،
بھیگا بھیگا "بھج" ہے سارا، "بھٹ" پہ بوند بہار،
ٹوٹ کے عمر کوٹ پہ برسی، ہر سو ہے ولہار،
میری سندھڑی پر بھی سائیں! رحمت ہو ہر بار،
دوست میرا دلدار، عالم سب آباد کرو.
12
پھر سے بدرا برسن آئے، دھرتی ہے سیراب،
سارنگ سج کر سیج پر سویا، بجلی ہے بے تاب،
برہن کے گھر داج خوشی کا، لایا مست سحاب،
ہر سو بیج بکھیریں ہاری، کھلا خوشی کا باب،
خوشیان چنگ رباب، عالم سب آباد ہوا۔
13
پھر سے بدرا گھر کو آئے، برسن کے ہیں ڈھنگ،
چم چم چمکے، گھن گھن گرجے، دیکھ تو کیا کیا رنگ،
ڈھیر اناج کے آنگن آنگن، باج رہے ہیں چنگ،
بھوک سے تھے جو تنگ، ان کے روشن آنگن ہیں۔
14
پھر سے بادل گھر کو آئے، آج گھٹا پھر چھائی،
برسن کارن چمکے بجلی، پل پل لے انگڑائی،
دودھ تھنوں میں چھلکاتی ہر، بھینس اب لوٹ کے آئی،
سبزہ دیکھ کے میدانوں میں، بھینس ہے بچھڑے لائے،
برہن ہے اِٹھلائی، پیا منانے آیا۔
15
رب کا حکم ہوا ہے اب تو، سارنگ کرے سنگھار،
بجلی چمکے، گرج گرج کر، برسے بادل یار،
مہنگا بیچنے والے سارے، ہوئے ذلیل و خوار،
پانچ کا پندرہ میں جو بیچیں، کریں یہ کاروبار،
مفلس ہاری ہنس ہنس بولے، خوش ہوا گھربار،
تیری ہے آدھار، مولا! مفلسوں کو۔
16
من کی بیچ تو برکھا رُت ہے، باہر کہاں ہے بدرا،
اس من میں سدا ہے ساون، جس من پریت بسیرا،
جن کے گھر میں پیارا، ان کے نین سدا مسکائیں۔
17
من کے بیچ بھی برکھا رت ہے، باہر بھی ہے برکھا،
جن کے من میں پیارا، ان کی روشن آنکھیں۔
وائي
آئے میگھ ملہار، میں سرخ رنگونگی بھیس،
کالے بدرا تن پہ ڈھانپے، برسن، لاگا یار،
چرواہن کی کالی لٹ پر، بوندیوں کی پھوار،
کہے لطیف کہ مہر کرو اب، انگنا آکر یار۔
سُر آسا
پہلی داستان
1
ڈھونڈ رہی ہوں لاحد میں اور ہادی کی نہیں حد،
ایسا حسن و جمال ہے جس کا، کوئی نہ قد و مد،
پریت یہاں بے حد، وہاں ساجن اپنا بے پروا۔
2
خودداری اور خودبینی سے، کون گیا اس پار،
ان اللہ وتر ویحب الوتر، دوئی آگ میں ڈار،
یکتائی کے دوار، جا خودداری کو تج کر۔
3
دوئی جھونکوں آگ میں خود سے روک مجھے،
میری "میں" کو روک لے، تجھ کو "تو" سُہائے۔
4
تجھ کو "تو" سہائے سائیں، تو ہے سارا جمال،
اے شارک! سب وہم بھلادے، چھوڑ دے اور خیال۔
5
خود سے کردے بلند اے سائیں! بھولا خود کا بچار،
شرک میں سارے عمر بتائی! میں نے اے ستار!
6
یہ بھی عین ہے شرک اگر تو، بے شرک خود کو سمجھے،
گنوا کر یار وجود کو، رنگ تو ہوجا خود سے،
تیرا وجود ہرگز نہیں ہے اور نہیں ہے وہ بھی۔
7
وہ نہیں بن اس کے نہیں اسکے سوا،
"الانسان سری وانا سرہ" جان لے بات ذرا،
عارف گئے بتا، رمز کی ساری باتیں۔
8
نہ تو عبد کی ابتدا ہے، نہ ہی انتہا،
خود سے ہوئے وہ جدا پی کو جو پہچان گئے۔
9
ترک ہوئے تعظیم سے، اور طلب کو ترک کیا،
پہنچے وہ اس جا جہاں پہ کوئی حد نہیں ہے۔
10
میں ہوں عبد اور تو معبود، اس میں شرک نہ شک،
کرتے ہیں وہ یاد پیا کو، جیتے ہیں جب تک،
وہی راہِ حق، جس میں نظر آئے وہ ساجن۔
11
خود کا ہے ادراک اگر تو نماز ہو پھر کیسے،
توڑ دے سب تو رشتے پھر تو کہہ تکبیر۔
12
خود کا ہے ادراک اگر، پھر تو نہیں،
جب ہو فنا وجود، تب تو کہہ تکبیر۔
13
عبد ہوئے وہ اعلیٰ، ہوگئے جہ نابود،
مخفی ہیں مورت میں، صورت میں موجود،
عقل ہوئے مفقود، بات کریں کیا پی کی۔
14
بات پیا کے بھید کی ہے، بھید ہے بات ساری،
آئے نہ پی سے دوری الھ نہ اب مان باتوں میں۔
15
جو ہے تیرا ساجن بوجھ نہ صورت اک کی،
بات وہ ہی ہے اچھی، جو ہو نہ آمنے سامنے۔
16
بن مورت پہچان نہ پائیں، سوجھ کبھی نہ صورت،
اک معصوم سی حیرت، پالے خود کو گنوا کر۔
17
فانی وہ فی اللہ ہیں، جن کا فنا وجود،
نہ ہی قیام قعود ہے، نہ وہ کریں سجود،
جب ہوگئے ہیں نابود، تب وہ آئے بود میں۔
وائي
جس رات وہ آئے ساجن، وہ رات کبھی نہ بیتے،
ہجر کا درد دیا ہے سائیں، دکھیا کو کس کارن،
چلے جبل کو ذرا نہ سوچا، کریگی کیا دکھیارن،
قرب نصیب ہو تیرا سید اوار سائیں تیرا درشن،
بیٹھی راہیں تکتی ہوں تو، مہر سے آئے آنگن،
سکھیو شاہ لطیف کہے کہ، آئیگا وہ ساجن۔
دوسری داستان
1
صبح صبح ہی نین ہمارے، جب نہ دیکھیں پریتم،
دونوں نین نکال کے سائیں، دیں کاگا کو ہم۔
2
صبح صبح جب آنکھ کھلے اور، دیکھ نہ پائیں ساجن،
اپنے دونوں نین نکال کے، دے کاگا کو برہن۔
3
مجھ پر میرے نین کے، احسان ہیں کیا کیا،
نظر پڑے قریب پہ تو، سمجھیں پی دیکھا۔
4
پریتم بن گر اور کو دیکھیں، ملن کی پیاسی آنکھیں،
تو نین نوالہ دیں، نکال کے د یں ہم کاگا کو۔
5
نہار منہ ہی نینن کا تو پی کو دے نذرانہ،
دیکھے پی کا چہرا، تو ستر طعام ہیں گی گویا کھائے۔
6
صبح دم ساجن کو دیکھا، ہوگئے نین نہال،
جیسے حج کر آئے ہوں، دل کا ہے یہ حال۔
7
آنکھیں علی الصباح، دوست کو دیکھ آئیں،
کھڑی ہیں بندگی میں آنکھیں، اور نہ ان کی چاہ،
چڑھے گا رنگ اتھاہ، ساجن سے من جائیں گی۔
8
جانے کیا، کس اور، دیکھ کے آئے نین،
پائیں اُدھر ہی چین، میرے سرکش نیناں۔
9
جانے کیا اس پار، دیکھ کے آئے نین،
ہوگئے دیوانے یہ نیناں، پریت کا ہے آزار،
کھویا صبر قرار، چین سے سو نہ پائیں۔
10
آج نہ جانے نین نے، کی ہے کس کی زیارت،
پیار دکھایا ساجن نے سرمستی اور راحت۔
11
آنکھیں دیکھ کے آئیں، جانے کل کیا حال،
لالن لعل کی لالی سے اب، رچ کر ہوگئیں لال،
وہ ہی نین نہال، جو دیکھیں اپنا ساجن۔
12
دیکھ کارن دلبر نینان برسیں آس لگائیں،
جوں جوں پی کو دیکھیں، توں توں مستی پریتم کی۔
13
دیکھن کارن دلبر نیناں، برسیں آس لگائیں،
دیکھ کے آئیں پی کو، پھر درشن کو جائیں،
پیاس بجھا نہ پائیں، نیناں پی درشن سے۔
14
روز یہ دیکھیں پی کو، پھر بھی پی کا دھیان،
کر آئے ہیں نین ہمارے، پریتم کی پہچان۔
15
نینان نینن سنگ، غصے ہو لڑ جائیں!
جب سے سیکھی پریت ہے، جانے کیوں اُڑ جائیں،
خود سے خود من آئیں اور پھر سے روٹھیں خود سے۔
16
دیکھ ذرا ان نینن کی، کیسی انوکھی ریت!
غیروں کے دکھ اپنائیں سب کو جانیں میت،
اس سے کی ہے پریت، چلے نہ جس پہ بس برہن کا۔
17
کیا کیا میرے نینن کے، لڑنے کے ہیں ڈھنگ،
دیکھ جھڑتے نینن کو، عجب ہے ان کی جنگ،
ایسے چھائے کارے بدرا، جیسے رُت سارنگ،
برسیں ساون سنگ، پل پل نیر بہائیں۔
18
جوں جوں روکیں نینن کو، پیا ملن کو جائیں،
سپنوں میں جگ روند کر، ساجن سے مل آئیں،
پریتم سے من جائیں، مجھ کو روتا چھوڑ کر۔
19
آنکھوں نے بِن پوچھے ہی، پی سے کی ہے پریت،
اُس جا لاگے نیناں جس جا، سر دینے کی ریت،
کوئی ہار نہ جیت، جان دیئے بن بات بنے نہ۔
20
آنکھوں نے بِن مجھ سے پوچھے، ڈھونڈا ایک سہارا،
اس جا پہ یہ نیناں لاگے، جس جا اور نہ چارہ،
اب تو من بے چارہ، رو رو دیکھے راہ پیا کی۔
21
اُلٹی روش ہو آنکھ کی، اُلٹی سمت کو دیکھے،
اور تو دیکھیں پچھم میں یہ، پورب سمت میں ڈھونڈے،
دیکھ تو دل کی نظر سے اور چل تو اُلٹا راہ پر۔
22
کھڑا ہے وہ منہ پھیر کر، پھر بھی سندر لاگے،
پلٹ کے گر اک بار وہ پریتم، میری اور وہ دیکھے،
انگ انگ میرا ناچے، جھوم اُٹھے تن من۔
23
نین ہوں ایسے یار، دیکھ سکیں جو ساجن،
ادھر ادھر نہ نہار، پی بڑا ہی حاسد ہے۔
وائي
کچھ بھی کر نہ پاؤں سب ہے سجن کے ہاتھ میں،
جدھر لے جائے ساجن میرا، ادھر کو ہی میں جاؤں،
قلم ہے ہاتھ میں ساجن، میں ذرا بدل نہ پاؤں،
باگ ہی ہاتھ میں مانگ کی، میں کیسے اونٹ لے جاؤں،
ساجن خاطر میں تو ہرپل، بیٹھی کاگ اُڑاؤں،
کہے لطیف کہ آئے گا وہ امید بندھاؤں۔
وائي
اے میاں ساجن! کیسے رہیں گے نین یہ میرے،
تجھ بن، تجھ بن، تجھ بن،
جن کا تو ہو سہارا میرا خاک ہو بسیرا،
سانجھ جہاں نہ سویرے، اس جا بھی ہوں ڈیرے،
پھر بھی نین یہ میرے، پاس ہی جائیں تیرے۔
تیسری داستان
1
یہ جو تیرے نین ہیں، ان سے دیکھ نہ یار!
پی کو کب پہچانیں نیناں، دیکھیں گر سو بار،
کریں وہ ہی دیدار موندیں جو آنکھوں کو۔
2
تجھ کو موہ کے بے پروا پھر، ہوجائیں گے نیناں،
سن اے سکھی! ان نینن پر تو، کبھی یقین نہ کرنا۔
3
اے ماں تو ان آنکھوں کو سمجھی وفا شعار،
یہ تو دیکھ نہ پائیگی، جو ہے حقیقی یار۔
4
ان آنکھوں کو جان نہ اپنا، ڈھونڈا نہ ان سے رفیق،
پوچھ پتہ اور چل دے ناداں، ڈھونڈے اب ساجن۔
5
عشق نے اک دھینے کی مانند، یوں مجھ کو دھن ڈالا،
جان نہیں ہے تن میں اب، بے جاں ہے ہیج سارا۔
6
کردی عشق حقیقی نے ہے، جسم سے جان جدا،
سانس نہیں اب آتی سائیں! اپنے پی کے سوا،
اب تو ایک خدا، بسا ہے میری روح میں۔
7
کوئی مجھے بھٹکائے سائیں! راہ سجھائیں سب،
ہے تو یہیں کہیں تحصیل اور طلب،
وہاں ہے منزل اب، جہاں وجود و عدم نہیں۔
8
جہاں وجود و عدم نہیں ہے، یہ بھی محض خیال،
ہے ادراک سے آگے سائیں! پی کا حسن جمال۔
9
جہاں وجود و عدم نہیں، وہم ہے یہ انسانی،
دور گماں کی سرحد سے ہے، پاک پوتر جانی۔
10
جہاں پہ ان نینن کو سائیں، عشق کے لاگیں نیزے،
کاٹ لے انگ انگ اپنا تو، جان کو قربان کردے،
اپنے پی کے کارن سائیں! سب کچھ کر اب صدقے،
دل بھی میں قربان کروں اور، جان بھی واروں پی پہ،
دل اور نیناں میرے، چڑھے ہیں اب سولی پہ۔
11
پریت نہیں نینن میں اور، دل میں نہیں ہے ساجن،
ان کا جیون ایسے ہے جوں، ٹوٹا خالی برتن۔
12
مورکھ بھید نہ جان سکیں اور، کریں وہ کیا کیا باتیں،
میل بھری ہو آنکھوں میں تو، کیسے پریتم دیکھیں۔
13
پریت میں گھل کر تن، بنے سلائی جب،
تجھ کو اپنے نینن میں، پی ڈالیں گے تب۔
14
آن بسو ان نینن میں توہے، پلکوں سے ڈھانپ میں لوں،
نہ میں خود دیکھوں اور نہ کو نہ، توہے دیکھن دوں۔
15
توہے ڈاروں نینن میں تو، نینن میں بس جا،
بس کر میرے نینن میں تو، کردے مجھ کو اُجلا۔
16
مت کہہ یار! رقیب سے، میرے پیار کی بات،
پیار بنا ہی بیت نہ جائے، کہیں ملن کی رات۔
17
پریت چھپانا جگ سے پیارے، پریت نہیں ہے آساں،
جان نہ جائے غیر کہیں یہ، میرے پیار کی بتیاں۔
18
جان گیا وہ رقیب تو، کرے گا میرا کیا،
صورت دیکھی یار کی تو، جرم کیا ہے کیا،
ایسا تیر لگا، کہ ٹپکیں خون کے آنسو۔
19
گڑھا کھودا میری نے کہ گرے مرا ساجن،
خود ہی گرا وہ جاکر اس میں ختم ہوا ستم۔
20
سدا جیئے وہ رقیب، جس کا میلا من،
خود اپنی آنکھوں سے دیکھے، مجھ سے پی کا ملن،
ہووے پھر وہ دفن، جل کر اپنی اگنی میں۔
21
وہ ہی رقیب کی بات میں آئیں، جن کی کچی پریت،
جن کو پریت کی آگ جلائے، ہوئی ہے ان کی مہیت۔
22
ڈسے قریب کو ناگ اور، رہے نہ اس کا نام،
اس ساجن کی باتوں کو جو، کردیتا ہے عام۔
23
ہو رقیب خوار خراب، اس پر خدا کی مار،
روکے راہ وہ پریتم کی اور، ملن کو ہم بے تاب،
جل کر ہو وہ کباب، اپنے من کی آگ میں۔
24
روش تو سیدھی ہے ساجن کی توہے کہیں ٹیڑی،
مشکل سے ساجن کی روش کو یار سمجھنا۔
25
کوئی روش ہے ایسی کہ سنی نہیں کسی نے،
عقل ماؤف ہوجائے، دیکھ کے واقعہ کوئی۔
26
نہ تو طول نہ عرض نہ صورت، نقش نہ اس کا چہرا،
کیسے اس کو بوجھ سکے گا، عقل کا کوئی اندھا۔
27
حیراں ہے جگ سارا، کر نہ سکے ادراک،
اندھا کیسے پرکھ سکے گا، حسن پوتر پاک۔
28
عقل ہے حیرت میں، ہیں حیران دنیا والے،
کیسے سمجھ سکے گا اندھا، عشق کے مبہم اشارے۔
29
حیراں ہے جگ سارا، دیکھ کے عقل لجائی،
ایک آنکھ سے اندھے ہیں کہاں ہے وہ بینائی۔
30
کہاں ہے عام انسانوں میں، جان جانے کی قوت،
جو اسرار محبت وہ اندھا کیسے جان سکے۔
31
چھو چھو کر ہاتھی کو سارے، اندھے تھے حیران،
خوب ٹٹول کر دیکھا لیکن، کوئی سکا نہ جان،
وہ ہی پرکھ سکیں ہاتھی کو، جن کو پہچان،
ان سے پائیں گیان، جو دانا و بینا ہیں۔
وائي
صورت سے ہے خلیل، باطن میں آذر ہے،
جسم کی صحت مانگ رہا ہے، تیرا روح علیل،
صورت مسلمان کی ہے اور، قلب تیرا قلیل،
یکتائی ہی یکتائی ہے، یکتا رب جلیل،
وصل اگر والی کا چاہے، چھوڑ دے اور دلیل،
کہے لطیف کہ لاج سبھی کی، رکھیو رب جلیل۔
وائي
موت کا موسم کوئی نہیں ہے، کرنی پہ پچھتاؤ،
موت کھڑی ہے تاک میں سکھیو،
موت سے پہلے، توبہ کرلو، یوں نہ وقت گنواؤ،
پیا ملن کو جانا ہوگا، اپنا آپ سجاؤ،
سب کو ہانک کے لے جائے گی، موت کو مت بسراؤ،
لٹکی ہے تلوار اجل کی، اور نہ اب اِتراؤ،
اندھوں کی عمارتیں توڑ دے خود کو بھی سمجھاؤ،
دولہوں کو گھر لیجائینگے یہ تم مت بتلاؤ،
بغیر کفن کے ہونگے وہاں پہ، خود کو یہ سمجھاؤ۔
وائي
پریتم سے مت دور، رکھیو اللہ سائیں،
وہ ہی ایک سہارا ہے،
جہاں ہے دیرہ دوست کا، وہ جا کیسے دور،
ساجن پر منڈلاتے آئے ہیں نین میرے سرور،
جن کے ہاتھ میں قلم ہے وہ ہیں میر ےحضور،
باب میں اس بندی کے سائیں نہ کوئی قصور۔
چوتھی داستان
1
دیکھیں جان نہ پائی، حسن کل کو یار،
پشت بہ اعلیٰ گھوڑے کے چادر وہاں دیدار،
جن کے سر دستار، منطق میں وہ الجھ گئے۔
2
دیکھیں خطاکار آکر بھی پہچان نہ پائیں کل کو،
بن پہچانے وہ مرگئے سب محروم تھے۔
3
کوچ کیا دنیا سے جب تو، ایسے تھے محروم،
جیسے چڑیا دانا چگ لے، پڑھے تھے علم علوم،
ان کو کیا معلوم، کہ وہ حباب کی مانند تھے۔
4
تیاگ کو بھی اب تیاگ، جا وجود سے آگے،
یہ نشان نہیں اس کے جو جانے اور پھر بتلائے۔
5
حاصل کر نابود کی منزل، جا نابود سے آگے،
جگ سے خود کو چھپالے اور چھپنے سے بھی چھپ جا۔
6
چھپتے ہیں سب جگ سے چھپنے سے چھپنے نہ کی،
ہر پل تجھ کو ہوئی، فکر اس اُلٹی بات کی۔
7
ہاتھ دھرے ہوں کام میں، نینن میں ہو ساجن،
تیرا یار کھڑا ہے سائیں، دیکھ تو تیرے آنگن۔
8
جس پی کے ہم درشن پیا سے، ہم ہی ہیں وہ ساجن،
درد ہو وہم گمان! دیکھا صحیح ہے درشن۔
9
جس پی کے ہم درشن پیاسے، ہم ہی ہیں وہ پریتم،
"لم یلد ولم یولد" اس کا بن جا محرم،
اس سے تو اے ہمدم، حق کو تو پرکھ لے۔
10
دیکھے دل کی آنکھ سے تو، کہے کہ سارا حق ہے،
اندھے اب اس بارے میں، پھر کیا شرک و شک ہے۔
11
ڈھونڈ لے یار کو اپنے اندر، باہر ڈھونڈیں حیواں،
پیار بھری ہوں اکھیاں، تو رہے سدا منجدھار میں۔
12
قریب ہو اثباتے ہے جو، وہ شرک منائے شک،
جس میں چھپا ہو حق، اس نفی کو اعلیٰ جان۔
13
جیون کی اس راہ میں، دوئی ہو جب ساتھ،
روشن شرک سے مل جائے گی، تاریکی سے نجات،
سمجھ میں آئے بات، جب لگائے الف کی عینک۔
14
کہاں کا یہ ایمان، کہ کلمہ گو کہلائے،
دل میں دغا ہے تیرے میل اور، من میں ہے شیطان،
ظاہر مسلمان، باطن میں آذر ہے۔
15
کفر بھی تیرا جھوٹ ہے، کافر مت کہلا،
ہندو بھی تو کب ہے، جینو تو نہ سجا،
اس کو تلک لگا، سچا ہے جو شرک سے۔
16
صورت میں موسیٰ کی مانند، عادت میں ابلیس،
کیوں نہ اسکو من سے نکالے، یہ ہے خام خبیث۔
17
صورت میں موسیٰ کی مانند، سیرت ہے شیطانی،
صورت جب پہچانی اسے کیوں نہ دل سے نکالے۔
18
چہرا اُجلا آئینہ سا، قلب ہے سارا کالا،
دل میں تیرے کھوٹ بھرا ہے، بول تیرا ہے میٹھا،
کیسے وصل ہو پی کا، جب یہ تیرا حال ہے۔
19
کاجل یار کے وصل کا، تو نینوں میں ڈار،
"دوبینی" سب دور ہو، اور ہو عرفان یار،
پی کی اس سندرتا میں، جھلمل رخنہ تو مت ڈال،
آنکھیں اشہد یار! کھول تو ہووے مومن۔
20
ناری ڈارے نین میں، کارا کاجل یار!
کالی سلائی آنکھوں میں تیرا نہیں سنگھار،
تو اکھین میں ڈار، لالی اپنے لالن کی۔
21
ڈالا جب آنکھوں میں، سُرمہ سرخی کا،
انہوں نے تب دیکھا، سرخ تجلی ہرسو۔
22
ڈالا جب نینوں میں، سرمہ یار! سفید،
اُجلا سارا عالم دیکھا، رہا نہ کوئی بھید۔
23
سیکھے علم و علوم، پھر بھی رہا غلام،
جو باتوں میں الجھ گیا، کیسے بنے وہ "جام"،
پیاسا ہو تو پانی مانگے، بھوکا ہو تو طعام،
وہ ہے انسان عام، خاص نہ اس کو جان۔
24
اوگن سے تو ہر کوئی روٹھے، گنوں سے روٹھا پریتم،
قلب سے جو اقرار کیے تھے، ان کا رہا نہ محرم،
خود کو بھلایا، اپنے اپنے کاموں میں ادنیٰ جانا ہمدم،
بندگی شرمندگی منت کی ہردم،
بھولا "میں" کو جس دم! اس دم پی کو پایا۔
25
اوگن سے تو ہر کوئی روٹھے گنوں سے روٹھا ساجن،
نا سمجھی میں پاپ کمائے، جھوٹ بنا سب جیون،
سکھیو ری! اس کارن، میں نے سہے ہیں دکھڑے۔
26
دلڑی نے جو بات کہی تھی، خود سے بھی وہ چھپائی،
اپنے پی کی پیار کہانی، اور کو کب بتلائی،
سب کی سمجھ میں آئی، دور گیا جب پریتم۔
27
میں نے پریت چھپائی، اشکوں نے ظاہر کردی،
سمجھ گئے سب اعلیٰ ادنیٰ لوگ، دیکھ کے میکھ کی زردی،
ہوگئی رنگت میری کھول دیا سب بھید۔
28
پریت کے مارے پریت چھپائیں، اور چھپا نہ پائیں،
اکھیاں سب بتلائیں، سلگتے من کی باتیں!
29
پریت چھپا نہ پائیں، جانے یار جہان،
بپھرے جب مہران تو موجیں سہے نہ ناؤ۔
30
لاکھوں ہیں مہران جو دل میں اُمڈ آئے ہیں،
سلگ رہی ہے جان، باہر بھاپ نہ نکلے۔
31
خود ہی پردہ خود کا، اس کا رکھ تو دھیان،
"میں" ہے رکاوٹ ہان، تیرے اور ساجن کے بیچ۔
32
خود ہی پردہ خود کا، طالب تو سن لے،
اب کیا قال و قیل پردے سارے ہٹ گئے۔
33
میں ہی پنپ رہی ہے مجھ میں، مجھ کو "میں" سہائے،
"میں" ہی کی پہچان اے سائیں! مجھ کو "میں" بنوائے،
وہ ہی "میں" کہلائے، تو کیوں "میں" کہتا ہے۔
34
ہر شئے کی بنیاد ہے جو، وہاں پہ ہے اللہ،
بھوسے میں پکے نہ ماہ، اور عشق نہ پنپے گندگی میں۔
35
عشق نہ پنپے گندگی میں، اور بھوسے میں پکے نہ ماہ،
ہر پل ہو جب چاہ تو وصل پھر کیسے ہو۔
36
قریب سے اک ساعت بھی، دیکھ نہیں سکتی ساجن،
دور ملن کی منزل ہے میں، نام سے گھل گھل جاؤں۔
37
عادی کی عادت ہو پوری اسے آتا ہے آرام،
سچ کا حسن جو دیکھ نہ پائیں وہ سمجھیں اس کو خام،
نام ہوا اسلام، کفر و کافر باہم ہوکر۔
38
پی نے باندھ کے موہے، بیچ بھنور میں ڈالا،
کہے اب مجھ سے پیارا، پلو بھیگ نہ پائے۔
39
ڈالا بیچ بھنور میں اب میں، کیسے بھیگ نہ پاؤں،
ساگر کو ئی رمز بتادے، پلو اپنا بچاؤں۔
40
کر تکیہ طریقت پر، شریعت کو پہچان،
دل کو ہو عرفانِ حقیقت، معرفت کو جان،
اور پرکھ ایمان، تو پلو بھیگ نہ پائے گا۔
41
جھوٹ کا ہے یہ حال کے جیسے، بن پھل سوکھی ڈالی،
جس نے بھی سنیاسی بن کر، نفس کو ڈوری ڈالی،
بھیگیں کبھی نہ پیاری، پلو چار چنریا کے۔
42
تعریف و تعظیم کی کوئی، بات نہ ان کو بتائی،
صدا ہے جس جا صاحب کی، وہاں تو ہے یکتائی،
ساحل دے نہ سجھائی، ایسے بحر عشق میں ڈوبے۔
43
سوئے اور مانگے سیچ، تکلیف نہیں خود کو دینی،
صلح نہ ہو گر ساجن سے تو کیسے سیج پہ بیٹھے۔
44
سوئے اور مانگے سیج، کوئی کشٹ کرے نہ کوئی،
ساجن کی نہ ہو مرضی، تو کیسے سیج پہ بیٹھے۔
45
جن کی صلح ہے ساجن سے، سیج وہ ہی چڑہینگے،
الذین آمنو وکانو یتقون، جو اس پر عمل کرینگے،
وہ ہی سیج پہ بیٹھے، بن کر دولہا سائیں۔
46
ہوگئے حل جو حبیب میں، ان کی نیند ثواب،
نیند کے ماتے نیناں دیکھیں، پل پل خوشی کے خواب،
ہجر کا ہے جو عذاب، دور ہے ان کے دل سے۔
47
تن تسبیح اور من منکا، دلی طنبور ہے جن کا،
تار طلب کے، سر وحدت کے، وحدت سے معمور،
وحدہ، لاشریک لہ ہر سُر کی یہ ہے صدا،
سوئے بھی جاگیں گویا ہے نیند عبادت آنکھیں۔
48
کیسے بنے سہاگن وہ جو، پریتم سے جو روٹھی،
کھیل رقیب نے ایسا کھیلا، پریت کی ڈوری ٹوٹی۔
49
یہ تو پریت کی ریت نہیں کہ پی سے روٹھا جائے،
پریت کے دم سے جگ ہے قائم، پریت اعجاز دکھائے۔
وائي
فرسودہ خس خانے، ان میں بات کوئی ہے نیاری،
وہی ہیں مقبول یہاں جو، دنیاں میں انجانے،
وہ ہی پی کو پیارے جن کو سمجھیں سب بیگانے،
"ان اولیائی تحت قبائی"، ان کو قبائیں پہنائے،
لایعرفھم غیری، کون انہیں پہچانے،
چھوڑ دے یہ اپنی من مانی تو، بات سمجھ فرزا نے،
کر تو خلق خدا کی خدمت، پی کی بات جو مانے،
کہے لطیف کہ انکے دوارے، آجا سب کچھ پانے۔
سُر رِپ
پہلی داستان
1
تن یوں غم میں غرق ہوا کہ، رہی نہ جسم میں جان،
یہ ہی عشق کا مان، کہ یار کی راہ پہ چلتے جائیں۔
2
دل کو درد کا روگ دیا، اور کر گئے وہ بیمار،
دیا فراق نے مار، پل پل دردِ ہجر ہے، میا!
3
درد کی کوئی شکل نہ صورت، دل میں درد ہے پنہاں،
انگ انگ میں اب رچا ہوا ہے، تیرا درد، اے جاناں!
تنہا اور یوں حیراں، کون ہے مجھ سا جگ میں۔
4
برکھا رت میں صحرا صحرا، ہوجائے گلزار،
دل میں ایسے پھوٹ پڑا ہے، سبزہء غم، اے یار!
5
دل میں آگ جلائی تھی وہ، اور بھڑکتی جائے،
اس کو کون بجھائے، جس کو بھڑکائے وہ ساجن۔
6
درد بتانا کچاپن ہے اور چھپانا مشکل،
تو ہی بتا اب، اے دل، کیسے ہجر کا درد سہے گا۔
7
جوں تو مے کا پیندا آگ میں، یوں جلتا ہے یہ تن،
پریت کی مے کا پیالا دے گیا، مجھ کو میرا سجن،
تاپ کی یار جلن، ہجرِ یار سے بہتر ہے۔
8
تڑپ کہ اُٹھی نیند سے، ساجن، آئی جو تیری یاد،
ہر اک انگ میں درد تھا اور، لب پر تھی فریاد۔
9
حال نہ کہہ تو اور کسی سے، میرے دل رنجور!
درد کریں جو دور، ان کو ڈھونڈ کے اپنا درد بتا۔
10
درد بتا نہ اور کسی کو، چھپ چھپ رو، ہر پل،
درد کی جڑ ہو گہری جیسے، جھیل میں پھول کنول۔
11
یار کو مت بسرا، آنکھ جھپک نہ پل کو،
کل سے آج ہے زیادہ، درد مجھے ساجن کا۔
12
پل پل غم میں گھلتا ہے دل، پائے نہ پل آرام،
لب پہ اسی کا نام، جس کی دید کا عادی ہے۔
13
ایک جگہ پر بیٹھ نہ پائے، جوں اونٹوں کا گلہ،
دشتِ ہجر میں دل بھٹکے اور، پی سے درد کا رشتہ۔
14
دھیان میں یاد کے کارے بدرا، اکھیاں میگھ ملہار،
جوں ساون کی بدلی برسے، دھیان میں برسا یار،
ساجن آ اک بار، میں تیرے عشق کی ماری ہوں!
15
پل پل روکوں پر نہ رکے من، پی کی اور ہی جائے،
سمجھاؤں میں لاکھ مناؤں، منوا باز نہ آئے۔
16
من میں ہے جل تھل، کیوں مانگوں میں ساون بدرا،
تیری یاد کے بادل، چھٹتے نہیں ہیں ساجن!
17
یار کا گن کوئی یاد جو آیا، تڑپ اُٹھی برہن،
بھیگ چلا یہ ہاتھ سرھائے، روئے یوں نینن،
آیا یاد سجن، اس بِن اب کیا جینا۔
18
یار کی یاد جو آئی سکھیو، تڑپ اُٹھا یہ من،
اپنے یار کو بھول نہ پائی، بے چاری برہن،
بھیگے ہاتھ سجن، نینن کے اشک رواں ہیں۔
19
کر کر باتیں یاد میں تیری، جیتی ہوں اے سجناں!
تیرے گُن اور احساں، کیا کیا میں گنواؤں۔
20
یاد میں باتیں کرتا ہے، تجھ سے دل بیتاب،
جیسے تار رباب، درد سے رگ رگ باج رہی ہے۔
21
پل کو بھی آرام نہیں ہے، بھٹکے من یہ ملول،
راہ کے پیڑ پہ دھول اَٹے جوں، اَٹی ہے درد کی دھول۔
22
بہلا پُھسلا کر اس من کو، چلی میں صبح سویرے،
جہاں ہیں یار کے ڈیرے، لے چلا پیار اس اور۔
23
دمک رہی ہے صورت، دھیان میں اسکو یاد رکھوں،
جس سے میری الفت، روح پہ نقش ہے اسکی صورت۔
24
یاد کروں تو دمک اُٹھے دل، کیسے دوں میں بِسار،
دکھتی ہے جوں ٹوٹ کے ہڈی، دکھتا ہے دل یار!
25
سوچا تھا کہ کروں گی باتیں، ملے گا جب وہ یار،
ملا وہ جب دلدار، تو بھول گیا دل ساری باتیں۔
وائي
جو بے ہنروں کو نوازے، رکھ تو اُس کی آس،
ساز و سامان لاکر بیٹھ، داتا کے در پہ منگتے،
وہ تو اس سے قریب ہے، کیوں اس کو صدائیں دے،
آدم اس مٹی سے بنا ہے، جو قبر کی مٹی ہے،
کیسے عبرب چھپائیگا تو، اس داتا کے آگے،
مشکل وقت میں بلائیگا وہ، یہ بات لطیف کیسے۔
دوسری داستان
1
کس سے کہوں میں دل کی باتیں، ساجن ملا نہ مجھ سے،
باتیں من میں یوں اُگ آتی ہیں، گھاس اُگے ساون میں۔
2
اب تو من میں باتیں، اُگ کر پیڑ ہوئی ہیں،
تنہائی میں ملا نہ ساجن، غیر سے کہی نہ میں نے۔
3
کھینچ کے ہجر کی سولی پر، چھوڑ گیا وہ یار،
اشکوں سے سیراب ہوئے ہیں، راہوں کے اشجار۔
4
چھائے رہیں اے ساجن!، تیرے نین کے بادل،
دھودے میرے وہم تو سارے، برسا بادل جل تھل،
دیکھوں یار وہ سہنل، جس کے درشن سے دور ہوں دکھڑے۔
5
نیناں لیں انگڑائی، نینن نیند نہیں ہے،
یاد تیری جب آئی، بجھ کر جل اُٹھے یہ نیناں۔
6
روش ہے سیدھی یار کی، اسے نہ اُلٹا جان،
سہہ طعنے ہر آن، بِن ان کے تو جی پائے گی؟
7
یار ہے جیسے رنگیں چولا، جس پہ کشیدہ کاری،
اس کو بھول نہ پاؤں جس کے، پیار کی ہوں میں ماری۔
8
پتوار میں اے سکھیو! ہوتی ہیں جوں گانٹھیں!
دل میں درد کی گِرہیں، کب ہوگا ملن پیا کا؟
9
رہٹ چلے اور ڈول میں آئے، ریت بھی پانی سنگ،
الگ نہیں ہوتا دل پریتم سے، دل کے عجب ہیں ڈھنگ۔
10
ہائے ٹھٹھرتی تنہا راتیں، اور یہ تنہا برہن،
سونی کھاٹ اور پریتم دور، کس کام کا ہے یہ جوبن،
جن سے دور ہے ساجن، کیا حال ہے اسکا سردی میں۔
11
سرد ہوائیں اُتر کی، پاس نہیں ہے بستر،
وہ سردی کی کاٹ کو جانیں، جن کے تنہا گھر۔
12
گرم نہیں ہے بستر، سرد ہوائیں اُتر کی،
چاروں پلو چہرے کے، لپیٹتے رات ہے گذری۔
13
کیوں نہ آوے کی صورت ہے، اپنی پریت چھپاتا،
ٹھنڈی ہوگئی آگ اگر تو، پک نہ سکے گا آوا،
سیکھ تو آگ چھپانا، جاکر کمہار سے سائیں۔
14
تو آوے سے سیکھ اے سائیں! من کی آگ چھپانا،
پل پل کا ہو جلنا، باہر بھاپ ذرا نہ نکلے۔
15
آوے کی اس آگ کی مانند، ڈھانپ لوں اپنے نین،
تجھ بن کہاں ہے چین، بجھ بجھ کر پھر جل جاتی ہوں۔
16
کس کے جسم کی مٹی کو یہ، گوندھ رہا کمہار،
جانے گر کمہار تو وہ بھی، روئے زار و قطار،
مرجائیں کمہار، انکے آنگن میں ماتم ہو۔
وائي
سکھیو ری! میں ڈھونڈ رہی ہوں، یار کا نقشِ پا،
تنہائی میں کروں گی باتیں، ملے اگر وہ پیا،
من میں پیار کی باتوں کا ہے، گھنا پیڑ اُگا،
تنہائی میں ملا نہ ساجن، غیر سے کچھ نہ کہا،
بخش دی میری جو بھی ہوگئی، مجھ سے یار خطا،
میرے سامنے مت لانا تو، میرے عیب، خدا!
خون کے آنسو روئیں اکھیاں، اکھیں میں برکھا،
اوروں کے ہیں اور سہارے، میرا ایک پیا،
کہے لطیف کہ کرم کرے گا، صاحب وہ میرا۔
سُر کھاہوڑی
پہلی داستان
1
ذکرِ خفی سے کھاہوڑی نے پایا ہے سبحان،
لاحد وہ نکل گئے، وِرد کریں ہر آن،
ایک سے مل کر ایک ہوئے ہیں، بابو وہ بریاں،
ہرسُو ہی سبحان، اِن کو نظر آیا ہے۔
2
میں نے ایسے سالک دیکھے، جنہوں نے دیکھا ساجن،
کہہ نہ سکے کچھ برہن، کیا اوصاف ہیں ان کے۔
3
میں نے ایسے سالک دیکھے، جنہوں نے دیکھا ساجن،
چلو تو چل کر رات بِتائیں، سکھیو، ان کے آنگن،
جن کا ذرا سا درشن، سکیزہ بن کر یار اُتار۔
4
گئے پب کی جانب، کھاہوڑیوں کے ٹولے،
انکے نقشِ قدم اے سکھیو! پوچھوں میں ہر اک سے،
جو سراب میں رات بتاکے، ڈھونڈیں دشت و جبل۔
5
وہاں سے پوچھ کے آ، پتہ تو کھاہوڑیوں کا،
کیسے جبل میں ڈھونڈا، ڈتھ ان ڈوتھیوں نے۔
6
ابھی سے ہی کچھ کر، کیوں بیٹھا ہے غافل،
مشکیزے لیکر کھاہوڑی، چلے ہیں سوئے منزل،
کرے گا کیسے حاصل، ثمر تو دور کے دیس کا۔
7
وہ ڈتھی، وہ دن، وہ پہاڑ، وہ وادیاں،
دشت میں سرگردان، عشق ہے ان کا قصور۔
8
اَن دیکھی اَن جانی منزل، ڈھونڈیں دشت نورد،
ٹیلوں سے وہ ٹیک لگائیں، تن پر جمی ہے گرد،
ڈھونڈیں وہ لاحد، سچا علم وہاں پہ پائیں۔
9
محنت کش کو غافل دیکھ کے، کھائیں پیچ و تاب،
گھوم رہے ہیں دشت و جبل میں، چھان رہے ہیں سراب،
سمجھتے ہیں نایاب، میرے یار کی بات بات کو۔
10
خاک جمی ہے تن پر، انگ اَٹی ہے دھول،
کبھی نہ پی کا بھید بتائیں، ان کا ہے یہ اصول،
ہنس کر کریں قبول، پریتم کی ہر بات کو۔
11
کبھی تو جاکر دیکھ، کھاہوڑیوں کے آنگن،
چھپ کر سارے جگ سے، جلائیں جو تن من،
من میں ایسی دُکھن، جاگ کے رین بتائیں۔
12
کھاہوڑی، پربت سے، آتی ہے اب صدا،
ہو رہی تھیں اس جا، پہلے سے تیری باتیں۔
13
دھن دولت اس جگ میں، کرتے ہیں سب حاصل،
دوجے جگ کی منزل، کھاہوڑی پاتے ہیں۔
14
جو ڈھونڈے سو پائے، ثمر کی ہے بہتات،
جانے کون سے عالم سے وہ، لاتے ہیں سوغات،
آن بتائیں بات، وہ پھر اپنے پریتم کی۔
15
بڑا کٹھن ہے کام، ثمر کا دشت سے لانا،
جو سوئیں کریں آرام، جبل کے ثمر نہیں پائے۔
16
دیکھے ایسے کھاہوڑی جو، چین سے بیٹھ نہ پائیں،
رب کے کارن دکھڑے سہہ کر، نین سے نیر بہائیں،
دکھ میں عمر بتائیں، جبھی ثمر وہ پائے ہیں۔
17
دیکھے ایسے کھاہوڑی، جنہیں نہیں آرام،
فنا ہو جسم تمام، ثمر ملے تب اِن کو۔
18
دیکھے ایسے کھاہوڑی، جو سدا ہیں بے آرام،
لُو اور تپتی ریت میں اکثر، بھٹکیں صبح و شام،
سہتے ہیں آلام، تبھی ثمر پاتے ہیں۔
19
دیکھے ایسے کھاہوڑی جو، آنکھ نہ موندیں پل بھر،
چھان کے پربت، ویرانوں سے لاتے ہیں وہ ثمر،
پہنچیں منزل پر، جہاں پہ لاحد لامکاں ہے۔
20
پربت دھول سراب، وہیں ہے پریت کی منزل،
دشت و جبل میں چلتے چلتے، پاؤں گئے ہیں چھل،
پریتم جائے مل، ترس پیا کو آئے۔
21
پو پھوٹی تو چلے سفر کو، کھاہوڑی بے باک،
چھان کے جنگل پربت سارے، ہوگئے خاک میں خاک،
ہوا ہے تب ادراک، پربت کے اس پار کا۔
22
آج رما کے دھونی، اے ماں، چلے ہیں کھاہوڑی،
جبل سے پہچان ہے انکی، ڈوتھی انکے دھیان میں ہے۔
23
پاس نہیں ہیں گھوڑے، دور سفر کا دھیان،
ثمر کی خاطر چھان رہے ہیں، دشت جبل ویران،
ان کی یہ پہچان، کہ تن پر اک گدڑی ہے۔
24
اُتار کے اپنے جوتے، آرام سے نہیں سوئے،
ہر وقت فکر ہیں کرتے، اپنے دور سفر کی۔
26
پیروں میں پرانے جوتے ہیں اور، چہرے پیلے زرد،
آدھی رات سے، انکو فکر ہے آگے کی۔
27
خالی مشکیں ساتھ، اور پیروں میں پرانے جوتے،
اشکوں کی برسات، دیکھے ایسے کھاہوڑی۔
وائي
برسائیں برسات، شاید مل جائے وہ ساجن،
بھٹک بھٹک کر ڈھونڈوں، پی کو میں اپناؤں،
مینہ میں ہرن ملیں جوں، پی سے یوں مل جاؤں،
رم جھم برسیں اکھیاں، بن بادل جل برساؤں،
برہا ماری تڑپوں، پی بن چین نہ پاؤں،
سکھیو، شاہ لطیف کہے، پاس پیا کے جاؤں۔
دوسری داستان
1
جنہیں ہوا عرفان، گنجے پربت گام کا،
چھوڑا جگ جہان، بنے ہیں اب لاہوتی۔
2
جنہیں ہوا ادراک، گنجے پربت گام کا،
پڑھے جو تھے اوراق، بھولے، بنے لاہوتی۔
3
جن پر پڑی ہے دھول، گنجے پربت گام کی،
نیند گئے ہیں بھول، بنے ہیں وہ لاہوتی۔
4
جن کو آئی خوشبو، گنجے پربت گام کی،
چھان کے ساری جُو، بنے ہیں وہ لاہوتی۔
5
جنہیں ہوئی پہچان، گنجے پربت گام کی،
سب کچھ کر قربان، بنے ہیں وہ لاہوتی۔
6
آئی جنہیں بو باس، گنجے پربت گام کی،
کرکے ترک لباس، بنے ہیں وہ لاہوتی۔
7
گئے جو گنجو گام، وہاں پرکھ کے دیکھا،
فنا ہے جسم تمام، بنے ہیں وہ لاہوتی۔
8
گنجے پربت گام میں، تیرا ہے کیا کام،
دیکھ کے اس پربت کو، آئے نہ اب آرام،
ڈھونڈ نہ دشت و جبل، ڈھونڈ نہ ہر اک گام،
سب کچھ سمجھ حرام، جل کر بن کھاہوڑی۔
9
گنجے گام میں گُن ہیں کیا کیا، سوچ کے پیر تو دھر،
بِن پانی کے کھاہوڑی ان کا، دور ہے، ان کا سفر،
دیکھا وہ منظر، کے لوٹ کے پھر نہ آئے۔
10
پنچھی پر نہ مار سکے، ایسا ہے وہ جہاں،
وہاں پہ کھاہوڑیوں نے، چُنا ہے جنگلی بیج۔
11
روتا ہے یہ جنگل اب تو، کہاں گئے وہ شکاری،
کتوں کی آوازیں نہ وہ پھانسنے والی جالی،
اب تو مصیبت ساری، سب سے دور ہوئی ہے۔
12
اب نہ شکاری کتے ہیں، اور نہ وہ صدائیں،
جنگل بھرے ہے آہیں، کرکے یاد شکاری کو۔
13
جہاں پہ ایک ہی یار کا ڈیرا، اعلیٰ ہے وہ مقام،
جہاں بہت سے بھٹک گئے ہیں، کرنہ وہاں قیام۔
14
اعلیٰ ہے وہ رات کہ جس میں، گم ہوجائے راہ،
فکر رہے نہ اسکی اور، اسکی رہے نہ چاہ۔
15
کالی رین اور اُجلا دن، نور کے یہ بہروپ،
واں پہ رنگ نہ روپ، جس جا ہے وہ پریتم۔
16
باندھ کے تو تحقیق کی گٹھڑی، اس کو سر پر دھر،
سن تو باتیں حقیقت کی، تو بہرہ بن کر،
آنکھیں موند کے کر، درشن اپنے پی کے۔
17
اُڑی ہے دشت میں دھول، پڑے ہیں انکے قدم جہاں،
چلے ہیں ڈوتھی ثمر کی خاطر، پربت کو ہیں رواں،
جانے گئے ہیں کہاں، ویراں اِن کے ٹھکانے ہیں۔
18
آج نہیں ہیں ڈوتھی، ویرانہ ہے پربت،
اب ہوگی کب زیارت، ڈوتھی کب آئیں گے؟
19
سچے کھاہوڑیوں کو، پنچھی ہی جان نہیں پائے،
انہوں نے آن بنائے، گھونسلے انکے آنگن میں۔
وائي
خود تو پہچان کے کرتی، اِن سنگ پریت کا رشتہ،
کس منہ سے جائے گی واں پر، ساجن تیرا جس جا،
اتنے دکھ نہ جھیلتی گر تو، جاتی سنگ پیا،
عشق کی آگ کو دیکھ کے لوٹی، آگ سے ڈر لاگا،
ریت کی صورت بکھر رہی ہوں، دل میں درد تیرا،
انگ انگ میں پریت کی اگنی، جلے ہے یہ جیئرا،
دشت و جبل میں بھٹکوں شاید، مل جائے پیارا۔
وائي
نیند بھرے نینن، یہ نیناں نیند کے ماتے،
روئیں یاد کریں نیناں، برسیں جوں ساون،
نین کے رسیا نین کہاں، پاتے ہیں ساجن،
نیند کی ماری بے گن، چلے بدیس سجن،
لالن لعل لطیف کہے، کب ہوگا یار ملن۔
وائي
تو اپنی دیکھ صفات، مجھ میں عیب ہزار،
بیراگی کی چاکری، کروں میں ساری رات،
باندی کہہ دیں پیار سے، کیسی اچھی بات،
جنگل پربت میں ڈھونڈوں، پو پھوٹے پربھات،
ہاتھ جوڑ کر روؤں میں، اٹھ کر آدھی رات،
کہے لطیف کہ آخر ہوگی، پی سے پیار کی بات۔
تیسری داستان
1
آن پڑے ہیں مشکل میں، سیدھی راہ نہ پائی،
اندھے بن کر بھٹک رہے کب، دل کی ہے بینائی،
کانوں پر تو مہر لگی ہے، کچھ بھی دے نہ سنائی،
وصل سے وہ محروم ہوئے، بات نہ کرنی آئی،
جگ سویا تو کھاہوڑی نے، اپنی منزل پائی،
پی کے ہیں شیدائی، پل پل درد فراق کا۔
2
چھان لیا ہے پربت سارا، سیدھی راہ نہ پائی،
اُلٹی راہ پلٹ کر دیکھی، سیدھی راہ گنوائی،
دونوں جگ ہیں کھوئے پھر بھی، راہ نظر نہ آئی،
اپنے پی کے کارن یونہی، تن پر خاک سجائی،
بات سمجھ میں آئی، کھاہوڑی کو پی کی۔
3
چھوڑ کے سیدھی راہ کو اب تو، ٹیڑھی راہ پہ چل،
اپنی آگ میں جل، بن کر، یار ، اویسی۔
4
چلے ہیں ٹیڑھی راہ پر، بال ہوئے ہیں بھور،
الجھ گئے جو باتوں میں وہ، ہوگئے پی سے دور،
اپنے پی کے حضور، وہ تو پہنچ نہ پائے۔
5
چھوڑ دی ٹیڑھی راہ تو سن لی، اَن جانی اک بات،
جن کی ہیں یہ صفات، ان کو دیکھ کے آئی ہوں میں۔
6
نادانی ہے شہد کی مانند! آگاہی ہے عذاب،
دور ہو یار حجاب، گر بھولے دانائی کو۔
7
چھان کے دیس بدیس، آئے ہیں کھاہوڑی،
ناقوں پر ہے دھول جمی، جانے کون سے دیس کی۔
8
جنگل گئے وہ نہ بھٹکے، لٹ گئے راہ کی راہی،
جس نے دونوں راہیں تیاگیں، وہ تو بھٹک نہ پایا۔
9
آگ لگی ہے جنگل کو، کہاں چھپیں گے رہزن،
طالب اور مطلوب کا آخر، ہوگیا، یار، ملن۔
10
روتا ہے یہ جنگل، ہوا ہے جو پامال،
اب نہ شکاری کتے ہیں نہ، پھانسنے والے جال،
پھنسنا اب ہے محال، کسی کا اس جنگل میں۔
سُر بروو
پہلی داستان
1
کس کارن تو غیر کا، بنا ہے، یار! غلام،
جو ہے والی جگ کا، اس کا دامن تھام،
وہ پائیں ارام، جن کا عشق اللہ سے۔
2
جیسے کاٹتے وقت سسکے ہے سرکنڈا،
ایسے یار کے عشق میں، منوا سسک رہا،
داغ نہ یوں تن میرا، درد ہے دل میں، بیدجی!
3
جان نکال کے لےگئے، کیا ہے یار ستم،
لوٹ لیا جب دل کو، ہوگئے پھر برہم،
کیا کیا ظلم کیے نربل پہ، تونے، اے ہمدم!
جان تو لے لی جانم، جسم یہاں پر چھوڑا۔
4
میں ہوں بس بے چاری، پی کے بس میں،
ان کے ہجر کا درد، اے سکھیو، دل میں ہے ہر آن،
لب پہ تھی مسکان، خواب میں جب وہ صورت دیکھی۔
5
جیسے دھرتی پر ہاتھی کی، جُھکی ہے سونڈ سدا،
کہے لطیف کہ ایسے ہی تن پی کی سمت جُھکا،
شاید پیار پیا کا، یوں مجھ کو مل جائے۔
6
پل پل تیری یاد ہے گر، آئے تو اک بار،
پلکیں راہ میں فرش کروں اور، سیج بچھاؤں بال،
بن کے خدمتگار، قدموں میں بچھ جاؤں۔
7
آجائے گر وہ پریتم، پل پل جس کی یاد،
ہوجائے دل شاد، کروں میں پیار کی باتیں۔
8
کیسے دل کا حال کہیں جب، لاگے عشق کا تیر،
عاشق کی تقدیر یہی ہے، نین بہائیں نیر،
منوا! ہو تو سُدھیر، پریتم تو پردیس سدھارے۔
9
اچھی پریت نبھائی تو نے، دل کو دے گئے غم،
کیسے دل کو بہلا کر ہم، ہاتھ سے دیں، جانم!
بتلائیں کیا ہم، اپنے دل کا حال۔
10
یہ تو اچھی بات نہیں کہ، ساجن چھوڑ چلے،
پہلے پریت جتائی ہم سے، پھر منہ موڑ چلے،
دل کیوں توڑ چلے، پریت نہیں جب ساجن۔
11
تجھ کو پھر نینن نے، کیا ہے یاد، اے یار،
پل پل نین سے آنسو ٹپکیں، پل پل نیر کی دھار،
دیکھیں یہ سنسار، پر پیاس بجھے نہ نینن کی۔
12
کچھ تو پاس ہیں پھر بھی، دل سے ہیں وہ دور،
کچھ ایسے جو یاد نہ آئیں، کچھ دل میں مستور،
جیسے کنڈھی پور، لپٹا ہے پی من سے۔
13
قتل کیا نینوں سے، مجھ کو پاس بلاکر،
ماس تو سارا بانٹا، چھوڑ دیا بس پنجر،
وتواصوباالحق وتوا صوباالصبر، پی نے یوں فرما کر،
دیکھا جب مسکا کر، تو مجھ کو مار ہی ڈالا۔
14
میں بس مانگوں پریتم، دنیا مانگے مال،
دونوں عالم یار پر، فدا کروں فی الحال،
نام سے ہوں میں نہال، دور ہے وصل کی بات۔
15
پریت کی ریت سکھائی، لوٹ لیا پھر من،
باندھ کے پریت کا کچا دھاگہ، لے گئے سنگ سجن،
بندھا ہے بندھن، کیا ہے دل کو قابو۔
16
جب سے میرے ساجن سائیں، تم پردیس سدھارے،
راتوں کو آرام نہیں، اور، دن بے تاب گذارے،
خود کو لاکھوں بار میں ہاروں، میرے یار دُلارے،
رضا ہے رب کی پیارے، ملے نہ لاکھ جتن سے۔
17
جس سے اس پریتم کی، ہوگئی میں شیدائی،
اس دم سے ساجن کو، ایک پل بھول نہ پائی،
جس کی ہوں سودائی، رچا ہے میری روح میں۔
18
کبھی تو کھلتے ہیں دروازے، کبھی ہیں بند دوار،
کبھی تو پاس بلائے پریتم، کبھی وہ دے دھتکار،
گاہے ترسوں درشن کو، گاہے ہم اسرار،
ایسا ہے دلدار، میرا صاحب سائیں۔
19
تو صاحبزادہ سائیں ہے، اور میں ہوں تیرا غلام،
کروں سدا میں خدمت تیری، رہے نہ اور سے کام،
بیٹھ کے تیرے در پر ہر دم، تیرا ہی لوں میں نام،
تیری مہر مدام، مجھ پر ہووے ساجن۔
20
صورت سندر لیکن، ادائیں کڑوے ٹوہ،
کھنچے دیکھ کے روح، جو کھائے وہ جل مرے۔
21
تو صاحب تو سائیں، دمکے تیرا جمال،
جڑے ہیں تیرے مکھ پر، نوری نین نہال،
تیرا خواب و خیال، کرے ہے من مستانہ۔
22
ان جانا تھا منوا میرا، کبھی نہ کی تھی پریت،
خود ہی آن کے پریتم نے، سکھائی پریت کی ریت،
تب دیکھا وہ میت، جب پریت تھی من میں جاگی۔
23
چھوڑ کے ضد وہ اپنی، آجائے گر ساجن،
کرلوں دل کی باتیں، جب ہو پی کا درشن،
حال سنائے برہن، جب ہو ملن پیا کا۔
وائي
ہوت وہ نینوں کا دلبند، الو میاں!
ہر جا اپنا پریتم دیکھوں، وہ ہی گل وہی قند،
راہ تکوں ساجن کی ہر دم، مشکل ہے ہر چند،
پریتم میرا سب سے سندر، سائیں کی سوگند،
سکھیو! شاہ لطیف کہے ہے، ملے گا وہ دلبند۔
دوسری داستان
1
سن، اے شعور کامل تیری، جیسی اعلیٰ شان،
اتنا ہی، اے پریتم سائیں، مجھ پر کر احسان،
بات ذرا سی مان، دیکھ ذرا مُسکا کر۔
2
پل پل میرے جی میں، تڑپے یار تمنا،
تھام کٹاری، کاٹ لے تن کو، رحم ذرا نہ کرنا،
ہو احسان، اے سجناں، گر مہر کی ایک نظر ہو۔
3
قتل کرے اور حال نھ پوچھے، کیسی ہے یہ ریت،
رتی بھر بھی لہو نہیں ہے، من میں پریت ہی پریت،
چھپ چھپ کر اے میت، ہم نے تجھ کو پوجا۔
4
تیرا قرب اور وصل، جب جب آئے یاد،
کرتا ہے فریاد، میرا بے کل من۔
5
کڑیوں میں جوں کڑیاں مل کر، بن جائے زنجیر،
من سے من کو جوڑ کے پی نے، ہم کو کیا اسیر۔
6
ناز سے جب اِٹھلا کر، چلے ہے میرا یار،
دھرتی بسم اللہ کہے، چومے راہ گذار،
حوریں دیکھیں حیرت سے، مچے ہے ہاہاکار،
قسم تیری کلتار، میرا ساجن سب سے سندر ہے۔
7
میرا تن اور من، تیری ملکیت ہیں سائیں!
پل پل تیرے دوار پہ آؤں، جھکا کے اپنی گردن،
اپنے یار کے کارن، غیر بھی من کو بھائے۔
8
فانی ہے یہ جہاں، دنیا پل دو پل کی،
دھریں گے تجھ کو دھول میں، دھول تیرا استھان،
فانی سب انسان، دھول ہی سب کا مسکن ہے۔
9
تیرے چشم و ابرو، خنجر ہیں خوں خوار،
دل میں ہجر کا گھاؤ ہے، عشق بنا آزار،
مل جائے وہ یار، جس کے ملن کو ترسیں۔
10
آج بھی میرا یار نہ آیا، دیکھ رہا ہوں راہ،
جس کے کارن جیا ترسے، جس کی من میں چاہ،
لائے اُسے اللہ، تو جگ مگ چمکے آنگن۔
11
ہجر یار ہے سولی، آئے اگر وہ یار،
ڈھل جائیں سب دکھڑے، دور ہوں سب آزار۔
12
آس ہوئی ہے پوری میری، ساجن انگنا آئے،
کھل اُٹھا ہے سارا آنگن، دکھڑے آن مٹائے،
ہر اک دکھ دُھل جائے، من ہو اُجلا اُجلا۔
وائي
مہر کرے گا یار، میری مولا مدد کرے گا،
ہادی، تھام لے ہاتھ، مجھ کو پار اُتار،
ڈول رہی ہے ناؤ، تو ہی کھیون ہار،
وہ جو راہ کا رہزن ہے سائیں، اسکو مار،
تیرے کرم سے سائیں، جائیں گے سب پار،
مجھ کو یار کے دیس کا، کروا دے دیدار۔
وائي
ساجن اک دن آئے گا، مجھ کو سنگ لے جائے گا،
مجھ اندھی کا ہاتھ پکڑ کر، سیدھی راہ دکھائے گا،
مجھ برہن کی کُٹیا میں وہ ساجن اک دن آئے گا،
اندھیارے رستے ہیں ساجن، جگ مگ دیپ جلائے گا،
سب کا کھیون ہار محمدؐ، بیڑا پار لگائے گا،
آکر آپ، لطیف کو ی جی، تیری دھیر بندھائے گا۔
تیسری داستان
1
عشق ہے ایسا زور آور، کہ سب کے ہوش گنوائے،
دن میں دشت و جبل میں بھٹکیں، رات کو چین نہ آئے،
پل پل یاد ستائے، اپنے بچھڑے پریتم کی۔
2
تجھ بن شہر بھنبھور میں، جس کی اور نہیں ہے سہار،
جاتے جاتے پوچھا ہوتا، اس کا حالِ زار،
عالم کے سردار، آ برہن کے آنگن میں۔
3
یوں تو جگ میں ہر اک، سائیں، کہلاتا ہے یار،
وقت پڑے تو کام نہ آئے، کوئی نہیں غم خوار۔
4
آج کے انسانوں میں، یارو، کہاں ہے وہ اخلاص،
انسانوں کو کھاتے دیکھا، انسانوں کا ماس،
جگ میں نیک عمل کی دائم، رہتی ہے بو باس،
جھوٹا سب لباس، مخلص کوئی ایک ہی ہوگا۔
5
اچھا ہے کہ جیتے جی ہی، مل گیا وہ یار،
جس کے پہلو میں بیٹھیں، تو من کو ملے قرار،
اب تو، اے ستار، پریتم دور نہ جائے۔
6
ساجن پریت لگائے ہے تو، اب نہ رشتہ توڑ،
آنکھیں درشن پیاسی ہیں اب، ان سے منہ مت موڑ،
مجھ میں عیب کروڑ، تو ہی عیب چھپادے۔
7
دل کا دلبر ایک ہو، اور نہ ہوں درکار،
دل تو دے اس ایک کو، ترسیں اور ہزار،
جائیں جو ہر دوار، وہ تو ہیں ہرجائی۔
8
گو میرے عیبوں کو، جان گیا دلبر،
کبھی نہ عیب جتائے، وہ طعنہ دے کر،
مہر ہوئی مجھ پر، ڈھانپ دیئے سب عیب۔
9
داتا اب پہنچا دے مجھ کو، پی کے حضور،
من جانے کی بات چلی ہے، میرا تھا مذکور،
دوست کا یہ دستور، کبھی نہ رشتہ توڑے۔
10
کس سے سیکھے، یار ، قتل کے یہ انداز،
ایسی تھام کٹاری، سائیں، جس کی تیز ہو دھار،
کھول کے زخم نہار، رِستا ہے ہر گھاؤ۔
وائي
پی کی اعلیٰ ذات، سکھی ری، پی کی اعلیٰ ذات،
ہانک کے لے گئے اونٹوں کو، اور کی نہ کوئی بات،
جت تو پی کو لے گئے، اب ہیں پربت، کالی رات،
مل جائے وہ ساجن سائیں، رات ڈھلے پربھات،
سکھیو، شاہ لطیف کہے ہے، داتا دے گا دات۔
وائي
مجھ کو چھوڑ نہ جا، میرا ساتھ نبھا، کون میرا بن تیرے،
تب سے وہ تھے سنگ ہمارے، کُن فیکون صدا،
اندھیاری اس قبر میں احمدؐ، مشکل حل کر جا!
پہنچ وہاں پہ، محمدؐ پیارے، رات نہ دن جس جا،
اُمت کا ہے کون سہارا، تجھ بن اور، پیا،
لطیف طہور پلانا تم ہی، اے میرے آقا۔
سُر رامکلی
پہلی داستان
1
کیا کیا جوگی جگ میں ہیں، کچھ نوری کچھ ناری،
جن میں جوت نیاری، بِن ان کے کیا جینا ری۔
2
جوگی اس جہاں میں، آگ میں تجھے گویا،
الگ ہوئے آرام سے، آرام کا نہ پوچھا،
قیامت کر گئے برپا، بن انکے کیا جینا۔
3
لاکھوں بار لاہوتی نے، کیا کیا منت کی ہے،
افسوس اپنے حال پے، بن انکے کیا جینا۔
4
ان کی مہک کو ڈھونڈوں، گئے جو یاں سے لاد،
پل پل ان کی یاد، بن ان کے کیا جینا!
5
روؤں ماتھا پیٹوں، ڈھونڈوں پیاری اکھیاں،
ہائے رے اُن کی بتیاں، بن ان کے کیا جینا ری۔
6
اس جوگی بیراگی کو، من سے مت بِسرا،
جانے وہ کس اور گیا ہے، ڈھونڈ لے نقشِ پا،
ڈھونڈ کے راہ سوامی کی، راہ وہ ہی اپنا،
ڈھونڈ اسے جیئرا!، بن ان کے کیا جینا!
7
بیراگی جب قدم اُٹھائیں، منزل ہے لاہوت،
گدڑی میں یاقوت، بن ان کے کیا جینا!
8
سر جو پُھوٹیں سنکھ سے، یہ ہی میرا مال،
سونے کے یہ سنکھ ہیں، کون کہے کنگال،
کس دم پورب اور جائیگے، اس کا رہے خیال،
اپنا آپ سنبھال، بن ان کے کیا جینا۔
9
سُر جو پھوٹیں سنکھ سے وہ، بڑا ہے میرا مال،
بحث مباحث ترک کیا اب، کیا قال مقال،
جنہیں ہے حاصل حال، بِن ان کے کیا جینا۔
10
سوئی تھی میں سیج پر، چونکی سن کر آہ،
جگا گئے ناگاہ، بِن ان کے کیا جینا!
11
کھینچ لے اپنی اور، پریت کی ڈور ی ڈال،
سُر سے باندھیں من کو، دور ہو رنج ملال۔
12
کھینچ لے اپنی اور، باندھ کے پریت کی ڈوری،
سوامی کے سر سنکھ نے، کھولے بھید سکی!
بِن انکے کیا جینا ری، جو دل پر ڈاکا ڈال گئے۔
13
کھینچ لے اپنی اور، پریت کی ڈال کے ڈوری،
دل میں ہیں اے میرے، بن ان کے کیا جینا۔
14
کھینچ لے اپنی اور، پریت کی ڈوری ڈال،
سنکھ ہی میری آس ہے، سنکھ ہی میرا کمال،
بیمار کو سنبھال، بِن ان کے کیا جینا۔
15
سنکھ بجا تو سُر نے، کہی کچھ ایسی بات،
من نے کھائی مات، بن ان کے کیا جینا۔
16
تیرے سنکھ سُروں سے، ہوگئے دور حجاب،
مار دیا ہے کینر نے، سُروں سے ہوں بیتاب،
موت کے ہیں اسباب، بن ان کے کیا جینا!
17
سنکھ بجا کر لاد گئے، منوا ہے رنجور،
نینوں سے ہیں دور، بن ان کے کیا جینا!
18
صبح سویرے سنکھ بجاکر، لادگئے ہیں ساجن،
ڈھونڈا ان کے ہونے کو، پر ڈھونڈ سکی نہ برہن،
مہکیں جن کے آسن، بن ان کے کیا جینا!
19
سوامی آگ جلائیں، چن چن کے خاشاک،
خودبینی کو سنکھ سُروں سے، کریں جلا کے خاک،
لیجائیں پار جو پاک، بن ان کے کیا جینا!
20
دیکھ کے ویراں آسن، آئے نہ اب آرام،
سنکھ سروں سے چیر دیا دل، گھائل جسم تمام،
روؤں صبح و شام، بن ان کے کیا جینا ری۔
21
دیکھ کے ویراں آسن، من میں ہوک اُٹھی،
صبح سویرے سنکھ نہ باجے، لاد گئے بیراگی،
ہیں جو رضا میں راضی، بن ان کے کیا جینا ری۔
22
دیکھ کے ویراں آسن، روک سکوں نہ سسکی،
خود بینی کو خاک کیا ہے، ایسے ہیں بیراگی،
ہیں جو رضا میں راضی، بن ان کے کیا جینا!
23
خود پر بس نہیں، میں آسن کے پاس ہوں روتی،
پھیر دیا منہ کیز نے، سردی کی کاٹ تھی ایسی،
ہائے میں جا نہ سکی، بن ان کے کیا جینا ری۔
24
دیکھ کے انکے ویراں آسن، منہ پر رکھوں میں ہاتھ،
چلے گئے قلات، بن ان کے کیا جینا!
25
دیکھنا چاہوں، دیکھ نہ پاؤں، ہوں جن کی شیدائی،
کب ہے اور کسی میں سجنی، اُن جیسی رعنائی،
دیکھا دیکھ نہ پائی، بن ان کے کیا جینا!
26
سوامی بنے بھکاری، ویراں ہیں سب آسن،
تج کر خودبینی چلے وہ، نئے بنانے مسکن،
جن کے ویراں آنگن، بن ان کے کیا جینا ری۔
27
سوامی بنے بھکاری، خودی کے توڑے بندھن،
آپ سراپا عشق ہوئے اور، پریت بسی ہے تن من،
مہک رہے جوں چندن، بِن ان کے کیا جینا!
28
سوامی بنے بھکاری، پاس نہیں آسن کے،
آپ سراپا عشق ہوئے، اور عشق میں ہیں ڈوبے،
ایک تو ہوجا ان کے، بن ان کے کیا جینا!
29
نانگے نانی اور چلے، ہیں سامی سارے،
تڑپا کر کے موہے، بن ان کے کیا جینا۔
30
نانگے نانی اور چلے، لاد گئے بے چارے،
رات ڈھلی تو سن نہ پائی، سنکھ کے سُر وہ پیارے،
کل جو تھے اِس دوارے، بن ان کے کیا جینا ری۔
31
نانگے نانی اور چلے، باندھے کمر کو رسے،
وہاں پہ جا وہ پہنچے، بن ان کے کیا جینا۔
32
نانگے نانی اور چلے، چھوڑ چلے ہنگلاج،
کیے دوارکا کے درشن، مہیسیوں نے آج،
جس کا علیؓ ہے اب سرتاج، بن ان کے کیا جینا ری۔
33
نانگے نانی اور چلے، دُکھڑے ہیں پل پل،
لاد گئے جو کل، بن ان کے کیا جینا!
34
جوگی جگ سے چھپ کر، چلے ہیں نانی دوار،
پل بھر نہیں قرار، بن ان کے کیا جینا!
35
جوگ بنا یہ حیاتی، مجھے نہیں درکار،
جو ہیں سائیں میرے، بن ان کے کیا جینا!
36
سنگ نہ لیں وہ خودی کو، خودی بنیں گے سنگ،
جن کے ایسے ڈھنگ، بن ان کے کیا جینا!
37
کہاں گئے وہ کل، کہاں وہ جوش و خروش،
دیکھ کے ویراں آسن، رہا نہ پل بھر ہوش،
آسن میں افسوس، بن ان کے کیا جینا!
38
خودی سے خود کرتے ہیں، جو سامی گفتار،
جن کے یہ اطوار، بن ان کے کیا جینا ری!
39
بیٹھ کے پاس وہ اپنے، کریں جو باتیں خود سے،
چلے سوامی دوار سفر کو، دھونی آج بجھا کے،
جاتے ہیں وہ رُلا کے، بن ان کے کیا جینا!
40
بیٹھ کے اپنے آپ سے، کرتے ہیں جو کلام،
ہر دم جن کے لب پر، دور سفر کا نام،
ترک کو ترک کریں ہر گام، بن ان کے کیا جینا!
41
دیکھیں دیکھ نہ پائیں اُن کی، جگ مگ کرتی رنگت،
بہروں کی ہے بستی جس میں، چالاکی و حرفت،
چاہے اور طرح کی سماعت، بِن ان کے کیا جینا۔
42
چھوڑ دیا ہے جُز کو، کُل سے ہے اب کام،
جن کا عدم مقام، بن ان کے کیا جینا!
43
سنکھ بجاکر لاد گئے ہیں، جوگی جوگ کے کارن،
یہیں تھے ان کے آسن، بن ان کے کیا جینا۔
وائي
سنکھ کی سن آواز، چھپا ہے کوئی راز، میرے من کو کب موہے گا،
جگ کے نڑ سے شیریں تر ہے، سنکھ کی یہ آواز،
مرلی کو بھی مات کرے ہے، اس کا سوز و گداز،
جس کے سُروں پہ سوہنی تیری، اس سے اعلیٰ ساز،
بیجل کے کینر سے گہرا، اس میں کوئی راز،
ہند و سندھ میں کس نے دیکھا، سُروں کا یہ انداز،
شیر ینی سے شیریں ترے، سن لے جو یہ ساز،
جاکر سن کیا سندر سُر ہیں، سُروں کا بن ہمراز،
بیخود ہوگئے جنہوں نے سن لی، سنکھ کی آواز،
مالک بھی خود جس کو سراہے، سنکھ کو یہ اعزاز،
ہر اک ساز سے اعلیٰ ہے جو، سنکھ تو ہے وہ ساز،
ٹلیاں موہیں میواؤں کو، موہے انسان کو یہ ساز،
مردوں کو بھی زندہ کردے، سنکھ کا یہ اعجاز۔
دوسری داستان
1
پہلے دن ہی پرکھ کے دیکھے، بیراگی پر نور،
ایسا کوئی روگ لگا ہے، انگ انگ ہے چور،
کہے لطیف کہ سنیاسی تو، سدا سے ہیں رنجور،
رمز ہے کوئی ضرور، کریں نہ خود کو ظاہر۔
2
دوجے دن بیراگی کے، پوچھ لیے احوال،
گیروے کپڑے دھول اَٹے تھے، جوڑے خستہ حال،
جان بوجھ کر چھوڑ رکھے ہیں، لمبے لمبے بال،
بیچارے وجود کا بتلائیں نہ حال،
نانگے ہوئے نہال، کریں نہ خود کو ظاہر۔
3
تیجے دن وہ دائروں میں، دھونی آن رمائیں،
لے آئیں خاشاک کہیں سے، مل کر آگ جلائیں،
دل میں درد کی دھونی ایسی، لوگ جو جان نہ پائیں،
بھید نہ وہ بتلائیں، کریں نہ خود کو ظاہر۔
4
چوتھے دن سر ٹیک کے اپنا، ہوگئے یار مگن،
اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے، پریت نے کاٹا تن،
دل میں ہے اک درد کی دھونی، دہکے پریت اگن،
جل کر ہوئے ہیں کندن، کریں نہ خود کو ظاہر۔
5
جانے کس کے دھیان میں ڈوبے، پانچواں دن جب آیا،
سوامی کے اب انگ انگ میں، پریت نے درد جگایا،
چاہت کے میدان میں آکر، سب نے پیر جمایا،
تڑپ تڑپ کے رات بتائی پل بھی چین نہ پایا،
پریتم کو پہچان لیا، کریں نہ خود کو ظاہر۔
6
اور چھٹے دن تڑپ اُٹھے وہ، کرکے پی کا دھیان،
رگ ریشے میں رچا ہوا ہے، سب کے رب رحمان،
سلگ سلگ کر راکھ ہوئے ہیں، بیراگی گنوان،
در در مانگیں دان، کریں نہ خود کو ظاہر۔
7
ساتواں دن آیا تو سب نے، دھوئیں اپنی جٹائیں،
پھر تو سارے الکھ کے آگے، جوڑ کے ہاتھ وہ آئیں،
کہے لطیف کہ یہ بیراگی، دور کی کوڑی لائیں،
چھپ کر سارے جگ سے سوامی، روح میں رام سجائیں،
گدڑی اوڑھ کے آئیں، کریں نہ خود کو ظاہر۔
8
آٹھویں دن وہ لاد چلے اور، بھٹکے بستی بن،
جو ہے جوگ کی ریت پرانی، سیکھا وہی چلن،
چھلکے پریت وجود سے ان کے، رام رچا تن من،
کسی اعلیٰ کارن، کریں نہ خود کو ظاہر۔
9
اور نویں دن جگر جگر ہیں، بن سوئے نیناں،
رب نے ان کو پہچانا اور، برسی رحمت باراں،
جس جا نظریں ناتھ جمائے، ڈیرے ڈالیں واں،
انکے آثار نمایاں، کریں نہ خود کو ظاہر۔
10
دسویں دن ہوئی مہر ساجن کی، عجب ہے سج دھج آج،
وصل کے اوراق کو بدلا، کیسا اُتم کاج،
ڈھونڈ نکالی راہ گرو کی، پائی منزل آج،
یوگی کا یہ معراج، کریں نہ خود کو ظاہر۔
11
گیارہویں دن کچھ ایسا اُن پر، پی کا ہوا کرم،
کشٹ کیے اور منزل پائی، چلے ہیں سوئے حرم،
روکیں اپنا دم، کریں نہ خود کو ظاہر۔
12
بارہویں دن کو منزل پائی، ہوئے نہ یار نراس،
کرلی حرم کی زیارت سائیں! سب کی تھی یہی آس،
پہنچے گرُ کے پاس، ان کو مان ملا ہے۔
وائي
ماں! بیراگی آئے، میں اُن کے سنگ جاؤں گی،
حرص ہوا کو ترک کیا ہے، سکھ نہ ان کو بھائے،
تیاگ سے ایسا سکھ پایا، سب کچھ چھوڑ کے آئے،
ریشم اور کمخواب کے بستر، اپنا آپ لٹائے،
چل کر دیکھیں جوگی جو ہیں، انگ بھبھوت رمائے،
کہے لطیف کہ جوگی سوامی،آج میرے گھر آئے۔
تیسری داستان
1
جانے کیسا درد ہے دل میں، نین بہائیں نیر،
آٹھ پہر ہی الکھ کا ان کے، چبھے ہے دل میں تیر،
دائم ہی اپنے صاحب کا، خوف ہے دامن گیر،
سفر میں ہیں بل بیر، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
2
ایسا کوئی درد ہے دل میں، سدا ہیں بے آرام،
گھاؤ جَڑے ہیں جی میں، لب پر اور کلام،
دل میں درد مدام، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
3
بھٹکیں دیس بدیس، روندیں ہر اک راہ،
پورب پار چلے ہیں، دور دیس کی چاہ،
الکھ سے ہیں آگاہ، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
4
اپنا آپ بُھلا دے سوامی، رہ بے خود مدہوش،
اچھا بھیس لبھائے تجھ کو، ہائے رے صد افسوس،
جسے نہ خود کا ہوش، جوگی وہ کہلائے۔
5
اپنا آپ بھلا دے، رہ بے خود مدہوش،
کہے لطیف کہ لاہوتی کو، کہاں ہے اپنا ہوش،
فکر ناؤ نوش، پھر جوگی کیوں کہلائے۔
6
کیا کیا جوگی پنتھ ہیں جگ میں، کان کٹے، کن چیر،
اُتر کی جب چلیں ہوائیں، صبر کی وہ تصویر،
ایسے کشٹ اُٹھائے، پنجر بھیو سریر،
ہوگئے فنا فقیر، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
7
کان کٹے کن چیر، جو چھدوائیں کان،
ڈھونڈھیں ایک ہی منزل، بیراگی گنوان،
خود سے جو بے دھیان، چلو تو ان کی دوار چلیں۔
8
کان کٹے کن چیر، کانوں کو چھدوائیں،
پہنچمکے اپنی منزل پر، دھونی بیٹھ رمائیں،
مٹی پر سوجائیں، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
9
باندھے ہیں لنگوٹ، رچ کر ہوئے ہیں لال،
کہے لطیف کہ بیراگی کو، موہ سکا نہ مال،
جن کا ہے یہ حال، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
10
کان کٹے کن چیر، کان چھدے کن ڈھار،
جاتے ہیں ہنگلاج کو، سارا بوجھ اُتار،
سب کچھ کیا نثار، چلو تو ان کے دوار چلیں۔
11
چل کر وجد و مستی میں، دیکھیں ان کے آسن،
کیا کیا ان کے احسان مجھ پر، مہر بھرے ہیں ساجن،
طور طریقے احسن، دل نے سیدھی راہ ہے پائی۔
12
ویراں کرکے سارے آسن، لی ہے رام کی راہ،
ڈگر ڈگر پہ ڈھونڈا ان کو، ڈھونڈ نہ پائی آہ،
ڈھونڈے آج نگاہ، جانے وہ کس اور گئے۔
13
جل کر پریت کی آنچ میں، سوامی ہوئے کباب،
دونوں کو وہ ایک ہی جانیں، گناہ ہو یا کہ ثواب،
پل پل خون کی رنگت جیسا، ٹپکے نین سے آب،
مانگے کون حساب، کہ کیا ذات اور دھرم ہے کیا۔
14
سنکھ دھرا ہے کاندھوں پر اور، درد کی دولت ساتھ،
لاد چلے وہ کابل کو، کوئی جو سُوجھی بات،
کرتے گئے کل رات، باتیں کسی مندر کی۔
15
درد کی دولت ساتھ ہے ان کے، اوڑھا درد کا بھیس،
نقش ہے ان دل پر ہر دم، پریتم کا سندیس،
صبح گئے پردیس، سوامی سنکھ بجاکر۔
16
دیکھ کے ویراں کُٹیا میرے، من میں ہوک اُٹھے،
کیوں تھی بنائی کٹیا جس کو، آخر چھوڑ چلے۔
وائي
وہ جوگی کہلائے، جس کا من ہے مالا،
وہ جوگی ہے وہ سوامی ہے، جس نے ہونٹ کو سی ڈالا،
چل مندر میں اِلاللہ، ست گر سنگ اُجالا۔
وائي
امید بندھی ہے، آئینگے، مجھے چھوڑ نہ جائینگے،
اک دن آئینگے بیراگی، دھونی خوب رما کے،
پل پل راہ تکوں جوگی کی، راہ میں بال بچھا کے،
دکھ کرینگے دور وہ ساجن، راز کی بات سنا کے،
لے جائینگے مجھ برہن کو، پریت کی ریت نبھاکے،
کہے لطیف کہ ساجن میرا! مہر کرے گھر آ کے۔
چوتھی داستان
1
گر تو جوگی بننا چاہے، توڑ دے سارے رشتے،
بہا نہ آنسو اے نانگا تو، دوست کے در کے آگے،
کیوں نہ ان سے مانگے، جو جان کے ہیں انجان۔
2
گر تو جوگی بننا چاہے، رشتے ناتے توڑ،
لم یلد ولم یولد ہے، اس سے رشتہ جوڑ،
تو پہنچے تو کسی طور، محبت کی منزل تک۔
3
گر تو جوگی بننا چاہے، گُرو کی ریت نبھا،
جائے جب ہنگلاج کو تو، رہے نہ حرص و ہوا،
من ہو پریت بھرا، تب درشن ہوگا ناتھ کا۔
4
گر تو جوگی بننا چاہے، چھوڑ دے طمع تمام،
داسوں کے جو داس ہیں، ان کا بن جا یار، غلام،
صبر کی لے شمشیر اور دل سے، کینہ کاٹ تمام،
تو نانگا تیرا نام، ہوگا تب لاہوتی۔
5
گر تو جوگی بننا چاہے، لے گُرو کی راہ،
دکھڑوں سے رکھ چاہ، ہنس ہنس دکھڑے جھیل۔
6
گر تو جوگی بننا چاہے، اپنے نفس کو مار،
پیار سے پھیر تو مالہا سائیں!، من میں اگنی بار،
اس ساجن کے کار، رضا میں رہ تو راضی۔
7
گر تو جوگی بننا چاہے، پی لے فنا کا پیالہ،
نفی کو اپنا کر تو، میں سے کر لےکفارہ،
وحدت کا نظارہ، کرے گا تب اے سوامی!
8
گر تو جوگی بننا چاہے، دائم رہ خاموش،
کیوں چھدوائے کان اے جوگی! کانوں کا کیا دوش،
چادر چھوڑ اور چمڑا پہن، پہن نہ تو پاپوش،
کوئی نہ دے گا دوش!، تجھ کو گُرو کے آگے۔
9
جوگ تو حسن ہے جوگی کا، جوگ کا حسن ہے جوگی،
جوگی! تیرے من میں ہے، بھید کی بات چھپی،
ہائے رے قسمت میری، میں نے جوگ نہ سیکھا۔
10
جوگی کے کب گن ہیں تجھ میں، لے نہ جوگ کا نام،
ای تو راہ ساجن کی، تیری راہ ہے خام،
روتے گئے ہر گام، سوامی پی کی اور۔
11
جوگ لیا تو جان گنوائی، جینے سے کیا کام،
کان لگا کر سن لے جوگی! جوگ کا یہ پیغام،
جوگ میں اپنا آپ گنوادے، لے نہ خودی کا نام،
خودی سے کیا ہے کام، ناداں! چھوڑ خودی کو۔
12
لوگ تو دکھ کو بپتا جانیں، دکھ جوگی کا جیون،
دکھ میں ہیں وہ مگن، دیکھ تو ان کو دھیان سے۔
13
جوگ سے تیرا چاؤ، ابھی نہیں ہے کامل،
من میں پریت کی اگنی، انگ انگ ہو گھائل،
قطرہ قطرہ دل، جب آنسو بن بن ٹپکے۔
14
یا تو کامل جوگی بن یا، لے مت جوگ کا نام،
کیوں چھدوائے کان اے جوگی! صبر سے سہہ آلام،
کرے نہ تو بدنام، جو ہمیں سچے جوگی کو۔
15
جوگی نہ تو ناتہ جوڑیں، نہ وہ کسی کے یار،
ان سے پریت ہوئی ہے جن کو، پورب سے ہے پیار،
آٹھوں پہر ہی جوگی کو، نانی کا ہے بچار،
کہے لطیف کہ سوامی من میں، جگا گئے ہیں پیار،
میں بھی اے ستار، رنگ جاؤں اس رنگ میں۔
16
جو غلام تھے پیٹ کے، جو تھے پس وہ جوگی،
وہ تو ہیں بس روگی، پیٹ کے ہیں وہ غلام۔
17
اے دل! جھوٹا جوگ مت اپنا، جوگ بِنا مت جی!
نہ تو سچی بات بتا اور، نہ کہہ تو جھوٹی،
کیا نہ رام کو راضی، تو لینگے تجھ سے حساب۔
18
کان تو ناری چھدواتی ہے، تو مت چھدوا کان،
سر سپاہی دیتے ہیں، تُو تو نہیں انجان،
پوچھنا ہے تو پوچھ لے سائیں، گونگے پائیں نہ گیان،
رہ نہ منزل سے انجان، عجز کو بنا تو رہبر۔
19
چھدوا اپنے کان، بن کر تو بل بیر،
دل میں عشق کا تیر، کھالے سوامی ہاتھوں۔
20
دل میں عشق کی دھونی، اب تو یار رما،
لاکر پریت کی اگنی، اپنے من میں جلا،
اگنی وہ سُلگا، جو پانی بن نینن سے ٹپکے۔
21
یہ نسوانی جوگ ہے، چھدوائے گر کان،
تج دے جھوٹ کپٹ کو جوگی، سچ کو تو پہچان،
ٹھکرا پھوگ تو نادان، تب تو رام کو پائے۔
22
یہ جو تیرے کان ہیں، یہ صحیح نہیں سن سکتے،
اندر کو جو کان ہیں، اُن کے سن سندیس پیا کے۔
23
یہ تو خر کے کان ہیں ان کو، دیکر لے دوجے،
اُن کانوں سے بات سجن کی، تو سوامی نہ پائے سن۔
وائي
بیٹھ تو مت بِسرا، جاگ رجھا لے ساجن،
محبت کا میدان ہے مشکل، دیکھ یہاں تو آکر،
وہ بھی روتے ہی گئے جو، ملے ہیں جان گنوا کر،
ان کو ساجن کب ملتا ہے، سوئی جو سستا کر،
آدھی رات کو یاد کریں جو، پوجا دیپ جلاکر،
ملن بدھائی دیں گے، پریتم، میرے انگنا آکر۔
پانچویں داستان
1
ایسے ہیں سنیاسی جن کے، زانو کوہِ طور،
سر زانو پر سجدے میں ہیں، اپنے پی کے حضور،
پی کے پاس جو پہنچے آقا، دوہی کمان تھے دور،
روئے زمیں پر ہر شئے فانی، قدرت کا دستور،
مومن کو تو دوست رکھے اور، جھلک دکھائے نور،
موسیٰ تو بے ہوش ہوئے تھے، جلوہ کوہِ طور،
نافرماں نہ ہونا جانیں، کریں نہ کوئی قصور،
دیکھ لیا وہ ساجن اپنا، سب سے جو مستور،
دیکھ سکے نہ سن پائے ہیں، پھر بھی ہیں مسرور،
کچھ بولیں نہ آگے جائیں، ان کا یہ دستور،
ان کا حال حضور، کیا پوچھوہو ہم سے۔
2
جن کے زانو طورِ سینا، نظارہ ہے مدام،
چھوڑ چلے پورب کو سوامی، خودبینی کے دام،
ڈھانپا راز کی چادر سے ہے، اپنا جسم تمام،
باندھے ہیں احرام، اُلفت کے سنیاسی۔
3
جن کے زانو طورِ سینا، نظارہ ہے مدام،
طالب المولیٰ مذکر، ہر پل یہی کلام،
سکھ تو چھوڑ چکے ہیں سوامی، سکھ سے اب کیا کام،
ایک الف کا نام، دھیان میں ہے اب ہر دم۔
4
جسم تو جامع مسجد ان کے، زانو ہیں محراب،
تن کا کریں طواف وہ سوامی، من قبلے کا باب،
لب پر ہیں تکبیریں حق کی، ہر خواہش سے اجتناب،
کیسا روز حساب، رچا ہے روح میں ہادی۔
5
پی کا منہ محراب، مسجد ہے یہ جہان،
دل پہ نقش ہوا ہے، سارا ہی قرآن،
ایسی منزل پائی، عقل جہاں حیران،
ہر سُو ہے سبحان، کریں کہاں پہ سجدہ۔
6
زانو پر تو سر رکھا ہے، دل میں یقین کامل،
پی کے قرب کی منزل، ہر جوگی نے پائی۔
7
پی کے قرب کی منزل پائی، گئے لاہوت سے آگے،
مہر بلب ہیں سارے، لفظ بھی بول نہ پائیں۔
8
من میں اگنی پریت کی، دھول اَٹے ہیں انگ،
بیٹھے ہیں ایکانت میں، جھوٹ کپٹ سے جنگ،
اوگن وہ نہ اپنائیں، گنوانوں کے ڈھنگ،
جوں جلتے ہیں انگ، جل جل ہوئے وہ کندن۔
9
توڑ دے اب یہ دھاگے، دھونی تو نہ رما،
واذکر ربک فی نفسک، من میں آگ جلا،
جس نے پی دیکھا، وہ کیا خودی دکھائے۔
10
یہ تو ریت امیروں کی کہ، چھدوائیں وہ کان،
سر کٹوا تو پاس بلائیں، جوگی وہ گنوان،
یھدی اللہ النورہ من یشائی، ان کی ایسی شان،
ان کا یہ استھان، دونو جگ وہ تیاگ چلے۔
11
جگ کو تیاگ کے جوگی، چلے ہیں پورب پار،
کہے لطیف کہ لاد چلے ہیں، اب لاہوتی یار،
واللہ یدعو الی دارالسلام ، صاحب کی ہے پکار،
جھوٹا یہ سنسار، سب کو حیران کرے ہے۔
12
کیونکر ایسی ریت یہ سوامی، اپناتے ہیں یار،
نہ تو خوف ہو دوزخ کا نہ جنت سے ہے پیار،
نہ اسلام سے کوئی ناتہ، کفر سے نہ تکرار،
ان کو پی درکار، اور نہ کچھ وہ مانگیں۔
13
چلے گئے تو یوں لگتا ہے، کبھی نہ تھے وہ پاس،
آسن کیے اداس، سنکھ بجا کر لاد گئے۔
14
دھیان میں ہے انداز طریقت، اور شریعت راہ،
پا لیں جب وہ رمز حقیقت، معرفت کی چاہ،
ہیں انعام میں تینوں عالم، پھر بھی دور نگاہ،
لی لاہوت کی راہ، ہیں لاہوت سے آگے۔
15
نکلے ہیں ناسوت سے آگے، چلے ہیں اب ملکوت،
جوگی گئے جبروت، سنکھ بجا کر سارے۔
16
ڈھونڈا تو ناکام ہوئے، بن ڈھونڈے پایا یار،
خود میں پایا کھول دیئے جب، دل تیرتھ کے دوار،
ٹوٹی جسم کی زنجیریں اور، ختم ہوا آزار،
کابل اور کشمیر گئے کب، ایسے جوگی یار،
جن کو سچ سے پیار، گھر بیٹھے پایا ہے گُر کو۔
17
اب امید نہ آس ہے کوئی، یاس بھری ہے گُدڑی،
عمر رضا میں گذری، من میں سکھ ہی سکھ ہے۔
18
اب امید نہ آس ہے کوئی، خود کو یاس سے ڈھانپا،
کبھی تو ان کے سنگ ہیں گھوڑے، کبھی ہیں پاؤں پیادہ،
یوں تیریں وہ ساگر میں جوں، تیرے کوئی تِنکہ،
لائیں نہ لب پہ شکوہ، گر مگرمچھ کے منہ بھی ہوں۔
19
رچ کر لال ہوئے ہیں سارے، پاس سے گذرا لال،
مُلکِ عدم میں ڈیرے ڈالیں، پایا ہے وہ کمال،
ساگر دیا کھنگال، گیان سے ہر جوگی نے۔
20
سہتے ہیں سب جان پر، سردی، پالے، طوفاں،
کوئی نہیں ہے نگہباں، ان کا بِن اللہ کے۔
21
اب امید نہ آس ہے کوئی، عدم بنایا آسن،
مانگیں اور نہ نردھن، رضا کی دولت پائی۔
22
کیوں پوچھے تو کل کا، آج کی فکر نہ کر،
انکے سنگ تو جا کہ من کی سانس میں یار بسا،
رب کا لے رستہ، چل مستی میں بھی ہشیاری سے۔
23
لیں وہ تکبر کا سہارا کریں وہ کیا کیا حیلے،
اس لیئے نہیں ملتی ان کو، سیدھی راہ لطیف کہے۔
وائي
احسنوں نے نیند گنوائی، جو کیئے ہیں جوگیوں نے،
آخری سانس تک تو جوگی، گرو کی کر گدائی،
ڈوب جا انکے اشاروں میں جو جوگی ہیں سنیاسی،
جنہیں جگایا آدیسیوں نے، نیند کبھی نہ آئی،
ان کی بولی ایک پہیلی، کوئی بوجھ نہ پائی،
وحدت سے ہی ان کی ہستی، دوئی راس نہ آئی،
نیند کے ماتے نیناں جاگیں، دغا نہ دل میں آئی،
ان اللہ ویرحب الوتر، ان کی ہے سچائی،
رجھا کے مجھ کو رمز سے، میری جان جلائی،
سکھیو! شاہ لطیف کہے کہ، صاحب کرے بھلائی۔
چھٹی داستان
1
ایسی چُھری چلی ہے دل پر، ایسی اس کی کاٹ،
درد میں سارا دن بیتے اور، تڑپ تڑپ کر رات،
جوگی ہے وہ ذات، جو رہیں سدا ہی نربل۔
2
لب پہ باتیں اور ہیں، بسا ہے روح میں رام،
مے سے پیالے بھر کر، پیئں وہ جام پہ جام،
کیے ہیں بند تمام، آسن کے دروازے۔
3
لب پہ باتیں اور ہیں، بسا ہے روح میں رام،
لمبے ہوگئے بال ہیں انکے، سفر میں ہیں وہ مدام،
میں تو صبح شام، یاد کروں جوگی کو۔
4
دھول جمی ہے بالوں میں، ہر دم ہے ماتم،
کسی نے نہ پوچھا کہ کیا ہے ان کا درد و الم،
جیون کا ہے غم، جیون غم میں گذاریں۔
5
بیٹھے بیٹھے برسوں بیتے، دھول اَٹے ہیں بال،
پل کو الکھ سے آنکھ نہ پھیریں، عجب ہے ان کا حال،
من میں اگنی پریم کی ہے، بھورے ہوگئےبال،
ٹپ ٹپ ٹپکے نین سے، نیر لہو سا لال،
دکھڑوں میں ہیں نہال، پریت کی کبھی نہ چھوڑیں۔
6
اُلجھی اُلجھی سی ہیں جٹائیں، بیت گئے ہیں سال،
گیان تو جھونکا آگ کے اندر، بھورے ہوگئے بال،
توڑ دیئے ہیں خودبینی و خودداری کے جال،
کیوں ڈھونڈیں وہ ننگ پال، جب دیکھا اپنی گُدڑی میں۔
7
نانگوں سے کب ناتھ جھکایا، جھکایا عشق نے ناتھ،
برسی ہے برسات، ان کے لیئے شوالوں پر۔
8
نہ تو جھکیں وہ ناتھ کے آگے، نہ جھکائیں ناتھ،
نہ تو یاترا کو جائیں، نہ کریں جوگ کی بات،
لے آتے ہیں ساتھ، نشانیاں الماس کی۔
9
روز وہ دھوئیں گُدڑی، لب پر ہر کا نام،
جو نہ رِجھائیں رام، ناتھ جھکے کب ان کے آگے۔
10
روز ہی دھوئیں گُدڑی، لب پہ رام کا نام،
جو خواہش کے غلام، ناتھ جھکےکب ان کے آگے۔
11
سن پائیں جہاں گھنٹیاں، وہاں رہتے ہیں سب ساتھ،
تن من پاک پوتر ہے، پاک ہیں یار صفات،
جاگیں وہ دن رات، روتے جائیں رام کی اور۔
12
ان کے خس خاشاک بھی ہیں، جائن پھول ہوں جیسے،
ان کی طلب نے مارا جن کے، پھول ہیں گدڑیوں میں،
اندر تو انمول ہیں، باہر میل جمی ہے۔
13
کھڑے ہیں وہ بازار میں، لب پر گُر کا نام،
سورہ پڑھیں سبحان کی، اتاریں دل میں کلام،
بول جوں شہد کا جام، مستی نے عشق کی مست کیا ہے۔
14
جوگی انگ بھبھوت، چلے ہیں من تڑپا کر،
لاد چلے ہیں سوامی، جیئرا میرا جلا کر،
سوامی سنکھ بجاکر، چھوڑ گئے ہیں شوالے۔
وائي
ان نینن نے اُلجھایا، کروں کہاں فریاد،
درماں کی بے کار دوا نے، روگ کو اور بڑھایا،
بیراگی کی سندرتا نے، سرتاپا جرکایا،
پی کی پریت بنا اے سجنی!، دوجی پریت ہے مایا،
پی کی پریت ہے کامل جیسی، میگھ کی سندر چھایا،
کہے لطیف کوی وحدت نے، میوہ رت کا کھلایا۔
ساتویں داستان
1
طعام سے بیزار ہیں، بھوک میں یار مگن،
صدا لگائیں ویرانوں میں، پھیلائیں نہ دامن،
درد ہی مانگیں نردھن، درد کی دولت پائی۔
2
طلب نہیں ہے طعام کی، طعام سے ہیں بیزار،
صدا لگائیں ویرانوں میں، کسی کے نہ وہ یار،
ہے مفلسی کی سے پیار، درد کی دولت پائی۔
3
طعام سے ہیں بیزار، بھوک کا لیا مزہ،
خالی پیٹ ہی لاد چلے ہیں، چھوڑ گئے یہ جا،
درد انہوں نے پایا، ملی نجات تکلیفوں سے۔
4
نہ تو کاسوں میں کچھ مانگیں، نہ دامن پھیلائیں،
کسیے یار مہیسی جوگی، اور کے در پر جائیں،
فتویٰ کیوں دلوائیں، ہے من میں لگی عدالت۔
5
در در بھیک جو مانگیں ان کو، ذرا بھی ہو پہچان،
دشت میں پائیں دان، کبھی نہ مانگیں بھیک۔
6
سانجھ سمئے کو سوئیں سوامی، جاگیں آدھی رات۔
کہے لطیف کہ تڑپ اُٹھیں جب، رات ڈھلے پربھات،
جگ سوئے تو چلیں سفر کو، ایسی ہیں عادات،
ہر سُو اس کی ذات، پیر کدھر پھیلائیں۔
7
سانجھ بھئے کو سوئیں سوامی، رات ڈھلے تو جاگیں،
دیکھ تو انگ بھوبھوت مہیسی، دھول سے مکھ وہ دھوئیں،
رات ڈھلے تو چوراہوں پر، آن کے وہ سوئیں،
کسی کو نہ بتلائیں، کہ ہم ہیں جوگی سوامی۔
8
دن کو جاگیں سانجھ سمئے کو، لیں وہ گڈی تان،
بھوک سے لب پر جان ہو لیکن، کبھی نہ مانگیں دان،
طعام کی کوئی طلب نہیں ہے، فاقے ہیں ہر آن،
اِن کی یہ پہچان، پائی بھیک خاموشی کی۔
9
ایسے کس کر رسے باندھے، جسم ہوئے لاغر،
تن کو کوئی طلب نہیں ہے، لیں نہ زادِ سفر،
گئے وہ اس رہ پر، پہنچے کابل تیرتھ۔
10
ایسے کس کر رسے باندھے، جسم ہوئے کمزور،
کھنچتا ہے کب من سوامی کا، کسی طعام کی اور،
رام ہے ہر طور، سدا ہی انکی روح میں۔
11
ایسے کس کر رسے باندھے، جسم ہوئے نربل،
کہے لطیف کہ کشٹ اٹھائیں، انگ کریں وہ شل،
گرو کی بات اٹل، چھوڑیں نہ راہ گرو کی۔
12
جوگی آج یہاں سے، لاد گئے پردیس،
اب تو ان کے من میں، اور بسا ہے دیس،
نیا پہن کر بھیس، لاد چلے بیراگی۔
13
ایسی شرم ہے آنکھوں میں، سب کا کریں ادب،
نہ تو ہیں ماں باپ ہی ان کے، نہ کوئی نام نسب،
آٹھوں پہر ہی جوگی کے، رہا ہے روح میں رب،
انہیں کوئی اور طلب، پاس نہیں کچھ بِن گدڑی کے۔
14
چھوڑ دے یار لنگوٹ، جا جوگی کے پاس،
من میں پریت بسالے، دکھوں کی لے میراث،
پہنائیں گے لباس، ڈھانپیں گے سب عیب۔
15
اک بار لنگوٹ جب باندھا تو پھر، نہیں وضو کا دھیان،
جو اسلام کے پہلے گونجی، سن لی وہ آذان،
چھوڑے سوانگ اور گیان، ملے ہیں گورکھناتھ سے۔
16
جوگی اپنے جسم کو، ڈالیں روز لغام،
سر پر پاگ سہاگ کی، پہنے ہیں وہ مدام،
جنہوں نے لیا دل تھام، وہ سوامی نظر نہیں آئے۔
17
بیراگی کو لے آ، اللہ میرے آنگن،
ختم کرینگے دکھڑے، ہلکا ہوگا تن من،
دینگے آنے کے درشن، اور خوشی کی دینگے خبریں۔
18
ٹپ ٹپ ٹپکیں خون کے آنسو، نینن بہے نیر،
اپنے دونوں کانوں کو رکھے دیے ہیں چیر،
توبہ کی تاثیر، نانگے سارے پاک ہوئے۔
19
کہے لطیف کہ خواہش کو وہ سنگ نہیں لیتے یار،
جن کے یہ اطوار، چھوڑ چلے ہیں آسن۔
20
آگ میں انگ جلے، اور کھورے میں کھال جلی،
دیکھ کے آسن جوگ محل، یہ برہن مرجائیگی،
ذرا نہ کی ہمدردی، سکھیو شاہ لطیف کہے۔
21
اپنی پوجا مت کرواتے ہو، چھوڑ دے بالک چیلے،
کہے لطیف کہ چھوڑ پہننا، تو یہ گیروے کپڑے،
تب تیرتھ پہ پہنچے، جب تو مارے من کو۔
22
تج دے اپنی خودبینی کو، جوگ کو اُتم مان،
تیرے بالک چیلے سارے، ہیں جنجالِ جان،
سب کچھ کر قربان، جوگی تیاگیں جگ کو۔
وائي
بیراگی بے کل، سنکھ بجا کر لاد چلے،
کبھی ہوائیں اتر کی اور، کبھی دھوئیں کے دل،
جوگی اگنی تاپ رہے، میرے نین سے برسے جل،
جوں چندن کی لکڑی سلگے، سلگوں میں پل پل،
کبھی نہ مانگیں بھیک وہ سوامی، نہ ہی چلائیں ہل،
کہے لطیف کہ وہ بیراگی، آج آئیں یا کل۔
آٹھویں داستان
1
صبح کو لاد چلیں گے صابر، رات کے ہیں مہمان،
کہے لطیف کہ جوگی کارن، تڑپ تو اب ہر آن،
جوگی ہیں مہمان، کب پھر مل پائیں گے تجھ سے۔
2
صبح کو لاد چلیں گے صابر، رات کو ہیں اس آنگن،
جی بھر کے تو کر لے! اب جوگی کا درشن،
جانے کب ہو ملن، چھو لے ان کے پاؤں۔
3
آج ہیں تیرے آنگن میں، جی بھر کرلے بتیاں،
دن میں دس دس بار اے گوری! خود کو کردے قرباں،
کب ملنے کا امکاں! گئے اگر ہنگلاج کو جوگی۔
4
جب تک ہیں وہ آنگن میں، بیٹھ تو ان کے پاس،
چلے ہیں دور سفر کو، دور دیس کی آس،
دیس نہ آیا راس، گنگا اور چلے ہیں۔
5
جب تک ہیں آنگن میں، جا تو ان کے پاس،
سوامی چلے سفر کو، دھیان میں صحرا پیاس،
جوگی رمز شناس، مہر سے ہی ملتے ہیں۔
6
جب تک ہیں وہ بیٹھک میں تو، جا ان کے آنگن،
دیکھ کہ اب لاہوت سے، ملا ہے ان کا من،
ہجر و فراق و درد و الم کے، عادی ان کے تن،
جائیں گے وہ نردھن، اک دن کابل تیرتھ کو۔
7
آج نہ جوگی ہیں حُجروں میں، اور نہ شب بیداری،
اب تو انکی یادیں ہیں، تو رولے ہجر کی ماری،
دیکھ تو تو اے دکھیاری!، تیرے پاس سے لاد چلے ہیں۔
8
آج نہیں ہیں ان حُجروں میں، ان کے میٹھے بول،
دیکھ کے انکے ویراں آسن، من ہے ڈانوا ڈول،
لاد گئے انمول جن کو دیکھ کے جیتی تھی تو۔
9
آج نہیں ہیں ان حُجروں میں، وہ باتیں وہ محفل،
ہجر کی آگ میں جل جل کر اب، راکھ ہوا ہے دل،
دل تھا جن پر مائل، لاد گئے وہ جوگی۔
10
آج نہیں ہے ان حُجروں میں، بیراگی کی ذات،
یار کے ہجر میں سنیاسی روتے، رات ڈھلی پربھات،
لاد گئے وہ رات، جن کی طلب ہے تن میں۔
11
آج نہیں ہے ان حُجروں میں، وہ خس اور خاشاک،
بیراگی تو لاد گئے ہیں، اُڑتی ہے اب خاک،
جن کا پنتھ ہے تیاگ، لاد گئے وہ جوگی۔
12
آج نہ روئیں حُجروں میں، جوگی زار قطار،
ہائے وہ بے کل جوگی جن سے، مندر میں مہکار،
اب نہ سنکھ صدائیں ہیں نہ، کھلے ہیں بند دوار،
لاد گئے وہ بیراگی اور، مٹ گئے سب آثار،
سنیاسی کی یاد سے من میں، ہُوک اٹھے ہر بار،
پریت کا بندھن یار، باندھ کے لاد گئے ہیں۔
13
آج نہیں ان حُجروں میں، دھونی دھواں اور باٹی،
میرے من کو مست بناکر، لاد گئے بیراگی،
جن سے پریت ہے لاگی، وہ مجھ کو روتا چھوڑ گئے۔
14
ملن ہوا تو جی اٹھی میں، دور ہوا آزار،
دیکھا پورب پار، اندھی نے جوگی کے دم سے۔
15
ملن ہوا تو جی اُٹھی میں، جوگی میں ہے جان،
اُن سے ہوئی پہچان، جن سے جڑا تھا ناتہ۔
16
ملن ہوا تو جی اٹھی میں، دیکھے پورن جوگی،
من کی بند کلی تھی وہ، کھل کر پھول ہوئی۔
17
ان پر میرا حق تھا جب تک، جوگی تھے مہمان،
منکے، مورت، گیان، بھول نہ پاؤں ان کے۔
18
ان پر میرا! حق تھا جب تک ، یہاں تھے گنوان،
آسن اب ویران، دیکھ کے جیئرا روئے۔
وائي
جن کے کان میں چیر، لاد گئے بیراگی،
قبا کی دھج سے منوا لوٹیں، لوٹیں یار فقیر،
ان کے حلم کے سنکھ سے، گونج رہا ہے سریر۔
وائي
کیا کیا جوگی جگ میں، میری پریت ہے بیراگی سے،
پونجی پاس نہیں ہے، خالی دامن، کاسے،
دھول سے چن کر اناج وہ کھائیں، یا کھائیں دانیں کچے،
بیٹھی ہوں میں راہوں میں، گاتی ہوں گیت برہا کے،
بیراگی کو یاد کروں میں، ہاتھوں کو اپنے مل کے،
سکھیو مجھ برہن پر کیا کیا، احسان بیراگی کے،
کہے لطیف کہ بیراگی میں، کیا کیا گن ہیں دیکھے۔
نویں داستان
1
بھوک بھری ہے کاسوں میں، خوش ہیں جوگی یار،
طلب نہ ان کو طعام کی، پیاسے ہی سرشار،
کہے لطیف کہ خواہش کو، سمجھیں وہ آزار،
ویرانہ دشوار، گذر کے پہنچے بستی میں۔
2
گُدڑی ہے نہ چادر، لنگوٹ نہیں ذرا سا،
جدھر بھی قدم اُٹھایا، اپنا صاحب دیکھا۔
3
گُدڑی ہے نہ چادر، وہ لنگوٹ نہ باندھیں،
جس جانب بھی جائیں، دیکھیں اپنا صاحب۔
4
تن پر نہیں لنگوٹ، گُدڑی ہے نہ چادر،
جن کے ویراں چھپر، وہ ہی دیکھیں صاحب۔
5
نہ لنگوٹ نہ چادر ہے نہ، گُدڑی ہے تن پر،
وہیں پہ آگ جلائیں جوگی، جہاں ہو ویراں کھنڈر،
جبروتی وہ رہبر، سنکھ بجا کر لاد چلے۔
6
جوگی سوامی عشق کا، باندھے ہیں لنگوٹ،
جیسے آئے جگ میں، ویسے گئے وہ لوٹ،
ذرا نہیں ہے کھوٹ، کل ہوگی عظمت ظاہر۔
7
جیسی چاہ طعام کی، منزل کی ہو چاہ،
پاجائیں وہ راہ، دور ہوجائیں دُکھڑے۔
8
نیند سے اُٹھتے ہی جو جوگی، لیں طعام کا نام،
ان کی سماعت خام، وہ کیوں جوگی کہلائیں۔
9
جشن اوروں کا اور ہے، ان کو بھوک اور پیاس،
عید نہ آئے راس، سدا ہیں وہ روزے سے۔
10
کپڑوں اور طعام سے، جس جوگی کو چاہ،
پائے نہ وہ اللہ، دور ہے وصل کی منزل۔
11
گذشتہ سال کی باتیں نہ کر، ہوجا اب تیار،
آج تو مرجا یار! کل تو سب کو مرنا ہے۔
12
چلے ہیں دور سفر پہ، چھوڑ کے گنجو گام،
اپنے گُر کی راہ میں، فنا ہے جسم تمام،
کیا نہ انہوں نے راہ میں، بیٹھ کے ذرا آرام،
ملا ہے راہ میں رام، ختم ہوا کشٹ سفر کا۔
13
آنکھیں ہیں پرنم، سدا سے سنیاسیوں کی،
جاگ بِتائیں رین، بے کل یہ بیراگی۔
14
آدھی کھلی ہیں آنکھیں، امن حال، ان آدیسیوں کی،
کوئی رات ہی ہوگی ایسی، جو بیٹھ گذاری ہو۔
15
سوامی جو جانیں سنکھ بجانا، ہیں اب بھی ایسے،
گر سن سکے تو سوامی، وہ آج بھی سنکھ بجاتے ہیں۔
16
جوگی یار نفی کی، دھونی من میں رما،
لے آ اگنی عشق کی، تن من تو سُلگا،
یوں تو خود جلا کر، آگ ہوجائے پانی۔
17
کیسے رب کو بِسرائیں جو، جانیں موت اَٹل،
جائیں دور سفر کو سوامی، چین نہیں اک پل،
پایا جگ کا پھل، جاگ سے سدا ہیں اُجلے نیناں۔
18
جو ہے ہر جا حاضر ناظر، اس سے پریت نبھا،
جو نہ پریت نبھانا جانیں، ان سے جوڑ نہ رشتہ،
اس کو مت بِسرا، بن نرالا پریت میں۔
19
آنکھیں کرلے بند، کھول کے ڈھونڈ نہ سوامی،
شعلے جو ہیں عشق کے، تو ان کی سہہ لے جوگی،
لے گواہی دل کی، ہنگلاج کی جانب جائے گی۔
20
مندر میں جب جھانک کے دیکھا، آسن تھے ویراں،
جوگی تو جا میر سدھارے، دھونی، دھوپ کہاں۔
21
دیب بِنا مت ڈھونڈ اے جوگی، ڈھونڈنا ہے دشوار،
تب تک چھوڑ نہ حُجرہ جب تک، زندہ ہے وہ یار،
وہ چھوڑے جب سنسار، تب تو چھوڑنا تکیے۔
22
دیپ بِنا مت ڈھونڈ اے جوگی، ڈھونڈنا ہے دشوار،
جوگی لاکھ ہزار، اندھیارے میں بھٹک گئے ہیں۔
23
جس کو سمجھا دیپ ہے، وہ ہے سورج جوتی،
کیسے آنکھیں اندھی، دیکھیں چڑھتا سورج۔
24
واں تو ناتھ کو ڈھونڈ نہ پائیں، جہاں ہے اس کا ڈیرہ،
دور دیس میں بھٹک گئے ہیں، جن کو وہم نے گھیرا،
یہاں ہے ناتھ بسیرا، یونہی وہ ہنگلاج چلے ہیں۔
25
کچھ جوگی تو جان گئے ہیں، کہاں ہے ناتھ کا ڈیرہ،
دل میں یقینِ کامل ہے اور، دور لگائیں پھیرا،
یہاں بھی ناتھ بسیرا، انہوں نے تو ہنگلاج میں پایا۔
26
راہ سلوک کی چھوڑ نہ سوامی، تو یہ بات سمجھ لے،
جا تو تُو سکھ پائے، سنگ انکے جو لاد گئے ہیں۔
27
آرام سے ہیں جو راہ پے ہیں کیا خودداروں کو حاصل،
من لہ المولیٰ فلہ الکل، حاصل کر یہ منزل۔
28
فقیر ہیں یہ جھوٹے عاشق، صدا لگائِن سائل،
من عرف اللہ کل لسانہ، اس کے امین کامل،
نفی کی پائیں منزل، عدم میں ڈالیں ڈیرے۔
29
گذر گئی جو گذر رہی ہے، اس کو قبول نہ کرنا،
علیؓ کا جو میدان، وہاں سنیاسی کو سکھ ملا۔
30
علیؓ کے میدان میں وہ، دھول یہیں چھائی رہے،
دور سفر کا سن کر سب نے، ترک کیئے ہیں تکیے،
دیکر دنیا طعنے، ان کا کیا کر لیگی۔
31
کیوں تو رمائے دھونی رکھ لاہوت سے آگے گام،
غیر کا کیوں ڈھونڈے ہے سہارا، غیر سے کیا یہ کام،
اس کا دامن تھام، جن کا دنیا سے نہیں تعلق۔
32
توڑ دے سارے دھاگے، کیوں تو رمائے دھونی،
واذکر ربک فی نفسک، من میں جلالے اگنی،
جو یار سے آشنا جوگی! ان کو نفی ہے پیاری۔
33
بھڑکی اگنی بیراگی کی، بھیگ چلے جب رات،
آؤ تو ہم بھی چل کر سینکیں، اس اگنی پر ہاتھ،
جوگی ہے وہ ذات، جس کا تیر چبھا ہے دل میں۔
34
ہری کے رنگ میں رنگ گئے ہیں، مانگیں نہ پوشاک،
پھٹے پرانے بھیس میں خوش ہیں، لاہوتی عشاق۔
35
بھوک ہی ان کی بھیک ہے، دھول ہی اِن کا دھوپ،
دھاریں ایسا روپ، شرم آئے لوگوں کو۔
36
گُدڑی، سنکھ اور جنیو، یہ تین انہیں درکار،
سب نے اپنے اپنے کاسے، توڑ دیئے ہیں یار،
لاہوت سے جن کا پیار، وہ کبھی نہ نکلے مندر سے۔
37
بھاڑ میں جائے گدڑی، سنکھ بھی دے تو جلا،
جوگی پنتھ جو سچا ہے، نین ادھر کو جھکا،
ناداں ہیں یوں سمجھا، کہ سنکھ ہیں یہ شومت کے۔
38
اُٹھالے گدڑی پھینک دے چادر، گُدڑی مل نہ پائے،
جوگی سنگ سہاگ تو اے دل، جاکر آج رچالے،
کیسے وہ کہہ گئے، یہ سنکھ تو ہیں شو مت کے۔
39
گرو نےدی جو گُدڑی، وہ ہی میری شان،
لے آسن، کر دھیان، عجز سے اوڑھ کے گدڑی۔
40
گُرنے دی جو گدڑی اسے اتاروں تو لاج آئے،
کتنے سکھ گنوائے، چیلہ اپنے گرہ کے۔
41
گرو نے دی جو گدڑی، مجھے وہ بہت سہائے،
پریتم تک پہنچائے، اوڑھے گر تو عجز سے۔
42
جن کا باطن پھٹا پرانا، ظاہرمیں گلفام،
گدھوں کے ہیں وہ غلام،جگ میں ایسے جوگی۔
43
تن پر پھٹی پرانی گدڑی، باطن سارا ریشم،
جو ہے ان کا پریتم، اس کے ہیں وہ غلام۔
44
کثرت جان نہ دیکھ کے، طرح طرح کے پھول،
جوگی! یہ مت بھول، بس وہ ایک ہی ہے ہرجا۔
45
چھوڑ دیئے ہیں سنکھ، پھینک دیئے ہیں کاسے،
سارے دُھل کر پاک ہوئے، پھر کبھی ہوئے نہ میلے،
توڑ کے بندھن سارے، کُل سے مل کر کُل ہوئے۔
46
بھید پہیلی ان کی بولی، ایسی جوگی ذات،
دور ڈگر پہ چلیں سفر کو، کیسی مشکل بات،
یہ بھی عبادت، گر سمجھ سے کوئی انکو۔
47
جن کے کارن جوگ لیا جب، اس کو دیکھ نہ پائیں،
تڑپ کر رات بِتائیں، پی درشن کے پیاسے۔
48
نہ مسکائیں نہ کچھ کھائیں، نہ ہی بات کریں،
کون سے دھیان میں گم ہیں، جاننا بہت ہے مشکل۔
49
پوچھ پتہ جوگی کا، جاکر پاس آسن کے،
ناتے جو سب توڑے، پردے اٹھ جائیں گے۔
50
رات رِجھائیں رام، دِن کو کریں تو اَشنان،
ان کو جوگ ہے خام، جنہیں ہے کام مزوں کے۔
51
دیکھا کچھ لاریب، ڈر کر ہوگئے دور،
جوگی سمجھیں عیب، پوجا کے ہر اک آسن کو۔
52
نہ کاموں میں طعام ہے اور نہ تن پر گدڑی،
ان سے حاصل کی، میں نے بھی سرمستی۔
53
دل کو ڈھانپ لے گدڑی سے، ظاہری پہن نہ لباس،
کھالے شوالے میں، جوگی اپنا ماس،
تو تیری بو باس، پھیلے گی ہر سو۔
54
جس جا عرش نہ آسماں، نہ ہی زمین ذرا سی،
نہ تو ابھرے چاند وہاں، اور سورج کی نہیں جوتی،
کہے لطیف کہ اس منزل پر، پہنچے ہیں سنیاسی،
ناتھ نشانی دیکھی، دیکھا ناتھ نفی میں۔
وائي
جوگی زور آور ذات، جوگ من کو بھائے،
ان کی یاد ہے دل میں، دن ہو چاہے رات،
آئیں گے وہ ساجن، رات ڈھلے پربھات،
پل پل آدیسیوں کی، رہے ہے لب پر بات،
ملنے کارن کروں عبادت، بھیگ چلے جب رات،
شاہ لطیف کہے ہو یوں، داتا دے گا دات۔
وائي
راول رہے نہ رات، سکھی ری! راول رہے نہ رات،
کیا کرونگی ساجن بن، ہوگی جب پربھات،
بیراگی نہ میت کسی کے، ایسی جوگی ذات،
سنکھ نے من کو چیر دیا ہے، لاد گئے پربھات۔
سُر کاپائتی
پہلی داستان
1
تنہا سوت نہ کات، اگرچے تو ماہر ہے کاتار،
دیکھ لے اُلجھا تار، صراف کہیں نہ سُوت میں۔
2
تنہا کاتنے والیاں سب، پاتی ہیں دولت،
وہ تو تار نہ نکلے مجھ سے، جس کی ہو قیمت۔
3
پل پل بیتا جائے، سکھی ری، جتنا کاتے کات،
یوں تو سب ہی کاتیں لیکن، کسی کے سندر ہاتھ،
سمجھیں جو یہ بات، وہ چین سے بیٹھ نہ پائیں۔
4
پل پل بیتا جائے، اے گوری، جتنا کاتے کات،
کل آئے جب عید تو، تیرے خالی ہوں نہ ہاتھ،
روئے نہ ہیہات، کل سکھیوں کی جھرمٹ میں۔
5
یہ گھڑی تو بیت چلی، کر افسوس تو کل کا،
اُٹھ کر باتیں چرخے سے، بیٹھ کے تو نہ سستا،
دے نہ کل کو لوٹا، صراف برا سب سوت۔
6
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے، سہلاتی ہے انگ،
کل آئے گی عید تو ناداں، ہوگی ننگ دھڑنگ،
ہوگا روپ نہ رنگ، سب سکھیوں کی جھرمٹ میں۔
7
دھاگہ ڈال کے چرخے میں، تو کیوں نہ تو آج،
جائے شادی بیاہ میں تو خود کو خوب سجائے،
جو گھٹڑی سر پر اُٹھائے، وہ کیسے کام بسرائیں۔
8
آج بھی نینن نیند بھری ہے، اور نہ کاتا کل،
تجھ پر مہر کرے گا کب تک، تیرا وہ سہنل۔
9
آج بھی نینن نیند بھری ہے، اور نہ کاتا کل،
ٹوٹ گیا ہے چرخہ، ڈوری میں ہے بل،
وہ جو ہیں کاہل، انکو کاٹنے سے کیا حاصل۔
10
کاہل بن کے وقت گنوایا، کیا نہ کوئی کاج،
کل بھی کات نہ پائی سجنی، اور نہ کاتا آج،
کل آئے گی لاج، تجھ کو پی انگنا میں۔
11
عمر تو تیری ڈھل چکی ہے، پھر بھی کات تو تار،
چھوڑ کے دوجا کام لے اب ماہروں کی تو سہار،
جو ہیں ماہر کاتار، کل صراف بلائے سنگ انکے۔
12
کندن تیرے ہاتھ ہیں، کیوں نہ سوت تو کاتے،
تنہا بیٹھ کے کات اور تو ٹال مٹول بھلادے،
جب صراف بلائے، تو کرے تو سودا مسکاکے۔
13
ٹوٹا چرخہ کاتے جا تو، جب تک نیا نہ آئے،
کاہل بیٹھ کہ وقت گنوانا، تجھ کو کب یہ سہائے،
جانے کون چلائے، نیا نیا کل چرخہ۔
14
خود کو چاہے، وقت گنوانے، ہے تیز سجن کا غصہ،
ڈال چُنریا گردن میں تو، چرخہ آن چلا،
اچھا گر نہیں کاتا، پھر بھی مول ملے گا اچھا۔
15
کبھی نہ بھاگ کو ٹھکرائے، کانپتے کاتتی جا،
ہر پل اور ہر جا، کاتیں کاتنے والیاں۔
16
من میں رکھ کر میل، ستھرا سوت بھی کاتیں،
سوت پرکھنے والے، سوت کو ٹھکرا دیں۔
17
من میں رکھ کر پریت وہ چاہے، جیسا سوت بھی کاتیں،
تول بِنا دیں مول، کریں نہ ٹھکرانے کی باتیں۔
18
جانے کیسی لگن ہے من میں، کاتیں پل پل کانپیں،
سوچیں مول ملے گا اچھا!، چرخہ آن چلائیں،
سُوت پرکھنے والے ان کی، سندرتا کو ترسیں،
سُوت نہ وہ لوٹائیں، تول بنا ہی مول دیں۔
19
سُوت انہی کا ستھرا سکھیو! چھپ چھپ کر جو کاتیں،
چرخے کی آواز ہے ایسی، خود بھی سن نہ پائیں،
کہے لطیف کہ جگ سے چھپ کر، کاتیں پل پل کانپیں،
ہیرے بھی لوٹائیں، سوت بڑا انمول ہے انکا۔
20
دھیان سے دھنوا کر لے آئیں، پاؤ بھی گر کاتار،
کہے لطیف کہ ان کے ہاتھوں، نکلے سندر تار،
کاتیں ململ کے جو تار، انہوں نے کمایا سونا۔
21
کچھ تو کاتیں عرب میں، کاہل کچھ قندھار،
ستھرے سوت کے بدلے پائیں، ہیروں کا انبار،
ان کو مت دُھتکار، جن کا دھاگہ اُلجھ گیا ہے۔
22
پونی ڈال کے جھولی میں، در در صدا لگائے،
میں کاتنے والی کوئی، مجھ سے بھی کتوائے۔
23
گر ہے اصلی کاتنے والی، کبھی نہ ہو مغرور،
جو کاتا بے کار گیا اب، چرخہ چکنا چور،
کانپیں پی کے، حضور، جو ہیں کاتنے والیاں۔
24
خود کو چاہے غرور دکھائے، چھوڑ دکھانا آن،
جو کاتا بیکار جائیگا، سمجھ تو اے ناداں،
سودا کر گواں بیاں، کانپیں کاتیں سوت جو اعلیٰ۔
25
کہاں وہ کاتنے والیاں، چرخے ہیں ویران،
دھول دھری ہیں پونیاں، کہاں گئیں گنوان۔
26
آج گئیں کس اور، جو کات رہی تھیں کل،
ٹوٹی چرخے ڈور، جو کیئے در آسن کے۔
27
نہ وہ کاتنے والیاں، نہ وہ رُوئی کے کھیت،
روتی ہیں اب اکھیاں، دیکھ کے اُجڑے باٹ۔
28
جھولی میں بھر لائیں، کات کے سندر تار،
ان کا پلڑا بھاری ہے، جن کے من میں پیار،
کات کے سوت کے تار، من کو چین ملا ہے۔
29
ستھرا سُوت نہ کات سکیں، وہ لائیں اُلجھا دھاگہ،
ان کے سوت کو ستھرا جان کے، کب صراف نے تولا،
سوت اگر ہو تھوڑا، پھر بھی اس پر مہر پیا کی۔
30
کات رہی تھیں کل، آج ہیں وہ حیران،
جن کے سوت میں بل، وہ پیاری ہیں صراف کو۔
31
چلی ہیں چرخے اور، روئی سے بھر کر جھولی،
سوئی ہے سکھ چین سے، میری ہر ہم ہجولی۔
32
چرخہ دھر کر دھیان میں، کاتیں آدھی رات،
کاتیں پر میری پی کی مہر اور احسانات۔
33
پرکھا جب یہ سُوت، تو نکلے عیب ہزار،
اک اک کو تب پاس بلاکر، پوچھا دے کر پیار،
بے گن میں کاتار، اچھا سُوت نہ کاتا۔
وائي
کچھ تو سوچ بچار، اے ناداں، کچھ تو سوچ بچار،
دھیان سے دُھنوا کر تو بازی سوت تیار،
ان کے ہاتھوں نے تکی ہے، سندر سندر تار،
تیری پونی پنچھی لے گئے چرخہ گرد و غبار،
نینن نیند ہے، کیسے کاتے؟ تجھ کو نیند سے پیار،
کہے لطیف کہ رات ڈھلے تو، رو کر رجا تو یار۔
سُر پورب
پہلی داستان
1
چھو کر پیر پیا کے، کیجئیو یار سلام،
راہ میں بھول نہ جانا کاگا، میں جو دوں پیغام،
سائیں کی سوگند ہے، دھیرے لیجیو نام،
جو میں کروں کلام، یاد سے کہیو یار سے۔
2
سائیں کی سوگند ہے، کاگا رے اُڑ جا،
میں جو دوں پیغام پیا کو، سانس میں اس کو سما،
میرے پی کے سوا، اور سے تو مت کہیو۔
3
کاگا رے، لے آ، پریتم کا سندیس،
آن بتا کب آئیں گے، پریتم میرے دیس،
پیا گئے پردیس، ان کو پھر ملوا دے۔
4
کاگا، بیٹھ تو ڈالی پر، پی کا دے سندیس،
لاتا ہے سندیس تو سب کا خیر اندیش،
پیا گئے پردیس، ان کو پھر ملوا دے۔
5
میرے پیا ہیں آنے والے، کاگا اُڑ کر جا،
پریتم جو پردیس گئے ہیں، سنگ اُنہیں لے آ۔
6
میرے پی ہیں آنے والے، آن سُنا یہ بات،
گئے ہیں جو قلات، ان کو اُڑ کر لے آ۔
7
جا کر بسے جو دور، ان کو لے آ پاس،
جن کے کارن نیر بہاتے، نین ہوئے بے نور،
آن کے ایسی بات سنا، کہ سارے ہوں مسرور،
کردیں معاف قصور، اُڑ کر لا پریتم کو۔
8
پریتم ہیں پردیس میں، لے آ، ان کی خیر خبر،
پنکھ ترے سونا جڑواؤں، جھلمل ہر اک پر،
گھوم پیا کے گھر، دینا اسے سندیس تو میرا۔
9
آن کے بیٹھ تو ڈالی پر، دیس کے کہہ احوال،
کیسے تھے وہ ساجن میرے، دیس تو تھا خوشحال،
اب تو یہ ہے حال، تکتی ہوں پردیس کی جانب۔
10
آن اَٹریا بیٹھا کاگا، لایا ہے پیغام،
میں آنگن میں چرخہ کاتوں، وہ لے پی کا نام،
قوت طور آرام پیغام میرے ساجن، سن کر اس کی باتیں۔
11
سکھیو، آج اَٹریا پر سے، کاگ اُڑایا کس نے،
میٹھی بولی بول رہا تھا، آکر دیس پیا سے،
سکھیو زیادتی کی ہے، سنتی میں پیغام پیا کا۔
12
کاگا، دوں میں نکال کے، تجھ کو اپنا من،
چُن چُن من کو کھائیو، سجنا کے آنگن،
کہے وہ میرا ساجن، کوئی یوں قربان ہوا ہے۔
13
آن اَٹریا بیٹھا کاگا، بولا ایسے بول،
ہوک اُٹھی برہن کے من میں، سوت دیا سب رول،
چرخہ ڈانواں ڈول، کات نہ پائے برہن۔
14
آن اٹریا بیٹھا ہے، اور کرے منت کاگا،
لا کر آسن میں دنیا سے پریتم کا سندیسہ،
کہتا ہے جو کاگا، خاموش رہو تو سن پاؤں۔
15
آن اٹریا بیٹھا کاگا، کی کچھ ایسی بات،
آسن میں چھائی تاریکی، کات نہ پائیں ہاتھ،
سن کر اس کی بات، تڑپن لاگی برہن۔
16
آن تھا بیٹھا ٹہنی پر اور کاگا تھا کچھ بولا،
رات سلام بنے ساجن کے، تھا پاس سجن سے آیا،
روکو سکھیو چرخہ، تو سںوں کاگا جو کہتا ہے۔
17
آ بیٹھیں وہ پیڑوں پر، اور کاگا بولن لاگیں،
ڈالی ڈالی آج پیا کا، وہ سندیس سنائیں،
جھوٹ تو بول نہ پائیں، کاگا پریتم دیس کے۔
18
کاگا پریتم دیس کا، جھوٹ تو بول نہ پائے،
پریتم کا سندیس کبھی وہ، لے آئے لے جائے،
دل کا درد مٹائے، بول کے ڈالی ڈالی۔
19
اُڑ کر پی کے دیس سے آ اور بیٹھ تو ڈال،
پنکھ ہیں تیرے کستوری مہکے، مشک سے ہے تو نہال،
آکر بیٹھ میرے آنگن میں تو، کہہ پی کے احوال،
من کا یار ملال، دُھل جائے اک پل میں۔
20
کاگا لایا آج، پریتم کا سندیس،
آئیں گے وہ انگنا میں، پورے ہوں گے کاج،
لایا رب سرتاج، آس میری بھر آئی۔
21
کیسا روگ لگا ہے، کیوں ہے آج اداس،
پل کو دھوپ نہ سہہ سکتا تھا، آج آئی کیوں راس،
تجھ کو دیکھ اداس، کاگے کاں کاں بولیں۔
22
میرے اور پی کے رشتے کا، تو تھا یار وسیلہ،
پی تک نہ پہنچایا تو نے، جو سندیس دیا تھا،
راہ سے لوٹ کے آیا، اور وہاں سے ہی سندیسہ لایا۔
23
تو جو آن کے ڈال پہ بیٹھا، جھوم اُٹھا ہے جی،
ٹہنی ٹہنی ڈول کے تونے، بات پیا کی کی،
اُڑ، جا جہاں ہے پی، تو ساجن انگنا آئے۔
24
کاگا میری چٹھی تو، ساجن کو جا دے،
پریتم کیوں پردیس میں ہیں اتنے دن لگائے،
ساجن، من تڑپے، ہجر کا دکھ ہی دکھ ہے۔
25
جب سے پی پردیس گئے ہیں، اور بڑھی ہے چاہ،
میرے پی جس اور گئے، اس اور تکوں ہر نگاہ،
دیکھ رہی ہوں راہ، خوشی کا کوئی سندیسہ لے آئے۔
26
کاگا مجھ برہن پر، تیرے ہیں احسان،
صبح تو اُڑ جا پاس سجن کے، جو ہے میری جان،
منت کرنا پریتم کی، کہنا اے گنوان،
چھانا ایک جہان، تجھ سا اور نہ جگ میں۔
27
کاگا میرے ساجن کا، ڈال پر جھوم رہا،
لایا ہے سندیس پیا کا، ہنس ہنس کر ہے تھا دینا،
برہن کی بات پہنچائی سجن تک، کاگا ہے یہ ایسا،
ٹہل تو چشموں پر اے کاگا، تو پی کی نگری سے آیا ہے۔
28
کُتا ہو یا کاگا، آئےجو پریتم دیس سے،
قرباں ہو جا منوا، اس پر لاکھوں بار۔
29
کاگا کو قاصد نہ بنا جو، کھاتا ہے مُردار،
جس کو پیٹ کی فکر لگی ہو، جائے نہ پی کے دوار،
کاں کاں ہے گفتار، کیسے دے سندیس پیا کو۔
وائي
ناتہ ٹوٹ نہ پائے، جوگی سنگ ہے پریت کا ناتا،
چل تیرتھ ہنگلاج چلیں، جوگی نے فرمایا،
سکھیو، پورب پار مجھے، جوگی خود لے آیا،
جو ہے تیرتھ تکیا جانا ہے اس جا،
وہ جو تیرتھ تکیا ہے، سامی نے دکھلایا۔
دوسری داستان
1
سدا شوق سجن، میں پھرتی ہوں سرشار،
بنائے نشانہ یار شاید اپنی آنکھوں کا۔
2
مُسکاتے وہ نین سجن کے، کرتے ہیں سرشار،
اس کی ایک مسکان سے میرے، دور ہوئے آزار،
فاقوں سے کب، یار؟ ہجر سے ہیں ہلکان یہ سوامی۔
3
سانجھ بھئی تو جوگی کی، سنائی دی ہے سسکی،
محبت کی آگ میں جل کر، ہوتے ہیں دبلے جوگی۔
4
سکھ مانگے، سوامی کہلائے، کیے نہ کشٹ، جتن،
تھک کر تم تو بیٹھ گئے جب، دیکھی راہ کٹھن،
یوں تو جوگی نام ہے لیکن، کیے نہ گرو کے درشن،
جوگی، پریت کا بندھن، کبھی نہ ٹوٹے ساجن سے۔
5
سکھ مانگے سوامی کہلائے، تن کو دے آرام،
چھپ چھپ کر اور در در جاکر، مانگے بھیک طعام،
خواہش کا ہے غلام، کیا اسی لیئے ہیں کان چھدوائے۔
6
ویراں کرگئے آسن، بھیگ چلی جب رات،
سن نہ پائی سنیاسی کی، باتیں میں پربھات،
سنیاسی کی ذات، میت نہیں معذوروں کی۔
7
آج سویرے لاد گئے، ویراں کرگئے آسن،
مہکیں اِن کے تن من، کستوری خوشبو سے۔
8
لی ہے انہوں نے راہ، پورب کو ہیں چلے،
چھوڑ کے یہ سنسار، ڈھونڈ رہے جگ دوجا۔
9
من نے پورب پار میں، ڈھونڈا ہے ہر بار،
جوگی نے سندیس نہ بھیجا، دل سے دیا بسار،
پردیسی تھے یار، سنکھ بجا کر لاد گئے۔
10
کس سے کروں شکایت، پورب کی ہوں گھائل،
سارے جگ کو سمجھاتے میں، آپ ہوئی ہوں پاگل،
انکی پریت ہے ہر پل، جن جیسی میں ہو نہ پائی۔
11
پورب پورب تب کریں جب، پل پل یاد ہو پورب،
سکھیو، پریت کے مارے نیناں، روئیں ہر صبح ہر شب،
جس کا مشکل ملن اب، اس کی طلب میں جیئرا ترسے۔
وائي
کیسے رہینگے نین یہ میرے، جن کا وارث تو،
مالک نے تخلیق کیا ہے، یہ آکاش یہ بھوں،
تخلیق کیا جگ مالک نے کہہ کے کُن فیکوں،
جھوٹے جگ میں جیون ہے یوں، رین بسیرا جوں،
الف سہارا، احمد پی کی، میں تو داسی ہوں۔
سُر کارایل
پہلی داستان
1
بولی بول کے وحدت کی، دیکھو ہنس اُڑا،
اس مقام سے گذرا، جو کے پرندوں کی آزمائش کا۔
2
سب بگلوں کو چھوڑ کر، ہنس اُڑا آکاش،
تال وہ آیا راس، جس میں اس کا پریتم۔
3
نظروں میں گہرائی، دیکھ رہا ہے تال،
ان کا ہے شیدائی، جو موتی ہیں پاتال میں۔
4
موتیوں کارن کیوں نہیں جاتا، تو تال کے اندر،
کیا ہے کام کنارے پے، یہاں ہے کیوں بیٹھا۔
5
ہنس وہیں پہ تیرے، جہاں ہے گہرا تال،
کیچ میں ہیں خوشحال، اور طرح کے پنچھی۔
6
آج حضوری ہنس نے، ڈھونڈ لیا ہے تال،
دیکھے وہ پاتال، جہاں پہ موتی ہی موتی ہیں۔
7
کوے میلا کر گئے، تال کا پانی آج،
ہنس کو آئے لاج، آئے نہ میلے تال پر۔
8
کس کارن ہے حیراں، کاہے پھرے اداس،
چھوڑ دے دنیاداری، جھوٹ کا ہے یہ لباس،
جو میں ہم کے پھیر میں، جا نہ اس کے پاس،
ڈھونڈ رمز شناس، جو وصل کی راہ دکھلائیں۔
9
کیسی فکر لگائی تونے، کاہے پھرے اداس،
اُجلا اُجلا تال جہاں پہ، موتی ہیں الماس،
کیوں ساحل کے پاس، آج پھرے تو کیچ میں۔
10
کیسی فکر لگائی تونے، کیا ہے یار ملال،
بگلے بیٹھے ہیں ساحل پر، کیچ میں چونچیں ڈال،
کیچ میں ہوئے وہ نہال، مِلا ہے ہنس حبیب سے۔
11
اُجلے تال پہ اُجلے پنچھی، سارے اُڑ کر آئے،
کچھ نے پنکھ رنگے تو کچھ نے، چن چن موتی کھائے،
سب کو راہ دکھائے، مِلا ہے ہنس حبیب سے۔
12
کبھی جو دیکھے دھیان سے، ہنس کو تو ایک بار،
کرے نہ پھر تو پیار، کبھی کسی بگلے سے۔
13
کیوں بگلوں کے سنگ پھرے، کیسی ہے یہ عادت،
میلے تال کو بھول کے اُجلے، تال کی رکھ تو چاہت،
کل کو ہو نہ لت پت، کیچ میں بگلوں سنگ۔
14
پی کر اُجلے تال کا پانی، جا ساگر کے پار،
کیوں بیٹھا ہے تال کنارے، کیسا خوف ہے، یار،
جان وہاں پر وار، یہ بگلوں کا مرگھٹ ہے۔
15
یہ تو بگلوں کا مرگھٹ ہے، اُجلے تال کو جا،
اُجلے تال کا بھید کبھی مت، بگلوں کو بتلا،
پا کر لوٹ کے آ، بات نہ کر کسی سے۔
16
سوکھ کے تال ہوا ہے ویراں، لیکن ہنس نہ جائے،
بگلا بوجھ نہ پائے، تال اور ہنس کے بھید کو۔
17
کرتے ہیں سب یاد، اُڑ کر آجا ہنس،
جائے کہیں نہ پھنس، صیادوں کے جال میں۔
18
ہنس اکیلا تال میں، جال ہیں بیس پچاس،
مولا کی ہے آس، تیر رہا ہے لہروں میں۔
19
پنچھی اُڑ کر آئیں، دیکھ کے اُجلا تال،
دیکھ نہ پائیں جال، جو ڈالے صیاد نے۔
20
اک مصنوعی پنچھی دیکھو، دیتا ہے کیا دھوکے،
تن لکڑی کا، گھاس پھونس کے پنکھ بنے ہیں جس کے،
پنچھی دھوکہ کھا کے، آن پھنسے ہیں جال میں۔
21
جب موتی چن کر پیٹ ہو بھرتے، یہ ناتا نبھانا ہوگا،
موتی اس مہران سے پانچوں، اے ہنس تو چن لینا،
کل کو جال میں ہوگا، ہنس یہ بات سمجھ لے۔
22
کنول کھلا تالاب میں، بھنورا اُڑے آکاس،
مولا کی یہ مہر ہوئی کہ، دونوں آگئے پاس،
اس عشق کو شاباس، جس نے ملن کرایا دونوں کا۔
23
کنول کھلا تالاب میں، بھنورا اُڑا آکاس،
پریت کی ریت نرالی بھنورا، اڑ کر آیا پاس،
کبھی بجھے نہ پیاس، اک دوجے کے پیار سے۔
24
کیوں بیٹھا ہے تو ساحل پر، چھوڑ دے راہ گذار،
جا اب وحدت کی وادی میں، مت کر سوچ بچار،
حقیقت کی ہنسوں سے، جو شریعت کی گفتار،
من کو ہو عرفان حقیقت، سیکھ طریقت، یار،
من کو دھولے معرفت سے، من میں ہو مہکار،
موتی تال ہدایت سے، چن چن کر چہکار،
خوف ہو پھر کیا، یار ، ہنس تجھے کسی جال کا۔
25
جب سوئے جگ سارا، ہنس اُڑ اُڑ کر آئیں،
سارے مل کر تال سے، موتی چن چن کھائیں،
ان کو پھانس نہ پائیں، تال میں ہیں جو شکاری۔
26
وہ ہے ہنس حضوری، موتی چن چن کھائے،
مچھلی کے وہ پاس نہ بھٹکے، بھوک سے گو مرجائے،
پہچانا نہ جائے، چُھپا پھرے بگلوں میں۔
27
اُجلے اُجلے ہنس ہیں، میلا ہنس نہ کوئی،
مہک وہیں پہ ہوئی، جہاں پہ رات بِتائی۔
28
پنچھی طرح طرح کے آئیں، وہ ہی ہے تالاب،
گئے وہ میٹھا بولنے والے، جن کا نہیں جواب،
اب تو ہیں نایاب، اُڑ گئے سارے کینجھر کو۔
29
ہنس رہا نہ کوئی اب تو، مور بھی مرگئے سارے،
پنچھی طرح طرح کے اب ہیں، وطن کو گھیرے۔
30
تال کو میلا کرگئے ہیں، بگلے، کالے کوے،
اب تو ہنس بچارے، روٹھ چلے ہیں سب صحرا کو۔
وائي
میری سکھیو، میں بلوچ کی باندی ہوں،
کیچیوں کی کنیز ہوں، نات نام رکھوں،
وہ جو پہنیں پیروں میں، آنکھوں سے میں لگاؤں،
میری سکھیو میں، چشموں سے میں اُٹھاؤں۔
دوسری داستان
1
پنچھی پنجرہ ایک ہے، ہنس وہی، وہ تال،
اپنے آپ میں ڈوب کے دیکھا، ہم نے اپنا حال،
اپنے اندر جال، اپنا آپ شکاری۔
2
مور کے دیکھن کارن، چھانی کینجھر ساری،
مور تو لوٹ نہ آیا، جس کی چال نرالی،
جو تھے دل کے دلارے، چلے گئے ہیں ہنس وہ سارے۔
3
نربل جان نہ اِن کو، یہ ہیں بچے واسینگوں کے،
حملہ گر یہ کرے، تو ہاتھی ہل نہ پائے۔
4
نربل جان نہ اِن کو، جن کے سوکھے پیٹ،
کردیں ملیامیٹ، زہر سے بلوانوں کو۔
5
ان کا زہر ہے اصل، ہیں جن کے ریت میں بِل،
ڈنگ نہ خالی جائے صورت، ملائک جیسی جھلمل،
گر وہ جائے مل، تو جینے کی امید نہیں۔
6
جن کے ریت میں بِل ہیں ان کے زہر کا رنگ عجب،
ہڈی پر بھی پیر پڑے تو، موت کا بنے سبب،
دُور سے ہی دنیا پہچانے، ان کا یار، نسب،
کون ہے ایسا اب، جو لڑے اور کرے مقابلہ۔
7
مور بھی جن سے ڈر جاتے ہیں، ایسے کالے ناگ،
ذرا بھی کاٹے مور کو، سارے جائیں بھاگ،
دیکھ کے دہشت ناک، سب کو ساتھ لے جائیں۔
8
ایسے کالے ناگ کو، کوئی ذرا ہو ا گر چھیڑے،
کاٹ لے گر تو زہر، دم نے لینے دے،
یا تو وہیں مرجائے، یا پھر ترسیں صحت کو۔
9
ناگ، بھلا جوگی سے کیوں، ڈال رکھا ہے بیر،
کیسے ہم سے بچ نکلے گا، تیرے بِل پر پیر،
ان سے رکھ نہ بیر، جھونا گڑھ جو جلائیں۔
وائي
مور رے کیوں اِتراتا ہے، پلک جھپک کا کھیل ہے سارا،
جھوم جھوم کے گھوم گھوم کے، کیسا شور مچاتا ہے،
لپک جھپک، اور سر سر آہٹ، دیکھ وہ باز جھپٹتا ہے۔
سُر پربھاتی
پہلی داستان
1
گائک کی یہ ریت نہیں کہ، ساز کو کھونٹی ٹانگے،
ایسے سہانے صبح سے ہے سِر تو رکھے ہوئے،
کہے گا کوئی کیسے، تجھ بِن ریاض کے گائگ۔
2
کیسے سوئے آرام سے، صبح صبح نیر بہا،
کل یہ ساز تیرا، دھرا ہوگا دھول میں۔
3
سر کو رکھ کر ساز پر، سوئے ساری رات،
گائک گنوانوں کی، کیا تھی یہی صفات؟
4
گائک وہ کہلائیں جو، چین نہ پائیں پل بھر،
ڈھونڈیں راہ سراب میں، ساز دھرا کاندھوں پر۔
5
پھرے ہے آج اُداس، منگتے کل کہاں تھا،
کہے لطیف کہ چھوڑے منگتے، بھٹکتا یوں ہرجا،
سپڑ کے در آ، تو پائے جو ہے قیمتی۔
6
دور سفر بیمار ہے گائک، قاصد کہہ یہ وہاں پر،
دانا بھیج یہاں پر، وہاں پہ میں نہیں آؤنگا۔
7
دیتا ہے بے ہنروں کو، جو چھپا کے دانا دان،
جان لیں گر اس بات کو، گائک سب گنوان،
رہ جائیں حیران، توڑے ساز وہ سارے۔
8
ریاض سے کرلے بس، کرینگے ریاض کا کیا،
جو بھی بندہ کرتا ہے، وہ تو جرم ہے سارا،
تو پارس ہے داتا، چھو کر سونا کردے۔
9
اُٹھ اے بے گن، گائک، داتا آج بلائے،
راگ نہ جانے پھر بھی، پیا کے من کو بھائے،
مجھ سے مانگ تو منگتے، میں تمہارا ہوں۔
10
دات نہیں ہے ذات پر، جو ریاض کرے سو پائے،
بے گن یا گنوان سبھی کے، داتا ناز اُٹھائے،
رات وہاں رہ آئے، تو دور ہوں سارے دکھڑے۔
11
راگ نہ جانے، گن نہ کوئی، سوئے ساری رات،
سب سوئے تو راگ سنایا، چلا گیا پربھات،
اور نہ جانے بات، جانے ایک ہی راگ۔
12
راگ نہ جانے، گن نہ کوئی، سوئے لمبی تان،
ڈولی بھیج کے اُس داتا نے، کیے تھے کل احسان،
داتا مہربان، دیا مان، سید کہے۔
13
لسبیلےکا جام سخی ہے، مجھ پر مہر کریگا،
وہ ہے سب سمجھتا، جو منگتےکے من میں ہے۔
14
جان کے بن انجان، بے ہنروں کو آپ نوازے،
جو بھی خود کو بے گن جانیں، وہ ہی پائیں دان،
مہر کرے ہر آن، یہ در ہے بے ہنروں کا۔
15
بنَ بے گن اور اَنجان، سارا علم بھلا دے،
داتا سے کل رات تھا ملنا، گھوڑے، دوجا دان،
کرتا ہے احسان، بے گن بے ہنروں پر۔
16
رات ڈھلی تو سب نے پایا، ساجن سنگ سہاگ،
آدھی رات کو اٹھ کر سب نے، گایا راگ بہاگ،
میرے بس میں کیا ہے، ہے سجن کے ہاتھ سہاگ،
جاگیں میرے بھاگ، گر وصل نصیب ہو دکھیا کو۔
17
نیند کے ماتے نین ہیں، سوئے ساری رات،
کیوں نہ داتا دوار پہ گایا، رات ڈھلے پربھات،
رونجھے نے رات خزانے کھولے، تھی ہیروں کی بہتات،
ہیروں کی سوغات، پائی ہے سب منگتوں نے۔
18
داتا نے افسوس کیا تُو، سن اے مانگن ہار!
میرے دوار کو چھوڑ کے کیوں تو، ڈھونڈے اور دوار!
تیرے دکھ آزار، اسی لیے ہیں منگتے!
19
مانگ اسی سے منگتے!، پل پل دے جو دان،
جھوٹے در دنیا کے، ڈھونڈ نہ اے نادان،
کریں جو اک احسان، جتلائیں سو بار۔
20
پچھتا زور اے گائک، یہ داتا کا ہے در،
مت دہلیز سے ہونٹ اٹھا تو، رکھ دے اپنا سر،
کر لے تو باور، ریاض ہی تیرا رہبر ہے۔
21
سپڑ ہے سانس گائک کی، یہ تو مت بسرا،
آج تو چاندی کے تاروں سے، اپنا سازسجا،
کر منت اور گا، اس کے در پر جاکر۔
22
دیکھ کے بے گن میلے منگتے، داتا نے دی ہے صدا،
سن لی گنوانوں نے، بے گن کا وہ سہارا۔
23
تو داتا اور میں منگتا ہوں، صاحب تو، میں غلام،
ساز رکھا کاندھوں پر، سائیں، لے کر تیرا نام۔
24
تو داتا اور میں منگتا ہوں، کہاں ہیں مجھ میں گن،
ساز رکھا کاندھوں پر، سائیں، تیری صدا لی سن۔
25
تو داتا اور میں منگتا، میں جرم گناہ سراپا،
چُھو کر کندن کردے سائیں، تو پارس میں لوہا ۔
26
اور سبھی ہیں منگتے، بس اک داتا تو،
برکھا برسے کبھی کبھی، اور تو ہر پل ہر سو،
ڈال دے اپنا پلو، تو جاگیں بھاگ ابھاگن کے۔
27
ابھر صبح کا تارا، گا اب راگ بہاگ،
ہے حاسد وہ رکھوالا، جانے حال وہ سارا۔
وائي
در پر جا نہ اور کسی کے، یہاں مانگے جو تو ملیگا،
پھیر نہ منہ تو اس در سے، ہوگا کاج ہر پورا،
مانک، موتی، مال، خزانہ، لس کا سائیں دیگا،
چھوڑ کے سب تو سہہ سوائی، کو ہی سمجھ تو اپنا،
ان اللہ وتر یجب الوتر، اس باگ کو تھامے رکھنا،
خود ہی اپنی جانب سائیں، خود ہی ہے بلانا،
بلا کر آپ جوانوں کو، خود ہی قتل کروانا،
وہاں پر عاشقوں کو، الفت کا دکھایا رستہ،
کر دل سے ریاض تو سائیں، الفت کا تحفہ دیگا،
سارے بھید میں بتلائے، کوئی راز نہیں ہے رکھا،
کہے لطیف کہ مجھ پر وہ، کرے ہے مہر سدا۔
وائي
دیئے ہیں کیا کیا دان، سب کو اس نے نوازا،
کیا کیا اس کی دین ہے سائیں، کیا کیا ہیں احسان،
دیکھ اپاہج اندھے آئے، سب نے پایا مان،
کیا سے کیا کچھ کر دیتا ہے، اس کو تو پہچان،
عزت ذزلت وہ ہی دیوے، اس کا یہ فرمان،
دیکھ ذرا بنا ہے کیسے، نطفے سے انسان،
حرفت حریفوں کی، کی ہے ختم، تو جان،
اپنی آگ میں آپ جلیں وہ، حاسد وہ سب انسان،
کہے لطیف سب انکو چاہیں، ایسا ہے گنوان۔
سُر ڈاہر
پہلی داستان
1
اے ببول کر باتیں، جو ڈھورو کے مالک تھے،
کیسی تھیں وہ راتیں، اور کیسے دن تھے گذرتے۔
2
جو مہران کے مالک تھے تو، اُن کے کہہ احوال،
دیکھ کے تیرا حال، لگتا ہے دن مشکل گذرے۔
3
اے ببول کیا تیرے پاس سے، لاد گئے وہ پیارے،
سوکھ کے گر رہے ہیں اب، تیرے پتے سارے۔
4
تیرے من میں ہجر کے گھاؤ، ہوتے اگر ببول!
کبھی بہار نہ آتی تجھ پر، کبھی نہ آتے پھول!
5
تجھ کو گر یہ دکھ ہوتا کہ پریتم ہوگئے دور،
تیری ڈالی ڈالی پر پھر، کبھی نہ آتا بور۔
6
کیا تھی تیری عمر بتا جب، جل تھل تھا مہران،
تونے جسودن جیسا دیکھا، قاصد کوئی گنوان۔
7
سوکھی ندیا آک اُگے ہیں، اُڑتی ہے اب دھول،
سوکھا تال کمزور ہوئے جو، لیتے تھے محصول۔
8
ڈھاگی اور یہ ڈھورا، بہتے تھے بلیار میں،
تب اعلیٰ قسم کے گھوڑے، پاس تھے جسودن کے۔
9
سوکھ گیا مہران اور اب تو، اُگے ہیں آک کنارے،
آج کہاں پٹیہل میں ہیں، وہ پانی کے دھارے،
لوگوں کے اب میلے، ہوتے ہیں کہیں کہیں پر۔
10
دیکھی تھی ملاحوں نے جب، جوبن پر تھی ندیا،
آج اسے یوں سوکھا پا کر، لوٹ گئے ہیں کھویا،
حیرت میں ہیں میا!، اب جسودن جیسے۔
11
اے نہنگ! تو تب نہ لوٹا جب، اُچھل رہا تھا پانی،
گھاس اُگی ہے نہر میں، ہے کیوں اب آنے کا سوچا؟
سر سیراب سہے گا، جو مانجھی منجھ سے کرینگے۔
12
اے نہنگ! تو تب نہ لوٹا، ندیا تھی جل تھل،
اب تو تجھ کو پھاسیں گے یہ، مانجھی آج یا کل۔
13
جب ندیا تھی جوبن پر، تب تو لوٹ نہ آیا،
اب بھالے گاڑھے ہیں گھاتو میں، اور روک رکھا ہے رستہ۔
14
آج نہنگ! تو زور دکھا دے، ندیا ہے جل تھل،
آج جو موجیں بپھری سی ہیں، سوکھیں گی یہ کل۔
15
بھونک دیا ہے گلے میں میرے، یار نے ایسا کانٹا،
کبھی نہ پھر ہے سوچا، اسکو آن نکالے۔
16
بھونک گیا ہے پریت کا کانٹا، جب سے میرا یار،
درد کی ڈوری ڈالی لیکن، دیا نہ جان سے مار۔
وائي
میری خاطر پریتم نے ہے، خود کو خوب نکھارا،
اب ماں ماریگا ہجر، اسکا جو ہے پیارا،
مور، پپیہا، چال ہے ایسی، ایسا یار ہمارا،
کستوری ہی کستوری ہے، ساجن یار دُلارا،
ہر سو پھول ہی پھول کھلائے، مہکے پربت سارا۔
کہے لطیف کہ ملا دے وہ ساجن یار ہمارا۔
دوسری داستان
1
اے یثرب کے میر!، سن لے میری صدائیں،
جن کو تیری دھیر، پار اُنہیں پہنچا دے۔
2
اے یثرب کے مالک! سن لے میری صدا،
تیرے ہی ہے سہار، نہیں سوجھتا اور سہارا۔
3
اے یثرز کے دولہا، سن لے میری صدائیں،
محمدؐ مدد کو آ، میں عاصی آس لگائے۔
4
اے یثرب کے شاہ!، سن لے میری صدائیں،
آجا اب اللہ، جلدی سے اے ساجن!
5
اے یثرب کے شیر!، سن لے میری صدائیں،
انگنا میں رکھ پیر، عاصی تیرے سہارے۔
6
اے یثرب کے جام! سن لے میری آہیں،
تو منجدھار میں تھام، تیری امانت ہوں میں۔
7
چل یثرب کو منگتے!، آنکھوں کے بل چل،
دیکھ لےاحمدؐ پی کے، جگمگ نین کمل،
دیکھ تو ہو ٹھںڈک، سندرتا شیتل،
من میں پریت اٹل، پیار سے زیارت کرلے۔
8
ایسا بنے بہانا، کہ جاکر پی کو دیکھوں،
کبھی تو ہو واں جانا، بیٹھی ہوں راہ پر آس لیئے۔
9
راہ میں نین بچھا کر، تکتی ہوں ہر پل،
دور سے آتا دیکھوں، کبھی تو وہ سھنل۔
10
راہ میں نین بچھا کر، تکتی تھی میں کل،
دور سے آتا دیکھوں، قاصد تیرا سھنل!
11
راہ میں نین بچھاکر، تکتی ہوں میں آج،
پیاس بجھا نینن کی، آن کے اے سرتاج!
12
جن کی دید کو ترس رہی ہوں، آئے نہ وہ اسوار،
اشک بہائیں نہ آنکھیں، آئے جو ساجن یار۔
13
روتے روتے راہیں تکتے، اکھیاں لہولہان،
راضی ہو گنوان، تو سنگ لے جائے راستہ۔
14
تیری راہیں تکتے نیناں، خون کے اشک بہائیں،
درد مٹے گر لوٹ کے آئیں، وہ جو گئے یہاں سے۔
15
خون کے اشک بہائیں تیری، راہیں تکتے نیناں،
جو نہ جانیں درد یہ میرا، وہ ہیں درد کا درماں۔
16
من میں رکھ کر آس سکھی ری، آج سجاؤں آنگن،
کب سے ہے وہ جبل میں، شاید لوٹے ساجن۔
17
کب سے وہ ہے جبل میں، شاید لوٹ کے آئے،
بنی ہوں تیری باندی پریت نے، یہ دن بھی دکھلائے۔
18
جیسا تیرا نام، ایسا ہی تو سہارا ہے،
تیرے عفو کی حد نہ کوئی، تیری مہر مدام،
روح اور جسم تمام، تیرا نام جپے ہے۔
19
ہم نے دیکھے صاحب، تیرے، کیسے کیسے رنگ،
پات تو ڈوبیں تال میں سائیں، تیر رہے ہیں سنگ،
آئے، رہے کر سنگ، میلی ہی مان میں پاؤں۔
20
صاحب تیری صاحبی، کیسی عجیب ہے سائیں،
بڑی ہے ذات تیری، جو چاہے سو تو کرے ہے۔
21
بڑی ہے طاقت تیری، مہر بھرا ہے تو،
میں تو تیری ہوں، سدا رہے تیری رحمت۔
22
جیسا میٹھا ناؤں، ایسی تیری سہار،
دیکھے کیا کیا دوار، تجھ سا دوار نہ دیکھا۔
23
جیسا اونچا ناؤں، کرم بھی ایسا مانگوں،
تو ہی تو ہے آس سہارا، تو چھپر تو چھاؤں،
منہ سے میں کیا مانگوں، تجھے تو سب معلوم ہے۔
24
توڑ نہ مجھ نمانی سے، پریتم! پریت کا ناتہ،
تجھ بن مجھ برہن کا، کون ہے اور سہارا،
لب پر نام تمہارا، آس لگائے بیٹھی ہوں۔
25
ستر کر اے ستارا، میں ہوں عریاں ساری،
ڈھانپ ڈھانپن ہار، دیکر پلو پناہ کا۔
وائي
کل سے دشت و جبل میں، چھن گئی ہے نندیا،
پریت نے مجھ برہن کو، درد ہی درد دیا،
تجھ کو کیا معلوم کہ کیا ہے، ہجر کا دکھ اے میا،
ہر دم بڑھتا جائے، کیسا درد دیا،
کل سے آج ہے زیادہ جو، تونے درد دیا،
سب ہیں اپنے ساجن سنگ، طعنہ ہے مجھ کو ملا،
پھول انار کی مانند آنسو، روتا ہے جیئرا،
اللہ! شاہ لطیف کہے، ملا دے میرا پیا۔
تیسری داستان
1
کبھی تو آ اے یار!، مجھ برہن کے آنگن،
تیرا اُجلا دامن، ڈھانپے ہے مجھ برہن کو۔
2
جیسے تو ہے قائم دائم، رکھنا سدا سہاگن،
تجھ بن کون سنبھالے آکر، ٹوٹی کٹیا ساجن۔
3
بہت ہیں اوروں کے ساجن، پی کی اور ہی بات،
پی نے عیب چھپائے میرے، سر پر رکھ کر ہاتھ۔
4
بہت ہیں اوروں کے ساجن، پریتم میرا نرالا،
کیا کیا ستر کیا ہے پی نے، ہر اک عیب ہے ٹالا۔
5
سب کے ساجن سندر ہیں، صابر میرا ساجن،
جب بھی دیکھے عیب وہ میرا، ڈال دے اپنا دامن۔
6
بہت ہیں اوروں کے ساجن، پی کی اعلیٰ ذات،
آنکھوں دیکھے عیب تو، کرے نہ غیروں سے کوئی بات۔
7
پریتم سے منہ پھیر کے تو، غیر سے ہنس ہنس بولے،
دانوں کو چھوڑ کے ناداں! کیوں تو بُھوسا تولے۔
8
اُٹھ اے ناداں! جاگ کھول ذرا تو آنکھیں،
سلطانی سہاگ نیند سے کب ملتا ہے۔
9
آنکھ جھپک لے ناداں!، سدا نہیں یاں رہنا،
دور ہے تیری منزل، دو دن ہے یہ ٹھکانا۔
10
ان کو ہے شاباس، جو ہیں جاگتے رہتے،
کہے لطیف کہ جاگنے سے، زنگ سارا ہے اترے،
اُٹھ تو صبح سویرے، اے جوان کر تو کوشش۔
11
سونے سے کیا حاصل پیارے، کرلے پی کو یاد،
وقت جو نکلے ہاتھوں سے تو، پھر کیسی فریاد۔
12
ایسی چند ہی راتیں ہیں تو، جن میں ہے گھبراتا،
راتیں بہت سی آئینگی، تو جن میں ہوگا تنہا۔
13
کیا کیا دُکھڑے جھیلے، اس نندیا کے کارن،
نیند کے مارے نیناں تھے، چھوڑ گیا وہ ساجن۔
14
کیا کیا دُکھڑے جھیلے، اس نندیا کے کارن،
میں تو تان کے سوئی تھی، چھوڑ گیا وہ ساجن۔
15
بیتی رات اور پو پھوٹی، مدھم ہوگئے تارے،
اب تو تُو پچھتائے گی، چھوڑ گئے پیارے۔
16
قطرہ قطرہ ٹپکی ہے جو، اس کو جان نہ شبنم،
دیکھ کے دھرتی کے دکھیارے، رات ہوئے ہے پرنم۔
17
خیال رکھنا ساجن کا تو، سوئی ساری رات،
سمجھی تھی کہ سارا جیون، ساجن ہوں گے ساتھ۔
18
لپٹی ہوں ساجن کی بانہیں، بھیگ چلی ہو رات،
جگ سے چھپ کر پیار کریں اور، کبھی نہ ہو پربھات۔
19
ہنستے مکھ تو مرجھائے، بروں کو دیکھا ہنستے،
یہ وہ بھلا ہیں بیٹھے، کہ کیوں وہ جگ میں آئے۔
20
جھاگ تو دیکھی سب نے لیکن، دودھ کو چکھ نہ پائے،
دین کو دنیا کے بدلے وہ، یارو! بیچ کے آئے۔
وائي
یوں نہ کریگا سنگ میرے، میرے ہوئے پنہل،
اے ماں، میں کب سمجھی تھی، یوں بھٹکائے گا سہنل،
ہوتے کے وصل کی خاطر، میں تو مرتی ہوں پل پل،
ہوت پنہل کی پریت، بھٹکائے دشت و جبل،
تپتے دشت و جبل میں، اور لورس ہے جل،
ساون میں یوں ہرن ملا دے، تو رہی ہے چل،
کہے لطیف کہ مل جائے اے اللہ، میرا ہوت پنہل۔
چوتھی داستان
1
چلنے کی ہے بیلا شاید، یوں کونجیں کرلائیں،
گونج اُٹھا ہے پربت سارا، ایسا شور مچائیں۔
2
کونج کو جب بھی یاد آجائے، تال اور بچھڑی ڈار،
تب تب کُرلا کر کر دیتی ہے، سندیسا اس پار۔
3
بھول کے اپنی ڈار کو، کونج ہےکیسی شاد،
ڈار کا میٹھا کُرلانا، آئے نہ اس کو یاد۔
4
اُڑگئی تیری ڈار تو سن لے، کُرلانے کی گونج،
کیسے تیرا وقت کٹے گا، تال میں تنہا کونج!
5
انسانوں سے بڑھ کر دیکھو، کونجوں میں ہے پریت،
ڈار میں ہی وہ سدا اُڑیں، یہ ہی ان کی ریت۔
6
دانا چن چن کھاتی تھی وہ، اپنی ڈار کے ساتھ،
بیت گئی ہے رات، دیتے ان کو صدائیں۔
7
وطن تو تیرا کوہ ہے، قسمت لائی دور،
دانا پانی کھینچ کر لایا، کس کا کہیں قصور۔
8
ہم بھی پریت کے گھائل ہیں، کونج! نہ اب کُرلا،
کیسے گھر میں رہ پائے جب، پریتم بچھڑ گیا۔
9
زخم نہ پھر تو تازہ کر، کونج نو تُو کرلا،
یاد میں اپنے پیاروں کی مت، نینن نیر بہا۔
10
کونج نے کل کُرلا کر، یاد دلایا ساجن،
روتے جیون بیتے، جس ساجن کے کارن۔
11
کل سے اُتر کی جانب، کُرلاتی ہیں کونجیں،
صبح صبح کرلائیں، سپنے میں دیکھا ساجن۔
12
کونجیں پھر کرلائیں، ہیں چلنے کو تیار،
جس جا بچے چھوڑے ہیں، جائیں وہاں کرلاتے۔
13
آئی ہیں جوں آتی تھیں، سوچ کے تال وہی ہے،
سوکھ گیا تھا تائی، زخمی پنکھ اور پیر ہوئے۔
14
تیری یاد میں کرلاتی ہے، کونجوں کی اب ڈار،
تجھ کو یاد کریں سب اپنے، دن میں کئی کئی بار،
جال نے جاتے ڈار، جو صیاد نے سوچ رکھا ہے۔
15
آئی ہیں جوں آتی تھیں، سوچ کی تال وہ ہی ہے،
دیکھے نشان نہ پیروں کے، وہ سارے لاد گئے تھے۔
16
جو صیاد کے من میں ہے وہ، جان نہ پائیں بان،
بچھڑ گئیں سب کونجیں ایسا، کھینچا تیر کمان۔
17
دیکھ ذرا خاشاک کے نیچے، چھپا ہوا ہے جال،
کیا کیا پنچھی جال میں آئے، کونجیں ہوئی پامال۔
18
پہلو میں بندوق چھپائے، دھارا ہے بہروپ،
کیا کیا اُمرا مارے، اب روندے ہے کوہسار۔
19
تجھ کو آئے موت، شکاری، غرق ہوں یہ ہتھیار،
بچھڑ گئیں سب کونجیں کل، کیا ہے ایسا وار۔
20
آج بُڈامانی میداں میں، چُگنا دھیان سے دانا،
ٹولے صیادوں کے پہنچے، آنکھ نہ تم جھپکنا۔
21
یاد سے سنگھاروں کو دینا، ساتھی! یہ سندیس،
بیت رہے ہیں دن کاچھے میں، تنہائی، پردیس۔
22
سخی ہیں وہ سنگھار تو ان پر رشک نہ کر،
دیتے ہیں وہ سب کو، دودھ کٹورے بھر بھر۔
23
کیا وہ لاد گئے کاچھے کو، میرے سب سنگھار،
وہ بھی دکھیا ہیں اور میں بھی، روؤں زار و قطار۔
24
کاچھا سارا چیخ اُٹھا، کیا لاد گئے سنگھار،
اے ماں! گئے وہ اعلیٰ لوگ جب، برسا میگھ ملہار۔
25
پربت دیس ہے سنگھاروں کا، کاچھو اور کوہیار،
کیوں نہ ان کے سنگ گئی تو، لاد کے سارا بار۔
26
جن کے سہارے جیتی ہوں، سدا جیئیں سنگھار،
وقت برا جب آئے وہ ہی، آن کے پوچھیں یار۔
27
ریوڑ پالیں، الگ رہیں، ایسے نہیں سنگھار،
اک دن ہانک کے لے آئیں گے، ریوڑ رشتیدار،
طاقتور ہو سہار، پھر بھی بھول نہ سنگھاروں کو۔
28
دیکھ کر اُجڑے جھوک، اے ماں ری، جیئرا روئے،
سب کی پیاس بجھاتے تھے اور، تھی کوئی روک نہ ٹوک،
لاد گئے وہ لوگ، جب آئی ریت برکھا کی۔
29
کہاں ہیں گلے اونٹوں کے اب، جھوکیں ہیں ویران،
لاد گئے وہ چٹانوں کو، سارے گلہ بان۔
30
گر ہے سبزہ زار کی خواہش، تو جا سنگھاروں کے ساتھ،
نہ ہی کسی کی آہ سنے، نہ ہی دکھ کی بات۔
31
وہی بلونے کی آوازیں، جھوک ہیں کیسے سندر،
سب کی قسمت جاگی سب کو، دودھ وہی میسر۔
32
جسم سے پانی ٹپک رہا ہے، بھینسیں نہا کے آئیں،
ساون نے شاید بھینسوں پر، برساتیں برسائیں۔
33
روٹھے رائے سے جاڑیجے اور خود پر کیا ستم،
لوٹ کے کیسے کاچھے میں اب، رکھیں گے وہ قدم۔
34
سمہ اور جاڑیگا ہوجاؤ ہشیار،
لاکھو پُھلانی کی اب، تم پر ہے یلغار۔
35
بھول ہوئی رانے سے، کچھ کو چھوڑ گیا،
کچھ میں کوئی رہیگا، لاکھو ڈاکے ڈال رہا ہے۔
36
آج سجائیں گھوڑو ں کو اور، زین کسیں اسوار،
لاکھو کے ہیں سنگی شاید، لُوٹ کے ہیں آثار،
کرے گا پھر یلغار، اب کاچھے پر لاکھو۔
37
ختم ہوئے جب لاکھو، لاکھی، ختم ہوا جنجال،
قادر کا اب کرم ہوا اور، کچھ ہوا خوشحال،
ریباری ہیں نہال، رہ گئے ریباری اب وہاں پر۔
38
آج رجھالے لاکھو کو، کر تو عرض ریبارن،
تیری منت سے وہ بدلے، اپنی روش تیرا ساجن۔
39
رو کر ریبارن، باڑ میں لائی بچھڑے،
لوٹ کے چوپائے لے گیا، نینن نیر بہائے۔
40
کھڑی ہے باڑ کے پاس، روتی ہے ریبارن،
اعلیٰ تھیں جو بھینس، لوٹ کے لے گیا رہزن۔
41
روتی ہے ریبارن، پاس وہ اپنی باڑ،
لوٹ کے لے گئے چوپائے کہتے ہیں اسوار،
ہر سو ہے یلغار، لاکھو پُھلانی کی۔
42
روتی ہے ریبارن اب تو، اُجڑ گیا چوپال،
کھڑی کھنگھار کو طعنے دے تو، کیسا ہے رکھپال،
لوٹ گیا سب مال، وہ لاکھو ڈال کے ڈاکے۔
43
یوں تو لاکھو لاکھ ہوئے پر، اس کی اور ہی شان،
جس کے نام سے لرز رہے ہیں، زور آور سلطان،
کانپیں جاڑیجے سب آن، نیند میں بھی وہ ڈر کے مارے۔
44
یوں تو لاکھو لاکھ ہوئے پر، اس کے اور ہی ڈھنگ،
اوڈ رہے جب سنگ، تو ہوگئے بے ڈر اور نہال۔
45
چڑھا ہے لاکھو لکھی پر، ہے لکھی ران کے نیچے،
جو ہیں سندر ناریاں وہ، ان کی لاج رکھے،
قہر تو کوئی دیکھے، جو ڈھائے گا کل سب پر۔
46
اوڈوں نے جو باڑ بنائی، کبھی وہ ٹوٹ نہ پائے،
کریں حساب وہ لاکھو سے، ہیں انکے سنگ وہ بیٹھے۔
47
ہم دکھیارے اوڈ ہمارا، لاکھو ہے ننگپال،
وہ ہی دور کرے گا دُکھڑے، جیون کا جنجال۔
48
میں ہوں اوڈن بدصورت، پر عزت میں ہوں تیری،
ان کی لاج تو رکھنا جو ہیں جھگیاں ہم نے بنائیں۔
49
جھگیاں بنائیں اوڈوں نے، کب لادنے کا سوچا،
لیکن لاکھو اچانک ہی، ان پر آان کے کڑکا۔
50
بنائے گھر گھروندے وہ، اچانک لاد گئے،
اب تو ادھر اُدھر بکھرا، ان کا سارا سامان ہے۔
51
ٹوٹے چھاج ہیں ہاتھوں میں اور، کاندھوں پر کدالیں،
محنت مزدوری کی خاطر صبح صبح وہ آئیں،
آج وہ جاتے ہیں، اے لاکھا! اوڈ بیچارے۔
52
کبھی تو سرخ سہاگ کا جوڑا، کبھی ہے تن پہ کفن،
قلعہ ریت سے سجن، کیسے کوئی تعمیر کرے۔
وائي
چلنے کو ہیں سارے، کوئی نہ رہیگا اس جا، سکھیو،
اس دنیا میں رہ جائیں گے، یہ سب محل دو محلے،
کیا کیا شاہی چھوڑ گئے ہیں، یہ حکمران بیچارے،
کل نفس ذائقتہ الموت، سمجھ لے یار اشارے،
وہاں یہ آقا بخشائیں گے، جو عاصی ہیں وہ سارے،
کہے لطیف کہ وہاں پہ تو ہی، رکھنا ستر اے پیارے۔
سُر بلاول
پہلی داستان
1
مانی کی دعوت ہے داتا کی، کر لے تو مسواک،
تا کہ پلائے پاک، تجھ کو اپنے منہ سے۔
2
راضی وہ سلطان سے، شر کو دل سے نکال،
تاکہ ملے مال، روزانہ در سے داتا کے۔
3
پی نہ تو طہورہ، اس سے آگے جا،
وصل میں جو رکاوٹیں ہیں، وصل کا ہیں اجورہ،
وصل ہو سمہ کا سراک کوئی حاصل۔
4
کیا کیا ہیں سردار، تو سردار ہے سب کا،
تیرے در پر بھیڑ لگی ہے، لوگ کھڑے ہیں کیا کیا،
جیسا جس کا ہے کاسا، ویسا اس کو دان ملے ہے۔
5
توڑ دے طبل نغارے، اندر سے ہیں خالی،
جا نہ اور دوارے، بِن ہاشمی سردار کے۔
6
سمہ اُن کے پاس بلائے، جن سے ہو ناراض،
چلو تو اس کے در پر چل کر، پائیں ہم اعزاز،
وہ ہی ہے دمساز، کرے جو سر کا سودا۔
7
وہ ہی سر کا سوداگر ہے، بندھائے سب کی دھیر،
چاروں اور جب بیری دیکھے، جرائت کی تصویر،
مسکائےبل بیر، جہاں پہ لاکھوں بول نہ پائیں۔
8
آؤ تو اس کی عظمت گائیں، کبھی نہ جو گھبرائے،
لاکھوں بھی گر سامنے ہوں تو، قدم لرز نہ پائے،
اُٹھ گیا قدم اک بار تو پھر پیچھے وہ نہ ہٹائے،
ان کی دھیر بندھائے، جو پناہ میں آئی ہیں۔
9
ڈھونڈ لے اعلیٰ گھاٹ، گھاٹ گھاٹ مت گھوم،
راہو دیگا لاکھوں، سن لے لطیف کی بات،
رحمت اسکی ناداروں پر، دیکھ تو اسکی پاگ،
کرے گردن اٹھاکر بات، تو اترے زنگ دلوں کا۔
10
ہوا وہ نعرہ زن تو کانپا، لشکرِ اغیار،
لطیف کہے کہ ختم کیئے دکھ، اور عالم کا آزار،
جو آئیں پناہ میں یار، دیکھ تو کیسے سکھ سے ہیں۔
11
ہوا وہ نعرہ زن تو سارے، چیخ اُٹھے اغیار،
پیار سے ان کی جانب جائے، آئیں جو اس کے دوار،
ہاتھ اٹھا کر یار، ہوا سلطان کے آگے۔
12
آیا علاؤالدین تو گونجی، ہاتھی کی چنگھاڑ،
ڈھال اُٹھائی ابڑی نے اور، کوند گئی تلوار،
تلواروں کا تاؤ تو دیکھو سہا نہ جائے وار،
رب ھب لی امتی، کہتا تھا سردار،
لیا پناہ میں یار، خوش ہیں سب جو پناہ میں آئیں۔
13
آیا علاؤالدین تھا جب اور، آئے جب اغیار،
ابڑو بِن اور کون تھا ایسا، سر دیتا جو وار،
لیا پناہ میں سومیروں کو ذرا نہ جھجھکا یار،
سمہ تھا وہ سردار، مرا وہ مستورات کی خاطر۔
14
مستورات کی خوشی کی خاطر، کی ہے سام قبول،
دیں گی نہ محصول، جو اس کی پناہ میں آئیں۔
15
جو پناہ میں آئیں ان کو، اوروں نے دیا لوٹا،
کیسے وہ لوٹائے ان کو، وہ محافظ سب کا،
سر پر ہے لیتا، وار وہ ان کی خاطر۔
16
اور کہاں ہے محافظ جگ میں، سمہ سا سردار،
جو آئے تو خود کو بھلا کر، کرے اپنی جان نثار،
پناہ میں لینے والا جکھرا، سب کو اُتارے پار،
جو عاجز اور نادار، ان کا پوچھے ہر دم۔
17
سرداروں میں سمہ جام، پیڑ ہے سایہ دار،
جس جا کوئی پہنچ نہ پایا، اس جا پہنچا یار،
ایسی مہر کی برکھا ہے جوں، برسے میگھ ملہار،
آئے کوئی نادار، تو ان کو بخش دے گھوڑے۔
18
لاکھوں گن ہیں، کیا گنواؤں، سب کی وہ سندرتا،
سب کا ہے ان داتا، کسی کو نہ وہ ٹالے۔
19
سمہ پا بہ رکاب ہے، سب کو پاس بلائے،
پار وہی پہنچائے، صحرا دشت و جبل سے۔
وائي
مجھ میں عیب ہزار، میں ہوں طالب تیری،
کھیل کھیل میں عمر بتائی، جیون گئی میں ہار،
میرے سارے عیب تو جانے ڈھانپ لے، اے ستار،
امر کے آگے سربزانو، کون کرے انکار،
جو گذرے ہے وجود پر، تو جانے جانن ہار،
جیسے پھول گلاب کھلے ہوں، کھلے ہیں کھٹن ہار،
بے کل من میں بسی ہوئی ہے، آس مدینہ، یار۔
دوسری داستان
1
خالق نے خود خلق کیا، جکھرا ہے وہ جوان،
شیر کی مانند گرج رہا ہے، بڑا ہی ہے بلوان،
لہر لہر جوں بپھرا ساگر، موج چڑھے مہران،
مجھے گھوڑے پر گنوان، سب کو راہ دکھائے۔
2
سدا جیئے تو، جکھرا، بری سنوں نہ بات،
تیری اعلیٰ صفات ہے، تو ہے دل اور نین کی ٹھنڈک۔
3
سدا جیئے تو، جکھرا، بری سنوں نہ بات،
اعلیٰ تیری صفات، نااہلوں کو بھی نوازے۔
4
جکھرے جیسا جام، اور نہ کوئی جگ میں،
کوئی جان نہ پایا، اس کا کیا ہے مقام،
جس سے بنا وہ جام، مٹی تھی بس اتنی۔
5
بن جکھرے کے اور تو سارے، نام کے ہیں سردار،
جس طرح کا بنا تھا جکھرا، کون بنا ہے یار!
جس سے بنا دلدار، مٹی تھی بس اتنی۔
6
دیکھیں جادم جکھرے کو تو، اور نہ من کو بھائیں،
آنگن میں ہو چشمہء رحمت، کنواں کیوں کھدوائیں؟
7
دیر کرے نہ دینے میں، ایسا ہے وہ جام،
جو بھی پیاسا دوار پہ آئے، پلائے جام پہ جام،
کوئی تشنہ جام، جگ میں نہ رہ پائے۔
8
دینے میں وہ جادم جکھرا، کبھی نہ دیر کرے،
آؤ خوش آمدید کیسے، یہ ہی سدا ہے لب پر۔
9
رچا ہوا ہے رگ رگ میں، راہو کا پیغام،
بھولی اور سب کا نام، دیکھ کے جادم جکھرے کو۔
10
تیرے جود و سخا، اے راہو، جگ میں ہیں مشہور،
اُن کو تونے عزت بخشی، جو مفلس معذور،
پوچھے تو نہ، حضور، جو آئے سو پائے۔
11
جکھرے جیسا جگ میں، کون ہے اور جوان،
سب نبیوں کا راہ نما، اس کی اعلیٰ شان،
فکان قاب قوسین او ادنیٰ، پایا تھا وہ مقام،
اللہ کا احسان، کہ ملا ہے ایسا رہبر۔
12
سمہ سوائی کی ہے، سب سے اعلیٰ شان،
آقا کے دربار میں اس کو، اُمت کا ہی دھیان،
پایا سب نے مان، ہوگئیں معاف خطائیں۔
13
سمہ جیسا اور نہ کوئی، دیکھا سب سنسار،
اوروں کی اب پروا کیسی، جا داتا کے دربار،
کھولیگا وہ دوار، دیکھ کے حال وہ مہر کریگا۔
14
آس کا ایسا ساگر ہے، کہ جس کا نہیں کنارا،
جوں گنگا کا دھارا، کرتا ہے سیراب۔
15
اس سے مانگ کہ جس کی رحمت، جو گنگا کا جل،
تج دے حیلے، چھوڑ دوارے، جکھرے پاس تو چل،
قرب اللہ کا حاصل کر تو، پائے کرم کا پھل،
بھولے گا ہر مشکل، اور سکھ ہی سکھ پائے گا۔
16
روٹھے جب تو دے، من جائے تو دامن بھردے،
اس کا عجب چلن ہے، کہ دیتا ہے ہر حال میں۔
وائي
مجھ کو ہے سہارا، میرے ہوت حبیب کا،
ہانک کے اونٹ میں کب پہنچوں گی، دور ہے دیس تمہارا،
موڑ لے اونٹ مہار اے سائیں، لوٹ کے آ تو خدارا،
اس میں کوئی شک نہیں وہ شافع شفیع سہارا،
میر محمدؐ کے کارن سب کو، ملیگا دان میں چھٹکارا،
یہ کام ہیں اس کریم کے جس نے جوہر پاپی پار اتارا،
کہے لطیف ملائے اسکو، جو بول سکے نہ بچارا۔
تیسری داستان
1
آج ہوں سخت پریشان، گھیرے ہے شیطان،
مجھ اندھے اور علیل کو، زور دکھائے ہر آن،
تو ہی آکر مار دے اس کو، اے شاہِ مردان،
مجھ پر کر احسان، مار کے اس معلون کو۔
2
مار نہ تو مطیع کو، مجوسی کو مار،
بڑی جنگ نہ بسار، چھوٹی جنگ میں نفع نہیں ہے۔
3
چھوٹی جنگ میں نفع نہیں ہے، تو بڑی کو مت بسرا،
مجوسی کو مار، پھر کر جہادِ اکبر۔
4
چھوٹ جنگ تو سب کرتے ہیں، آکر تو جہادِ اکبر،
اس سے کر تو جنگ جو تیرے باطن میں ہے کافر،
کرکے یاد تو حیدر، مار تو اس بیری کو۔
5
جگ میں اور نہ سوجھے، اس جیسا سردار،
جیسے ساون برکھا برسے، رحمت ہے ہر بار،
حاتم لاکھ ہزار، کہاں برابر اس کے۔
6
تیرے جود و سخا سے، حاتم ہوگئے مات،
میروں سنگ بھلائی، تجھ بِن کون کرے۔
7
گر ہے من میں آس تو، جا تو اس جکھرے کے دوار،
صدا لگا نہ اور کہیں تو، کم نہ کر وقار،
خوش تھے منگنھار، جکھرے نے جنم لیا تھا۔
8
گر ہے کوئی خواہش تو تُو، دوجے دوار نہ جا،
میخیں ٹھونک کمیتوں کی، آکر تو اس جا،
بہت عراقی گھوڑے ہیں تو، بیشک کھول کے لیجا،
بڑا لحاف ہے سید کا، جسکو اوڑہیں منگتے۔
9
سمہ سخاوت کی یوں، پوچھے طور طریقے،
بلا کے کنگالوں کو، وہ روز دلاسے دے،
روز وہ مہرے کرے، داتا کنگالوں پے۔
10
کیوں نہ جھکے جکھرے کے آگے، جس نے دس لیئے خوشحال،
جن کے عریاں انگ تھے، وہ اوڑھے ہیں شال،
کیا ہے خوشحال، سمےنے ناداروں کو۔
11
سدا جیئے شہزور، جیتی ہوں جن کے سہارے،
خشک نہ ہو وہ چشمہء رحمت، ہیں پیاسے جہاں سے پیتے،
ہو ہر پل تم مسکرائے، تجھ جو دیکھ کے خوش ہے جیتا۔
12
پیاس بجھی آتے ہی میری ہوگئی دور تھکن،
پھوٹ پڑا صحرا میں چشمہ، کٹ گئی راہ کٹھن۔
13
تو چھپر ہے، چھاؤں تو، ستر ہے تو ستار،
اس جگ میں بھی تیرا سہارا، وہاں بھی تیری سہار،
جو دکھیا آئیں دوار، وہ محصول نہیں رہتیں۔
14
جوں مضبوط شہتیرن ہو چھت کا، یوں مضبوط سہارا،
پل کو بھی نہ بھلائے انکو، جن کا کوئی نہ چارا،
جام ہی ہے وہ دلارا، جو پوچھے عاجزوں کو۔
15
سنا تھا جس کا نام، دیکھ لیا آنکھوں سے،
دیکھا جب وہ جام، تو دل نے دی گواہی۔
16
جام کو دیکھ کے کھل اُٹھے، سارے مانگن ہار،
سب کو ہے طہور پلائی، ہوگئے سب سرشار،
ہوا اب وصلِ یار، دور ہوئے دکھ فرقت کے۔
17
جوش میں آکر آج کرے گا، سونے کی برسات،
بہادروں کو نوازے، سب کے بھوگ مٹائیگا۔
وائي
جب تھا پیر دھرا، الومیاں، جب تھا پیر دھرا،
علی شیر کے نعرے سے تھا، کفر کو کاٹ گرا،
آنگن میں جب آئے تو، ہر رستہ مہکا،
جہاں سے گذرا نبی ہمارا تھا روشن ہر رستا،
ختم ہوگئے دکھ، سکھ ہی سکھ ہے، آئے آپ پیا،
تجھ بن لطف لطیف پر، کریگا کون بھلا۔
چوتھی داستان
1
کوئی نہ اس کو روک سکا، پھر سے وگند ہے آیا،
پیر کے پاس ہے پایا، روٹی، کپڑا اور ٹھکانا۔
2
پھر سے وگند ہے آیا، سب منگتوں کے بعد،
شاید اس کی جورو نے، کیا اسے برباد،
کرتا ہے فریاد، کہ رہوں گا میں پیر کے قدموں میں۔
3
دل میں ہے امید کہ اس جا، ملے گا صبح کا کھانا،
چھوڑیگا نہ جا، اسے آتی ہے بو بہار کی۔
4
آس لگائے بیٹھا ہے کہ، ملے گا صبح کا کھانا،
شوق ہے اس کو کھانو کا گو، جسم نحیف ہے اسکا۔
5
پھر سے وگند ہے آیا، پھیل گئی بدبو،
مالک دے خوشبو، تو میں بھی لگوں مہکنے۔
6
پھر سے وگند ہے آیا، نری ہے اس کی صورت،
چھوڑے نہیں وہ موزے اسکی، عطر فروش سے نسبت۔
7
داتا کے دروازے پر، دیکھ وگند ہے بیٹھا،
روگ ہے اس کو لاگا، پاس تو پہنچ اسکے۔
8
داتا کے دروازے پر، دیکھ وگند ہے بیٹھا،
جیسے سودا بیچ رہا ہو، ہاٹ پہ کوئی بنیا،
اس در سے ہے گذرا، جہاں پر کفر نہ کر پائے۔
9
بیٹھا ہے دروازے پر، دیکھ وگند بے چارا،
لید اٹھائے عطر کی خاطر، عطر ہے اس کو پیارا۔
10
پھر سے وگند ہے آیا، جس کی دوزخ ہی ہے قسمت،
پھول بنے جب ڈالے اس پر، سید نظر عنایت،
خوشبو کی ہے حاجت، رچا رہے خوشبو میں۔
11
پھر سے وگند ہے آیا، پڑھے نہ کبھی نماز،
ایسے جھپٹے خوشبو پر، جیسے تیتر پر باز۔
12
پھر سے وگند ہے آیا، جس کے برے ہیں سب اعمال،
کرڑ کی لکڑی ہے تو مار، ہوجائے یہ نڈھال۔
13
برا بنا ہے بیلی، وُرو ہے چلا گیا آج،
جو ہے پیٹ پجاری وہ، سید کی اور ہے آیا۔
وائي
ڈھانپیں گے نہیں چھوڑینگے، شفیع شافع سائیں،
جو ہیں اندھے اور اپاہج، سب سے نباھ کرینگے،
آپ ہی سب کے درماں ہونگے، سب کو دوا وہ دینگے،
گنہگاروں کو مشکل سے، ساجن خود لیجائینگے،
مولا مان جائے گا جب، منت آپ کرینگے،
دوزخیوں کو داتا، آگ سے بچا لائینگے،
مشکل وقت پہ پہنچ کر، اور مشک سے چمکا دینگے،
رحمتہ العالمین مشکل میں، رہنما ہونگے،
وہاں پہ عبداللطیف کا، ہاتھ وہ تھام لینگے۔